جنوری۲۰۰۷

فہرست مضامین

اسلامی نظریاتی کونسل اور قانون تحفظ نسواں

پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر محمد خالد مسعود | جنوری۲۰۰۷ | بحث و نظر

Responsive image Responsive image

پروفیسر خورشیداحمد کے شذرے ’اسلامی نظریاتی کونسل کی غیر نظریاتی بیداری‘ (نومبر۲۰۰۶ء) پر  اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود صاحب نے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ یہ اور    مدیر ترجمان کا استدراک دونوں ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں۔ (ادارہ)

محترم پروفیسر خورشیداحمد صاحب کا ایک شذرہ ’اسلامی نظریاتی کونسل کی غیر نظریاتی بیداری‘ کے عنوان سے ترجمان القرآن اور بعض اخبارات میں شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے     اس بات پر مسرت کا اظہار کیاہے کہ ’’اس دستوری ادارے کو شاید اپنی تاریخ میں پہلی بار اپنے  مقام و کردار اور استحقاق کا احساس ہوا‘‘۔ پروفیسر صاحب نے ادارے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے: ’’ہم خود اسلامی نظریاتی کونسل کو بااختیار دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے کردار کو زیادہ مؤثر بنانے کے حق میں ہیں‘‘۔ محترم پروفیسر صاحب اسلامی نظریاتی کونسل کے پرانے کرم فرما اور بہی خواہ ہیں۔ ان کے ارشادات کی ہم بے حد قدر کرتے ہیں‘ تاہم اس شذرے میں چند حقائق بیان کرنے میں پروفیسر صاحب سے کسی قدر فروگزاشت ہوئی ہے۔ اس لیے    ہم بصدادب چند معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں:

۱-  پروفیسر صاحب نے فرمایا کہ کونسل نے قوانین پر نظرثانی کے لیے ایک جامع رپورٹ مرتب کرنا تھی جو آج تک مرتب نہیں ہوئی اور یوں کونسل نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی‘   یہ بات صحیح نہیں ہے۔ کونسل نے یہ آئینی ذمہ داری مکمل کرتے ہوئے جامع رپورٹ مرتب کرکے دسمبر ۱۹۹۶ء میں شائع کردی تھی۔ پروفیسر صاحب کی خواہش ہو تو وہ کونسل کے دفتر سے طلب کرسکتے ہیں۔ ماضی میں کونسل کی رپورٹیں صیغۂ راز میں رکھی جاتی تھیں۔ موجودہ کونسل کے فیصلے کے تحت   اب یہ پبلک کے لیے دستیاب ہیں۔

یہ فائنل رپورٹ ۵۲۷ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ میں ۱۸۳۶ء سے ۱۸۸۱ء تک کے تمام قوانین کا جائزہ پیش کردیا گیا ہے۔ اس فائنل اور جامع رپورٹ کے علاوہ کونسل سالانہ اور خصوصی رپورٹیں بھی شائع کرتی رہی ہے جو کونسل کی لائبریری میں موجود ہیں۔

۲-  کونسل اس بات پر مسرت و اطمینان کا اظہار کرتی ہے کہ موجودہ حکومت نے مختلف قوانین پر ذرائع ابلاغ اور پارلیمنٹ میں بحث کا آغاز کیا ہے۔ اب تک پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ عام طور پر آرڈی ننسوں کے ذریعے ہوتا رہا ہے اور اس مرتبہ ان قوانین پر ذرائع ابلاغ پر بے لاگ گفتگو ہورہی ہے اور اُمید ہے کہ اسمبلی میں بھی اس پر سنجیدہ بحث ہوگی۔ اس سلسلے میں جو اندیشے‘ تحفظات اور جھنجھلاہٹیں سامنے آرہی ہیں وہ فطری امر ہے‘ لیکن خوش آیند بات یہ ہے کہ قانون سازی عوام کے منتخب نمایندوں کے ہاتھوں ہورہی ہے۔

