اِسلام کے عائلی نظام کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خاندان کے عناصر کی تعداد بہت وسیع ہے۔ اسلام نے اس حوالے سے جس اہتمام کے ساتھ احکام بیان کیے ہیں، اگر حقیقتاً مسلمان اُن سے آگاہ ہو جائیں، اُن پر اُسی طرح ایمان رکھیں جس طرح ایمان رکھنے کا حق ہے اور حقیقی طور پر اُن کا نفاذ کر لیں تو ایک مضبوط، خوشحال اور باہمی محبت کا خوگر خاندان وجود میں آسکتا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ ایک مربوط و مضبوط خاندان کی تشکیل عمل میں آئے۔
مغرب اور اسلام کے تصورِ خاندان میں یہ فرق ہے کہ مغرب میں یہ صرف ایک مرد اور ایک عورت کے جوڑے پر مبنی ہے اور کہیں اولاد میں سے بھی کوئی شامل ہوتا ہے ورنہ بیٹے بیٹیاں جوانی کو پہنچتے ہی اپنی راہ لیتے ہیں۔ بچوں کے جوان ہو جانے کے بعد والدین کا اُن سے کوئی عملی تعلق نہیں رہ جاتا۔ اسلام میں خاندان کی بنیادی اکائیاں اگرچہ میاں بیوی ہیں مگر ان کے ساتھ ماں باپ، بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، بھائی بہنیں، چچا اور پھوپھیاں، ماموں اور خالائیں بھی خاندان کی تشکیل میں شریک ہیں۔ اسلام میں خاندان سمٹا اور سکڑا ہوا نہیں بلکہ وسیع اور پھیلا ہوا ہے۔ یہ چچائوں اور پھوپھیوں کی اولاد (عَصَبَات) اور ماموئوں اور خالائوں کی اولاد (اَرحام) پر مشتمل ہے۔
اسلام متعدد احکام کے ذریعے خاندان کے باہمی تعلقات کومضبوط اور مربوط کرتا ہے۔ اسلام نے ان خاندانی تعلقات کو احکام کے ایک جال کی صورت باہم مربوط کر رکھا ہے۔ صاحب ِاستطاعت اور کشادہ دست کے اوپر ذمہ داری ڈالی گئی کہ وہ تنگ دست اور مجبور و ضرورت مند پر خرچ کرے۔ ایسے مسائل جن میں اس طرح کے مختلف مصارف پر خرچ کرنے کے احکام بیان کیے گئے ہیں انھیں احکامِ نَفَقات (فی سبیل اللہ خرچ کے احکام)کہا جاتا ہے۔ اَحکامِ دیت کے تحت قتلِ خطا کی دیت کا بیان ہے کہ مقتول کے عَصَبَات (باپ کی طرف سے قرابت دار) اور قبیلہ اس کا حق دار ہے۔ احکامِ میراث کے تحت وراثت کے مسائل بیان کیے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میراث میں معیّن درجات اور حصوں کے مطابق اقارب کا حق مقرر کیا ہے۔ اسلام کا یہ اہتمامِ احکام بتاتا ہے کہ خاندان کا شیرازہ اس نظام میں متحد رہنا چاہیے۔ کسی شاخ کو اپنی اصل سے جدا نہیں ہونا چاہیے۔
رشتہ و قرابت کے استحکام اور نشوو ارتقا میں اسلام نے خصوصی ترغیب و تحریص سے کام لیا ہے۔ قریبی رشتہ داروں کا حق بیان کرتے ہوئے فرمایا:
یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِط (البقرہ۲:۲۱۵)لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔
کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَ نِ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ج حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ (البقرہ۲:۱۸۰) تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو، تو والدین اور رشتے داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْکَثُرَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا (النسائ۴:۷) مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو۔ خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔
احسان کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:
وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی (النسائ۴:۳۶) اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئو۔
وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا (النسائ۴:۱) اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔
قطع رحمی کے انجام سے ڈراتے ہوئے فرمایا:
فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْo اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمْ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمْ وَاَعْمٰٓی اَبْصَارَہُمْ(محمد ۴۷:۲۲-۲۳) اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور رشتہ و قرابت کی رسیاں کاٹ ڈالو گے؟ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور اُن کو اندھا اور بہرا بنا دیا۔
