بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَالذّٰارِیٰتِ ذَرْوًا o فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا o فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا o فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا o اِِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ o وَّاِِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ o (الذٰریٰت۵۱ :۱-۶) قسم ہے ان ہوائوں کی جو گرد اُڑانے والی ہیں، پھر پانی سے لدے ہوئے بادل اُٹھانے والی ہیں، پھر ایک بڑے کام (بارش) کی تقسیم کرنے والی ہیں، حق یہ ہے کہ جس چیز کا تمھیں خوف دلایا جا رہا ہے، وہ سچی ہے اور جزاے اعمال ضرور پیش آنی ہے۔
یہ سورئہ ذاریات ہے۔ اس کا اصل موضوع تنبیہہ اور آخرت کا برپا ہونا ہے۔ اس میں قسم کھاکر یہ بتایا گیا ہے کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے، یعنی مرکر دوبارہ اُٹھنا، اللہ تعالیٰ کے حضور میں سب انسانوں کا جمع ہونا اور جمع ہوکر اپنا حساب دینا، یہ سچا وعدہ ہے۔ یوم الدین، یعنی جزاوسزا کا دن واقع ہونے والا ہے۔
یہاں جس بات پر ان ہوائوں کی قسم کھائی گئی ہے جو بارش کا موسم آنے پر چلتی ہیں وہ یہ ہے کہ آخرت کا وقت آنے والا ہے اور یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ابتدا میں پراگندا ہوائیں چلتی ہیں اور خاک اُڑاتی ہیں۔ اس کے بعد پھر اپنے اُوپر بھاری بادل اُٹھاتی ہیں، یعنی پانی سے لدے ہوئے بادل۔ پھر ان کو لے کر چلتی ہیں۔ فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا (۵۱:۴) پھر ایک بڑے کام کی تقسیم کرنے والی ہیں۔ یہاں ’امر‘ سے مراد بارش ہے۔
دراصل اس کی مناسبت یہ ہے کہ ہوائوں کا یہ انتظام اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ اس کائنات اور دنیا کا یہ نظام نہ الل ٹپ بن گیا ہے اور نہ الل ٹپ چل رہا ہے کہ کوئی اندھی بہری طاقتیں ہزاروں لاکھوں سال سے اس نظام کو چلائے جارہی ہیں، بلکہ یہ ایک منظم کائنات ہے جس کی پشت پر ایک قانون بڑی باقاعدگی کے ساتھ کام کر رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں یہ قانون بنایا ہے کہ زمین گردش کرتی ہوئی ایک خاص حصے میں داخل ہوتی ہے تو اس پر گرمی کا موسم آجاتا ہے۔ گرمی کی شدت کے ساتھ ساتھ سمندروں سے بخارات اُٹھتے ہیں۔ جس وقت یہ بخارات بڑی تعداد میں عالمِ بالا میں جمع ہوجاتے ہیں تو اس وقت خاص قسم کی ہوائیں چلنا شروع ہوتی ہیں۔ یہ ہوائیں ان بخارات کو بادلوں میں بدل دیتی ہیں اور پھر ان بھاری بادلوں کو لے کر چلتی ہیں۔سمندروں کے اُوپر سے اور مختلف خطوں کے اُوپر سے باقاعدگی سے گزرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان ہوائوں کے گزرنے کا قانون مقرر کر رکھا ہے اور ہرعلاقے سے وہ اسی حساب سے گزرتی ہیں۔ اسی لیے فرمایا گیا: فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا ’’پھر ایک بڑے کام (بارش) کی تقسیم کرنے والی ہیں‘‘۔ ایسا نہیں ہوتا، مثلاً کسی علاقے میں ۵۰منٹ کا اوسط ہے وہاں دو دن بارش ہوجائے اور کسی علاقے میں ۵۰منٹ کا اوسط ہے اور وہاں ایک دن بارش ہوجائے بلکہ باقاعدگی کے ساتھ پورے روے زمین پر بارش کے زمانے میں بارش ہوتی ہے۔ بالعموم جس ملک میں جس موسم میں بارش ہوتی ہے، اس زمانے میں وہاں بارش ہوتی ہے اور اس کی اوسط قائم رہتی ہے۔ اس میں تھوڑی بہت کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن ایک معمول قائم رہتا ہے۔