۳-  پروفیسر صاحب کو شکایت ہے کہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل کو ایک دستوری ادارہ ہوتے ہوئے بھی عملاً ایک عضو معطل ہی کا مقام دے دیا گیا‘‘ اور یہ کہ ’’کونسل ۵۰ سے زیادہ رپورٹیں تیار کرچکی ہے لیکن ان میں سے کسی ایک پر بھی پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوئی‘‘۔ بقول ان کے ’’حیرت کا مقام ہے کہ کونسل یا اس کے ارکان کو اس بے توقیری پر کبھی احتجاج کی توفیق نہیں ہوئی‘‘۔ ان رپورٹوں پر بحث پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی دستوری ذمہ داری ہے تاہم انھوں نے کونسل کو مطعون کیا ہے کہ ’’ہمیں علم نہیں کہ اس سلسلے میں کونسل نے کبھی حکومت کو اپنی دستوری ذمہ داریاں ادا کرنے پر متوجہ کرنے کی زحمت فرمائی ہو‘‘۔ پروفیسر صاحب سینیٹ کے اہم رکن ہیں‘ وہ بہتر جانتے ہیں کہ ان رپورٹوں پر کیوں بحث نہیں ہوئی۔ وہ اپنی کوتاہی کے لیے کونسل کو ذمہ دار کیوں ٹھیراتے ہیں۔ کونسل کے نزدیک رپورٹ پیش کرنے پر کونسل کی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے۔ کونسل کو ’ولایتِ فقیہ‘ کا اختیار حاصل نہیں اور نہ ہی وہ کسی ایسے اختیار کی قائل ہے کیونکہ اس سے پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح ہوتا ہے۔

۴-  پروفیسر صاحب نے یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ حسبہ بل اور حدود آرڈی ننس کے اصل مسودات اسلامی نظریاتی کونسل ہی نے تیار کیے تھے‘ انھیں غالباً اس بات پر اعتراض ہے کہ کونسل اپنے ہی تیار کردہ مسودات کی تائید کیوں نہیں کر رہی یا ان پر نظرثانی کی بات کیوں کرتی ہے۔ میں پروفیسر صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ کونسل‘ زیرغور ہرمسئلے پر کونسل کے ماضی کے فیصلوں اور سفارشات کو مدنظر رکھتی ہے بلکہ موجودہ کونسل نے یہ طریقۂ کار طے کیا ہے کہ کونسل کے ماضی کے فیصلوں کو بھی موجودہ کونسل کی توثیق کے بعد ہی نقل‘ شائع یا جاری کیا جائے گا۔

۵-  پروفیسر صاحب کو حسبہ بل کے بارے میں کونسل کی راے پر بھی اعتراض ہے۔  کونسل کی راے کے جس حصے کو انھوں نے ’دستوری بقراطیت‘ کا نام دیا ہے اس کی آئینی حیثیت پر  سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے‘ اس لیے مجھے اس پر مزید [کچھ] کہنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ کونسل نے جن شرعی تحفظات کا اظہار کیا تھا وہ پروفیسر صاحب کی توجہ کے لائق ہیں اور یہ تحفظات اس ماحول کو پیش نظر رکھ کر کیے گئے تھے جس میں پاکستان میں اقامت دین کے نام پر دین میں سیاست کوٹ کوٹ کر بھردی گئی ہے۔ اور اندیشہ ہے کہ حسبہ کا سیاسی استعمال شریعت اور دین کومتنازع بنادے گا۔ فرقہ واریت اور مذہبی جماعتوں کے حالیہ باہمی اختلافات سے اس اندیشے کو مزید تقویت ملی ہے۔

