نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیا کی زندگی کا ہر پہلو ہراعتبار سے کامل ترین ہے۔ آپؐ نے اسلام کو ایک مکمل نظامِ حیات کے طور پر پیش کیا اور اس کا تعارف آپؐ نے عملاً اس کے قیام [اقامت] کے ذریعے فرمایا۔ معاشی و سماجی اصلاحات کیں، مدینہ کے شہریوں کے رہن سہن کے اصول و ضوابط مرتب کیے۔ شہریوں کی روزمرہ ضروریات کی تکمیل کے لیے باضابطہ لوگوں کو تیار فرمایا۔ مسلمان کو اپنا معاش خود تلاش کرنے کی ہدایت دی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے ممکنہ طریقے بھی ارشاد فرمائے اور اس سلسلے میں ہرممکن حد تک عملی تعاون کا مظاہرہ بھی فرمایا۔
آپؐ کی آمد سے قبل مدینے میں کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ تمام نظام کا آغاز آپؐ ہی نے فرمایا اور اسے ترقی دی اور اس کے تسلسل اور ارتقا کے لیے اصول و ضوابط متعین کیے۔ آپؐ نے اس نظام کی بنیاد ان اصولوں پر رکھی جو بعد میں چل کر ترقی یافتہ تہذیب کی بنیاد بنے۔
آپؐ نے جدید ترین خطوط پر مدینہ شہر کی منصوبہ بندی فرمائی۔ رہایشی سہولتوں اور آمدورفت میں آسانی کے حوالے سے بھی اصول و ضوابط متعین فرمائے، راستوں کو کشادہ رکھنے کی ہدایت فرمائی، نئے محلے قائم کیے اور کسی ایک مقام پر آبادی کو مرتکز کرنے کے بجاے حکم دیا کہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر آبادیاں قائم کی جائیں۔ اجتماعی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مدینہ میں یہودیوں کے بازار کے مقابل اسلامی اصولوں پر ایک نئے بازار کی بنیاد رکھی۔ آپؐ روزانہ اس بازار کا دورہ فرماتے، اوزان و پیمانہ جات کا جائزہ لیتے اور کاروبار کرنے والوں کو غلطی پر ٹوکتے اور ان کی اصلاح فرماتے۔
کسی بھی شہر کی آبادکاری میں عدالت، ہسپتال، گیسٹ ہائوس، سڑکیں، پارک، تعلیم گاہیں، سیکریٹریٹ اور عبادت گاہوں کو بھی کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ رسولِ پاکؐ نے مدینے کی منصوبہ بندی کرتے وقت ان تمام ضروریات و سہولیات کو بھی ترجیحی حیثیت دی اور ان کے انتظام و انصرام کا باقاعدہ انتظام فرمایا۔
زیرنظر تحریر میں نبی رحمتؐ کی ذاتِ اقدس کے اس پہلو کی بعض جھلکیاں پیش کی جارہی ہیں۔
مدینہ منورہ کو قدیم زمانے میں ’یثرب‘ کہا جاتا تھا۔ یثرب ’ثرب‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں: ’شروفساد‘، یا ’تثریب‘ جس کے معنی گناہ پر مواخذہ کرنا اور گرفت کرنا ہے۔ ۱؎ نبی کریم ؐ کی آمد کے بعد اس کا نام طیبہ، طابہ اور مدینۃ الرسول ہوگیا۔ قرآنِ مجید میں اس کے دونوں نام یثرب اور مدینہ آئے ہیں۔ رحمت عالمؐ نے اسے یثرب پکارنے سے منع فرما دیا۔ مدینہ سرسبز و شاداب خطۂ زمین پر واقع ایک نخلستان ہے جہاں پانی کی فراوانی ہے اور جسے چاروں طرف سے سیاہ آتشیں چٹانوں نے گھیر رکھا ہے، جب کہ شہر کے شمال میں احد کا پہاڑ اور جنوب مغرب میں عسیر نامی کوہسار واقع ہے۔ ان کے علاوہ مدینے میں کئی وادیاں ہیں جن میں سے مشہور ترین بطحان، مذینب، مہروز اور عقیق ہیں۔ ان وادیوں کا سلسلہ جنوب سے شمال کی جانب چلا جاتا ہے۔ ۲؎