یہ ساری چیزیں اس بات کی متقاضی ہیں اور لازم ہے کہ اس کائنات میں ایک قدرت کے ساتھ ایک نظم قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ حکیم ہے۔ اس نے بڑی حکمت کے ساتھ اپنی زمین پر رہنے والوں اور اپنی زمین کے مختلف حالات کے لحاظ سے نظم قائم کیا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ حکیمانہ نظام ہے اور ایسا نظام نہیں ہے جس کو اندھی بہری قوتیں چلاتی ہوں۔ا گر اندھی بہری قوتیں اس نظام کو چلا رہی ہوتیں تو یہ نظام اس باقاعدگی کے ساتھ اور اتنی حکمتوں کے ساتھ قائم نہ رہتا۔
اب، جب کہ یہ ایک حکیمانہ نظام ہے تو پھر پورے نظام کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ اللہ تعالیٰ اس زمین کے اُوپر انسان کو پیدا کرکے، اس کو عقل دے، تمیز دے، اختیارات دے، اپنی زمین کی بے شمار چیزوں پر اس کو قدرتیں عطا فرمائے یا وہ اپنے حاکمانہ اختیار کو استعمال کرے، اور یہ سب کچھ دینے کے بعد اس سے کچھ نہ پوچھے کہ جو کچھ میں نے تجھے دیا ہے اس کا تو نے کیا کیا ہے؟ اس میں اخلاقی حِس پیدا کرے، نیکی اور بدی کی تمیز پیدا کر کے اس کے اندر یہ احساس پیدا کرے کہ نیکی کا نتیجہ اچھا ہونا چاہیے اور بدی کا نتیجہ بُرا ۔ اس کے ہاتھوں سے اس دنیا میں نیکی بھی ہو اور بدی بھی، وہ ظلم بھی کرے اور انصاف بھی۔ یہ سارے مختلف کام وہ زمین پر کرتا رہے اور اس کے بعد مرکر یہیں مٹی ہوجائے اور نہ کسی نیکی کا کوئی نتیجہ نکلے اور نہ کسی بدی کا کوئی نتیجہ۔ نہ کسی ظالم سے یہ پوچھا جائے کہ تم نے ظلم کیوں کیا ؟ اور نہ کسی مُنصف کو اس کے انصاف پر انعام دیا جائے۔ اس چیز کی توقع کسی حکیمانہ نظام میں نہیں ہوسکتی بلکہ ایک اندھے بہرے نظام سے ہی ہوسکتی ہے۔
اگر یہ اندھا بہرا نظام ہے تو اس میں انسان کو بھی پیدا کیا گیا ہے جس کو اتنا کچھ دیا گیا ہے اور بااختیار بنایا گیا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد وہ یہ کہتا ہے کہ اس نظام کو اندھی بہری طاقتیں چلارہی ہیں۔ دوسری طرف ان اندھی بہری طاقتوں میں یہ بات بھی ہے کہ وہ اخلاقی حِس بھی انسان میں پیدا کرتی ہیں اور نیکی اور بدی کی تمیز بھی۔ اس سب کے باوجود اگر کوئی انسان کہے کہ اس نظام کو اندھی بہری طاقتیں چلا رہی ہیں اور وہ اتنا ضدی ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ اگر ہٹ دھرم نہیں ہے تو اسے خود یہ محسوس ہوگا کہ جو طاقتیں زمین کو چلا رہی ہیں، گرمی اور سردی اور تپش کا قانون اور مختلف طاقتیں جو زمین میں کارفرما نظر آرہی ہیں، ان میں سے کسی میں بھی کوئی اخلاقی حس نہیں ہے۔ کسی کے اندر نیکی اور بدی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ کسی کے اندر نیک اور بد کی تمیز نہیں پیدا ہوسکتی۔ یہ کوئی حکیم ہی ہے جس نے انسان کے اندر یہ اخلاقی حس پیدا کی ہے، جو مادی طاقتوں کے اندر کسی میں موجود نہیں ہے۔ نہ ہائیڈروجن میں ہے، نہ آکسیجن میں اور نہ پانی اور ہوا میں۔ اس نے صرف انسان میں ہی یہ اخلاقی حس اور نیکی اور بدی کی تمیز پیدا کی ہے۔
یہ ایک حکیمانہ نظام ہے اور کسی بھی حکیمانہ نظام میں اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ کسی کو اختیارات دیے جائیں اور اس سے پوچھا نہ جائے کہ اس نے ان اختیارات کو کیسے استعمال کیا؟ کسی کو طاقتیں عطا کی جائیں اور یہ دیکھا نہ جائے کہ اس نے ان طاقتوں کو کیسے استعمال کیا؟ نیکی اور بدی کی تمیز پیدا کردی جائے اور پھر نیکی اور بدی کا کوئی نتیجہ نہ نکلے۔
اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ہوائوں کا جو نظام تمھیں نظر آرہا ہے، یہ بتا رہا ہے کہ قیامت کے آنے کا جو وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے اور جزا و سزا کے واقع ہونے کی تم کو جو خبر دی جارہی ہے، یہ یقینا سچی ہے۔ اس نظام کو جو شخص بھی دیکھے گا وہ یہ باور کرے گا کہ فی الواقع یہ چیز ہونے والی ہے اور یہ کائنات الل ٹپ نہیں چل رہی ہے۔
وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْحُبُکِ o اِِنَّکُمْ لَفِیْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ o یُؤْفَکُ عَنْہُ مَنْ اُفِکَ o (۵۱:۷-۹) قسم ہے متفرق شکلوں والے آسمان کی، (آخرت کے بارے میں) تمھاری بات ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اس سے وہی برگشتہ ہوتا ہے جو حق سے پھرا ہوا ہے۔
حُبُک کے دو معنی ہیں۔ اس کے معنی راستے کے بھی ہیں اور متفرق شکلوں کے بھی۔ جس طرح ریگستانی علاقوں میں کثرت سے ہوائیں چلنے سے لہریں پیدا ہوتی ہیں اور ان سے ریت کے تودے ٹوٹ پھوٹ کر لہروں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ایسے ہی بعض اوقات آسمان پر بادل کٹے پھٹے ہوکر دُور دُور تک جہاں تک نگاہ جاتی ہے، نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قسم ہے اس آسمان کی جس میں راستے بنے ہوئے ہیں یا کٹے پھٹے بادل نظر آرہے ہیں، تم اپنے احوال میں مختلف ہو۔
یُؤْفَکُ عَنْہُ مَنْ اُفِکَ، ان مختلف احوال سے دھوکا کھاتا ہے، دھوکا کھانے والا شخص یعنی جس آدمی کی طبیعت ہی ایسی ہو اور جس آدمی کا مزاج ہی ایسا ہو کہ وہ دھوکے ہی کو پسند کرتا ہو، اور جو دوسروں کو دھوکا دینے والا ہو اور اسی کی بات سنتا اور قبول کرتا ہو، جو دھوکا دیتا ہے ، وہی شخص مختلف احوال سے دھوکا کھاتا ہے۔
یہاں آسمان پر مختلف بادلوں کی اور آسمان پر تاروں کے درمیان مختلف فاصلوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ ایک تارے اور دوسرے تارے کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے۔ پھر دوسرے اور تیسرے تارے کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے اور لامحالہ ان کے درمیان کتنے راستے ہوتے ہیں۔ آسمان پر متفرق طور پر جس طرح تارے بکھرے ہوئے ہیں اور متفرق طور پر آسمان میں یہ بادل بکھرے ہوئے ہیں، اسی طرح سے تمھارے احوال بھی مختلف ہیں۔
احوال سے مراد یہ ہے کہ لوگوں میں آخرت کے بارے میں مختلف قسم کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ کسی نے یہ تصور قائم کرلیا ہے کہ کوئی آخرت نہیں ہونی ہے۔ انسان کو مر کر مٹی ہو جانا ہے اور کسی کے سامنے جواب نہیں دینا ہے۔ کوئی یہ کہتا ہے کہ انسان پہلے بھی اس دنیا میں بار بار جنم لیتا رہا ہے اور آیندہ بھی باربار جنم لیتا رہے گا۔ جیسے اس کے اعمال ہوتے ہیں مرنے کے بعد وہ دوبارہ ان کے مطابق جنم لیتا رہے گا۔ کسی جنم میں وہ کتا بن کر اُٹھتا ہے، کسی جنم میں بیوی یا لڑکی بن کر اُٹھتا ہے۔کسی جنم میں حیوان بن کر اُٹھتا ہے اور کسی جنم میں چوہا بن کر اُٹھتا ہے۔ کوئی شخص جو تناسخ کا قائل ہے وہ اس طرح سے سوچتا ہے۔ کوئی یہ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد انسان زندہ تو ہوگا لیکن اللہ کے کچھ ایسے پیارے بندے ہیں خواہ ہم کچھ بھی کرتے رہیں لیکن وہ ہمیں بخشوا لیں گے کہ یہ تو ہمارے خاص بندے ہیں۔ کوئی دوسرا گناہ کرکے آئے تو وہ پکڑا جائے گا اور سزا کا مستحق ٹھیرے گا لیکن یہ بچ جائیں گے۔ اس طرح آخرت کے بارے میں لوگوں نے مختلف تصورات قائم کر رکھے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے آخرت کے بارے میں جو مختلف احوال، عقیدے اور تصورات قائم کر رکھے ہیں، ان سے وہی شخص دھوکا کھاتا ہے جو دھوکا کھانا ہی چاہتا ہے۔
