آج صبح ایک صحافی دوست نے فون کیا۔ ان کی کال کا مقصد حال ہی میں نافذ کیے گئے ’وقف (ترمیمی) ایکٹ ۲۰۲۵‘ پر حقائق کو جاننا تھا۔ واضح رہے کہ مسلمانوں سے متعلق ’وقف ایکٹ ۱۹۹۵/۲۰۱۳‘ میں ترمیم کو حکومتِ ہند نے ’لوک سبھا‘ (ایوانِ زیریں)اور ’راجیہ سبھا‘ (ایوانِ بالا) سے منظور کروا کر صدرِ ہند کے دستخط کے بعد باضابطہ طور پر نافذ کر دیا ہے۔ وقف کے قانون میں کی گئی یہ تبدیلی ملک بھر میں بحث و مباحثے کا موضوع بنی ہوئی ہے، اور مختلف مقامات پر اس کے خلاف احتجاج بھی جاری ہیں۔صحافی دوست کا ایک اہم سوال تھا: ’’ترکیہ اور سعودی عرب میں ’وقف‘ ریاست کے ماتحت ہے، تو پھر یہاں ہندستان کے مسلمانوں کو اس پہ اعتراض کیوں ہے؟‘‘ یہ ایک ایسا سوال ہے، جسے عوام کے ذہنوں میں ڈالنے کا کام خود حکومتِ ہند نے کیا ہے۔
جب سے ہندستان میں مسلمانوں کے خلاف ’لینڈ جہاد‘ (Land Jihad) کا من گھڑت پروپیگنڈا زور پکڑنے لگا، اسی وقت ترکیہ اور دیگر مسلم ممالک کا نام لے کر یہ تاثر پھیلایا گیا کہ ان ممالک میں وقف کا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے۔ ۸؍ اگست ۲۰۲۴ء کو جب ’وقف (ترمیمی) بل‘ لوک سبھا میں پیش کیا گیا، تو حکومت ہند نے اس بل کے حوالے سے ایک وضاحتی بیان سوال و جواب کی شکل میں جاری کیا۔ اس بیان میں ایک سوال یہ بھی تھا:’’کیا تمام مسلم ممالک کے پاس وقف جائیدادیں ہیں؟‘‘جس کے جواب میں کہا گیا: ’’نہیں، تمام مسلم ممالک کے پاس وقف جائیدادیں نہیں ہیں۔ ترکیہ، لیبیا، مصر، سوڈان، لبنان، شام، اردن، تیونس اور عراق میں وقف نہیں ہے۔ تاہم، بھارت میں نہ صرف وقف بورڈز سب سے بڑے شہری اراضی کے مالک ہیں بلکہ ان کے پاس ایک ایسا قانون بھی ہے جو انھیں قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے‘‘۔
پھر ۲؍ اپریل ۲۰۲۵ءکو جب ’لوک سبھا‘ میں وقف (ترمیمی) بل پر بحث ہو رہی تھی، تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ، سمبیت پاترا اور نشی کانت دوبے نے اپنی تقریروں میں دعویٰ کیا کہ کئی اسلامی ممالک جیسے ترکیہ، لیبیا، مصر، سوڈان، لبنان، شام، اردن، تیونس اور عراق میں وقف کا تو کوئی نظام موجود ہی نہیں ہے۔ مگر اگلے ہی روز، یعنی ۳؍ اپریل ۲۰۲۵ءکو راجیہ سبھا میں بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے کہا: ’’ترکیہ میں تمام وقف املاک کو بہتر انتظام اور شفافیت کے لیے ریاست کے کنٹرول میں لے لیا گیا۔ یہ کب کیا گیا؟ ۱۹۲۴ء میں، یعنی ۱۰۰ سال پہلے‘‘۔
جے پی نڈا اس بات سے واقف نہیں ہوں گے کہ ترکیہ میں وقف کا نظام خلافتِ عثمانیہ سے بڑی مضبوطی سے قائم ہو چکا تھا۔ اور آج تو حقیقت یہ ہے کہ ترکیہ میں وقف محض ایک خیراتی ادارہ نہیں، بلکہ ایک مؤثر اقتصادی ایجنسی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف سماجی بہبود کا علَم بردار ہے، بلکہ ملک کی معاشی ترقی اور مجموعی خوش حالی سے بھی گہرا تعلق رکھتا ہے۔
یہاں یہ جاننا بھی اہم ہے کہ جب ہندستان کی تقسیم نہیں ہوئی تھی، تب ہندوستان میں ترکیہ اور دیگر مسلم ممالک کی طرز پر اوقاف کی ایک وزارت یا محکمہ قائم کیے جانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ دی ٹائمز آف انڈیا میں ۱۷جولائی ۱۹۲۸ء کو شائع ایک خبر کے مطابق، شملہ میں ستمبر کے اجلاس کے دوران قانون ساز اسمبلی میں غیر سرکاری قراردادوں کے لیے مختلف موضوعات پر قراردادوں کے نوٹس دیے گئے تھے۔ ان ہی نوٹس میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے ایک رکن سرعبدالحلیم خان غزنوی (۱۸۷۶ء-۱۹۵۳ء) کا بھی تھا۔ اخبار لکھتا ہے: ’’مسٹر اے- ایچ- غزنوی، جنھوں نے پہلے ہی مسلمانوں کے اوقاف ایکٹ میں ترمیم کے لیے ایک بل پیش کرنے کی اجازت طلب کرنے کے ارادے کا اظہار کیا ہے، ایک قرارداد بھی رکھتے ہیں جس میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’اوقاف کے انتظامات کی جانچ پڑتال کے لیےسرکاری و غیر سرکاری افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، تاکہ ہندوستان میں ترکی اور دیگر مسلم ممالک کی طرز پر اوقاف کی ایک وزارت یا محکمہ قائم کیا جا سکے‘۔ ۱۹نومبر ۱۹۲۹ء کے ٹائمز آف انڈیا کے مطابق: ’’مسٹر غزنوی نے قانون ساز اسمبلی میں وقف کا یہ مسئلہ پھرسے اٹھایا‘‘… ایک اور سوال کے ذریعے وہ [مسٹر اے- ایچ- غزنوی] مطالبہ کرتے ہیں کہ ’’حکام اور غیر سرکاری افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جو ہندستان میں اوقاف کے انتظامات کی جانچ کرے، تاکہ ترکی اور دیگر مسلم ممالک کی طرح ایک ’محکمہ برائے مذہبی اوقاف‘ قائم کیا جاسکے۔ یاد رہے کہ جناب غزنوی اسی مقصد کے لیے اسمبلی میں ایک بل پہلے ہی پیش کر چکے ہیں‘‘۔
بہرحال، ترکیہ میں وقف مینجمنٹ کے لیے ایک پورا سسٹم موجو دہے۔ سرکاری ادارہ Vakıflar Genel Müdürlüğü یعنی General Directorate of Foundations ترکیہ کے وقف کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ یہاں ایک خاص بات یہ ہے کہ ’’ترکیہ میں کوئی بھی فرد اپنا نجی وقف قائم کر سکتا ہے اور اس میں حکومت کا کوئی دخل نہیں ہوتا‘‘۔ یہ بات ابھی گذشتہ دنوں ہی میرے ایک ترکش دوست نے بتائی ہے۔ یاد رہے کہ ترکی زبان میں ’وقف‘ کو Vakif لکھا جاتا ہے اور انگریزی میں اسے ’فاؤنڈیشن‘ کہا جاتا ہے۔
ترکیہ میں ’وقف‘ کے نظام کی تاریخ
ترکیہ، خلافت عثمانیہ کے جانشین ملک کے طور پر، ’وقف‘ کے میدان میں ایک گہری اور بھرپور وراثت کا حامل ہے۔ خلافت عثمانیہ کے قیام کے وقت سے ہی، وقف کو روایتی طور پر ان کے نگہبانوں کے ذریعے ہی سنبھالا جاتا تھا۔ عام طور پر، نگہبان وہ لوگ ہوتے تھے جو ’اوقاف‘ کے بانی ہوتے تھے اور ان کی وفات کے بعد، ان کے بچے اور نسلیں ان کے منتظمین بن جاتے تھے۔
صباح الدین یونی ورسٹی استنبول کے اوزان مراشلی کے مطابق، ان نجی طور پر قائم کردہ اوقاف کے علاوہ، ایسے irsādī اوقاف بھی موجود تھے جو سلاطین نے ریاستی بجٹ سے مختص رقم کے طور پر وقف کیے تھے۔ یہ ریاستی سرپرستی میں قائم اوقاف اعلیٰ عہدے داروں، جیسے صدرِ اعظم اور شیخ الاسلام (اعلیٰ مذہبی اتھارٹی)، کی نگرانی میں تھے۔اس کے بعد اوقاف کا انتظام ۱۸۲۶ء میں مرکزی حکومت کے تحت آ گیا، جب کہ مکہ اور مدینہ کی دو مقدس مساجد سے متعلق وقف کی ایک خصوصی وزارت قائم کی گئی، جسے ’وزارتِ اوقافِ شاہی‘ (Evkâf-ı Hümâyun Nezâreti) کہا گیا۔ یہ عثمانی تاریخ میں ایک اعلیٰ بورڈ تشکیل دینے کی پہلی کوشش تھی، جو اسی طرح کے مقاصد کے لیے وقف کیے گئے تھے۔ بعد میں، اس وزارت کے دائرۂ کار کو بڑھا کر ان اوقاف تک پھیلایا گیا، جو سلاطین، ان کے اہلِ خانہ اور پاشاؤں نے قائم کیے تھے۔ ڈاکٹر اوزان مراشلی نےسال ۲۰۲۲ء میں ترکیہ میں وقف کا معاشی نظام عنوان پر پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کی ہے۔
غورطلب رہے کہ irsādī وقف وہ وقف ہے، جو حکومت کے ذریعے قائم کیے گئے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ حکومت کے مخصوص آمدنی کے ذرائع کو مخصوص فلاحی مقاصد کے لیے مختص کیا گیا ہے، بجائے اس کے کہ یہ ایک جائز وقف ہو، جو کسی فرد یا انجمن کے ذریعے قائم کیا جائے۔ ترکیہ میں اس نوعیت کے وقف کی معروف مثالوں میں سوشل ایڈ اینڈ سولیڈیریٹی وقف، ترک ماحولیاتی تحفظ وقف اور ترک معارف فاؤنڈیشن شامل ہیں۔ ۲۰۱۸ء میں ترکیہ میں ۱۰۰۲ (ایک ہزار دو) سوشل ایڈ اینڈ سولیڈیریٹی وقف موجود تھے، جن کی ہر ضلع میں کم از کم ایک شاخ موجودہے۔ ان کا بنیادی مقصد غریبوں اور ضرورت مندوں کو براہ راست مالی و مادی امداد فراہم کرنا ہے، تاکہ ان کی خوراک، رہائش، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور دیگر ضروریات پوری کی جا سکیں۔
۲ مئی ۱۹۲۰ء کو وقف کے انتظامی معاملات کو ترکیہ کی پہلی ’گرینڈ نیشنل اسمبلی‘ نے وزرا کے انتخاب کا ایک قانون منظور کیا، جس کے تحت ’وزارتِ شریعت و اوقاف‘ (Şeriye ve Evkaf Vekâleti) قائم کی گئی جس نے پرانی ’وزارتِ اوقافِ شاہی‘ کی جگہ لے لی۔ حالانکہ اس دورکے ابتدائی حصے میں پرانی ’وزارتِ اوقافِ شاہی‘ بھی فعال تھی، خاص طور پر استنبول کے علاقے میں۔ ۳مارچ ۱۹۲۴ء کو وزارتِ شریعت و اوقاف کو ختم کر دیا گیا۔ اس کے بعد وزیر اعظم کے ماتحت ایک نیا ادارہ،’ڈائریکٹوریٹ جنرل آف وقف‘قائم کیا گیا۔
مرات چیزاکچا نے اپنے ریسرچ پیپر From Destruction to Restoration: Islamic Waqf in Türkiye and Malaysia میں لکھا ہے: ’’۱۹۶۷ء کے نئے وقف قانون نے ترکیہ میں وقف کے نظام کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا، کیونکہ ’صرف اوقاف کے جائیداد کے حقوق کی دوبارہ ضمانت نہیں دی گئی، بلکہ وقف اور کمپنیوں کے روابط کو بھی مضبوط کیا گیا‘‘۔
ڈاکٹر مراشلی اپنے پی ایچ ڈی کے تھیسس میں لکھتے ہیں:’’ ترکیہ میں سب سے حالیہ وقف قانون ۲۰۰۸ء میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت تمام حکومتی اداروں کو پابند کیا گیا کہ وہ قبضے میں لی گئی وقف جائیدادیں اصل اوقاف کو واپس کریں۔ اس حوالے سے، صرف استنبول میں، ۷۷ اہم وقف جائیدادیں اس قانون کے تحت واپس کی گئیں، جن میں سلیمانیہ مسجد، فاتح مسجد، سلطان احمد مسجد (بلیو مسجد)، آیاصوفیہ مسجد، حرکۃِ شریف مسجد، ایوپ سلطان مسجد، یینی مسجد، بیشکتاش ووڈافون پارک اسٹیڈیم (جزوی)، شیشلی اطفال ہسپتال، عدیلہ سلطان محل، معمار سنان گوزل سنات یونی ورسٹی، گالاتا ٹاور، مسالہ بازار، اور گرینڈ بازار شامل ہیں۔
