اسلامی معاشرے کی ایک پہچان اس میں پرورش پانے والی روایت ِعلم ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ اس کا ہر پیرو اپنے عقائد، تعلقات اور معاملات کو علمِ صحیح کی بنیاد پر استوار کرے۔ ایمان کی شہادت خود اس بات کا اعلان ہے کہ ایک شخص ہوش و حواس کے ساتھ، سمجھ بوجھ کر ایک صداقت کی گواہی دیتا ہے کہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہے اور اس کے لیے اگر کوئی مثال قابلِ عمل ہے تو وہ صرف اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ علم کی بنیاد پر عمل ایمان کی پہچان ہے ۔ اس کے برخلاف اگر قول و عمل میں تضاد پایا جائے اور وہ کچھ کہے جو وہ خود نہ کرے تو قرآن کریم اس کو سخت ناپسندیدہ عمل قرار دیتا ہے: لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ o کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لاَ تَفْعَلُوْنَo (الصف ۶۱: ۲-۳) ’’تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں‘‘۔
اس قول وعمل کے تضاد کو ایک دوسرے تناظر میں نفاق سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چار خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ پکا منافق ہوگا اور جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی تو اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہوگی، یہاں تک کہ وہ اس کو ترک کردے۔ وہ چار خصلتیں یہ ہیں: جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، اور جب کسی سے جھگڑا ہوجائے تو گالی پر اُتر آئے(عبداللہ بن عمرؓ، بخاری ، مسلم)۔ قول و عمل میں یکسانیت اور عمل سے قولی شہادت کا اظہار، ایک قابل محسوس اور قابلِ پیمایش پیمانۂ ایمان ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ ہم کس طرح کسی کے ایمان کو جانچیں۔ جدید اسلوب میں ایمان کی پیمایش اعمال (outcomes) سے ہی کی جاسکتی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک صاحب ِ ایمان کو پکارا جائے کہ فلاح و کامرانی کی طرف آئو اور وہ تجارتی کاموں میں لگا رہے اور دن میں پانچ مرتبہ بلند ہونے والی اللہ کی کبریائی اور عظمت کی پکار سننے کے بعد بھی اس کے قدم مسجد کی طرف نہ اُٹھیں۔ فلاح و کامرانی کی پکار کو رد کرنے کے باوجود بھی وہ سمجھتا رہے کہ اس کا ایمان محفوظ ہے۔ ایمان کا مطلب ہی یہ ہے کہ بندگیِ رب کو صدقِ دل و جان سے مانتا ہے اور اس کی شہادت اس کا ہرہر عمل پیش کرے۔
اسلامی معاشرے میں وہ فرد قابلِ تحسین ہے جو فروغ علم میں لگا ہو: ’’تم میں سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو قرآن کا علم حاصل کریں اور (دوسروں کو) اس کی تعلیم دیں‘‘ (عن عثمان ابن عفانؓ، بخاری)۔ قرآنِ کریم علم کو انسانوں میں وجۂ امتیاز قرار دیتا ہے۔ اسلام نہ مال و دولت کو، نہ عہدہ اور منصب کو، اور نہ ذات برادری سے وابستگی کو امتیازی مقام دیتا ہے، یہ ان اہلِ ایمان کو جو زیادہ علم و تقویٰ رکھتے ہیں دوسروں سے افضل قرار دیتا ہے۔ فرمایا گیا: ’’ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں یکساں ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں‘‘ (الزمر ۳۹:۹)۔ قرآن کریم بغیر علم بحث و مکالمہ کو ناپسند کرتا ہے: ’’اور بعض لوگ جو اللہ (کے بارے) میں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت اور بغیر کتاب روشن کے جھگڑتے ہیں‘‘۔ (الحج ۲۲:۸)
قرآنِ کریم نے بے شمار مقامات پر علم اور علم سے وابستہ پہلوئوں کی طرف اشارے کیے ہیں اور عملاً ہر اہم مضمون کے ساتھ اس جملے کا اضافہ کردیا ہے کہ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (البقرہ ۲:۴۴)’’کیا تم عقل نہیں رکھتے؟‘‘ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ (النسائ۴:۸۲) ’’کیا وہ سوچتے نہیں؟ ‘‘ اَفَلاَ یَنْظُرُوْنَ(الغاشیہ ۸۸:۱۷)’’کیا وہ دیکھتے نہیں؟ ‘‘ اَفَلَا یَسْمَعُوْنَ (السجدۃ ۳۲:۲۶)’’کیا وہ سماعت نہیں رکھتے؟ ‘‘اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا(محمد۴۷:۲۴)’’کیا انھوں نے اپنے قلوب پر تالے ڈال لیے ہیں؟ ‘‘کیا تم گہرائی میں جاکر تلاش نہیں کرتے؟ کیا تم ایسی قوم ہو جو عقل سے عاری ہے؟ کیا تم نے آنکھیں موند لی ہیں؟ کیا تمھارے کان بہرے ہوگئے ہیں؟ کیا تم کائنات پر غور نہیں کرتے؟ کیا تم نے کبھی اپنے اندر چھپی ہوئی کائنات پر غور کیا؟ پھر تم کدھر چلے جارہے ہو؟ تم نے کس کو راہ نما بنا رکھا ہے؟ ان کو جو خود بینائی سے، فہم سے، شعور سے، آگہی سے محروم ہیں؟ جو خود اپنے نفع و نقصان پر قابو نہیں رکھتے؟
یہ وہ ثقافت ِعلم ہے جو قرآن کریم اپنے ہر پیروکار کے اندر جگانا چاہتا ہے اور ہرذہن کو جھنجھوڑ کر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ غوروفکر کرے۔ وہ عقل کی آنکھ کھول کر زمین کو، فلک کو، جہان کو دیکھ کر، مشرق سے اُبھرتے سورج کے اُفق، مغرب میں ڈوبتے سورج کی شفق اور فضائوں کی نیرنگی کو تحقیق اور تجسس کی نگاہ سے دیکھ کر، خالق و مالک کی آیات پر غوروفکر کرتے ہوئے یہ عقلی فیصلہ کرے، کہ کیا اصل حاکم، شارع، مالک اور فرماں روا کوئی انسان، کوئی انسانی فکر یا انسانوں کے کسی گروہ کا مل کر کسی بات کو کہنا ہوسکتا ہے، یا ہر صاحب ِ علم کے اُوپر وہ العلیم ہے جو نہ صرف علم بلکہ قوتِ عمل کی تمام ممکنہ صلاحیتوں سے زیادہ قوت رکھنے والا العزیز، القدیر، القوی، العلیم اور اکبر اور اعلٰی ہے!
