واحد بشیر


ریاست جموں و کشمیر کی جدید تاریخ میں تحریک اسلامی مختلف مشکل مراحل سے گزری ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے ہی جموں وکشمیر کی کئی نابغۂ روزگار ہستیاں سید مودودی ؒ کی دعوت سے متاثر تھیں۔ ریاست میں مختلف مقامات پر ان متوسلین نے جماعت اسلامی کے چھوٹے چھوٹے حلقے بھی تشکیل دیے تھے اور ابتدائی طور پر بہت کم لوگ ان میں شریک ہوتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد جماعت اسلامی جموں و کشمیر نے مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے پیش نظر ۱۹۵۳ء میں تنظیمی طور پر اپنے آپ کو جماعت اسلامی ہندسے الگ کرلیا اور ماہ نومبر۱۹۵۳ء میں اپنا الگ دستور تشکیل دیا۔ اس دستور میں نصب العین کے حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ،بلکہ طریق کار میں پاک و ہند کے تنظیمی ڈھانچوں سے اختلاف کی بنیاد پر الگ نظم تشکیل دیا۔ اس طرح جماعت اسلامی جموں و کشمیر نے دعوت دین کے ساتھ ساتھ، سیاسی طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی خود کو سرگرم عمل کیا۔ ریاست کی سیاسی تاریخ میں جماعت اسلامی کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے ریاست کے استحصالی سیاست دانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کو للکارا ہے اوراستحصالی ناخداؤں کو عوام الناس کے سامنے بے نقاب کردیا۔

جماعت اسلامی جموں و کشمیرنے پچاس کے عشرے سے لے کر نوّے کے عشرے تک مختلف مشکل مراحل کا سامنا کیا۔ ۱۹۷۵ء میں بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کی مسلط کردہ ایمرجنسی، جماعت اسلامی پر پابندی کا عائد کیا جانا،۱۹۷۹ء میں ذوالفقار بھٹو صاحب کی پھانسی کے وقت جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے خلاف بے جا طور پر، پوری ریاست میں لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ کی مہم حکومتی سرپرستی کے تحت چلائی گئی۔ جماعت اسلامی کے تحت کام کرنے والے اسلامی ماڈل اسکولوں کا جوجال پوری ریاست میں بچھا ہوا تھا، اس پر بھی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ شیخ محمد عبداللہ نے پابندی عائد کردی اور جماعت اسلامی کے تعلیمی اداروں کو بند (Ban)کروا دیا۔

ان میں سخت ترین مرحلہ ۹۰ کا عشرہ تھا۔اس پورے عشرے کے دوران جماعت اسلامی جموں و کشمیر سے وابستہ سیکڑوں ارکان اور ہزاروں ہمدرد و رفقاے جماعت کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔اسی طرح اسیری کے دوران جماعت کے زعما اور عام کارکنان کو بدترین جسمانی تشدد اور ہولناک اذیتوں سے گزارا گیا،انٹروگیشن سینٹروں میں تکالیف دی گئیں۔ یہ سارا جبراور اذیتیں دراصل جماعت اسلامی کے وجود کو مٹانے کی سازش کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ، جماعت کے سیاسی وجود کو ختم کرنے کے لیے روا رکھی گئیں۔چوں کہ ۱۹۸۷ء میں ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ وابستہ دینی حلقوں نے ’مسلم متحدہ محاذ‘ (MUF)کے جھنڈے تلے یک جان ہوکر ریاستی اسمبلی میں جاکر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی انتہائی اقدام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس اتحاد کی سب سے مؤثر اور بڑی اکائی جماعت اسلامی جموں و کشمیر ہی تھی۔بھارتی قیادت ریاستی مسلمانوں کے اس اقدام سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی اور ۱۹۸۷ء کے اسمبلی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں کی گئیں۔ ان دھاندلیوں کے نتیجے میں ہی ریاست کے نوجوانوں نے تحریک حریت کو مزید مؤثر اور باوزن بنانے کے لیے ۴۰برس سے اختیار کیے گئے جعلی اور نام نہاد ’جمہوری جال‘ کو مسترد کیا  اور عسکریت پسندی کا راستہ منتخب کیا۔ اس طرح ہزاروں کی تعداد میں ریاستی نوجوانوں نے بھارتی مظالم اورجبری قبضے کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کیا۔