۶-  ’تحفظ حقوقِ نسواں‘کے بل پر پارلیمنٹ میں بحث کے آغاز سے پہلے ہی بعض حلقوں کی طرف سے حدود آرڈی ننس کی مکمل تنسیخ یا اس کو بعینہٖ باقی رکھنے پر جس طرح اصرار کیا جا رہا ہے اور اس پر پارلیمنٹ میں غوروخوض اور ترمیم کا راستہ روکنے کے لیے جس طرح زور ڈالا جا رہا ہے  اس پر افسوس ہوتا ہے کہ بعض لوگ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بات تو کرتے ہیں لیکن قانون سازی کے لیے غیرجمہوری اور غیرپارلیمانی طرزِعمل پر مصر ہیں۔ پروفیسرصاحب سے درخواست ہے کہ اس غیرجمہوری اور غیرپارلیمانی طرزِفکر کی حوصلہ شکنی کی طرف بھی توجہ فرمائیں۔

استدراک از مدیر ترجمان القرآن

ترجمان القرآن (نومبر۲۰۰۶ء) میں شائع شدہ شذرے پر اسلامی نظریاتی کونسل کے فاضل اور محترم صدر ڈاکٹر محمد خالد مسعود کا ایک طویل مراسلہ موصول ہوا ہے جسے شائع کیا جا رہا ہے۔ شذرے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ کیا کسی مسئلے پر پارلیمنٹ یا پارلیمانی پارٹیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ ایک دینی مسئلے پر کونسل کے علاوہ دوسرے علماے کرام‘ یا کسی مجلس یا ادارے سے قانون سازی کے دوران راے لیں اور اگر پارلیمنٹ کی پارٹیاں ایسا کرتی ہیں تو کیا اس سے اسلامی نظریاتی کونسل جیسے دستوری لیکن سفارشی ادارے کا استحقاق مجروح ہوتا ہے؟ سوال کونسل کے ایک یا ایک سے زیادہ ارکان کے اس موقف پر پیدا ہوا تھا جنھوں نے اس عمل پر برافروختہ ہوکر استعفا پیش کیا جو اخبارات میں شائع ہوا اور اب بھی کونسل کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے:

… نے ۲۰ ستمبر ۲۰۰۶ء کو اسلامی نظریاتی کونسل سے استعفا یہ کہتے ہوئے دے دیا کہ حکومت نے تحفظ نسواں بل میں دستوری ادارے کو نظرانداز کیا ہے۔ اس لیے کہ حکومتی جماعت کے لیڈر چودھری شجاعت حسین نے بل کا جائزہ لینے کے لیے علما کی الگ کمیٹی تشکیل دی جس کا بیان کردہ مقصد یہ تھا کہ یہ یقینی بنائے کہ یہ بل اسلامی احکامات کے مطابق ہے۔ … نے کہا کہ یہ نظریاتی کونسل کے دائرۂ کار کی خلاف ورزی ہے… نے بہرحال جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ممبران کونسل کی ۳۰نومبر کی ملاقات میں شرکت کی۔

اصل مقصد اس طرف متوجہ کرنا تھا کہ کیا فی الحقیقت دستور کے تحت کونسل کو یہ حیثیت حاصل ہے کہ اس کے علاوہ کسی سے مشورہ کرنا اس کے استحقاق کو مجروح کرتا ہے اور کرنے والے   کونسل کے دائرۂ اختیار کی خلاف وزی (breach of jurisdiction) کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کونسل کے محترم صدر نے ’ولایت فقیہ‘ سے برأت کا اظہار کیا ہے اور درست کیا ہے لیکن دائرۂ اختیار کی خلاف ورزی کے تصور کے ڈانڈے کہیں ایسے ہی کسی تصور سے تو نہیں مل جاتے؟

