واحد بشیر


ہم ۳۰دسمبر ۲۰۲۴ء کو ڈھاکہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اُترے تو سب سے پہلے جس جنّتی روح کا تذکرہ ہوا، وہ عبدالمالک شہیدؒ تھے۔ ’اسلامی چھاترو شبر‘ کے امور خارجہ کے سیکریٹری ہمیں ائیرپورٹ پر لینے آئے تھے۔ باہر نکلتے ہی شہید عبدالمالک کا تذکرہ چھڑ گیا، اور بنگال کی سرزمین پر اسلام کے فداکاروں کے قافلۂ سخت جان کی ساری قربانیاں چمک اُٹھیں۔

’افسو‘ (IIFSO) کی مرکزی ٹیم کے ساتھ’ اسلامی چھاترو شبر‘ کے سالانہ اجتماع ارکان میں شرکت کے احساس سے ہی دل ایک عجیب کیفیت سے سرشار تھا۔ ’اسلامی چھاترو شبر‘ بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اور منظم طلبہ تحریک ہے۔ سابق وزیراعظم حسینہ واجد کی ۱۵سالہ ظالمانہ حکمرانی کے اختتام پر، ملک کی یہ سب سے بڑی طلبہ تنظیم پہلی بار کھلے میدان میں اپنا اجتماع ارکان منعقد کررہی تھی، جس میں کارکردگی کے جائزے اور تربیتی و فکری پروگراموں کے ساتھ تنظیم کے نئے مرکزی صدر (ناظم اعلیٰ) کا انتخاب بھی ہونا تھا۔ اجتماع ۳۱ دسمبر ۲۰۲۴ء کو منعقد ہونے جارہا تھا۔ ہم ائیرپورٹ سے نکل کر پرانے ڈھاکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ یہاں پر دسمبر کی ہوا میں سردی کا کوئی احساس نہیں تھا۔ ڈھاکہ بڑی گنجان آبادی والا شہر ہے، اور یہاں ٹریفک کے بڑے گمبھیر مسائل ہیں۔ سڑکوں پر لوگوں اور ٹریفک کا رش ایک جیسا ہے۔

میزبانوں نے ہمیں پرانے ڈھاکہ کے ایک ہوٹل میں ٹھیرایا۔ اس دن اگرچہ کوئی پروگرام نہیں تھا، لیکن ڈھاکہ یونی ورسٹی سے متصل تاریخی ریس کورس گراؤنڈ میں شبر کے اہتمام سے بنگلہ دیش میں پہلا سب سے بڑا ’سائنس فیسٹیول‘ اختتام پذیر ہورہا تھا۔ شام کو شبر کے دوست بیرونِ ملک سے آنے والے مندوبین کو فیسٹیول میں لے گئے۔ ’ابن الہیثم سائنس فیسٹیول‘ میں شام کے وقت بھی طلبہ کی ایک بڑی تعداد آرہی تھی۔ خوب صورت انداز میں ترتیب دی گئی اس سائنسی نمائش کو کئی دلچسپ حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس میں طلبہ نے اپنے بنائے سائنسی پروجیکٹوں کے نمائشی مقابلے میں حصہ لیا۔ قرآن اور سائنس کے حوالے سے مسلم سائنس دانوں، علمی شخصیات اور فلسفیوں کے کام کو اجاگر کرنے والا ایک حصہ بھی نمائش میں شامل تھا۔ جدید سائنسی ایجادات اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI)کے حوالے سے معلومات سے بھرپور ایک حصہ نمائش میں شامل تھا۔ مختلف کمروں سے گزرنے کے بعد شرکاء آخری کمرے میں اسلامی چھاترو شبر کے تعارف پر مبنی، خوب صورتی سے سجائے گئے ایک کمرے سے گزرتے تھے۔ اس کمرے میں ایک قدِ آدم اسکرین لگی ہوئی تھی، جہاں شبر کے کام سے اتفاق کرنے والے طلبہ، تنظیم میں شمولیت کا فارم بھر سکتے تھے۔ اس دلچسپ دورے کے بعد ہم واپس ہوٹل آئے۔

ہوٹل میں اسلامی چھاترو شبر کے ناظم اعلیٰ منظور الاسلام ہم سے ملنے آئے۔ چہرے پر سجی مسکراہٹ، سادگی، محبت کا پیکر اور ملک کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم کے سربراہ سے ملنا ایک خوش گوار تجربہ تھا۔ ہم براہ راست کوئی بات نہیں کرپائے، شبر کے ساتھی نے ترجمانی کی ذمہ داری انجام دی۔ اسلامی چھاترو شبر کے مرکزی نظام پر ایک مختصر سی گفتگو ہوئی۔

اگلے روز ۳۱ دسمبر ۲۰۲۴ء کو اسلامی چھاترو شبر کا اجتماع ارکان، ۱۵ سال کے طویل وقفے کے بعد پہلی بار، ڈھاکہ کے تاریخی ریس کورس گراؤنڈ میں منعقد ہورہا تھا۔ ملک بھر سے آئے ہوئے تقریباً سات ہزار ارکان کے علاوہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی مرکزی قیادت، دیگر دینی و سیاسی تنظیموں کے سربراہان اور حالیہ طلبہ انقلاب میں مرکزی کردار ادا کرنے والے طلبہ رہنما بھی موجود تھے۔

’اسلامی چھاترو شبر‘ کا سالانہ اجتماع ارکان جوش و ولولے کے ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی مانند تھا۔ شبر کے ناظم اعلیٰ کی ولولہ انگیز تقریر سے اجتماع کا آغاز ہوا۔ چھاترو شبر کے سابق قائدین کی تقاریر، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر اور قیم جماعت نے بھی خطاب کیا۔ مختلف دینی، سیاسی تنظیموں کے قائدین کے ساتھ حالیہ طلبہ انقلاب کے رہنماؤں، بیرون ملک سے آنے والے طلبہ مندوبین کی تقاریر اجتماع ارکان کے پہلے حصے میں پیش ہوئیں۔ تقاریر کے دوران اسلامی چھاترو شبر کے ارکان کا جوش اور نظم و ضبط دیدنی تھا۔