ایک اور اہم پیش رفت جوترکیہ کے ’ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فاؤنڈیشنز ‘ نے شروع کی، وہ ہے پرانی وقف جائیدادوں کی بحالی۔ جس کے تحت سال ۲۰۱۸ء کے آخر تک تقریباً ۵ہزار۲سو۵۰ وقف املاک کو بحال کیا گیا۔ یہ بحالی ’بحال کرو، چلاؤ، منتقل کرو‘ یا ’تعمیر کرو، کرایہ پر دو/چلاؤ، منتقل کرو‘ جیسے طریقوں پر کی گئی۔
آج ترکیہ میں وقف کی پانچ مختلف اقسام ہیں، جو کہ ’مضبوط‘ (mazbūt) وقف، نئے وقف، ’ملحق‘ (mülhak) وقف، اقلیتی وقف اور ’ارسادی‘ (irsādī) وقف ہیں۔ اگست ۲۰۱۹ء تک ترکیہ میں ۵۲ہزار مضبوط (mazbūt) وقف، ۵ہزار۲سو۶۸ نئے وقف — جو ۱۹۲۶ء کے بعد قائم ہوئے ہیں، ۲۵۶ ملحق (mülhak) وقف، اور غیر مسلم اقلیتی کمیونٹیز کے ۱۶۷ وقف موجود تھے۔
یہ بھی واضح رہے کہ ’مضبوط (mazbūt) وقف‘ وہ وقف ہیں، جن کا انتظام اور نمائندگی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فاؤنڈیشنز (DGF) کے ذریعے کیا جاتا ہے، کیونکہ ان کا کوئی منتظم نہیں تھا جب سے انھیں ریاست کے ہاتھوں منتقل کیا گیا تھا۔ ان کی آمدنی کا اہم ذریعہ ان جائیدادوں سے کرائے کی آمدنی ہے، اوریہ آمدنی ان مقاصد کے لیے، جو ان کے وقف ناموں (waqfiyah) میں درج ہیں، جیسے کہ قرآن کی تلاوت، غریبوں، محتاجوں اور مسافروں کو خوراک فراہم کرنا، ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے طلبہ کو وظائف دینا، یتیموں اور معذوروں کو ماہانہ وظیفے دینا، تعلیمی، صحت کی دیکھ بھال اور سماجی امداد کے ادارے اور سہولتیں قائم کرنا، عوام کے لیے سوپ کچن چلانا، اور غریب اور محتاج غیر ملکی مریضوں کا علاج کروانا وغیرہ پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ’ملحق (mülhak) وقف‘ سلطنت عثمانیہ کے ان اوقاف کو کہا جاتا ہے، جو ۱۹۲۶ء سے قبل قائم ہوئے تھے اور آج بھی ان کے بانیوں کی نسلوں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔
اگست ۲۰۱۹ء تک، ترکیہ میں ۵ہزار ۲سو ۶۸ نئے وقف قائم ہوئے ہیں، جو ۱۹۲۶ء کے بعد بنائے گئے ہیں۔ اسی نئے وقف کے تحت فی الحال، ترکیہ میں ۷۳ وقف یونی ورسٹیاں اور چار پیشہ ورانہ اعلیٰ تعلیم کے اسکول ہیں، جن میں ۸ لاکھ ۲۸ ہزار ۶ سو طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کچھ وقف اسلامی تعلیم کے لیے بھی قائم کیے گئے ہیں، جب کہ کئی دوسرے وقف ہیں جنھوں نے پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے ساتھ ساتھ پری اسکول کے ادارے بھی قائم کیے ہیں، جن کا ترک معیشت پر قابلِ ذکر اثر ہے۔ کچھ وقف ایسے بھی ہیں جو ثانوی اور تیسری سطح کی تعلیم میں کامیاب طلبہ کو وظائف دیتے ہیں۔ کئی وقف ایسے قائم کیے گئے ہیں جو تعلیم کی حمایت اور حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لیے آگاہی اور پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ترکیہ کے معاصر وقف نظام کی ایک اہم اور جدید ترین شکل ’وقف کمپنیوں‘ کی صورت میں سامنے آئی ہے، جو نہ صرف فلاحی مقاصد کے لیے قائم کی جاتی ہیں بلکہ معاشی قدر بھی پیدا کرتی ہیں، اور یوں وقف کی روایت کو ایک نئے انداز میں آگے بڑھاتی ہیں۔
اقلیتی (کمیونٹی) یعنی غیرمسلموں کے ’وقف‘ ترکیہ کی سرحدوں میں بسنے والی غیر مسلم برادریوں نے ترک جمہوریہ کے قیام سے قبل قائم کیے تھے۔ آج کے دور میں، ترکیہ میں کل ۱۶۷ اقلیتی اوقاف رجسٹر ہیں، جو رومن آرتھوڈوکس، آرمینیائی آرتھوڈوکس، کیتھولک، اور یہودی برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اوقاف چرچوں، خانقاہوں، یا اسکولوں کے لیے وقف ہیں۔ انھیں ’جماعت وقف‘ (Cemaat Vakıfları) بھی کہا جاتا ہے۔
ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فاؤنڈیشنز (DGF) کی ویب سائٹ کے مطابق، وہ اوقاف جن کے مرکزی دفاتر بیرونِ ملک واقع ہیں اور جن کی ترکیہ میں شاخیں یا نمائندہ دفاتر موجود ہیں (یعنی غیر ملکی اوقاف)، وہ بین الاقوامی سطح پر تعاون کو مفید سمجھنے کی صورت میں، باہمی اصول (ریسپروسٹی) کے تحت، وزارتِ خارجہ اور بوقتِ ضرورت دیگر متعلقہ اداروں کی رائے لینے کے بعد، وزارتِ داخلہ کی اجازت سے ترکیہ میں سرگرمیوں، شراکت، شاخ یا نمائندہ دفاتر کے قیام، اعلیٰ ادارے (فیڈریشن وغیرہ) کے قیام، پہلے سے قائم اعلیٰ اداروں میں شمولیت یا پہلے سے قائم اوقاف کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ، بیرونِ ملک قائم اوقاف کی ترکیہ میں شاخیں یا نمائندہ دفاتر کھولنے اور یہاں سرگرمیاں یا شراکت داری قائم کرنے کے لیے اجازت دینے کے معاملات پر انجمنوں سے متعلق قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس دائرہ کار میں، غیر ملکی اوقاف سے متعلق تمام اُمور و کارروائیاں ’سول سوسائٹی سے تعلقات کی جنرل ڈائریکٹوریٹ ‘ کے ذریعے طے قوانین کے تحت انجام دی جاتی ہیں۔
ترکیہ میں نقد وقف کے ذریعے قائم کردہ وقف بینک
ترکیہ میں ’نقد وقف‘ (Cash Waqf) کا ایک منظم اور مضبوط نظام بھی موجود ہے، جسے ابتدائی طور پر شہریوں کو جائیداد اور دیگر مقامی ٹیکسوں کی ادائیگی میں مدد فراہم کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ ان اوقاف کے ذریعے عوام سے فنڈز جمع کیے جاتے تھے، اور ٹیکس ریلیف کے علاوہ ان فنڈز کو مقامی سطح پر مختلف سماجی اور کمیونٹی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔
ڈاکٹر اوزان مراشلی کے مطابق، ۱۹۵۴ء میں ’ڈیموکریٹ پارٹی‘ کے دورِ حکومت میں نقد اوقاف کے سرمائے کو استعمال کرتے ہوئے وقف بینک (Vakıf Bank) قائم کیا گیا تھا۔ آج ’وقف بینک‘ ،ترکیہ کے ہر شہر میں اپنی خدمات فراہم کر رہا ہے، اور اثاثوں کے حجم کے لحاظ سے ملک کا دوسرا سب سے بڑا بینک شمار ہوتا ہے۔ وقف بینک کے علاوہ ترکیہ میں ایک اور بینک ’وقف پارٹی سپیشن بینک‘ (Vakıf Katılım Bank) بھی موجود ہے، جو ایک شراکت داری (اسلامی) بینک کے طور پر کام کرتا ہے، جس سے وقف کے ورثے اور اس کے ترکیہ کے جدید مالیاتی نظام میں کردار کو مزید وسعت ملتی ہے۔
آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ ترکیہ میں ایک اور ’ایش بینک‘ (İş Bankası) بھی وقف بینک کی حیثیت رکھتا ہے، جو ہندستانی مسلمانوں کی طرف سے ۱۹۲۲ء میں بھیجے گئے عطیات کی مدد سے قائم کیا گیا تھا۔میرے پاس موجود تاریخی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ میرے آبائی شہر چمپارن (بہار) کے لوگ بھی عطیہ دہندگان میں شامل تھے۔ مصطفےٰ کمال پاشا نے اس فنڈ کو جنگ کے بعد ملک کے زخموں پر مرہم رکھنے کے ساتھ ساتھ اسی فنڈ کی بنیاد پر ’ایش بینک‘ قائم کیا۔
انقرہ میں وقف میوزیم کا آنکھوں دیکھا حال
ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ کی ’ملکہ خاتون مسجد‘ کے بائیں جانب ’وقف ورکس میوزیم‘ ہے۔ اس میوزیم کے اندر جاکر معلوم ہوا کہ یہ میوزیم ۲۰۰۹ء میں یورپی میوزیم فورم کی جانب سے نامزد کیا گیا۔اندر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے ترکیہ کے وقف نظام سے متعلق کئی اہم کتابوں، مخطوطات اور وقف پر نکلنے والے میگزین کا دیدار ہوتا ہے، جسے پڑھ کر ترکیہ کے وقف کے نظام کو کافی بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ان میں زیادہ تر مواد ترکی زبان میں ہے، تاہم یہ وقف کے نظام پر گہری بصیرت فراہم کرتا ہے۔ جیسے جیسے آپ اندر کی جانب بڑھتے ہیں، میوزیم میں قالین، دری، قدیم گھڑیاں، تاریخی برتن، خطاطی کے فن پارے اور نایاب مخطوطات سمیت مختلف نادر اشیاء کی نمائش کی گئی ہے۔
اسی میوزیم میں مولانا جلالالدین رومی کی مثنوی، جسے ۱۲۷۲ ہجری میں درویش مہمت فہمی [محمد فہمی]نے فارسی میں لکھا تھا، موجود ہے۔ اس میوزیم میں آکر ہی پتہ چلا کہ ۱۶ویں صدی سے لے کر ۲۰ویں صدی کی پہلی سہ ماہی تک، مسلمانوں کے نزدیک سب سے مقدس مقام خانہ کعبہ کا غلاف ہر سال بلاانقطاع سلطنتِ عثمانیہ سے مکہ مکرمہ بھیجا جاتا تھا۔ اس موقع پر ترکیہ میں ایک عظیم الشان تقریب ’سُرّہ-ہمایوں‘ کے نام سے منعقد کی جاتی تھی۔ ابتدا میں غلافِ کعبہ، جسے 'ستارہ ' بھی کہا جاتا ہے، مصر میں تیار کیا جاتا تھا۔ تاہم، سلطان احمد اول کے دورِ حکومت میں اس کی تیاری سلطنتِ عثمانیہ کو منتقل کر دی گئی، جہاں یہ استنبول کے شاہی محل کے زیرِ نگرانی تیار ہوتا اور پھر سُرّہ عَلائی (وہ فوجی دستہ جو عثمانیوں کی جانب سے جمع کردہ امداد کعبہ لے جاتا تھا) کے ذریعے خانہ کعبہ تک پہنچایا جاتا۔
یہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ اٹھارھویں صدی کے کعبہ کے دو غلاف، جو نیوشہرلی داماد ابراہیم پاشا، جو ایک مشہور وزیر اعظم تھے، نے نیوشہر میں بنائی گئی قُرشُنلو مسجد کو حج کے بعد وقف کیے تھے۔ یہ دونوں غلاف ۲۰۰۳ء میں نیوشہر کی قُرشُنلو مسجد سے چوری کر لیے گئے تھے اور جنرل ڈائریکٹوریٹ آف فائونڈیشنز نے اس کی اطلاع ملکی اداروں، تنظیموں اور دیگر ممالک کو دی۔ جب ان غلافوں کو لندن میں ایک قدیم اشیاء کے تاجر فرانسسکا گیلوے کو فروخت کرنے کی کوشش کی گئی، تو تاجر نے ’ٹوپ کاپی محل‘ کے میوزیم سے ان اشیاء کے بارے میں رائے مانگی۔ میوزیم کی ڈائریکٹریٹ نے فاؤنڈیشنز جنرل ڈائریکٹوریٹ کو مطلع کیا اور اس موضوع پر تحقیقات کے بعد ۲۴ فروری ۲۰۰۴ء کو ترک سفارت خانے نے یہ تاریخی کعبہ کے غلاف فاؤنڈیشنز جنرل ڈائریکٹوریٹ کو واپس کردیے۔ اب یہ دونوں غلاف اسی میوزیم میں محفوظ ہیں۔
میوزیم میں موجود خوب صورت قالینوں اور دریوں کو دیکھ کر میں حیران ہوا کہ ان کا وقف سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ دریافت پر معلوم ہوا کہ ماضی میں جنازوں کے دوران میت کے تابوت پر قالین بچھانا عام رواج تھا، اور تدفین کے بعد اہلِ خانہ یہ قالین بطورِ صدقہ مسجد کو وقف یا عطیہ کردیتے تھے۔ یہ قالین، جو نہ صرف نفیس ڈیزائن کے حامل ہوتے بلکہ جذباتی اور تاریخی اہمیت بھی رکھتے تھے، اب اس میوزیم میں محفوظ اور نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ، سیکڑوں قالین مزید بھی محفوظ ہیں جو فی الحال نمائش کا حصہ نہیں ہیں۔اس میوزیم کا بنیادی مقصد ان لوگوں کی یادگاروں کو محفوظ رکھنا اور پیش کرنا ہے، جنھوں نے وقف کی تہذیب کو پروان چڑھایا۔ اس کے ذریعے نئی نسلوں کو وقف کی عظمت، اس کی معاشرتی اہمیت اور اس کے دیرپا اثرات سے روشناس کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سعودی عرب میں وقف کا نظام
سعودی عرب میں بھی وقف مینجمنٹ کا ایک بہترین نظام موجود ہے۔ یہاں کی ’جنرل اتھارٹی برائے اوقاف‘ (GAA) وقف املاک کی دیکھ بھال اور ترقی کی نگرانی کرتی ہے، تاکہ انھیں اقتصادی اور سماجی ترقی کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکے، اور ساتھ ہی واقف کی نیت و ارادے کو بھی محفوظ رکھا جا سکے۔ اس کے علاوہ یہاں وزارت حج و اوقاف اور وقف کی اعلیٰ کونسل بھی موجود ہے۔
سعودی عرب نے وقف کے نظام کو بہت سنجیدگی سے منظم کیا ہے۔ ۱۹۶۶ء میں سعودی عرب نے اس مقصد سے وقف محکمہ قائم کیا۔ بنیادی طور پر، وقف کا یہ محکمہ مختلف وقف سے متعلقہ امور کو سنبھالنے کا ذمہ دار ہے، جیسے کہ وقف املاک کی منصوبہ بندی اور ترقی، منظور شدہ وقف پروگراموں کا فروغ، وقف کی آمدنی کو مستحق افراد میں تقسیم کرنا۔
یہ بات پیش نظر رہے کہ سعودی عرب نے وقف کی نگرانی اور ترقی کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے ہیں، جن میں ’وزارت حج و اوقاف‘ کا قیام بھی شامل ہے۔ یہ وزارت وقف کو ’واقف‘ کی شرائط کے مطابق فروغ دینے اور نافذ کرنے کی ذمہ دار ہے۔ اسی کے ساتھ، وقف پالیسی کی نگرانی کے لیے حکومت نے ایک ’وقف اعلیٰ کونسل‘ قائم کی، جس کی صدارت وزیر حج و اوقاف کرتے ہیں۔ اس کونسل کے ارکان میں وزارت انصاف کے اسلامی قانون کے ماہرین، وزارت معیشت و خزانہ کے نمائندے، محکمہ نوادرات کا ڈائریکٹر، اور تین افراد اہل دانش اور صحافیوں میں سے شامل کیے گئے ہیں۔ یہ کونسل وقف کی ترقی سے حاصل شدہ آمدنی کے استعمال اور ’واقف‘ کی شرائط کے مطابق وقف کے فروغ کے اقدامات کے تعین کا اختیار رکھتی ہے۔
سعودی عرب میں وقف کی مختلف اقسام موجود ہیں، جیسے ہوٹل، زمینیں، رہائشی عمارتیں، دکانیں، باغات، اور عبادت گاہیں۔ ان میں سے کچھ ’اوقاف‘ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جسے مقدس و محترم شہروں کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، وقف سے حاصل ہونے والے تمام فوائد کا مقصد ان دونوں مقدس شہروں کی ترقی ہے، جیسے رہائشی مکانات کی تعمیر، مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ کے گرد ہوٹلوں کی تعمیر، اور دیگر سہولیات جو حجاج کرام اور عمرہ زائرین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ عوام براہِ راست ان وقف املاک سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، جنھیں حکومت نے منظم کیا ہے، یہاں تک کہ بیرون ملک سے آنے والے حجاج کرام بھی ان سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں اور مکہ و مدینہ میں جاری ترقی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق۲۰۲۰ء تک، وہ وقف املاک جو جنرل اتھارٹی آف اوقاف (GAA) کے تحت منظم کی جا رہی تھیں، ان کی مجموعی مالیت ۶۳؍ ارب امریکی ڈالر تھی۔
سعودی عرب میں وقف کا ایک منظم اور مؤثر نظام موجود ہے، جس کا ہندوستان میں رائج وقف نظام سے کوئی تقابل نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی، سعودی عرب میں جمہوریت کا نظام نہیں ہے، جب کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔ اس لیے انڈین حکمرانوں کی یہ ساری منطق بے معنی اور غیرحقیقی اور مضحکہ خیز ہے کہ ’’ترکیہ و سعودیہ میں بھی تو وقف ریاست کے کنٹرول میں ہے‘‘۔ ہم نے دونوں ممالک میں اوقاف کی نوعیت اور عملی صورت بیان کردی ہے جن کا نام لے کر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔
جب غزہ کی محصور فلسطینی سرزمین پر برستی گولیاں عارضی طور پر خاموش ہوئیں، ماہرین اور میڈیا ماہرین نے ترکیہ کے شہر استنبول میں جمع ہو کر فلسطینی موقف اور مقدمے کو تشکیل دینے کے لیے ایک واضح اپیل کی۔ چوتھے فلسطینی انٹرنیشنل میڈیا اینڈ کمیونیکیشن فورم یعنی ’تواصُل‘ نے اُمید اور عزم کی علامت کے طور پر کام کیا، جس کا مقصد یہ امر یقینی بنانا تھا کہ غزہ میں اسرائیل کی طرف سے ہونے والی تباہی عالمی سطح پر گفتگو کا اَٹوٹ حصہ بنی رہے۔
اس فورم نے دنیا بھر سے آوازوں کو اکٹھا کیا تاکہ فلسطینی موقف کو اُجاگر کیا جا سکے اور ان غلط معلومات کا مقابلہ کیا جا سکے، جو ان کی جدوجہد کی حقیقت کو دھندلا دیتی ہیں۔ ۱۸-۱۹ جنوری کو ’فلسطینی موقف: ایک نیا دور‘ کے موضوع کے تحت منعقدہ اس کانفرنس میں ۵۰ سے زائد ممالک سے ۷۵۰ سے زیادہ شرکاء نے شرکت کی، جن میں صحافی، مصنّفین، مدیران، نشریاتی ماہرین، فوٹوگرافر، فن کار اور ماہرینِ تعلیم شامل تھے۔ غزہ میں تباہی اور انسانی بحران کے پس منظر میں اس کانفرنس نے روایتی اور ڈیجیٹل میڈیا دونوں کا استعمال کرتے ہوئے، فلسطینی موقف فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
افتتاحی تقریب کے دوران، ’تواصُل‘ کے سیکریٹری جنرل احمد الشیخ نے فلسطینیوں کی حالت زار کی درست نمائندگی کی اشد ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے فلسطینیوں کو درپیش خوفناک حالات، – عشروں کے منظم جبر سے لے کر خوراک کی قلت، مسلسل بمباری اور نقل مکانی کی فوری ہولناکیوں تک – کی وضاحت کی۔ انھوں نے ان مظالم کو ’اسرائیلی نسل کشی‘ قرار دینے سے گریز نہیں کیا اور میڈیا ماہرین پر زور دیا کہ وہ سچائی کو اُجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں‘‘۔
الشیخ نے کہا:’’ہمیں فلسطینی مقصد کو روایتی اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے حمایت فراہم کرنی چاہیے۔ یہ ایک نئے دور میں انتہائی اہم ہے‘‘۔ انھوں نے فلسطینیوں کے عزم و استقلال کو سراہا، جو شدید مشکلات کے باوجود اپنے حقوق اور شناخت کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ کانفرنس کا ایک سنجیدہ لمحہ ان صحافیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا تھا، جو اس خونیں جنگ کی رپورٹنگ کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یاد رہے ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد سے اب تک غزہ میں ۲۲۰ سے زائد میڈیا پروفیشنلز اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جو ان خطرات کی خوفناک یاد دہانی ہے، جن کا سامنا ان افراد کو ہوتا ہے جو مظالم کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ کانفرنس میں ان صحافیوں کی تصاویر کی ایک جذباتی نمائش شامل تھی، جن میں سے کئی کو آرٹیفشل انٹیلی جنس کے ذریعے متحرک کیا گیا، تاکہ ان کی آوازیں اور کہانیاں طاقت ور انداز میں گونج سکیں۔
کانفرنس مباحث کے دوران ۱۲ خصوصی ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا، جن میں فلسطینی بیانیے کے نئے دور کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی بحث کی گئی۔ ایک خاص طور پر مفید ورکشاپ بعنوان ’فلسطینی بیانیے کی ترقی میں جدید ڈیجیٹل ٹکنالوجیز کا استعمال‘ تمام صحافیوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوئی۔ ایک اور سیشن میں ایشیا، افریقہ، یورپ، امریکا اور لاطینی امریکا میں غزہ کی کوریج پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اس میں فلسطینی صحافیوں اور فوٹوگرافروں کو درپیش چیلنجوں، ان کے حقوق اور اسرائیلی قبضے کے تحت درپیش رکاوٹوں کو بھی اُجاگر کیا گیا۔
