ڈونلڈ رمز فیلڈ نے امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے مستعفی ہونے سے ایک ماہ پہلے یہ اعتراف کیا تھا کہ افغانستان کا تعارف مجھے بڑی قوتوں کے قبرستان کے طور پر کرایا گیا تھا۔ اس کے باوجود امریکی حکومت نے اس قبرستان میں امریکا کے لیے جگہ مختص کرانے کا فیصلہ کیا۔
افغانستان کے منظرنامے میں آج سب سے اہم تصویر طالبان کے ظہورثانی کی ہے۔ برنیٹ آر روبن‘ جو اقوام متحدہ کے نمایندے کے طور پر بون کانفرنس میں شریک تھے‘ نے افغانستان میں ناکامی کے تجزیے میں لکھا ہے کہ طالبان کے دوبارہ عروج کی ایک وجہ نا اہل اور کرپٹ افغان حکومت بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں… ’’جب تک افغانستان کی متزلزل حکومت کو وسائل اور قیادت نہیں ملتی تاکہ وہ ان علاقوں میں عمومی خوش حالی کے نتائج سامنے لا سکے‘ جہاں یہ مزاحمت کار موجود نہیں‘ اس وقت تک افغانستان میں بین الاقوامی موجودگی بالکل ایک غیر ملکی قبضے کی شکل میں سامنے آتی رہے گی… ایک ایسا قبضہ جسے آخر کار افغان مسترد کر دیں گے‘‘۔ (فارن افیئرز‘ جنوری‘ فروری ۲۰۰۷)
یہ اعتراف تو ہر جگہ کیا جا رہا ہے کہ افغانستان کی حکومت مسلسل زلزلے کی زد میں ہے۔ طالبان نہ بھی ہوں تو شمالی اتحاد کے متحارب دھڑے ہی اس کے مسلسل حالت نزع میں رہنے کے لیے کافی ہیں۔ دوسرا اعتراف یہ کیا جا رہا ہے کہ غیر ملکی موجودگی دراصل غیر ملکی قبضہ ہے۔ تیسرا اعتراف یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ افغان قوم غیر ملکی قبضے کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہے۔ وہ اسے مسترد کرتی ہے۔ امریکا حقائق سے آگاہ ہے۔ وہ اس کے باوجود یہ تسلیم نہیں کر رہا کہ اس کا مشن ناکام ہو چکا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ مختصراً اس ناکامی کا حال بیان کر سکیں۔
امریکا کے ان چار معلوم مقاصد کے علاوہ وسط ایشیا میں توانائی کے ذخائر تک رسائی‘ امریکا‘ بھارت اور افغانستان اسٹرے ٹیجک کولیشن کا قیام، چین کے خلاف اقدامات کے لیے درکار حالات کی تیاری اور پاکستان کو افغان مسئلے سے الگ تھلگ کرنا بھی اس کی حکمت عملی کا حصہ تھے۔ ایران کے ساتھ مستقبل میں کیا کرنا ہے، پاکستان کے ایٹمی توانائی کے وسائل کے لیے محفوظ راستہ کہاں سے کدھر ہو سکتا ہے، نیز جنرل پرویز مشرف کے بعد کے حالات کی ممکنہ منصوبہ بندی کس طرح سے کی جاسکتی ہے، یہ بھی اس کے وسیع تر ایجنڈے کا حصہ تھے۔ ان مقاصد میں افغانستان میں ایک مرکزی حکومت قائم کرنا ضرور شامل تھا۔ سیاسی استحکام اس ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں تھا۔