ان تقاریر میں ایک منفرد تقریر، جماعت اسلامی کے ایک مقامی ذمہ دار کی تھی، جن کا بیٹا حالیہ طلبہ تحریک میں شہید ہوا تھا۔ اس تقریر کے دوران کوئی آنکھ نم ہوئے بغیر نہ رہ سکی، اور تقریر کا اہم حصہ تو وہ تھا جب شہید کے والد نے حسینہ واجد کے آمرانہ دور کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ ’’میرے بیٹے کی شہادت بنگلہ دیش میں اسلامی نظامِ حیات کے قیام کے لیے ہوئی ہے، اور بنگلہ دیش کی سرزمین کسی بھی صورت میں اسلام دشمنی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، چاہے اس کے لیے کتنے ہی بیٹوں کا لہو درکار ہو‘‘۔

ظہر اور ظہرانے کے بعد اجتماع ارکان کا دوسرا سیشن منعقد ہوا جس میں اسلامی چھاترو شبر کے ناظم اعلیٰ کا انتخاب اور نتیجے کا اعلان ہوا۔ سال ۲۰۲۵ء کی میقات کے لیے ارکان نے زاہد الاسلام کو ناظم اعلیٰ منتخب کیا۔ ان کی حلف برداری کا نظارہ بڑا رقت انگیز اور ایمان افروز تھا، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اسلامی تحریکات میں کوئی بھی عہدہ اپنے ساتھ ایک بھاری احساسِ ذمہ داری اور آخرت میں بازپُرس کا احساس دلاتا ہے، اور اسی لیے اسلامی تحریکات میں عہدہ ملنے پر خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا۔ زاہدالاسلام پچھلی میقات میں شبر کے سیکریٹری جنرل کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کے بعد، اب وہ بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کررہے ہیں۔   نرم طبیعت کے حامل زاہد بھائی کے چہرے سے ذہانت مترشح ہے، ان شاء اللہ۔ وہ سخت ترین حالات کا کامیابی سے مقابلہ کرنے والی طلبہ تنظیم کو آزاد فضا میں نئی بلندیوں تک لے جائیں گے، اور بنگلہ دیش کی تعمیر و ترقی میں ’اسلامی چھاترو شبر‘ کے ارکان کی بہترین رہنمائی اور قیادت کریں گے۔

اسی روز، شام کے وقت جماعت اسلامی ڈھاکہ سٹی (شمالی) کے ذمہ داران نے غیرملکی مندوبین کے لیے عشائیے کا اہتمام کیا تھا۔ جماعت اسلامی نے ڈھاکہ شہر کو جنوبی اور شمالی، دو تنظیمی اکائیوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس خصوصی نشست میں جماعت اسلامی کے دعوتی اور سماجی کام کے بارے میں واقفیت حاصل ہوئی۔ ڈھاکہ جیسے بڑے شہرمیں جماعت اسلامی کی دعوتی و سماجی سرگرمیاں کافی دلچسپ ہیں۔ جماعت اسلامی دعوتی پروگرام کے ذریعے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے میں سرگرمِ عمل ہے۔ خدمت خلق کے ذریعے رضائے الہٰی کا حصول، عوام سے رابطہ، اور اس ضمن میں نئے تجربات کے حوالے سے ڈھاکہ شہر کی جماعت سے معاصر دینی تحریکات کے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔

ڈھاکہ ایک بہت بڑا شہر ہے، اور اس طرح کے شہروں میں گھریلو سروسز کا حصول ایک مشکل عمل ہے۔ پچھلے چھ سال استنبول میں رہ کر ہم نے جس چیز میں لوگوں کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے دیکھا، وہ قابل اعتماد اور مناسب گھریلو سروسز ہیں۔ جماعت اسلامی ڈھاکہ نے ۲۰۱۹ء سے ایک متبادل دعوتی پروگرام کے تحت اس حوالے سے ایک منظم پروگرام کا آغاز کیا ہے، جو اعداد و شمار کے مطابق ایک کامیاب تجربہ رہا ہے۔ اس تجربے کے بارے میں دنیائے عرب، جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے اسلامی تحریکات کے قائدین مزید تفصیلات جاننے کے لیے سوالات کررہے تھے۔ شاید اسی منظم دعوتی پروگرام، اور جماعت اسلامی ڈھاکہ کی باصلاحیت قیادت کا نتیجہ ہے کہ صرف ڈھاکہ شہر (شمالی) ضلع میں جماعت اسلامی کے گیارہ ہزار ارکان ہیں، جن میں پانچ ہزار خواتین ارکان شامل ہیں۔ ارکان کے علاوہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب کارکنان اور ۲۵لاکھ ہمدردان صرف شہر کے ایک حصے میں جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہیں۔

یہ اعداد و شمار سن کر اگلے روز ہم نے ڈھاکہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر اور حالیہ انقلاب میں طلبہ قیادت سے ملاقات کی، اور عام طلبہ سے بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ ملائشیا اور انڈیا سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے ایک استاد سے میں نے بنگلہ دیش کی تازہ صورتِ حال کے بارے میں بات کی، اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب انھوں نے جماعت اسلامی کے حوالے سے کافی مثبت رائے کا اظہار کیا، حالانکہ وہ بی این پی کے حامی تھے۔ اسی طرح عام طلبہ سے بات کرتے ہوئے بھی بنگلہ دیشی سیاست میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا وزن محسوس ہوتا ہے۔ عوام میں اس مقبولیت کی وجہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی دعوتی و سماجی خدمات کے میدان میں منظم جدوجہد ہے۔

اگلے روز اسلامی چھاترو شبر اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مراکز کا دورہ اور مرکزی قیادتوں سے ملاقات کا پروگرام تھا۔ صبح سویرے پرانا پلٹن ڈھاکہ میں اسلامی چھاترو شبر کے مرکز پر پہنچے۔ شبر کا مرکزی دفتر پندرہ سال تک مقفل رہا ہے۔ اس تمام مدت میں چوبیس گھنٹے پولیس ناکہ اس دفتر کی نگرانی کرتا رہا ہے۔ پندرہ سال تک بند رہنے کے باوجود دفتر کی موجودہ حالت کو دیکھ کر بے پناہ مسرت ہوئی۔ اگرچہ دفتر کی عمارت بڑی نہیں ہے، اور عمارت کی وسعت بھی کم ہے، لیکن کام کے حوالے سے یہ چھوٹا سا دفتر اپنے اندر ایک دنیا سموئے ہوئے ہے، اور اسلامی تحریک کے ساتھ وابستہ لاکھوں نوجوانوں کی امیدوں کا مرکز ہے۔