المدینۃ حرم ما بین عیر وثور ۴؎ مدینہ عیر سے ثور تک حرم ہے۔
جبلِ ثور اُحد کے پیچھے ہے، اور جبلِ عیر ذی الحلیفہ کی میقات کے پاس مکہ کی طرف ہے۔۵؎
اس مؤاخاتی نظام سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ اسلامی سنہِ ہجری کے آغاز کے موقعے پر مدینہ منورہ میں کم و بیش مسلمانوں کے ۴۰۰ خاندانوں کے سربراہ پہلے ہی مسلمان تھے اور یقینا مسلمانوں کی حقیقی تعداد اس سے کافی زیادہ تھی۔
اس کے بعد کے مدنی دور میں جن آبادیوں کے افراد متفرق طور پر ایمان لاتے یا کسی جگہ کی چھوٹی آبادی ایمان لاتی تو ان کو مدینے میں لاکر بسایا جاتا، اور ان کی تعلیم و تربیت اور معاش کا انتظام کیا جاتا۔ اس طریقے سے رفتہ رفتہ مدینے کی مسلم آبادی تیزی سے بڑھنے لگی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو ہجری میں جب رسولِ پاکؐ نے ایک موقعے پر غزوہ میں شرکت کے لیے مسلمانوں کی مردم شماری کرائی تو ان کی تعداد کوئی ۱۵۰۰ تھی۔ چنانچہ مسلمان مہاجرین کی تعداد میں روزافزوں اضافہ ہوتا چلا گیا اور وہ اپنی قرابت داریوں کی رعایت کرتے ہوئے مدینہ میں قیام پذیر ہوتے رہے۔ یہ تمام آبادکاری ایک مخصوص انتظام و انصرام کے تحت ہوئی۔ ہرآبادی کی ایک مسجد تھی، مارکیٹ تھی اور بعض بستیوں میں اپنا قبرستان تک بھی موجود تھا۔ ۸؎
من سعادۃ المرء الدار الوسیع والمرکب الھنی ۹؎ ، انسان کی خوش حالی کے لیے جو چیزیں ضروری ہیں ان میں کشادہ مکان اور قابو کی سواری بھی ہے۔
چنانچہ مہاجرین مکہ کو ابتدا میں انصار کے ساتھ ان کے گھروں میں ٹھیرایا گیا، بعد میں نبی کریمؐ نے ان کے لیے قطعۂ اراضی کی فراہمی اور مکانات کی تعمیر کا منصوبہ بنا کر ان کو اپنے گھروں میں آباد کیا۔ ۱۰؎ اس آبادکاری کے لیے آپؐ نے افتادہ زمین کو استعمال کیا اور انصار کی طرف سے ہبہ کردہ آباد جگہوں سے بھی استفادہ کیا گیا۔ اس آبادکاری میں حضرت حارثہ بن نعمانؓ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔مؤرخین لکھتے ہیں کہ یہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اس کام کے لیے نبی کریمؐ کو اپنی زمین اور مکانات ہبہ کیے۔ (وفاء الوفائ، ج۱،ص ۵۲۷)
ارفع البناء فی السماء واسئل اللّٰہ السعۃ (ایضاً) اُوپر کی منزل تعمیر کرو اور اللہ سے کشادگی کی دُعا بھی کرو۔
ان احکامات اور واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رسول پاکؐ مدینہ شہر کی آبادی اور اس کے وسائل میں تناسب قائم رکھنے کے لیے غیرضروری طور پر بڑھنے سے روکنے کے حق میں تھے اور دوسرے شہر آباد کرنے کی ہمت افزائی فرماتے تھے۔ یہ وہی پالیسی تھی جس پر بعد میں خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے عمل کرتے ہوئے کوفہ اور بصرہ جیسے نئے شہر آباد کیے۔
