جنوری۲۰۰۷

فہرست مضامین

کتاب نما

| جنوری۲۰۰۷ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

ابوالاعلیٰ مودودیؒ: علمی و فکری مطالعہ‘ (مرتبین) رفیع الدین ہاشمی‘ سلیم منصورخالد۔ ناشر:ادارہ معارف اسلامی‘ لاہور۔ صفحات: ۶۴۸۔ قیمت: ۵۰۰ روپے‘ اشاعت: ۲۰۰۶ء۔

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، اسلامی تاریخ کی اُن چند نادر شخصیات میں سے ہیں‘ جنھوں نے نہایت نامساعد حالات میں احیاے اسلام اور مسلمانوں کی بیداری کے لیے نہ صرف ایک وسیع علمی اور فکری لٹریچر مہیا کیا‘ بلکہ عملاً ایک ایسی تحریک برپا کی‘ جس کے اثرات پاک و ہند سے آگے عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ بقول مرتبین‘ مولانا نے ’’غلبۂ اسلام اور بیداری اُمت کی ایک ایسی شمع روشن کی ہے‘ جس کی روشنی میں قافلۂ اُمت ایک بھرپور ایمان وایقان‘ بلندنگہی‘ عزمِ راسخ اور پورے ثبات و استقامت کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں ہے‘‘۔ پروفیسر خورشیداحمد نے کتاب کے مقدمے میں بجاطور پر مولانا کی تین صلاحیتوں کی نشان دہی کی ہے: انھوں نے احیاے فکرِاسلامی میں عقل اور سائنس کی بالادستی کے بت کو محکم دلائل کے ساتھ توڑا اور الہامی ہدایت کی بالادستی کا اثبات کیا‘ دوسری طرف مغربی سامراج کی سیاسی بالادستی کو چیلنج کیا اور شکست خوردہ ملّت کو روشن مستقبل کی امید دلائی۔ تیسری طرف انھوں نے عملی طور پر ایک ایسی اسلامی تحریک برپا کی‘ جو ان کی فکر اور اُن کے نقشۂ کار کے مطابق کام کر رہی ہے۔

مقالات کا یہ مجموعہ دو حصوں پر مشتمل ہے: ’سید مودودی: مطالعہ اور تجزیہ‘ اور ’سید مودودی: نقوشِ حیات‘۔

پہلے حصے میں ۱۴ مقالہ نگاروں (ڈاکٹر انیس احمد‘ ڈاکٹر محمد یاسین مظہرصدیقی‘ ڈاکٹر محمدعبدالحق انصاری‘ ڈاکٹر عرفان احمد خاں‘ سیدحامد عبدالرحمن الکاف‘ ڈاکٹر چارلس جے ایڈمز‘   ڈاکٹر محمدعمر چھاپرا‘ ڈاکٹر محموداحمد غازی‘ ڈاکٹر زینت کوثر‘ پروفیسر غلام اعظم‘ ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی‘ ڈاکٹرعمرخالدی‘ ڈاکٹر محمد کمال حسن‘ ڈاکٹر فتحی عثمان)‘ اور دوسرے حصے میں ڈاکٹر فضل الٰہی قریشی‘ آبادشاہ پوری‘ رفیع الدین ہاشمی اورسلیم منصور خالد کی تحریریں ہیں۔

ڈاکٹر انیس نے مولانا کے نزدیک ’شریعت کے حرکی تصور‘ پر گفتگو کی ہے۔ مولانا شریعت کو محض چند سزاؤں یا عبادات کی مخصوص صورتوں تک محدود نہیں رکھتے۔ اسلام کا ایک مجموعی مزاج  ہے‘ جو تقسیم ہوکر قائم نہیں رہ سکتا۔ ’علمِ کلام میں مولانا مودودی کے افادات‘ کے عنوان سے ڈاکٹرمحمدعبدالحق انصاری بتاتے ہیں کہ روایتی دینی تعلیم کے بعد مولانا نے مغرب کے عمرانی علوم کی طرف توجہ کی لیکن ان کی فکر کا مرکزِ حوالہ ہمیشہ قرآن مجید ہی رہا: ’’میری اصل محسن بس یہی ایک کتاب ہے‘ اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا… ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ زندگی کے جس معاملے کی طرف نظرڈالتا ہوں‘ حقیقت اس طرح برملا مجھے دکھائی دیتی ہے کہ گویا اس پر کوئی پردہ ہی نہیں ہے…‘‘۔(ص ۱۰۳-۱۰۴)

