یورپ کی نشاتِ ثانیہ کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس سے افکارو نظریات میں بہت زبردست انقلاب رونما ہوا۔ یہ انقلاب اس قدر ہمہ گیر اور ہمہ جہت تھا، جس نے انسانیت کوہراعتبارسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگاکہ اس فکری و عملی انقلاب کا دائرہ اور اثرات انقلاب فرانس اور انقلاب امریکا کا بھی سبب بنے۔ اس طرح مذہب ، سیاست، معیشت، معاشرت پر نئے افکارونظریات نے تبدیلیوں کے راستے کھولے۔ یہ تبدیلیاں تعمیر و تخریب کی دُہری صفات کی حامل تھیں۔ فرد کی سطح پر تعلیم، تربیت، شخصیت اور کردار متاثر ہوئے تو رویوں میں بھی کش مکش ، نئے پن اور پرانے پن میں فاصلوں، مخالفت، حتیٰ کہ نفرت نے بھی جگہ بنائی۔
ان ہمہ گیر تبدیلیوں کو جس انقلاب نے جنم دیا، صورت دی یا وہ ان تبدیلیوں کا جواز ٹھیرا، وہ ’لبرل ازم‘ کا ابھرنا اور براہ راست مذہب و معاشرت کو چیلنج کرنا تھا۔ ’لبرل ازم‘ نے بادشاہت اور پاپائیت کی جنگ سے جنم لیا تھا۔ اس طرح جنگ ، کش مکش، تصادم اور تبدیلی اس کی پیدایشی صفات تھیں۔ سب کچھ تبدیل کرنے والا ’لبرل ازم‘ اپنی ان صفات سے کبھی بھی پیچھا نہیں چھڑا سکا۔ آج بھی لبرل حکومتوں کا ریکارڈ انھی صفات سے بھرا پڑا ہے۔
’لبرل ازم‘ نے ان صفات میں سے تبدیلی کی صفت سے انسانیت اور معاشرے کو ہمہ گیر طور پر متاثر کیا ہے۔ یہ اعتراف کرنا ناانصافی ہوگی کہ ’لبرل ازم‘ نے یورپ کو تاریک دور سے نکالا اور اس کے دور خوش حالی اور روشن خیالی کا ایک نیا باب تحریر کیا۔
o لبرل ازم:’لبرل ازم‘ کیاہے؟ یہ بہت آسان سوال ہے۔ ابتدا ہی میں یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ ’لبرل ازم‘، سیکولرازم نہیں ہے۔ سیکولرازم منزل ہے،جب کہ ’لبرل ازم‘ راستہ ہے۔
’لبرل ازم‘ ایک سیاسی نظریہ ہے۔ یہ مذہب، اعتقاد یا ایمان سے مختلف ہے۔ اس نظریے یا فلسفے کی بنیاد دو اصولوں پر رکھی گئی ہے: پہلا اصول آزادی ہے اور دوسرا اصول مساوات۔ جس کام، کردار، عمل، رویے، فکر یا عقیدے میں یہ دو اصول موجود نہیں، یا ایک ہے اور دوسرا نہیں، اسے ’لبرل ازم‘ نہیں کہا جاسکتا۔ ان اصولوں سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کیا فرق ہے جو انسانی زندگی پر مرتب ہوتا ہے، اسے ذیل میں آسان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔
ہم پہلے ’آزادی‘ کے اصول کو لیتے ہیں۔ ’آزادی‘ سے سادہ الفاظ میں مراد یہ ہے کہ انسان ایک فرد کی حیثیت سے ہر طرح سے آزاد ہے۔ اس پر کسی قدغن، پابندی، ضابطے ، اخلاق، قید یا سزا کے اطلاق سے اسے انسانی فطرت سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کوئی مذہب، الہامی، روحانی ہدایت یا فلسفہ اسے اس کی آزادیوں سے محروم نہیں کر سکتا۔ انسان کی حیثیت برتر ہے۔ کسی کی حاکمیت، خواہ وہ اللہ، خداوند ، رام، دیوتا ہی کیوں نہ ہو، وہ حاکمیت اعلیٰ نہیں۔ اس لیے معاشروں میں انسان کے سوا کسی کی حاکمیت اعلیٰ تسلیم نہیں کی جاسکتی ۔ اسی اصول کی رو سے ریاست اور حکومت کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہوتا۔ ریاست سیکولر ہوتی ہے اور حکومت اپنے کام، کردار اور پالیسی میں سیکولر ہوتی ہے۔
اب آئیے مساوات کے اصول کی بات کرتے ہیں۔ جس قدر آزادی کا اصول ہمہ گیر سمجھا جاتا ہے مساوات کا اصول بھی اتنا ہی اہم ہے۔ تاہم اس کی اطلاقی حیثیت اور عملی کیفیت ابھی تک وہ نہیں ہے جو آزادی کے اصول کو حاصل ہو چکی یا دی جا چکی ہے۔ اسے یوں بیان کیا جاسکتاہے:
