دسمبر ۱۹۷۱ء میں جب بھارتی فوج کی مدد سے بنگلہ دیش کی صورت میں مشرقی پاکستان الگ ہوا توعوامی لیگ کی حکومت نے بھارتی احسان مندی کے طور پر ریاست و سیاست اور معیشت و معاشرت کو بھارت کے ہاتھ گروی رکھنے کے راستے کا انتخاب کیا۔ یہ اگست ۱۹۷۵ء کی بات ہے جب شیخ مجیب الرحمن بھارت سے اس معاہدے پر دستخط کرنے کی تیاری کر رہا تھا کہ بنگلہ دیش کی تجارت بھارت کے ذریعے ہو‘ بنگلہ دیش کی فوج عملاً ایک پولیس فورس ہو جو محض اپنے عوام پر کنٹرول کے لیے حکومت کا ہاتھ بٹائے‘ جب کہ دفاع کی ذمہ داری بھارتی فوج کے پاس ہو۔ ان نکات پر مبنی معاہدے کی دستاویز پر دستخط کے لیے ۱۴ اگست کو ڈھاکہ یونی ورسٹی میں اسٹیج سجایا گیا تھا۔ عوامی لیگ کی تمام لیڈرشپ کو اکٹھا کیا گیا تاکہ تقریب میں شرکت کرے لیکن محب ِ وطن فوج اور عوام کو یہ منظور نہ تھا اوروہ اس غلامی کے لیے تیار نہ تھے۔ ۱۵ اگست ۱۹۷۵ء کو یہ تقریب منعقد ہونا تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۵ اگست کو سحری کے وقت شیخ مجیب الرحمن‘ ان کے اہلِ خانہ اور عوامی لیگ کی دیگر قیادت کو فوج نے عوامی تائید و حمایت سے ختم کردیا۔حسینہ واجد اس وقت ملک سے باہر تھیں‘ اس لیے وہ بچ گئیں اور خوندکر مشتاق کی سربراہی میں حکومت نے بنگلہ دیش کی عنانِ حکومت سنبھال لی۔ درحقیقت یہی دو رویے بنگلہ دیش کی پوری سیاست پر حاوی ہیں۔
۲۰ اکتوبر ۲۰۰۶ء کو خالدہ ضیا اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی مخلوط حکومت نے اپنی مدت پوری کرنے کے بعد صدر کو استعفا پیش کیا۔ جوں ہی دستوری تقاضے کے مطابق نگراں حکومت کی تشکیل کا مرحلہ پیش آیا تو انھی شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد (عوامی لیگ) نے اپنے سیاسی نقطۂ نظر کے مطابق ہنگامہ آرائی کا خونیں ڈراما رچانا شروع کردیا۔
وزیراعظم خالدہ ضیا نے ان تمام ہنگاموں کے باوجود آئینی مدت ختم ہوتے ہی تمام اختیارات صدر ایاز الدین کو سونپ دیے۔ دستور کے مطابق نگران حکومت کا سربراہ ریٹائرڈ جسٹس کے ایم حسن کو بننا تھا‘ مگر عوامی لیگ نے اس کی شدت سے مخالفت کی اور مطالبہ کیا کہ ان کو سربراہ نہ بنایا جائے۔ عوامی لیگ نے اس مطالبے کو منوانے کے لیے سارے ملک میں مظاہرے کروائے۔ مختلف شہروں کا محاصرہ کیا‘ ڈھاکہ کو گھیرے میں لے لیا‘ ۳۶‘ ۳۶ گھنٹے پہیہ جام ہڑتال کی‘ گھیرائو اور جلائو کی سیاست کی۔ عوامی لیگ کی اس جارحیت کے نتیجے میں ۲۴ افراد مارے گئے (جن میں ۱۳افراد کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور باقی کا بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سے ہے) اور ایک ہزار زخمی ہوئے۔ بنگلہ دیش اس پورے عرصے میں سیاسی غیریقینی کی صورتِ حال سے دوچار رہا۔
چار بڑی پارٹیز الائنس کی سربراہ خالدہ ضیا نے صدر سے درخواست کی کہ اس سیاسی تعطل کو ختم کر کے انتخابی عمل جلد شروع کیا جائے۔ بالآخر کے ایم حسن نے خود ہی نگران حکومت کی سربراہی سے معذرت کرلی اور صدرایازالدین نے نگران حکومت کے سربراہ کے طور پر خود حلف اٹھایا۔
