جنوری ۲۰۱۶

فہرست مضامین

بنگلہ دیش میں حکومتی دہشت گردی

سلیم منصور خالد | جنوری ۲۰۱۶ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

بنگلہ دیش میں اسلام اور دو قومی نظریے کے خلاف بھارتی جارحیت کا تسلسل جاری ہے۔ اہلِ نظر اس معاملے میں یکسو ہیں کہ: ’’ڈھاکا حکومت کا اصل اقتدار نئی دہلی میں ہے۔ ڈھاکا میں تو صرف دکھانے کے لیے مقامی چہرہ ہے‘‘۔ اعلیٰ سول اور فوجی افسران کی ترقیاں، حتیٰ کہ وزارتوں:  داخلہ، خارجہ اور منصوبہ سازی کے قلم دانوں کی تقسیم اور غیرملکی معاہدوں کی ترتیب تک کے معاملات بھارتی: داخلہ، خارجہ اور منصوبہ سازی ڈویژن کے اشارئہ ابرو کے تحت ہوتے ہیں۔

بنگلہ دیش کے منظرنامے پر چھائے خون کے دھبوں کی جھلک گذشتہ ۲۰روز کی چند خبروں، اطلاعات و تاثرات کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے:

  •  بنگلہ دیش کے تعلیمی اداروں میں عوامی لیگ کی حامی طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس لیگ: ظالمانہ اقدامات، تشدد، اغوا، انتقام، قتل، بھتہ خوری، ہاسٹلوں کی سیٹوں کی فروخت، داخلوں میں خردبرد اور زنا بالجبر کے واقعات میں ملوث ہے، مگر پولیس اسٹیشن ان پر کوئی مقدمہ درج کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ماہرین تعلیم اسے ’دہشت گرد اسٹودنٹس لیگ‘ کے نام سے پکارتے ہیں، مگر حسینہ واجد اسے ’میرے بیٹے‘ کہہ کر پکارتی ہیں۔
  •  ڈھاکا یونین آف جرنلسٹ کے ایک گروپ نے جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والے اخبارات و ذرائع ابلاغ: روزنامہ سنگرام، روزنامہ نیادگنتا، ہفت روزہ سوناربنگلہ،دگنتا ٹیلی ویژن میڈیا ہائوسز وغیرہ کی رکنیت منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ (روزنامہ نیوایج، ۳۰نومبر۲۰۱۵ئ)
  •  حکومتی سرپرستی میں اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ ان بے بنیاد خبروںکی اشاعتی مہم شروع کی ہے کہ: ’’جماعت کے دہشت گرد تنظیموں سے تعلقات ہیں‘‘۔ جماعت اسلامی نے ان بے بنیاد، شرانگیز اور بدنیتی پر مبنی خبروں کی پُرزور تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ثبوت کے ساتھ کسی بھی غیرجانب دار فورم پر سامنے آکر بات کرے اور الزام ثابت کرے۔ ہم جمہوری،دعوتی اور رفاہی تنظیم ہیں اور ایسے کسی بھی تعلق یا تشدد پسندانہ فعل کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ (۳۰ نومبر)
  •  بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی (جنھیں ۱۹؍اکتوبر ۲۰۱۴ء کو  سزاے موت سنائی گئی)کو پھانسی دینے کے لیے عوامی لیگ حکومت کردار کشی اور انصاف کے قتل پر مبنی اس مہم کو میڈیا، اخبارات اور مختلف سطحوں پر حکومتی اجتماعات کے ذریعے بڑھاوا دے رہی ہے (جماعت ویب، ۶دسمبر)، جب کہ ۶جنوری ۲۰۱۶ء کو انھیں سزاے موت دینے کا حتمی فیصلہ آرہا ہے۔(بی ڈی نیوز24، ۸دسمبر)