آزادی اور مساوات کے ان دو اصولوں کو تسلیم کرنا ’لبرل ازم‘ کا اولین تقاضا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ دو اصول مختلف اور متنوع اطلاق رکھتے ہیں۔ ان کا اظہار اور استعمال فرد، گروہ ، معاشرت، قوم اور ملک میں مختلف ہے۔ ان کی تشریحات مذہب، عقیدے، نظریے کی رُو سے یکساں نہیں ہیں۔ مغربی معاشروں میں آزادیِ اظہار مذہبی شخصیات کے بارے میں جو کچھ نتائج پیدا کرتی ہے، مسلم معاشروں میں اس سے مزاحمت، نفرت، جارحیت، بے بسی اور مایوسی کے رویے اور جذبات پیداہوتے ہیں۔ ان کیفیات میں ’لبرل ازم‘ ان دونوں اصولوں کو ہی مقدم رکھتا ہے۔
بظاہر تو سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ’لبرل ازم‘ کا پیروکار، اس کا ماننے اور اس پر عمل پیراہی لبرل ہے، تاہم اس سوال کا نہایت آسان جواب یوں دیا جاسکتاہے کہ لبرل وہ ہے جو:
اُوپر بیان کردہ کیفیات اور شرائط کسی بھی لبرل کی ذات یا شخصیت کا احاطہ کرتی ہیں۔ معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے لبرل کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے:
o قدامت پرست کون؟ اب ہم دیکھیں گے کہ قدامت پرست کون ہے؟ قدامت پرست کو لبرل کا متضاد کہا جاتا ہے۔ جو فرد لبرل نہیں وہ اس اعتبار سے قدامت پرست ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہے، اس کا مذہب کچھ بھی ہے، وہ قدامت پرست ہے۔ تاہم قدامت پرست کا متضاد ہرحال میں لبرل نہیں ہوگا۔
ہمارے معاشرے میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ قدامت پرست کون ہے اور لبرل کون؟ عام طور پر جب کسی کو ’قدامت پرست‘ کہا جاتا ہے تو اسے یوں لگتا ہے کہ کسی نے اسے گالی دی ہے۔ اس سے جارحیت ابھرتی اور اشتعال پیدا ہوتا ہے۔
یہ بالکل فطری سوال ہے کہ قدامت پرست کون ہے؟ پہلا جواب تو یہی ہے کہ یہ لبرل کا متضاد ہے۔ یہ معاشرت کے طے شدہ اصولوں اور مروجہ نظام کا دفاع کرتا ہے یا کرنا چاہتا ہے۔ یہاں یہ خلط مبحث بھی ہو جاتا ہے کہ ایک طرف قدامت پرست ہے یا روایت پرست ہے تو اس کے مقابل دوسرا فرد روشن خیال ہے، سیکولر ہے یا لبرل ہے یا پھر جدیدیت پرست، جسے انگریزی زبان میں ماڈرن کہا جاتا ہے۔
o لبرل ازم اور قدامت پرستی کا فرق:ان اصولوں اور کیفیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں بھی بڑے خلط مبحث کا خطرہ ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم ایک مختصر سا موازنہ و تقابل یہاں پیش کر رہے ہیں جس سے واضح طور پر یہ فرق اور قدامت پرستی کا مفہوم سامنے آجائیں گے۔
امریکا میں صدارتی انتخابات کا مرحلہ جاری ہے۔ ان کے حوالے سے ہم یہ جاننا چاہیں کہ دائیں بازو والا کون ہے اور بائیں بازو سے کس کا تعلق ہے، تو ری پبلکن پارٹی قدامت پرست ہے، اسے گرینڈ اولڈ پارٹی(GOP)بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مضبوط وفاق کی حامی ہے اور اس کے نظریات کو ان کی انتہائی صورت میں فاشزم کے قریب کہا جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جو ری پبلکن صدارتی امیدوار بننا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ صدر بن گئے تو مسلمانوں کا امریکا میں داخلہ بند کر دیں گے۔ ری پبلکن امیدوار امیگریشن قوانین سخت بنانے کے حامی ہیں۔ یہ جمہوری ہونے کے باوجود ری پبلک کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔دوسرے ممالک بالخصوص مسلم ممالک کو قوت کے استعمال سے جمہوری بنانا چاہتے ہیں۔عراق اس کی مثال ہے۔