قرآنِ مجید کی ان تعلیمات اور احکام کی تائید میں احادیثِ رسولؐ بھی وارد ہوئی ہیں: حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسولؐ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ عزّوَجلّ نے فرمایا ہے: میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے رحم (رشتے)کو پیدا کیا ہے، اور اس کا نام اپنے نام سے اخذ کرکے رکھا ہے۔ جو شخص اس رحم کو قائم رکھے گا میں بھی اُس کو قائم رکھوں گا، اور جو اِس کو توڑ دے گا میں بھی اُس کو توڑ دوں گا۔
ایک حدیث میں آیا ہے:مسکین کو صدقہ دینے کا اجر ایک صدقے کا اجر ہے ، جب کہ رشتے دار کو صدقہ دینے کا اجر دوہرا ہے، ایک صدقے کا اور ایک رشتے کا۔
ایک حدیث میں تو یہاں تک آیا ہے:بہترین صدقہ وہ ہے جو ناراض (مخالف اور دشمن) رشتے دار کو دیا جائے۔ اس لیے کہ اُس کے اور صدقہ دینے والے کے تعلقات میں دراڑ آ گئی ہے، محبت اور مودّت باقی نہیں رہی، لہٰذا اُس کے اوپر صدقہ کرنا اپنے نفس کو مارنا اور اِس کے اُوپر غالب آنا ہے اور یہی نفسِ انسانی کی تربیت اور تزکیہ ہے۔
ان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صورتِ حال بہت مختلف ہے۔ بھائی اپنے بھائی سے کینہ و کدورت رکھتا ہے۔ دنیا کے مال نے بھائی کو بھائی سے جدا کر دیا ہے۔ یہ صورتِ حال اُس وقت تو اور زیادہ بُر ی ہو جاتی ہے جب معاملہ کسی وراثت سے حصہ لینے کا ہو۔ ہر کوئی لینا ہی چاہتا ہے دینا نہیں چاہتا۔
عفوودرگزر، رواداری اور برداشت کہاں چلی گئی؟ ایثار اور مودّت کا کیا ہوا؟ حالانکہ یہی بھائی اجنبی لوگوں کے ساتھ نہایت درگزر، بے پناہ محبت و الفت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ کمال اخلاق، کشادہ ظرفی اور اعلیٰ انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، مگر بھائی اپنے بھائیوں کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ایک چاہتا ہے کہ دوسرے کو گرا مارے، اُسے تباہ کرکے اپنا آپ سنوار لے۔
یہ درست ہے کہ مفادات کی یہ کش مکش اور جنگ قدیم انسانی تاریخ میں بھی تھی جب انسان واحد کنبہ تھا۔ اُس وقت صرف میاں بیوی اور بیٹے بیٹیاں ہی انسانی خاندان کے کل عناصر تھے۔ اس چھوٹے سے خاندان کے ایک فرد نے بھی اپنے بھائی کوقتل کر دیا تھا اور حسد کا مظاہرہ کیا تھا۔
اس واقعے کی صداقت اپنی جگہ، مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آیندہ بھی ایسے ہی واقعات کا تسلسل جاری رہے۔ انسان کیوں یہ پسند کرتا ہے کہ وہ آدم کا شرپسند اور خبیث بیٹا بن جائے۔ وہ اچھا اور طیب ابن آدم بننا کیوں پسند نہیں کرتا؟ یعنی وہ صالح، نفیس اور امن پسند انسان جس نے قتل ہونا گوارا کر لیا مگر اپنے بھائی پر ہاتھ اٹھانا ایمان کے منافی سمجھا۔ اُس موقعے پر کہے گئے اُس کے الفاظ کے اندر اُس کے صالح جذبات اور ایمانی احساسات کا بھرپور مظاہرہ موجود ہے۔ اُس نے کہا:
لَئِنْم بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ ج اِنِّیْٓ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَo(المائدہ۵:۲۸) اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھائوںگا۔ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔
آج کا انسان قابیل جیسا انسان کیوں بننا چاہتا ہے کہ قیامت تک جو بھی قتل ہو گا اُس کا جرم اور گناہ اُس پہلے قاتل پر بھی ہو گا کیونکہ اُسی نے اس زندگی میں قتل کی روایت کا آغاز کیا ہے۔ خدا کی قسم یہ حقیر دنیا اس قابل نہیں کہ اس کی بنا پر انسانوں کا قتل ہوتا رہے۔ بھائی اپنے بھائی سے دست و گریباں ہو اور تھانے کچہریوں میں مقدمات چلیں، پھر جیلیں اور قید خانے آباد ہوں۔ رشتہ دار اپنے رشتہ دار سے دشمنی مول لیں۔ واللہ یہ دنیا اس قابل نہیں!اگر اس دنیا کا وزن اور قیمت اللہ کے ہاں مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتا تو اللہ کافروں کو اس سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پینے دیتا۔