ریاست جموں و کشمیر کے پُرعزم نوجوانوں نے، جس پامردی اور جرأت سے بھارتی فوجی طاقت کو للکارا اوران کے چھکے چھڑائے، یہ تاریخ کا منفرد باب ہے۔ ایک طرف ٹڈی دَل، وحشی اور لاکھوں افراد پر مشتمل منظم بھارتی فوج اور دوسری طرف چند سو یا چند ہزار، سرفروش کہ جن کے پاس ڈھنگ کا خودکار اسلحہ بھی نہ تھا، معرکہ زن ہوئے۔ غیر متوازن طاقتوں کا ایسا مقابلہ دنیا میں بہت کم دیکھا گیا ہے۔بھارت نے عسکری جدوجہد کو کمزور کرنے کے لیے جو حربے استعمال کیے، ان میں ریاست کی مسلم آبادی میں خانہ جنگی پیدا کرنے کی سازش بھی رچائی گئی۔ سب سے پہلے مختلف عسکری تنظیموں میں پھوٹ ڈالی گئی اور ان کو باہمی جنگ میں اُلجھایا گیا۔اس کے بعد ریاست میں بھارت کے خلاف اور بھارتی فوجی قبضے کے خلاف مضبوط ترین آوازاور جو نظریہ، جماعت اسلامی کی صورت میں موجود تھا،اس کے ساتھ نمٹنے کی سازشیں کی گئیں۔ اس کام کے لیے ریاستی بھارت نواز حکومت نے بندوق برداروں کو استعمال کرنے کا راستہ منتخب کیا۔ بدنام زمانہ ایم ایم اور اخوان نامی سرکاری دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے جماعت اسلامی کے خلاف لوٹ مار اور قتل عام کی ایک مہم چلائی گئی۔ اس مہم کے تحت جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے ساتھ وابستہ سیکڑوں ارکان و رفقا کو شہید اور زخمی کیا گیا۔ حکومتی فورسز اور سرکار نواز دہشت گردوں نے کھلم کھلا، جماعت اسلامی سے وابستہ لوگوں سے پیسے بٹورے، ان کے گھروں کو بارودی دھماکوں سے اڑایا گیا، برسوں تک جیلوں میں نظربند رکھا گیا، اور اس کے بعد سب سے بڑا ظلم یہ کہ جماعت کے سیکڑوں ارکان اور ہزاروں رفقا اور وابستگان جو شہید کیے گئے تو وہ سب شہادتیں ماوراے عدالت کی گئیں، جن کی ابھی تک بھی کوئی آزادانہ تحقیق نہیں ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کے ارکان و وابستگان میں بیش تر لوگ عمر رسیدہ تھے۔ ۶۰ اور ۷۰ سال تک کے بزرگوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور ان کی پیرانہ سالی کے باوجود ان کو شہید کردیا گیا۔

جماعت اسلامی کے یہ سارے وابستگان بلاشبہہ ایسے صالح افراد کار تھے، جو کئی برسوں پر پھیلے جماعت کے نظام تربیت کے نتیجے میں تیار ہوئے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شہرت کے بامِ عروج اور دولت کی فراوانی کے باوجود اپنی جانوں ، اپنے مال و دولت کے بدلے رب کی جنتوں کے خریدار بن چکے ہیں۔عیش و عشرت کو تج دینے والے،آسایشوں کو چھوڑ دینے والے، عزیمت کے راستے کا انتخاب کرنے والے، دنیا سے بے رغبت اور آخرت کی زندگی کو ترجیح دینے والے،  حیات جاودانی کے رمز آشنا، جنتوں کے مسافر، شہادتوں کے طالب، اللہ کی راہ میں چلنے کا عزم کرنے والوں کے لیے مشعل راہ، جہالتوں اور تاریکیوں میں اُجالا کرنے والے، سفر حیات کی تاریکیوں میں جگمگ جگمگ تاروں کی مانند روشنیاں بکھیرنے والے روشن ستارے، جو آنے والے قافلوں کے رہنما بن کر نقوش راہ بننے والے لوگ ہیں۔