تنظیم کے چیلنجوں اور کامیابیوں پر ’تواصُل‘ کے ڈائرکٹر بلال خلیل نے روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا:’’گذشتہ گیارہ برسوں سے ہم صحافیوں اور اداروں کو ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ فلسطینی مسئلے کو درست طور پر اُجاگر کریں‘‘۔انھوں نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ: دنیا بھر کے میڈیا آؤٹ لیٹس، بشمول بھارت، فلسطین کے بارے میں سچائی کی رپورٹنگ کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں گے۔ انھوں نے غزہ اور فلسطینی مسئلے پر مستقل اور درست رپورٹنگ کرنے والے آئوٹ لیٹس کی تعریف کی۔ فلسطینی جدوجہد کے تسلسل کے بارے میں انھوں نے کہا کہ فلسطین پر قبضہ ۷۷ سال سے جاری ہے، اور فلسطینی عوام کی جدوجہد آج بھی جاری ہے، جو ایک صدی سے زائد عرصے کی مزاحمت کا مظہر ہے۔ انھوں نے خاص طور پرکہا:’’فلسطینی مسئلہ صرف ایک انسانی بحران نہیں، جہاں ایک قوم کو زبردستی بے گھر کیا گیا اور وہ مدد کی محتاج ہے، بلکہ یہ ان لوگوں کی جدوجہد ہے جو اپنی زمین پر آزادی اور عزّت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں‘‘۔
انھوں نے مزید کہا: ’’جب وہ اپنی آزادی حاصل کر لیں گے، تو وہ دنیا بھر میں ضرورت مندوں کی مدد کریں گے۔ لہٰذا، میں بین الاقوامی میڈیا سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف ہونے والی نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں، اور اُن بین الاقوامی انصاف اور انسانی حقوق کے فریم ورک کی حمایت کریں، جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں‘‘۔
جو لوگ اس روح پرور اور انسانیت دوست کانفرنس میں شریک ہوئے، ان کے لیے یہ صرف ایک کانفرنس نہیں تھی، بلکہ یک جہتی کی طاقت اور انسانی روح کی پائیداری کا ایک عالمی ثبوت تھی۔ شرکا کے انہماک اور شوق و جذبے کو دیکھ کر ایک صحافی نے برملا کہا: ’’ہم صرف کہانیاں نہیں سنا رہے؛ ہم ایک ایسی تاریخ کو محفوظ کر رہے ہیں جو کبھی فراموش نہیں ہونی چاہیے‘‘۔
بھارت میں مسلمان، دیگر مذاہب کے ماننے والے اور پسی ہوئی اقوام برہمنی فسطائیت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ۹دسمبر ۲۰۱۹ء کو بھارتی لوک سبھا اور پھر ۱۱دسمبر کو راجیہ سبھا نے ایک نسل پرستانہ قانون منظور کیا۔ یہاں اسی مناسبت سے چھے مختصر مضامین پیش ہیں، جن سے وہاں موجودہ عوامی اُبھار کے خدوخال کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان کے رہنے والے، بھارت کے مظلوموں اور مسلمانوں کی مدد اسی صورت میں کرسکتے ہیں کہ وہ قیامِ پاکستان کے مقاصد کی روشنی میں مضبوط پاکستان بنائیں، خالق اور خلق سے جو عہد کیا تھا اس کے تقاضے پورے کریں۔(ادارہ)
بھارت کی مشرقی ریاست بہار میں ۲۰۱۵ء کے اسمبلی انتخابات کی کوریج کے دوران، میں دربھنگہ ضلع سے نیپال کی سرحد سے ملحق علاقے مدھوبنی کی طرف رواں تھا کہ راستے میں ایک پولیس ناکہ پر گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا گیا۔پولیس جب تک گاڑی کی تلاشی لے رہی تھی، میں سڑک کنارے چائے کے ایک کھوکھے کی طرف چل پڑا۔ چند لمحوں کے بعد پولیس سب انسپکٹر ، جو نیم پلیٹ سے مسلمان معلوم ہوتا تھا، میرے پاس آیا، اور پوچھا کہ ’’کیا دہلی میں ایسی کوئی بات ہورہی ہے کہ انتخابات کے بعد مسلمانوں کو بھارت چھوڑ کر پاکستان جانا ہوگا؟‘‘ اس سوال پر میں چکّرا گیا، اور پوچھا کہ ’’ایسا آپ کیوں سمجھتے ہیں اور کس نے یہ افواہ پھیلائی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیاکہ ’’میں پاس ہی ملاحوں کے گاؤں میں چند آسودہ حال مسلم گھرانوں کے محلے میں رہتا ہوں، اور حال ہی میں ایک تین منزلہ مکان تعمیر کیا ہے۔ چند روز سے گاؤں کا نمبردار مسلسل گھر آکربتا رہا ہے کہ اپنا مکان جلد فروخت کرو، انتخابا ت کے بعد کوئی دام نہیں دے گا، کیونکہ ہم کو بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جلد ہی پاکستان بھگا دیا جائے گا‘‘۔ پوچھاکہ ’’آپ کا گاؤں کتنا دُور ہے؟‘‘ مجھے اب ایک بڑی اسٹوری کی بُو آرہی تھی۔ معلوم ہوا کہ گاؤں قومی شاہراہ سے ہٹ کر چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کی معیت میں گاؤ ں کی طرف چل پڑا۔
نمبردار سے ملا تو اس نے بتایا کہ ’’ایک ہفتہ قبل مجھ کو سمستی پور شہر میں بلایا گیا تھا، جہاں پٹنہ سے ایک لیڈر آئے تھے۔ انھوں نے ایک بند کمرے کی میٹنگ میں تمام نمبرداروں کو بتایا کہ انتخابات کے بعد جب بھارتیہ جنتا پارٹی صوبے میں اقتدار میں آئے گی، تو مسلمان پاکستان جائیں گے اور ان کی جایدادیں گاؤں والوں میں بانٹی جائیں گی‘‘۔ اس سے یہ گرہ کھلی کہ نمبردار اب اپنے طور پر ان مسلم گھرانوں کے ساتھ احسان کرکے یہ یقینی بنارہا تھا، کہ ان کی جایداد انتخابات سے پہلے فروخت ہو، تاکہ پاکستان جانے سے قبل ان کو ’مناسب دام‘ مل سکیں۔
میں نے اپنا صحافت کا چوغہ اتار کر گاؤ ں والوں کو بھارتی آئین، اور اس میں اقلیتوں کو دیے گئے حقوق، بھائی چارہ وغیرہ پر تفصیلی لیکچر دیا۔ اور یہ بھی بتایا کہ دہلی میں اس طرح کی کوئی بات نہیں ہو رہی ہے، بس کوئی آپ کو ورغلا کر اپنا سیاسی اُلو سیدھا کر رہا ہے۔ ان کو یہ بھی بتایا کہ۱۹۴۷ء میں جن لوگوں کو پاکستان اور بنگلہ دیش جانا تھا وہ چلے گئے اور اب جو مسلمان یہاں ہیں، و ہ تو بھارتی شہری ہیں اور ان کو ملک سے باہر نکالنے کا کوئی سوال ہی پید ا نہیں ہوسکتا۔
مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس واقعے کے محض چار سال بعد اتر پردیش کے مظفر نگر قصبے میں ۷۲سالہ حاجی حامد حسین کو پولیس کی لاٹھیوں اور بندوقوں کے بٹ کے وار سہتے ہوئے یہ سنناپڑے گا کہ ’’پاکستان ورنہ قبرستان جاؤ‘‘۔ کلکتہ کے ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق حاجی صاحب قصبے کی ایک معتبر شخصیت ہیں، اور انھی کی وجہ سے علاقے میں ایک روز قبل متنازعہ شہریت قانون کے خلاف ہونے والا مظاہر ہ پُرامن طور پر ختم ہو گیا تھا۔ ان کے گھر کا فرنیچر، باتھ روم ، کچن اور عنقریب بچوںکی شادی کے لیے خریدا ہو ا سامان توڑ پھوڑ دیا گیا تھا۔ اسی طرح میرٹھ شہر میں سینیر پولیس آفیسر اکھلیش سنگھ نے مظاہر ہ کرنے والے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ ’’پاکستان چلے جاؤ‘‘۔
اترپردیش کے متعدد شہروں، قصبوں اور دُور دراز دیہات سے آنے والی خبریں نہایت ہی پریشان کن ہیں۔ ان خبروں میں پولیس تشدد کی جو تصویر سامنے آئی ہے، وہ انتہائی متعصبانہ اور ہولناک ہے۔صوبے میں ۲۵ مسلمانوں کی جانیں چلی گئیں [اور ان اموات کا سبب اس طرح رپورٹ کیا گیا ہے: سینے میں گولی لگنے سے ۶، سر میں لگنے سے ۸، کمر میں لگنے سے ایک، ماتھے پر لگنے سے ایک، گردن پر لگنے سے ۲، اور پیٹ میں گولیاں لگنے سے ۴؍افراد جان سے گئے]۔ اس کے ساتھ ہی سول انتظامیہ مسلمانوں کو نوٹس جاری کر رہی ہے کہ احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصان کو پورا کریں۔ صوبہ اترپردیش کے متعصب وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ یوگی تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ ’’ہم مظاہرین سے بدلہ لیں گے‘‘۔
عہد رفتہ کے نوابوں کے شہر رام پور میں پتنگ بنانے والے محمد عابد دن بھر گھرپر اپنے کام میں مصروف تھے۔ شام کو گھر سے نکلتے ہی گرفتار کر لیے گئے۔ وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ دن بھر شہر میں کیا ہو رہا تھا۔ اگلے دن ان کے گھر پرنوٹس آیا کہ پولیس کی لاٹھی، ڈنڈے اور ہلمٹ کو جو نقصان پہنچا ہے، اس کے لیے خزانہ میں ۱۴ہزار روپے جمع کروائیں۔ سو روپے سے بھی کم یومیہ کمانے والے اور وہ بھی جب کمانے والا ہی جیل میں ہو، ۱۴ہزار روپے کہاں سے لائیں گے؟ اسی طرح ۳۶سالہ یومیہ مزدور اسلام الدین ۲۱دسمبر کو اپنے گھر کے باہر دوستوں کے ہمراہ گھاس پھونس جلا کر آگ تاپ رہا تھا کہ پولیس نے گرفتار کرلیا، اور کہا کہ شہر میں پولیس کی گاڑیوں اور بسوں کی جو توڑ پھوڑ ہوئی ہے اس کا جرمانہ ادا کریں، ورنہ ان کی جایداد ضبط کرکے نیلام کی جائے گی۔
سکرول انڈیا کے مطابق نہٹور کے نیزا سرائے میں ۵۵ سالہ رفیق احمدنے پولیس کے کہنے پر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے عوام سے امن برقرار رکھنے اور گھر جانے کی اپیل کی۔ پُرامن لوگ واپس گھر جانے لگے تو آنسو گیس کے گولے اور لاٹھیاں ان کے سر سے ٹکرانی شروع ہوگئیں۔ حالانکہ کسی نے کوئی پتھر نہیں پھینکا تھا، اس کے باوجود پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ کیرانہ سے کانگریس کے سابق ممبر پارلیمنٹ سعید الزماں صدیقی کے بیٹے نے بتایا کہ ’’پولیس نے ہماری چارکاریں بلاجواز نذر آتش کر دیں۔ ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی ہندی کے سوربھ شکلا کا کہنا ہے کہ مظفر نگر میں پولیس نے توڑ پھوڑ کرنے سے قبل سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیے۔ مگر اس کے باوجود بہت سی ویڈیوز ایسی بھی منظر عام پر آ رہی ہیں، جن میں نظرآرہا ہے کہ لوگ پُرسکون انداز میں چل رہے ہیں اور پولیس اچانک پیچھے سے لاٹھی چارج کرنے لگتی ہے۔ کہیں لوگ سڑک کے کنارے کھڑے ہیں اور پولیس انھیں پکڑ کر زدوکوب کررہی ہے۔ دو پولیس اہلکار ایک شخص کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں، اور پولیس کے دو افراد اسے لاٹھیوں سے پیٹ رہے ہیں۔پولیس کی ایسی درندگی کی ویڈیوز واٹس ایپ میں گشت کر رہی ہیں، جنھوں نے خوف و ہراس پھیلا دیا ہے ۔ لکھنؤ سے گرفتار ہونے والوں میں دیپک کبیر تھیٹر اداکار بھی شامل ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کے بارے میں پتا کرنے کے لیے تھانے گئے تو انھیں بھی گرفتار کرکے ان پر قتل اور فساد بھڑکانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ سابق سینیر پولیس افسر ایس آر داراپوری اور ۷۶سالہ انسانی حقوق کے کارکن محمد شعیب کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ کانگرسی رہنما صدف جعفرکو بھی پتھراؤ کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ، لکھنؤ ایسٹ کے بقول: ’’ہم نے انھیں فساد کرتے ہوئے موقع سے گرفتار کیا ہے ‘‘۔