ڈیموکریٹ پارٹی لبرل اور ترقی پسند جماعت سمجھی جاتی ہے۔ جمہوریت کو اولیت دیتی ہے اور ہر ریاست کے واضح تشخص کی بات کرتے ہوئے ڈھیلے ڈھالے وفاق پر یقین رکھتی ہے۔ یہ بائیں بازو کی پارٹی ہے اور اپنی انتہائی نظری صورت میں کمیونسٹ نہ ہونے کے باوجود کمیونزم کے قریب چلی جاتی ہے۔
ہم آسان الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دنیادار فرد ہے۔ یہ مذہب کو ماننے کے باوجود مذہبی نہیں ہے۔ یہ مذہبی اشرافیہ سے بہت فاصلہ رکھتاہے۔ اپنی ذات اور شخصی اوصاف کے اعتبار سے لبرل ہے، قدامت پرست نہیں۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ ’لبرل ازم‘ ابتدا ہے ، راستہ ہے، جب کہ سیکولرازم اظہارہے، منزل ہے۔ ایک سیکولر فرد، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، مذہب یا الحاد کو اپنی شناخت نہیں بناتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ ’لبرل ازم‘ سے فاشزم کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ لبرل نظریات پر عمل کراتے ہوئے یہ خود بھی فاشزم کا اظہار کرنے لگے ۔ امریکا اس کی مثال ہے۔ سیکولر سمجھتا ہے کہ معاشرتی اور معاشی معاملات میں مذہب کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس لیے سرمایہ داری کو معاشی راستہ بھی سمجھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ دنیا کے معاشی مسائل کے حل میں مذہب ناکام ہوچکاہے۔ وہ اس بحث کو غیر ضروری سمجھتا ہے کہ مذہب کو ایسا حل پیش کرنے کی اجازت ہی کب دی گئی ہے۔پاکستان کی مثال سامنے ہے جس میں سود کے بغیر کاروبار زندگی کا چلنا ناممکن قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دینی جماعتوں کو مسترد کرنے کی بڑی وجہ بھی ہے۔
o لبرل مسلمان؟ اس مختصر تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ جامع انداز میں بتایا جائے کہ ’لبرل ازم‘، قدامت پرستی، لبرل، قدامت پرست اورسیکولر کیا ہیں؟ کون ہیں اور ان کے خیالات کیا ہیں؟ اب ہم نسبتاً متنازع معاملہ زیر بحث لاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ آیا مسلمان لبرل ہوتا ہے، ہو سکتا ہے؟ یاد رہے کہ لبرل طبقات کا کہنا ہے کہ لبرل مسلمان ایک گمراہ کن تعارف ہے۔
اس پہلو کو سمجھنے کے لیے ایک مثال مستعار لی جا رہی ہے۔ لبرل کہتے ہیں کہ ایک چڑیا گھر کا تصور کیجیے۔ اس میں پنجروں میں مختلف جانوروں کو قید رکھا جاتا ہے۔ لبرل مسلمان بھی ایک جانور ہے جو مذہب کے چڑیاگھر میں بند کر دیا گیاہے۔ یہ بہت سخت مثال ہے لیکن پورا مفہوم واضح کر رہی ہے۔ بعض مسلمان جب کسی مخصوص طرز یا انداز کااظہار یا مظاہرہ کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ روایت سے الگ ہے، روایت مخالف ہے یا روایت شکن ہے۔ مثال کے طور پر :
ایسی مثالیں اور بھی ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ لبرل طبقات کا کہنا ہے کہ ان مثالوں سے ان کی توہین ہوتی ہے حالانکہ ’لبرل ازم‘ کا کھلا پن کہتا ہے کہ: ’’توہین اور غیرت نام کی کوئی شے وجود ہی نہیں رکھتی‘‘۔ وہ آزادیِ اظہار کے نام پر کیسی کیسی توہین کے مرتکب ہو جاتے ہیں، اس کا انھیں احساس بھی نہیں ہوتا۔
o ایک غور طلب پھلو: بات سمیٹنے سے پہلے ایک اہم پہلو پر غور کر لیا جائے تو موجودہ حالات سے بھی قدرے مطابقت پیدا ہوگی۔ جب کسی مسلمان یا اہل ایمان کو قدامت پرست، رجعت پرست یا بنیاد پرست کہہ کے پکارا جاتا ہے تو سننے والا، مخاطب یا جس تک بات پہنچتی ہے، فوری طور پر دو طرح کے ردعمل کا شکار ہو جاتاہے۔ وہ اس ردعمل پر کیوں اتر آتا ہے یہ الگ بحث اور نفسیاتی معاملہ ہے۔ ردعمل کی نوعیت یہ ہوتی ہے:l معذرت خواہی کا ردعملlجارحیت کا ردعمل۔
