جنوری۲۰۰۷

فہرست مضامین

دہشت گردی کی آڑ میں سرمایہ دارانہ ایجنڈے کی تکمیل

نوید صادق خان | جنوری۲۰۰۷ | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر دنیا میں گذشتہ چند برسوں سے جو کچھ ہو رہا ہے‘ سب نے دیکھ لیا ہے کہ جس ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کی جارہی ہے‘ اس کو اسی جنگ سے فروغ مل رہا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس جنگ کے حقیقی مقاصد کیا ہیں؟ اس جنگ کو برپا کرنے والے‘ اس جنگ کا شکار ہونے والوں سے بہتر جانتے ہیں کہ اس کے اصل مقاصد دراصل کچھ اور ہیں۔ انھیں سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ انھیں ناکام بنانے کے لیے مناسب حکمت عملی اختیار کی جاسکے۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا نے دنیا کی سربراہی سنبھالی۔ امریکا سرمایہ داری نظام پر مشتمل ممالک کا قائد ہے۔ چنانچہ اس کی حکمت عملی اور تدابیر سب اس نکتے کے گرد گھومتی ہیں کہ دنیا کو سرمایہ داری نظام کی گرفت میں جکڑ لیا جائے اور اس طرح ۲۱ویں صدی کو اپنی سیادت و برتری کی صدی بنا دیا جائے‘ اور جس سے بھی اس راستے میں رکاوٹ بننے کا اندیشہ ہو‘ اسے کچل دیا جائے۔

اس وقت دنیا میں امیر و غریب کی تفریق کے لحاظ سے‘ جو سرمایہ دارانہ نظام کی اصل بنیاد ہے‘ جو منظرنامہ ہے‘ اس کا اندازہ میرل لنچ (Merill Lynch) اور کیپ جمنی (Capgemini) کی جون ۲۰۰۶ء کی ایک سروے رپورٹ سے ہوتا ہے جس کے مطابق دنیا میں ۸۷لاکھ افراد ایسے ہیں‘ جن کی دولت امریکی ڈالر میں کروڑوں بنتی ہے۔ گذشتہ سال ان دولت مندوں کے کلب میں تقریباً ۵لاکھ افراد کا مزید اضافہ ہوا ہے۔ ان ۸۷ لاکھ افراد میں سے ۲۶ لاکھ ۷۰ ہزار کا تعلق امریکا سے ہے‘ ۷لاکھ ۶۷ ہزار کا جرمنی سے‘ ۴ لاکھ ۴۸ہزار کا برطانیہ سے‘ ۳ لاکھ ۲۰ ہزار کا چین سے‘   ایک لاکھ ۹ہزار کا برازیل سے‘ ایک لاکھ۳ ہزار کا روس سے‘ ایک لاکھ ۴۶ ہزار کا آسٹریلیا سے ‘ ۲ لاکھ ۳۲ ہزار کا کینیڈا سے اور ۸۳ ہزار کا بھارت سے ہے۔

فاربس میگزین کی ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۵ء میں دنیا میں ارب پتی افراد کی فہرست میں ۱۰۴ نئے ناموں کا اضافہ ہوا ہے۔ اب یہ تعداد ۶۹۱ ہوگئی ہے۔دنیا کے      ۱۰ امیرترین افراد میں بل گیٹس پہلے نمبر پر‘ وارن بفے دوسرے نمبر پر‘ بھارت کے لکشمی میتل تیسرے نمبر پر اور سعودی عرب کے الولید طلال السعود پانچویں نمبر پر آئے ہیں۔

مذکورہ بالا پہلی رپورٹ کے مطابق امیرلوگوں کی تعداد میں اضافے کی رفتار گذشتہ سال کے مقابلے میں جنوبی کوریا میں ۲۳ فی صد‘ بھارت میں ۳ء۱۹ فی صد‘ روس میں ۴ء۱۷ فی صد سے بڑھ رہی ہے۔ جنوبی افریقہ‘ انڈونیشیا‘ ہانگ کانگ‘ سعودی عرب‘ سنگاپور‘ متحدہ عرب امارات اور برازیل میں یہ تعداد دوگنی ہورہی ہے‘ جب کہ چین میں اس کی رفتار ۸ء۶ فی صد ہے۔

