مارچ ۲۰۲۵

فہرست مضامین

روزے کی حکمت

ڈاکٹرابراہیم عباسی | مارچ ۲۰۲۵ | استقبال رمضان

Responsive image Responsive image

ماہِ رمضان فضیلت و عظمت اور برکت والا مہینہ ہے۔ گناہوں کی مغفرت اور جنت کی ضمانت کا مہینہ ہے ۔قرآن کے نزول اور قرآن سے تعلق جوڑنے کا مہینہ ہے ۔ایک پاکیزہ اور گناہوں سے پاک ماحول میں آگے بڑھ چڑھ کر نیکی کے کاموں میں حصہ لینے اور عملِ خیر کرنے کا مہینہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ رمضان کے آتے ہی تقویٰ، خوفِ خدا اور نیکی کا ایک نیاجوش اور ولولہ دیکھنے میں آتا ہے ۔ہر شخص کچھ نہ کچھ نیکی کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے ۔مساجد میں رونق بڑھ جاتی ہے، تلاوتِ قرآن کا اہتمام ہوتا ہے، اور ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبے کے تحت انفاق اور حاجت مندوں کی امداد کی جاتی ہے۔اجتماعی طور پر نیکی کا ماحول ہوتا ہے ۔گویا نیکیوں کے لیے موسم بہار کا سماں ہوتا ہے ۔کم و بیش پورا ماہ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے بلکہ آخری عشرے میں اعتکاف کا خصوصی اہتمام خصوصاً شب قدر کے موقع پر عبادات ،نوافل کی ادائیگی اور شب بیداری کے لیے لوگوں کا جذبہ دیدنی اور ایمان افروز ہوتا ہے ۔

دوسری طرف رمضان کے گزرتے ہی بلکہ چاند رات ہی کو یہ صورتِ حال بدلتی محسوس ہوتی ہے ۔جذبۂ ایمانی سرد پڑنے لگتا ہے اور روزے کی وجہ سے لوگ جن غلط کاریوں سے رُکے ہوتے ہیں ان کا پھر سے ارتکاب کرنے لگتے ہیں ۔ نماز کی ادائیگی میں کمی آجاتی ہے اور مسجدوں کی رونق ماند پڑنے لگتی ہے ۔قرآن کی تلاوت اور قرآن سے وہ تعلق نہیں رہتا جو اس ماہ میں لوگوں کا معمول بن جاتا ہے ۔عبادت کے ذوق و شوق میں کمی آجاتی ہے ۔حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی وہ تمیز کم ہونا شروع ہوجاتی ہے جس کا رمضان کے تقدس و احترام میں اہتمام کیا جاتا ہے ۔گویا رمضان میں اگر قید یا پابندی تھی تو رمضان کے بعد ایک دفعہ پھر بے قیدی ہو جاتی ہے ۔

  • آخر اس کا سبب کیا ہـے؟ : اگر غور کیا جائے تو اس کے دو بنیادی اسباب ہیں ۔پہلا سبب تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں عبادت کا رسمی تصوّر پایا جاتا ہے ،حقیقی شعور نہیں ۔لوگوں کے نزدیک نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی ادائیگی اور کچھ نیک کام کر لینے کا نام ہی عبادت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ ان عبادات کا پوری طرح اہتمام کرتے ہیں ۔گویا ان کے لیے چند افعال کی ظاہری شکلوں کی ادائیگی کا نام ہی عبادت ہے۔یہی وجہ ہے کہ لوگ رمضان میں روزے کے آداب اور دیگر عبادات کا تو بہت اہتمام کرتے ہیں لیکن رمضان کے گزرتے ہی ان کے معمولات میں فرق آجاتا ہے۔
  • عبادت کا حقیقی تصور: کیا عبادت کے لیے کچھ لمحات اور اوقات مخصوص ہیں کہ ان میں اللہ کی بندگی کی جائے؟ ان لمحات میں تو میں اللہ کا بندہ ہوں اور بعد میں اپنے نفس کا بندہ بن جاؤں؟