آدمی دھوکا اسی وقت کھاتا ہے جب آدمی کی طبیعت کا میلان اس طرف ہوتا ہے۔ جب اس سے اس طرح کی بات کی جاتی ہے تو وہ دھوکا کھاتا ہے۔ ایک آدمی یہ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد کچھ نہیں ہونا ہے، کوئی آخرت نہیں ہونی، کوئی جواب طلبی نہیں ہونی۔ اس بات کو وہی شخص تسلیم کرتا ہے جس کا یہ دل چاہتا ہے کہ میں زمین میں جو چاہوں کروں، جس ڈگر پر چاہوں چلوں، جس کھیت میں چاہوں منہ مارتا پھروں، جس کے ساتھ جو چاہوں ظلم کروں اور مجھ سے کسی قسم کی جواب دہی نہ ہو اور کوئی جزا و سزا نہ ہو۔ اگر جزا و سزا کو وہ مان لے تو اس کی یہ آزادی ختم ہوجائے گی۔
جزا و سزا کے ماننے کے معنی ہی یہ ہیں کہ جس کا ہے اس کا ہوجائے۔ اگر اس کے دل میں یہ سوچ راسخ ہوجائے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں اس کی جواب دہی خدا کے سامنے کرسکوں گا یا نہیں، یا جو کچھ کر رہا ہوں اس کا خمیازہ آخرت میں جا بھگتوں گا، تو یہ سب کچھ پھر اس طرح ہو نہیں سکتا۔ اس وجہ سے اس کا یہ جی چاہتا ہے کہ کسی بھی طرح وہ کوئی ایسا عقیدہ اختیار کرے کہ وہ یہ سب کچھ دنیا میں کرتا رہے۔ جس کا چاہے حق مارے، جس سے جی چاہے زیادتی کرے، اور جس طرح چاہے اپنی خواہشات پوری کرے اور ان اعمال کا کوئی نتیجہ اسے نہ بھگتنا پڑے۔ اس وجہ سے وہ دھوکا کھاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد کچھ نہیں ہوگا۔
اسی طرح سے جو شخص یہ چاہتا ہے کہ میں اپنے جرائم کا کوئی نتیجہ نہ بھگتوں وہ اگر آخرت کو مانتا بھی ہے تو اس کے ساتھ شفاعت کا عقیدہ بھی اختیار کرتا ہے۔ شفاعت کا اسلامی عقیدہ یہ نہیں ہے کہ تم اطمینان سے جو چاہے جرائم کرو اور کوئی صاحب تمھیں آخرت میں بخشوانے کی ذمہ داری لے لیں کہ تمھیں بخشوانے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ بس تم ہمارا نذرانہ دیتے رہو اور ہم تمھیں خدا سے معافی دلوا دیں گے۔ یہ عقیدہ لازماً ایسا ہی شخص قبول کرتا ہے اور جاکر نذرانے دیتا ہے۔ پھر وہ چاہتا ہے کہ میں دنیا میں چوریاں کروں، بدمعاشیاں کروں، بدکرداریاں کروں، ظلم و ستم کروں اور کوئی صاحب ایسے ہوں جو مجھے وہاں بخشوا دیں، اور وہاں کسی قسم کے نتائج نہ بھگتنے پڑیں۔
حقیقت میں نہ کوئی بے وقوفی سے دھوکا کھاتا ہے اور نہ سادہ لوحی سے، جو دھوکا دیتا ہے اور جو دھوکا کھاتا ہے، دھوکا دینے والے اور دھوکا کھانے والے کے درمیان ایک پردہ ہوتا ہے۔ ایک صاحب آخرت کا رونا روتے ہیں اور دل میں اس کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔ دوسری طرف ایک صاحب جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتے ہیں اور پھر اللہ سے التجا کرتے ہیں کہ یااللہ مجھے آیندہ کے لیے بچانے کا انتظام کر۔ لازماً اس طرح کی باتوں پر دھوکا وہی لوگ کھاتے ہیں جو جرائم پیشہ ہوں، جرم کرنا چاہتے ہیں اور جرم کر کے اس کی سزا سے بچنا چاہتے ہیں۔
اسی طرح سے تناسخ کا عقیدہ وہی شخص اختیار کرتا ہے جس کا اس دنیا سے جانے کو کسی طرح بھی دل نہیں چاہتا۔ دوبارہ اسی دنیا میں آئے اور کسی طرح رہ لے۔ وہ اس دنیا کو کسی طرح چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا۔ اس لیے وہ یہ عقیدہ اختیار کرتا ہے کہ اگر بُرے کام کرو گے تو اس دنیا میں ضرور آئو گے خواہ کتا بن کر آئو۔
اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تمھارے ان مختلف احوال میں دھوکا وہی شخص کھا سکتا ہے جو دھوکا کھانا چاہتا ہے۔ اگر کوئی شخص سوچ سمجھ سے کام لے، اس کائنات کے نظام پر غور کرے تو وہ کبھی نہ تناسخ کے عقیدے کو مان سکتا ہے اور نہ اس بات کو مان سکتا ہے کہ مرنے کے بعد کچھ نہیں ہوتا، اور نہ اس بات کو مان سکتا ہے کہ تم دنیا میں جرائم کرو اور کوئی ہستی وہاں تمھیں بچا لے۔
قُتِلَ الْخَرّٰصُونَ o الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ غَمْرَۃٍ سَاہُوْنَ o (۵۱:۱۰-۱۱) مارے گئے قیاس و گمان سے حکم لگانے والے، جو جہالت میں غرق اور غفلت میں مدہوش ہیں۔