ہماری دوسری تمام معروضات ضمنی تھیں اور مقصود کونسل پر تنقید سے کہیں زیادہ اس نظام کے احتساب کے لیے تھیں جو کونسل جیسے وقیع ادارے کے قیمتی کام کا استخفاف کر رہا ہے۔ اشارتاً اس طرف بھی متوجہ کیا گیا تھا کہ اگر احتجاج کی ضرورت تھی تو کونسل کے کام سے اس بے توجہی بلکہ  بے توقیری پر تھی‘ کونسل کے باہر کے اصحابِ علم سے مشورہ کرلینے پر نہیں۔ اس پس منظر میں یہ کہنے کی جرأت تو نہیں کرسکتا کہ  ع

شعر مرا بہ مدرسہ کہ برد

البتہ اپنے عجز بیان کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے یہ دعا ضرور کروں گا کہ  ع

دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زبان اور

میں فاضل چیئرمین کونسل کا ممنون ہوں کہ دسمبر ۱۹۹۶ء میں شائع کی جانے والی جامع رپورٹ کے بارے میں انھوں نے مطلع کیا ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ یہ رپورٹ میرے علم میں نہیں تھی‘ ان شاء اللہ میں اسے حاصل کر کے اس سے استفادہ کروں گا۔ میرے سامنے مئی ۱۹۸۴ء میں شائع کی جانے والی ’احکام اسلام‘ نامی رپورٹ تھی جسے دستور پاکستان کے آرٹیکل ۲۳۰ (۱) (د) کے تحت پیش کیا گیا تھا اور جس سے میری تشفی نہیں ہو سکی۔ اس طرح کے مجموعے تو پہلے سے موجود تھے‘ ضرورت اس امر کی تھی کہ قرآن و سنت کے جن احکام کو قانونی شکل دینا ضروری ہے ان کو اس انداز میں پیش کیا جائے جس سے نئی قانون سازی ہوسکے۔ آیات و احادیث کو جمع کر دینا بھی ایک خدمت ضرور ہے مگر اس سے دفعہ ۲۳۰ (۱) (د) کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ غالباً ۱۹۹۶ء کی رپورٹ دفعہ ۲۳۰ (۱) (ج) کے تحت ہے اور اس میں متعلقہ قوانین کو اسلام کے احکام سے  ہم آہنگ کرنے کے لیے متعین تبدیلیوں کی نشان دہی کی گئی ہوگی جس سے میں ضرور استفادہ کروں گا۔ اس معلومات کے لیے میں ڈاکٹر صاحب کا ممنون ہوں۔

ڈاکٹر صاحب نے درست لکھا ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ میں اور قومی سطح پر بحث و گفتگو کے ذریعے ہونی چاہیے اور آرڈی ننسوں کے ذریعے قانون سازی دستور اور جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔ ہم دن رات اسی کا رونا رو رہے ہیں۔ جب پارلیمنٹ کا وجود نہ ہو‘ اس وقت تو کوئی مجبوری ہوسکتی ہے جیسی کہ ۱۹۷۹ء میں تھی‘ جب حدود آرڈی ننس نافذ ہوئے۔ لیکن اس وقت بھی اگر ڈاکٹر صاحب اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹوں پر نظر ڈالیں اور اس زمانے کے اخبارات کا مطالعہ فرمائیں تو صاف نظر آئے گا کہ حدود قوانین پر کھل کر بحث ہوئی ہے۔ علما اور مفکرین کے کنونشن ہوئے ہیں اور اس وقت کی کابینہ نے اسلامی نظریاتی کونسل کی تجویز پر ان قوانین کی منظوری دی تھی۔ کلہیا میں گڑ نہیں پھوڑا گیا تھا‘ البتہ یہ شرف موجودہ حکمرانوں کو حاصل ہے کہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں گذشتہ چارسال میں اگر کوئی ۲۰قوانین پارلیمنٹ میں نہایت رواروی میں اور بالعموم مفصل بحث کے بغیر بنائے گئے ہیں تو اس کے پانچ گنا زیادہ‘ یعنی تقریباً ۹۵ آرڈی ننسوں کے ذریعے نافذ کیے جن میں سے ایک چوتھائی ایسے ہیں جو پارلیمنٹ کے اجلاس سے ایک دو دن قبل یا ایک دو دن بعد قوم پر مسلط کیے گئے ہیں۔ نیز دو درجن کے قریب آرڈی ننس وہ ہیں جو سپریم کورٹ کے واضح انتباہ (strictures)  کے باوجودتین تین اور چار چار بار بطور آرڈی ننس ہی نافذ ہوئے ہیں۔ یہ سارے قوانین اب تک صرف صدارتی فرمان کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ان پر کبھی بحث نہیں ہوئی ہے اور غضب یہ ہے کہ ان کو آج تک باقاعدہ منظور نہیں کرایا گیا۔

ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ اب تک پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ عام طور پر  آرڈی ننسوں کے ذریعے ہوتا رہا ہے‘ لیکن یہ بات اسلامی قانون سازی سے مخصوص نہیں تمام ہی قوانین کے بارے میں ہے۔ اسلامی قوانین تو آئے ہی کتنے ہیں؟ ضمناً یہ بھی عرض کر دوں کہ سینیٹ میں جو شریعت بل ۱۹۸۶ء میں متعارف کیا گیا تھا اس پر پورے دوسال بحث ہوئی‘ اسے پبلک کی راے کے لیے بھی مشتہر کیا گیا اور سینیٹ کی باقاعدہ قرارداد کے ذریعے یہ کام کیا گیا۔ غالباً ۱۹۸۵ء سے آج تک یہ واحد قانون ہے جس میں سینیٹ میں ہفتوں بحث ہوئی اور تین ماہ اسے پبلک میں مشتہرکیا گیا جس کے نتیجے میں سینیٹ کو ۱۴ ہزار سے زیادہ آرا موصول ہوئیں اور ۹۹ فی صد اس کے حق میں تھیں۔ تحفظ نسواں کے نام نہاد قانون پر پارلیمنٹ میں اور قومی سطح پر بحث کا جو credit موجودہ حکومت کو دیا جا رہا ہے اس پر ان کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے‘ کم ہے۔ البتہ یہ  نہ بھولیں کہ ارکان اسمبلی و سینیٹ سے جس دبائو کے تحت بازو مروڑ کر (arm twisting) یہ بل منظور کرایا گیا اور جس طرح خود سرکاری پارٹی کے ۴۶ ارکان نے اسمبلی میں راے شماری میں شرکت نہ کرکے اپنی مجبوری کا اظہار کیا وہ بھی اسی حکومت کا طرۂ امتیاز ہے!

ڈاکٹر صاحب کی یہ شکایت بے محل ہے کہ پارلیمنٹ کے بحث نہ کرنے کا الزام کونسل کو دیا جارہا ہے۔ کم از کم میری تحریر میں اس طرف کوئی اشارہ بھی نہیں۔ کونسل نے بلاشبہہ اپنا فرض‘ رپورٹ پیش کر کے ادا کردیا اور میری تنقید کا ہدف پارلیمنٹ اور وہ تمام حکومتیں ہیں جنھوں نے اپنے فرض کی انجام دہی سے کوتاہی کی ہے۔ یہ سوال خود میں نے سینیٹ میں ایک درجن سے زیادہ مواقع پر اٹھایا ہے۔ ایک بار اس پر تحریکِ استحقاق تک پیش کی ہے اور میری تحریک پر سینیٹ میں کونسل کی  کم از کم‘ دو رپورٹوں (معیشت اور تعلیم) پر قائمہ کمیٹی نے سینیٹر محمد علی خاں ہوتی کی صدارت میں غور کیا اور اپنی مطبوعہ رپورٹ سرکاری طور پر سینیٹ میں پیش کی لیکن یہ اُونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ تمام حکومتیں اس کوتاہی کی ذمہ دار ہیں بشمول موجودہ حکومت‘ البتہ میرا اشارہ اس طرف تھا کہ اگرکونسل کے ارکان کو کسی معاملے پر اپنے اضطراب کااظہارکرنا چاہیے تھا وہ ان کے کام کے دستوری تقاضوں کو پورا نہ کرنا ہے‘ نہ کہ ایک ایسے معاملے پر خفگی کا اظہار جو پارلیمانی مشاورت کے آداب کے مطابق ہے اور اس سے کونسل کا کوئی استحقاق مجروح نہیںہوتا۔ جہاں تک میرے رویے کا تعلق ہے تو موجودہ کونسل کی تشکیل کے بارے میں متعدد پارلیمانی پارٹیوں کے تحفظات کے باوجود‘ میں نے اور میرے ساتھیوں نے سینیٹ میں تحفظ نسواں بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی تجویز دی تھی جسے حکومتی پارٹی نے رد کردیا۔ اسے کونسل کے فاضل ارکان ان پر حکومت کے اعتماد کا اظہار سمجھتے ہیں یا بے اعتمادی کا‘ یہ صرف ان کا استحقاق ہے!