اسلام جس روایت اور ثقافت ِ علم کو قائم کرنا چاہتا ہے، اس کا مآخذ اور بنیاد اُن تمام بنیادوں سے مختلف ہے جو انسان نے اپنی محدود عقل، تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر دریافت کی ہیں۔ ان بنیادوں میں سب سے پہلے انسانی فکر اور تعقل کو شمار کیا جاتا ہے۔ قدیم ترین تہذیبوں میں انسان نے کسی نہ کسی شکل میں اپنی عقل کا استعمال کرتے ہوئے بعض باتوں کو درست تسلیم کیا اور بعض کو ردکیا۔ عقل کو حاکم بناتے ہوئے وہ جو فلسفی کہلائے، اس بات پر مُصر رہے کہ انسانی فکر کا منبع اور مآخذ قوتِ فکر ہے جسے تفلسف (philosophization) سے تعبیر کیا گیا، یعنی انسانی ذہن کا فکری زاویے تعمیر کرتے ہوئے اپنے فکری مفروضوں کی بنیاد پر کسی شے کی حقیقت کا دریافت کرنا۔ ظاہر ہے فکری طور پر جب سارا انحصار ایک مفروضے (hypothesis) پر ہوگا اور اگر وہ مفروضہ خود زمان و مکان کی قید سے آزاد نہ ہو، اور بالفرض حقائق پر مبنی نہ ہو تو جو فکر یا دیوار بنے گی وہ کجی سے نہیں بچ سکتی۔ یہی سبب ہے مغربی فکر میں جن فلاسفہ کو ارسطو اور افلاطون سے لے کر ہیگل اور کارل مارکس تک آئیڈیلزم کے مدرسے سے تعبیر کیا جاتا ہے، وہ انسانی سوچ کو اپنارہنما بناتے ہیں اور اگر انسانی سوچ انھیں یہ بتائے کہ اصل حقیقت مادہ یا matter ہے تو پھر وہ مادیت پرستی کا فلسفہ تعمیر کرتے ہیں، اور اگر عقل یہ کہے کہ تصور یا idea ہر شے کی بنیاد ہے تو وہ idealism کے داعی بن جاتے ہیں اور ظن و گمان کی وادیوں میں گم رہتے ہیں۔
علم کی دوسری بنیاد حواس کے تجربے کو سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ علم حقیقی اور یقینی سمجھا جاتا ہے جس کی تصدیق انسانی حواس سے کی جاسکتی ہو۔ اس کو مشاہداتی حقیقت ( empirical reality) قرار دیا جاتا ہے اور جو چیز مشاہداتی طور پر تجربے میں نہ آسکتی ہو اسے عموماً رد کردیا جاتا ہے۔
علم کا ایک تیسرا ذریعہ اُس ذاتی ، روحانی یامابعد الطبیعیاتی تجربے کو قرار دیا جاتا ہے جو انسان اپنی کوشش اور توجہ سے حاصل کرتا ہے اور جس کے نتیجے میں اسے بعض مخفی حقائق کا اِدراک ہوتا ہے اور جسے وہ روحانیت سے تعبیر کرتاہے۔ چنانچہ باطنی (esoteric) علم وہ سمجھا جاتا ہے جو پردوں میں چھپا ہوا ہو، اور وارداتِ قلبی کے نتیجے میں آشکارا ہو اور اس ذریعے سے حاصل ہونے والا علم معتبر اور صداقت پر مبنی سمجھا جاتا ہے، کیوںکہ اس طرح وہ جو محدود ہے غیرمحدود کے ساتھ رابطے میں آجاتا ہے۔ اس رابطے کو علم و تجربے کا نقطۂ کمال سمجھاجاتا ہے۔
قیاسی، تجربی اور روحانی تجرباتی ذرائع علم سے آگے نکل کر قرآنِ کریم نے علم کے جس سب سے بلند اور حقیقی ذریعے سے تمام انسانوں کو روشناس کرایا اس کا نام وحی الٰہی ہے، جو کسی انسانی کاوش کے نتیجے میں روحانی تجربے کی شکل میں واقع نہیں ہوتی اور نہ اس کا تعلق انسان کی اپنی ذاتی فکر سے ہے کہ جب انسان خواہش کرے تو وجود میں آجائے اور جب خواہش نہ کرے تو معطل ہوجائے۔ یہ وہ معروضی (objective) حقیقت ہے جس کا مشاہدہ روزِ روشن میں انبیاے کرام ؑ پر نزولِ وحی کے دوران ان کے ہم عصر سیکڑوں افراد نے خود کیا، اور جس کا واضح ثبوت اپنی اصل یا تحریف شدہ شکل میں، ماضی میں آنے والی کتب ِ سماوی میں انسانی تاریخ میں پایا جاتا ہے۔
وحی الٰہی کے علم کے سب سے زیادہ یقینی، حقیقی اور حتمی ذریعہ ہونے کی مثال انبیاے کرام ؑ کا لایا ہوا وہ کلامِ الٰہی ہے جسے انھوں نے کبھی اپنے آپ سے منسوب نہیں کیا بلکہ ہمیشہ یہ کہا کہ یہ وہ امانت ہے جو ہمیں دی گئی ہے۔ ہمارا کام اس امانت کو جوں کا توں انسانوں تک یا بعض حالات میں مخصوص اقوام تک پہنچانا ہے۔ ہم اس میں نہ اضافہ کرسکتے ہیں نہ کمی۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو اپنے اُوپر ظلم کریں گے اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہماری شہ رگ سے پکڑ لے گا۔ گویا وحی کا ایک ایک لفظ، ایک ایک نقطہ اور حرکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے۔ نبی ؑ اس میں زیر، زبر کی بھی کمی یا زیادتی نہیں کرسکتا۔ یہ نہ تجربی ہے، نہ قیاسی، نہ وارداتی بلکہ اپنی نوعیت کا الگ اور منفرد کلام، علم، نور اور ہدایت ہے۔ یہ اس ہستی کی طرف سے آتی ہے جس کے علم کی کوئی حد نہیں ہے۔
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ ط اِنَّ ذٰلِکَ فِیْ کِتٰبٍ ط اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ o(الحج ۲۲:۷۰) کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے۔ اللہ کے لیے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔
چوںکہ اُس نے ہی انسان کو وحی کے ذریعے علم دیا، اس لیے کہ وہ نہ صرف پوری کائنات بلکہ جتنی کائناتیں آج تک وجود میں آئیں اور آیندہ وجود میں آئیں گی، ان سب کا علم رکھتا ہے۔ اس لیے وہ انسان کے مبلغ علم سے بھی مکمل واقفیت رکھتا ہے۔ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ o (النحل ۱۶:۱۹)’’ حالاںکہ وہ تمھارے کھلے سے بھی واقف ہے اور چھپے سے بھی‘‘۔