ان عظیم المرتبت انسانوں کے تذکرے حکایات خونچکاں ہونے کے باوجود لذت ایمان میں اضافے کا باعث بن جاتے ہیں۔ یہ قافلۂ حق کے لیے رہنمائی کی قندیل فراہم کرنے والے لوگ ہیں، جن کے کردار اپنے پیچھے چلنے والوں کے لیے مینارئہ نور ہیں۔یہ لوگ اسلامی تحریکات کا سرمایہ  ہیں، بے بدل سرمایہ۔ اس سرمایے کے بل پر ہی تو تحریکات کی اعتباریت (credibility) میں اضافہ ہوتا ہے اور حق کے ثبوت میں زندہ چلنے پھرنے والے دلائل فراہم ہوتے ہیں۔ یہ تعداد میں کم ہیں، لیکن بڑی بڑی اجتماعیتوں کی آبرو ہیں۔ اخلاص کے یہ پیکر ہمہ تن اسلام کے لیے وقف ہیں۔ ریاست جموں وکشمیر میں انقلاب اسلامی کی شجرکاری میں ان بے لوث انسانوں کی بیش بہا قربانیاں شامل ہیں۔ یہ ریاست کی اسلامی تحریک کا وہ حصہ ہیں، جنھوں نے اپنے گرم گرم لہو سے شجرِ اسلام کی آبیاری کی ہے۔ ان لوگوں کا تذکرہ ہماری جدوجہد کی کتاب کا وہ خوشبو دار باب ہے کہ جس کے ہرہر ورق پہ حق گوئی، بے باکی ،عزیمت ،اورقربانی کے زندہ الفاظ روشن اور نقش ہیں۔ یہ وہ جلی حروف ہیں کہ جن کے تذکرے میں ہماری زندگی پوشیدہ ہے۔

یہ بے شمار ہیں، اور ہر ایک کی داستانِ حیات اور سفرِشہادت ولولہ انگیز ہے۔

انھی میں سے ایک شہید عبدالرزاق میر ؒ بچرو ہیں۔ میر صاحب اپنے علاقے کے ہی نہیں، بلکہ جنوبی کشمیر کے متمول ترین انسانوں میں شامل تھے۔ دولت،شہرت،اور عزت کسی بھی چیز کی ان کو کمی نہیں تھی۔ ان کے پاس زندگی گزارنے کے لیے ہر سہولت موجود تھی۔شہید میرصاحب کے ہمسایے اور تحریکی ساتھی محمد احسن لون صاحب کے مطابق: ’’ شہید میر صاحب تحریک اسلامی کے ساتھ وابستہ ہونے سے پہلے پُرتعیش زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے پاس ذاتی استعمال کے لیے گاڑی تھی، جس میں ان کا عزیز از جان پالتو کتا ہم سفر ہوتا تھا، جس کو وہ ٹائیگر کے نام سے پکارتے تھے۔ امارت تھی، سہولیات تھیں، مختلف جگہوں پر وسیع و عریض کاروبار پھیلا ہوا تھا اور ایک لائسنس یافتہ گن  بھی ہوتی تھی۔کاروبار ی سرگرمیوں کے لیے کئی ٹرک بھی ان کے پاس تھے۔جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہونے سے پہلے وہ نماز روزوں کے بھی کچھ قائل نہیں تھے‘‘۔

جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہونے کے بعد ان کی زندگی میں ایک مکمل انقلاب آیا اور ان کی کایا ہی پلٹ گئی۔اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے تک بھی ان کے چہرے پر داڑھی نہیں تھی۔ کچھ لوگ تو ان کو ٹکٹ دینے کے حق میں ہی نہیںتھے، لیکن اُس وقت امیرجماعت اسلامی جموں و کشمیر محترم سعدالدین ؒ صاحب نے کہا کہ: ’’مجھے یقین ہے کہ میر صاحب کی زندگی میں ضرور تبدیلی آئے گی‘‘۔ اس طرح ان کو جماعت نے اپنا اعتماد دیا اور پھر عبدالرزاق میرؒ کی زندگی یکسر تبدیل ہوگئی اوران کی زندگی میں ایک ہمہ جہت انقلاب برپا ہوا۔

محترم شیخ محمد حسن سابق امیر جماعت اسلامی جموں و کشمیر ان کی زندگی میں برپا ہونے والے انقلاب اور ان کی متاثر کن شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں:’’ شہید عبدالرزاق میر اعلیٰ صفات کی حامل شخصیت تھی ۔ وہ ایک خاص ماحول سے تبدیل ہوکر جماعت اسلامی میں شامل ہوئے تھے۔ جماعت اسلامی کی دعوت کو قبول کرنے کے بعد وہ انتہائی پرہیزگار، خدا ترس، اور خدا پرست شخصیت بن گئے تھے۔ نظریاتی طور پر وہ ہم آہنگ، یکسو اور جماعت کے پختہ کارکن تھے۔ ان کا تقویٰ، ان کی خدا خوفی، سخاوت، ان کا غریبوں کی امداد کرنا، ان کی دریا دلی اور وسیع النظری ایک مسلّمہ حقیقت بن گئی۔ وہ بڑے ہنس مُکھ اور شگفتہ مزاج انسان تھے۔ بڑے بڑے مسائل ہنستے ہنستے حل کرتے تھے اور رنجیدہ مجلس کو بھی اپنی شگفتہ مزاجی سے شادکام کردیتے تھے۔ وہ حاضر جوابی میں یکتا تھے اور سامنے بیٹھے ہوئے انسان کو اپنی حاضرجوابی سے لاجواب کردیتے تھے‘‘۔

۱۹۷۲ء میں پہلی بار جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر کولگام انتخابی حلقے سے اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب قرار پائے۔ اس کے بعد ۱۹۷۷ء میں حلقہ انتخاب ہوم شالی بگ سے عبدالسلام دیوا کے خلاف انتخاب لڑا، لیکن اس مرتبہ کامیاب نہیں ہوسکے۔۱۹۸۷ء میں جب جماعت اسلامی نے ’مسلم متحدہ محاذ‘ کے تحت اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا تو عبدالرزاق میر صاحب کولگام سے کامیاب قرار پائے۔ اعلیٰ اخلاق کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک ، بہترین قانون دان تھے،اور اسمبلی میں بھی اپنی زندہ دلی سے خوب کام لیتے تھے‘‘۔

جماعت اسلامی کولگام کے موجودہ امیر محمد یوسف راتھر صاحب ان کے متعلق فرماتے ہیں: ’’بحیثیت ایم ایل اے (MLA) ان کو جو بھی تنخواہ ملتی تھی، وہ اُس پوری تنخواہ کو غریبوں میں بانٹ دیتے تھے۔ اسمبلی میں رہتے ہوئے انھوں نے سرکاری نوکریوں کے حصول میں غریبوں اور باصلاحیت افراد کی بھرپور امداد کی اور اقربا پروری سے کوسوں دور رہے۔وہ حد درجہ شگفتہ مزاج اور انتہائی بہادر انسان تھے۔ ایک اہم کارنامہ جو اپنے علاقے کی ترقی کے لیے انھوں نے انجام دیا وہ ہے ماؤ نہر کے منصوبے کی تکمیل، جس سے کولگام کی زرعی زمین کی آبپاشی ہوتی ہے‘‘۔