خرص عربی زبان میں قیاس، اندازہ اور تخمینہ لگانے کو کہتے ہیں۔ جیسے کہ کوئی شخص اگر ایک باغ ٹھیکے پر لینا چاہتا ہے تو وہ باغ میں جاکر ایک نگاہ ڈال کر اندازہ کرے گا کہ اس باغ میں کتنا پھل ہے، اور جو شخص ٹھیکے پر دینا چاہتا ہے وہ بھی اندازہ کرے گا کہ اس میں کتنا پھل ہے۔ اس اندازے کی بنیاد پر دونوں کے درمیان ایک فیصلہ ہوتا ہے۔ گویا اس سے مراد کسی چیز کے بارے میں بغیر علم کے محض قیاس کی بنا پر اندازہ لگانا یا اندازے سے حکم لگانا ہے۔ جو شخص باغ کے پھل کا اندازہ لگاتا ہے وہ اسے گنتا اور تولتا نہیں ہے۔ اسے یہ بھی اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ آندھی آنے پر کتنا پھل ٹوٹ جائے گا اور یہ کہ کتنا پھل پرندے کھا جائیں گے۔ ایک اندازہ ہوتا ہے کہ یہ باغ اتنا پھل دے جائے گا اور اس کی بنیاد پر وہ سودا کرتا ہے۔
ایسے سودے دنیا کے چھوٹے چھوٹے باغوں اور کھیتوں کے بارے میں تو ہوسکتے ہیں لیکن ایک شخص ایسے اندازے، تخمینے اور اٹکل پچو سے اتنے بڑے معاملے کا فیصلہ کرتا ہے کہ اس دنیا کا کوئی خدا ہے یا نہیں ہے؟ اگر ہے تو اس کی صفات کیا ہیں؟ اور اگر نہیں ہے تو یہ دنیا کیسے چل رہی ہے؟ اسی تخمینے اور قیاس کی بنا پر وہ یہ بھی فیصلہ کرلیتا ہے کہ اس دنیا میں میری حیثیت کیا ہے؟ میں کسی کا بندہ ہوں یا نہیں یا شتر بے مہار ہوں جو اس دنیا میں اتفاقاً آگیا ہے اور چُھوٹا پھر رہا ہے۔ مجھے کسی کو جواب دینا ہے یا نہیں؟ جس کے سامنے جواب دینا ہے کیا وہ رشوت خوار تو نہیں یا اس کے کوئی ایسے چہیتے تو نہیں ہیں جو اسے بخشوا لیں گے؟ اس طرح کے اتنے بڑے اور دین کے بنیادی معاملات کو اگر کوئی شخص اٹکل پچو سے طے کرے اور ان کے بارے میں ایک عقیدہ اختیار کرلے اور اس عقیدے پر ایمان رکھے اور لوگوں کو دعوت دے کہ وہ اس کی تصدیق کریں اور اس بات کو مانیں، تو یہ حقیقت میں تباہی کا راستہ ہے۔
اگر ایک باغ کے بارے میں اس نے اندازہ کیا اور اس کے بعد آندھی آئی اور اس کا پھل تباہ ہوگیا تو اس سے جو نقصان ہوگا وہ ایسا تباہ کن نہ ہوگا کہ وہ تباہ و برباد ہوجائے۔ لیکن جو شخص اس کائنات کے بارے میں محض تخمینے اور قیاس کی بنا پر کوئی فیصلہ کرڈالے اور وہ فیصلہ غلط نکلے تو اس آدمی کا کیا حشر ہوگا؟ یا کسی شخص نے یہ فیصلہ کرلیا کہ خدا نہیں ہے، مرنا نہیں ہے، حساب کتاب نہیں دینا ہے۔ اس کے بعد جب وہ مر کر دوسری زندگی یا دوسرے مرحلے میں داخل ہوا اور یکایک اسے جاکر معلوم ہوا کہ خدا بھی ہے، اس کے فرشتے بھی ہیں اور اسے حساب کتاب بھی دینا ہے اور مرنے کے بعد دوسری زندگی بھی ہے۔ دنیا میں اسے جو وقت عمل کے لیے ملا تھا وہ سارا وقت اس نے اپنے اندازے سے ضائع کردیا۔ اب اس سے بڑھ کر تباہی اور بربادی کا سودا اور کیا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرما رہا ہے کہ اٹکل پچو لگانے والے مارے گئے اور تباہ ہوگئے، یعنی اپنے ہاتھوں انھوں نے اپنے آپ کو جس خطرے میں ڈال دیا اس سے ان کا سارا کیا کرایا تباہ و برباد ہوگیا۔ ان کا پوری عمر کا سرمایہ تباہ ہوگیا۔ اس نے پوری عمر جن کاموں پر محنت کی، یہاں آکر معلوم ہوا کہ ان سب کے نتیجے میں ازلی جہنم کی سزا ہوگئی ہے۔ جن چیزوں پر اس نے عمربھر کا سرمایہ لگایا وہ سارے کا سارا یہاں آکر ختم ہوگیا۔
اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عقیدے کے معاملے میں محض قیاسات پر بنیاد نہیں رکھنی چاہیے۔ قیاسات پر بنیاد رکھنے والا غلطی کرتا ہے۔ لامحالہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عقیدے کی بنیاد علم پر ہونی چاہیے۔ آدمی کو معلوم ہونا چاہیے کہ حقیقت کیا ہے۔