یہ بات باعث افسوس ہے کہ باہمی عداوتوں اور مخاصمتوں میں مبتلا لوگوں کی اکثریت صاحب مال، اہل دولت اور امیروں کی ہے۔ فقیر اور تنگ دستوں کی مخاصمت کے واقعات بہت تھوڑے ہیں۔ اُن بے چاروں کے پاس ہوتا ہی کچھ نہیں جس کے اوپر وہ نزاع کھڑا کریں،جب کہ نزاع پیدا کرنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کی سوچ اور خیال یہ ہوتا ہے کہ میں کروڑوں نہیں اربوں کیسے حاصل کر سکتاہوں؟ سوچنا چاہیے کہ انسان یہ اربوں حاصل کرکے بھی اپنے استعمال میں کتنا لاتا ہے؟ انسان دولت کے یہ انبار چھوڑ کر چلا جائے گا کچھ بھی ساتھ نہیں لے جائے گا۔ انسان کو اپنے تعلقات ایسے بنانے چاہییں کہ اُس کے بعد دوسرے اُس کے لیے دعائیں کریں، اور یہ کام خاندان کے افراد کے ساتھ تعلق اُستوار کرکے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
دولت کی قیمت پر خاندان کے تانے بانے کو بکھیرنا، بھائیوں کی جمعیت کو پارہ پارہ کرنا بہت ہلکا سودا ہے۔ یہ شیطان کی پیروی ہے۔ شیطان انسان کو اکساتا ہے، سازشیں کرتا ہے، یہاں تک کہ رشتے داریاں تڑوا ڈالتا ہے۔ دین انسانی زندگی کی دو بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ پہلی بنیاد یہ ہے کہ انسان اور اُس کے معبود، یعنی اللہ کے درمیان تعلق مضبوط تر ہو۔ دوسری بنیاد یہ ہے کہ انسان کے دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات قائم اور اُستوار ہوں، مضبوط اور بہتر ہوں۔ اس تعلق بین الناس کے بھی دو پہلو خصوصی اہمیت رکھتے ہیں:اہل ایمان کے مابین محبت و اُلفت اور اقارب و رشتہ داروں کے مابین تعلقاتِ محبت!چونکہ رشتہ و قرابت کے عناصر کو دیگر لوگوں کی نسبت زیادہ حقوق حاصل ہیں اس لیے مسلم خاندان کی بقا، تحفظ اور نشوو ارتقا کی خاطر ان روابط اور تعلقات کے معاملے میں ہرلمحے خوفِ خدا سے کام لیا جائے۔ ان معاملات میں اپنی دانش مندی، دین داری اور دین پسندی کا مظاہرہ ہو۔ رب کے قرآن اور رسولؐ کی سنت سے رہنمائی لی جائے۔
محبت و اُلفت اور احترام و اکرام پر مبنی روابط اور تعلقات کو قائم رکھنا سب کا فرض ہے۔ رشتہ و قرابت کے تعلقات کو برابری کی سطح پر قائم رکھنا بے معنی اور بے مقصد ہے۔ حدیث رسولؐ میں آیا ہے: رشتے کے ربط و تعلق کو وہ شخص قائم نہیں رکھتا جو بدلے اور برابری کی سطح پر ایسا کرے، بلکہ وہ شخص رشتہ قائم رکھتا ہے جس سے رشتے کو توڑا جائے تو وہ اُسے توڑنے کے بجاے جوڑے۔
صلہ رحمی وہ نہیں کرتا جو جواباً صلہ رحمی کرے۔ دوسرے سے محبت ملے تو وہ بھی اُس سے محبت کرے، کوئی احسان کرے تو وہ بھی احسان کرے، کوئی میل ملاقات رکھے تو وہ بھی اُسے ملتا رہے، کوئی تحفہ تحائف دے تو وہ بھی ایسا کرے۔ ایسا شخص حقیقی صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے۔ صلہ کا معنی ہی ٹوٹی ہوئی چیز کو جوڑنا ہے۔ حقیقی صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جو تم سے کٹ جائے اُس سے جڑے رہو، اور جو تمھیں کچھ نہ دے اُسے تم عطا کرو۔ جو تم پر ظلم کرے اُسے معاف کر دو، اور جو تم سے بُرا سلوک کرے اُس سے تم حسنِ سلوک سے پیش آئو۔ یہ ہے وہ شان جو ایک خاندان کے افراد و عناصر کے درمیان ہونی چاہیے۔
جب دولت کم تھی، صرف گزارا ہوتا تھا تب خاندان کے ہر معاملے میں لحاظ رکھا جاتا تھا، اب دولت کی ریل پیل ہے مگر خاندانی روابط کو مستحکم کرنے اور صلہ رحمی کا کوئی اہتمام نہیں۔ تنگی و خوش حالی کی ان دونوں حالتوں کا موازنہ کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ تنگی کے وہ دن بہتر تھے جب خاندانی تعلقات کو قائم رکھنا اہم سمجھا جاتا تھا مگر آج یہ آسانی کے ایام بے وقعت ہیں جب خوش حالی کی بنا پر باہمی عداوتیں اور مخاصمتیں زوروں پر ہیں۔ تعلقات ٹوٹ رہے ہیں، محبتیں کمزور ہو رہی ہیں، کدورتیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ محسن انسانیتؐ نے بجا فرمایا ہے کہ امیری سامان کی کثرت سے نہیں ملتی بلکہ نفس کی بے نیازی اصل امیری ہے۔(qaradawi.net)