  •  یہی نہیں بلکہ اس انسانیت سوز مہم میں شدت پیدا کرنے کے لیے مذہبی طبقے سے بھی چند افراد کی کمک حاصل کی جارہی ہے اور اس مقصد کے لیے شولاکیا عیدگاہ کے امام مولانا فریدالدین مسعود صاحب کو میدان میں لایا اور پریس کانفرنسیں کرائی گئی ہیں، جنھوں نے جماعت پر پابندی لگانے اور اس کے تمام متعلقہ اداروں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔جماعت نے ان کی یاوہ گوئی کا مدلل رد جاری کیا ہے اور اللہ کے سامنے جواب دہی کے لیے اللہ کا خوف دلایا ہے  (جماعت ویب، ۹دسمبر ۲۰۱۵ئ)۔اسی پر بس نہیں ہوا، بلکہ: ’’۱۹دسمبر کو بنگلہ دیش کے انسپکٹر جنرل پولیس نے پولیس لائنز میں پولیس اہل کاروں کا بڑا دربار منعقد کیا، جہاں مولانا فریدالدین مسعود صاحب کو : ’بنگلہ دیش میں دہشت گردی کا خاتمہ‘ کے موضوع پر خطاب کی دعوت دی۔ دراصل یہ خطبہ موضوع پر کم اور جماعت اسلامی پر سفاکانہ فتویٰ بازی اور جماعت کو کچل دینے کا بدنما نمونہ تھا۔(ایضاً، ۲۰ دسمبر)
  •  انھی دنوں میں قائم کی گئی تنظیم’بنگلہ دیش سیکٹرز کمانڈر فورم‘ کے چیئرمین جنرل (ریٹائرڈ) کے ایم سیف اللہ نے کہا: ’’بنگلہ دیش کو پاکستان کے ساتھ کسی بھی سطح پر سفارتی تعلقات نہیں رکھنے چاہییں۔ ہمیں تیزی سے جنگی مقدمات کو نمٹا کر زیرمقدمہ افراد کو پھانسی دینی چاہیے۔ موصوف کی  تقریر کے دوران ڈھاکا یونی ورسٹی کے وائس چانسلر عارفین صدیقی بھی اسٹیج پر موجود تھے(بی ڈی نیوز24، یکم دسمبر)۔’’ڈھاکا یونی ورسٹی نے پاکستان کے ساتھ اساتذہ و طلبہ کے تبادلے اور کھیلوں، ثقافتی پروگراموں سے متعلق تمام تعلقات کو ختم کرنے کے اعلان کر دیا ہے‘‘۔ (نیو ایج، ۱۵دسمبر ۲۰۱۵ئ)
  •  عوامی لیگ کی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ جماعت اسلامی سے کبھی بھی تعلق رکھنے والے افراد کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دیا جائے (روزنامہ ڈیلی اسٹار، یکم دسمبر)۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی کی انتخابی رجسٹریشن منسوخ کردی ہے، اس طرح جماعت اپنے اُمیدوار نامزد کرنے کے حق سے محروم ہے، اور اس کے افراد آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے انتخابی عمل میں کردار ادا کرنے پر مجبور ہیں‘‘۔(ڈھاکا ٹربیون، ۱۰ دسمبر ۲۰۱۵ئ)
  •  اسلامی بنک بنگلہ دیش لمیٹڈ(IBBL) کے اثاثہ جات اور بنکاری کو تباہ کرنے کے لیے حکومت مسلسل اقدامات کر رہی ہے۔ دیگر پابندیوں کے علاوہ گذشتہ دنوں بنک کے ڈپٹی مینیجنگ ڈائرکٹر نورالاسلام کو بنگلہ دیش [اسٹیٹ] بنک نے برطرف کر دیا ہے، کہ ان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے (روزنامہ ڈھاکا ٹربیون، ۷دسمبر)۔دوسری جانب جب حزب ِاختلاف نے حکومت پر تنقید کی کہ اس نے: ’’جماعت اسلامی کے اس بنک سے رقم اینٹھی تھی‘‘، تو منصوبہ بندی کے وزیرمصطفی کمال نے کہا: ’’ہم نے چار سال پہلے اسلامی بنک بنگلہ دیش لمیٹڈ سے ایک سو ملین روپے (پاکستانی ۱۳کروڑ روپے) ورلڈکرکٹ کپ کے لیے حاصل کیے تھے، جنھیں تزئین و آرایش پر خرچ کیا گیاتھا (بی ڈی نیوز24، ۱۵ دسمبر)۔موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حسینہ واجد نے ایک جانب یہ خطیر رقم جبری طور پر حاصل کی اور دوسری طرف یہی حکومت اس بنک کے اثاثہ جات کو ہڑپ کرنے کے لیے روز نئے احکامات جاری کر رہی ہے۔