سید حامد عبدالرحمن الکاف نے تفہیم القرآن اور سیدقطب کی فی ظلال القرآن کا تفصیلی تقابلی مطالعہ کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا نے مولانا کے ’اسلامی معاشیات‘ پر افکار پیش کیے ہیں۔ معاشرے میں ناہمواری دُور کرنے کے لیے ’’امیر… ابتدائی مسلم معاشرے کا طرزِ زندگی اختیار کریں‘ اور اپنی حقیقی ضروریات پوری کرکے باقی بچ جانے والی آمدنی (نہ کہ پوری دولت) غریبوں میں تقسیم کردیں‘‘۔(ص ۲۱۶-۲۱۷)

’خواتین کی خوداختیاریت اور سید مودودی‘ کے عنوان سے ڈاکٹر زینت کوثر نے سیدمودودی کے تصور خاندان‘ شادی اور خاوند بیوی کے تعلق پر روشنی ڈالی ہے‘ اگرچہ وہ ان کی فکر پر ’روایت پسندی کے اثرات کی نشان دہی بھی ضروری‘ سمجھتی ہیں۔ (ص ۲۸۳)

پروفیسر غلام اعظم‘ ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی اور ڈاکٹر عمرخالدی نے سید مودودی کی سیاسی فکر کا تجزیہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ سید مودودی کی حیات و فکر اور عالمِ اسلام میں اس کے اثرات پر کئی وقیع مقالات ہیں۔ ’اسلام میں قانون سازی اور اجتہاد‘ کے عنوان سے سیدمودودی کا ایک اہم مقالہ اور اس سلسلے میں ڈاکٹر کینٹ ول اسمتھ کی مولانا سے خط و کتابت اس مجموعۂ مضامین کا ایک قیمتی حصہ ہے۔

مرتبین (رفیع الدین ہاشمی‘ سلیم منصور خالد) نے سید کی ’حیات و آثار‘ کے عنوان سے ان کی پیدایش (۱۹۰۳ء) سے آخری آرام گاہ کے سفر (۱۹۷۹ء) تک کے واقعات اختصار کے ساتھ جمع کردیے ہیں۔ ان کی دینی تعلیم کی اسناد اورپاکستان میں پہلی اسیری‘ نیو سینٹرل جیل ملتان سے   ۶ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو بیگم کے نام لکھے ہوئے خط کی عکسی نقول اور ان کے فکری اور قلمی آثار کو نہایت سلیقے سے مرتب کر کے شامل کیا ہے۔ یہ کاوش سید مودودیؒ کے طالب علم اور محقق کے لیے یقینا مفید ثابت ہوگی۔(پروفیسر عبدالقدیرسلیم)


تخلیقِ انسان اور معجزاتِ قرآن، کیتھ مور‘ تلخیص و ترجمہ: ڈاکٹر محمد آصف۔ ناشر:   ادارہ اسلامیات‘ ۱۴- وینا  منشن‘ مال روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۰۸۔ قیمت: درج نہیں۔

جدید دور کے سائنسی انکشافات کی روشنی میں قرآن کا مطالعہ اہلِ علم کے لیے دل چسپی کا موضوع ہے۔ قرآن نے آیاتِ الٰہی کے عنوان سے جو کچھ بیان کیا ہے‘ وہی دراصل سائنس کا میدان ہے۔ بہت سی ایسی باتیں بیان ہوئی ہیں جن کا ۱۴‘ ۱۵ سو سال پہلے تصور نہیں کیا جاسکتا تھا‘ لیکن اب جدید تحقیقات ان کو سامنے لائی ہیں۔ لیکن اس کو اس انداز سے لینا کہ اس تصدیق سے قرآن کی حقانیت ثابت ہوتی ہے‘ ایک غلط نقطۂ نظر ہے۔ ’سائنسی حقائق‘ تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن قرآن نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اٹل اور تاابد درست ہے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسلام آباد میں ایک بڑی عالمی کانفرنس ’قرآن اور سائنس‘ کے موضوع پر ہوئی۔ اس موقع پر ایک قیمتی ضخیم کتاب تقسیم کی گئی تھی جو بڑی محنت اور وسائل صرف کرکے یمن کے محترم عبدالمجید زندانی کے زیراہتمام‘ جو اب وہاں کی جامعہ ایمان کے رئیس ہیں‘  تیار کی گئی تھی۔ اس میں کینیڈا کے ایمبریالوجسٹ ڈاکٹر کیتھ مور اور ان کے رفقا نے رحم مادر میں انسانی جنین کی نمو کے بارے میں قرآن میںجو کچھ بیان ہوا ہے‘ ایمبریالوجی کی ایک درسی کتاب میں برموقع شامل کر کے پڑھنے والوں کو یہ بتایا ہے کہ جو سائنسی انکشافات اب ہوئے ہیں‘ ان کی بنیادیات اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی بنا پر پہلے ہی بیان کردی ہیں۔ یہ امر بہت سے لوگوں کے لیے ہدایت اور ایمان کا باعث ہوتا ہے۔