ان رپورٹوں کے مطالعے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی قریب میں جہاں جہاں کمیونزم اپنی پوری شان و شوکت سے قائم تھا‘ اب وہاں کے عوام بھی حصولِ دولت کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ چین کی پارلیمان نے ۱۹۴۹ء کے انقلاب کے بعد اب مارچ ۲۰۰۴ء میں اپنے آئین میں انتہائی اہم ترمیم کے ذریعے ملک میں پہلی بار نجی ملکیت کے تحفظ سے متعلق ایک قانون کی منظوری دی ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے چین نے کمیونزم کی اس بنیادی شق کو ترک کر دیا ہے کہ پیداوار کے ذرائع عوام کی ملکیت ہوں گے۔ اس اجلاس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کرپشن‘ چین کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اسی طرح ۲۷ جون ۲۰۰۶ء کو واشنگٹن پوسٹ کے شمارے میں سٹیون مفسن کی  ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس کے مطابق روس نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کی تیل و گیس کی   سب سے بڑی کمپنی Oao Rosneft (جس کی مالیت ۶۰ بلین ڈالر سے زیادہ بتائی جاتی ہے ) اپنے حصص لندن اسٹاک ایکسچینج میں فروخت کرے گی۔ ان کی مالیت تقریباً ۶ء۱۱ بلین ڈالر ہوگی۔ لہٰذا امریکی اور یورپی بڑے بڑے بنک اِن کی خرید کے سلسلے میں مالی انتظامات کر رہے ہیں۔

اس وقت دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام اپنے پورے عروج پر نظر آرہا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ یہ نظام انتہائی تیزی سے اپنی جڑیں مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ امریکا میں   فنانس کی ماہر انتونیا جوباز کی نئی کتاب دی بش ایجنڈا کے مطابق پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی مکمل اور سخت گرفت ہی امریکا کے بہترین مفاد میں ہے۔ انتونیا جوباز اس عمل کو کارپوریٹ   عالم گیریت یا گلوبلائزیشن کا نام دیتی ہیں۔ ان کے مطابق امریکا کی دہشت گردی کے خلاف   نام نہاد جنگ درحقیقت کارپوریٹ عالم گیریت کو ترقی دینے کے لیے ہے اور آزادانہ تجارت اس جنگ ہی کا ایک ہتھیار ہے۔ یہ لکھتی ہیں کہ صدر بش اور ڈک چینی کی پہلی انتخابی مہم کے دوران‘ یعنی ۲۰۰۰ء کے امریکی انتخابات میں اِن کو اپنے مدمقابل امیدوار سے ۱۳ گنا زیادہ سرمایہ تیل و گیس کی کثیرقومی کمپنیوں نے فراہم کیا تھا‘ جب کہ ۲۰۰۴ء کے صدارتی الیکشن میں ان کو مدمقابل سے دگنے سے زیادہ فنڈ ملے۔ صدربش کی پالیسیوں کی وجہ سے امریکا کی ۲۹بڑی تیل کمپنیوں نے ۲۰۰۳ء میں  ۴۳ ارب ڈالر‘ جب کہ ۲۰۰۴ء میں ۶۸ ارب ڈالر کا منافع کمایا ہے۔مصنفہ کا کہنا ہے کہ امریکا اپنے اس سرمایہ دارانہ نظام کو بڑھانے کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے تیل و گیس پر اپنی کمپنیوں کے ذریعے کنٹرول کرکے وہاں کی مارکیٹوں میں امریکی مصنوعات کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکا میفٹا (مڈل ایسٹ فری ٹریڈ ایریا) کے نام سے ایک آزادانہ تجارت کا زون قائم کررہا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ ایران کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے تاکہ وہاں کے وسائل تک بھی اس کی دوبارہ رسائی ممکن ہوسکے۔ یہ اسے پاکس امریکانہ (Pax Americana) کی حکمت عملی کہتی ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ امریکا عسکری اور معاشی غلبہ حاصل کرے جس سے دنیا میں امن قائم رکھا جاسکے۔

اس کتاب کے مطابق دوحہ مذاکرات سے پہلے پاکستان عالمی تجارتی تنظیم (WTO) مذاکرات میں ترقی پذیر ملکوں کے مفادات کا بڑا علم بردار تھا لیکن امریکا نے دوحہ مذاکرات سے پہلے ہی اسے بڑی مقدار میں قرضے اور امداد دی جس کے بعد پاکستان نے اس سلسلے میں خاموشی اختیارکرلی۔ اس طرح نائیجیریا نے بھی اپنا موقف تبدیل کرلیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ایجنڈے پر پاکستان میں بھی کام ہو رہا ہے۔ ورنہ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ کوئی ملک اپنا اور اپنے عوام کے سرمایے سے بناہوا ایسا ادارہ اُونے پونے فروخت کردے جو اسے ہر سال اربوں روپے کا منافع کما کر دے رہا ہو اور اس کا کام ملکی سالمیت کے سلسلے میں حساس ہو‘ میری مراد پی ٹی سی ایل سے ہے۔ یہ ایک ایسی مرغی تھی جو حکومت پاکستان کو ہر سال سونے کا انڈا دیتی تھی لیکن سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط کرنے کے لیے بڑی بے دردی سے اسے قتل کردیا گیا۔ اسی طرح دیکھا جاسکتا ہے کہ   کون کون سے نفع بخش ادارے مقتولین کی فہرست میں نظر آتے ہیں۔

