چارلس کروز مین/ترجمہ: مرزا محمد الیاس | جنوری ۲۰۱۶ | اسلام اور مغرب
دنیا بھر میں اسلام اوردہشت گردی کو ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت کرنے میں بہت سے ادارے، حلقے اور حکومتیں سرگرم ہیں۔امریکی میڈیا، تھنک ٹینکس، حکومتی ادارے اور دیگر ذرائع اس دوڑ میں سب سے نمایاں ہیں۔ سابق ری پبلکن صدور میں جارج بش سینئیر اورجارج بش جونئیر نے پالیسی کے طور پر اسے اختیار کیا۔ عراق، افغانستان اور لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ شام کی صورت حال مزید ابتر ہے۔ یمن برباد کردیا گیا۔ پاکستان کو فرنٹ لائن سٹیٹ کے کردار میں امریکی پالیسی کا ساتھ دینے کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ داعش اور القاعدہ کے نام سے پیدا شدہ ردعمل بھی استعمال کیا جاتا ہے، مگر اس کے ساتھ اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ جب چاہے، جیسے چاہے فلسطینیوں کا بے دریغ اور بلاروک ٹوک قتل عام کرے۔ اس ساری خطرناک صورت حال کے باوجود امریکا کو ہوش نہیں آسکا کہ اس کا آخری نتیجہ کیا ہوگا؟ امریکا پر اس کے اثرات مثبت ہوں گے یا منفی؟ اور بھی بہت سے سوالات ہیں۔ امریکا میں یہ سوچ ابھر رہی ہے کہ آخر دہشت گردی کے ہاتھوں خود امریکا کب تک یرغمال رہے گا؟ یہ تحریر اسی تناظر میں پیش ہے۔(مترجم)
امریکا میں اس سال اب تک رجحان یہی غالب رہا ہے کہ آپ مسلمان ہیں تو کسی بھی وقت آپ قتل کیے جاسکتے ہیں۔ آپ مسلمان ہیں تو آپ قاتل ہرگز نہیں ہیں بلکہ مقتول ہیں۔ ہرسال ۱۰ لاکھ مسلمان امریکیوں میں سے، ایک مسلمان اس لیے قتل کردیا جاتا ہے کیونکہ اس کا مذہب اسلام ہے۔ اس کے برعکس ایک کروڑ ۷۰لاکھ امریکیوں میں سے، جو مسلمان نہیں ہیں، ایک امریکی کسی مسلمان جنگجو کے ہاتھوں مارا جارہا ہے۔
خوش قسمتی سے دونوں طرح کا تشدد نہ ہونے کے برابر ہے۔ امریکا میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً ۳۰لاکھ ہے۔ شمالی کیرولینا میں تین مسلمان امریکی طالبات ایک پڑوسی امریکی نے اس لیے قتل کردیں، کیونکہ وہ حجاب کرتی تھیں۔ دوسری طرف ۳۱کروڑ ۹۰لاکھ امریکیوں میں سے ۱۹غیرمسلم امریکی دو واقعات میں مارے گئے۔ ایک واقعہ چھٹانوگا اور دوسرا برنارڈینو میں رونما ہوا۔ ان واقعات میں نام نہاد اسلامی ریاست یاداعش کے افراد ملوث تھے۔
ہماری یادداشت اتنی کمزور نہیں ہے کہ ہم بھول جائیں۔ ہر سال ۱۴ہزار امریکی مختلف واقعات میں قتل کردیے جاتے ہیں۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ ۱۹کی تعداد بالکل چھوٹی لگتی ہے۔ ہرسال ہر ۲۴ہزار امریکیوں میں سے ایک قتل کردیا جاتا ہے۔ اس ساری صورت حال کے مقابلے میں نظریے کی بنیاد پر قتل ہونے والوں کی شرح براے نام ہی نہیں، بالکل بے حیثیت بھی ہے۔
بعض امریکیوں کا خیال ہے کہ اعداد و شمار کی اہمیت ثانوی ہے۔ ان کے دل و دماغ پر ایک ہی طرح کا تشدد چھایا ہوا ہے اور وہ ہے اسلامی دہشت گردی۔ وہ اس کا حساب نہیں کرتے کہ یہ ہے بھی تو اس قدر نایاب ہے کہ نظر بھی نہیں آتا۔