اس علمِ حقیقی کی اشاعت اور اس پر عمل کرنے کی دعوت کا آغاز ان پانچ آیات سے ہوا، جو پہلی وحی کی شکل میں نازل ہوئیں:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ o (العلق ۹۶:۱-۵) پڑھو (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو اور تمھارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔
اس علم کے رکھنے والے، سمجھنے والے، اس پر عمل کرنے والے اور اس کی اشاعت کرنے والے اور وہ جو اس سے آگاہ نہ ہوں، کس طرح برابر ہوسکتے ہیں۔ اس لیے قرآن کریم نے انسانوں کے مراتب و درجات کا تعین ان کے رنگ، نسل، لسان، قومیت، صوبائیت سے نہیں بلکہ علم کی بنیاد پر کیا:
اَمَّنْ ھُوَ قَانِتٌ اٰنَـآئَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّقَآئِمًا یَحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ ط قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ط اِِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (الزمر ۳۹:۹) (کیا اِس شخص کی روش بہتر ہے یا اُس شخص کی) جو مطیعِ فرمان ہے، رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا اور سجدے کرتا ہے۔ آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت سے اُمید لگاتا ہے؟ اِن سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں۔
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِِذَا قِیْلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللّٰہُ لَکُمْ ج وَاِِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ o (المجادلہ ۵۸:۱۱) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو جگہ کشادہ کردیا کرو، اللہ تمھیں کشادگی بخشے گا۔ اور جب تم سے کہا جائے کہ اُٹھ جائو تو اُٹھ جایا کرو۔ تم میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔
وحی کے ذریعے انسانوں کو جس علم سے نوازا گیا قرآنِ کریم اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر ایک فضل، نعمت اور رحمت سے تعبیر کرتا ہے کیوںکہ اسی علم کی بناپر روشنی رکھنے والی آنکھ میں بینائی اور سوچنے والے دماغ میں جلا ہوتی ہے۔ اگر اس علم کو نکال دیا جائے تو دماغ نامی چیز رکھنے اور ذہن نامی غیرمادی شے کے دعوے کے باوجود ایک انسان، حیوان بلکہ اس سے بدتر بن سکتا ہے۔
وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا ط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَo (اعراف ۷:۱۷۹) اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جِن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل و دماغ ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔
قرآن کریم نے اپنے لیے جس مختصر نام کا انتخاب کیا وہ ’’الکتاب‘‘ یعنی The Book ہے جو معرفہ ہونے کی بناپر قیامت تک کے لیے اصل کتاب کی حیثیت رکھتی ہے، اور اپنے سے قبل آنے والی تمام کتابوں میں جو حق نازل کیا گیا تھا اس کی تصدیق، اور جو اضافے اور تحریف کی گئی اس کی اصلاح کرکے احسن الحدیث کو انسانوں کے سامنے کھول کر رکھ دیتی ہے۔
قرآن کی دوسری عظیم سورت کا آغاز ہی الکتاب کے تذکرے سے ہوتا ہے جو بیک وقت کم از کم تین اہم پہلوئوں کی طرف متوجہ کرتی ہے ۔
اوّلاً: ہدایت، رہنمائی، حکمت، دانائی، نور اور صراطِ مستقیم اس کتاب میں متعین (definite) کردی گئی ہے۔ اس میں نہ کوئی ظنی بات ہے، نہ گمان نہ شبہہ بلکہ اعلیٰ ترین علم یقینی اور علم حقیقی اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ الکتاب ہے۔
دوسری جانب یہ کتاب ہے، جسے قیامت تک غور اور تحقیق کے ساتھ پڑھا [قَرَائَ یَقرئُ] جاتا رہے گا۔ الکتاب کو نازل کرنے کا واضح مفہوم ہی یہ ہے کہ آئو اس علم و نور کی طرف ، اسے نہ صرف پڑھو بلکہ اس کے ایک ایک لفظ پر ایک مرتبہ نہیں سیکڑوں مرتبہ غور کرو تاکہ اس کے اندر چھپے ہوئے علم کے خزانے کی چند کرنوں سے فیض یاب ہوسکو۔ قرآنِ کریم کا نزول اور الکتاب کا آنا ایک کتابی ثقافت کا احیا تھا کہ وہ جنھیں آج تک اُمّی کہہ کر خطاب کیا جاتا تھا، وہ اس عظیم کتاب کے حامل بن کر دنیا میں اس کتاب کے ذریعے علمی، فکری، ثقافتی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، قانونی، تعلیمی اور اخلاقی انقلاب برپا کرسکیں۔ اس الکتاب نے باربار متوجہ کیا کہ اس کے بھیجنے والے نے اسے انتہائی آسان بنا دیا ہے۔ تو کوئی ہے جو اسے پڑھے، بار بار پڑھے اور اس پر غور کرے۔