لکھنؤ میں انگریزی اخبار دی ہندو کے صحافی عمر راشد کو پولیس نے ایک ریسٹورنٹ سے حراست میں لیا۔ نئے شہریت قانون کے خلاف مسلمانوں کے علاوہ شمال مشرق کے سبھی صوبے سراپا احتجا ج ہیں۔ وہاں کئی جگہوں پر حکمران بی جے پی کے دفاتر اور لیڈروں کے گھر بھی جلائے گئے، مگر سزا صرف مسلمانوں کو ہی دی گئی ہے۔ چند سال قبل دہلی کے متصل ہریانہ میںنوکریوں میں کوٹہ کے مسئلے پر جاٹوں نے ریلوے اسٹیشن، شاپنگ مال، پولیس اسٹیشن اور ایک وزیر کے گھر تک کو آگ لگاکر راکھ کر دیا۔ مگر کس کی ہمت تھی کہ ان کو گرفتار کرے، یا پیلٹ گن سے ہی ان کے ہجوم کو منشر کرے، یا ان سے معاوضہ طلب کرے ؟ تاہم، مسلمان کے لیے یہ سب تعزیریں موجود ہیں۔
آج بھارت کی شاہین صفت گھریلو اور پڑھی لکھی مسلم خواتین حجاب کی پاس داری کے ساتھ کچلی پسی قوم کا ہراول دستہ ہیں۔ دہلی کے شاہین باغ سے لے کر پٹنہ، ارریہ ، مدھوبنی، الٰہ آباد کے روشن باغ، سیلم پور، خوریجی، ذاکر نگر، کولکاتہ، کوٹہ، پونے، یعنی پورے بھارت میں مسلم خواتین سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف تحریک میں وہ تاریخی کردار اداکررہی ہیں، جس نے حکمران پارٹی کے کیمپ میں کھلبلی مچا دی ۔
یوں تو ان باہمت اور بہادر خواتین میں تمام ہی مذاہب کی خواتین شامل ہیں ، مگر سچی بات یہ ہے کہ مسلم خواتین کا حوالہ اس لیے زبان زدعام ہوا ہے کہ اس تحریک کی ابتدا انھوں نے ہی کی ہے۔ ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں پیٹا گیا، مظفرنگر، کانپور، فیروز آباد، بجنور میں ان کے سروں میں گولیاں ماری گئیں اور داخلِ زنداں کیاگیا۔ پھر یہ ہوا کہ وہ ایک ایسے کالے قانون کے خلاف میدان میں ڈٹ گئیں، جو ان سے اور ان کی اولاد سے اس ملک میں، اور جہاں وہ پیدا ہوئے، شہریت چھیننے کا شیطانی منصوبہ ہے۔ _یہ شاہین صفت مسلم خواتین آج اسی مودی کے خلاف ہیں، جس نے ’طلاق ثلاثہ‘ کے معاملے پر کہا تھا: ’’مسلم خواتین کا استحصال بند ہونا چاہیے اور انھیں انصاف ملنا چاہیے‘‘۔ یہ مسلم خواتین آج مودی سے سوال کررہی ہیں کہ کیا ’استحصال‘ سے ’نجات‘ اور ’انصاف‘ دلانے کا مقصد ان پر اس ملک کے دروازے بند کرنا، انھیں یہاں سے دربدر کرنا تھا؟ اور وہ جواب بھی دے رہی ہیں کہ ’’ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے‘‘۔
شاہین باغ دہلی سے شروع ہونے والی خواتین کی اس تحریک کا تاریخ میں ذکر سنہرے حروف میں کیا جائے گا۔ سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف تحریک طلبہ نے شروع کی، پھر خواتین سامنے آئیں، اور آج یہ تحریک جسے جمہوریت اور آئین کے تحفظ کی تحریک بھی کہاجاسکتا ہے، سارے ملک میں طلبہ اور خواتین ہی کے دم سے جاری ہے۔ مودی بوکھلائے ہوئے ہیں، اس لیے کہ انھوںنے اس سے پہلے خواتین کی طاقت نہیں دیکھی ہے۔ شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین نے جو تحریک شروع کی ہے، اس نے ساری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ شاہین باغ کی تحریک نے مودی کے فسطائی ایجنڈے کو اس طرح عیاں کردیا ہے کہ ساری دنیا اس پر نفرت بھیج رہی ہے۔
اب کوشش یہ ہے کہ شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین کی تحریک کو کسی طرح سے کمزور کیا جائے بلکہ ختم کردیاجائے۔ اس کےلیے مسلمانوں میں جو نفاق پرور ہیں ان کی بھی مدد لی جارہی ہے۔ میناکشی لیکھی نے کھلے طو رپر دھمکی دی ہے، اور عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جارہا ہے۔ آج ۱۴جنوری کو دہلی ہائی کورٹ نے پولیس سے کہہ دیا ہے کہ یہ قانون کا معاملہ ہے۔ وہ اپنے طورپر شاہین باغ کی خواتین کو ہٹائے۔ پولیس اس کی تیاری کررہی ہے۔ ممکن ہے کہ ان بہادر خواتین پر لاٹھی ڈنڈے برسائے جائیں۔ اب جو بھی ہو، یہ وہ باہمت خواتین ہیں، بقول اسرارالحق مجاز: جنھوں نے ’آنچل کو پرچم‘ بنالیا ہے اور مودی کے ’استحصال‘ اور ’انصاف‘ کے ’جھوٹ‘ کو ان کے منہ پر دے مارا ہے۔ اگر وہ جبراً ہٹائی گئیں تو بھی ’فاتح‘ وہی رہیں گی اور یہ زعفرانی سرکار ہمیشہ ہمیشہ تاریخ میں ظالم اور جابر کے طو رپر ہی جانی جائے گی۔
ہمارے ہاں کہا جارہا ہے کہ ابتدا میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل رہنے والے محمدعلی جناح پر ہندوؤں سے متعلق ایک بلاجواز خوف غالب ہوا۔ اس لیے ۱۹۲۸ء کے کل جماعتی اجلاس میں انھوں نے چودہ مطالبات پیش کیے۔ لیکن اب [۹۱برس گزرنے کے بعد] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ خوف بڑی حد تک صحیح ثابت ہوا ہے۔ پھر گذشتہ ۷۲برسوں کے دوران بھارت میں ان مسلمانوں پر جو ۱۹۴۷ء سے یہیں پر مقیم ہیں، مسلسل دباؤ ڈالا گیا۔ بجاے اس کے کہ تحریک ِ آزادی میں انڈین نیشنل کانگریس کے وعدے کے مطابق مذہب کو ملک کے نظام سے علیحدہ رکھا جاتا، تاریخ کے اوراق پر بھارت قطعی طورمسلمانوں کے خلاف رہا۔
بھارتی دستور مملکت کی دفعہ ۴۸ میں ’’گائے، بچھڑے یا دودھ دینے والے دیگر جانوروں کے ذبیحے پر پابندی عائدہے‘‘ اور یہ پابندی جو بزعم خود ’جدید سائنس‘ کےمفاد میں قرار دی گئی تھی، لیکن اسے ہندو راشٹر کے لیے ایک ہتھیار کے طورپر استعمال کیا گیا۔ اس آئینی اختیار کی بنیاد پر کئی ریاستوں میں گائے کا گوشت (beef) بیچنے کی اجازت نہیں ہے اور اس طرح سے بیف کھانے والے لاکھوں بھارتیوں پر ان کے پسند کے کھانے پینے کی آزادی پر قدغن لگادی گئی ہے۔
وزیراعظم نہرو نے ایک اور قدم آگےبڑھایا۔ بجاے اس کےکہ شہریوں کے لیے ایک معیاری قانون لاگو کیا جاتا، انھوں نےہندو ایکٹ قائم کیا۔ مزیدیہ کہ مندروں کو حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا جو ان کی دیکھ بھال کرتی اور بعض اوقات انھیں فنڈز بھی فراہم کرتی۔ اسی طرح بابری مسجد کا انہدام ممکن نہیں ہوتا اگر اس کے پس پردہ بالخصوص کانگریسی حکومتوں کی چشم پوشی نہ ہوتی۔ اس انہدام سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد کوئی شبہہ باقی نہیں رہا کہ ہندو راشٹر کے اہداف کو جواز بخشنے کے لیے املاک کے حقوق کو بدلا بھی جاسکتا ہے۔ سب سے زیادہ چشم کشا حقیقت تو بھارتی مسلمانوں کی معاشی ومعاشرتی صورت حال ہے۔ گویا کہ یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ’’ تمام ہوشیار اور ذہین مسلمان تو پاکستان چلے گئے ہیں، اس لیے ہمارے ملک کے تمام اہم عہدوں کے لیے یہاں رہنے والے مسلمانوں کے لیے اب کوئی جگہ نہیں ہے‘‘۔ گویا بھارتی مسلمان غیر معیاری قرار دے دیے گئے ہیں۔ اس لیے وہ ملک کے بڑے عہدوں کے اہل نہیں ہیں۔ سچر کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ انڈین افسر شاہی میں محض۲ اعشاریہ ۵ فی صد مسلمان ہیں۔ اسی طرح اگر جموں و کشمیر لائٹ انفنٹری کو الگ رکھا جائے تو دفاعی فورسز میں بھارتی مسلمانوں کی شمولیت محض ۲ فی صد ہے، جب کہ دفاعی فورس میں اعلیٰ مسلم افسران کی شرح تو اس سے بھی کم ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ’اکنامک ٹائمز انٹیلی جنس گروپ‘(ETIG) کے ایک جائزے کے مطابق بھارت کی سب سے بڑی ۵۰۰کمپنیوں میں ڈائریکٹروں اور سینئر ایگزیکٹوز کے عہدوں پر محض ۲ء۶ فی صد مسلمان فائز ہیں۔
اس ضمن میں مجھے وہ چار روزہ نیشنل ریفارم کانفرنس یاد آرہی ہے، جو میں نے بابا رام دیو کے پتن جالی ہیڈ کوارٹرز پر اپریل۲۰۱۳ ء میں منعقد کی تھی۔ اُس وقت ہم ایک نئی سیاسی جماعت (سورنا بھارت پارٹی) بنانے کے لیے مشترکہ طور کام کر رہے تھے۔ اس کانگریس میں ملک بھر کی ۱۰۰ معروف شخصیات بشمول سابق وائس چانسلر اورسابق جرنیل موجود تھے۔ اس کانگریس کے حوالے سے میرا مقصد مجوزہ پارٹی کے منشور کو پیش کرنا اور کچھ نئے تصورات حاصل کرنا تھا۔ اجلاس میں کئی آر ایس ایس اراکین اور حمایتی بھی موجود تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو دفاعی شعبے میں اعلیٰ عہدوں سے نکال باہر کیا جائے۔ کیونکہ ان کاخیال تھا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کی صورت میں دفاعی شعبے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز مسلمان دغا کریں گے۔
میں نے اس خوف ناک تجویز کو مسترد کر دیا اور یہ اچھا ہی ہوا کہ رام دیو اور میں نے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ مگر یہ صرف آرایس ایس نہیں بلکہ کئی ممتاز بھارتی ہندو اُن مسلمانوں کے حوالے سے جانب دار ہیں، جن کے زندگی میں آگے بڑھنے کے ذرا سے بھی امکانات ہیں۔ ویسے بھی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی شرح ہمیشہ مسلم آبادیوں کے تناسب سے بہت کم رہی ہے۔ لیکن بی جے پی نے نیا ریکارڈ قائم کرلیا کہ اس کے ۳۰۳ ممبران پارلیمنٹ میں صرف ایک مسلم رکن ہے۔