اسلامی چھاترو شبر کے نئے سیکریٹری جنرل نے مہمانوں کا استقبال کیا۔ اسلامی چھاترو شبر کے مرکزی نظام کے تحت۱۶ سیکریٹریز مرکز میں ناظم اعلیٰ اور سیکریٹری جنرل کی معاونت کرتے ہیں۔ نشست میں سبھی شعبوں کے ذمہ داران موجود تھے، جنھوں نے اپنے شخصی تعارف کے علاوہ اپنے شعبہ جات کا مختصر تعارف بھی کروایا۔ شعبہ ادب کے ناظم کے مطابق اس وقت اسلامی چھاترو شبر چودہ رسائل کی اشاعت کررہی ہے، جن میں سے ہر رسالے کے مخاطب مختلف قارئین ہیں۔ ان رسائل میں ایک رسالے کی تعدادِ اشاعت ماہانہ ایک لاکھ ہے۔ میڈیا کا شعبہ دو ادارے چلاتا ہے، جہاں میڈیا کی پروفیشنل تربیت فراہم کی جاتی ہے، اور میڈیا کے شعبے میں پوسٹ گریجویشن پروفیشنل ڈپلوما بھی کروایا جاتا ہے۔ ملک بھر میں سو کے قریب آرٹ کے مراکز اسلامی چھاترو شبر کے زیرانتظام کام کر رہے ہیں۔ بزنس اسٹڈیز کے لیے ایک الگ سیکرٹری ہے، جس کا کام صرف اس شعبے میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے اندر دعوتی و فکری کام کی نگرانی ہے۔ اس شعبے کے تحت ششماہی مجلّہ شائع ہوتا ہے، جو اسلامی اور معاصر معاشیات کے حوالے سے تحقیقی مقالوں کی اشاعت کرتا ہے۔ ملک بھر میں ۴۰ ہزار کتب خانے موجود ہیں، جن کی نگرانی مرکزی سطح کے ایک سیکرٹری کے ذمے ہے۔ انسانی وسائل کی بہترین تربیت و تنظیم کے حوالے سے مرکزی سطح کا ایک شعبہ قائم ہے۔ عالمی سطح پر ’گلوبل وارمنگ‘ اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے جن ممالک کو فوری خطرہ درپیش ہے، بنگلہ دیش ان میں سے ایک ملک ہے۔ اسلامی چھاترو شبر کا مرکزی سطح پر اس شعبے کے حوالے سے مختلف نوعیت کی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے ایک سیکرٹری موجود ہے۔

اسلامی چھاترو شبر کا یونٹ سطح سے لے کر مرکزی سطح تک کا نظام انتہائی منظم ہے۔ اس طلبہ تنظیم کے مثبت کام کو عام طلبہ بھی سراہتے ہیں۔ حالیہ دورے کے دوران ایک بنگالی صحافی سے گفتگو کا موقع ملا، جو اس وقت ایک غیرملکی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں۔ ان کے بقول بنگلہ دیشی معاشرے میں جس شعبے میں بھی کسی باصلاحیت نوجوان کی ضرورت پڑ جائے، اسلامی چھاترو شبر کے تربیت یافتہ افراد ایک بہترین انتخاب ہیں۔

اسلامی چھاترو شبر کے جتنے بھی ذمہ داران اور ارکان سے ملنے اور باہم گفتگو کا موقع ملا، دوچیزوں نے بہت زیادہ متاثر کیا: تقریباً سبھی افراد کو فکری اور نظریاتی طور پر بہت ہی پختہ پایا، اور سب کی اسلامی تحریک کے ساتھ وابستگی کا جذبہ قابلِ تقلید بھی ہے اور قابلِ رشک بھی۔ لیکن دوسری جس چیز نے بہت زیادہ متاثر کیا وہ ان نوجوانوں کا تعلیمی کیرئر اور پیشہ ورانہ میدان میں کامیابی ہے۔ مرکزی ذمہ داران اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، اور اپنی صلاحیتوں سے تنظیم کے کام کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے میں تقابلی طور پر، میرے مشاہدے کے مطابق، بہت آگے ہیں۔ برصغیر، عرب دنیا، ترکی اور یورپ میں اسلامی تحریکات کے ساتھ کام کرنے والی طلبہ تنظیموں کے لیے اسلامی چھاترو شبر کے کام میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ۱۵ سال تک عتاب کا شکار رہنے کے باوجود اس تنظیم کی جڑیں اکھڑنے کے بجائے مزید گہری ہوئی ہیں، اور بنگلہ دیشی طلبہ کو متاثر کرنے، اور اسلامی بنیادوں پر ان کی فکری و عملی تربیت کرنے میں یہ تنظیم سب سے نمایاں اور ممتاز ہے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اس تنظیم سے فارغ ہونے والے افراد، ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔

اسی دن ظہرانے پر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی مرکزی قیادت کے ساتھ جماعت کے مرکزی دفتر میں ملاقات طے تھی۔ ڈھاکہ کے پرانے علاقے میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مرکزی دفتر کی عمارت جس گلی میں واقع ہے، اس کے سامنے سے گزرنے والی سڑک پر روزنامہ سنگرام کا دفتر ہے۔ عمارت پر سنگرام کا بورڈ لگا ہوا دیکھا تو سرزمین بنگال میں جماعت اسلامی کے ممتاز قائد خرم مرادؒ کی کتاب لمحات  ذہن میں آئی۔ ڈھاکہ میں جماعت اسلامی کی دعوت کو مضبوط کرنے، اور سنگرام کے قیام و اشاعت میں ان کی کوششوں کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ محترم خرم مرادؒ نے ڈھاکہ میں جس پودے کو خونِ جگر سے سینچا ہے، وہ اسلام دشمنوں کے شرپسند عزائم کے باوجود ایک تناور درخت کی صورت میں کھڑا لہلہا رہا ہے۔ اسلامی چھاترو شبر کے مرکزی دفتر کی طرح جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا مرکزی دفتر بھی گذشتہ ۱۵ سال سے مقفل تھا، اور حسینہ واجد کے آمرانہ دور میں گذشتہ ایک عشرے سے زائد عرصے کے دوران جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر ناقابلِ بیان ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ لیکن جماعت اسلامی صبر و استقامت کا ایک پہاڑ ثابت ہوئی۔ اس تنظیم کے وابستگان نے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کردی۔ عوامی لیگ کے سیاہ دورِ اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی جماعت پر قدغنیں ختم ہوئیں اور اس نے بنگلہ دیش میں لاکھوں لوگوں کے اجتماعات منعقد کیے، اور بنگلہ دیش میں بھرپور واپسی کی۔

