اپریل۲۰۲۲

فہرست مضامین

درود و سلام، سنت ِ اسلام

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | اپریل۲۰۲۲ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

درود [کے] الفاظ میں چند اہم نکات ہیں، جنھیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے:

اوّلاً، ان سب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ ’مجھ پر درود بھیجنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے دُعا کرو کہ اے خدا، تو محمدؐ پر درود بھیج‘۔  نادان لوگ جنھیں معنی کا شعور نہیں ہے، اس پر فوراً یہ اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ یہ تو عجیب بات ہوئی، اللہ تعالیٰ تو ہم سے فرمارہا ہے کہ تم میرے نبیؐ پر درود بھیجو، مگر ہم اُلٹا اللہ سے کہتے ہیں کہ تُو درود بھیج۔ حالانکہ دراصل اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایاہے کہ تم مجھ پر ’صلوٰۃ‘ کا حق ادا کرنا چاہو بھی تو نہیں کرسکتے۔ اس لیے اللہ ہی سے دُعا کرو کہ وہ مجھ پر صلوٰۃ فرمائے۔ ظاہر بات ہے کہ ہم حضورؐ کے مراتب بلند نہیں کرسکتے،اللہ ہی بلند کرسکتا ہے۔ ہم حضورؐ کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتے، اللہ ہی ان کا اجر دے سکتا ہے۔ ہم حضورؐ کے رفعِ ذکر کے لیے اور آپ کے دین کو فروغ دینے کے لیےخواہ کتنی ہی کوشش کریں، اللہ کے فضل اور اس کی توفیق و تائید کے بغیر اُس میں کوئی کامیابی نہیں ہوسکتی، حتیٰ کہ حضوؐر کی محبت و عقیدت بھی ہمارے دل میں اللہ ہی کی مدد سے جاگزیں ہوسکتی ہے۔ ورنہ شیطان نہ معلوم کتنے وساوس دل میں ڈال کر ہمیں آپؐ سے منحرف کرسکتا ہے، اعاذنا اللہ من ذٰلک۔لہٰذا ،حضورؐ پر صلوٰۃ کا حق ادا کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ اللہ سے آپؐ پر صلوٰۃ کی دُعا کی جائے۔ جو شخص اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّد کہتا ہے، وہ گویا اللہ کے حضور اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ خدایا، تیرے نبیؐ پر صلوٰۃ کا جو حق ہے اسے ادا کرنا میرے بس میں نہیں ہے، تو ہی میری طرف سے اس کو ادا کر اور مجھ سے اس کے ادا کرنے میں جو خدمت چاہے لے لے۔

ثانیاً، حضوؐر کی شانِ کرم نے یہ گوارا نہ فرمایا کہ تنہا اپنی ہی ذات کو اس دُعا کے لیے مخصوص فرما لیں، بلکہ اپنے ساتھ اپنی آل اور اَزواج اور ذُریت کو بھی آپؐ نے شامل کرلیا۔ اَزواج اور ذُریت کے معنی تو ظاہر ہیں۔ رہا ’آل‘ کا لفظ، تو وہ محض حضوؐر کے خاندان والوں کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس میں وہ سب لوگ آجاتے ہیں جو آپؐ کے پیرو ہوں اور آپؐ کے طریقے پرچلیں۔

عربی لُغت کی رُو سے ’آل‘ اور ’اہل‘ میں فرق یہ ہے کہ کسی شخص کی ’آل‘ وہ سب لوگ سمجھے جاتے ہیں، جو اس کے ساتھی، مددگار اور متّبع ہوں، خواہ وہ اس کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں، اور کسی شخص کے ’اہل‘ وہ سب لوگ کہے جاتے ہیں، جو اس کے رشتہ دار ہوں، خواہ وہ اس کے ساتھی اور متبّع ہوں یا نہ ہوں۔قرآنِ مجید میں ۱۴ مقامات پر ’آلِ فرعون‘ کا لفظ استعمال ہواہے اور ان میں سے کسی جگہ بھی ’آل‘ سے مراد محض فرعون کے خاندان والے نہیں ہیں، بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو حضرت موسٰی کے مقابلے میں اس کے ساتھی تھے۔پس،آلِ محمدؐ سے ہروہ شخص خارج ہے جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر نہ ہو، خواہ وہ خاندانِ رسالتؐ ہی کا ایک فرد ہو، اوراس میں ہروہ شخص داخل ہےجو حضورؐ کے نقش قدم پر چلتا ہو، خواہ وہ حضوؐر سے کوئی دُور کا بھی نسبی تعلق نہ رکھتا ہو۔ البتہ خاندانِ رسالت کے وہ افراد بدرجۂ اولیٰ آلِ محمدؐ ہیں جو آپؐ سے نسبی تعلق بھی رکھتے ہیں اور آپؐ کے پیروبھی ہیں۔

ثالثاً، ہر درود جو حضوؐ ر نے سکھایا ہے، اس میں یہ بات ضرور شامل ہے کہ ’آپؐ پر ویسی ہی مہربانی فرمائی جائے، جیسی ابراہیمؑ اور آلِ ابراہیمؑ پرفرمائی گئی ہے‘۔ اس مضمون کو سمجھنے میں لوگوں کو بڑی مشکل پیش آئی ہے۔ میرے نزدیک صحیح تاویل یہ ہے (والعلم عنداللہ) کہ اللہ تعالیٰ نےحضرت ابراہیمؑ پر ایک خاص کرم فرمایا ہے جو آج تک کسی پر نہیں فرمایا، اور وہ یہ ہے کہ تمام وہ انسان جو نبوت اور وحی اور کتاب کو ماخذ ِ ہدایت مانتے ہیں، وہ حضرت ابراہیم ؑ کی پیشوائی پر متفق ہیں، خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی یا یہودی۔ لہٰذا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاؑ کے پیرووں کا مرجع بنایا ہے، اسی طرح مجھے بھی بنادے۔

یہ امر کہ حضوؐر پر درود بھیجنا سنت ِ اسلام ہے، جب آپؐ کا نام آئے اس کا پڑھنا مستحب ہے، اور خصوصاً نماز میں اس کا پڑھنا مسنون ہے، اس پر تمام اہلِ علم کا اتفاق ہے۔ اس امر پر بھی اجماع ہے کہ عمر میں ایک مرتبہ حضوؐر پر درود بھیجنا فرض ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں اس کا حکم دیا ہے۔ (تفہیم القرآن، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۸، عدد۱، اپریل ۱۹۶۲ء، ص ۲۴-۲۵)