ظاہرہے کہ یہ دونوں ردعمل نارمل نہیں ہیں۔ جب کوئی کہتاہے کہ: ’’آج کا مسلمان زمانے کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے‘‘ تو فوری ردعمل یہ ہوتا ہے کہ اس دعوے کو باطل ثابت کیا جائے اور اپنے طرزِ عمل کو حق ثابت کیا جائے۔ اس طرح اس فوری ردعمل سے گویا کہ حق و باطل کا معرکہ چھڑ جاتا ہے۔ یہ معرکہ بحث کا ہو تو اس کا انجام نظر نہیں آتا۔ یہ معرکہ آمنے سامنے ڈٹ جانے کا ہو تو جنگ و جدل کی نوبت آجاتی ہے۔ یہ دونوں نہ ہو سکیں تو بے بسی اور مایوسی کا گھیرا تنگ ہو جاتا ہے۔
یہاں پر دو طرح کے ردعمل بیان کیے گئے ہیں۔ ان پر الگ سے بات کی ضرورت ہے۔ صرف اتنا کہنا ضروری ہے کہ معذرت خواہی کے رویوں نے ہمارے معاشروں میں ایک تعداد کو دین، اس کی تعلیمات، ایمان و اعتقاد اور اس کے اطلاقی پہلوئوں کے بارے میں شک میں مبتلا کردیا ہے، اور پھر قدیم و جدیدکی جنگ کا منظرسامنے آجاتا ہے۔ کچھ تو شکست خوردگی کے عالم میں یہ کہنے لگے ہیں کہ: ’’دین اسلام بعض امور میں عاجز ہے ۔ معاشی مسائل کا حل پیش نہیں کرتا، حالانکہ صورتِ معاملہ یہ ہے کہ بہت سے راست فکر اہلِ دین بھی قرآن و سنت، حدیث و فقہ اور تفسیر و تعبیر کے ذخائر رکھنے کے باوجود عصری امور و مسائل پر ان کے اطلاق کی صلاحیت ، زمانی تبدیلیوں کی تشریح و تعبیر کی ذمہ داری سے خود کو سبکدوش کر چکے ہیں۔
اس عالم میں جارحیت کا ردعمل ابھرتا ہے تو کچھ لوگ مسئلہ بندوق سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ یوں اپنے ہی ملکوں کو تباہی سے دوچار کرتے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ: ’’چونکہ مسلم ممالک کی سرحدیں استعمار نے کھینچی تھیں، اس لیے ہم ان کو اپنے قدموں سے روند دیں گے‘‘۔ یہ ایسا ردعمل ہے جو نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ ردعمل کبھی بھی نتیجے پیدا نہیںکرتا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عراق و شام تباہ ہوگئے۔ یمن و لیبیا برباد ہوگئے۔ افغانستان کئی بار لٹ گیا۔ پاکستان میں بربادی نے ڈیرے ڈال لیے۔ اس کے باوجود ردعمل سے پیدا ہونے والی جارحیت ترک کرنا گویا ’’جہاد کا انکار کرنا خیال کیا جاتا ہے‘‘۔ فی الحقیقت جھنجھلاہٹ میں خود اہلِ دین پر یہ الزام تھوپ دینا ایک گمراہ کن تصور ہے۔
ان سب پہلوئوں پر گہرے غوروغوض کی ضرورت ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ ہرمعرکہ اور ہرنوعیت کا ردعمل جہاد نہیں ہوتا۔ مسلمان طعنہ سن کر بے مزا نہیںہوا کرتا۔ آج وہ طعنہ سنتے ہی شمشیرِ بے نیام بن جاتا ہے۔ علم کے موتی کو جہالت کے اندھیروں نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اس خلجان سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ردعمل، اغیارکی پیروی اور اپنے آپ سے علیحدگی سے وہ تباہی بڑھتی جائے گی جس نے آج مسلم اُمہ کو گھیرے میںلے رکھا ہے۔ اسلامی تحریک کو علم و عمل کی دنیا آباد کرنا ہوگی:’’ اجتماعیت سازی کے بغیر عدلِ اجتماعی کی جدوجہد بے معنی ہے‘‘۔ یہی ہمارے افکار ہیں۔ یہ نہ تو ’لبرل ازم‘ ہے اور نہ قدامت پرستی۔ مسلمان کا راستہ اسلام سے وابستگی ہے، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہے، تب ہی وہ فرقہ فرقہ ہونے سے بچ سکتا ہے۔ ہمیشہ ذہن میں رہے کہ مسلمان صرف مسلمان ہوتا ہے، وہ لبرل، قدامت پرست، رجعت پسند یا بنیاد پرست نہیں ہوا کرتا: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف (اٰل عمرٰن ۳:۱۹) ’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے‘‘۔