جماعت کی نشست میں امیر و قیم جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ جماعت کے دیگر مرکزی ذمہ داران کو سننے کا موقع ملا۔ امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر شفیق الرحمان نے شرکاء کے تعارف کے فوراََ بعد ہر خطے کے طلبہ قائدین سے وہاں کی اسلامی تحریکات کے بارے میں مختصر سوالات کرکے بنیادی واقفیت حاصل کی۔ امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے بنگلہ دیش کی تازہ صورتِ حال کے بارے میں بیرونی مندوبین کو آگاہ کیا، اور ان کے سوالات کے جوابات دیئے۔

بنگلہ دیش کا حالیہ انقلاب نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ جنوبی ایشیا کے پورے خطے میں نئی امیدوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش ملک کی تیسری بڑی سیاسی و دینی قوت ہے۔ ماضی میں جماعت اسلامی ملک کی دو دیگر بڑی سیاسی جماعتوں عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)کے ساتھ حکومت سازی میں شامل رہی ہے۔ تاہم،عوامی لیگ نے بیرونی شہہ اور مدد سے حکومت پر قبضہ جمایا اور بنگلہ دیش میں حزبِ اختلاف کو دھونس اور دباؤ سے کچلنے کا جو ظالمانہ کھیل کھیلا، الحمدللہ وہ عمل گذشتہ سال کی طلبہ تحریک کے نتیجے میں کیفرِ کردار کو پہنچ چکا ہے۔ حسینہ واجد کا ملک چھوڑ کر بھاگ جانا، اور انڈیا میں پناہ لے کر چھپ جانا، عوامی حلقوں میں عوامی لیگ کے خلاف غصے کو مزید ہوا دینے کا سبب بن گیا ہے۔

ڈھاکہ یونی ورسٹی کے اطراف میں، تاریخی کرزن ہال کی دیواریں، ڈھاکہ ریس کورس گراؤنڈ، جو سرزمین بنگال میں تاریخ ساز لمحوں کا شاہد میدان ہے، اور ڈھاکہ کی مشہور شاہرائیں اس انقلاب کی گواہی پیش کررہی ہیں جس کے لیے طالب علموں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ظلم و زیادتی، رائے عامہ کی آواز کو دبانے، اور عوامی حقوق پر ڈاکا ڈالنے والی طاقتوں کے خلاف نعرے ہر دیوار پر نظر آرہے ہیں، اور ہر طرف اس عوامی انقلاب کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ڈھاکہ شہر میں یاد گاری مقامات اور دیواروں پر شیخ مجیب کے مجسمے اور تصاویر یا تو ہٹائی جاچکی ہیں، یا ہٹائے نہ جانے والے مجسموں اور تصاویر کی شکل کو بگاڑ دیا گیا ہے، حتیٰ کہ ائیر پورٹ سے باہر آنے والی ایک ذیلی سڑک، جوائیر پورٹ کو عام شاہراہ سے ملاتی ہے، بنگلہ دیش کی پاکستان سے الگ ہونے والے واقعات اور شخصیات کی تصاویر کی یادگار پر مبنی ہے۔ یہاں سے باہر آکر ہماری نظروں نے جو پہلا منظر دیکھا، وہ اس یادگاری دیوار پر شیخ مجیب کی تصویر کے سر والے حصے کو مٹانے کی صورت میں دیکھنے والوں کو عبرت کا درس دیتا ہے۔ گویا انقلاب کی گونج ہرطرف سنائی دیتی ہے۔

بلاشبہ اس انقلاب کے پیچھے حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف لوگوں میں موجود عدم اطمینان اور غم و غصہ تھا اور یہ کسی ایک خاص سیاسی تنظیم کی کوششوں کے نتیجے میں آنے والا انقلاب نہیں ہے، بلکہ اس انقلاب کے پیچھے بنگلہ دیشی طلبہ کا احتجاج اور ان کی حمایت و پشت پناہی کرنے والے عوام ہیں۔ عوام کی ہمدردیاں بلاشبہ سیاسی طور پر بی این پی اور جماعت اسلامی کے ساتھ ہیں۔

جماعت ایک طویل عرصے تک عتاب کی شکار رہی ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی پہلی صف کی ساری قیادت شہید کردی گئی ہے، اور موجودہ قیادت کو جھوٹے مقدموں کے ذریعے آئے روز تنگ کیا جاتا تھا۔ اس انقلاب نے جماعت اسلامی کے لیے عوام کے ساتھ رابطے کا راستہ کھول دیا ہے، اور تنظیم کو ایک فطری ماحول میں پنپنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ عوامی لیگ کا سیاست کے منظرنامے سے باہر ہوجانے کے ساتھ ہی جماعت اسلامی ملک کی دوسری بڑی تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی مرکزی قیادت کے بقول حالات ابھی قومی انتخابات کے لیے سازگار نہیں ہیں، اور وہ عبوری حکومت کو مزید کچھ عرصہ تک حکومت میں دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ انتخابات کے لیے ماحول سازگار ہو۔ اسی طرح ایک دوسرا اہم مسئلہ بیرونی مداخلت ہے۔ بنگلہ دیش کی سیاست میں بیرونی طاقتوں کا اپنے مفادات کے لیے مداخلت کرنا سب کو دکھائی دے رہا ہے۔ نئے انقلاب کے بعد عوام اور عوام دوست سیاست پر یقین رکھنے والے لوگ اس بیرونی مداخلت سے بہت نالاں ہیں، اور وہ اس چیز کے مستقل حل کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ظاہر ہے جماعت اسلامی بنگلہ دیش اس سلسلے میں چھوٹی بڑی سبھی سیاسی تنظیموں میں ہراوّل دستے کا کام انجام دے رہی ہے۔ اسی لیے اندرونی اور بیرونی سطح، ہر دو محاذ پر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو بڑے چیلنج درپیش ہیں۔

بنگلہ دیش میں کامیاب عوامی تحریک کے بعد ایک نئی سیاسی تنظیم کے وجود میں آنے کی باتیں بھی کی جاتی ہیں۔ عوامی اور خاص حلقوں میں اس حوالے سے ایک بحث چھڑی ہوئی ہے، اور شاید ملک میں عام انتخابات کا عمل شروع ہونے سے پہلے ایک نئی سیاسی تنظیم وجود میں آجائے۔ اس تنظیم کو قائم کرنے والے طلبہ تحریک کے قائدین ہی ہوسکتے ہیں۔ عوامی سطح پر اس خیال کو سراہا جارہا ہے اور دانش ور حلقے بھی اس خیال کی تائید کررہے ہیں۔ اگر یہ سیاسی تنظیم وجود میں آتی ہے، اور عام انتخابات میں کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل کرتی ہے، تو یہ بنگلہ دیش میں جمہوری نظام کے عمل کو مزید مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

