مولانا طاسینؒ روایتی دینی مدارس سے فارغ التحصیل، اُن کی اسناد کے حامل اور انھی مدارس میں استاد، لیکن اسلام کے نظامِ اقتصاد پر روایتی فکر سے ہٹ کر اور مضبوط دلائل کی بنا پر اُس سے اختلاف کرنے والے عالم کی حیثیت سے عرصے تک جانے جائیں گے۔ جیساکہ مصنف خود بیان کرتے ہیں: ’’یہ کتاب اسلام کے معاشی نظام سے متعلق کوئی مستقل اور جامع کتاب نہیں، بلکہ چند ایسے معاشی معاملات سے متعلق چند تحقیقی مضامین و مقالات کا مجموعہ ہے، جو مسلمانوں کے اندر جانے پہچانے اور عملی طور پر رائج معاملات ہیں، جیسے مزارعت، مضاربت، شرکت اور اجارہ‘‘۔ اسلامی معاشیات پر لکھنے والے اور اسلامی اقتصاد پر مبنی مالیاتی ادارے قائم کرنے اور چلانے والے عام طور پر دعویٰ کرتے ہیں کہ شرکت، مضاربت، لیزنگ اور اس طرح کے کاروبار، اسلام کے معاشی اصولوں اور قوانین کی رُو سے درست اور جائز ہیں، اور قرآن و حدیث کی تعلیمات کے منافی نہیں ہیں، جب کہ مولانا کے نزدیک حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے۔
مصنف کہتے ہیں: ہم مسلمان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام کا ایک اپنا مستقل معاشی نظام ہے، جو سرمایہ داری اور اشتراکی معاشی نظاموں سے مختلف ہے۔ لیکن عملی طور پر جو کچھ پیش کیا جاتا ہے، وہ ’’بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ اور بعض ملکوں میں ادھورا اشتراکی [نظامِ معاش] ہے‘‘۔ قرآن و حدیث میں حیاتِ انسانی کے معاشی پہلو سے متعلق جو ہدایات و احکام دیے گئے ہیں، ان کا بغور مطالعہ کرکے آج کی دنیا میں ان کے اطلاق اور ایک نظام کی تخلیق کا کام ابھی تک شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکا۔
پیش نظر کتاب میں مزارعت، مضاربہ اور اجارہ سے متعلق تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ ان میں سے ہرطریق اور شعبۂ معاشی پر متقدمین کے ایک گروہ نے جواز اور کچھ نے عدم جواز کے موقف اختیار کیے ہیں۔مصنف کہتے ہیں کہ دونوں موقف اجتہاد پر مبنی ہیں، اور ان سے اختلاف کی گنجایش ہے۔ کون سا موقف اختیار کیا جائے؟ اس سلسلے میں جواب تحقیق و تنقید کی روشنی ہی میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔
مزارعت پر تفصیلی بحث میں فاضل مصنف کا کہنا ہے کہ یہ طریق ’ربوٰ‘ کے مماثل ہے، کیوں کہ اس میں ’اصل سرمایہ‘ جوں کا توں محفوظ رہتا ہے، اور اس کے استعمال کرنے والے کو اس کا ’معاوضہ‘ دینا ہوتا ہے۔ قرآن سے استدلالِ تمثیلی (analogical argument) کے بعد احادیث کے ذخیرے سے اس سلسلے میں تمام روایات کو لے کر ان کا محاکمہ کیا گیا ہے۔مصنف کہتے ہیں: ’’ان روایات کے پورے مجموعے پر خالی الذہن ہوکر نظر ڈالی جائے تو جو حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ کہ مدینہ منورہ میں مزارعت، مخابرت، محاقلت اور کراء الارض کی مختلف شکلیں رائج چلی آرہی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب شکلوں سے مسلمانوں کو منع فرمایا‘‘۔(ص۸۱)