اس کے لیے قرآنِ مجید نے جو راستہ بتایا ہے اسے اگر آپ غور سے دیکھیں گے تو یہ معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نبی ؐ کے ذریعے سے حقیقت کا علم براہِ راست عطا کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ کائنات کا نظام کیا ہے؟ کس نے بنایا ہے؟ اس نظام میں تم کس حیثیت سے آئے ہو؟ تمھاری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ تمھاری زندگی کا مآل اور انجام کیا ہے؟ تمھارے لیے دنیا میں کام کرنے کی صحیح صورت کیا ہے؟ وہ کیا قانون ہے جس پر چلنا چاہیے؟ کن راہوں پر تمھیں چلنا چاہیے؟ کون سے ضابطے ہیں جن کی پابندی تمھیں کرنی چاہیے؟ کن افعال کا کیا نتیجہ تم دیکھنے والے ہو؟ یہ ساری چیزیں حقیقت کے مطابق امرِواقعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کے سواکوئی صحیح علم رکھنے والا نہیں ہے، اس کے سوا اس حقیقت کو جاننے والا کوئی نہیں۔ وہ انبیا ؑکے ذریعے اس حقیقت کو اپنے بندوں تک پہنچاتا ہے۔
آپ کو عقل دی گئی ہے، آپ کو حواس دیے گئے ہیں۔ آپ آنکھیں رکھتے ہیں دیکھنے کے لیے۔ آپ کان رکھتے ہیں سننے کے لیے۔ آپ حواس رکھتے ہیں محسوس کرنے کے لیے۔ یہ ساری دنیا اور کائنات آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے جس کا دن رات آپ مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس کے آثار آپ کو نظر آرہے ہیں۔ آپ کے پاس عقل ہے۔ان آثار کا اندازہ لگا کر اور مرتب کر کے آپ منطقی نتیجہ نکال سکتے ہیں۔ ایک طرف یہ صلاحیت آپ کو دی گئی ہے اور دوسری طرف انبیا ؑکے ذریعے علم دیا گیا ہے۔ آپ کو جو حواس دیے گئے ہیں اور جو ذرائع معلومات دیے گئے ہیں وہ براہِ راست حقیقت تک تو نہیں پہنچا سکتے۔ لیکن آپ کو اس قابل کرسکتے ہیں کہ جب نبی ؑ کے ذریعے سے آپ کو علم دیا جائے تو آپ اپنے مشاہدے اور حواس سے کام لے کر اسے جانچ اور پرکھ سکیں۔ آپ کے سامنے جو زیادہ سے زیادہ اقوال آتے ہیں انھیں آپ پرکھ سکیں کہ ان میں سے کون سا زیادہ معقول ہے، مثلاً یہ کہ ایک قول یہ آتا ہے کہ خدا نہیں ہے، یا یہ قول آتا ہے کہ بہت سے خدا ہیں، یا نبی ؐکا یہ قول آتا ہے کہ اس کائنات کا ایک ہی خدا ہے۔
اب آپ اس کائنات پر غور کریں اور جائزہ لیں کہ کیا اس بات کی کوئی شہادت ملتی ہے کہ اس کائنات کو بہت سے خدا چلا رہے ہیں؟ اب جو شخص عقل سے کام لے گا اور کائنات کا مشاہدہ کرے گا وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ نبی ؑ جو خبر دے رہے ہیں کہ اس کائنات کا ایک ہی خدا ہے، وہی بات درست ہے۔ اس کائنات کے بہت سے خدا نہیں ہوسکتے۔
اسی طرح ایک قول آپ کے کان میں یہ پڑتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خدا نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کائنات کا عظیم الشان نظام خود بخود قائم ہوگیا ہے۔ اگر کوئی عقل سے کام لے اور کائنات کا جو مشاہدہ اسے حاصل ہو رہا ہو اور اس سے جو معلومات اسے مل رہی ہیں اگر وہ اپنی عقل کے مطابق انھیں مرتب کرے، اس کا دل یہ گواہی دے گا بشرطیکہ وہ تعصب میں مبتلا نہ ہو کہ اتنا عظیم الشان نظام جو لاکھوں، کروڑوں اور اربوں برس سے چل رہا ہے، وہ نہ بغیر خدا کے بن سکتا ہے اور نہ بغیر خدا کے چل سکتا ہے۔ یقینا انبیا ؑ کی یہ بات صحیح ہے کہ اس نظام کا ایک مالک ہے اور وہی خدا ہے اور وہی اس نظام کو چلا رہا ہے۔