یہ اعداد و شمار اپنے آپ میں بہت کچھ بیان کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مجوزہ ہندو راشٹرمیں مسلمان واقعی دوسرے درجے کے شہری ہوں گے، لیکن ’شہریت ترمیمی ایکٹ‘ پاس کر کے اس کے لیے قانونی راہ ہموار کرلی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’شہریت ترمیمی ایکٹ‘ بھارت کی تاریخ میں ایک انتہائی اہم واقعہ بن گیا ہے اور یہ ایکٹ کئی لحاظ سے پریشان کن ہے۔ اس میں سماجی مہاجرین اور معاشی مہاجرین میں فرق ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس ایکٹ میں فوری شہریت کے حصول کے لیے مذہب کو اہمیت دی گئی ہے۔ شہریت دینے سے انکار کرنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ’’آپ مسلمان ہیں‘‘۔ بھارت کے قانون میں اسلام کو سرکاری طور پر تنزل یافتہ قرار دیا گیاہے۔ مسلمانوں کو سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ ان کا مذہب بھارت میں قابل قبول نہیں ہے۔ پولیس انھیں احتجاج کے لیے جمع ہونے کی اجازت بھی نہیں دیتی۔ظاہر ہے کہ دوسرے درجے کے شہری جمہوری حقوق کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں؟ اتر پردیش میں جب وہ صداے احتجاج بلند کرتے ہیں تو ان پر گولی چلائی جاتی ہے اور ان کی املاک ضبط کی جاتی ہیں۔ وزیر اعظم مودی تو مظاہرین کے کپڑوں کو دیکھ کر ان کی شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے حوالے سے یہی طے پایا گیا ہے کہ انھیں پہلے زخم دو اور پھر ان کی تذلیل بھی کرو۔ بھارتی مسلمانوں کے بارے میں مودی کا کھیل کیا ہے؟ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اس بارے میں بی جے پی کے منشور سے تو کچھ زیادہ معلومات نہیں ملتی ہیں۔ لیکن ہمیں مسٹرمودی کی مادری تنظیم (آر ایس ایس) اور ان کے گورو گولوالکر سے صاف صاف جوابات ملتے ہیں، اور وہ مسلمانوں کو ملک دشمن تصور کرتے ہیں: ’’انھوں نے نہ صرف ہماری زمین کے دوبڑے ٹکڑے حاصل کیے ہیں جہاں وہ مکمل طور پر حکومت کر رہے ہیں اور ہمارے باقی ماندہ ملک کو فتح کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں، بلکہ وہ یہاں اچھی خاصی تعداد میں بطور چھپے دشمن کے رہ رہے ہیں‘‘۔
یہی گولوالکرجب جوان تھے تو وہ نازی طرزِ عمل کے گرویدہ تھے۔ ان کا کہنا ہے:’’اپنی نسل کی پاکیزگی اور اس کے کلچر کو برقرارکھتے ہوئے ملک کو سامی نسل، یعنی یہودیوں سے پاک کرکے جرمنی نے پوری دنیا کو جھٹکا دیا، تو ہندستان کے لیے اس سے سیکھنے اور استفادہ کرنے کا ایک اچھا سبق ہے‘‘۔ تاہم، جب انھیں احساس ہوا کہ نسل کشی کرنا آسان نہیں ہوگا، ان کے لیے دوسرے درجے کی شہریت کو قابل عمل سمجھا اور کہا: ’’ہندستان میں غیر ملکی نسل کو یا توہندو مذہب کا احترام کرنا سیکھنا ہوگا، یا ہندو نسل میں ضم ہو جانا ہوگا، یا پھر ملک میں ہندو قوم کا مکمل طور پر تابع دار بن کر رہنا ہوگا۔ وہ کسی چیزکا مطالبہ نہ کریں اور نہ کسی قسم کی مراعات کے مستحق ہوں گے۔ یہاں تک کہ انھیں شہریت کے حقوق بھی حاصل نہیں ہوں گے‘‘۔ مسلمانوں کے لیے گولوالکر کی ہدایات واضح تھیں: ’’واپس آجاؤ پہناوے اور رسومات کے حوالے سے اپنے اجداد کی شناخت اپناؤ‘‘۔ گویا مسلمان اگر بھارت میں رہنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے مذہب کو ترک کرنا ہوگا۔
مودی حکومت کے لیے اب صرف ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو دبانا بند کر دے، ان کے مذہب میں ہر قسم کی مداخلت کو ختم کر دے (بشمول شہریت ترمیمی ایکٹ، مندر کے مالکانہ حقوق اور حج سبسڈی)، اور تمام بھارتیوں کوقانون کے مطابق یکساں حقوق فراہم کرے۔(ٹائمز آف انڈیا، ۲جنوری ۲۰۲۰ء)
۴۵ برس کے محمد ابراہیم علی کی آنکھیں نم ہیں۔ وہ بار بار اپنے ٹوٹے ہوئے مکان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کہتے ہیں: ’’میں یہاں تیج پور سے ایک مسجد میں نماز پڑھانے کے لیے بطور امام آیا تھا اور یہیں بس گیا۔ میں یہاں کی مسجد میں نماز پڑھاتا ہوں۔ پچھلے سات، آٹھ برسوں سے مسلسل تھوڑی تھوڑی رقم جمع کرکے زمین خریدی اور یہ مکان تعمیر کیا۔ لیکن ۵ دسمبر۲۰۱۹ءکو میرے اس آشیانے کو یہ کہتے ہوئے کہ مسمار کر دیا گیا کہ ’’میں بنگلہ دیشی ہوں‘‘۔
یہ کہانی صرف ابراہیم علی کی نہیں ہے بلکہ کم و بیش یہی کہانی آسام کے سونت پور ضلع کے ۴۲۶ خاندانوں کی ہے، جن کے مکان یہی کہتے ہوئے زمیں بوس کر دیے گئے کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں۔ اب ان خاندانوں کے تقریباً ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد شدید سردی کے موسم میں کھلے آسمان تلے بنے عارضی کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ سونت پور کے مکوا، سیرووانی اور بیہیا گاؤں کے کیمپ اس بے بسی اور تباہی کی گواہی دے رہے ہیں۔ ان کیمپوں میں زیادہ تر لوگ ڈیگولی چپوری، بالی چپوری، لالٹوپ، باٹی ماری بھیروی اور لنگی بازار گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ ان کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیے گئے شہریوں کا دعویٰ ہے کہ ’’ہمارے پاس اپنی اپنی زمینوں اور ہندستانی شہریت کو ثابت کرنے والی تمام دستاویزات موجود ہیں۔ اس کے باوجود مقامی بی جے پی کے رکن اسمبلی پدما ہزاریکا نے ہمارے گھروں کو اس لیے منہدم کروا دیا کہ اس بستی کے مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں ڈالے تھے‘‘۔ ڈیگولی چپوری کے محمدابراہیم علی آنسو پونچھتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ان لوگوں نے ہمارے کچّے مکانوں پر ہاتھی چلوا دیا، اور پکے مکانوں پر بلڈوزر چلائے گئے۔ ساتھ میں پولیس فورس کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ ہمیں کچھ بھی بولنے یا کاغذ دکھانے کا موقع نہیں دیا گیا‘‘۔ ابراہیم علی کہتے ہیں: ’’میں اور میرے باپ دادا سب یہیں آسام میں پیدا ہوئے ہیں۔ این آر سی لسٹ میں ہمارا نام تو پہلی مردم شماری۹۵۱ ۱ میں بھی تھا، اور اس بار کے بھی این آرسی میں موجود ہے۔ میرے پاس تمام دستاویز ہیں، پھر بھی نہ جانے کس بنیاد پر مجھے بنگلہ دیشی بتا رہے ہیں‘‘۔
۶۵ سالہ کسان اکاس علی نے گاؤں میں چھوٹے سے مکان کی تعمیر میں اپنی پوری زندگی کا سرمایہ لگا دیا۔ وہ اس پیرانہ سالی میں ایک عارضی کیمپ میں اپنے ساتھ ایک لال پوٹلی لیے پریشان پھر رہے ہیں۔ اس پوٹلی میں ان کے ہندستانی شہری ہونے کے تمام کاغذات موجود ہیں۔ انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہم ایک بار چل کر ان کا بھی گھر دیکھ لیں۔ چنانچہ ہم اپنے دورۂ آسام کے بیچ ان کے ساتھ ان کے باٹی ماری بھیروی گاؤں پہنچے۔ جیسے ہی انھوں نے اپنا تباہ شدہ گھر دیکھا تو ڈبڈبائی آنکھوں کو پونچھتے ہوئے بولے: ’’میرا آبائی گاؤں سیلاب میں بہہ جانے کے بعد ۱۵سال سے زیادہ عرصہ ہوا، میں یہاں رہ رہا ہوں۔ میں آسام کا ایک حقیقی شہری ہوں اور این آر سی میں بھی میرا نام شامل ہے۔ میرا قصور یہ ہے کہ میں سوتیا اسمبلی حلقہ میں جہاں میرا گاؤں پڑتا ہے وہاں ایک ووٹر کے طور پر رجسٹرڈ نہیں ہوں۔ میرے ووٹ کا اندراج پڑوسی انتخابی حلقے میں ہے۔ ایم ایل اے پدما ہزاریکا نے انتظامیہ کی ملی بھگت سے مجھے اور ہم جیسے ۴۰۰ سے زیادہ خاندانوں کو صرف اس وجہ سے علاقے سے باہر نکال دیا کہ ہم نے انھیں ووٹ نہیں دیا۔ اس کارروائی کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ بی جے پی یہاں ہندو بنگالیوں کو آباد کرنا چاہتی ہے‘‘۔
طہورہ خاتون کی بھی یہی کہانی ہے۔ وہ چپ چاپ خاموشی سے اپنے تباہ کردہ گھر کی طرف نظریں ٹکائے ہوئی ہیں۔ کئی بار سوال کرنے کے بعد وہ آسامی زبان میں بتاتی ہیں کہ ’’میرا ووٹ سونت پور میں درج ہے۔ بی جے پی اُمیدوار کو ووٹ نہیں دیا تو اس نے میرا گھر اُجاڑ دیا‘‘۔ اسی کیمپ میں ۶۰ سالہ واحد علی نے بتایا کہ ان کا گھر اس سے قبل نوگاؤں میں تھا اور میں ۱۲ سال پہلے یہاں آیا تھا۔ اسمبلی حلقہ سے بی جے پی اُمیدوار نے میرا مکان گرا دیا ہے کیونکہ میں نے اس کو ووٹ نہیں دیا تھا‘‘۔ کھلے آسمان تلے کیمپ میں مقیم خواتین اور بچوں میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ خواتین کا کہنا ہے کہ: ’’ہمیں ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ریاستی اسمبلی کے لوگ ان کیمپوں میں گھس کر ان کی عزت پر بھی حملہ نہ کردیں‘‘۔
ضیاء الرحمان سے جب پڑھائی کا پوچھا تو اس نوجوان نے سخت غصّے میں کہا: ’’ہم کیمپ میں کیسے تعلیم حاصل کریں گے؟ ہمیں بنگلہ دیشی کا ٹھپہ لگا کر بے گھر اور بے زمین کر دیا گیا ہے، ہم اسکول جانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہاں تو یہ بھی نہیں پتا کہ زندگی کیسے گزرے گی؟ ہم میں زیادہ تر لوگ خود کشی کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔ ہمارے گھر ہم سے چھین لیے گئے۔ پہلے قریب کے گاؤں میں کام مل جاتا تھا، لیکن جب سے حکومت این آر سی اور نیا قانون (شہریت ترمیمی ایکٹ) لے کر آئی ہے، ہم سب بیکار پڑے ہیں‘‘۔