  • جہازرانی کے وزیر شاہ جہان خاں نے اعلان کیا ہے کہ: ’’ہم نے ۵۰۱؍ ارکان پر مشتمل ’انٹرنیشنل وار کرائمز ٹرائل کمیٹی‘ قائم کردی ہے، جس کے تحت پاکستان کے ۱۹۵؍ اعلیٰ فوجی افسروں پر جنگی جرائم کا علامتی مقدمہ چلایا جائے گا اور بنگلہ دیش کی آزادی کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں میں جماعت اسلامی، اسلامی چھاترو شبر [اسلامی جمعیت طلبہ] اور ۱۹۷۱ء میں پاکستان سے تعاون کرنے والے افراد کو بنگلہ دیش سے ختم (eliminate) کردیا جائے گا (ڈھاکا ٹربیون، ۱۹دسمبر ۲۰۱۵ئ)۔ وزیر ’اُمورِ جنگ ِآزادی‘ معظم الحق نے اعلان کیا ہے کہ ’’حکومت ۱۹۷۱ء میں پاکستان کا ساتھ دینے والے مجرموں کے وسائل اور جایدادوں کو ضبط کرنے کے لیے قانون میں بنیادی تبدیلی کر رہی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے جماعت پر پابندی عائد کی جائے گی‘‘ (روزنامہ اتفاق، ڈھاکا، ۱۶دسمبر)۔ اور مطالبہ کیا ہے: ’’پاکستان، بنگلہ دیش کو اثاثہ جات کی مد میں ایک کھرب اور ۸۰؍ارب روپے ادا کرے۔(ڈھاکا ٹربیون، ۱۶ دسمبر )
  •  اسلامی چھاترو شبر بنگلہ دیش کے سات ارکان کو ۲۰، ۲۰سال قیدبامشقت سزا سنادی گئی (۲دسمبر۲۰۱۵ئ)۔ جماعت اور شبر کے رہنمائوں کو چٹاگانگ جیل سے رہا ہوتے ہی گرفتار کر کے دوبارہ جیل میں دھکیل دیا گیا(۱۱دسمبر)۔ نلفاماری اور ست خیرا سے جماعت کے مزید ۴۲ کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا (ڈیلی اسٹار، ۱۰ دسمبر)۔سیتاکندا (چٹاگانگ) میں جماعت کے رہنما محمد عثمان کو عوامی لیگیوں نے گولی مار کر شہید کر دیا (جماعت ویب، ۱۶دسمبر)۔ ۱۹دسمبر کو جے پور ہاٹ ضلع سے اسلامی چھاترو شبر کے جب تین قائدین بس میں سوار ہو رہے تھے تو اس دوران میں پولیس نے بلااشتعال گولیاں برساکر ضلعی ناظم ابوذرغفاری اور سیکرٹری جنرل محمدعلی کو مجروح کر دیا۔ وہ اس وقت ہسپتال میں نازک صورتِ حال سے دوچار ہیں۔
  •   بیگم فریدہ خاتون جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، اور وہ کشتیا تحصیل کی وائس چیئرپرسن ہیں، انھیں احتجاج کرنے کی پاداش میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ۱۲دسمبر ۲۰۱۳ء کو پھانسی دیے جانے والے شہید عبدالقادر مُلّا کی کچی قبر کے سرہانے لگے کتبے کو بھی عوامی لیگی کارکنوں نے اُکھاڑ پھینکا ہے۔
  •  جماعت کے سیکرٹری جنرل کو موت کی سزا سنائے جانے کے بعد سے، ۱۸نومبرسے حکومت ِ بنگلہ دیش نے سوشل میڈیا (فیس بک، وایبر، وٹس ایپ) کو بلاک کر دیا ہے، جب کہ گوگل اور یوٹیوب کو ’سیکورٹی‘ کے نام پر پابند بنانے کے لیے باقاعدہ حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔(ڈھاکا ٹربیون، ۶دسمبر)