یہاں اگر یہ بات بھی ریکارڈ پر لے آئی جائے تو بے محل نہیں ہوگا کہ یہ بل جس کے بارے میں ملک کے علماے کرام کی عظیم اکثریت اور اہم قومی جماعتیں اس کی متعدد شقوں کے خلافِ اسلام ہونے پر یقین رکھتی ہیں‘ ہمارے علم کی حد تک آج تک باقاعدہ کونسل کو نہ غور کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے اور نہ کونسل نے اس پر باقاعدہ بحث کے بعد کوئی راے دی ہے۔ اس کی تصدیق صدر کونسل کے اس اخباری بیان سے بھی ہوتی ہے جو بل کے منظور ہونے کے بعد انھوں نے دیا تھا اور اس استعفا سے بھی جو ایک فاضل رکن نے دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے بار بار اعلان کیا ہے کہ کونسل نے اس کو اسلام کے مطابق قرار دیا ہے اور ۲۰ رکنی کونسل جس میں اس وقت استعفا دینے والے ارکان سمیت صرف ۱۲ رکن ہیں‘ کے غالباً چھے سات ارکان بشمول ایک استعفا دینے والے رکن نے صدر سے مل کر اس تاثر کو کچھ وزن دینے کی خدمت بھی انجام دی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہی ہے کہ اب تک باقاعدہ کونسل نے اس کے بارے میں کوئی راے نہیں دی بلکہ کونسل کی ویب سائٹ کے مطابق دو ارکان نے ۲۲ نومبر ۲۰۰۶ء کو کونسل کی رکنیت سے استعفا دے دیا ہے اوراس کی وجہ ویب پر یہ درج ہے:

ہم نے اسلامی نظریاتی کونسل کو بطور احتجاج چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ وزیراعظم شوکت عزیز اور مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ہے اور تحفظ نسواں بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجے بغیر منظور کرلیا ہے۔

کیا کونسل کے چند ارکان نے جنرل صاحب کو کمک پہنچا کر اور کونسل کے اجلاس میں کسی فیصلے کے بغیر محض ذاتی آرا کی شکل میں کونسل کی راے کا تاثردے کر کونسل کی عزت میں اضافہ کیا ہے یا شعوری یا غیرشعوری طور پر وہ بھی اسی سیاست میں شریک ہوگئے ہیں جس کا حسبہ بل کے بارے میں وہ اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں اور اس طرح خود کونسل کے ان ارکان نے جو صدارتی دربار میں حاضری کے اعزاز سے نوازے گئے ’’دین کے نام پر دین میں سیاست کوٹ کوٹ کر‘‘ بھرے جانے کا ایک حقیقی نمونہ تو کہیں پیش نہیں کردیا؟