عبادت دراصل ہر وقت اور ہر حال میں خدا کی بندگی اور اطاعت کا نام ہے ۔درحقیقت نماز ،روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کے ذریعے پوری زندگی میں خدا کی بندگی اور اطاعت کی مشق کروائی جاتی ہے۔ نماز دن میں پانچ مرتبہ یہ یاد دلاتی ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں، اسی کی بندگی کرنی ہے۔ روزہ سال میں ایک مرتبہ مہینہ بھر خدا خوفی اور خدا کی اطاعت کی اجتماعی مشق کرواتا ہے ۔ہم اللہ کے حکم پر کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں اور کھاتے پیتے اور دیگر نفسانی خواہشات کی تسکین کرتے ہیں۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے ہمیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ہمارا مال حقیقت میں خدا کا عطیہ ہے اور ہمیں اسے خدا کی مرضی کے مطابق خرچ کرنا ہے اور اس میں ہمارے غریب بھائیوں کا حق شامل ہے۔ حج کے ذریعے خدا کی محبت اور اس کی بندگی کا گہرا نقش ثبت کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ تمام عبادتیں انسان کو اس بڑی عبادت کے لیے تیار کرتی ہیں جو کہ حقیقی عبادت ہے یعنی خدا کی کامل اطاعت و بندگی ۔

اسلام میں عبادت کی اہمیت اس قدر ہے کہ اسے مسلمان کا مقصد زندگی قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝۵۶ (الذاریات ۵۱:۵۶)’’میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں‘‘ ۔

اگر ایک مسلمان اپنے مقصد زندگی کو ہی نہ پا سکے تو کتنی بڑی ناکامی اور خسارہ ہے۔لہٰذا عبادت کے حقیقی شعور کا اُجاگر ہونا ناگزیر ہے۔ مسلمانوں میں جب عبادت کی حقیقی روح بیدار ہوگی تو پھر رمضان کے بعد بھی وہ خدا کی عبادت میں مصروف رہیں گے بلکہ رمضان جیسے بابرکت مہینے کی مشق ان میں تقویٰ اور پرہیزگاری کے اضافہ کا باعث ہوگی ۔

رمضان کے بعد عبادات میں کمی کا ایک دوسرا بنیادی سبب اجتماعی ماحول اور اجتماعیت کی کمی ہے ۔ماہ رمضان میں پورے ماحول پر نیکی کا رنگ غالب ہوتا ہے ۔نیکی کرنا آسان اور برائی کا ارتکاب مشکل ہوتا ہے ۔رمضان کے رخصت ہوتے ہی ماحول میں بڑی حد تک تبدیلی آ جاتی ہے اور نیکی کرنا مقابلتاً مشکل ہو جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نیکی کا جذبہ سرد پڑنے لگتا ہے اور عبادات میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ رمضان کے بعد نیکی کرنے کے جذبے کو تروتازہ رکھنا ایک مسلمان کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے ۔شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے اور اس کے مقابلے کے لیے اجتماعیت ناگزیر ہے جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اجتماعیت کی اسی اہمیت کو واضح کیا ہے ۔جیسا کہ آپؐ نے بیان فرمایا :’’بھیڑیا اسی بھیڑ کو کھاتا ہے جو اپنے ریوڑ سے الگ ہو جاتی ہے ‘‘۔لہٰذا رمضان کے بعد نیکی اور پرہیزگاری کے عمل کے تسلسل کے لیے اجتماعیت سے جڑے رہنا اور نیک صحبت اختیار کرنا جہاں بے حد ضروری ہے وہاں نیکی کے جذبے کے ماند پڑ جانے کا علاج بھی ہے۔