برطانیہ کے عظیم دانش ور ہیرلڈ پنٹر نے‘ جن کو گذشتہ سال ۲۰۰۵ء کا ادب کا نوبل انعام ملا‘ ۷دسمبر ۲۰۰۵ء کو انعام حاصل کرنے والی تقریب کی اپنی تقریر میں کہا کہ ’’بش اور بلیئر وہ لوگ ہیں جو صرف اور صرف دنیا کے وسائل پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔ ان کو اس کی کوئی پروا نہیں کہ اس راہ میں کتنے معصوم لوگ مارے جاتے ہیں‘‘۔ اس تقریر کے دوران پنٹر نے مطالبہ کیا تھا کہ بش اور بلیئر پر جنگ میں جھوٹ کا پلندا پھیلانے کے جرم میں عالمی جرائم کی عدالت میں مقدمہ چلانا چاہیے۔ اسی طرح ایک ’چاریس سولیوان‘ نامی امریکی صحافی نے لکھا ہے کہ ’’جب بش یا کوئی سرمایہ دار یہ کہتا ہے کہ دنیا میں آزادی ہونی چاہیے‘‘ تواس کا مطلب و معنی وہ نہیں ہوتے جو ہمارے ذہنوں میں آتے ہیں‘ بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ تجارت‘ مارکیٹ اور اس طرح کی پیداوار کے تمام وسائل کی خریدوفروخت پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے تاکہ یہ تمام وسائل وہ اس کی قیمت لگاکر اپنے   سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں اور ان کی گرفت میں لے آئیں‘‘۔

آج کے دور میں تیل کا دوسرا نام دولت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں تیل کے ذخائر ہیں وہاں امریکی افواج بھی موجود ہیں۔ آپ نائیجیریا ہی کی مثال لے لیں۔ وہاں توکوئی القاعدہ یا اسلامی تنظیم نہیں جس سے امریکا کو بزعم خود اپنی سالمیت کا خطرہ لاحق ہو لیکن وہاں بھی امریکی افواج موجود ہیں۔ یکم جون ۲۰۰۶ء کو امریکی بحریہ کے ایک اہم عہدے دار ایڈم ہیری نے گارڈین اخبار کے نمایندے کو بتایا کہ ان کی خلیج گنی میں موجودگی کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہاں کے تیل کے ذخائر کو یہاں کی غریب انتہاپسند آبادی سے بچایا جائے۔ یہ خبر یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل نے بھی شائع کی۔

سونیاشاہ جوکہ ایک امریکی مصنفہ ہیں‘ ان کی حال ہی میں ایک کتاب Crude : The Story of Oil’تیل کی کہانی‘ شائع ہوئی ہے۔ وہ اس کے باب ۷ میں تحریر کرتی ہیں کہ نائیجیریا سے نکالے گئے تیل کے ۴۰ فی صد ٹینکر سیدھے امریکا کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے مطابق ۱۹۹۰ء میں امریکا اپنی روزانہ تیل کی ۵ فی صد ضرورت اسی تیل سے پوری کرتا رہا ہے۔ نائیجیریا ہرسال تقریباً ۳۰ بلین ڈالر کا تیل فروخت کرتا ہے۔ اس میں سے ۱۰ بلین ڈالر سیدھے وہاں کے فوجی جنرل کے اس کھاتے میں چلے جاتے ہیں جو مغربی ممالک کے بنکوں میں ہے۔ اور یہ بنک اس سرمایے سے‘ جو چوری اور کرپشن کا ہے‘ نہ جانے کتنا منافع کماتے ہیں۔ نائیجیریا کے حکومتی   اہل کار وہاں مغربی و امریکی تیل کمپنیوں سے براہ راست رابطہ رکھتے ہیں اور جہاں بھی وہاں کی مقامی آبادی اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہوتی ہے اُسے سختی کے ساتھ کچل دیا جاتا ہے۔ مثلاً جولائی ۱۹۹۳ء میں تیل کے علاقے میں ۱۳۲ نہتے بچوں‘ عورتوں اور مردوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کردیا گیا کیوںکہ وہ اپنی سرزمین سے پیدا ہونے والے تیل کی قیمت سے دو وقت کی روٹی کا مطالبہ کررہے تھے۔ اسی طرح اگست میں ۲۴۷ معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ستمبر میں ہزاروں انسانوں کا قتل کیا گیا۔ وہاں موجود امریکی اور مغربی تیل کمپنیاں وہاں کی حکومت کو عوامی جدوجہد کچلنے کے لیے ہر بیرل پر ایک ڈالر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ وہاں کے ایک بڑے عوامی لیڈر کین سارووائیوا کو صرف اس لیے پھانسی دے دی گئی کہ وہ چاہتا تھا کہ تیل کے علاقے میں  رہایش پذیر عوام کو ان کا کچھ حصہ دیا جائے تاکہ وہ اپنی غربت کی زندگی میں کچھ آسانی پیدا کرسکیں۔    اس لیڈر کی سزا پر نیلسن منڈیلا نے امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ نائیجیریا پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں۔ لیکن امریکا نے صرف ایک بیان جاری کیا کہ وہ اس کی سخت مذمت کرتا ہے۔