عوامی لیگ نے صدر کی حلف برداری کی تقریب کا بائیکاٹ کیا لیکن اس تقریب میں باقی تمام پارٹیاں اور فوج کے سربراہان شامل ہوئے۔ اس بائیکاٹ کے ساتھ ہی عوامی لیگ نے ۱۱نکاتی چارٹر حکومت کو پیش کردیا جس میں سرفہرست چیف الیکشن کمشنر کو ہٹانے کا مطالبہ تھا۔ آج کل انھی ۱۱نکات کی بنیاد پر بنگلہ دیش میں عوامی لیگ نے ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ سیاسی مخالفین کو مارا جارہا ہے۔ انتظامی مشینری اس ٹکرائو کے نتیجے میں معطل ہوکر رہ گئی ہے۔ صدرایازالدین نے جو نگران حکومت کے سربراہ بھی ہیں‘ صورتِ حال کی بہتری کے لیے عوامی لیگ کے کئی مطالبات تسلیم کرلیے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کو ہٹادیا گیا ہے‘ تمام کنٹریکٹ ملازمین کو ملازمت سے برخاست کردیا گیا ہے اور اہم عہدوں پر فائز بہت سے افسروں کو اوایس ڈی بنادیا گیا ہے۔ الیکشن کے شیڈول میں تبدیلی کردی گئی ہے۔ منتخب حلقوں کی انتخابی فہرست کی ازسرنو چیکنگ کی ہدایت کی گئی ہے لیکن عوامی لیگ ان تمام تر اقدامات کے باوجود الیکشن پر آمادہ نہیں۔ کبھی وہ صدر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہی ہے‘ کبھی الیکشن کمیشن کے ازسرنو تعین کا مطالبہ کر رہی ہے‘ اور کبھی تمام انتخابی عملے کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
محب وطن عوام‘ انتظامی مشینری اور فوج پر یہ عیاں ہوتا جا رہا ہے کہ عوامی لیگ الیکشن سے فرار چاہتی ہے اور وہ اس کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہے۔ وہ شیخ مجیب کے قتل کا بدلہ لینا چاہتی ہے اور بھارت کی سرپرستی میں بنگلہ دیش کی فوج اور عوام کا ٹکرائو چاہتی ہے۔
صدر ایاز الدین نے فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے طلب کرلیا ہے۔ سڑکوں پر فوج کا گشت ہے۔ بنگلہ دیش کے تمام شہر امن و امان کے پیش نظر فوج کے کنٹرول میں ہیں۔ اگرچہ فوج نے ابھی تک کوئی سرگرمی نہیں دکھائی‘ لیکن فوج کے ماضی کے کردار کی وجہ سے عوامی لیگ اور اس کے تمام اتحادی پریشان ہیں۔ انتخابی مہم ابھی تک شروع نہیں ہوئی ہے البتہ امن و امان کی صورتِ حال اب بہتر ہے۔ اسلام دشمن‘ بھارت اور یہود نواز لابی کے زیراثر میڈیا نے عوامی لیگ کو بڑھاچڑھا کر پیش کیا ہے۔ لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ عوامی لیگ اور اس کے اتحادی الیکشن سے فرار کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ ۱۸ دسمبر کے جلسے میں جو پلٹن میدان میں ہوا‘ عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ واجد نے بائیکاٹ کا نعرہ لگایا ہے۔