امریکا اپنے بیان کردہ مقاصد میں کس قدر کامیاب رہا؟ امریکا نے سرکاری طور پر تسلیم کیا ہے کہ وہ افغانستان میں القاعدہ نیٹ ورک کے صرف ۲۵ فی صد کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوسکا ہے۔ طالبان کی تباہی کا تناسب ۳۰فی صد رہا۔ گویا اس کے اپنے اندازوں کے مطابق القاعدہ نے اپنا ۷۵فی صد نیٹ ورک اور افرادی قوت بچالی۔ طالبان اپنے دفاع میں ۷۰ فی صد کامیاب رہے۔ امریکا کے اعداد وشمار کے اداروں اور پنٹاگان کے مطابق تقریباً ۸۰۰ افغان اور عرب مارے گئے۔ ۵۰۰ افغان اور عرب مجاہدوں کو پکڑ کر گوانتا ناموبے بھیج دیا گیا۔ شمالی اتحاد کے ہاتھوں بہت بڑی تعداد میں وہ پاکستانی مارے گئے جو شریعت محمدی تحریک کے کہنے پرافغانستان گئے تھے۔ شمالی اتحاد کے ہاتھوں مارے جانے والوں میں دوسری بڑی تعداد ازبک باشندوں کی تھی۔ طالبان کا قتل عام شمالی اتحاد بھی نہ کر سکا۔ اس کی بڑی وجہ قبائل کے معاملات اور مستقبل میں نئی دشمنیوں سے گریز کے محرکات تھے۔
اس کامیابی یا ناکامی کا دوسرا رخ یہ تھا کہ ملا محمد عمر گرفتار نہ ہو سکے۔ اسامہ بن لادن کے بارے میںعلم نہ ہو سکا۔ طالبان کی بڑی تعداد پشتون آبادی میں غائب ہو گئی۔ خود افغان حکومت‘ اور شمالی اتحاد کے وارلارڈز نے مقامی قبائلی اور سیاسی مصالح کے تحت یہ راستہ کھولا تھا کہ طالبان کمانڈر حکومت کے ساتھ مل جائیں، ہتھیار پھینک کر عام حیثیت اختیار کر لیں یا خاموشی ہی اختیار کرلیں۔ طالبان نے ان تینوں سہولتوں سے فائدہ اٹھایا اور پشتون آبادی میں ضم ہو گئے۔
امریکا کا کہنا ہے کہ اس معرکے میں جو دو ماہ جاری رہا، طالبان اور القاعدہ کے مارے جانے والے بڑے لیڈروں کی کل تعداد ۱۲ تھی۔ اس کی واحد کامیابی طالبان حکومت کا خاتمہ تھا۔ طالبان کا خاتمہ ایک الگ معرکہ تھا جو کامیاب نہ ہو سکا۔ فوجی ماہرین نے طالبان کے بارے میں اپنے تجزیوں میں ان اسباب کو بیان کیا جو ان کے بچ نکلنے کا باعث ہوئے۔ ان میں نمایاں یہ تھے:
۱- امریکا صف اول کی قیادت پر حملہ کر رہا تھا۔ دوسرے درجے کی قیادت روپوش ہوگئی۔
۲- امریکا نے طالبان کی صف میں سے حامی تلاش کرنے پر وقت ضائع کیا۔ حامی نہ مل سکے لیکن حالات کی نزاکت سے فائدہ اٹھا کر تحلیل ہونے والوں کی تعداد بڑھ گئی۔
۳- طالبان مخالف گروہوں کو پشتونوں کی مخالفت سے بچنے کی بھی ضرورت تھی۔ انھوں نے طالبان کو راستہ دیا۔ نسلی اور قبائلی وابستگیوں نے جو کام کیا، امریکا اس کا اندازہ نہ کرسکا۔
۴- پہلے دو ماہ کے جنگی معرکے کے بعد امریکا نے تعمیرنو سے انکار کر دیا۔ امریکی حکام نے اعلان کردیا کہ اب دنیا تعمیر نو کرے۔ اتنی جلدی امریکا کی بے وفائی نے عام افغان کو یہ پیغام دیا کہ طالبان سے دشمنی درست نہیں۔
۵- ایف بی آئی اور سی آئی اے نے طالبان اور القاعدہ کے ۶۰ راہنمائوں کی فہرست تیار کی۔ ان میں سے صرف ۱۲ گرفتار ہو سکے۔ یہ گرفتاریاں پاکستان کے تعاون سے ممکن ہوسکیں۔
۶- طالبان حکومت کے بعد بھی بم باری شہری ہلاکتوں کا سبب بنتی رہی۔
امریکی آپریشن کی حکمت عملی پر ایک ریسرچ پراجیکٹ کے تحت ایک تجزیہ تیار کیا گیا۔ اس میں کے جی کے ہیرنگ نے لکھا کہ آپریشن پایدار آزادی کامیاب نہ ہو سکا۔ افغانوں کے دل و دماغ فتح نہ کیے جا سکے۔ امریکا بارودی سرنگیں بھی صاف نہ کر سکا۔ طالبان ختم نہ کیے جاسکے۔ عالمی حمایت میں کمی آتی گئی‘جب کہ امریکا نے تمام تر فوجی و سفارتی وسائل استعمال کیے۔ اس تجزیے میں یہ کہا گیا کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو فوجی ذرائع سے توڑا نہیں جاسکتا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکا نے پانچ برسوں میں اس بم باری کو مسلسل جاری رکھا۔ ایک شادی کی تقریب پر بم باری کا بھی بہت چرچا ہوا۔ اس بم باری میں طالبان کی ہلاکتیں بہت کم رہیں۔ نیوز ویک نے اکتوبر ۲۰۰۶ء کے شمارے میں غزنی کے علاقے میں بم باری پر ایک رپورٹ شائع کی۔ اس کے مطابق امریکا نے دعویٰ کیا کہ ۳۸ طالبان مارے گئے‘ جب کہ صرف چارطالبان مار گئے تھے۔ شہری ہلاکتوں نے افغان ردعمل کو مزید مشتعل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور تباہی کے دہانے پر بیٹھے افغانوں کو قبروں میں منتقل کرنے کی حکمت عملی کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔
طالبان کے ظہور ثانی کی ایک وجہ تباہ حالی سے نجات کا نہ ملنا بھی ہے۔ امریکا کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں پالیسی پلاننگ کے انچارج رچرڈ ہیس‘ نے ۲۰۰۲ء میں ہی کہہ دیا تھا کہ امریکا اب افغانستان میں تعمیر نو کا کام نہایت ہی محدود پیمانے پر کرے گا اور اس پر سختی سے عمل کرے گا۔ تعمیرنو کا عالم یہ ہے کہ افغانستان سے کیے جانے والے غیر ملکی امداد کے وعدوں میں سے نصف بھی پورے نہیں ہو سکے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے اعدادوشمار کے مطابق فی افغان ۶۷ ڈالر فی سال امداد دی گئی‘ جب کہ بوسنیا میں یہ رقم ۲۴۹ ڈالر اور مشرقی تیمور میں ۲۵۶ ڈالر تھی۔ افغان حکومت ۲۷ ارب ڈالر طلب کررہی ہے‘ جب کہ اسے بون کانفرنس کے وعدے کے مطابق ۱۵ ارب ڈالر بھی نہیں مل سکے۔
یونوکال (Unocal) کی طالبان سے کش مکش نے بھی یہی پیغام دیا کہ افغان عوام کے لیے امریکی منصوبوں میں مفاد کا پلڑا امریکا کے حق میں ہی رہے گا۔ طالبان کے دور میں امریکی تاجروں اور صنعت کاروں نے اپنے دورے کے اختتام پر یہ رپورٹ دی تھی کہ یہاں سرمایہ کاری کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسا ہی مشورہ سوویت یونین کے آنے سے قبل بھی دیا گیا تھا۔ اس پر امریکا نے افغانستان کو اپنے ایجنڈے سے خارج کر دیا تھا۔ جب امریکا کو سوویت یونین کو افغانستان میں لانے میں کامیابی ملی تو وہاں ’سرمایہ کاری‘ کا فیصلہ کیا گیا۔
گلبدین حکمت یار کو ایران میں پناہ ملنا اور کمانڈر اسماعیل کے ان سے پرانے گہرے تعلقات افغانستان میں ایک بظاہر نئے اور درحقیقت بہت پرانے عامل (factor) کی نشان دہی کرتے تھے۔ کمانڈر اسماعیل خان طالبان کا سب سے کٹر دشمن تھا۔ امریکا بھی طالبان کا دشمن تھا اور ایران بھی۔ گویا طالبان‘ دشمن کے دشمن تھے۔ طالبان کو دشمن کے خلاف استعمال کرنے کا گُر ایرانیوں کو خوب آتا تھا اور انھوں نے اس کا استعمال بھی کیا۔ یہ بات خالی از دل چسپی نہیں ہو گی کہ جب افغانستان پر حملے کا آغاز ہوا تو وائٹ ہائوس میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ طالبان اور القاعدہ کے وہاں سے فرار ہونے کے بڑے راستے ایران اور پاکستان ہوں گے۔ اس لیے پاکستان کو ساتھ ملایا گیا۔ امریکا کے کہنے پر ایران نے اپنی ۷۰ہزار افواج افغان سرحد پر لگا دیں۔ امریکا اور ایران کے درمیان رابطے خفیہ طور پر موجود رہے اور طالبان ان کا مشترکہ ہدف رہے۔ جنیوا‘ نیویارک اور لندن میں ایسے اجلاس ہوئے جن میں ایران، امریکا، برطانیہ اور اقوامِ متحدہ کے حکام شرکت کرتے رہے۔ دشمن کے دشمن سے بھی دشمنی کو پس منظر میں رکھ کر بہت سے کام کیے گئے۔ سابق برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا نے ایران کا ان دنوں دورہ کیا اور امریکی مطالبات پیش کیے۔
امریکا نے کبھی کھل کر ایران پر طالبان کی حمایت کا الزام نہیں لگایا۔ اس کی وجہ درپردہ رابطے بھی تھے اور یہ حقیقت بھی کہ ایران بھی طالبان کا مخالف ہے۔ لیکن ایران امریکی حملے کے دنوں میں طالبان حکومت کو تیل دیتا رہا۔ واشنگٹن پوسٹ نے اس کی خبریں شائع کیں۔ امریکی کمانڈوز تیل کے قافلوں کو تباہ کرتے رہے۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ رابطے بعد میں بھی رہے۔
اس وقت بھی طالبان افغانستان کے مختلف علاقوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔ ان میں وہ اثرات بھی موجود ہیں جن کی جانب ہلمند، زابل، قندھار کے حکام اشارہ کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ایران کی انٹیلی جنس کے حکام اور ایرانی فوج کے جرنیل ان علاقوں میں کئی بار دیکھے گئے ہیں۔ وہ مبینہ طور پر طالبان کمانڈروں کو اسلحہ اور رقم دے کر جاتے ہیں۔ ایران نے ان دعوئوں کی کبھی تردید کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ہے۔
ملا محمد عمر نے اس مزاحمت کو منظم کرنے کے لیے ۱۰ رکنی رہبر کونسل بنائی۔ طالبان کے پانچ آپریشنل زونز بنائے گئے۔ ہر زون کا ایک کمانڈر مقرر کیا گیا۔ اس سال‘ یعنی ۲۰۰۶ء میں ان گروہوں نے افغانستان کے جنوب اور مشرق میں، بالخصوص ہلمند، قندھار، زابل، غزنی، پکتیکا‘ پکتیا‘ خوست، کنڑ، لوگر اور نورستان میں کارروائیاں ہی نہیں کیں بلکہ وہ ان علاقوں میں عملی طور پر موجود رہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ بڑے بڑے شہروں میں امریکی اور ناٹو افواج موجود ہیں۔ اتحادی کمان اب ناٹو کے پاس ہے۔ چھوٹے شہروں، قصبات اور دیہات میں طالبان کی حکومت قائم ہے۔ آپریشن میڈوسا، آپریشن مائوئنٹین فیوری اور ایسے ہی کئی آپریشن ناکامی سے دوچار ہوچکے ہیں۔
افغانستان میں امریکی حکمت عملی ناکامی سے دو چار ہے۔ جب تک افغانستان کو انسانوں کی سر زمین تسلیم نہیں کیا جاتا، وہاں کے بسنے والے غیر ملکی قبضے کے خلاف ایسی ہی جدوجہد کرتے رہیں گے۔ برطانیہ وہاں سے ناکام ہو کر نکلا تھا‘ اب ناٹو کا حصہ بن کے گیا ہے اور سمجھتا ہے کہ سیاسی حل کے سوا دوسرا راستہ نہیں ہے۔ سوویت یونین بکھر گیا اور آج روس کنارے بیٹھا وہی تماشا دیکھ رہا ہے جو اس کی مداخلت کے ایام میں امریکا دیکھ رہا تھا۔ برزنسکی کے الفاظ میں پکنک منائی جارہی تھی۔ طالبان کے دوبارہ ظہور نے مقامی حالات سے قوت پائی ہے اور پکنک پر آنے والوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ جانے کا راستہ کھلا ہے‘ ورنہ نتائج اس سے بھی بھیانک ہوں گے۔