اس صورتِ حال پر عالمی ردعمل بھی سامنے آیا:

  • یورپی پارلیمنٹ (EP) نے عوامی لیگ کی غیرانسانی حکمرانی پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے متعدد قراردادیں منظور کیں۔ بنگلہ دیش کے چند اخبارات نے ان کا متن شائع کیا ہے،   جن کے مطابق: ’’بنگلہ دیش حکومت، حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کے ارکان کو ماوراے عدالت قتل اور لاپتا کرنے کی سرگرمیوں میں خطرناک حد تک ملوث قرار دی جارہی ہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ حزبِ مخالف کے کارکنوں اور رہنمائوں کو غیرقانونی حبس بے جا میں رکھنے سے باز آئے۔ ان میں سے جن افراد کو غائب کرنے یا ماوراے عدالت قتل کرنے کے الزامات ہیں، ان معاملات کی فی الفور تحقیقات کرائی جائے۔ اسی طرح یورپی پارلیمنٹ، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سیکرٹری جنرل  علی احسن مجاہد اور بی این پی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن صلاح الدین قادر کی بہیمانہ پھانسی کی سزا پر گہرے دُکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے، برملا اعلان کرتی ہے کہ کرائمز ٹریبونل کے نام پر چلائے جانے والے پورے معاملے، اس کے قانونی اور عدالتی معیار، اس کے طریق کار اور سزائوں کے اعلان پر اسے شدید تحفظات ہیں‘‘۔ (روزنامہ پروتھم آلو، ڈھاکا، ۲۶ نومبر ۲۰۱۵ئ)
  • امریکی کانگریس آف ہیومن رائٹس کمیشن (USCHRC)کے مطابق: ’’کانگریس کے رکن جیمز میک گورن، شریکِ چیئرمین ’ٹوم لینٹن ہیومن رائٹس کمیشن‘ نے چھے متعلقہ انجمنوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:’’بنگلہ دیش میں شہری اور سیاسی حقوق کو بُری طرح پامال کیا جا رہا ہے۔ حزبِ اختلاف کے پُرامن سیاسی جلوسوں کو طاقت سے کچلا جا رہا ہے۔ سیاسی کارکنوں کو بڑے پیمانے پر قید یا موت کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور جو لوگ انسانی حقوق کی بربادی کے اس منظرنامے میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انھیں تشدد، دھمکی اور گالم گلوچ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے لیڈر علی احسن مجاہد اور بی این پی کے رہنما صلاح الدین قادر چودھری کو جو پھانسی دی گئی ہے ، اس بارے میں قابلِ اعتماد مبصرین، جن میں اقوام متحدہ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل وغیرہ شامل ہیں، نے کہا ہے کہ یہ مقدمہ اور مقدمے کی کارروائی منصفانہ عدالتی کارروائی کے کسی بھی مسلّمہ معیار پر پوری نہیں اُترتی‘‘۔(نیادگنتا ،۶دسمبر)
  • ’ایشین ہیومن رائٹس کمیشن‘ (AHRC) اور ’ایشین فیڈریشن اگینسٹ انواینٹری ڈس اپیرینس‘ (AFAID) نے مشترکہ بیان میں کہا ہے: ’’بنگلہ دیش میں گذشتہ ۱۱ ماہ کے دوران ۵۹؍افراد کو جبری طور پر غائب کر دیا گیا ہے، جن کی ذمہ داری سے کسی بھی صورت حسینہ حکومت دامن نہیں چھڑا سکتی۔(روزنامہ نیو ایج ،۷دسمبر)
  • امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی اپیل پر ۳۰ نومبر کو پاکستان بھر میں جلسے اور سیمی نار منعقد کیے گئے، جن میں بنگلہ دیش میں روا رکھے جانے والے مظالم کی مذمت کی گئی اور عالمی ضمیر سے اپیل کی گئی کہ وہ عدل و انصاف کے اس کھلم کھلا قتل کو روکے۔ اسی طرح پاکستان کے سابق وزیرداخلہ سینیٹررحمن ملک نے اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل (UNHRC)کے ہائی کمشنر کو   خط لکھا ہے: ’’جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد اور بی این پی کے  مرکزی رہنما صلاح الدین قادر چودھری کے عدالتی قتل کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے، اور اس مقصد کے لیے اعلیٰ اختیاراتی وفد ڈھاکا بھیج کر اس سارے معاملے کی تحقیقات کی جائے‘‘۔ نیز: ’’بھارت کی مسلح جارحیت اور براہِ راست مداخلت ہی دسمبر۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کو وجود میں لانے کا سبب بنی اور اس امر کے لیے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی، وزیردفاع جگ جیون، جنرل مانک شاہ اور اب وزیراعظم نریندرا مودی کے بیانات واضح ثبوت ہیں۔(دی نیوز، اسلام آباد، ۲دسمبر)

