جنوری۲۰۰۷

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جنوری۲۰۰۷ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

فہم قرآن میں ایک اشکال

سوال : اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں قیامِ صلوٰۃ اور صیامِ رمضان کا حکم تو یا ایھا الذین امنواکہہ کر دیا گیا ہے‘ جب کہ حج اور زکوٰۃ کی فرضیت کے موقع پر ایسا نہیں۔ بالخصوص حج کے بارے میں تو جہاں بھی تذکرہ ہے وہاں لوگوں (ناس) کے حوالے سے ہے‘ مثلاً:۱- وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ (البقرہ۲:۱۲۵) ۲- وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ (الحج ۲۲:۲۷) ۳-  اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا (اٰل عمرٰن۳:۹۶) ۴- وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ (اٰل عمرٰن۳:۹۷) ۵-یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ ط قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ط (البقرہ ۲:۱۸۹) ۶- وَاِذْ قَالَ اِبْرَاھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا  (البقرہ۲:۱۲۶)

بالفاظ دیگر مکہ میں رزق ایمان نہ لانے والوں کو بھی ملے گا جو مکہ میں موجود ہوں گے۔

۷- ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ (البقرہ ۲:۱۹۹)۸- جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ (المائدہ ۵:۹۷) ۹- وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ (التوبہ۹:۳)

ان تمام آیات سے محسوس ایسا ہوتا ہے کہ حج پر آنے سے کسی غیرمسلم بالخصوص حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کو نبی ماننے والوں یا اہلِ کتاب کو منع نہیں کیا گیا ورنہ وہ کون لوگ ہیں جن کو دنیاوی رزق ملتا رہے گا اور آخرت میں کچھ نہ ملے گا یا جو صرف دنیا طلب کرتے ہیں اور آخرت میں خسارے میں ہوں گے۔

اہلِ کتاب سے تعلق رکھنے والیوں سے نکاح کی اجازت ہے تو کیا مکہ میں قیام پذیر مسلم اپنی بیوی کو ساتھ نہ رکھ سکے گا؟ جہاں تک غیرمسلموں کو حدودِ حرم میں آنے سے منع کرنے کا تعلق ہے تو وہ بھی سورۂ توبہ کی آیت ۲۸ میں صرف مشرکوں کے لیے ہے اور صرف مسجد حرام کے پاس آنے سے منع کیا گیا ہے نہ کہ پورے شہر مکہ یا مدینہ سے اور اہلِ کتاب کو تو منع ہی نہیں کیا گیا۔ کیا حج کی ادایگی یا حج کی ادایگی کے مناظر غیرمسلم کو مسلمان بننے پر راغب نہیں کریں گے؟

اسی طرح زکوٰۃ کا معاملہ ہے۔ زکوٰۃ کی فرضیت سورئہ توبہ کی آیت ۶۰ سے ثابت ہوتی ہے اور اس میں نہ زکوٰۃ دینے کے لیے مومنوں سے خطاب ہے اور نہ فقرا‘ مساکین‘ عاملین‘ تالیف قلب کے قابل لوگ‘ غلام‘ قرض دار اور مسافر کا مسلمان ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ زکوٰۃ سے اگر اسلامی ریاست کے تمام باشندے فائدہ حاصل کریں گے تو وصول بھی سب سے کی جاسکتی ہے۔ نیززکوٰۃ کو اسلامی نظامِ معیشت میں دولت کی تقسیم کا ایک اہم عامل قرار دیا جاتا ہے۔ کیا غیرمسلم کو اسلامی ریاست میں بے حساب اور بلاتحدید دولت جمع کرنے کی اجازت ہونی چاہیے؟

جواب: اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا حاکم ہے‘ تمام انسان چاہے مسلم ہوں یا کافر اسلامی احکام کے مخاطب ہیں۔ کفار حکومت الٰہیہ کے باغی ہیں۔ جہاں تمام انسانوں کو کسی عبادت کا حکم ہے مثلاً حج اور حجاج کرام سے متعلق آیات جن کا حوالہ آپ نے دیا ہے تو ان کے یہ معنی نہیں ہے کہ انھیں صرف حج کا حکم ہے‘ بلکہ انھیں پہلا حکم ایمان کا ہے اور دوسرا حکم حج کا ہے‘ یعنی حج کرواور اس کے لیے میرے پہلے حکم اٰمِنوا (ایمان لے آئو) پر بھی عمل کرو۔

حج پر آنے سے کفار و مشرکین کو سورۂ توبہ آیت ۲۸ میں منع کیا گیا ہے۔ اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ … مسجد حرام سے مراد صرف مسجد حرام اور بیت اللہ شریف نہیں بلکہ پورا حرم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ۹ ہجری میں جب ابوبکر صدیقؓ حجاج کے امیر تھے حضرت علیؓ کو اس اعلان کے ساتھ بھیجا تھا: لاَیَحُجَّنَّ بَعْد الْعَامِ مُشْرِکٌ ’’مشرک اس سال کے بعد حج نہیں کریں گے‘‘۔ اور اس کے علاوہ دیگر اصلاحات کا اعلان بھی کیا تھا۔

زکوٰۃ عبادت ہے۔ کفار سے اس کا خطاب ہے لیکن ایمان کے بغیر معتبر نہیں ہے اور ان سے زکوٰۃ وصول نہیں کی جائے گی۔ ان سے مختلف قسم کے منصفانہ ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں اور ان کے عوض ان کی جان و مال کا تحفظ کیا جاتا ہے۔