تبصرے میں تفصیل میں جانے کا موقع نہیں۔ ڈاکٹر محمد آصف ماہر حیوانیات ہیں اور قرآن کے مطالعے سے شغف رکھتے ہیں‘ انھوں نے اس کتاب کی ایک تلخیص تیار کی ہے جس میںان آیات سے متعلقہ سائنسی معلومات کو وضاحت و تفصیل سے‘ اشکال کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔  نطفہ‘ امشاج‘ مضغہ مخلقہ‘ غیرمخلقہ‘ عظٰماً ‘ پھرہڈیوں پر گوشت کا چڑھانا‘ تین پردوں میں نشوونما‘   پھر النشأۃ سب مراحل کا قرآن میں ذکر اور سائنسی تحقیقات کا اس سے تطابق حیران کردیتا ہے۔

ادارہ اسلامیات نے اسے معیاری انداز میں شائع کیا ہے۔ یہ کتاب سائنس خصوصاً میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ایک ضروری اور مفید کتاب ہے۔ اسے ہرمیڈیکل لائبریری میں ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر محمد آصف صاحب اس غیرمعمولی کاوش پر مبارک  باد کے مستحق ہیں۔ (ڈاکٹر شگفتہ نقوی)


دنیاے اسلام میں سائنس اور طب کا عروج‘ پروفیسر ڈاکٹر حفیظ الرحمن صدیقی۔  ناشر: نشریات‘ ۴۰-اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۵۲۔ قیمت: ۲۴۰ روپے۔

آج کی علم و سائنس کی دنیا میں مسلمان قائد نہیں‘ اس لیے ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو ان کی عظمت رفتہ سے شناسا کیا جائے اور یہ بھی بتایا جائے کہ کامیابی اور کامرانی دیانت‘ امانت اور سخت محنت کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔

ہم سب برسوں سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ سائنس اور طب کی دنیا کم و بیش آٹھ صدیوں تک مسلمانوں کے کارناموں ہی سے عبارت رہی۔ پانچ صدیوں تک تو صرف مسلمان ہی نمایاں رہے۔ پروفیسر حفیظ الرحمن نے اپنی کتاب میں اس بارے میں سب تفصیلات کو وضاحت سے یک جا کردیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ معلومات ہیں کہ جب پوری اسلامی دنیا سائنس اور طب کی ایجادات سے جگمگا رہی تھی تو وہ یورپ کا تو تاریک دور تھا ہی‘ دیگر بڑے بڑے ممالک جیسے چین‘ بھارت اور دیگر ممالک میں سائنس دانوں کی تعداد کیا تھی اور ان کے موضوعات کیا تھے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ فی الوقت مسلمانوں کا جو غیرمطبوعہ علمی سرمایہ ہے وہ لاکھوں مخطوطات کی شکل میں کہاں کہاں ہے۔ انھوںنے پاکستان میں بھی ۸۸ہزار مخطوطات کے موجود ہونے کی خبر دی ہے۔