اس دورے میں ایک اہم تجربہ پروفیسر غلام اعظمؒ کے مرقد کی زیارت تھی۔ پروفیسر غلام اعظمؒ بنگلہ دیش کی دینی و سیاسی تحریک کے قدآور لیڈر تھے۔ اپنے زمانۂ طالب علمی سے ہی بڑے سرگرم رہنے والے اعظم صاحب کی تربیت ایک دینی گھرانے میں ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے وہ پہلے تبلیغی جماعت کے ساتھ شامل رہے، اور بعد میں جماعت اسلامی پاکستان اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائدین میں شمار ہوئے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو عوامی سطح پر متعارف کرانے میں ان کا کردار سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ ساری زندگی اپنے لوگوں کی بہتری کے لیے جدوجہد کرنے والے اس قائد کو حسینہ واجد نے انتہائی پیرانہ سالی میں قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا، اور اس مردمجاہد نے بڑی استقامت کے ساتھ اس آزمائش کا مقابلہ کیا۔ ۳؍اکتوبر۲۰۱۴ء کو ۹۱سال کی عمر میں جیل میں ہی اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ڈھاکہ کی بیت المکرم مسجد میں ان کے جنازے میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے شمولیت کی۔ اپنے گھر کے نزدیک ایک چھوٹے سے قبرستان میں پروفیسر غلام اعظم آسودئہ خاک ہیں۔ مسجد سے متصل اس آبائی قبرستان میں ان کے مرقد کی زیارت نے اس پُرعزم قائد کے ساتھ وابستگی کے جذبے کو مزید گہرائی بخشی، اور دل میں بے اختیار ان کے لیے تشکر کے احساسات موجزن ہوگئے، اور آنکھیں نم ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس خاص بندے پر رحمتوں کی بارش کرے، جس نے عمر کے آخری لمحات میں بھی اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، اور تاریخ میں ایک درخشندہ مثال بن کر اُبھرا۔

ریاست جموں و کشمیر کی جدید تاریخ میں تحریک اسلامی مختلف مشکل مراحل سے گزری ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے ہی جموں وکشمیر کی کئی نابغۂ روزگار ہستیاں سید مودودی ؒ کی دعوت سے متاثر تھیں۔ ریاست میں مختلف مقامات پر ان متوسلین نے جماعت اسلامی کے چھوٹے چھوٹے حلقے بھی تشکیل دیے تھے اور ابتدائی طور پر بہت کم لوگ ان میں شریک ہوتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد جماعت اسلامی جموں و کشمیر نے مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے پیش نظر ۱۹۵۳ء میں تنظیمی طور پر اپنے آپ کو جماعت اسلامی ہندسے الگ کرلیا اور ماہ نومبر۱۹۵۳ء میں اپنا الگ دستور تشکیل دیا۔ اس دستور میں نصب العین کے حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ،بلکہ طریق کار میں پاک و ہند کے تنظیمی ڈھانچوں سے اختلاف کی بنیاد پر الگ نظم تشکیل دیا۔ اس طرح جماعت اسلامی جموں و کشمیر نے دعوت دین کے ساتھ ساتھ، سیاسی طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی خود کو سرگرم عمل کیا۔ ریاست کی سیاسی تاریخ میں جماعت اسلامی کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے ریاست کے استحصالی سیاست دانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کو للکارا ہے اوراستحصالی ناخداؤں کو عوام الناس کے سامنے بے نقاب کردیا۔

جماعت اسلامی جموں و کشمیرنے پچاس کے عشرے سے لے کر نوّے کے عشرے تک مختلف مشکل مراحل کا سامنا کیا۔ ۱۹۷۵ء میں بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کی مسلط کردہ ایمرجنسی، جماعت اسلامی پر پابندی کا عائد کیا جانا،۱۹۷۹ء میں ذوالفقار بھٹو صاحب کی پھانسی کے وقت جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے خلاف بے جا طور پر، پوری ریاست میں لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ کی مہم حکومتی سرپرستی کے تحت چلائی گئی۔ جماعت اسلامی کے تحت کام کرنے والے اسلامی ماڈل اسکولوں کا جوجال پوری ریاست میں بچھا ہوا تھا، اس پر بھی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ شیخ محمد عبداللہ نے پابندی عائد کردی اور جماعت اسلامی کے تعلیمی اداروں کو بند (Ban)کروا دیا۔

ان میں سخت ترین مرحلہ ۹۰ کا عشرہ تھا۔اس پورے عشرے کے دوران جماعت اسلامی جموں و کشمیر سے وابستہ سیکڑوں ارکان اور ہزاروں ہمدرد و رفقاے جماعت کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔اسی طرح اسیری کے دوران جماعت کے زعما اور عام کارکنان کو بدترین جسمانی تشدد اور ہولناک اذیتوں سے گزارا گیا،انٹروگیشن سینٹروں میں تکالیف دی گئیں۔ یہ سارا جبراور اذیتیں دراصل جماعت اسلامی کے وجود کو مٹانے کی سازش کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ، جماعت کے سیاسی وجود کو ختم کرنے کے لیے روا رکھی گئیں۔چوں کہ ۱۹۸۷ء میں ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ وابستہ دینی حلقوں نے ’مسلم متحدہ محاذ‘ (MUF)کے جھنڈے تلے یک جان ہوکر ریاستی اسمبلی میں جاکر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی انتہائی اقدام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس اتحاد کی سب سے مؤثر اور بڑی اکائی جماعت اسلامی جموں و کشمیر ہی تھی۔بھارتی قیادت ریاستی مسلمانوں کے اس اقدام سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی اور ۱۹۸۷ء کے اسمبلی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں کی گئیں۔ ان دھاندلیوں کے نتیجے میں ہی ریاست کے نوجوانوں نے تحریک حریت کو مزید مؤثر اور باوزن بنانے کے لیے ۴۰برس سے اختیار کیے گئے جعلی اور نام نہاد ’جمہوری جال‘ کو مسترد کیا  اور عسکریت پسندی کا راستہ منتخب کیا۔ اس طرح ہزاروں کی تعداد میں ریاستی نوجوانوں نے بھارتی مظالم اورجبری قبضے کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کیا۔