مسجد نبویؐ جاے وقوع کے اعتبار سے مدینے کے وسط میں واقع ہے۔ جب رسول پاکؐ مکہ سے ہجرت کرکے تشریف لائے تو قبائ، بنوسالم اور کئی محلوں کے لوگوں نے دست بستہ اپنے یہاں قیام کی پیش کش کی، مگر حضور اقدسؐ قبیلہ بنونجار میں حضرت ابوایوب انصاریؓ کے گھر فروکش ہوئے جو آج صحن مسجد کا حصہ ہے۔(سیرت النبیؐ، ج۴،ص ۱۱۶)
اس جگہ کے انتخاب کی حکمت اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب ہم مدینے کی شاہراہوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہی ریاست کے سربراہِ اعلیٰ کی رہایش گاہ اور سیکرٹریٹ بھی تھا، جہاں منصوبہ بندی کی جاتی، جہاں سے فوج کشی کی جاتی، جہاں سے مبلغین اور معلمین بھیجے جاتے، جہاں حساب کتاب رکھا جاتا اور جہاں سے مختلف گورنروں اور دیگر ممالک کے سربراہوں سے خط و کتابت کی جاتی تھی۔
مرکزِ تعلیم: وہیں ایک چبوترے پر صفہ کی تعلیم گاہ بھی بنا دی گئی، جس کی حیثیت مرکزی اقامتی درس گاہ یا اعلیٰ تعلیمی ادارے کی تھی، کیوں کہ مسلمانوں کو ہدایت کر دی گئی تھی کہ وہ ابتدائی تعلیم اپنے محلوں کی مساجد میں حاصل کریں۔ صفہ کی حیثیت تعلیم گاہ کے علاوہ نادار مسلمانوں کی پناہ گاہ کی بھی تھی۔ دن میں پانچ مرتبہ لوگوں سے رابطے کے لیے مؤذن کا تقرر کیا گیا۔
عہد نبویؐ میں تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئی۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتاہے کہ معلمِ کتاب و حکمت، محسنِ انسانیتؐ پر نازل ہونے والی اوّلین وحی کا اوّلین لفظ اقراء یعنی ’پڑھیے‘ تھا۔ قرآنِ حکیم نے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب ِ نبوت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَ یُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۱) (رسولؐ اللہ ) تمھیں کتاب و حکمت اور اس چیز کی تعلیم دیتے ہیں جو تم نہ جانتے تھے۔
ہجرت سے قبل اگرچہ کوئی متعین تبلیغی و دعوتی مرکز نہ تھا جہاں رہ کر مسلمانوں کے لیے اطمینان و سکون کے ساتھ اپنی دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ممکن ہوتا۔ اس دور میں نبی کریمؐ کی ذات ہی متحرک درس گاہ اور تبلیغی مرکز تھی۔ تاہم ہجرت سے قبل مدینہ منورہ میں ہی تبلیغی مرکز قائم ہوچکے تھے، جنھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے قائم کیا گیا تھا۔ قبل از ہجرت اسلام کی تبلیغ میں تیزی بیعت عقبہ اولیٰ کے بعد آئی تھی۔ اس دور میں آپؐ نے حضرت معصب بن عمیرؓ کو مبلغِ اسلام بنا کر انصار کے دونوں قبیلوں اوس اور خزرج میں بھیجا تھا۔ ان کی محنت سے وہاں کے لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے تھے۔ اس دور میں پہلا تبلیغی مرکز مسجد بنی زریق تھی۔۱۲؎ اور تیسرا مرکز مدینہ کے شمال میں کچھ فاصلے پر نقیع الخصمات نامی علاقے میں واقع تھا۔ یہ مرکز درحقیقت حضرت اسعد بن زرارہؓ کے مکان میں قائم تھا ۔۱۳؎