ایک تیسرا پہلو جو الکتاب سے وابستہ ہے، وہ اس آفاقی کتاب اور تحریر کے ذریعے اس کے ماننے والوں کو خود ایک تحریری روایت کی طرف متوجہ کرنا ہے تاکہ علم محض سماعی نہ رہے بلکہ تحریری شکل میں آگے سے آگے بڑھتا جائے۔ جن خوش نصیبوں نے اس پیغام کو پڑھا اور سنا انھوں نے ایک نہیں بلکہ اس الکتاب میں اجمالی علم کی سیکڑوں تشریحات اور تفصیلات تلاش کر کے انسانی تحریری سرمایے میں گراں قدر اضافے کیے اور آج تک کیے جارہے ہیں۔
الکتاب کی اس عظمت اور اہمیت کے علی الرغم آج کا نوجوان اپنے اردگرد کے ماحول سے اپنی وابستگی کی بنا پر سوچتا ہے کہ کتب بینی کی جگہ اگر وہ برقی ذرائع علم کو اختیار کرے تو نہ صرف برق رفتاری کے ساتھ بلکہ وسعت کے ساتھ وہ بہت سی معلومات کو حاصل کرسکتا ہے۔ سوشل میڈیا آج ایک ناقابلِ تردید ابلاغی انقلابی قوت ہے۔ اس کے صحیح استعمال سے سیاسی انقلابات واقع ہوسکتے ہیں۔ یہ توسیع علم کا ایک اہم انقلابی ذریعہ بن چکا ہے۔ لیکن اس تمام فائدے کے باوجود سوشل میڈیا ایک ذریعہ (means) تو ہے، ایک ماخذ (origin) نہیں ہے۔ اس کا ماخذ افراد کے تاثرات، احساسات، تعبیرات، تجزیے اور تجربے ہیں، جو تمام تر دعوئوں کے باوجود محدود، وقتی، قیاسی اور ظنی رہیں گے، جب کہ الکتاب علم کے حقیقی اور جامع مآخذ کا مقام رکھتی ہے اور جس کی بنیاد پر انسانی علم وجود میں لایا جاسکتا ہے۔
سوشل میڈیا لازمی طور پر ایک جدید ذریعہ ہے جو علم کے نشرو ابلاغ میں غیرمعمولی طور پر مددگار ہے لیکن اس کا یہ مطلب لینا کہ اب کتاب اور الکتاب کی ضرورت میں کمی ہوسکتی ہے کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہوسکتا۔ ہاں، الکتاب پر مبنی علم کو آج نہ صرف تحریر بلکہ برقی ذرائع سے کم سے کم وقت میں تمام انسانوں تک پہنچایا جاسکتا ہے اور اس کا یہ استعمال ایک دعوتی مطالبے کی حیثیت رکھتا ہے۔
کتاب سے رشتہ اور کتاب کی طرف رجوع بہرصورت ایک دینی، تحریکی اور علمی مطالبہ ہے۔ قرآن کریم نے اپنے بارے میں ’مبین‘ کے لفظ کا استعمال اس لیے کیا ہے کہ اس کی ہر بات بیّن، مبنی بردلیل آسان اور واضح ہونے کے ساتھ غوروفکر کی دعوت دیتی ہے۔ نہ صرف خود یہ الکتاب بلکہ اس کے زیرسایہ وجود میں آنے والا علمی ورثہ اور روایت بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ اس سے استفادہ ایک بار نہیں بار بار کیا جائے۔ شاید بعض نوجوان اس بات کو مبالغہ سمجھیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم کے زیرسایہ جو علمی روایت خود دورِحاضر میں وجود میں آئی خصوصاً مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ہرقسم کی مدافعانہ فکر سے آزاد ہوکر، فکری اعتماد اور دلیل کی قوت کے ساتھ مثبت طور پر قرآن کی فکر کو اپنی سلیس تحریر میں بیان کیا ، وہ بھی اس بات کی مستحق ہے کہ اسے باربار پڑھا جائے۔ وہ تفہیم القرآن کے حواشی ہوں یا قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر ہو یا خطبات اور دینیات یا دعوتِ اسلامی کا مقصد اور طریق کار، ان میں سے ہرہرتحریر کو جتنی مرتبہ بھی پڑھا جائے گا دعوتِ دین اور فہم قرآن کا کوئی نہ کوئی نیا زاویہ ہی علم میں آئے گا۔ الکتاب کا یہ معجزہ ہے کہ اس کے زیرسایہ ہر زمانے میں جو تحریر دل کی گہرائیوں سے نکلتی ہے وہ خود زندگی کی حامل بن جاتی ہے۔
الکتاب کے تصورِ علم کی اوّلین بنیاد العلیم کی جانب سے بھیجی ہوئی وہ صداقت ہے جو زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتی ہے۔ اگر صرف ان پانچ آیات پر غور کیا جائے جو پہلی وحی کی شکل میں نازل ہوئیں تو جہاں علمی سفر کا آغاز اس حقیقت سے ہوتا ہے وہاں ’پڑھنے‘ کا ادب کیا ہوگا۔ کیا انسان صرف اپنی بصارت اور سماعت پر بھروسا کرکے پڑھنے کا عمل کرے یا وہ العلیم اور علم کے خالق کے نام سے مطالعہ کرنے اور غوروفکر کرنے کا آغاز کرے۔
فرمایا گیا: اللہ کے نام سے پڑھو۔ ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھا دی گئی کہ اس پڑھنے والے کی اپنی تخلیق اور حیثیت کیا ہے اور نہ صرف وہ بلکہ تمام حیاتیاتی دنیا ( biological world) کس طرح وجود میں آئی ہے۔ وہ انسانی پیدایش کا نقطۂ آغاز ہو یا نباتات و حیوانات اور آبی حیات کا وجود، خالقِ حقیقی نے ہی اسے پیدا کیا ہے اور تمام طبیعیاتی دنیا (physical world) کا خالق بھی وہی ہے جس نے نہ صرف قلم سے انسان کو علم سے فیض یاب کیا بلکہ قلم ہی انسانی تہذیب کی نشوونما، سائنسی تحقیقات، ٹکنالوجی اور ابلاغی ذرائع کے وجود میں آنے کا ذریعہ بنا۔الکتاب سے مسلسل طالب علمانہ تعلق ہی ایک انسان میں حق و باطل میں فرق، اخلاقی اور غیراخلاقی عمل میں تمیز اور عدل اور ظلم میں تفریق پیدا کرسکتا ہے۔
