سوال : خدا کے فضل سے جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیمات کافی عرصہ سے اسلام کی خدمت کر رہی ہیں، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ تحریک سے وابستگان کی بڑی تعداد ابھی تک اپنے گھروں پر خصوصی توجہ نہیں دے پائی۔ بیش تر گھر ایسے ہیں، جن میں مرد تو تحریک کا کام انجام دے رہے ہیں، لیکن خواتین بالکل ناواقف ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
جواب:آپ ایک خاتون ہیں مگرآپ کے سوال سے یہ مترشح ہو رہا ہے کہ آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ جن مردوں نے دعوت و تحریک کو سمجھ لیا ہے اور وہ یہ مبارک جدوجہد کر بھی رہے ہیں، مگر اپنی خواتین کو دعوت و تحریک کی طرف متوجہ نہیں کر رہے ہیں، اور آپ کے نزدیک یہ مردوں کی ایک کوتاہی ہے۔ بے شک مرد قوام ہیں، گھر کے سربراہ ہیں۔ انھیں یہ ذمہ داری سنجیدگی کے ساتھ پوری کرنی چاہیے۔ صرف اس لیے نہیں کہ اگر انھوں نے گھر کی طرف توجہ نہ کی تو وہ دعوت و تحریک کا کام یکسوئی کے ساتھ نہ کرسکیں گے، اور گھر ہی ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جائے گا، بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قرآن نے بہت واضح اور دوٹوک انداز میں اہلِ ایمان کی یہ ذمہ داری بتائی ہے کہ وہ گھر والوں کو دین کی تعلیم دیں، دین کی تربیت دیں تاکہ وہ کل جہنم کی آگ سے بچ جائیں۔ قرآنِ کریم کا ارشاد ہے:
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ لّاَیَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَo(التحریم۶۶: ۶) اے ایمان والو! بچائو اپنی جانوں کو اور اپنے گھروالوں کو جہنم کی آگ سے جس کاایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر تندخو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہیں، جو ہرگز سرتابی نہیں کرتے، اس حکم سے جو اللہ نے انھیں دیا ہے اور وہی کرتے ہیں جس کا ان کو حکم دیا جاتا ہے۔
اس واضح حکم کا صاف اور صریح مطلب یہ ہے کہ مرد جس کو اللہ نے عائلی زندگی کا سردھرا اور قوّام بنایا ہے دوسری ذمہ داریوں کی طرح اس کی ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اس کی نگرانی میں گھر کے جو لوگ دیے گئے ہیں وہ ان کی تعلیم و تربیت کا ایسا بندوبست کرے کہ وہ خدا کے مخلص بندے بن کر رہیں، اور اسلام کے خادم بن کر جئیں، اور کل حشر کے میدان میں وہ جہنم سے نجات پانے والے صالحین میں شامل ہوں۔
مگر میں آپ سے ایک دوسری بات بھی عرض کرتا ہوں ، وہ یہ کہ اگر مرد غافل اور لاپروا ہو تو یاد رکھیں عورتوں کا دین مردوں کے ذمّے نہیں ہے، نہ مرد عورت کی ذمہ داریوں کا جواب وہ ہوگا۔ دین جس طرح مردوں کا ہے ٹھیک اسی طرح عورتوں کا بھی ہے۔ اگر عورتوں کو خدا نے شعور دیا ہے تو وہ خود توجہ کریں۔ اگر مرد اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں غفلت برت رہے ہیں تو خود خواتین آگے بڑھ کر دعوت و تحریک کو سمجھیں اور اللہ کی عائد کردہ دینی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ مردوں کی غفلت اور لاپروائی کو بہانہ نہ بنائیں، بلکہ جہاں مرد دین سے غافل ہوں، عورتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ انھیں متوجہ کریں اور راہِ راست پر لانے کے لیے دل سوزی، حکمت اور تسلسل کے ساتھ کوشش کریں۔
ایک مثالی گھر یا خاندان وہ ہے، جہاں مہرومحبت ہو، سلیقہ اور تہذیب ہو ، خوش گوار تعلقات ہوں، باہم تعاون ہو___ مگر یہ سب کچھ اسلام کی روشنی اور دین دارانہ ماحول میں ہو اور پورا گھر اسلام کی نمایندگی کرنے والا ہو۔ اس نمایندگی میں بلاشبہہ سربراہی کا مقام مرد کو حاصل ہے، لیکن اس سے انکار کی کیا گنجایش کہ عورت کا رول بھی اس میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے آپ اس طرح سوچیں کہ بلاشبہہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر والوں پر توجہ دیں لیکن اسی پر تکیہ کیے بیٹھے رہنا اور اپنی ذمہ داری محسوس نہ کرنا، کسی طرح صحیح نہیں۔ ایک خاتون کو بھی دین کی طرف اسی طرح بطور خود توجہ کرنی چاہیے جس طرح ایک مرد سے توقع کی جاتی ہے۔ مرد اگر توجہ نہیں کرتاہے، تو اس کی شکایت کرنے یا اس کی غفلت پر اظہار رنج و افسوس کرنے سے اپنے فرض کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ ایسی صورت حال میں تو عورت کی ذمہ داری دُہری ہوجاتی ہے کہ قوّام کے حصے کا کام بھی کسی نہ کسی طرح اسے انجام دینا ہے۔ قوّام کی غفلت اور لاپروائی نے اس کی ذمہ داری میں اضافہ کردیا ہے اور ایسے گھرانے میں عورت کو اور زیادہ دل سوزی، توجہ اور لگن کے ساتھ دینی فرائض انجام دے کر قوّام کو بھی دینی فرائض کی طرف متوجہ کرنا ہے۔(مولانا محمد یوسف اصلاحی، مسائل اور ان کا حل، ص ۳۲۸-۳۳۰)
س : گھر کے خرچ میں سے (جو کھلا خرچ ہو) بیوی بغیر شوہر کی اجازت کے پیسے یا تحائف اپنے رشتہ داروں، ملنے والوں یا نوکروں کو دے سکتی ہے یا نہیں؟
ج:معروف یہ ہے کہ گھر کے خرچ کے لیے شوہر جو کچھ بیوی کو دیتا ہے اس میں غریبوں پر صدقہ و خیرات، پڑوسیوں کا لینا دینا اور عزیزوں، رشتے داروں کے تحفے تحائف سب شامل ہوتے ہیں۔ رشتہ دار آپ کے ہوں وہ بھی شوہر کے رشتے دار ہیں اور شوہر کے رشتہ دار ہیں تو وہ بھی آپ کے رشتے دار ہیں۔ ان رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی ضروری ہے اور صلہ رحمی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ان کو تحفے تحائف بھی دیے جائیں۔ ان کی دوسری ضرورتیں بھی پیش نظر رکھی جائیں اور ان کے ساتھ ممکنہ حُسنِ سلوک کیا جائے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ایک حدیث اس مسئلے کی وضاحت میں منقول ہے۔ ’’حضرت عائشہ صدیقہؓ کا بیان ہے کہ سفیان کی بیوی ہند نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ابوسفیان ایک کنجوس آدمی ہیں۔ وہ مجھے اتنا خرچ نہیں دیتے جس سے میری اور میری اولاد کی ضرورتیں پوری ہوسکیں۔ ہاں، یہ کہ میں خود ہی اس کی لاعلمی میں اس کے مال سے کچھ لے لوں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جتنے سے تمھاری اور تمھاری اولاد کی ضرورتیں پوری ہوسکیں، اتنا معروف کے مطابق لے لو‘‘۔(ریاض الصالحین)
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی بعض حالات میں شوہر کا مال اس کی لاعلمی میں بھی خرچ کرسکتی ہے اور اس خرچ کی اسے شوہر کو تفصیل بتانا بھی ضروری نہیں، اور نہ اس کوچوری کہا جائے گا۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شوہر بیوی کو اس کی ضرورت کے مطابق خرچ کے لیے دے۔ کسی کو تحفہ تحائف دینا، یا رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا بیوی کی ضرورت بھی ہے اور فعل معروف بھی،اس لیے بیوی کا خرچ کرنا کسی طرح بے جا نہیں کہا جاسکتا۔
البتہ بیوی کے لیے یہ کسی طرح مستحسن نہیں ہوگا کہ وہ شوہر کے مال کو اللّے تللّے اُڑائے یا فضول خرچی کرے، اور شوہر کے مالی حالات سے بے نیاز ہوکر اپنی ضرورتیں پھیلائے اور محض دوسروں کی دیکھا دیکھی وقت اور مال خریداری کی نذر کرے۔ (مولانا محمد یوسف اصلاحی، ایضاً، ص ۲۵۰-۲۵۱)
س : بعض لوگ مسجد کے اندر جنازہ رکھ کر نمازِ جنازہ پڑھنے کو ناجائز کہتے ہیں اور اس پر اصرار کرتے ہیں۔ شرعی نقطۂ نظر واضح کر دیجیے۔
ج: مسجد کے اندر جنازہ رکھ کر نماز جنازہ ادا کرنا جائز ہے۔ نمازِ جنازہ ادا ہوجاتی ہے۔ اس مسئلے میں بھی فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفی مسلک یہ ہے کہ مسجد کے اندر جنازہ رکھ کر نمازِ جنازہ نہ پڑھی جائے۔ امام ترمذی [م:۸۹۲ئ] نے امام شافعی [م:۸۲۰ئ]کا یہ قول نقل کیا ہے کہ امام مالک کا مسلک بھی یہی تھا کہ میت پر مسجد کے اندر نماز نہ پڑھی جائے لیکن خود امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ مسجد کے اندر نمازِجنازہ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس مسئلے میں چونکہ حدیثیں مختلف ہیں، اس لیے فقہا کے مسلکوں میں بھی اختلاف ہے۔ بعض ائمہ اس حدیث کو ترجیح دیتے ہیں جس میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے اندر نمازِ جنازہ پڑھی ہے، اور فقہ حنفی میں اُن حدیثوں کو ترجیح دی گئی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کے اندر نمازِ جنازہ پڑھنے سے اس کا ثواب کم ہوجاتا ہے۔ لیکن فقہا کے درمیان یہ اختلاف جواز و عدم جواز کا نہیں ہے بلکہ کراہت کا ہے۔ یعنی بعض ائمہ کے نزدیک بلاکراہت جائز ہے اور بعض کے نزدیک کراہت کے ساتھ جائز ہے۔(مولانا سیّد احمد عروج قادریؒ، احکام و مسائل، دوم،ص ۲۴۶)