حسبہ بل کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے‘ اس کا انھیں حق ہے لیکن میرا سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ جس ’ماڈل بل‘ کی بنیاد پر سرحد کی اسمبلی نے اپنا بل بنایا تھا وہ اسلامی نظریاتی کونسل ہی کا تیار کردہ تھا۔ بعد کی کونسل اس پر نظرثانی کرسکتی ہے مگر دلیل کے ساتھ کہ پہلے جو مسودہ تجویز کیا گیا تھا وہ کیوں درست نہیں تھا اور اس کے لیے شرعی دلائل کیا ہیں؟ دستوری اعتراضات اس کے دائرۂ اختیار میں نہیں اور سپریم کورٹ نے جو راے دی تھی اسے بھی عدالت کا فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس پر دستوری ماہرین کلام کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔

دستور کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ دستور کے تحت ہر ادارے (مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ) کا دائرۂ کار مقرر ہے اور ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ اپنے متعین دائرہ اختیار کی حدود میں کام کرے۔ قانون سازی مقننہ کا کام ہے اور عدلیہ کا کام قانون بننے کے بعد شروع ہوتا ہے اور وہ اس کے نفاذ اور دستور سے اس کی ہم آہنگی یا تصادم کے بارے میں حتمی راے دے سکتی ہے۔ لیکن قانون سازی کے عمل میں عدلیہ کا کوئی کردار نہیں۔ اگر دستور کی دفعہ ۱۸۶ کے تحت صدر اس سے کوئی راے لے تو وہ مشاورتی عمل ہوگا۔ عدلیہ کوئی قانونی حکم جاری نہیں کرسکتی۔ نیز عدالتی اور دستوری روایات اس کی گواہ ہیں کہ عدالت قانون سازی کے عمل میں بلاواسطہ یا بالواسطہ مداخلت سے اجتناب کرتی ہے۔ سابق چیف جسٹس اجمل میاں نے اپنی خودنوشت میں نوازشریف صاحب کے دور کے ایک واقعے کے پس منظر میں اس اصول کو ان الفاظ میں واضح کیا ہے جو ہمارے علم کی حد تک ساری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے:

ہمارا دستور‘ مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ کے سہ گونہ اختیارات پر مبنی ہے۔ یہ ہر ایک کی حدود واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ عدلیہ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مقننہ اور انتظامیہ کے افعال کا فیصلہ دے کہ یہ اسلامی دستور کے مطابق ہیں یا نہیں۔ اگر مقننہ کوئی ایسا قانون منظور کرتی ہے‘ یا صدر کوئی ایسا آرڈی ننس جاری کرتا ہے‘ جو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہو تو عدلیہ اس کو دستور کے خلاف قراردے کر ختم کرسکتی ہے… عدلیہ کو یہ اختیار اور یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ چیف جسٹس کمیٹی کے ذریعے کسی مجوزہ قانون کی مخالفت میں کسی احتجاج کا آغاز کرے‘ یا کوئی اخباری بیان جاری کرے‘ یا کوئی قرارداد    منظور کرے‘ اور اس طرح عوامی محاذآرائی پیدا کرے۔ عدلیہ سے توقع نہیں کی جاتی  کہ وہ کسی ایسے تنازعے میں اُلجھے جو اس کے سامنے فیصلے کے لیے لایا گیاہو۔      (A Judge Speaks Out‘ اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس‘ ۲۰۰۴ء‘ ص ۲۱۶-۲۱۷)

رہا قوانین کے اور خود دینی احکام کے غلط استعمال کا مسئلہ‘ تو بہرصورت حق حق ہی رہے گا اور حکم اپنی جگہ قائم رہے گا محض غلط استعمال کی وجہ سے حق اور قانون تبدیل نہیں ہوتے۔ غلط استعمال کو روکا جانا چاہیے۔ ورنہ کوئی اصول باقی رہے گا‘ نہ قانون اور ضابطہ۔