آٹھویں میں پڑھتی سمون نشا ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ لیکن اب اس کے لیے اسکول کی تعلیم ختم ہوگئی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’اسکول کیمپ سے بہت دور ہے۔ اب کیسے جا سکیں گے؟‘‘ اسی طرح نیہا آٹھویں جماعت میں پڑھتی ہے ، اس نے بتایا کہ: ’’اسکول میں سب مجھے بنگلہ دیشی سمجھتے ہیں‘‘۔ یوں ان بچوں پر تعلیم کے دروازے بند ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب ان بچوں کے والدین کو وہاں سے بے گھر کر دیا گیا ہے، اگرچہ ان تمام لوگوں کے پاس اس زمین سے متعلق دستاویزات موجود ہیں۔ اس کی طرف متوجہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر منویندر پرتاپ سنگھ کہتے ہیں: ’’اگر ان کے پاس دستاویز ہے تو انھوں نے یہ زمین غیر قانونی قبضہ کار سے خریدی ہے، کیونکہ یہ ایک سرکاری اراضی ہے‘‘۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وجہ ہے کہ: ’’صرف چند منتخب مکانات کو چُن چُن کر منہدم کیا گیا ہے، جب کہ ان کے بالکل بازو کے مکانات محفوظ ہیں۔ کیا یہ سرکاری اراضی نہیں ہے؟‘‘ اس سوال کا کوئی مناسب جواب نہیں ملا۔
جماعت اسلامی ہند سے وابستہ سماجی کارکن اشفاق حسین کا کہنا ہے کہ ’’پہلے تو یہ بیچارے قدرتی آفات کا شکار ہوئے۔ جیا بھرولی ندی نے ان کی زمین اپنے اندر سمو لی اور اب حکومت کے کارندے ان سے ان کی زمینیں چھین رہے ہیں۔ کسی کے ساتھ اس سے زیادہ نا انصافی اور کیا ہوسکتی ہے۔ یہاں کا ہر فرد جانتا ہے کہ یہ جیا بھرولی ندی لوگوں کی زمین کس طرح چھینتی ہے‘‘۔ اشفاق حسین نے مزید بتایا کہ ’’اگر یہ لوگ واقعی بنگلہ دیشی ہیں تو حکومت کو فوری طور پر انھیں پکڑ کر بنگلہ دیش بھیجنا چاہیے۔ اور اگر وہ نہیں بھیج رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہندستانی ہیں۔ ایسے میں حکومت کو ان کے لیے رہایش کا بندوبست کرنا چاہیے۔ جبری پناہ گزیں کیمپوں میں رہنے کی وجہ سے ان کے بچے تعلیم سے محروم ہورہے ہیں۔ پھر سوال یہ بھی ہے کہ وہ کب تک کیمپ میں قیام پذیر رہیں گے؟ ایک بار بارش شروع ہونے کے بعد تو وہ کیمپ میں رہنے کے لائق بھی نہیں رہیں گے‘‘۔
جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ادارے یہاں کے تین کیمپوں میں لوگوں کو ریلیف کا سامان فراہم کر رہے ہیں۔سماجی کارکن عبدالقادر کہتے ہیں، ’’سونت پور ضلع کا سوتیا اسمبلی حلقہ ایک مثال ہے کہ کس طرح سے آسام میں مسلمانوں کو حکومت کے ذریعے دبایا جا رہا ہے؟ کس طرح سے مسلمانوں کے انسانی حقوق پامال کیے جارہے ہیں اور کس طرح سے حکومت ہندوتوا ذہنیت کو بڑھاوا دے رہی ہے؟‘‘ ۲۶ برس کے شاہ جمال کہتے ہیں: ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد نہیں ہے۔ اس علاقے کے کچھ مسلمان یہاں کے رکن اسمبلی پدما ہزاریکا کے ساتھ بی جے پی میں ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول گئے ہیں کہ آج ان کے گھروں کو گرایا گیا ہے، کل ان کا نمبر بھی آئے گا‘‘۔
مسلم بستیوں کو اجاڑنے کی اطلاع ملنے پر ۲۲ دسمبر کو جماعت اسلامی ہند کے مرکزی سکریٹری محمد احمد نے آسام کے ان علاقوں کا دورہ کیا، اور بے دخل کیے گئے سبھی خاندانوں سے ملاقات کی اور متاثرین کو ہرممکن مدد کی یقین دہانی کرائی۔ جماعت اسلامی ہند اَپر آسام ڈویژن کے اشفاق اللہ حسین اور بذل الباسط چودھری بھی ان کے ساتھ تھے۔ جماعت کی ٹیم نے ان علاقوں کا بھی دورہ کیا جہاں متاثرہ خاندان کے گھر تھے اور جنھیں منہدم کر دیا گیا ہے۔ ٹیم کی جمع کردہ معلومات سے پتا چلا کہ یہ لوگ آسام ہی کے شہری ہیں اور ان کے نام بھی این آر سی میں شامل ہیں۔ متاثرین نے بتایا کہ’’ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ہمارے ساتھ متعصبانہ رویہ اپنایا جا رہا ہے اور ہر طرح سے پریشان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘۔
یہ غریب مسلمان قدرتی آفات اور نفرت کی مار ایک ساتھ جھیل رہے ہیں۔ یہ مجبور و بے کس کھلے آسمان تلے اپنے دن کاٹ رہے ہیں۔ سرپر منڈلاتے خطرات اور مستقبل کے اندیشے ان کی زندگیوں پر مہیب سایے بن کر چھائے ہوئے ہیں۔
این آر سی کے خلاف اور حمایت میں فی الحال پورے بھارت میں مہمات چل رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ جواہر لال نہرو یونی ورسٹی (جے این یو) میں دہشت گردی اور اس میں آر ایس ایس کی فسطائی طلبہ تنظیم اے بی وی پی (ABVP:اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد) کے ملوث ہونے کے ثبوت ذرائع ابلاغ کی زینت بننےلگے ہیں۔ ان دونوں واقعات کے زیر اثر ملک میں سیاسی رجحان ایک خاص انداز میں بدل رہا ہے۔ اس کو وارانسی کی سنسکرت یونی ورسٹی کے انتخابات اور ممبئی میں گیٹ آف انڈیا پر ہونے والے غیر معمولی مظاہرے کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
اترپردیش میں بی جے پی کا جلاد صفت یوگی اقتدار پر قابض ہے۔ جس نے ابھی حال میں مظاہروں کو کچلنے کی نا کام کوشش کی اور ہار گیا۔ ساتھ ہی ساتھ مودی، یوگی اور امیت شا ایسی قانون سازی سے ہندو عوام کا دل جیتنے میں جٹے ہوئے تھے۔ مہم اپنے شباب پر پہنچی تو وارانسی میںواقع سنسکرت یونی ورسٹی کے اندر طلبہ یونین کا انتخاب ہوا، جس میں اے بی وی پی کو منہ کی کھانی پڑی۔ کانگریس کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا نے اے بی وی پی کو چاروںشانے چت کر دیا۔ ان انتخابات میں خود ہندو طلبہ نے سنگھیوں کی چتا جلائی کیونکہ سنسکرت تو شاید ہی کوئی مسلمان پڑھتا ہے۔
بنارس ہندو یونی ورسٹی میں پروفیسر فیروز خان کا تقرر زعفرانی طلبہ کو اس قدر ناگوار گزرا کہ وہ ہنگامے کرنے لگے۔ حالانکہ یونی ورسٹی انتظامیہ نے ضروری ٹیسٹ اور انٹرویو لینے کے بعدہی پروفیسر صاحب کو یہ عہدہ دیا تھا، جنھوں نے ۲۰۱۸ء میں سنسکرت میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔سنگھی طلبہ کا الزام تھا کہ ہماری تہذیب سے بیگانہ شخص ہمیں اور ہمارے مذہب کو کیسے سمجھے گا؟ راجستھان کے پروفیسر فیروز خان نے بتایا ’’جب میں نے سنسکرت کی تعلیم لینی شروع کی تو کسی نے اس پر انگلی نہیں اٹھائی۔ میرے محلے میں ۳۰ فی صد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ خودمسلم مذہبی پیشواؤں نے بھی میری سنسکرت کی تعلیم پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور نہ مسلم سماج نے بھی مجھے کبھی سنسکرت سے دُور رہنے کے لیے کہا‘‘۔ یعنی اپنی رواداری کا ڈھول پیٹنے والے ہندو سماج کے مقابلے میں کہیں زیا دہ مسلمان معاشرہ کشادہ دل، روشن خیال اور روادار ہے۔
سنسکرت یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابی نتائج میں اترپردیش کے اندر ٹھاکروں کی دادا گیری کے خلاف بیزاری کا اظہار ہے۔ اترپردیش کے یوگی راج میں خوف و دہشت کے ماحول کو سمجھنے کے لیے یہ بات کا فی ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد یونی ورسٹی وائس چانسلر نے منتخب طلبہ کو کامیابی کا جلوس نکالنے سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیا۔ یہی کامیابی اگر اے بی وی پی کے حصے میں آتی تو کیا وائس چانسلر یہ مشورہ دینے کی جرأت کرتے؟ اور اگر اعلان ہو بھی جاتا، تو کیا سنگھی طلبہ ان کی بات پر کان دھرتے؟
ہندستان کے اندر برہمنوں کی سب سے بڑی آبادی اترپردیش میں رہتی ہے۔ صوبے کے ۲۰ کروڑ باشندوں میں ۱۰ فی صد یعنی ۲ کروڑ برہمن ہیں۔ ایک عرصے تک یہ لوگ کانگریس میں رہ کر اقتدار میں رہے۔ بی جے پی بنیادی طور پر شہروں کی پارٹی ہے۔ گذشتہ انتخاب میں اس نے ممبئی، پونے، ناگپور، احمدآباد، سورت، بڑودہ اور دہلی کی ساری سیٹیں جیت لی تھیں۔ اس کی بڑی وجہ ان شہروں کا نوجوان طبقہ ہے جو مودی کے پیچھے ہلکان ہوا جا رہا تھا لیکن مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ اور دہلی کی جے این یو اور جامعہ ملیہ نے نقشہ بدل دیا۔ اس تشدد کے خلاف ملک بھر کے دیگر مقامات کے ساتھ ان شہروں میں بھی احتجاج ہوا ۔ ممبئی میں اگست کرانتی میدان پر ہونے والے مظاہرے کو غیرمعمولی کامیابی ملی۔ اس میں غیر مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس کے بعد آزاد میدان پر بھی نوجوانوں کا احتجاج بہت کامیاب ہوا۔ گیٹ آف انڈیا کا ۴۰گھنٹوں تک گھیراؤ تو ایک ناقابلِ تصور واقعہ تھا، اور اسی طرح باندرہ کے کارٹر روڈ پر ہزاروں لوگوں کا سڑک پر آجانا حیرت انگیز تھا۔ ان تمام مظاہروں کی قیادت نوجوان کر رہے تھے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اب یہ طبقہ بی جے پی کے نسل پرستانہ سحر سے نکل رہا ہے اور اس کو سبق بھی سکھانا چاہتا ہے۔
مہاراشٹر میں بی جے پی کے خلاف پس ماندہ طبقات میں بڑھتا اضطراب ایک بڑی لہر کا پتا دے رہا ہے۔ بی جے پی والوں نے پہلے مسلمانوں پر ہجومی تشدد کیا اور اس کے بعد یہ معاملہ دلتوں تک جاپہنچا ہے۔ آگے چل کر اشتراکیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اب یہ لڑائی پارٹی کے اندر پس ماندہ ذاتوں تک پہنچ گئی ہے۔ مہاراشٹر کے دیہات میں یہی طبقات بی جے پی کی قوت کا سرچشمہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس فسطائی جماعت نے بیک وقت پورے سماج کے خلاف نسلی جنگ چھیڑ دی ہے۔