پروفیسر صاحب نے اس کتاب کو چھے ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے باب میں مسلمان سائنس دانوں کی علمی کارگزاریوں کو‘ دوسرے باب میں سائنس اور طب میں مسلمان کی کامرانیوں کو‘ تیسرے باب میں سائنس دانوں اور اطبا کی طبع زاد خدمات کو‘ چوتھے باب میں طب اور اطباے اسلام کے امتیازات اور غیرمسلم اطبا کے ساتھ فراخ دلانہ برتائو کو بیان کیا گیا ہے۔ پانچویں باب میں سائنس اور طب میں دنیاے اسلام اور ہم عصر دنیا کا موازنہ کیا گیا ہے۔ چھٹے باب میں بیان کیا گیا ہے کہ یورپ میں سائنس کی شمع اسلامی دنیا کی شمع ہی سے روشن کی گئی ہے۔

ص ۲۴۰ تا ۲۶۴ ایک جدول دیا گیا ہے جس میں پانچ صدیوں کے نام ور سائنس دانوں کی فہرست حروف تہجی کے اعتبار سے دی گئی ہے۔ ان کے مضامین اور ان کے بارے میں کچھ   اہم تفصیلات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس فہرست پر سرسری نظر ڈالنے ہی سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ  کوئی اہم موضوع ایسا نہ تھا جس پر مسلمانوں نے بھرپور انداز میں کام نہ کیا ہو۔ دوسری جدول  (ص ۳۰۴ تا ۳۱۲) میں مسلمان سائنس دانوں کی ان کتابوں کی فہرست دی گئی ہے جن کے تراجم یورپ کی تمام اہم زبانوں میں کیے گئے۔ یہ فہرست کمیاب ہے‘ اس سے کتاب کی افادیت میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔

یہ کتاب ہماری علمی تاریخ میں ایک بیش بہا اضافہ ہے اور مصنف یقینا قابلِ مبارک باد ہیں۔ (ڈاکٹر وقار احمد زبیری)


اسلام کا خاندانی نظام ‘ خصوصی اشاعت ماہ نامہ ذکریٰ، نئی دہلی۔ مدیراعلیٰ: محمد یوسف اصلاحی۔ ۵۱-جوہری فارم‘ جامعہ نگر‘ نئی دہلی‘ بھارت۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: ۳۵روپے (بھارتی)۔

اسلام کے نظامِ رحمت نے اسلامی معاشرت کا بنیادی قلعہ خاندان کو قرار دیا ہے۔ قرآن‘ سنت اور اسلامی تاریخ کے اوراق اس امر پر متفق ہیں کہ خاندان کے نظام کو توازن‘ احترام اور مشاورت کے ساتھ قائم رکھنے کے لیے معاشرے کے تمام اجتماعی اور انفرادی عناصر کو فعال کردار  ادا کرنا چاہیے۔ خاندان کا زوال معاشرتی انتشار اور بالآخر قومی زوال پر منتج ہوتا ہے۔ مغرب کا منتشر خاندان اور انتشارِ معاشرہ اس کا کھلا ثبوت ہے۔ مگر اس سے کوئی عبرت نہیں پکڑی جاتی۔

بدقسمتی سے مختلف معاصر محوری قوتوں نے اسلام کے خاندانی نظام ہی کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے جس نے بالخصوص جدید تعلیم یافتہ مسلم طبقے کو بلاسبب یا بے خبری کے سبب اپنا مُقتدی بنا رکھا ہے۔ اس بڑے چیلنج کا جواب دینے اور اعتماد و استدلال کی دولت فراہم کرنے کے لیے مولانا محمدیوسف اصلاحی (مصنف: آدابِ زندگی)نے بڑی محنت کے ساتھ یہ جریدہ مرتب کیا ہے‘   جس میں: اسلام کا خاندانی نظام l عورت اور اسلام l نکاح اسلام میں کفو‘ برادری اور جہیز   lتعددِ ازدواج l خاندانی منصوبہ بندی l طلاق‘ خلع اور عدت l نظامِ میراث l تعلیم و تربیت  اور lآزادیِ نسواں کے ابواب میں ۲۶ حضرات کے ۲۹ مضامین پیش کیے گئے ہیں۔

اختصار‘ جامعیت اور مقصدیت کے اعتبار سے یہ ایک قابلِ قدر دستاویز ہے‘ اور بہت سے رسائل کے لیے مثال بھی‘ کہ مختلف چیلنجوں سے نبٹنے کے لیے کیا ادارتی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ زبان آسان اور استدلال مؤثر ہے۔ (سلیم منصور خالد)