مضاربت کے سلسلے میں مصنف کا کہنا ہے کہ پاکستانی (اور دوسرے بنکوں) میں اس عنوان سے جو کاروبار ہوا ہے وہ ربوٰ ہی کی ایک شکل ہے۔ پاکستان بنکنگ کونسل نے بنکوں میں شرکت و مضاربت کے نام سے ایک شعبہ تجویز کیا کہ جو لوگ اس شعبے میں کھاتے کھولیں گے ان کی رقوم قرض کی طرح محفوظ بھی رہیں گی اور سالانہ ساڑھے ۱۲ فی صد نفع بھی ملے گا… پھر غضب یہ کہ اس شعبے کو اسلامی کا نام دیا گیا‘‘۔ (ص۲۴۱)
مصنف کے نزدیک: ’’ایسے معاملات پر مبنی نظامِ بنکاری و سرمایہ کاری کو اسلامی کہنا اسلام پر افترا اور ظلم اور اُسے بدنام کرنے کی بدترین کوشش ہے، کیوں کہ جہاں تک بنیادی ساخت اور عملی نتائج کا تعلق ہے، اس نظام میں اور صریح ربوٰ پر مبنی نظام میں کوئی خاص فرق نہیں۔ دونوں میں کھاتہ داروں کی اصل رقوم بھی محفوظ رہتی ہیںاور ان کو بغیر کسی محنت و مشقت کے سرمایہ کے فی صد کے حساب سے متعین اضافہ بھی ملتا ہے‘‘۔ (ص ۲۴۱)
مصنف ’مضاربہ‘ کی حقیقی شکل جو جائز اور درست تسلیم کرتے ہیں، اس میں ایک فریق کا مال اور دوسرے کا تجارتی کام یا عمل ہوتا ہے۔ اس تجارت یا معاشی عمل میں اگر نفع ہو، تو دونوں فریق مقررہ تناسب سے شریکِ نفع ہوتے ہیں، اور نقصان کی صورت میں سارا خسارہ ’ربّ المال‘ یعنی سرمایے والے فریق کا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی چند شرائط ہیں، جن کے تحت یہ کاروبار جائز قرار پاتا ہے۔ بدقسمتی سے مروج مالیاتی نظاموں اور بنکوں میں مضاربہ کی شرعی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے جو کاروبار کیا جا رہا ہے، اس میں ان شرائط کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ اس طرح ’’اس معاملے کو ربوٰ کے بجاے شرکت و مضاربت اور اس میں ملنے والے اضافے کو سود کے بجاے نفع کہہ دینے سے حقیقت ِ حال پر کچھ اثر نہیں پڑتا، اور نہ اس کی نوعیت ہی بدلتی ہے‘‘۔ (ص ۲۵۳)
مصنف بجا طور پر یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ جس معاشرے میں سرمایہ دارانہ معاشی نظام قائم ہو، اس میں سرمایہ کاری کے لیے مضاربت، شراکت یا دوسرے نفع بخش معاشی اعمال کی ترویج عملی طور پر ناممکن ہے۔ غالباً اس طرح کا معاملہ کرایے پر مکانات دینے کا ہے، اس کا جواز چند شرائط کے ساتھ ہے، تاہم مکہ مکرمہ کے مکانات میں مسافروں سے کرایہ وصول کرنے کا کوئی جواز نہیں، ہاں خدمات (پانی، بجلی وغیرہ) کا معاوضہ لیا جاسکتا ہے۔
ہمارے ملک ، بلکہ پورے عالمِ اسلام میں جن بہت سی معاشی سرگرمیوں کو عین اسلامی تصور کیا جاتا ہے ، اور بہت سے مستند علما بھی نہ صرف ان کے جواز کے قائل ہیں، بلکہ ان سرگرمیوں میں عملاً شریک بھی ہیں۔ اُن کے بارے میں فاضل مصنف کی تحقیق ہمارے لیے فکر کے کچھ نئے اور پرانے دریچے کھولتی ہے۔ ان معاملات میں دین کے اصل مصادر کی طرف رجوع اور انھیں اس کاوش اور محنت کے ساتھ سلیقے سے جمع کرکے پیش کرنا اور ان سے اخذ نتائج بلاشبہہ ایک ایسا علمی کارنامہ ہے، جس سے اسلام کے معاشی نظام کے ہرطالب علم اور منتہی کو استفادہ کرنا چاہیے۔ (پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