خود مشرقی اور مغربی بنگال میں حالات کو کس زاویے سے دیکھا جا رہا ہے، اس کا اندازہ ان سطور سے کیا جاسکتا ہے:

  •  پروفیسر کامران رضا چودھری (براک یونی ورسٹی، ڈھاکا) نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ: بنگال کے عوام گذشتہ ۲۰۰ برس، یعنی جب سے انگریزوں نے یہاں قدم رکھے، پابندیوں اور کھلے میدان میں کام کرنے سے روکنے پر مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں جدید تعلیم یافتگان، کسان، مزدور، علما اور حتیٰ کہ صوفی بزرگ بھی اسی راستے پر گام زن رہے ہیں۔ ایسی تاریخ رکھنے والے خطے میں، جماعت اسلامی جیسی تنظیم کو، جو انتخابی عمل اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہے، اسے دیوار سے لگانے اور سیاسی میدان سے خارج کرنے کا نتیجہ تباہی اور تشدد کو فروغ دینے کے سوا کچھ نہ نکلے گا‘‘۔ (بینارز نیوز، ۱۰ دسمبر ۲۰۱۵ئ)
  • بنگلہ دیش کے ویکلی ہالیڈے (۱۱دسمبر ۲۰۱۵ئ) نے کلکتہ کے اخبار ڈیلی ٹیلی گراف (۲۸ نومبر ۲۰۱۵ئ) سے معروف بنگالی مؤرخ رام چندر گوہا کا تجزیہ شائع کیا ہے کہ: ’’شیخ حسینہ اور اس کی پارٹی کا عروج اپنے زوال کی جانب گامزن ہے، اور اس کا انجام کچھ زیادہ دُور نہیں۔ حسینہ واجد اور اس کے مشیروں کو یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے، کہ وہ جس یک جماعتی آمرانہ نظام کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں، وہ یہاں قائم نہیں ہوسکے گا۔ گذشتہ صدی میں نازی بھی ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے اور صرف ۱۲برس ہی اقتدار میں رہ سکے تھے، ہزاروں برس اقتدار پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکے تھے۔ میں ۲۲ اور ۲۳نومبر کو علی احسن مجاہد کی پھانسی کے دنوں میں ڈھاکا میں تھا۔ حکومت نے پوری قوت لگاکر عوامی احتجاج کو دبا دیا تھا، لیکن اس دبانے کو کامیابی سمجھنا حاکموں کے لیے بے فائدہ بلکہ عبرت ناک ثابت ہوگا‘‘۔

ویکلی ہالی ڈے ڈھاکا نے عوامی لیگی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی دہائی دیتے ہوئے اداریے میں لکھا ہے: ’’حکومت تہذیب اور قانون کی سب حدوں کو پھلانگ رہی ہے۔ اسے بیگم خالدہ ضیا کے اس انتباہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی حرکتوں پر نظرثانی کرنی چاہیے کہ: ’’بنگلہ دیش کی فوج اور بیوروکریسی، عوامی لیگ کے کارکنوں کا ٹولہ نہیں ہے۔ خود انھیں بھی قانون، ضابطے اور شائستگی کا خیال رکھنا چاہیے‘‘ (۱۸ دسمبر ۲۰۱۵ئ)۔یہ بیان معاملات کی سنگینی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔

دوسری طرف خالدہ ضیا نے ڈھاکا میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’جنوری ۲۰۱۴ء کے جعلی انتخابات کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرکے عوامی لیگ نے ملک کو قتل گاہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ سیاسی کارکن زندگی گزارنے کے حق سے محروم ہیں۔ درندگی کے اس اقتدار سے نجات کے لیے قوم کے تمام طبقوں کو یک زبان اور یک جان ہونا پڑے گا‘‘۔ (پروتھم آلو، ڈھاکا، ۱۰دسمبر۲۰۱۵ئ)