مغربی تہذیب کا چیلنج اور اسلام‘ خصوصی اشاعت سہ روزہ دعوت۔ ڈی-۳۱۴‘ ابوالفضل انکلیو‘ جامعہ نگر‘ اوکھلا‘ نئی دہلی ۱۱۰۰۲۵‘ بھارت۔ صفحات: ۳۱۰۔ قیمت: ۳۰ روپے (بھارتی)۔

بھارت کے معروف پرچے دعوت نے وقت کے اہم ترین موضوع پر نہایت محنت سے تیار کی گئی یہ اشاعتِ خاص کتابی سائز میں پیش کی ہے اور حق یہ ہے کہ حق ادا کردیا ہے۔ مغربی فکر‘ عقلیت پسندی‘ اسلام کے بارے میں عزائم‘ تصادم کے اسباب‘ مفاہمت کے امکانات‘ دہشت گردی‘ احیاے اسلام کی تحریکیں اور مغرب‘ حقوق نسواں‘ تہذیبی کش مکش اور دیگر اہم موضوعات پر ۲۱ پُرمغز مقالات میں اہل علم کے قلم سے سب پہلو زیربحث آگئے ہیں۔ خرم مراد (اُمت مسلمہ اور عصری چیلنج)  اور پروفیسر خورشیداحمد (دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ) کے مقالات بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ فی الواقع دعوت نے اس اہم موضوع اور اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنج کا علمی و فکری انداز میں بھرپور جواب دے کر غوروفکر کا سامان فراہم کیا ہے۔ اپنے موضوع پر ایک مفید علمی اضافہ ۔ (مسلم سجاد)


ماہنامہ آئین‘ لاہور‘ افغان نامہ‘ مدیر: مرزا محمد الیاس۔ فرسٹ فلور‘ اے-۱/۹‘ رائل پارک‘ لاہور۔ صفحات: ۱۵۴۔ قیمت: ۳۲ روپے۔

مظفربیگ مرحوم کا یادگار رسالہ آئین مرزا محمد الیاس کی ادارت میں جاری ہے۔    طالبان کے ازسرنو عروج نے افغانستان کو سرفہرست کردیا ہے۔ زیرنظر شمارہ افغان مسئلے پر ایک خصوصی مطالعہ ہے جس میں سات غیرملکی مصنفین کے مقالات کے ترجمے دیے گئے ہیں۔ ایک مقالہ آپریشن پایدار آزادی (۲۷ صفحات) اور دوسرا خصوصی رپورٹ (۳۰ صفحات) مدیر کے اپنے قلم سے ہیں۔ اس افغان نامہ کا مطالعہ قاری کو افغانستان کے جدید ترین منظرنامے میں عالمی اور علاقائی طاقتوں کے کردار سے بخوبی آگاہ کرتا ہے۔(م - س )


اُردو کا دینی ادب‘ پروفیسر ہارون الرشید۔ ملنے کا پتا: بدر بک سینٹر‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ صفحات: ۳۶۰۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

اس کتاب کے پہلے حصے میں ۱۸۵۷ء تا ۱۹۰۰ء‘ ۱۹۰۱ء تا ۱۹۴۶ء اور ۱۹۴۷ء تا ۲۰۰۰‘ کے تین ادوار قائم کر کے دیوبند‘ ندوہ‘ علی گڑھ سے شروع کرکے اجمالی تاریخی جائزہ لیا گیا ہے اور    تفسیر و سیرت کے میدانوں میں جو کام ہوئے ہیں ان کا تعارف کروایا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں اکابر اہلِ قلم‘ ممتاز مصنفین‘ عہدساز مصنفین‘ محققین اور دورحاضر کے معروف اہلِ قلم کے عنوان سے پانچ باب قائم کرکے مختلف اہلِ قلم کی خدمات کے بارے میں تعارفی مضمون لکھے گئے ہیں۔ مصنف نے ایک نہایت وسیع موضوع کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے اور یوں قاری کو دینی ادب کے وسیع اُفق پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ دینی ادب کو اسلامی ادب کے معنی میں نہیں لیا گیا ہے۔(م - س)