  • بـے روح روزہ :درحقیقت روزے کی اصل روح یہ ہے کہ ’’آدمی پر اس حالت میں خدا کی خداوندی اور اپنی بندگی و غلامی کا احساس پوری طرح طاری ہو جائے اور وہ ایسا مطیع امر ہو کر یہ لمحات گزارے کے ہراُس چیز سے رُکے جس سے خدا نے روکا ہے، اور ہر اس کام کی طرف دوڑے جس کا حکم خدا نےدیا ہے ۔روزے کی فرضیت کا اصل مقصد اسی کیفیت کو پیدا کرنا اور نشوونما دینا ہے نہ کہ محض کھانے پینے اور مباشرت سے روکنا، یہ کیفیت جتنی زیادہ ہو روزہ اتنا ہی مکمل ہے، اور جتنی اس میں کمی ہے اتنا ہی وہ ناقص ہے۔

اگر کسی آدمی نے اس احمقانہ طریقے سے روزہ رکھا کہ جن جن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے ان سے تو پرہیز کرتا رہا اور باقی تمام اُن افعال کا ارتکاب کرتا چلا گیا،جنھیں خدا نے حرام کیا ہے، تو اس کے روزے کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک مُردہ لاش کہ اس میں اعضا تو سب کے سب موجود ہیں جن سے صورتِ انسانی بنتی ہے مگر جان نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان انسان ہے۔جس طرح اس بے جان لاش کو کوئی شخص انسان نہیں کہہ سکتا اسی طرح اس بے روح روزے کو کوئی بھی روزہ نہیں کہہ سکتا ‘‘۔(اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، از سیّد مودودی)

یہی بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی کہ’’جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی حاجت نہیں ہے کہ وہ آدمی اپنا کھانا پینا چھوڑ دے‘‘(بخاری) ۔ اسی بات کوایک دوسرے انداز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا:’’کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا اور کتنے ہی رات کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں جنھیں اس قیام سے رات جاگنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔(دارمی )

  • آیئے! اب ذرا اپنا احتساب کرلیجیے :
    • کیا ہم نے رمضان کے حقیقی مقصد کو اب تک جانا؟
    • کیا ہم نے روزے کی اصل روح کو پایا ؟
    • زندگی میں اب تک جتنے رمضان ہم نے پائے کیا ہم نے ان سے فائدہ حاصل کیا یا درحقیقت انھیں گنوا دیا ؟
    • کیا ہر دفعہ کی طرح یہ رمضان بھی ہمارا اسی طرح گزر جائے گا؟

روزے تو پچھلی امتوں پر بھی فرض تھے (البقرہ۲:۱۸۳)۔ہمارےلیے رمضان کی خصوصی بات اس میں قرآن کا نزول ہے ۔رمضان دراصل قرآن کا مہینہ ہے ۔کیا ہم نے اس رمضان میں قرآن سے اپنا تعلق مضبوط کیا ؟

ہم مشکل سے مشکل دُنیوی علوم حاصل کر سکتے ہیں ۔ اگر کچھ نہیں ممکن ہے تو بس قرآن کو سمجھ کر پڑھنا اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا اور عمل کرنا۔خدا نخواستہ اگر روزِ قیامت ہم سے اللہ نے یہ سوال کر لیا اور ہم پر قرآن سے بے پروائی کا مقدمہ دائر کر دیا کہ دنیا کے دیگر مشکل علوم تو ہم نے سیکھ لیے مگر قرآن کو کبھی اس قابل ہی نہ سمجھا کہ اس کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش  کی، یا ارادہ بھی کیا، تو محشر کی عدالت میں ہمارے پاس اس بات کا کیا جواب ہوگا ؟

اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ ہمیں رمضان کی خیر و برکات کو بہترین انداز میں سمیٹنے کی توفیق دے ۔ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھنے کی توفیق دے ۔ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کرے اور نیکی کی راہ پر استقامت دے۔ صحیح معنوں میں عبادت و بندگی کی توفیق دے۔ قرآن سے حقیقی تعلق قائم کرنے اور اس کی ہدایات کے مطابق عمل کرنے اور دوسروں تک پیغام پہنچانے کی توفیق دے، نیز ضرورت مندوں اور مستحقین کا حق ادا کرنے کی توفیق دے ۔اور اس سب کے نتیجے میں ہماری مغفرت کا سامان کر دے اور جہنم سے نجات اور جنت کا مستحق ٹھیرا دے، آمین !