مکہ میں کفار کی رہایش کا جواز جو آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے نکالا ہے‘ وہ ابراہیم علیہ السلام کے دور کی بات ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی دور میں بھی یہ حکم باقی تھا‘ یہ حکم فتح مکہ کے بعد ۹ہجری میں ختم ہوگیا ہے۔ سورئہ بقرہ میں مسلمان حاجیوں کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ کافروں کے لیے تو کفر کے سبب آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ مسلمان حاجی اگر محض دنیاطلبی کے لیے حج کریں گے تو ان کو ان کے حج کا کوئی ثواب نہیں ملے گا۔ قرآن پاک میں خطاب کا اختلاف دراصل مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ کسی جگہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم اور دین تمام انسانوں کے لیے ہے۔ ان پر فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام کو مانیں اور ان پر عمل کریں۔ تمام احکام کے دنیا اور آخرت میں معتبر ہونے کی شرط ایمان ہے۔ اس لیے خطاب کا اصل فائدہ اہلِ ایمان کو ہے۔ اس لیے اس پہلو کو مدنظر رکھنے کی خاطر   اہلِ ایمان کو خطاب کیا جاتا ہے۔

دنیا میں شریعت کے ایسے احکام جن پر عمل کرنے کا کفار کو فائدہ ہو اور وہ دنیا میں معتبر اور آخرت میں مؤثر ہوں‘ اسلام کا نظام معاملات اور عقوبات اور رفاہی کام ہیں۔ کفار کے معاملات اگر شریعت کے مطابق ہوں تو ان کو فائدہ ہوتا ہے اور وہ شرعاً معتبر ہیں۔ آخرت میں انھیں ان پر ایمان کے بغیر عمل کرنے کی صورت میں نجات تو نہ ہوگی لیکن عذاب میں تخفیف ہوگی۔ ظالم کافر کو زیادہ عذاب ہوگا اور اعتدال پسند اور خوش اخلاق‘ مسلمانوں کے ساتھ اچھے رویے سے پیش آنے والے‘ ان کی خدمت کرنے والے اور رفاہی کاموں میں حصہ لینے والوں کو تھوڑا عذاب ہوگا۔ لیکن ان کی عبادات‘ نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج‘ نوافل‘ تلاوتِ قرآن پاک‘ ذکر و اذکار کا کوئی اعتبار نہیں اور ان کا انھیں ثواب بھی نہیں ملتا۔ اس لیے کہ عبادات کے لیے ایمان شرط ہے‘ اور عبادت کا خطاب تمام انسانوں سے ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ(البقرہ۲:۲۱) اے انسانو! اپنے رب کی عبادت کرو۔ عبادت میں نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ ‘حج اور تمام احکام شامل ہیں۔ اس کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ ایمان لائو اور عبادت کرو۔ ایمان کے بغیر اللہ تعالیٰ کا کسی عبادت کا حکم دینا سمجھ میں بھی نہیں آتا۔ باغیوں کو احکام نہیں دیے جاتے ہیں ان کو جو حکم دیا جاتا ہے اس کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ بغاوت کو ترک کرو‘ مطیع بن جائو اور پھر تمام احکام بجا لائو۔

اسلام میں تعامل کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ سورئہ توبہ کے بعد سے اب تک کفار کا داخلہ حرم میں بند ہے۔ اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔ اگر کسی شخص کو کتابیہ سے شادی کرنا ہے تو اسے اس کی شرائط کی پابندی کرنا ہوگی جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسے حرم مکہ اور مدینہ میں نہیں رکھ سکتا۔ اسی لیے وہ دو کاموں میں سے ایک کرسکتا ہے: ۱-حرمین شریفین کی سکونت ترک کردے ۲-یا کتابیہ سے شادی نہ کرے بلکہ کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو تو جزیرۃ العرب کی شہریت نہیں مل سکتی‘ انھیں عارضی طور پر حرمین شریف کے مخصوص علاقے حرمِ مکہ و مدینہ کے علاوہ ضرورت اور حاجت کی صورت میں آنے کی اجازت تو ہے لیکن مستقل رہایش اور شہریت حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الوفات میں ارشاد فرمایا: اَخْرِجُوْا الْمُشْرِکِیْنَ مِنْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ ’’مشرکین کو جزیرۃ العرب سے نکالو‘‘ (بخاری‘ کتاب الجہاد والسیر‘ باب ھل یستشفع الٰی اھل الذمۃ‘ حدیث رقم ۳۰۵۳)۔ نیز یہ بھی فرمایا: لَاُخْرِجَنَّ الْیَھُودَ وَالنصارٰی مِنْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ حَتّٰی لَا اَدَعُ اِلاَّ مُسْلِمًا ’’میں یہود و نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکالوں گا یہاں تک کہ اس میں نہیں چھوڑوں گا مگر مسلمان کو‘‘۔ (مسلم‘ کتاب الجہاد والسیر‘ باب اخراج الیہودوالنصارٰی من جزیرۃ العرب‘ حدیث رقم ۱۷۶۷)

موجودہ دور میں سعودی عرب کے جلیل القدر اور عظیم المرتبت مفتیان کرام جناب شیخ عبدالعزیز بن باز اور شیخ عثیمین کے اس موضوع پر مفصل اور مدلل فتاویٰ جاری ہوچکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو‘ فتاوٰی ارکان الاسلام‘ فتاوٰی العقیدہ‘ ص ۱۸۷‘ شیخ عثیمین‘ سوال نمبر ۹۸)۔ (مولانا عبدالمالک)