ان درس گاہوں کے علاوہ اس زمانے میں مدینہ منورہ کے مختلف علاقوں اور قبیلوں میں تعلیمی مجالس اور حلقے جاری تھے۔ جن میں بطور خاص بنونجار، بنو عبدالاشہل، بنوظفر، بنوعمرو بن عوف، بنوسالم وغیرہ کی مساجد میں اس کا انتظام تھا، اور عبادہ بن صامت، عتبہ بن مالک، معاذ بن جبل، عمر بن سلمہ، اسید بن حضیر، مالک بن حویرث رضوان اللہ اجمعین ان کے ائمہ اور معلمین تھے۔۱۴؎
ان تمام مراکز تعلیم و دعوت کی موجودگی کے باوجود آپؐ کی پیغمبرانہ حکمت و بصیرت نے فیصلہ کیا کہ تعلیم و تربیت کا مرکز ایسا ہونا چاہیے جہاں ہر روز مقررہ اوقات پر مسلمانوں کا اجتماع ہو اور اس اجتماع کی حیثیت گویا فرض و واجب کی ہو۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے آپؐ نے مسجد کو منتخب کیا۔ اس اعتبار سے مسجدنبویؐ اسلام کا پہلا مرکز تعلیم و تربیت ہے۔
اس مقصد کے حصول کی خاطرآپؐ نے مسجد نبویؐ کے ایک کنارے پر ایک جگہ مخصوص کرلی، جسے اس کے سائبان کی وجہ سے ’صفہ‘ کہتے تھے۔ یہ دراصل ایک کھلی اقامتی درس گاہ تھی، جس میں ہرچھوٹا بڑا شخص تعلیم و تربیت حاصل کرتا تھا، چاہے وہ اس میں اقامت گزیں ہو یا نہ ہو۔ مسلمانوں کی ایک جماعت جنھوں نے اپنی کُل زندگی دین اسلام سیکھنے اور سکھانے کے لیے وقف کردی تھی، تعلیم و تربیت کے حصول کے لیے اس میں اقامت گزیں ہوگئی۔ انھیں ’اصحابِ صفہ‘ کہتے تھے۔ اس اعتبار سے اگر مسجد نبویؐ کی اس درس گاہ کو عصرِحاضر کی اقامتی اور کھلی درس گاہوں کا پیش خیمہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔۱۵؎
رسول پاکؐ نے اس سلسلے میں دو اُمور کی طرف توجہ فرمائی۔ ایک طرف تو آپؐ نے زراعت اور ملازمت کے مقابلے میں تجارت کی حوصلہ افزائی فرمائی اور اسے فروغ دینے کی ضرورت واضح فرمائی۔ آپؐ نے ایمان دار تاجر کو اجر کے لحاظ سے صدیقین، شہدا اور انبیا علیہم السلام کے ہم رُتبہ قرار دیا۔ حضرت ابوسعیدؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہت سچا اور امانت دار تاجر (روزِ قیامت) انبیا، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا۔۱۶؎
تجارت کرنے والے افراد کے لیے آپؐ نے برکت کی دعائیں کیں اور بھیک مانگنے والوں کی حوصلہ شکنی کی۔ نیز تجارت میں جھوٹ بولنے، دھوکا دینے اور بدمعاملگی کرنے پر پابندی لگائی۔ تاجروں کو یہ تنبیہہ بھی فرما دی کہ مالی اُمور کی نزاکت کے سبب اکثر تاجر روزِ قیامت گناہ گاروں کی صف میں ہوں گے، مگر سچے اور متقی تاجروں کا ان سے استثنا فرما دیا، فرمایا: ’’بلاشبہہ قیامت کے دن (اکثر) تاجر گناہ گار اُٹھائے جائیں گے، سواے ان کے جو اللہ سے ڈرے اور انھوں نے نیکی کی اور سچ کو اپنا شعار بنایا‘‘۔ (ترمذی، الجامع السنن، ج۳،ص ۵، قم: ۱۲۱۴)
حضرت عطا بن یسارؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے لیے مارکیٹ بنانے کا ارادہ فرمایا تو پہلے قینقاع کے بازار تشریف لے گئے، پھر سوق المدینہ کی جگہ آئے، اور آپؐ نے پائوں سے اشارہ فرمایا کہ یہ تمھاری مارکیٹ ہوگی۔(وفاء الوفائ، ج۱،ص ۵۳۹)