عوام اس صورتِ حال سے پریشان ہیں۔ بھارت اور عوامی لیگ گٹھ جوڑ نے ہمیشہ محب وطن لوگوں کو اضطراب میں مبتلا کیا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پچھلے دنوں وہاں امریکی سفیرکافی سرگرم نظر آئے۔ امریکا کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ رچرڈ بائوچر انھی دنوں بنگلہ دیش کا دورہ کرچکے ہیں۔اس صورتِ حال میں مغرب کی پروردہ این جی اوز عوامی لیگ کے حق میں پروپیگنڈے کے لیے مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک دم ایسا لاوا کیوں بہہ نکلا؟ اس کا سادا سا جواب یہ ہے کہ اس فضا کو بنانے کے لیے گذشتہ ڈیڑھ برس سے دینی طبقے کے خلاف لوگوں کو اُبھارنے کے لیے بیرونی ایجنسیوں نے دھماکوں کا افسانہ تراشا اور پھر اسلام کے خلاف مہم کو ایک رخ دیا۔ جماعت اسلامی اور خالدہ ضیا کی مخلوط حکومت کی کارکردگی کا اعتراف عوامی سطح پر پایا جاتا ہے‘ جس میں انھوں نے معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے زبردست اقدامات کیے۔ بنگلہ دیش کے امیرجماعت مطیع الرحمن نظامی نے بلدیات اور دیہی ترقی کے وزیر‘ اور جنرل سیکرٹری علی احسن مجاہد نے سوشل ویلفیئر کے وزیر کی حیثیت سے جو نیک نامی کمائی‘ اس نے بھارت اور مغرب کے زیراثر قوتوں کو پریشان کردیا کہ اس طرح یہ لوگ فی الواقع ایک آزاد بنگلہ دیش کے استحکام کی جانب بڑھیں گے۔ اس چیز کو روکنے کے لیے انھوں نے اپنے آلۂ کار حلیفوں کو ایک بالکل بے معنی ایشو پر لڑنے اور مرنے کے لیے اُبھارا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت خالدہ ضیا کی مخلوط حکومت اقتدار میں نہیں ہے‘ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عوامی لیگ کو اپوزیشن کن معنوں میں کہا جا رہا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ عوامی لیگ کیوں جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP‘ خالدہ ضیا) کے کارکنوں کو قتل کرنے اور ان کی املاک کو لوٹنے اور جلانے کے درپے ہے؟
اگر پورے منظرنامے کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کو دو واضح قوتوں میں تقسیم کرکے خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلنے کی جانب قدم بڑھایا جا رہا ہے‘ جس طرح بیروت‘ افغانستان یا عراق! کیوںکہ یہی وہ منظر ہے جس میں مسلمانوں کو بدنام کر کے‘ ان کے ملک پر کنٹرول حاصل کرنے کے شیطانی منصوبے پر عمل ہوسکتا ہے۔
کیا آیندہ انتخابات میں عوامی لیگ جیتے گی؟عوامی لیگ کا بلاشبہہ بنیادی مقصد انتخابات جیتنا ہی ہے لیکن اس پر یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ وہ پُرامن ماحول میں یقینا یہ الیکشن ہارے گی۔ اسی پیش بندی کے لیے وہ دہشت کی ایک ایسی فضا قائم کرنے کی جانب گام زن ہے کہ اسلام اور بنگلہ دیش کی آزادی کو برقرار رکھنے کی حامی قوتیں اور ووٹر خوف زدہ ہوکر نہ تو الیکشن مہم میں پوری طرح اُتر سکیں اور نہ پولنگ کے روز ووٹ دینے کے لیے باہر نکل سکیں۔ اس کے بالمقابل وہ ہندو اقلیت کے مجتمع ووٹروں اور اپنے حامیوں کوایک جارحانہ فضامیں پولنگ اسٹیشن پر لاکر الیکشن جیت جائیں۔
عوامی لیگ جانتی ہے کہ بی این پی اور اسلامی قوتوں کا اتحاد عوامی تائید سے ان کے ہرحربے کو ناکام بنانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے‘ اور انتخاب ہونے کی صورت میں اس کا پورا امکان ہے کہ اسلامی قوتیں پوری قوت سے باہر آکر انتخاب کے روز عوامی لیگ کی گولی کا جواب ووٹ کے ذریعے دیں۔