نادین گورڈینر (Nadine Gordiner) نے‘ جو کہ ادب میں نوبل انعام یافتہ ہیں‘ ۱۹۹۷ء میں کہا تھا کہ امریکا تیل کی خرید کے بدلے انسانوں کا خون خرید رہا ہے۔ اس پورے باب میں تیل کے حصول کے سلسلے میں جو انسانوں پر ظلم ہورہا ہے اس کی داستان پڑھ کر انسان چیخ اُٹھتا ہے‘ لیکن یہ سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی نکتہ ہے کہ پیداوار کے وسائل کو حاصل کرو‘ چاہے اس کی راہ میں کتنے ہی لوگ کیوں نہ مارے جائیں۔ اسی باب کے آخر میں سونیاشاہ لکھتی ہیں کہ ۲۰۰۳ء میں گِنی (Guinea) کے صدر نے واشنگٹن ڈی سی کے ایک نجی بنک میں ۳۰۰ ملین ڈالر اپنے کھاتے میں جمع کروائے تھے۔

یہ تو تصویر کا ایک رُخ ہے۔ اب ذرا تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام اور فوڈایڈ کی رپورٹوں کے مطابق ۱۹۶۰ء کے عشرے سے لے کر اب تک دنیا میں اتنی خوراک پیدا ہورہی ہے کہ یہ اس کرئہ ارض کے تمام انسانوں کے لیے وافر ہے‘ لیکن اس کی غلط تقسیم اور وقت پر  ضرورت مندوں کو اس کی رسائی جیسے مسائل کی وجہ سے اس دنیا میں ۸کروڑ ۵۰ لاکھ انسان فاقے کا شکار ہیں۔ ان میں سے ۳ کروڑ تعداد بچوں کی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس زمین پرہر ساتواں انسان بھوکا رہتا ہے۔ بھوکے بچوں کی آبادی دنیا میں امریکا کی پوری آبادی سے زیادہ ہے۔ اس خوب صورت دنیا میں ہر چار سیکنڈ کے بعد ایک انسان بھوک کی وجہ سے مر رہا ہے۔ روزانہ ۲۵ ہزار انسان بھوک سے مرجاتے ہیں۔ ان میں ۱۸ ہزار معصوم بچے ہوتے ہیں۔ ہر سال ۹۰ لاکھ انسان خوراک کی قلت کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ ۱۰ مرنے والوں میں ۹ مرنے والوں کی خبر کسی کو نہیںہوتی۔ اس وقت بھوک دنیا کی سب سے بڑی بیماری ہے جس سے مرنے والوں کی تعداد ایڈز‘ ملیریا یا کینسر کی بیماریوں سے مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔

دنیا کے ۵۴ ممالک ایسے ہیں جو اپنی آبادی کو پوری خوراک مہیا کرنے سے قاصر ہیں‘ اس لیے کہ وہاں پر خوراک پیدا نہیں کی جاسکتی کہ وہاں پانی کے وسائل میں کمی ہے‘ یا وہاں غریب عوام کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ بیج خرید سکیں‘ یا وہاں امن و امان کی صورت حال خطرناک ہے‘ یا وہاں خشک سالی کا مسئلہ ہے‘ یا ان ممالک کے آمر حکمرانوں کی حکمت عملی غلط ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان تمام ممالک کے پاس اپنی ضرورت کی خوراک پیدا کرنے کے تمام وسائل موجود ہیں۔  آب پاشی کے نظام سے حاصل ہونے والی خوراک دنیا کی ۴۰ فی صد ہے‘ جب کہ اس کا رقبہ صرف ۱۷ فی صد ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر یہ ممالک اپنے مسائل کو حل کرلیں تو دنیا میں غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔ دنیا کے غریب اور بھوکے عوام اپنی آمدنی کا ۷۰ فی صد صرف غذائی اجناس خریدنے میں صرف کرتے ہیں‘ جب کہ امریکا میں ہر سال ۳۳ بلین ڈالر صرف خوراک اور وزن کم    کرنے والی ادویات پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۵ء تک بھوک و افلاس کو آدھا کرنے کے لیے صرف ۱۲۰بلین ڈالر کی ضرورت ہے‘ جب کہ ترقی یافتہ ممالک ہر سال ۳۰۰ بلین ڈالر اپنے کسانوں کو زرتلافی کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ اگر اس رقم کا ایک ہفتے کا خرچ فوڈ پروگرام کو دے دیا جائے تو ایک سال کے لیے دنیا کے بھوکے انسانوں کو کھانے کے لیے غذا مہیا کی جاسکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ ۹۰لاکھ انسانوں کو ایک سال کی زندگی دی جاسکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے عوام اوسطاً ہر روز اپنی غذا پر ۱۰ ڈالر خرچ کرتے ہیں‘ جب کہ دنیا میں بھوکے انسانوں کو اپنی روٹی کے لیے صرف ۳۰ سینٹ چاہییں۔