ریاست جموں و کشمیر کے پُرعزم نوجوانوں نے، جس پامردی اور جرأت سے بھارتی فوجی طاقت کو للکارا اوران کے چھکے چھڑائے، یہ تاریخ کا منفرد باب ہے۔ ایک طرف ٹڈی دَل، وحشی اور لاکھوں افراد پر مشتمل منظم بھارتی فوج اور دوسری طرف چند سو یا چند ہزار، سرفروش کہ جن کے پاس ڈھنگ کا خودکار اسلحہ بھی نہ تھا، معرکہ زن ہوئے۔ غیر متوازن طاقتوں کا ایسا مقابلہ دنیا میں بہت کم دیکھا گیا ہے۔بھارت نے عسکری جدوجہد کو کمزور کرنے کے لیے جو حربے استعمال کیے، ان میں ریاست کی مسلم آبادی میں خانہ جنگی پیدا کرنے کی سازش بھی رچائی گئی۔ سب سے پہلے مختلف عسکری تنظیموں میں پھوٹ ڈالی گئی اور ان کو باہمی جنگ میں اُلجھایا گیا۔اس کے بعد ریاست میں بھارت کے خلاف اور بھارتی فوجی قبضے کے خلاف مضبوط ترین آوازاور جو نظریہ، جماعت اسلامی کی صورت میں موجود تھا،اس کے ساتھ نمٹنے کی سازشیں کی گئیں۔ اس کام کے لیے ریاستی بھارت نواز حکومت نے بندوق برداروں کو استعمال کرنے کا راستہ منتخب کیا۔ بدنام زمانہ ایم ایم اور اخوان نامی سرکاری دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے جماعت اسلامی کے خلاف لوٹ مار اور قتل عام کی ایک مہم چلائی گئی۔ اس مہم کے تحت جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے ساتھ وابستہ سیکڑوں ارکان و رفقا کو شہید اور زخمی کیا گیا۔ حکومتی فورسز اور سرکار نواز دہشت گردوں نے کھلم کھلا، جماعت اسلامی سے وابستہ لوگوں سے پیسے بٹورے، ان کے گھروں کو بارودی دھماکوں سے اڑایا گیا، برسوں تک جیلوں میں نظربند رکھا گیا، اور اس کے بعد سب سے بڑا ظلم یہ کہ جماعت کے سیکڑوں ارکان اور ہزاروں رفقا اور وابستگان جو شہید کیے گئے تو وہ سب شہادتیں ماوراے عدالت کی گئیں، جن کی ابھی تک بھی کوئی آزادانہ تحقیق نہیں ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کے ارکان و وابستگان میں بیش تر لوگ عمر رسیدہ تھے۔ ۶۰ اور ۷۰ سال تک کے بزرگوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور ان کی پیرانہ سالی کے باوجود ان کو شہید کردیا گیا۔

جماعت اسلامی کے یہ سارے وابستگان بلاشبہہ ایسے صالح افراد کار تھے، جو کئی برسوں پر پھیلے جماعت کے نظام تربیت کے نتیجے میں تیار ہوئے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شہرت کے بامِ عروج اور دولت کی فراوانی کے باوجود اپنی جانوں ، اپنے مال و دولت کے بدلے رب کی جنتوں کے خریدار بن چکے ہیں۔عیش و عشرت کو تج دینے والے،آسایشوں کو چھوڑ دینے والے، عزیمت کے راستے کا انتخاب کرنے والے، دنیا سے بے رغبت اور آخرت کی زندگی کو ترجیح دینے والے،  حیات جاودانی کے رمز آشنا، جنتوں کے مسافر، شہادتوں کے طالب، اللہ کی راہ میں چلنے کا عزم کرنے والوں کے لیے مشعل راہ، جہالتوں اور تاریکیوں میں اُجالا کرنے والے، سفر حیات کی تاریکیوں میں جگمگ جگمگ تاروں کی مانند روشنیاں بکھیرنے والے روشن ستارے، جو آنے والے قافلوں کے رہنما بن کر نقوش راہ بننے والے لوگ ہیں۔

ان عظیم المرتبت انسانوں کے تذکرے حکایات خونچکاں ہونے کے باوجود لذت ایمان میں اضافے کا باعث بن جاتے ہیں۔ یہ قافلۂ حق کے لیے رہنمائی کی قندیل فراہم کرنے والے لوگ ہیں، جن کے کردار اپنے پیچھے چلنے والوں کے لیے مینارئہ نور ہیں۔یہ لوگ اسلامی تحریکات کا سرمایہ  ہیں، بے بدل سرمایہ۔ اس سرمایے کے بل پر ہی تو تحریکات کی اعتباریت (credibility) میں اضافہ ہوتا ہے اور حق کے ثبوت میں زندہ چلنے پھرنے والے دلائل فراہم ہوتے ہیں۔ یہ تعداد میں کم ہیں، لیکن بڑی بڑی اجتماعیتوں کی آبرو ہیں۔ اخلاص کے یہ پیکر ہمہ تن اسلام کے لیے وقف ہیں۔ ریاست جموں وکشمیر میں انقلاب اسلامی کی شجرکاری میں ان بے لوث انسانوں کی بیش بہا قربانیاں شامل ہیں۔ یہ ریاست کی اسلامی تحریک کا وہ حصہ ہیں، جنھوں نے اپنے گرم گرم لہو سے شجرِ اسلام کی آبیاری کی ہے۔ ان لوگوں کا تذکرہ ہماری جدوجہد کی کتاب کا وہ خوشبو دار باب ہے کہ جس کے ہرہر ورق پہ حق گوئی، بے باکی ،عزیمت ،اورقربانی کے زندہ الفاظ روشن اور نقش ہیں۔ یہ وہ جلی حروف ہیں کہ جن کے تذکرے میں ہماری زندگی پوشیدہ ہے۔