داعش نے امریکا سے نوجوانوں کو بھرتی کرنے کی اپنی پوری کوشش کی ہے۔ وہ یہ کوشش دوسال سے کرتی آئی ہے۔ اس کے نتیجے میں کل بھرتی چند درجن نوجوان ہیں۔ ان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ وہ شام اور عراق میں جاکر جہاد کریں، یعنی لڑیں۔ یہ اعداد و شمار امریکی حکام نے دیے ہیں۔ ان میں سے بھی ۶۰ امریکی مشرق وسطیٰ کا سفر کرنے کے دوران میں گرفتار کرلیے گئے تھے۔ ایک درجن سے کچھ زیادہ لوگوں کو گرفتارکیا گیا، جن کے بارے میں شبہہ تھا کہ وہ امریکا میں بعض مقامات پر دھماکے کرنا چاہتے تھے۔ محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ اب یہ تعداد بھی کم ہے۔ میری معلومات یہ ہیں کہ ان امریکیوں کی تعداد آٹھ ہے جو امریکا میں داعش کے واقعات میں مارے گئے۔ داعش اس صورت حال پر سخت غصے کی کیفیت میں ہے کہ امریکیوں کی تعداد اتنی کم کیوں ہے؟ ان کا آن لائن میگزین ان مسلمانوں کو گمراہ اور بھٹکے ہوئے قرار دیتا ہے` جو مغرب میں رہتے ہیں، جمہوریت کی پوجا کرتے ہیں۔وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ اسلام کو امن کا مذہب ثابت کریں جو مسلمانوں کو بجاطور پر غیر مسلموں سے مل جل کر رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔
ضرورت تو یہ ہے کہ داعش کی اس کھلی ناکامی کا جشن منایا جائے، مسلمانوں کی تعریف کی جائے۔ اس کے برعکس امریکی یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ان واقعات کو صفر تک لایا جائے۔ ہم ہر وقت یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ہماری پالیسیاں ناکام ہو رہی ہیں۔ ایسے امریکی تو بہت ہی کم ہیں جو داعش کے کہنے پر ہتھیار اٹھا لیں لیکن ہم ان کے بجاے پرامن لوگوں پر تنقید کر رہے ہیں۔
اس سوچ کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر واقعے کے بعد بعض طبقات کہنے لگتے ہیں کہ اوباما حکومت کی دہشت گردی کے خلاف پالیسی بہت نرم ہے۔ یہ بات اس حقیقت کے باوجود کہی جارہی ہے کہ بش حکومت کی نگرانی کی پالیسی، مانیٹرنگ اور انسداد دہشت گردی کے سارے پروگرام اور منصوبے پوری طرح سے جاری ہیں۔ ان پر بھرپور عمل ہو رہا ہے۔ اوباما حکومت ریاستوں کو بار بار نوٹس جاری کرتی رہتی ہے کہ سرویلنس پروگرام مزید موثر بنائے جائیں اور دہشت گردی پر سزائوں میں مزید سختی لائی جائے۔ سان برنارڈینو کے واقعے کے فوری بعد ہوم لینڈ سیکیورٹی کے سیکرٹری جیہ جونسن نے کہا کہ: ’’گھر سے، یعنی امریکا کے اندر سے ابھرنے والی دہشت گردی کی اس نئی قسم کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ بالکل نئی اور تازہ حکمت عملی تیار کی جائے‘‘۔
امریکی حکام بش جونیئر کی حکومت کے آخری سال سے اسی خطرے سے عوام کو مسلسل خبردار کر رہے ہیں جو ہر چند کہ نہیں ہے۔ نائن الیون کے مربوط و منظم حملوں کے بعد سے حالات بالکل تبدیل ہو چکے ہیں۔ تب یقینا ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔ ملک کے مختلف حصوں میں فائرنگ کے واقعات ہوتے ہیں، درجنوں شہری مارے جاتے ہیں۔ یہ ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں اور پھر فائرنگ کرنے والے بھی مارے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے مسلمانوں سے متعلق عدم برداشت کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔
دوسری طرف داعش سوشل میڈیا پر اپنی مہم جاری رکھتی ہے تو ہم متاثر ہوتے رہیں گے۔ ہم خود ہی شہری آزادیوں اور مذہبی آزادیوں کے بارے میں اپنے اصولوں کا قتل کرتے رہیں گے۔ یہی کچھ تو داعش چاہتی ہے۔ اس کی کوشش یہی ہے کہ مغرب کا ردعمل بہت شدید ہونا چاہیے، تاکہ اس ردعمل کو دیکھ کر مغرب سے مل کر رہنے کے عادی مسلمان بھی اپنے اس عزم کو ترک کردیں۔
آپ تصور کریں کہ امریکا دوسروں کے بارے میں، داعش کے علاوہ، ایسا ہی رویہ اور پالیسی اختیار کرے تو کیا ہوگا؟ امریکا میں تو آئے روز کوئی مرد اٹھتا ہے اور اپنی گرل فرینڈ کو قتل کردیتا ہے یا سابقہ بیوی وغیرہ کو مار ڈالتا ہے۔ ہر سال ایسے سیکڑوں واقعات ہوتے ہیں۔ ایک قومی کمیشن بننا چاہیے جو مردوں کے اس اشتعال کا جائزہ لے اور اس کی وجوہات تلاش کرے۔ کبھی کوئی مسیحی انتہا پسند اشتعال میں آتا ہے اور اسقاط حمل کے کسی کلینک پر حملہ کردیتا ہے، افریقی امریکیوں کے چرچ کو آگ لگا دیتا ہے، کولوراڈو اور جنوبی کیرولینا میں ایسا ہوا بھی ہے۔ اسی سال یہ واقعات ہوئے ہیں۔ پھر وائٹ ہائوس کو ایک سربراہی اجلاس بلانا چاہیے۔ اس میں اعتدال پسند مسیحیوں کو مدعو کیا جائے اور ان پر زور ڈالا جائے کہ اس انقلابیت کو روکا جائے۔ کبھی کسی مسلمان کو کوئی بدمعاش مار دیتا ہے، جیسا کہ چیپل ہل میں ہوا ہے، کانگریس کو چاہیے کہ وہ نوٹس لے اور دیکھے کہ اسلام فوبیا بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کا سدباب کس طرح سے کیا جائے۔؟ سلام امن کا مذہب ہے۔ اس کا کردار مسخ کرنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
ممکن ہے کہ یہ سارے مناظر آپ کو اور ہمیں بے معنی یا مبہم محسوس ہوں تو ایسا ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری عدم برداشت صرف اس دہشت گردی کے بارے میں ہے جسے ہم اسلامی کہتے ہیں۔ دوسری تمام صورتیں ہم ہضم کر جاتے ہیں۔ ان کے لیے ہمارے اندر عدم برداشت نہیں ہے۔ ہم ان کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہم ان واقعات کو دہشت گردی بھی نہیں کہتے، ہم انھیں جرائم کہتے ہیں۔ اسے ہم قومی بحران بھی نہیں کہتے۔ صرف وہی واقعات ہمارے لیے خطرے کا الارم بجاتے ہیں جو کبھی بہت سنگینی کے ساتھ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ہم تب کہتے ہیں کہ یہ چند عناصر ہیں، چند لوگ ہیں اور یہ ہمارے پُرامن، عدم تشدد کے حامی عوام کی قطعی نمایندگی نہیں کرتے۔
ہم ان میں سے بعض رجحانات کو سنجیدگی سے لے سکتے ہیں۔ اس طرح ہم اپنے علاقوں اور آبادیوں میں تشدد کے واقعات میں کمی لاسکتے ہیں۔ اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ’اسلامی دہشت گردی‘ کے نام سے معروف نہایت ہی کم واقعات کی وجہ سے یرغمال نہ بننے دیں۔
(huffingtonpost.com)