ماضی قریب میں سرمایہ دارانہ نظام کو کمیونزم اور سوشلزم سے خطرہ تھا‘ لہٰذااُس وقت تک سرمایہ دار کچھ نہ کچھ غریب عوام کا خیال کرتے تھے تاکہ ان کے اپنے ممالک میں کمیونزم اور سوشلزم نہ آجائے۔ اب‘ جب کہ سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنا شروع کی ہے‘ اُس وقت سے خوراک کے عالمی پروگرام کی امداد میں بھی کمی ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق اس ادارے کو ۱۹۹۹ء میں ۱۵ ملین ٹن خوراک مدد میں ملی تھی جوکہ ۲۰۰۴ء میں صرف ۵ء۷ ملین رہ گئی ہے‘ یعنی اس میں نصف کی کمی واقع ہوئی ہے۔ ۱۹۹۱ء میں اسے ایک بلین ڈالر کی امداد ملی تھی جوکہ ۲۰۰۳ء میں صرف ۲۴۴ ملین ڈالر رہ گئی ہے۔ ۲۰۰۴ء میں ورلڈ فوڈ پروگرام نے دوتہائی خوراک ترقی یافتہ ممالک سے خریدی تھی۔

فوربس بزنس میگزین کی رپورٹ کے مطابق ہمسایہ ملک بھارت میں سرمایہ دار لکشمی میتل نے گذشتہ ۱۲ ماہ میں اپنی دولت میں ۸ء۱۸ بلین ڈالر کا اضافہ کیا ہے جوکہ ایک ریکارڈ ہے۔ اس بھارت میں شمالی علاقوں سے لے کر بحیرۂ عرب تک ماؤباغیوں کی جنگ روز بروز بڑھ رہی ہے۔ یہ باغی صرف اور صرف غربت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے مائونواز باغیوں کی جانب سے بغاوت کو ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا اندرونی خطرہ قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں بی بی سی کی ویب سائٹ پر اس کے نمایندے جل مک گیورنگ کی ایک رپورٹ ۲۲جون کو دی گئی ہے جو وہاں کے حالات و واقعات کو حقیقی نظر سے دیکھ کر مرتب کی گئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس غربت کی وجہ سے بھارت میں کتنی انسانی جانیں ہر سال ضائع ہورہی ہیں اور ان میں ہر سال اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

بھارتی میگزین فـرنٹ لائن کے مطابق بھارت کے دارالحکومت دہلی میں کم از کم ایک لاکھ ۴۰ہزار بچے‘ عورتیں اور مردسڑکوں پر اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان میں سے متعدد رات کو سردی کی وجہ سے دم توڑ جاتے ہیں۔ ۲۰۰۱ء کی مردم شماری کے مطابق پورے بھارت میں ۷ کروڑ ۸۰ لاکھ انسان سڑکوں پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی آبادی بارے ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ۸۱ فی صد لوگ ۲ ڈالر سے بھی کم آمدنی پر روزانہ اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ جب کہ بھارت میں آپ کو اربوں روپوں سے بنے گھر بھی نظر آئیں گے(شمارہ ۲۲‘ یکم جنوری ۲۰۰۵ء‘ مضمون عینی زیدی)۔ٹائم کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کے شہر ممبئی میں ۱۳۰۰ افراد کے لیے صرف ایک بس ہے۔ ایک ہزار کاروں کے لیے پارکنگ کی صرف دو جگہیں ہیں۔ ۷۲ لاکھ انسانوں کے لیے صرف ایک رفاہی ہسپتال ہے۔ اس شہر میں ۱۷۵۰ افراد کی گنجایش والی ریل گاڑی میں تقریباً ۴۵۰۰ افراد سفر کرتے ہیں۔ ہر سال ۳۵۰۰ افراد اس سفرکے دوران کسی نہ کسی حادثے کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ایک تہائی آبادی کے پاس پینے کے لیے صاف پانی موجود نہیں‘ جب کہ ۲۰ لاکھ سے زیادہ انسانوں کو بیت الخلا کی سہولت نہیں۔