حضرت عباس بن سہیلؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنی ساعدہ تشریف لائے اور فرمایا: میں تمھارے پاس ایک ضرورت سے رُکا ہوں۔ تم لوگ اپنے قبرستان کی جگہ مجھے دے دو، تاکہ میں وہاں مارکیٹ بنائوں۔ بعض لوگوں نے اپنے حصے کی زمین دے دی اور بعض نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ یہاں ہماری قبریں ہیں اور ہماری عورتوں کے نکلنے کی جگہ ہے، مگر بعد میں باہم گفت و شنید سے وہ جگہ حضوؐر کے حوالے کر دی گئی اور آپؐ نے وہاں مارکیٹ بنادی۔(ایضاً، ص۵۴۰)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مارکیٹ کی مرکزیت ، وسعت اور عوامیت کو برقرار رکھنے کے لیے فرمایا: یہ تمھارا بازار ہے، نہ تو اس کو کم کرو اور نہ اس میں ٹیکس لگائو۔(ایضاً)
اس حکم نامے کی حکمت یہ تھی کہ اگر بازار کی جگہ تنگ ہوگی یا اس میں خریدوفروخت پر ٹیکس لگے گا تو بیوپاریوں کی کثرت نہ ہوگی، لہٰذا ان دونوں باتوں سے گریز کیا جائے۔ رسولؐ اللہ نے اس مارکیٹ میں خریدو فروخت کرنے کی بڑی حوصلہ افزائی فرمائی۔
آپؐ نے فرمایا: ہمارے بازار میں سامان لانے والا مجاہد فی سبیل اللہ کے مانند ہے اور بازار میں سامان روکنے والا اللہ کی کتاب میں سرکشی کرنے والے کے مانند ہے۔ (ایضاً، ص ۵۴۶)
آپؐ نے مزید فرمایا: سامان روکنے والا مجرم ہے۔ (ترمذی، کتاب البیوع، باب ماجاء لا یبیع حاضرلباد)
مدینہ کی مارکیٹ کی وسعت اور مرکزیت بعد میں بھی برقرار رہی۔ حضرت عمرؓ کے عہد میں ایک لوہار نے اس مارکیٹ میں ایک بھٹی لگالی، تو حضرت عمرؓ نے اسے منہدم کردیا اور فرمایا کہ تم رسول ؐ اللہ کی مارکیٹ کا دائرہ تنگ کر رہے ہو۔(وفاء الوفائ، ج۱،ص ۵۴۱)
مدنی زندگی کے آخری دنوں میں، بالخصوص۹ہجری میں، جب مفتوحہ ممالک کے وفود کی آمد کثرت سے ہونے لگی، جن کی تعداد بعض اوقات ۲۰۰ تک پہنچ جاتی تھی، تو بعض بڑی حویلیوں کو مہمان خانہ بنا کر ان کے قیام و طعام کا انتظام کیا جاتا تھا (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ج۱، ص۳۴۶)۔ اس طرح رسولِ پاکؐ نے آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کے لیے انصار کی روایتی مہمان نوازی کے جذبے کے ساتھ ساتھ باقاعدہ مہمان خانے بھی قائم فرمائے۔
اس بات سے گویا آپؐ نے دو رویہ ٹریفک اور بلدیاتی منتظمہ کا تصور دیا۔ سڑکیں شہر کے ڈھانچے کا ایک اہم حصہ ہوتی ہیں، انھیں ہر ممکن حد تک وسیع ہونا چاہیے تاکہ آنے جانے کے نظام میں کوئی خلل نہ پڑے۔