علم کی اصل بنیاد العلیم کا دیا ہوا علم ہے جس کا کچھ ضروری حصہ تخلیقِ آدم ؑ کے وقت انسانیت کو دیا گیا اور پھر وقتاً فوقتاً کتابوں کے ذریعے اس میں اضافہ کیا جاتا رہا ، حتیٰ کہ الکتاب نے آکر علم کو حتمی شکل دے دی۔ اس قطعی اور حتمی علم کے لانے والے اللہ تعالیٰ کے اپنے منتخب کردہ انبیاے کرام ؑتھے۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بے شمار رحمتوں میں سے ایک عظیم رحمت انبیاے کرام ؑ کو حاملینِ وحی بناکر بھیجنا اور وحی کے علمِ حقیقی کے ذریعے انسانوں کی فکروعمل کی تطہیر ہے۔ قرآنِ کریم نے اس حقیقت کو چار مختلف مقامات پر معمولی تبدیلیِ ترتیب کے ساتھ ہمیں سمجھایا ہے۔ اختصار کی بناپر ہم صرف ایک مقام کا تذکرہ کرنا کافی سمجھتے ہیں۔ فرمایا گیا:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ ج وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o(اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴) درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اُٹھایا جو اُس کی آیات انھیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔
قرآن کریم اس آیت مبارکہ اور سورئہ بقرہ (۲:۱۲۹و ۱۵۱) اور سورئہ جمعہ(۶۲:۲) میں بھی اسی پہلو کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ انبیاے کرام ؑ بطور داعی جس مقصد کے لیے بھیجے جاتے ہیں وہ جامع شکل میں چار وظائف ہیں۔
گویا تحریکی کارکن ہو یا قیادت، جب تک وہ اس کلامِ عزیز کے امین کی حیثیت سے اس کے الفاظ کو صحیح طور پر ادا نہیں کرتے وہ اس بارِ امانت کو صحیح طور پر نہ سمجھے ہیں نہ اس کے اہل قرار دیے جاسکتے ہیں۔ انبیاے کرام بطورِ معلم اور داعی پہلا کام یہی کرتے ہیں کہ اپنے ماننے والوں کو اس عظیم کلام کو صحیح طور پر ٹھیرٹھیر کر پڑھنے، تلاوت کرنے اور اس پر غور کرنے کی تربیت دیں۔ یہ علمی اور فکری تطہیر کا مقدمہ ہے۔
تزکیے کے عمل کو قرآن کریم نے خود بہت وضاحت سے مختلف مقامات پر بیان کردیا ہے کہ اسے کس طرح کیا جائے اور اس کی سب سے مکمل اور عملی شکل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کی شکل میں، رہتی دنیا تک ہمارے سامنے قابلِ عمل نمونے کے طور پر رکھ دی ہے۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی o (الاعلٰی ۸۷: ۱۴-۱۵) ’’فلاح پا گیا جس نے تزکیہ اختیار کیا اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی‘‘۔
اس کی وضاحت یوں کردی: یٰٓاََیُّھَا الْمُزَّمِّلُ o قُمِ الَّیْلَ اِِلَّا قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاo (المزمل ۷۳:۱-۴) ’’اے اُوڑھ لپیٹ کر سونے والے، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، آدھی رات، یا اس سے کچھ کم کرلو، یا اس سے کچھ بڑھا دو، اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو‘‘۔
نماز، تہجد اور قرآن کا رشتہ انتہائی قریبی اور حقیقی ہے۔ اللہ کا ذکر اور اس کی یاد نماز کی شکل میں اور قیام میں رکوع میں، حتیٰ کہ پہلو پر لیٹے ہوئے بھی، اللہ کا ذکر اختیار کرنا تزکیۂ نفس اور تزکیۂ ذات کی اعلیٰ شکل، خود کلامِ عزیز نے متعین فرما دی اور اسوئہ پاکؐ نے اسے تاریخ کی روشن مثال بنادیا۔
مال کے تزکیے کے لیے زکوٰۃ فرض کی گئی اور وقت اور تعلقات کے تزکیے کے لیے روزے کی سنت، لیکن اس میں بھی تزکیہ، نفس کشی کا نام نہیں بلکہ توازن و اعتدال سے سنت پاک کے دائرے میں رہتے ہوئے روزے رکھنا تجویز کیا گیا۔
مشہور حدیث کے مطابق، جب آپؐ کے تین اصحابؓ نے اُمہات المومنینؓ سے یہ سمجھنا چاہا کہ آپؐ کے لیل و نہار کیسے گزرتے ہیں، جب انھیں بتایا گیا تو انھوں نے آپؐ کی عبادت کی مقدار کو کم تصور کیا۔ کہنے لگے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا کیا مقابلہ، ان سے نہ تو پہلے گناہ ہوئے نہ بعد میں ہوں گے۔ ہم معصوم نہیں، ہم تو عام انسان ہیں۔ اس لیے ہمیں عبادت میں کثرت کے ذریعے تزکیۂ نفس کرنا چاہیے۔ چنانچہ ایک نے قصد کیا کہ تمام رات نماز میں مصروف رہے گا۔ دوسرے نے عزم کیا کہ مستقل روزہ رکھے گا اور تیسرے نے طے کیا کہ میں عورتوں سے الگ تھلگ رہوں گا، کبھی شادی نہ کروں گا۔ تزکیے کی ان تینوں شکلوں کو خاتم النبیین نے یک قلم منسوخ کرتے ہوئے توازن و عدل کے ساتھ تزکیے کی تعلیم فرمائی اور یہ اصول طے فرما دیا کہ نیکی سمجھ کر جو کام آپؐ کی سنت کے علی الرغم کیا جائے گا وہ ایسے فرد کو آپؐ کی اُمت سے خارج کردے گا۔ اس طرح دنیا کے تمام مذاہب کے تصور تزکیۂ نفس اور ریاضت ِ باطنی کو ردفرماتے ہوئے آپؐ نے ایک صالح شخصیت، صالح معاشرہ اور عادلانہ تہذیب کی تعمیر کے لیے اپنی سنت پر عمل کو شرطِ اوّل قرار دے کر انحراف کے تمام راستے بند کردیے۔
یہ تزکیہ ایوانِ اقتدار اور خود اقتدار کا بھی کیا جائے گا۔ چنانچہ حضرت موسٰی ؑاور حضرت ہارون ؑ کو فرعون کے اقتدارِ اعلیٰ کو چیلنج کرنے کے لیے بھیجتے وقت وصیت کی گئی: ’’جائو تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے [حد سے بڑھ گیا ہے] اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے‘‘۔([طٰہٰ ۲۰: ۴۳-۴۴)