اس طرح اب آپ امریکا کی مثال لے لیں۔ Wikipedia Free Encyclopedia کے ایک سروے کے مطابق امریکا کے ایک شہر لاس اینجلس میں ہررات ۹۱ ہزار غریب لوگ اس شہر کی سڑکوں پر اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان میں عورتیں اوربچے بھی شامل ہیں۔ ان رپورٹوں کو پڑھنے کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آرہی ہے کہ دنیا میں امیرو غریب کے درمیان فرق بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں امیروں کی تعداد میں سیکڑوں کے حساب سے‘ جب کہ غریبوں کی تعداد میں لاکھوں کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔

سابق امریکی صدر جمی کارٹر اپنی نئی کتاب: Our Endangered Values (امریکا کا اخلاقی بحران) کے باب ۱۶ میں لکھتے ہیں: گذشتہ صدی کے آغاز پر دنیا کے امیر ترین ۱۰ ممالک دنیا کے غریب ترین ۱۰ ممالک سے صرف ۳۰ گنا زیادہ امیر تھے‘ جب کہ ۱۹۶۰ء میں امیرترین ممالک اپنے مدمقابل غریب ترین ممالک سے ۱۳۱ گنا زیادہ امیر ہیں۔ اس کے خیال کے مطابق نئی ہزاریے (میلینیم) میںکرئہ ارض کو سب سے بڑا چیلنج امیر اور غریب عوام میں بڑھتا ہوا فرق ہے۔ ان دونوں کے درمیان بے پناہ عدم مساوات ہے‘ جب کہ ان کا درمیانی فاصلہ تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ اس کی مثال اس طرح دیتے ہیں کہ امریکا میں اوسط خاندانی سالانہ آمدنی ۵۵ ہزار ڈالر ہے‘ جب کہ اس کے مقابلے میں دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کو روزانہ ۲ ڈالر سے بھی کم پر زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ گویا دنیا کے ایک ارب ۲۰ کروڑ انسان صرف ایک ڈالر روزانہ پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں‘ یعنی صرف ایک ڈالر کھانے‘ رہایش اور لباس کے لیے۔ حفظانِ صحت اور تعلیم کے لیے کیا باقی رہ جاتا ہے۔ ان حالات میں انسان کی عزتِ نفس یا روشن مستقبل کی اُمید کا باقی رہنا تو مشکل ہوگا۔ ان کے مطابق امریکا کا پورا معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوتا جا رہا ہے اور یہ تقسیم کالے‘ گورے یا ہسپانوی کے درمیان نہیں‘ بلکہ یہ تقسیم امیر اور غریب کے درمیان ہے۔

آج دنیا کے کسی بھی ملک کو دیکھ لیں کہ امیر اور غریب میں فرق ہر جگہ بڑھ رہا ہے۔ اس نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ دوسری طرف امریکا اور اس کے اتحادی دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی جنگ میں مصروف ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ واقعی یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف ہے یااس کے پس منظر میں سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت کو مضبوط کرنا ہے۔ ہرانسان اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ انصاف ہی واحد سلامتی کا راستہ ہے۔ کوئی جابر زور آور اپنی طاقت کے بل بوتے پر دنیا میں امن قائم نہیں کرسکتا۔ جب تک کہ آپ تمام دنیا کے انسانوںکو اُس طرح زندہ رہنے کا حق نہ دیں جس طرح آپ خود اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ قابض آپ کے گھر پر اپنی قوت یا سازش کے تحت قبضہ کرلے اور بعد میں آپ کو اسی طاقت سے مجبور کرے کہ آپ اُس کے غیرقانونی اور غیراخلاقی قبضے کو حق تسلیم کرلیں اور اس سلسلے میں اپنے حق کے لیے کھڑے نہ ہوں۔ اگر آپ اپنے حق کے لیے بات کریں تو وہ اسے دہشت گردی کا نام دیں۔ ظالم اسے جو بھی نام دے‘ آپ اپنی جدوجہد کو ختم نہیں کریں گے۔

اسی طرح کبھی جمہوریت کی بات کی جاتی ہے۔ یقینا جمہوریت ایک اچھا نظامِ حکومت ہے‘ لیکن اگر یہ واقعی اس کے بنیادی اصولوں پر استوار ہو۔ یہ نہیں کہ حماس جیت جائے تو آپ ان اصولوں سے منحرف ہوجائیں اور اگر آپ کے ایجنٹ جیت جائیں تو سب ٹھیک ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے علم برداروں نے اس جمہوریت کو بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا ہے۔ جہاں چاہا    اس ہتھیار کا استعمال کرلیا اور جہاں چاہا خاموشی اختیار کرلی۔