محمد احسن لون صاحب نے بتایا کہ:’’ بچرو کولگام کی بستی میں تحریک اسلامی کی داغ بیل انھوں نے ہی ڈالی اور جماعت سے وابستگی اختیار کرتے ہی مقامی مسجد میں تفہیم القرآن سے درس دینا شروع کیا اور انتہائی مشکل وقت میں جماعت اسلامی کی دعوت پیش کرنے کی شروعات اپنے گاؤں سے ہی کی۔ان کی شخصیت میں تبدیلی سے پورے گاؤں کے ماحول پر اثرات پڑے اور باجماعت نماز کا اہتمام سارے گاؤں میں ہونے لگا۔ تحریک کے لیے انھوں نے بے شمار قربانیاں دیں۔ جماعت کی مالی امداد کے علاوہ ان کی گاڑی بھی ہمیشہ جماعت کے کاموں کے لیے وقف رہا کرتی تھی۔ اپریل ۱۹۷۹ء کے منصوبہ بند حادثے میں ان کا کافی زیادہ نقصان کیا گیا۔ لگ بھگ ۲۲چھوٹی بڑی تعمیرات کو جلایا گیا، مکان ، دوکانات، گاؤخانے اور ان میں موجود مویشی زندہ جلائے گئے، اور میوہ باغات کے سارے درخت کاٹ دیے گئے، ایک ٹرک جلادیا گیا۔  بچرو اور کولگام کے کارخانوں میں موجودہزاروں فٹ کی تعمیراتی لکڑی جلائی گئی۔ بچرو، کولگام، کھنہ بل اور کئی جگہوں پر ان کی تعمیرات کو جلایا گیا۔ کئی دن بعد جب موقع واردات کا جائزہ لینے کے لیے  نئی دہلی سے کئی سیاست دانوںپر مشتمل وفد آیا( اس وفد میںایچ ایم پٹیل، مرار جی ڈیسائی بھی شامل تھے) اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ شیخ محمد عبداللہ بھی اس وفد کا حصہ تھے۔ان سب کی موجودگی میں لوگوں کے ایک بڑے مجمعے سے ڈیڑھ گھنٹے پر پھیلی بڑی جرأت آمیز تقریر کی اور اسی مجمعے میں جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے اس فیصلے کا اعلان کیا کہ: ’’جماعت اسلامی سے وابستہ افراد کی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے لیے امیر جماعت نے عام معافی کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔

 محمد احسن لون صاحب کے مطابق: ’’ وہ خانگی اور دیگر گھریلو ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی انتہائی حساس شخصیت کے مالک تھے۔ اگرچہ وہ لا ولد تھے، یعنی ان کی کوئی اولاد نہیں تھی،لیکن وہ انتہائی مال دار شخص ہونے کے ساتھ ساتھ شریعت کے مکمل پابند تھے۔ گھر کی پراپرٹی کی شرعی تقسیم کے لیے ایک وصیت نامہ انھوں نے خود لکھا تھا۔ قرآن پاک کا جو نسخہ ان کے زیر مطالعہ رہتا تھا، اسی نسخے پر ہی ایک جگہ وراثت کی شرعی تقسیم کے حوالے سے انھوں نے وصیت نامہ تحریر کیا،  جس کی وجہ سے ان کی جایداد کو تقسیم کرنے میں کافی مدد ملی۔مزیدیہ کہ بچرو میں اسلامی درس گاہ کی بنیاد بھی عبدالرزاق میر صاحب نے ہی ڈالی۔ ۱۹۸۲ء میں ریڈونی میں جب یومیہ درس گاہ کو قائم کیا گیا، تو میرصاحب نے وہاں سے واپس آکر اپنی لگ بھگ تین کنال کی اراضی وقف کی اور بچرو میں بھی یومیہ درس گاہ کی بنیاد ڈالی ۔ انھوں نے اس اسکول کی تعمیر میں بھر پور مالی امداد کی جس کی وجہ سے ہی یہ اسکول قائم ہوسکا۔ اس وقت یہ ہائی اسکول لیول تک پہنچ گیا ہے اور ہزاروں طالب علم اس اسکول کے ذریعے زیورِتعلیم سے آراستہ ہوچکے ہیں اور ابھی بھی ہورہے ہیں۔جماعت اسلامی کے زعما کی خدمت میں بھی میر صاحب نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ خصوصی طور پر مولانا سعدالدین ؒصاحب کے ساتھ ان کو خاص لگاؤ تھا ۔