ڈاکٹر شفیق الرحمن ، قائم مقام سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے حالات کی سنگینی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ۲۶نومبر کو عالمی ذرائع ابلاغ کے نام خط میں لکھا ہے: ’’حکمران ٹولہ جمہوری اور سیاسی سطح پر جماعت اسلامی کا مقابلہ کرنے کے بجاے اوچھے، ظالمانہ اور مسلسل غیرقانونی ہتھکنڈوں پر اُتر آیا ہے،جس کا بدترین مظاہرہ تو عدل کے نام پر جعلی ٹریبونل بناکر    من مانے مقدمے اور من پسند فیصلے لے کر کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو سفاکانہ انداز سے قتل کیا جا رہا ہے۔ دن دہاڑے کارکنوں کو  پکڑ کر غائب کیا جارہا ہے، وحشیانہ تشدد کر کے زندگی بھر کے لیے ناکارہ بنایا جا رہا ہے یا انھیں بغیر قانونی چالانوں یا پھر جعلی مقدموں کی دھونس سے جیلوں میںٹھونسا اور حبس بے جا میں رکھا جارہا ہے‘‘۔

ڈاکٹر شفیق الرحمن نے لکھا ہے: ’’بنگلہ دیش کے اقتدار پر قابض گروہ کے اس انسانیت سوز کردار کی یہ داستان قدم قدم پر ثبت دکھائی دیتی ہے۔ اس حکومت نے مائوں کی گودیں اُجاڑ دی ہیں، عورتوں کے سہاگ لوٹ لیے ہیں، بچوں کے سروں سے ان کے باپوں کا سایہ چھین لیا ہے اور والدین کے جوان بیٹوں کو اپاہج کر دیا ہے یا پھر قبروں کا رزق بنا دیا ہے۔ ان دکھیاروں کے سینے پھٹ رہے ہیں، مظلوموں کے آنسوئوں کا سمندر رواں ہے اور آہوں کے طوفان آسمان تک پہنچ رہے ہیں، مگر سنگ دل حکومت لمحے بھر کے لیے بھی اپنے وحشی اہل کاروں اور غنڈوں کو لگام دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ہم اہلِ اقتدار پر واضح کرتے ہیں کہ ’’جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کو قتل اور کارکنوں کو ظالمانہ قیدوبند اور درندگی پر مبنی تشدد کر کے بھی جماعت اسلامی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی حکومت کے برسرِاقتدار رہنے کا کوئی انسانی اور اخلاقی جواز نہیں ہے جس کے کارندے اور فیصلہ ساز عدل اور انسانیت کی تمام حدوں کو توڑ چکے ہیں۔(جماعت ویب،   روزنامہ سنگرام ،ڈھاکا، ۲۶نومبر ۲۰۱۵ئ)

یہ خبرونظر چیخ چیخ کر حالات کی سنگینی کو ظاہر کر رہے ہیں، مگر افسوس کہ اس صورتِ حال پر مسلم دنیا سے کوئی مؤثر آواز سنائی نہیں دے رہی۔ صدافسوس کہ دنیا کی مقتدر قوتیں اور عالمی ذرائع ابلاغ رسمی بیان بازی کے بعد خاموشی سادھے ہوئے ہیں۔اس الم ناک منظرنامے کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ غالباً بنگلہ دیش میں موت کا سکوت ہے اور عوامی لیگ کو یک طرفہ کارروائیاں کرنے میں کچھ بھی روک ٹوک نہیں۔ حکومتی سطح پر یقینا یہی معاملہ ہے ، لیکن جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے کارکنان سرفروشی اور استقامت سے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، جن کو بہ یک وقت بنگلہ دیشی حکومت اور بھارتی ریشہ دوانیوں سے پنجہ آزمائی کرنا پڑ رہی ہے۔ ان شاء اللہ یہ جدوجہد رنگ لاکر رہے گی۔ اس لیے کہ آمریت بظاہر کتنی ہی مضبوط ہو بالآخر اپنے تمام تر جبر کے باوجود مٹ کر رہتی ہے۔ یہی تاریخ کا سبق ہے!