یہ بے شمار ہیں، اور ہر ایک کی داستانِ حیات اور سفرِشہادت ولولہ انگیز ہے۔

انھی میں سے ایک شہید عبدالرزاق میر ؒ بچرو ہیں۔ میر صاحب اپنے علاقے کے ہی نہیں، بلکہ جنوبی کشمیر کے متمول ترین انسانوں میں شامل تھے۔ دولت،شہرت،اور عزت کسی بھی چیز کی ان کو کمی نہیں تھی۔ ان کے پاس زندگی گزارنے کے لیے ہر سہولت موجود تھی۔شہید میرصاحب کے ہمسایے اور تحریکی ساتھی محمد احسن لون صاحب کے مطابق: ’’ شہید میر صاحب تحریک اسلامی کے ساتھ وابستہ ہونے سے پہلے پُرتعیش زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے پاس ذاتی استعمال کے لیے گاڑی تھی، جس میں ان کا عزیز از جان پالتو کتا ہم سفر ہوتا تھا، جس کو وہ ٹائیگر کے نام سے پکارتے تھے۔ امارت تھی، سہولیات تھیں، مختلف جگہوں پر وسیع و عریض کاروبار پھیلا ہوا تھا اور ایک لائسنس یافتہ گن  بھی ہوتی تھی۔کاروبار ی سرگرمیوں کے لیے کئی ٹرک بھی ان کے پاس تھے۔جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہونے سے پہلے وہ نماز روزوں کے بھی کچھ قائل نہیں تھے‘‘۔

جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہونے کے بعد ان کی زندگی میں ایک مکمل انقلاب آیا اور ان کی کایا ہی پلٹ گئی۔اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے تک بھی ان کے چہرے پر داڑھی نہیں تھی۔ کچھ لوگ تو ان کو ٹکٹ دینے کے حق میں ہی نہیںتھے، لیکن اُس وقت امیرجماعت اسلامی جموں و کشمیر محترم سعدالدین ؒ صاحب نے کہا کہ: ’’مجھے یقین ہے کہ میر صاحب کی زندگی میں ضرور تبدیلی آئے گی‘‘۔ اس طرح ان کو جماعت نے اپنا اعتماد دیا اور پھر عبدالرزاق میرؒ کی زندگی یکسر تبدیل ہوگئی اوران کی زندگی میں ایک ہمہ جہت انقلاب برپا ہوا۔

محترم شیخ محمد حسن سابق امیر جماعت اسلامی جموں و کشمیر ان کی زندگی میں برپا ہونے والے انقلاب اور ان کی متاثر کن شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں:’’ شہید عبدالرزاق میر اعلیٰ صفات کی حامل شخصیت تھی ۔ وہ ایک خاص ماحول سے تبدیل ہوکر جماعت اسلامی میں شامل ہوئے تھے۔ جماعت اسلامی کی دعوت کو قبول کرنے کے بعد وہ انتہائی پرہیزگار، خدا ترس، اور خدا پرست شخصیت بن گئے تھے۔ نظریاتی طور پر وہ ہم آہنگ، یکسو اور جماعت کے پختہ کارکن تھے۔ ان کا تقویٰ، ان کی خدا خوفی، سخاوت، ان کا غریبوں کی امداد کرنا، ان کی دریا دلی اور وسیع النظری ایک مسلّمہ حقیقت بن گئی۔ وہ بڑے ہنس مُکھ اور شگفتہ مزاج انسان تھے۔ بڑے بڑے مسائل ہنستے ہنستے حل کرتے تھے اور رنجیدہ مجلس کو بھی اپنی شگفتہ مزاجی سے شادکام کردیتے تھے۔ وہ حاضر جوابی میں یکتا تھے اور سامنے بیٹھے ہوئے انسان کو اپنی حاضرجوابی سے لاجواب کردیتے تھے‘‘۔

۱۹۷۲ء میں پہلی بار جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر کولگام انتخابی حلقے سے اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب قرار پائے۔ اس کے بعد ۱۹۷۷ء میں حلقہ انتخاب ہوم شالی بگ سے عبدالسلام دیوا کے خلاف انتخاب لڑا، لیکن اس مرتبہ کامیاب نہیں ہوسکے۔۱۹۸۷ء میں جب جماعت اسلامی نے ’مسلم متحدہ محاذ‘ کے تحت اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا تو عبدالرزاق میر صاحب کولگام سے کامیاب قرار پائے۔ اعلیٰ اخلاق کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک ، بہترین قانون دان تھے،اور اسمبلی میں بھی اپنی زندہ دلی سے خوب کام لیتے تھے‘‘۔

جماعت اسلامی کولگام کے موجودہ امیر محمد یوسف راتھر صاحب ان کے متعلق فرماتے ہیں: ’’بحیثیت ایم ایل اے (MLA) ان کو جو بھی تنخواہ ملتی تھی، وہ اُس پوری تنخواہ کو غریبوں میں بانٹ دیتے تھے۔ اسمبلی میں رہتے ہوئے انھوں نے سرکاری نوکریوں کے حصول میں غریبوں اور باصلاحیت افراد کی بھرپور امداد کی اور اقربا پروری سے کوسوں دور رہے۔وہ حد درجہ شگفتہ مزاج اور انتہائی بہادر انسان تھے۔ ایک اہم کارنامہ جو اپنے علاقے کی ترقی کے لیے انھوں نے انجام دیا وہ ہے ماؤ نہر کے منصوبے کی تکمیل، جس سے کولگام کی زرعی زمین کی آبپاشی ہوتی ہے‘‘۔

محمد احسن لون صاحب نے بتایا کہ:’’ بچرو کولگام کی بستی میں تحریک اسلامی کی داغ بیل انھوں نے ہی ڈالی اور جماعت سے وابستگی اختیار کرتے ہی مقامی مسجد میں تفہیم القرآن سے درس دینا شروع کیا اور انتہائی مشکل وقت میں جماعت اسلامی کی دعوت پیش کرنے کی شروعات اپنے گاؤں سے ہی کی۔ان کی شخصیت میں تبدیلی سے پورے گاؤں کے ماحول پر اثرات پڑے اور باجماعت نماز کا اہتمام سارے گاؤں میں ہونے لگا۔ تحریک کے لیے انھوں نے بے شمار قربانیاں دیں۔ جماعت کی مالی امداد کے علاوہ ان کی گاڑی بھی ہمیشہ جماعت کے کاموں کے لیے وقف رہا کرتی تھی۔ اپریل ۱۹۷۹ء کے منصوبہ بند حادثے میں ان کا کافی زیادہ نقصان کیا گیا۔ لگ بھگ ۲۲چھوٹی بڑی تعمیرات کو جلایا گیا، مکان ، دوکانات، گاؤخانے اور ان میں موجود مویشی زندہ جلائے گئے، اور میوہ باغات کے سارے درخت کاٹ دیے گئے، ایک ٹرک جلادیا گیا۔  بچرو اور کولگام کے کارخانوں میں موجودہزاروں فٹ کی تعمیراتی لکڑی جلائی گئی۔ بچرو، کولگام، کھنہ بل اور کئی جگہوں پر ان کی تعمیرات کو جلایا گیا۔ کئی دن بعد جب موقع واردات کا جائزہ لینے کے لیے  نئی دہلی سے کئی سیاست دانوںپر مشتمل وفد آیا( اس وفد میںایچ ایم پٹیل، مرار جی ڈیسائی بھی شامل تھے) اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ شیخ محمد عبداللہ بھی اس وفد کا حصہ تھے۔ان سب کی موجودگی میں لوگوں کے ایک بڑے مجمعے سے ڈیڑھ گھنٹے پر پھیلی بڑی جرأت آمیز تقریر کی اور اسی مجمعے میں جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے اس فیصلے کا اعلان کیا کہ: ’’جماعت اسلامی سے وابستہ افراد کی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے لیے امیر جماعت نے عام معافی کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔

 محمد احسن لون صاحب کے مطابق: ’’ وہ خانگی اور دیگر گھریلو ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی انتہائی حساس شخصیت کے مالک تھے۔ اگرچہ وہ لا ولد تھے، یعنی ان کی کوئی اولاد نہیں تھی،لیکن وہ انتہائی مال دار شخص ہونے کے ساتھ ساتھ شریعت کے مکمل پابند تھے۔ گھر کی پراپرٹی کی شرعی تقسیم کے لیے ایک وصیت نامہ انھوں نے خود لکھا تھا۔ قرآن پاک کا جو نسخہ ان کے زیر مطالعہ رہتا تھا، اسی نسخے پر ہی ایک جگہ وراثت کی شرعی تقسیم کے حوالے سے انھوں نے وصیت نامہ تحریر کیا،  جس کی وجہ سے ان کی جایداد کو تقسیم کرنے میں کافی مدد ملی۔مزیدیہ کہ بچرو میں اسلامی درس گاہ کی بنیاد بھی عبدالرزاق میر صاحب نے ہی ڈالی۔ ۱۹۸۲ء میں ریڈونی میں جب یومیہ درس گاہ کو قائم کیا گیا، تو میرصاحب نے وہاں سے واپس آکر اپنی لگ بھگ تین کنال کی اراضی وقف کی اور بچرو میں بھی یومیہ درس گاہ کی بنیاد ڈالی ۔ انھوں نے اس اسکول کی تعمیر میں بھر پور مالی امداد کی جس کی وجہ سے ہی یہ اسکول قائم ہوسکا۔ اس وقت یہ ہائی اسکول لیول تک پہنچ گیا ہے اور ہزاروں طالب علم اس اسکول کے ذریعے زیورِتعلیم سے آراستہ ہوچکے ہیں اور ابھی بھی ہورہے ہیں۔جماعت اسلامی کے زعما کی خدمت میں بھی میر صاحب نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ خصوصی طور پر مولانا سعدالدین ؒصاحب کے ساتھ ان کو خاص لگاؤ تھا ۔

بدنام زمانہ اخوانی دور کی شروعات کے چنددنوںبعدعبدالرزاق صاحب جموں سے واپس گھر آئے۔میر صاحب نے مقامی تحریکی رفقا کے ساتھ مشورے کے بعد رات کو گاؤں میں باقی رفقا کے ساتھ گشت کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ان کا خیال تھا کہ دن کی روشنی میںان کو نقصان پہنچانے کی کوئی جرأت نہیں کرے گا اور زیادہ احتمال اس بات کا ہے کہ رات کے اندھیرے میں ہی ان کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش کی جائے گی۔ اگرچہ ان کی جان کے حوالے سے خطرات موجود تھے اور دھمکیاں بھی مل چکی تھیں اورحالات کی سنگینی کا بھرپور اندازہ بھی تھا، تاہم انھوں نے گھر سے بھاگ کر روپوش ہوجانا مناسب نہیں سمجھا۔بڑی جرأت اور پامردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ،سری نگر اور جموں میں اپنے ذاتی مکانات موجود ہونے کے باوجود بچرو میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا‘‘۔

شیخ محمد حسن صاحب نے ان کی شہادت کے بارے میں بتایا کہ:’’اس روز (۲۱نومبر ۱۹۹۵ء) انھوں نے صبح کے وقت میرے ساتھ بچرو میں ہی ملاقات کی اور مجھ سے ملاقات کے بعد کسی کام کے سلسلے میں جب باہر سڑک کی طرف نکلے، تواخوانیوں نے ان کے بھائی علی محمد میر صاحب کو ہی عبدالرزاق میر سمجھ کر گرفتار کرلیا ۔ اس پر عبدالرزاق صاحب خود چل کر قاتلوں کے پاس گئے اور کہا کہ: ’’ میں ہوں عبدالرزاق، لہٰذا،میرے بھائی کو چھوڑ دو ‘‘۔ وہ ان کو ہی گرفتار کرکے کولگام  لے گئے ،اورننگے پاؤں قصبہ کولگام کے پورے بازار میں پھرایا۔ وہ برہنہ پائی کی حالت میں،  عالم گرفتاری میں بازار سے گزرتے ہوئے بلندآواز میں باربار یہ کہتے جارہے تھے کہ: ’’لوگو    ڈرو مت ،اورآگاہ رہو، اورگواہ رہو کہ میں بچرو کولگام کا رہنے والا عبدالرزاق میر ہوں ، اور میرا ایک ہی جرم ہے کہ میں جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہوں اور اسی جرم میں ننگے پیر پھرایا جارہا ہوں۔ مجھے اس بات کا کوئی غم ،ملال نہیں ،بلکہ یہ بات میرے لیے باعث فخر ہے کہ میں جماعت اسلامی کے نام پر’ برہنہ پا‘ پھرایا جارہا ہوں‘‘۔ اسی دوران لوگ اُمڈ اُمڈ کر اپنے محسن رہنما سے یک جہتی کے لیے اکٹھے ہونا شروع ہوئے تو اخوانی اغواکاروں نے ان کو سربازار گولیوںکی بوچھاڑ کرکے انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کردیا‘‘۔

 اس طرح ایک گلِ سرسبد کو ظلم کے مکروہ سایوں تلے روندا گیا۔ وہ جماعت اسلامی    جموں وکشمیر کے ایک مایہ ناز سیاست کار اور بہترین کارکن تھے۔ وہ اپنے علاقے کے ایک مشہور تاجر بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی شہادت قبول فرمائے اور ان کی قربانیوں کے عوض ان کو بہترین اجر سے نوازے، آمین!