س : مرتے وقت انسان اپنے ہوش و حواس کھودیتا ہے۔ نزعی کیفیت کہہ لیجیے یا دوسری کوئی حالت، ایسے وقت شیطان جو گھات میں ہمہ وقت ہے، اپنی گم راہی کا جال پھینکتا ہے۔ ایک مسلمان سلامتیِ ایمان کے ساتھ مرتے دم دنیا سے رخصت ہو، اس کے لیے بے خطا تدبیر کیا ہے؟
ج:اگر انسان ہوش و حواس کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچا رہے اور اطاعت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سرگرم رہے، کلمۂ طیبہ کا ورد رکھے اور خدا کی توحید کا واضح شعور رکھے، تو پھر اللہ کی ذات سے توقع یہی ہے کہ وہ حالت ِ نزع میں خصوصی حفاظت فرمائے گا اور اپنے لیے ایسے مخلص اور مطیع بندے پر شیطان کا دائو دنیا سے رخصت ہوتے وقت ہرگز نہ چلنے دے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ اگر یہ اہتمام بھی ہو کہ جب یہ کیفیت طاری ہوتی محسوس ہو تو اس وقت سورئہ یٰسین کی تلاوت اور اس کا ترجمہ پڑھا یا سنایا جائے تو ان شاء اللہ اور زیادہ حفاظت کی توقع ہے۔ یہ بظاہر غیرممکن ہے کہ جو بندہ زندگی میں اللہ اوررسولؐ کا مخلص، وفادار اور اطاعت کیش رہا، جسے اللہ کی توحید کا پورا شعور رہا اور توحید خالص پر ایمان رکھتا ہو، رسولؐ پر ایمان اور آپؐ سے سچی اطاعت و پیروی کا تعلق رکھتا رہا، کسی ایسے بندے کو نزع کے وقت خالقِ کائنات یوں ہی چھوڑ دے کہ شیطان اس پر اپنا جال پھیلائے، نہیںبلکہ خدا اپنے ایسے بندے کی حفاظت ضرور فرمائے گا۔(مولانا محمد یوسف اصلاحی،مسائل اور ان کا حل،ص ۳۶۲)
س : حدیث نبویؐ ہے کہ :بھلی بات کہو یا خاموش رہو، تو کیا اس حدیث کی روشنی میں زیادہ بولنا حرام ہے؟
ج:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار حدیثوں میں زبان کی تباہ کاریوں سے خبردار کیا ہے۔ ان میں ایک حدیث یہ بھی ہے:
مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا اَوْ لِیَصْمُتْ، جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔
رَحِمَ اللّٰہُ اَمْرَئً ا قَالَ خَیْرًا فَغَنِمَ أَوْ سَکَتَ فَسَلِمَ ، اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر، جس نے بھلی بات کہی اور اجرونعمت کا حق دار ہوا یا خاموش رہا تو محفوظ رہا۔
بلاشبہہ زیادہ بولنا اور بے وجہ بولتے رہنا انسان کے لیے تباہی کا باعث اور گناہوں کا سبب ہے۔ امام غزالیؒ [م: ۱۸ دسمبر ۱۱۱۱ئ]نے ان گناہوں کی تعداد ۲۰ بتائی ہے، جو زبان کے غلط استعمال سے سرزد ہوتے ہیں۔ شیخ عبدالغنی النابلسیؒ [م: ۵مارچ ۱۷۳۱ئ]نے اس تعداد کو ۷۲ تک پہنچا دیا ہے۔ ان میں سے اکثر گناہِ کبیرہ کے زُمرے سے ہیں، مثلاً جھوٹ، غیبت، چغلی، جھوٹی گواہی، جھوٹی قسم، لوگوں کی عزت کے بارے میں کلام کرنا اور دوسروں کا مذاق اُڑانا وغیرہ وغیرہ۔
اس لیے بہتر یہی ہے کہ انسان حتی المقدور خاموشی کا راستہ اختیار کرے تاکہ ان گناہوں سے محفوظ رہے۔ خاموش رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ہونٹوں کو سی لے اور زبان پر تالا ڈال لے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو اس بات کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو کسی بھلی اور معروف بات کے لیے کھولے ورنہ اسے بند رکھے۔
جو لوگ زیادہ بولتے ہیں ان سے اکثر خطائیںسرزد ہوجاتی ہیں اور ان خطائوں کے سبب وہ لوگوں میں مذاق اور استہزا کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اسی لیے بندئہ مومن جب بھی کوئی بات کرے اسے اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ خدا کے فرشتے اس کی ہر بات نوٹ کر رہے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے:
مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌo (قٓ ۵۰:۱۸) کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضرباش نگران موجود نہ ہو۔
(ڈاکٹر یوسف قرضاوی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، ص ۵۹-۶۰)