ایسا ہی معاملہ آخرت کا ہے۔ آدمی براہِ راست اپنے تجربے اور مشاہدے سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتا ہے کہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھنا ہے اور خدا کے ہاں جواب دہی کرنی ہے۔ صرف انبیا ؑ کے ذریعے ہی یہ معلوم ہوسکتا ہے۔یہ علمی طور پر معلوم ہوتا ہے محض قیاس نہیں، کہ یقینا مرنے کے بعد اُٹھنا ہے۔ نبی ؑ آکر ہمیں خبردیتا ہے کہ آخرت برپا ہونی ہے۔ اب ہم اپنی عقل اور مشاہدے سے کام لیں اور اس بات کو جانچ کر دیکھیں کہ جو مختلف اقوال ہمارے سامنے آرہے ہیں، کہ مرنے کے بعد کچھ نہیں ہوتا، یہ قول بھی کہ مرنے کے بعد بار بار اس دنیا میں آنا ہے، یہ قول بھی کہ مرنے کے بعد خدا کے سامنے جانا ہے، لیکن کچھ سفارشیں کرنے والے ایسے ہیں جو ہمارے بُرے اعمال کے نتیجے سے ہمیں بچالیں گے۔ پھر نبیؐ کا یہ قول بھی کہ مرنے کے بعد حساب دینا ہے اور اس کے مطابق ٹھیک ٹھیک انصاف کے مطابق فیصلہ ہوگا، اور جیسا عمل کرو گے ویسا نتیجہ ہوگا۔ جب آپ اپنی عقل سے کام لے کر ان مختلف اقوال کو جانچیں گے تو یقینا اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ انبیا ؑ کا قول ہی صرف معقول ہے۔ نہ یہ بات معقول ہوسکتی ہے کہ انسان دنیا میں ۶۰، ۷۰، ۸۰ برس زندہ رہے اور ہر طرف ظلم و ستم کرتارہے اور کبھی اس کو جاکر کوئی جواب دہی نہ کرنا ہوگی۔
اسی طرح یہ بات بھی غلط ہے کہ انسان بار بار اس دنیا میں آکر پھر عمل کرے۔ ایک ہی زندگی کے عمل کے نتائج سے انسان فارغ نہیں ہوسکتا کہ دوسری زندگی اور دوسرا عمل شروع ہوجائے۔ لامحالہ اس کا فیصلہ تب ہی ممکن ہوگا کہ اس کا حساب کتاب بند کیا جائے۔ جب یہ بند ہوگا تو تب ہی اس کی جانچ پڑتال ہوگی اور اس کا فیصلہ ہوگا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک عمل کے ختم ہونے سے قبل دوسرا شروع ہوجائے اور دوسرے کے ختم ہونے سے قبل تیسرا شروع ہوجائے۔ اس سے یقینا یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آخرت ہونی چاہیے۔ یہی ایک زندگی ہے جس کا موت کے بعد حساب کتاب ہونا ہے اور بار بار کی زندگی نہیں ہوسکتی۔
عقل خود گواہی دے دے گی کہ یہ بات سراسر انصاف کے خلاف ہے کہ ایک آدمی چوری کرے اور اسے کوئی سزا نہ دی جائے اور دوسرا آدمی چوری کرے اور اسے سزا دے دی جائے۔ ایک چور کو محض اس وجہ سے چھوڑ دیا جائے کہ اللہ میاں کے کچھ چہیتے کھڑے ہوجائیں اور کہیں کہ یہ میرا متوسِّل ہے ، اور مجھے نذرانے دیتا رہا ہے، لہٰذا اسے نہ پکڑا جائے۔ دوسرا آدمی کسی کو رشوت دے کر نہیں آیا، اس لیے اسے پکڑ لیا جائے اور اسے سزا دے دی جائے۔ انسان کی عقل خود کہہ دیتی ہے کہ یہ بالکل انصاف کے خلاف ہے۔ اگر یہ کائنات کسی حکیم نے بنائی ہے تو اسے ضرور عادل اور منصف ہی ہونا چاہیے، اور اس کے ہاں یہ بے انصافی نہیں چلنی چاہیے کہ لوگوں سے رشوتیں لی جائیں اور سفارشیں سنی جائیں اور اس کی بنا پر ایک گناہ گار چھوڑا جائے اور دوسرے گناہ گار کو پکڑا جائے۔
اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ خراصون ، یعنی جو لوگ محض اٹکل پچو کی بنیاد پر اور اپنے قیاس اور گمان کی بنیاد پر اتنے بڑے معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں وہ مارے گئے اور یہ تباہی کا راستہ ہے۔ سیدھا راستہ یہ ہے کہ نبیؐ کے ذریعے سے جو علم آتا ہے اسے اپنی عقل کے ذریعے سے جانچو، پرکھو اور دیکھو اور اس کے بعد جب یہ اطمینان ہوجائے کہ جو شخص اپنے آپ کو نبیؐ کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے وہ فی الواقع بالکل معقول بات کہہ رہا ہے اور اس کی اپنی زندگی بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ایسے آدمی کو نبی ہونا چاہیے اور اس کا کام بھی اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ یہ آدمی واقعی نبی ہونا چاہیے، لہٰذا اس کی نبوت کو مانو اور اس کے کہنے کے مطابق عمل کرو۔
یَسئَلُوْنَ اَیَّانَ یَوْمُ الدِّیْنِ o (۵۱:۱۲) آخر وہ روزِ جزا کب آئے گا؟