بدنام زمانہ اخوانی دور کی شروعات کے چنددنوںبعدعبدالرزاق صاحب جموں سے واپس گھر آئے۔میر صاحب نے مقامی تحریکی رفقا کے ساتھ مشورے کے بعد رات کو گاؤں میں باقی رفقا کے ساتھ گشت کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ان کا خیال تھا کہ دن کی روشنی میںان کو نقصان پہنچانے کی کوئی جرأت نہیں کرے گا اور زیادہ احتمال اس بات کا ہے کہ رات کے اندھیرے میں ہی ان کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش کی جائے گی۔ اگرچہ ان کی جان کے حوالے سے خطرات موجود تھے اور دھمکیاں بھی مل چکی تھیں اورحالات کی سنگینی کا بھرپور اندازہ بھی تھا، تاہم انھوں نے گھر سے بھاگ کر روپوش ہوجانا مناسب نہیں سمجھا۔بڑی جرأت اور پامردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ،سری نگر اور جموں میں اپنے ذاتی مکانات موجود ہونے کے باوجود بچرو میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا‘‘۔

شیخ محمد حسن صاحب نے ان کی شہادت کے بارے میں بتایا کہ:’’اس روز (۲۱نومبر ۱۹۹۵ء) انھوں نے صبح کے وقت میرے ساتھ بچرو میں ہی ملاقات کی اور مجھ سے ملاقات کے بعد کسی کام کے سلسلے میں جب باہر سڑک کی طرف نکلے، تواخوانیوں نے ان کے بھائی علی محمد میر صاحب کو ہی عبدالرزاق میر سمجھ کر گرفتار کرلیا ۔ اس پر عبدالرزاق صاحب خود چل کر قاتلوں کے پاس گئے اور کہا کہ: ’’ میں ہوں عبدالرزاق، لہٰذا،میرے بھائی کو چھوڑ دو ‘‘۔ وہ ان کو ہی گرفتار کرکے کولگام  لے گئے ،اورننگے پاؤں قصبہ کولگام کے پورے بازار میں پھرایا۔ وہ برہنہ پائی کی حالت میں،  عالم گرفتاری میں بازار سے گزرتے ہوئے بلندآواز میں باربار یہ کہتے جارہے تھے کہ: ’’لوگو    ڈرو مت ،اورآگاہ رہو، اورگواہ رہو کہ میں بچرو کولگام کا رہنے والا عبدالرزاق میر ہوں ، اور میرا ایک ہی جرم ہے کہ میں جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہوں اور اسی جرم میں ننگے پیر پھرایا جارہا ہوں۔ مجھے اس بات کا کوئی غم ،ملال نہیں ،بلکہ یہ بات میرے لیے باعث فخر ہے کہ میں جماعت اسلامی کے نام پر’ برہنہ پا‘ پھرایا جارہا ہوں‘‘۔ اسی دوران لوگ اُمڈ اُمڈ کر اپنے محسن رہنما سے یک جہتی کے لیے اکٹھے ہونا شروع ہوئے تو اخوانی اغواکاروں نے ان کو سربازار گولیوںکی بوچھاڑ کرکے انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کردیا‘‘۔

 اس طرح ایک گلِ سرسبد کو ظلم کے مکروہ سایوں تلے روندا گیا۔ وہ جماعت اسلامی    جموں وکشمیر کے ایک مایہ ناز سیاست کار اور بہترین کارکن تھے۔ وہ اپنے علاقے کے ایک مشہور تاجر بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی شہادت قبول فرمائے اور ان کی قربانیوں کے عوض ان کو بہترین اجر سے نوازے، آمین!