ابتدائی دور میں رفع حاجت کے لیے بالعموم مدینہ کے مرد و خواتین جنگل میں نکل جاتے تھے۔ رسولِ پاکؐ نے اس ضروری مسئلے پر بھی توجہ فرمائی۔ سب سے پہلے آپؐ نے سڑکوں اور سایہ دار درختوں اور اِدھر اُدھر رفع حاجت کرنے سے منع فرمایا۔ دوسرے یہ کہ آپ نے گھروں کے ساتھ بیت الخلا بنانے کی تعلیم و ترغیب دی۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ واقعۂ افک کا تذکرہ کرتے ہوئے اُمِ مسطح کے ساتھ ایک شب باہر نکلنے کی بابت فرماتی ہیں: ’’یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب ہمارے گھروں سے متصل بیت الخلا نہیں بنے تھے اور ہم اوّلین عربوں کی طرح باہر جاکر پاکی حاصل کرتے تھے‘‘۔ (اسماعیل بن کثیر، تفسیر القرآن، ج۳، ص ۲۹۶)
ملکِ عرب میں بلدیاتی اور ریاستی سطح پر صفائی اور عوامی مقامات پر روشنی، سینی ٹیشن اور اسٹریٹ لائٹس کے منظم انتظام کی جانب پہلا قدم تھا۔
ایک مرتبہ رسول پاکؐ جب وادیِ عقیق کی سیر سے لوٹے تو آپؐ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا: میں وادیِ عقیق سے آرہا ہوں، کتنی موزوں جگہ ہے اور کتنا میٹھا اس کا پانی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: پھر کیوں نہ ہم لوگ وہاں منتقل ہوجائیں؟ تو حضورؐ نے فرمایا: اب یہ کیسے ممکن ہے، لوگوں نے مدینے میں گھر بنا لیے ہیں (محولہ بالا)۔ صحابہ کرامؓ میں جو اہلِ ثروت تھے، وہ وہاں جاکر اپنے محلات تعمیر کرلیتے تھے۔ یہ گویا ان کے لیے ’سمرہائوس‘ تھے۔ اہلِ مدینہ کے لیے رسولِ پاکؐ کی طرف سے یہ ایک خوب صورت عطیہ تھا۔
نبی رحمتؐ کی حیاتِ طیبہ کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو آپؐ کی شخصیت صرف ایک روحانی پیشوا، مذہبی رہنما اور معلم اخلاق ہی کی نظر نہیں آتی بلکہ ایک مفکر، منتظم اور منصوبہ ساز کی بھی نظر آتی ہے۔ آخری رسولؐ ہونے کے ناتے اللہ تعالیٰ نے دین و دنیا کی تعمیر کی اَن گنت صلاحیتیں آپؐ کو ودیعت کی تھیں اور پھر اپنے فیضانِ خاص سے بذریعہ وحی آپؐ کی رہنمائی فرمائی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بیک وقت دینی و دنیاوی دونوں لحاظ سے آپؐ کامیاب رہنما اور حکمران ثابت ہوئے تھے۔ اس کی ایک مثال شہری آبادکاری اور تعمیرات کے سلسلے میں آپؐ کی وہ منصوبہ بندی ہے جس کی کچھ جھلکیاں اُوپر پیش کی گئی ہیں۔
۱- السمھودی، نورالدین علی بن احمد ، وفا الوفائ، مترجم: محمد زاہد حسینی، تذکرہ دیارِ حبیب، ص۲۲
۲- مدنی معاشرہ عہدِ رسالتؐ میں، اکرم ضیاء العمری، ترجمہ: عذرا نسیم فاروقی، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی ، اسلام آباد، ۲۰۰۵ئ، ص ۶۶
۳- عہدنبویؐ کے میدانِ جنگ، ڈاکٹر محمدحمیداللہ ، نئی دہلی، ۲۰۰۱ئ، ص ۲۲
۴- مسلم،ابوالحسین مسلم بن حجاج بن مسلم، القشیری (م: ۲۶۱ھ/الصحیح، باب فضل المدینۃ ودعاء النبی فیھا بل برکۃ۔
۵- السمھودی، نورالدین علی بن احمد، (م: ۹۱۱ھ)/ وفاء الوفائ، دارالنفائس، ریاض، س-ن، جلداوّل، ص ۹۴۔
۶- ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے بقول مقریزی نے ان کی تعداد ۱۸۶ بتائی ہے، وہ اس سلسلے میں ابن جوزی کے حوالے سے مقریزی کا قول نقل کرتے ہیں (دیکھیے: محمد حمیداللہ ڈاکٹر ،پیغمبرؐاسلام، مترجم: پروفیسر خالد پرویز، ملتان، بیکن بکس ۲۰۱۵ئ، ص ۱۹۴۔