رہنماے تربیت، دعوتِ دین کے کارکنوں کے لیے اپنے موضوع پر ایک غیرمعمولی کتاب ہے۔ڈاکٹر ہشام الطالب کی یہ کتاب انگریزی میں لکھی گئی اور شاہ محی الحق فاروقی نے اس کا اُردو ترجمہ کیا، جسے عالمی ادارہ فکراسلامی (IIIT) نے ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری صاحب کی نگرانی میں شائع کیا۔ یہ کتاب ’خرم جاہ مراد‘ کے نام انتساب کی گئی ہے۔
ڈاکٹر ہشام الطالب شمالی امریکا کی تنظیم مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (MSA) کی داغ بیل ڈالنے والے نمایاں افراد میں سے تھے۔ ان کی زندگی کا بڑا حصہ دعوتی سرگرمیوں میں گزرا ہے۔ انھوں نے اپنے مشاہدے، تجربے اور سوچ بچار کا حاصل اس کتاب میں قلم بند کیا ہے۔
اس کتاب کا مقصد اسلامی دعوت کے ایسے کارکنوں کی تیاری ہے، جو علم اور حکمت و دانش کے زیور سے آراستہ اور ذہن رسا کی دولت سے مالا مال ہوں، دنیا کے ثقافتی اور معاشرتی مسائل کو سمجھتے ہوں، اور فہم و فراست اور مؤثر ابلاغ کے ذریعے اسلام کی خاطرخواہ خدمت کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے اس کتاب میں تربیت کا ایک ایسا لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے، جس سے زیرتربیت افراد کی لگن میں اضافہ،ان کے علم میں ترقی اور ابلاغ، انتظامی اُمور اور منصوبہ بندی کے شعبوں میں ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوسکتا ہے۔
کتاب کے مندرجات کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ نظری سے زیادہ عملی پہلوئوں پر مرکوز ہیں۔ ایک فرد کی شخصی تعمیرسے لے کر دعوتِ اسلامی کی توسیع تک، اور اس سلسلے میں مؤثر انداز کے اجتماعات منعقد کرنے سے لے کر دعوت اسلامی کی منصوبہ بندی تک، اور دعوت و تبلیغ کے معروف طریقوں کے استعمال سے لے کر عصرِحاضر کی بہترین سہولتوں پر غوروفکر جیسے بے شمار مسائل اس میں زیربحث آئے ہیں۔
سرورق پر تعارفی جملہ: ’کارکنان دعوت و تبلیغ کے لیے لائحہ عمل‘ کتاب کی مناسب نمایندگی کرتا ہے۔ اس کتاب میں ۳۷؍ابواب ہیں جو پانچ حصوں میں تقسیم ہیں۔ حصہ اوّل: تربیت کے مناظر، دوم: قیادت کی ذمہ داریاں، سوم: مہارت میں اضافہ اور ذاتی ترقی، چہارم: تربیت دینے والوں کی تربیت، پنجم: نوجوانوں کے کیمپ، نظریاتی عملی حیثیت سے۔
یہ ضخیم کتاب لائبریری کی زینت بنانے کے لیے نہیں ہے، بلکہ اسے مسلسل استعمال میں رکھنا چاہیے۔ اس کا انفرادی اور اجتماعی مطالعہ کرنا چاہیے، اور رُوبہ عمل لاکر نتائج و اثرات اور تحریکی کام کی رفتار کا جائزہ لینا چاہیے۔(مسلم سجاد)
خالص تحقیق، کبھی عام قاری کی دل چسپی کی نہیں ہوتی، پھر بھی علم و ادب سے تھوڑا بہت علاقہ رکھنے والے قارئین، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے اُردو شعبے کے مجلے تعبیر کے بعض مضامین کو شوق سے پڑھیں گے، مثلاً رؤف پاریکھ کا مضمون، جس میں انھوں نے ’’اُردو کی چند نادر و کم یاب خصوصی لغات کا تعارف‘‘ کرایا ہے، یا انیس نعیم کا مضمون جس میں انھوں نے ’مغربی بنگال میں اُردو کے ایک اہم مرکز: مرشدآباد‘‘ کے شعرا و ادبا کی کاوشوں کی جھلک دکھائی ہے، یا میرا جی کی محبت میں ڈوبا ہوا طارق حبیب کا مضمون۔ اسی طرح عامر رشید نے دیوان زادہ کے مختلف نسخوں کے مطالعے میں خاص دیدہ ریزی کی ہے۔ لسانی تحقیق پر ظفراحمد اور رشید حسن خاں کے تدوینی امتیازات پر محمد توقیراحمد نے اختصار اور سلیقے سے بات کی ہے۔ ابرار عبدالسلام نے مومن کے حالات میں پہلا مضمون، افتخار شفیع نے مولانا حالی کا ایک غیرمطبوعہ مضمون (اس کے عنوان میں ’ایک نادر اور‘ کے الفاظ زائد ہیں) اور شفیع انجم نے ایک کم یاب مثنوی یوسف زلیخا کا تعارف کرایا ہے۔ ارشد محمود ناشاد نے گارسین دتاسی کی تاریخ ادبیات اُردو (مرتبہ: معین الدین عقیل) اور ظفر حسین ظفر نے رشیدحسن خاں کے خطوط دوم (مرتبہ: ٹی آر رینا) کا تنقیدی تجزیہ کیا ہے۔
رُموزِ اوقاف اور اِملا وغیرہ کے سلسلے میں انگریزی حصے میں تو معروف و مسلّمہ اصولوں کا خیال رکھا گیا ہے، مگر اُردو حصے میں ایسا نہیں، مثلاً انگریزی کتابوں کے نام کہیں سیدھے (نارمل) اور کہیں ترچھے (italics)، مضامین کے خلاصوں اور اصولِ اَمالہ میں بھی دوعملی___ زیادہ اُلجھن اقتباسات میں ہوتی ہے۔ یہ ایک بالکل نیا اسلوب ہے۔ بعض اوقات اقتباس کے آغاز و انجام کا پتا ہی نہیں چلتا۔ مجلے نے پہلے ہی شمارے (جنوری-جون ۲۰۱۵ئ) میں اپنا ایک تشخص اور معیار قائم کرلیا ہے، امید ہے آیندہ اور بہتر ہوگا۔ (رفیع الدین ہاشمی)
نالۂ نیم شب ۲۱ دعائوں کا ایسا مجموعہ ہے جو تعلق باللہ استوار کرنے اور نشوونما دینے میں بڑا مؤثر ہے۔ عمرہ اور حج پر جانے والوں کے مطابق خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھ کر یہ دعائیں کرنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ ان کی تاثیر ناقابلِ بیان ہے۔ رات کی تنہائی میں اپنے رب سے یہ مناجات کریں اور آنکھیں نم نہ ہوں ممکن نہیں۔اُردو نہ جاننے والوں کے لیے بنت ِنور اور بنت ِ حنیف نے انگریزی ترجمہ کرکے یہ ضرورت پوری کی ہے۔ تاہم ابوسلیمان صاحب نے ترجمے پر نظرثانی کر کے اور زیادہ بہتر بنادیا ہے۔(مسلم سجاد)
o ہفت روزہ نداے خلافت ، (حُرمت سود نمبر)، مدیر: ایوب بیگ مرزا۔ پتا: ۳۶-کے، ماڈل ٹائون، لاہور۔ فون: ۳۵۸۶۹۵۰۱-۰۴۲۔ صفحات: ۲۷۔ قیمت: ۱۲ روپے۔[انسدادِ سود کے ضمن میں اس خصوصی اشاعت کا اداراتی مضمون ’ڈوب مرنے کا مقام‘ حافظ عاکف سعید کے قلم سے اس اہم فریضے سے غفلت پر احساسِ ندامت کو اُجاگر کرتا ہے۔ lاسلامی بنک کاری: کتنی اسلامی؟ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی lپاکستان میں انسدادِ سود کی کوششیں: ایک جائزہ lمعیشت پر سود کے اثرات، محمد عمرعباسی l Allah's War، محمد فہیم، مسئلے کے مختلف پہلوئوں کو اُجاگر کرتے اور مختلف تقاضوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔]
o فحاشی کا سیلاب اور اس کا سدباب ، محمد نعمان فاروقی۔ ناشر: مسلم پبلی کیشنز، ۲۵-ہادیہ حلیمہ سینٹر، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار،لاہور۔ فون: ۳۷۳۱۰۰۲۲-۰۴۲۔صفحات:۴۸۔ قیمت:۵۰ روپے۔[۴۸صفحے کے چھوٹے سائز کے اس مختصر کتابچے میں اتنے وسیع موضوع کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا ہے جو نصف قیمت پر دستیاب ہے۔ جو اس کاروبار میں کسی طرح شریک ہیں انھیں ضرور ڈاک سے بھیج دیجیے۔]