یہ تزکیہ میدانِ جہاد میں بھی ہے کہ اپنی جان اور مال کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حکم کو سربلند کرنے کے لیے لگا دیا جائے۔ یہ غیراخلاقی ثقافتی معاملات کا بھی ہے کہ ان سے پاک دامن رہتے ہوئے ان کی جانب کسی رجحان کے بغیر گزر جایا جائے۔ وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ o (المومنون ۲۳:۳) ’’اور لغویات سے اعراض کرتے ہیں (دُور رہتے ہیں)‘‘۔
رحمن کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل اُن کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں، جو دعائیں کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے رب، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے، اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بڑا ہی بُرا مستقر اور مقام ہے‘‘۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بُخل، بلکہ اُن کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اس کو مکرّر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلّت کے ساتھ پڑا رہے گا۔ اِلا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرچکا ہو اور ایمان لاکر عملِ صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی بُرائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ جو شخص توبہ کر کے نیک عملی اختیار کرتا ہے وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیساکہ پلٹنے کا حق ہے__ (اور رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر اُن کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔ (الفرقان ۲۵: ۶۳-۷۲)
اللہ تعالیٰ نے تزکیے کا کام بعد میں آنے والے کسی فرد یا افراد کی جگہ، خود خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری قرار دے کر، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ دروازے بند کردیے جن میں کوئی اور یہ تعلیم دے کہ میرے تجربے میں فلاں عمل سے یہ بات آئی ہے، اس لیے اس طریقے سے تزکیہ کیا جائے۔ شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تزکیے کی تربیت دینے والا نہ آج تک کوئی پیدا ہوا ہے نہ ہوگا۔ اس لیے تحریک کے ہر کارکن کا فرض ہے کہ وہ قرآنِ کریم اور سیرتِ پاک میں تلاش کرے کہ سچائی کے ان دو سرچشموں نے کن کاموں کے ذریعے نفس کا تزکیہ، عقل کا تزکیہ، مال کا تزکیہ، وقت کا تزکیہ، خاندان کا تزکیہ، ثقافت کا تزکیہ، سیاست کا تزکیہ، باہمی تعلقات کا تزکیہ اور عالمی سطح پر فکر اور عمل کا تزکیہ کرنے کی تعلیم اور عملی مثال ہمارے سامنے رکھ دی ہے، تاکہ اہلِ ایمان ظن و گمان اور قیاس کی جگہ سنت ِ پاک کی پیروی کرتے ہوئے اپنے مال، اپنے جسم و روح، اپنی صلاحیت، اپنی فکر، اپنے اختیارات، انسانی تعلقات اور معاملات، غرض پوری زندگی کا تزکیہ کرسکیں۔ اس کام میں قائد اور کارکن میں کوئی فرق نہیں۔ جو حکم قائد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا کہ وہ رات کے کچھ حصے کو اللہ کے حضور سرگوشی کرنے کے لیے مخصوص فرما لیں وہی حکم ایک عام کارکن کا ہے تاکہ وہ سیّدہ عائشہؓ کی روایت کردہ حدیث کی روشنی میں کم از کم دو رکعت جیسے مختصر عمل کو اپنا ذریعۂ تزکیہ بنالے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ اس بظاہر چھوٹے عمل کو حدیث میں بڑے عمل سے تعبیر کیا گیا ہے کیوںکہ اس چھوٹے سے عمل سے اگر اللہ اور رسولؐ خوش ہوتے ہیں تو یہ دورکعت ایک بہت بڑی ریاضت ہے۔ اُس سے بھی زیادہ جس کے لیے بعض مذاہب میں سنیاسی اور روحانیت کے متوالے ۳۰،۳۰ سال جنگلوں اور بیابانوں میں سرگرداں رہتے ہیں۔
تحریکی قیادت اور کارکنوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ غوروفکر کرکے یہ دیکھیں کہ کس طرح آج کے حالات میں سنت اور حکمت کی تطبیق کی جائے گی۔ وہ وقتی سیاسی مفاہمت ہو یا طویل المیعاد دعوتی، فلاحی، سیاسی اور فکری حکمت عملی، ہرہرمعاملے میں یہ دیکھنا ہوگا کہ سنت پاکؐ ہمیں اس حوالے سے کیا بنیاد اور دلیل فراہم کرتی ہے۔ نہ صرف خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بلکہ دیگر انبیاے کرام ؑ کا اسوہ آج کے سیاسی معاملات میں کن مصالح کو تقویت دیتا ہے اور کن باتوں سے روکتا ہے۔ الکتاب نے اسی بنا پر ہمیں احسن القصص سے نوازا ہے کہ حضرت یوسف ؑ کا اسوہ ہو یا حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت اسماعیل ؑ ، حضرت موسٰی ؑ، حضرت سلیمان ؑ اور حضرت دائود ؑ اور دیگر انبیاے کرام ؑ کا اسوہ، ان سب روشن مثالوں کو سامنے رکھ کر، ہم کس طرح نصوص پر مبنی سیاسی اور دعوتی حکمت عملی وضع کریں۔