تعارف کتب

  •  معلم القرآن اُردو ترجمہ القرآن الکریم‘ مرتبہ: قاری جاوید انورصدیقی۔ مرکز القادسیہ‘ لیک روڈ‘ چوبرجی‘ لاہور۔ صفحات: ۱۰۳۲۔ ہدیہ:درج نہیں۔ [قرآن پاک کے عربی متن کے نیچے پہلی سطر میں ہر لفظ کا الگ ترجمہ درج کیا گیا ہے لیکن یہ اس طرح ہے کہ آپ پڑھیں تو بامحاورہ محسوس ہوتا ہے‘ یہ اس کی منفرد خوبی ہے۔ تشریح کے لیے جہاں کچھ الفاظ یا جملے دیے گئے ہیں وہ دوسری سطر میں لکھے گئے ہیں۔]
  •  قرآن عظیم‘ اعجاز ‘ تاثیر اور پیغام‘ محمد افضل خان۔ ناشر: اذانِ سحر پبلی کیشنز ‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔    صفحات: ۱۹۰۔ قیمت: ۸۰روپے۔ [اعجاز قرآن اور تاثیر قرآن کے حوالے سے نومسلموں کی گواہی بیان کی گئی ہے۔ ایک باب میں قرآن کے حوالے سے احادیث بھی دے دی گئی ہیں۔ ایک معیاری کاوش۔]
  •  حضوؐر بہ حیثیت سپہ سالار‘ محمد فتح اللہ گلن‘ ترجمہ: پروفیسر خالد ندیم۔ ناشر: کتاب سراے‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۱۶۰۔ قیمت:۱۰۰ روپے۔ [سیرت پاکؐ کے جہادی پہلو پر ایک ترک مصنف کی قابلِ قدر تصنیف کا اُردو ترجمہ جس میں اسلام کے تصور جہاد کا بیان بھی ہے اور غزوات اور جہاد کے ثمرات کا بھی۔]
  •  آب زم زم ‘ دکتور خالد جاد‘ ترجمہ: محمد طیب طاہر۔ نظرثانی: پروفیسر عبدالجبار شاکر۔ ادارہ نشریات‘ ۴۰-اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۱۰۴۔ قیمت: ۵۰ روپے۔ [آب زم زم کے بارے میں نہایت قیمتی‘ مستند اور پُراثر معلومات کے ساتھ ساتھ بے شمار ایمان افروز واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔]
  •  جمالِ نور‘ تالیف: عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی‘ جامعہ ابوہریرہ برانچ آفس خالق آبادہ‘ نوشہرہ‘ سرحد۔ صفحات:۲۹۸۔ قیمت:درج نہیں۔ [علامہ انور شاہ کاشمیری (م: ۱۹۳۳ء) کے اس تذکرے میں ان کی سوانح کے ساتھ ساتھ ان کے کارنامے کا بیان واقعات کی زبان میں کیا گیا ہے۔ قاری نہ صرف ان کی شخصیت کی کشش کو محسوس کرتا ہے بلکہ اس دور یعنی ۱۹ویں صدی کے اواخر اور ۲۰ویں صدی کے اوائل سے آگاہ ہوتا ہے۔]
  •  مسلمان کیوں پس ماندہ ہیں؟ ، فضل کریم بھٹی۔ناشر: اصلاح تعلیم سوسائٹی‘ چکلالہ سکیم نمبر۳‘ راولپنڈی۔ صفحات: ۳۰۳۔قیمت:۲۵۰ روپے۔ [مصنف نے ۲۱ مقالات میں مختلف جہتوں سے اپنے اس مرکزی خیال کو پیش کیا ہے کہ آج مسلمانوں کی اصلاح کے لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ تعلیمی نظام کی اس طرح اصلاح کی جائے کہ جدید و قدیم کی تفریق ختم ہو۔]
  •  مے یو کا مستقبل‘ ناشر: بین الاقوامی منشورات اتحاد‘ پوسٹ بکس نمبر ۸۶۷‘ چٹاگانگ‘ بنگلہ دیش۔ صفحات: ۳۲۔ قیمت: بلامعاوضہ۔ [مسلمانانِ اراکان (برما) کی جدوجہد آزادی کا ایک باب‘ ایک تاریخی دستاویز۔ ۴جولائی ۱۹۶۱ء کو ماؤنگڈو شہر میں حکومت برما کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت مجاہدین کی ہتھیار ڈالنے کی تقریب کی روداد اور حکومتی وعدوں اوریقین دہانیوں کا تذکرہ۔ مجاہدین اور حکمرانوں کے درمیان معاہدوں کی حقیقت جاننے کے لیے ایک اہم دستاویز۔]