ہمیں یہ تو جان کر خوشی ہوئی کہ کونسل کی سابقہ رپورٹیں اب افادہ عام کے لیے شائع اور فراہم کی جارہی ہیں البتہ یہ بات بڑی نادر اور عجوبہ روزگار نوعیت کی ہے کہ ’’موجودہ کونسل نے یہ طریقہ کار طے کیا ہے کہ کونسل کے ماضی کے فیصلوں کو بھی موجودہ کونسل کی توثیق کے بعد ہی نقل‘ شائع یا جاری کیا جائے گا‘‘۔ کیا اب کونسل نے فی الحقیقت اپنے لیے ایک نوعیت کی ’ولایت فقیہ‘ کا کردار اختیار کرلیا ہے۔ سوال پیداہوتا ہے کہ موجودہ کونسل ماضی کی تمام کونسلوں پر حَکم بن کر ان کے فیصلوں اور تجاویز کی توثیق کی ذمہ داری کس دستوری یا شرعی استحقاق کی بنا پر اپنے لیے طے کر رہی ہے۔ ایک دور کے اہلِ علم کی آرا سے دوسرے دور کے علما اختلاف کرسکتے ہیں۔ عدالتوں میں فیصلوں میں اختلاف ہوتا ہے اور اعلیٰ عدالتیں ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کو تبدیل بھی کرتی ہیں  حتیٰ کہ اپنے فیصلوں پر بھی نظرثانی کرسکتی ہیں لیکن یہ حق موجودہ کونسل کس بنیاد پر اپنے لیے حاصل کر رہی ہے کہ اس کی توثیق کے بغیر ماضی کی کونسلوں کے فیصلے نہ نقل کیے جاسکتے ہیں اور نہ شائع اور جاری کیے جاسکتے ہیں۔

آپ کو حق ہے کہ دوسروں پر ’دین کے نام پر سیاست‘ کی چوٹ جس فیاضی سے چاہیں کریں لیکن اپنی پیش رو کونسلوں کے فیصلوں اور سفارشات کی عصمت کو تو محفوظ رہنے دیں۔ ان کے فیصلوں اور سفارشات پر نظرثانی کا حق آپ کو کس نے دیا ہے۔ ان سے اختلاف آپ ضرور کریں لیکن ان کے فیصلے اور سفارشات قومی امانت اور دستوری سرمایہ ہیں۔ ان کو جیسی کہ وہ ہیں شائع ہونے دیں‘ پھر شوق سے جس پر چاہیں تنقید کریں اور جس پر چاہیں خط تنسیخ پھیر دیں لیکن نظرثانی کے بعد شائع کر کے جس سنسرشپ کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے‘ وہ کلیسا کی روایات کا حصہ تو ہوسکتا ہے اسلام کی روایت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ نیز آپ آزادی‘ جمہوریت اور ذرائع ابلاغ اور پارلیمنٹ میں بحث کے قدردانوں کے لیے جس طرح راے کے آزادانہ اظہار کے حق کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں دوسروں کی آرا کو ’نظرثانی‘ کے بغیر ’نقل‘ شائع اور ’جاری‘ کیے جانے کے حق کو تسلیم کرنا چاہیے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر دور کی کونسلوں کو اہلِ علم اور عوام کی نگاہ میں قدر و منزلت کے اعتبار سے ایک ہی مقام حاصل نہیں رہا۔ ’روشن خیالی‘ کے اس دور میں کونسل کی آرا کو معروضی حقائق اور اُمت کے علمی سرمایے کی روشنی ہی میں پرکھا اور جانچا جائے گا اور اس سلسلے میں توقع ہے کہ خود کونسل اپنے دستوری مقام اور علمی دیانت کی امین اور محافظ ہوگی اور حکمرانوں کے اشارۂ چشم و ابرو کے مقابلے میں قرآن وسنت سے وفاداری کا تاریخی کردار ادا کرے گی۔ یہی ہماری دعا اور توقع ہے۔