جو بات عوام اور حکومت، سب کے ذہن نشین ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ دستور کسی تعویذ کا نام نہیں ہے جس کو ریاست کے گلے میں باندھ دینے سے سب کچھ خود بخود ٹھیک ہوجائے[گا]۔ دستور میں ہم خواہ کتنے ہی اعلیٰ مقاصد اور پاکیزہ اصول درج کردیں، اُن سے عملاً کوئی فرق واقع نہ ہوگا، جب تک کہ حکومت اور حکام اور باشندگانِ ملک سب کے سب مل جل کر معاشرے کی اصلاح ، اور خصوصاً معاشرے کے اخلاق کی تعمیر کے لیے کوشش نہ کریں۔
ہم ایک ناقص دستور سے بھی بہترین نتائج پیدا کرسکتے ہیں اگر ہماری نیت بخیر ہو، اور ہم سب کا ارادہ اسلام کی بہترین رہنمائی سے فائدہ اُٹھا کر اپنی حالت درست کرنے کا ہو۔ اس کے برعکس کوئی کامل و اکمل دستور بھی، خواہ وہ سو فی صد اسلامی ہو، محض اپنے الفاظ کی طاقت سے کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا، بلکہ ہم اپنے اخلاق کی خرابی اور اپنے اعمال کی شومی سے اس کو ناکام کرکے دنیا بھر میں اپنے ساتھ، خود اسلام کی رُسوائی کا سامان بھی کردیں گے۔
دستور کو صحیح اصولوں پر قائم کرنا بلاشبہہ ضروری ہے تاکہ ایک صالح معاشرے کی تعمیر میں اس کے نقائص رکاوٹ نہ بن سکیں۔ لیکن دستور کی اصلاح کے بعد معاشرے کی اصلاح کے لیے عملی سعی بھی اتنی ہی، بلکہ اس سے زیادہ ضروری ہے۔ ایک بداخلاق معاشرہ اپنے لیے بھی مصیبت ہے اور اس حکومت کے لیے بھی جو اس کے انتظام کی ذمہ داری سنبھالے۔ کوئی بہتر سے بہتر قانون و دستور بھی ایسے معاشرے میں کامیابی کے ساتھ نہیں چل سکتا۔
اس معاملے میں ضروری ہے کہ سب سے پہلے حکومت پیش قدمی کرے۔ اُسے بھی محض نظم و نسق چلانے والی حکومت بن کر نہ رہنا چاہیے بلکہ معاشرے کی تعمیر صالح کو اپنا نصب العین بناکر کام شروع کرنا چاہیے۔ (’اشارات‘ ، سیّدابولااعلیٰ مودودی ، ترجمان القرآن،جلد۴۵، عدد۵، جمادی الاول ۱۳۷۵ھ، بمطابق جنوری ۱۹۵۶ئ، ص ۲-۳)
_______________