اس بات کو ملحوظ رکھیے کہ روزِ جزا کے متعلق کفار بھی پوچھا کرتے تھے اور آج بھی بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ دن کب آئے گا؟ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ آخرت کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے ہیں اور ایمان داری سے یہ پوچھتے ہیں کہ قیامت کب برپا ہوگی، کس سنہ میں، کس ماہ اور کس روز اور کس وقت برپا ہوگی؟ اور ان کا منشا یہ ہے کہ اگر آپ نے تاریخ ان کو بتا دی، مثلاً سنہ پانچ ہزار میں، ستمبر کے مہینے میں ہفتے کے روز، صبح ساڑھے آٹھ بجے قیامت برپا ہوگی، تو وہ ایمان لے آئیں گے۔ یہ ان کی غرض نہیں تھی۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ فلاں سنہ اور فلاں مہینے میں قیامت برپا ہوگی تو کسی کے پاس جاننے کا کیا ذریعہ ہے کہ فی الواقع ایسا ہوگا؟
ایمان لانے کے لیے یہ سوال کرنا اور نہ کرنا یکساں اور لاحاصل ہے۔ کسی کو ماننا ہے تو دلیل سے مانے، تاریخ پوچھنے کے کیا معنی؟ درحقیقت جو لوگ تاریخ پوچھتے تھے وہ چیلنج کے انداز میں پوچھتے تھے، نہ کہ ایمان لانے کے لیے۔ وہ مذاق اُڑانے کے لیے اور چیلنج کے طور پر پوچھا کرتے تھے کہ جناب آپ جو فرما رہے ہیں کہ ہم کسی وقت دوبارہ اُٹھیں گے اور اپنے خدا کو حساب دیں گے، ذرا بتایئے تو سہی کہ وہ دن کب آئے گا؟ ہم آپ کو جھٹلا رہے ہیں، پتھر مار رہے ہیں، گالیاں دے رہے ہیں، اذیتیں دے رہے ہیں، اگر ہمیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنا ہوگی تو وہ عذاب کیوں نہیں آجاتا اور کیوں نہیں ہمیں پکڑ لیتا؟ گویا کہ وہ قیامت کو ایسی حالت میں، جب کہ وہ قیامت کو نہیں مان رہے ہیں، رسولؐ کو جھٹلا رہے ہیں، اس کے باوجود ان کی پکڑ نہیں ہورہی ہے، ان کو جواب دہی نہیں کرنی پڑ رہی ہے، کوئی پولیس نہیں آتی جو انھیں گرفتار کر کے اللہ کے حضور میں لے جائے، اس بات کو وہ اس بات کی دلیل بنانا چاہتے تھے کہ تم بالکل غلط خبر دے رہے ہو کہ کوئی قیامت ہوگی، آخرت ہوگی، جواب دہی کرنا ہوگی اور جزا و سزا ہوگی۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قرآنِ مجید میں ان لوگوں کے اس سوال کا جواب اس انداز میں دیا گیا ہے کہ بعض اوقات آدمی حیران ہو کر سوچتا ہے کہ کوئی شخص علم حاصل کرنے کے لیے پوچھ رہا ہے کہ قیامت کب آئے گی؟ تو اسے کیوں نہیں بتا دیا جاتا کہ قیامت کب آئے گی؟ چونکہ وہ علم حاصل کرنے اور ایمان لانے کے لیے نہیں پوچھ رہے تھے اور ایمان لانے کے لیے اور علم حاصل کرنے کے لیے یہ سوال کرنا بالکل بے معنی تھا، وہ تو چیلنج کے انداز میں اور مذاق کے طور پر پوچھتے تھے۔ اب ان کے سوال کا جواب دیکھیے۔اللہ تعالیٰ ان کے سوال کا جواب دیتے ہیں:
یَوْمَ ھُمْ عَلَی النَّارِ یُفْتَنُوْنَ o ذُوْقُوْا فِتْنَتَکُمْ ہٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ o(۵۱:۱۳-۱۴) وہ اس روز آئے گا جب یہ لوگ آگ پر تپائے جائیں گے۔ (ان سے کہا جائے گا) اب چکھو مزا اپنے فتنے کا۔ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے۔
اب بجاے اس کے کہ تم یہ بات سن کر اپنے اعمال، اپنے اخلاق اور کردار کو درست کرتے، بلکہ یہ دھمکی لگانا شروع کر دی کہ ہماری شامت کا وہ وقت آجائے، تو لو وہ تمھاری شامت کا وقت آگیا۔ تم جلدی کر رہے تھے کہ وہ دن آئے جب تمھاری خبر لی جائے، تو لو وہ دن آگیا جب تمھاری خبر لی جائے گی۔ یہ جواب اس لیے دیا گیا کہ وہ مذاق اُڑانے کے لیے پوچھ رہے تھے۔ اس لیے ان سے کہا جا رہا ہے کہ جس چیز کا تم مطالبہ کر رہے تھے، لو اب وہ آگئی ہے اور اب اس کا مزا چکھو![جاری]۔(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، تدوین: امجد عباسی)