ان چار جامع اصولوں کے ساتھ الکتاب نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اوردیگر انبیا ؑ کی دعوت اور اسوہ کے دو اہم پہلوئوں کی طرف بھی متوجہ کیا ہے، یعنی ان کا انسانوں کے معاشرے سے ظلم، حقوق کی پامالی، فتنہ و فساد، عناد و عداوت کو دُور کرتے ہوئے عادلانہ معاشرے کا قیام، لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ(حدید ۵۷:۲۵) ’’تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘۔
دعوتِ دین کا بنیادی مقصد ایک ایسے معاشرے اور ریاست کا قیام ہے، جس میں نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانوں اور نباتات تک کے حقوق کی ادایگی کو فریضہ قرار دے دیا گیا۔ عدل کا قیام انبیا کے مشن کا ایک اہم پہلو ہے۔ یہ عدل انسان کے اپنے نفس سے شروع ہوتا ہے اور بتدریج اہلِ خانہ، والدین اور بیوی بچے ہوں یا پڑوسی اور محلے دار، ضرورت مند ہوں یا بے کس، یا وہ حیوانات بھی جنھیں وہ باربرداری کے لیے استعمال کرتا ہو، وہ ملازم جن سے وہ کام لیتا ہے، حتیٰ کہ وہ پانی کا ایک قطرہ جو و ہ بلاضرورت بہاتا ہے، یا وہ ایک ننھی سی چڑیا ہے جسے وہ بلاوجہ مار دیتا ہے___ عدل ان تمام اُمور کا احاطہ کرتا ہے۔ غرض یہ عدلِ اجتماعی اسلامی دعوت کا وہ اہم پہلو ہے جس کے بغیر کوئی تحریکِ اسلامی اپنا مشن پورا نہیں کرسکتی۔ تحریکات اسلامی دراصل معاشرتی سیاسی، معاشی عدل کے قیام اور ظلم و استحصال کے خاتمے کے لیے برپا ہوتی ہیں۔ یہ کُلّی معاشرتی تبدیلی کی علَم بردار عادلانہ تحریکات ہوتی ہیں۔
اس کے ساتھ ایک اور اہم پہلو دعوتِ دین اور نظامِ اسلامی کا مکمل طور پر قائم کرنا [لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (التوبہ ۹:۳۳) ’’تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے‘‘] ہے۔ گویا الکتاب جس روایت ِعلم کی طرف بلاتی ہے، وہ دین کی مکمل تعلیمات کو بغیر اس میں کوئی کمی بیشی کیے جوں کا توں، بغیر کسی مداہنت اور معذرت کے، ہر دور کی زبان میں کھل کر پیش کرنے کی تعلیم دیتی ہے، اور دوسری جانب مکمل دین کے نظام کو دنیا میں نافذ اور رائج کر کے انسانیت کی فلاح، عدل کے قیام اور اخوت کے فروغ کا سبب بن جاتی ہے۔ اسلام دین و دنیا کی تفریق کو رد کرتا ہے جیساکہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے لیے تمام زمین کو مسجد بنادیا ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کا اصل مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کی مکمل بندگی کے نظام کا قیام ہے۔
تحریکِ اسلامی کا ایک بنیادی کام تطہیر افکار اسی بنا پر ہے کہ وہ انبیاے کرام اور خاتم النبیینؐ کے اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے ان چھے بنیادی فرائض کو جیسا ان کا حق ہے ادا کرسکے۔ اس فرض کی ادایگی میں سب سے پہلے تحریک کو اپنی صفوں میں ثقافتِ علم کو تازہ کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم بار بار کہتا ہے کہ اسے ٹھیرٹھیر کر، سمجھ کر پڑھا جائے۔
کیا تحریک میں شامل ہوتے وقت بطور ایک شرط کے چند کتب کا مطالعہ بقیہ تمام زندگی کے دوران ایک شخص کو طلب ِ علم سے بے نیاز کرسکتا ہے؟ کیا تحریکی لٹریچر کا ایک مرتبہ پڑھ لینا مقصد ِ دعوت ، طریقِ دعوت، ہدفِ دعوت، حکمت ِ دعوت، ترجیحاتِ دعوت اور تنظیمِ دعوت کے حوالے سے کافی ہوسکتا ہے؟ کیا کسی کا محض ۲۰سال سے ایک تحریک سے وابستہ ہونا اس بات کی دلیل ہوسکتا ہے کہ وہ مقصد ِ دعوت، حکمت ِ دعوت، طریق دعوت اور تنظیمِ دعوت سے پوری واقفیت رکھتا ہے اور ان میں فرق کو سمجھتا ہے اور ان کے حوالے سے قرآن وسنت سے دلیل پیش کرسکتا ہے؟ یہ جاننے کے لیے کسی اعلیٰ درجے کی سائنس کی ضرورت نہیں، صرف دو لمحات کے لیے تنہا بیٹھ کر اپنے احتساب کی ضرورت ہے اور ہرکارکن اور قائد جان سکتا ہے کہ وہ کس حد تک علم کے حسن کی خوبیوں سے آراستہ ہے اور اسے کس حد تک تطہیرفکر کے عمل کو دہرانے کی ضرورت ہے۔
تحریکی لٹریچر کے حوالے سے ایک عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ مولانا مودودیؒ اور ان کے رفقاے کار نے ایک خاص دور کی مخصوص ضروریات کے پیش نظر دین کی تشریح کی، جب کہ اب حالات بدل چکے ہیں ، اس لیے وہ لٹریچر اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ ذہن میں رکھنے کی ہے کہ مولانا مودودیؒ نے دین کی جو جامع تشریح کی اور دین کے اجتماعیت کے پہلو کو اُجاگر کیا وہ تنہا ان کی تعبیر نہیں، بلکہ ان سے قبل حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی فکر کا رُخ بھی یہی تھا۔ اسی پہلو کو علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں پیش کیا اور سیرت النبیؐ پر جو علمی کتب تحریر ہوئیں ان سب کا مطمح نظر یہی رہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کسی خاص دور کے لیے اور دین کے کسی خاص پہلو پر مرتکز نہیں تھی بلکہ مکمل دین کی دعوت تھی۔ اس لیے سیّدمودودیؒ کا اس دور میں انتہائی عقلی اور نصوص پر مبنی دلائل سے یہ بات پیش کرنا ہر دور کے لیے ایک اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔
دین کے اصول وقت کے ساتھ نہ بدلتے ہیں اور نہ ان میں کوئی قدامت ہوتی ہے۔ اگر دین کے اجتماعیت کے پہلو کو اب سے ۷۰سال پہلے اُجاگر کرنا ضروری تھا تو کیا آج اس کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا کل جس اسلامی نظامِ معیشت کا قیام ضروری تھا آج اُس کی ضرورت نہیں ہے؟ کل جس طرح سیاسی اقتدار ان لوگوں کے پاس ہونا چاہیے تھا جو امین اور صادق ہوں تو کیا آج یہ اصول بدل جائے گا؟ کیا کل جس شوریٰ کی ضرورت اور فرضیت تھی آج وہ باقی نہیں رہے گی؟ اس لیے یہ خیال کہ اب کسی اور دعوت کی ضرورت ہے، نہ عقل کا مطالبہ ہے اور نہ دین کے صحیح فہم کا پتا دیتا ہے۔ دین کے اصول چوںکہ عالم گیر اور آفاقی ہیں اس لیے وہ پاکستان سے باہر بھی یکساں قابلِ عمل رہیں گے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ فقہ کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ حالت کی تبدیلی سے حکم بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ مولانا مودودی بھی اس سے اچھی طرح واقف تھے لیکن اس قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ حالات کے لحاظ سے حکمت عملی وضع کی جائے گی۔ یہ مطلب نہیں کہ کل جو حرام تھا وہ آج حلال ہوجائے گا۔ شراب جیسے حرام تھی ویسی ہی رہے گی۔ اگر شراب کی جگہ کسی نشہ آور شے نے لے لی ہو تو وہی حکم اُس کے لیے ہوگا۔
حکمت عملی میں بھی قرآن کریم نے انبیاے کرام کی خصوصی مثالوں سے جن پہلوئوں کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے وہ مستقل اصولوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فرعون کے پاس بھیجتے ہوئے یہ حکم دینا کہ اُس جابر، ظالم، دعواے خدائی کرنے والے سے بھی ’قول لیّن‘ (نرمی سے بات کرنا)کا استعمال کیا جائے۔ آج بھی وہی حکم ہے چاہے دعوت کا مخاطب دنیا کا سب سے زیادہ طاقت کا دعویٰ کرنے والا ملک ہی کیوں نہ ہو۔ قولِ لیّن، موعظہ حسنہ، شہادتِ حق، استقامت، صبر، ایثار و قربانی، اجتہادی طرزِفکر اور جہدِ مسلسل میں لگے رہنا، وہ اصولِ دعوت ہیں جو تحریکی لٹریچر کی جان، اور قرآن و سنت سے براہِ راست ماخوذ ہونے کی بنا پر، ان میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوسکتا۔ ہاں، شہادتِ حق کے لیے دعوت کے کس مرحلے میں ترجیحات کیا ہوں گی، وقت اور حالات کے لحاظ سے توسیع دعوت کے نئے طریقے کیا ہوسکتے ہیں؟ اس کا تعلق اُس فقہی اصول سے ہے جس کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے اور یہ فیصلہ کرتے وقت نہ مداہنت ہوگی اور نہ باطل کے ساتھ وفاداری۔
جب تک اپنی صفوں میں روایت ِعلم کو تازہ نہ کرلیا جائے ایک تعلیمی انقلاب کے عمل کو ملک گیر کرنے کا کام دینی صحت کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔ روایت ِعلم کے قیام کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ جب تک ہر کارکن اور ذمہ دار مجتہدانہ مقام تک نہ پہنچ جائے صرف تطہیر فکر ہی کی جاتی رہے۔ اسلام میں پورے داخل ہونے کا آسان مفہوم یہی ہے کہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوکر، اس نیت سے آغاز ہو کہ زیادہ سے زیادہ قرآن و سنت کی پیروی کی جاسکے۔ اس عمل کے آغاز کے ساتھ ہی سیاسی، معاشی اور معاشرتی تبدیلی اور فلاح کے لیے دیگر کاموں کا کرتے رہنا ضروری ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ تطہیرفکر کے عمل کے لیے سات سال مخصوص کردیے جائیں، جب تک یہ سات سال نہ گزر جائیں کوئی اور کام نہ کیا جائے۔ ایسا کرنا قرآن و سنت کی ہدایت کے منافی ہوگا۔ ہرآنے والا دن یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جو کچھ ایک انسان کے بس میں ہو وہ اس پر عمل کرے، اور اس انتظار میں نہ رہے کہ جب تک وہ ایک ایسے مقام پر نہ پہنچ جائے جو اُس کے خیال میں ایک عالم کا ہے وہ دین کی دعوت نہ دے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ بلِّغوا عنّی ولو آیۃ کا واضح مفہوم ہے کہ ۲۳سال تک انتظار نہ کیا جائے کہ جب تک مکمل قرآن سمجھ کر اور عملاً زندگی میں نافذ نہ ہوجائے گا، ایک داعی باہر نکل کر اپنا کام شروع نہیں کرے گا۔ انسان کی جواب دہی بھی جو وہ جانتا ہے اور جو وہ جان سکتا ہے اس پر ہے، جو وہ نہ جان سکتا ہو اور نہ جانتا ہو اس پر نہیں ہے۔
تحریکاتِ اسلامی کا نقطۂ آغاز وہ بنیادی اصول ہیں جن کی طرف قرآنِ عظیم ہمیں متوجہ کرتا ہے۔ اسلامی دعوت کے ان فکری ستونوں کو شعوری طور پر سمجھ لیا جائے تو پھر تعمیرِعمارت، تعمیرِحیات اور تعمیرِوطن کا نقشہ خود بخود واضح ہوجاتا ہے، اہداف کا تعین ہوجاتا ہے ،اور اللہ تعالیٰ اپنی جانب سے روایت ِعلم کی حکمت عملی وضع کرنے میں آسانیاں پیدا کردیتا ہے۔