یہ ۱۹۷۸ء کی بات ہے کہ ایران میں اور پھر ۲۳برس بعد ۲۰۱۱ء میں عرب ملکوں، تیونس، مصر اور لیبیا کے عوام اپنے ہاں جابر حکومتوں کے خلاف انقلاب کے پرچم لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے حکومتوں کا تختہ اُلٹ دیا۔ کہیں یہ انقلاب کامیاب ہوا اور کہیں دنیا کی بڑی طاقتوں کی سازش اور خلیجی ملکوں کی پشت پناہی سے یہ انقلاب اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکا۔ جو منظر ان عرب ممالک میں چند سال پہلے دیکھنے میں آیا تھا، وہی منظر اب بھارت میں دیکھنے میں آرہا ہے ، جس کے طول وعرض میں احتجاج کی لہر اُٹھ رہی ہے۔ یونی ورسٹیوں کے طلبہ اور خواتین کا اس میں قائدانہ کردار ہے۔
حدیث نبویؐ کی روشنی میں انسان کو نہ تو ظالم ہونا چاہیے اور نہ مظلوم۔ ظلم کا مقابلہ کرنا ایک دینی قدر ہے۔ جو نوجوان حکومت کے ظلم کو روکنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، وہ قابل قدر ہیں۔ ہرخاص و عام میں یہ احساس پختہ تر ہے کہ اگر اس وقت مزاحمت نہ کی گئی، تو اس ملک میں اقلیتوں کو لوحِ ایام سے مٹا دیا جائے گا ۔ پھر نہ مسجدیں رہیں گی، نہ گرجے اور نہ مدرسوں کا وجود باقی رہے گا۔ ہجومی تشدد، جے شری رام کے نعرے، تین طلاق کا قانون ،دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اےکی منسوخی، بابری مسجد، اور اب شہریت کے قانون میں ترمیم کا ایکٹ، یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتاجارہا ہے۔ اگر ظلم کی اس سیاہ رات کے خلاف پوری طاقت سے عوام نہیں کھڑے ہوں گے تو اس ملک کو ایک نیا اسپین اور ہندو راشٹر بنانے کا خواب پورا ہو گا ۔
اس منظر نامے کی ایک قابلِ ذکر خاص بات یہ ہے کہ معروف علما یا مذہبی قیادت کا کردار اس میں قائدانہ نہیں ہے۔ جب پورا ملک احتجاج کے نعروں سے گونجنے لگا تو پھر کچھ علما جو پہلے بی جے پی کی بولی بول رہے تھے، وہ بھی نئے قوانین کے خلاف لب کشا ہوئے۔ حالانکہ ظلم اور ناانصافی کی مخالفت میں پہلی آواز تو انھی کی بلند ہونی چاہیے تھی۔ جیساکہ شاہ بانوکیس میں احتجاج منظم کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے تحریک خلافت اور بھارت چھوڑو تحریک میں علما نے بڑے بڑے احتجاج منظم کیے تھے۔ ایران اور پھر بہار عرب کی قیادت دینی شخصیات نے کی تھی۔ بعدازاں اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوگئے ،جو اپنے ملکوں میںاستبدادی نظام کو پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن دنیا کی بڑی طاقتوں کو پسند نہیں تھا کہ عرب اور مسلم ملکوں میں جمہوریت آئے ،شریعت کا نفاذ ہو، اور استبدادی نظام کا خاتمہ ہو ۔ دولت مند خلیجی ملک بھی اپنی اپنی حکومتوں کو بچانے کے لیے ردِ انقلاب کی کوششوں کے ساتھی بن گئے۔ ہزاروں مسلمانوں کا خون بہا اور انقلاب کی کوشش ناکام ہوگئی ۔
بھارت کی موجودہ احتجاجی تحریک یونی ورسٹیوں کے طلبہ و طالبات جرأت مندانہ اور سرفروشانہ انداز میں چلارہے ہیں۔ اس سے حکومت کو اندازہ ہوا کہ مسلمانوں کا مذہبی طبقہ بھی حکومت کا ہم نوا نہیں ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ افسوس ناک آثار موجود ہیں کہ کچھ مؤثر علما اس احتجاج کو بھی محض ایک سیاسی کام سمجھتے ہیں۔یہ چیز اس بات کی علامت ہے کہ طبقۂ علما میں ایک تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہے جو بصیرت اور اندیشۂ فردا سے محروم ہے۔ ظلم کے خلاف کھڑاہونا ایک دینی قدر ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں ہے: اِنَّ النَّاسَ ا ِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَم یَأْخُذُوْا عَلٰی یَدَیْہِ اَوْشَکَ اَن یَّعُمَّہُمُ اللہُ بِعِقَابٍ مِنْہُ [الترمذی، ابواب الفتن، حدیث:۲۱۴۵] ’’ لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں، توقریب ہے کہ اللہ ان سب کو اپنے عذاب میں لپیٹ لے‘‘۔
بھارت میں ۷۰ ہزار کروڑخرچ کرکے این آر سی، یعنی رجسٹریشن کا قومی ترمیمی قانون لایا گیاہے۔ جس کے ذریعے بنگلہ دیش سے آئے ہوئے ۵ لاکھ ہندووں کو ہندوستانی شہریت دی جائے گی اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مسلمانوں کو نظربند کیمپوں میں رکھا جائے گا یا ان کو ملک بدر کردیا جائے گا ۔ شہریت ثابت کرنے کے لیے وہ دستاویز طلب کی جائیں گے، جن کا مہیا کرنا تقریباً ۲۵ فی صدی آبادی کے لیے مشکل ہوگا۔ اگر وہ مسلمان نہیں ہیں تو ان کو شہریت مل جائے گی، اور مسلمان ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ جب قانون کا یہ طبلِ جنگ بجا تو کم نظر مسلم قیادت اپیل کرتی رہی،’’ مسلمان شہریت کا دستاویزی ثبوت تیار رکھیں‘‘۔ایسی تیرہ و تار فضا میں سب سے پہلے جامعہ ملیہ، پھر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور ساتھ ہی جواہر لال نہرو یونی ورسٹی (جے این یو) اور دیگر یونی ورسٹیوں کے طلبہ نے بیداری اورزندگی کا ثبوت دیا ہے۔ اقبال نے کہا تھا ’’ جوانوں کو پیروں کا استادکر‘‘۔ ان شاہین صفت بچوںنے سال خورد عقابوں کو جینے کا سلیقہ سکھایا ہے، جن کو اپنا اور مسلمانوں کا مستقبل عزیز ہے ۔شاہین باغ کی مسلم خواتین نے بھی فسطائیت کے خلاف اس جنگ میں حصہ لیا ہے ۔
مسلمان نوجوان طلبہ، غیر مسلم قائدین کو بھی ساتھ لے کر میدان میں آگئے کہ اُمید کے چراغ بجھنے لگے تھے۔ انھوں نے نوجوانوںکی شیرازہ بندی کی، اور انصاف پسند ہم وطنوں کو ساتھ لیا۔ ایک طرف نوجوانوں کا عزم جواں ہے، دوسری طرف ظلم وستم کا کوہ گراں ہے۔ اس صورتِ حال میں ایمان، تقویٰ اور صبر، تینوں سے مل کر کامیابی کا راستہ نکلتا ہے۔
قرآن کریم سے اور سیرت نبویؐ کے مطالعے سے دین کا جومزاج سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ ’’صرف مسلمانوں کی اصلاح کی فکر نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمام بنی نوع انسان کی عاقبت بخیر ہونے کی فکر کی جانی چاہیے‘‘۔ مسلمانوں کو خیر امت اس لیے کہا گیا تھا کہ ان کو تمام بنی نوع انسان کے لیے مبعوث کیا گیا تھا: اُخْرِجَتْ لِلْنَّاسِ۔ لیکن بیش تر علما نے اپنے خطبات میں معنوی اور عملی تحریف کرڈالی اور اسے اُخْرِجَتْ لِلْمُسْلِمِیْنَ کا مترادف سمجھ لیا ۔تمام انبیاے کرامؑ کے بارے میں آیا ہے: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِيُبَيِّنَ لَہُمْ۰ۭ [ابراہیم ۱۴:۴، ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے ، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے، تاکہ وہ قوم کے سامنے حق واضح کریں]۔
آج، جب کہ ہزاروں مدارس سے بڑی تعداد میں علما تیار ہوتے ہیں، اور وہ صرف مسلمانوں کو خطاب کرنے کے لائق ہیں۔ مسلمانوں کی جماعتیں بھی صرف مسلمانوں کے درمیان کام کرتی ہیں اور ملک کے دوسرے لوگوں سے ان کا رابطہ ٹوٹا ہوا ہے ۔علما کو بھارت کے ۲۰ کروڑ مسلمانوں کی بہت فکر ہے مگر ۱۰۰کروڑ سے زیادہ اللہ کی مخلوق کی کچھ فکر نہیں۔ ایک شخص کے تین بیٹے ہوں: ایک صحت مند ہو (مسلمان کی تمثیل)،دو بیمار ہوں ( کافر اور مشرک)، تو کیا اس کے لیے درست ہوگا کہ وہ بیمار بیٹوں کے علاج کی فکر نہ کرے اور ان سے لاپروا ہوجائے۔ یقین کرنا چاہیے کہ آج جو حالات پیش آرہے ہیں، وہ ہماری صدیوں کی غلطیوں کاشاخسانہ ہیں۔ ہمارا انداز اور طرزِ فکر مزاج نبویؐ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ علماے دین کی بڑی تعداد اس بنیادی طرزِ فکر سے دُور ہے۔اس وقت عام بھارتیوں تک دین کی دعوت پہنچانے سے پہلے ان کو خدمت خلق یا کسی اور عنوان سے اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کرنے کی ضرورت ہے۔اس مقصد کے لیے عمومی رابطے اور حُسنِ سلوک کے ذریعے اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ [المؤمنون ۲۳:۹۶] کا تصور جاگزیںکرنا چاہیے کہ مسلمان اچھا شہری ، اچھا پڑوسی، ایک اچھا انسان ہوتا ہے، شریف، خوش اخلاق اور مہذب۔ ہم نے یہ کام صدیوں سے نہیں کیا ہے۔ اس لیے دشمن عناصر کو یہ موقع مل گیا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کازہر لوگوں کے رگ وپے میں اتار دے۔
شہریت ترمیم ایکٹ کے خلاف احتجاج بہت خوش آیند ہے۔ البتہ سب سے اہم کام یہی ہے کہ عام لوگوں کی غلط فہمیاں دُور کی جائیں۔ ہرمسلمان تنظیم کو چاہیے کہ اس مقصد کے لیے اپنے یہاں شعبہ قائم کرے۔ اگر یہ طویل مدتی منصوبہ دوسرے مختصر مدتی منصوبوں کے ساتھ اختیار نہیں کیا گیا، تو بھارت میں مسلمان دوسروںکے ظلم وستم ہی کا ماتم کرتے ر ہیں گے۔ جن ملکوں میں مسلمان ۸۰،۹۰ فی صدی اکثریت میں ہوں وہاں اس ناقابلِ فہم غفلت کے ساتھ گزارا ہوسکتا ہے، لیکن جہاں چاروں طرف غیر مسلموں کا عددی غلبہ ہو، وہاں غیرمسلموں کو نظرانداز کرنا انبیائی طریقۂ دعوت نہیں ہے ۔اگر یہ ضروری کام نہیں انجام پایا تو منزلِ مقصود حاصل نہ کی جاسکے گی ۔