اب پوری دنیا پر یہ حقیقت عیاں ہوگئی ہے کہ بش اینڈ کمپنی کی دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک ٹوپی ڈراما ہے۔ اس کی آڑ میں یہ دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے جا رہے ہیں تاکہ دنیا کے تمام پیداواری وسائل کو اپنے چند من پسند سرمایہ داروں کی گرفت میں دے کر کرئہ ارض کے انسانوں کی تقدیر سے کھیل سکیں۔ اس جنگ میں کتنے بے گناہ انسان مارے جاتے ہیں‘ ان کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ یہ بے رحم انسان دہشت گردی کا نام نہاد خوف پیدا کرکے اپنے ہی نوجوانوں کو جنگ میں مروا رہے ہیں۔ دہشت گردی کا صرف ایک ہی حل ہے کہ تمام دنیا کے انسانوں کو ان کا جائز حق ِزندگی دیا جائے نہ کہ طاقت سے ان کو کچل دیا جائے۔

اسلام کے خلاف ان کی جنگ بھی اسی ایجنڈے کا ایک اہم نکتہ ہے۔ عام فہم بات ہے کہ کمیونزم اور سوشلزم کے دم توڑنے کے بعد اگر سرمایہ دارانہ نظام کو خطرہ ہے تو وہ صرف اور صرف اسلامی معاشی نظام سے ہے۔ لہٰذا بش اینڈ کمپنی کے تمام تھنک ٹینک‘ اسی کوشش میں مشغول ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سے اسلام کے بارے میں غلط قسم کا تاثر نہ صرف غیرمسلم ممالک بلکہ مسلم ممالک میں بھی پیدا کیا جائے تاکہ بنی نوع انسان اس کے ثمرات سے محروم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے عظیم نام کے ساتھ غلط قسم کے الفاظ کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے‘ مثلاً سوشل اسلام‘ سیاسی اسلام‘ جدید اسلام‘ اسلامی دہشت گردی‘ اسلامی بنیاد پرستی‘ اسلامی بم وغیرہ۔

ہر نظام کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام کے بھی اپنے تقاضے ہیں۔ اس نظام کا بنیادی محور سود ہے‘ جب کہ اسلامی نظام میں سود حرام کی آخری حد کو چھوتا ہے۔ اسلامی نظامِ معیشت کے اصول سرمایہ دارانہ نظام سے بالکل مختلف ہیں۔ یقینا سرمایہ دارانہ نظام میں مذہب کو اپنا ذاتی فعل تصور کیا جاتا ہے اور یہ بظاہر کسی مذہب کے خلاف نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علما اور دانش ور اُس کے خلاف اس شدت کے ساتھ آواز بلند نہیں کر رہے ہیں جس شدت کے ساتھ اُنھوں نے کمیونزم کے خلاف آواز بلند کی تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی ہمارے اخلاقی‘ سیاسی‘ معاشرتی‘ اقتصادی اور رُوحانی نظامِ زندگی کو نہایت بے دردی کے ساتھ تباہ و برباد کرتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اب ہماری ذہنی کیفیت یہ ہوچکی ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک گروہ اس کے اثرات قبول کرتے ہوئے یہ یقین کرنے لگا ہے کہ شاید صرف اسی نظامِ زندگی میں ترقی کے مواقع موجود ہیں‘اور ترقی کا دوسرا نام یہ ہے کہ اس کے رنگ میں رنگ جائو۔ کیونکہ اس کی مزاحمت ہمارے بس کی بات نہیں رہی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سود کے بغیر دنیا میں کوئی کاروبار کیا جاسکتا ہو۔ دوسرے الفاظ میں اس گروہ کے ذہن ماؤف ہوگئے ہیں‘ لہٰذا وہ اس نظام کے مقابلے میں کسی دوسرے نظام کے بارے میں سوچ ہی نہیں پا رہا۔ یہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام سے اتنے مرعوب ہوتے جاتے ہیں کہ وہاں سے جو کچھ آتا ہے اسے کچھ سوچے سمجھے بغیرقبول کیے چلے جا رہے ہیں۔ یہ ذہنی طور پر اتنے شکست خوردہ ہوچکے ہیں کہ اگر ان کو کچھ سمجھانے کی کوشش کی جائے تو یہ اُسے سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔

یہ وہ حالات ہیں کہ جن کی وجہ سے ہم دینی اور دنیاوی دونوں حیثیتوں سے تباہ ہو رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کسی ملک میں اسلامی نظام معیشت رائج ہوتا اور دنیا اس کے خوش گوار نتائج دیکھ کر اس کی کامیابی سے متاثر ہوتی لیکن ایسا سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں نے ہونے نہیں دیا۔ جہاں جہاں بھی اور جس کسی ملک میں یہ تجربہ کرنے کی کوشش کی گئی‘ کبھی انسانی حقوق کے نام پر‘ کبھی جمہوریت کے نام پر‘ کبھی آمریت کے نام پر‘ کبھی دہشت گردی کے نام پر حکومتوں کو گرا دیا گیا۔ یہ تو وہ کارنامے ہیں جو اسلام دشمن نظاموں کے علم برداروں نے کیے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان حالات میں ہم جو اسلام کے علم بردار ہیں کیا کر رہے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں۔

ہم کیا کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب بہت طویل اور پریشان کر دینے والا ہے۔   دانش ور ٹی وی پر آکر اُن بحثوں میں مشغول ہیں جن کا دُور دُور تک ہمارے مسائل سے واسطہ نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اسلام کے بارے میں ابہام پیدا کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

آیئے ذرا غور کریں کہ ان حالات میں‘ جب کہ ہمارے خلاف صلیبی جنگ کا آغاز   سرمایہ دارانہ نظام کی شکل میں شروع ہوچکا ہے‘ ہم کیا کردار ادا کرسکتے ہیں یا ہمارے کرنے کے کیا کام ہیں اور ہم اس دنیا میں نئے آنے والے عذاب کو کیسے روک سکتے ہیں۔

ہمارا ا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم چھوٹی چھوٹی اور روز مرہ کی ایسی باتوں سے نہایت جذباتی ہوجاتے ہیں جو وقتی نوعیت کی ہوتی ہیں‘ جب کہ بڑے بڑے اور اصل مسائل کی پروا ہی نہیں کرتے۔ جذباتی ہونے کے بعد ہم اپنی تمام صلاحیتیں اور قوتیں ان معاملات میں جھونک دیتے ہیں جس سے ہمارے دشمن کو ہماری قوت اور صلاحیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں  کہ وقتی معاملات پر فتح حاصل کرلی جائے‘ جب کہ وہ معاملات جو ہماری مکمل اور دیرپا صلاحیتوں  اور قوتوں کے حامل ہونے چاہییں اُن پر ہم غیرشعوری طور پر خاموش ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ      یہ معاملات ہم سے مستقل وقت اور مستقل مزاجی اور جدوجہد طلب کرتے ہیں۔ لہٰذا سب سے پہلے ہمیں اپنی سوچ میں سنجیدگی لانے کی اشد ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ ہمیں ملکی سطح پر ایک بڑے مکالمے کی ضرورت ہے جس میں ملک کے تمام دانش ور شریک ہوں۔ اس مکالمے میں ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا چیلنج کیا ہے۔ اسی طرح ہمیں اپنے درپیش چیلنجوں کی ترجیحی فہرست تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے مخالف کے پاس کیا کیا صلاحیت اور قوت موجود ہے اور اس کی  کون کون سی کمزوری ایسی ہے جس سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پھر ہمیں اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کا صحیح صحیح اندازہ ہونا چاہیے اور ان کو کب اور کس کس جگہ استعمال میں لانا ہے‘ اس کی مکمل حکمت عملی ہمارے پاس موجود ہونی چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں بڑا واضح اور عام فہم قلیل مدتی اور طویل مدتی پروگرام بغیر کسی گروہی اختلاف کے بنانا چاہیے۔ مایوسی ہمارے لیے زہر قاتل ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ پروگرام سامنے آتے ہی مایوسی کے بادل کس طرح چھٹ جاتے ہیں اور یہ تاثر کیسے    ختم ہوجاتا ہے کہ ہم کچھ کر نہیں سکتے۔ کمیونزم کے خلاف ہم نے کیسے جنگ لڑی تھی؟ اس جنگ میں   ہم اکیلے نہیں تھے بلکہ دنیا میں جہاں جہاں کوئی انسان اس نظام کے خلاف تھا اُس نے ہمارا ساتھ دیا تھا۔ اسی طرح اب بھی ہمیں چاہیے کہ کسی ایک فرد یا کسی ایک ملک کو ہدف نہ بنائیں۔ ہمارا ہدف سرمایہ دارانہ نظام ہونا چاہیے تاکہ دنیا کے ہر حصے سے اس کے خلاف غریب عوام ہمارے دست و بازو بن جائیں۔ اس سلسلے میں ہمیں صرف اسلامی ممالک ہی نہیں بلکہ دنیا کے اُن     تمام ممالک سے رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے جو ماضی قریب میں سرمایہ دارانہ نظام کے مخالف رہے ہیں۔