۷- تفصیل کے لیے دیکھیے: عہدنبویؐ کے غزوات و سرایا اور ان کے مآخذ پر ایک نظر، سعید احمد اکبرآبادی، اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی۔ ۲۰۰۹ئ، ص ۴۹۔
۸- بہ تغییر یسیر، (دیکھیے: ڈاکٹر محمد حمیداللہ ،پیغمبرؐاسلام، مترجم: پروفیسر خالد پرویز، ملتان، بیکن بکس ۲۰۰۵ئ، ص ۲۲۲۔
۹- احمد بن حنبل، ابوعبداللہ الشیبانی، الامام (م:۲۴۱ھ)، المسند ، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۹۹۱ئ، ج۳،ص ۴۰۷۔
۱۰- ابن سعد اور سہمودی جیسے سیرت نگاروں نے اپنی کتابوں میں اس منصوبہ بندی کی تفصیل بیان کی ہے۔
۱۱- احمد بن محمد القسطلانی /المواہب اللدنیہ، پوربندر، گجرات، ۱۴۲۱ھ، ج۱، ص۳۱۱۔
۱۲- ابن قیم الجوزیہ، ابوعبداللہ محمد بن ابی بکر (م:۷۵۱ھ) مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۱۹۷۹ئ، زادالمعاد، ج۱، ص ۱۰۰۔ ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی بکر محمد بن الجزری (م:۶۳۰ھ)۔ اسدالغابۃ، تذکرہ رافع بن مالکؓ / داراحیاء التراث العربی، بیروت، س-ن/ج۲،ص ۱۵۷)۔ دوسرا مرکز مدینہ کے جنوب میں تھوڑے فاصلے پر واقع قبا کی بستی میں تھا۔ بخاری،ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل (م:۲۵۶ھ) / الصحیح/کتاب الاذان، باب امامۃ العبد والمولیٰ/دارالسلام للنشر والتوزیع، ریاض، ۱۹۹۹ئ/ رقم الحدیث: ۶۹۲، ص ۱۱۳۔ ابن عبدالبر، ابوعمر یوسف بن عبداللہ بن محمد القرطبی (م:۴۶۳ھ)/ جامع بیان العلم، باب جامع القول فی العمل بالعلم/ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ، مصر، س-ن/ج۲،ص ۶۔
۱۳- ابن ہشام ، ابومحمدعبدالمالک، (م: ۲۱۸ھ)/السیرۃ النبویۃ، العقبۃ الاولیٰ و مصعب ابن عمیر/داراحیاء التراث العربی، بیروت، ۱۹۹۵ئ/ج۲،ص ۴۷-۴۸/ اسدالغابۃ، تذکرۃ اسعد بن زرارہؓ، ج۱،ص ۷۱
۱۴- مبارک پوری، قاضی محمد اطہر، خیر القرون کی درس گاہیں اور ان کا نظام تعلیم و تربیت، شیخ الہند اکیڈمی،بھارت، ۱۹۹۵ئ، ص ۳۷۔
۱۵- نصیراحمد ناصر، پیغمبر آخر واعظم، لاہور، فیروز سنز، ص ۴۱۶۔
۱۶- ابوعیسیٰ محمد بن عیسٰی الترمذی/الجامع السنن، دارالفکر، بیروت، ۱۹۹۴ئ/تحقیق:صدقی محمدجمیل عطار/ج۳، ص۵، رقم ۱۲۱۳۔
۱۷- بیہقی، ابوبکر ، الامام (م: ۴۰۸ھ)، السنن الکبریٰ، ملتان، نشرالسنۃ، س-ن، ج۶،ص ۱۵۵۔
۱۸- بخاری،الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب کنس المسجد/ج۱، ص ۱۷۵، رقم:۴۴۶۔ مسلم، ابوالحسین مسلم بن حجاج بن مسلم القشیری (م: ۲۶۱ھ)/الصحیح، کتاب المساجد، باب فضل صلاۃ العشائ، ۲:۵۹، رقم:۹۵۶۔
۱۹- حلبی، علی بن برہان الدین (م)،السیرۃ الحلبیۃ، بیروت،لبنان، دارالمعرفۃ، ۱۴۰۰ھ/ ج۲،ص ۲۷۸
۲۰- بخاری، باب الخیمۃ للمرضیٰ فی المسجد، صحیح ابن خزیمہ، باب الرخصۃ فی تمریض المرضیٰ فی المسجد، جزئ، ص ۱۴۸۔
۲۱- واقدی، محمد بن عمر (م:۲۰۷ھ) کتاب المغازی، تحقیق: محمد عبدالقادر احمد عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۲۴ھ، ص ۵۶۱۔