جنوری۲۰۰۷

فہرست مضامین

قومی کردار

| جنوری۲۰۰۷ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

قوموں کی یہ عجیب فطرت ہے کہ جب ان پر کوئی تباہی آتی ہے تو ہمیشہ اس کے اسباب اپنے اندر تلاش کرنے کے بجاے دوسروں کے اندر ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہیں‘ حالانکہ اس کے اسباب خود ان کے اندر موجود ہوتے ہیں‘ نہ کہ دوسروں کے اندر۔ لیکن جس طرح بعض آنکھیں بند کر کے چلنے والے کسی روڑے سے ٹھوکر کھاکر اپنے آپ کو الزام دینے کے بجاے روڑے کو گالیاں دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سارا قصور اسی روڑے کا ہے نہ کہ ان کی غفلت کا۔ اسی طرح قوموں کا بھی بالعموم یہی حال رہا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اُس ظاہر ہونے والے طاقت ور ہاتھ کو دیکھا ہے جس کا طمانچا ان کے منہ پر لگا ہے‘ اس بزدلی اور اخلاقی کمزوری کی طرف ان کی نظر کبھی نہیں گئی جس نے دراصل اس طاقت ور ہاتھ کو ان پر حملہ کرنے کی جرأت دلائی اور جس کی اپنے اندر پرورش کرنے کی ۱۶ آنے ذمہ داری خود ان پر عائد ہوتی تھی نہ کہ دوسروں پر۔

قوموں کی اس برخود غلطی کی کھلی وجہیں دو ہیں: پہلی وجہ یہ ہے کہ ان کا قومی غرور اس امر کے  اقرار سے مانع ہوتا ہے کہ ان پر جو تباہی آئی ہے وہ خود ان کی کسی مذہبی و اخلاقی کمزوری کا نتیجہ ہوسکتی ہے… دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قانون مکافات اس دنیا میں ہمیشہ قوموں کو ان کی غلطیوں کی سزا دوسروں سے دلواتا رہا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ ان کے اعمال و کردار خود مجسم ہوکر ان کے سامنے آجاتے ہوں۔ اس وجہ سے وہ اپنے اعمال و اخلاق پر غصہ ہونے کے بجاے ساری غضب ناکی ان لوگوں پر ظاہر کرتی ہیں جن کا قصور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں کی کمزوریوں سے وہ فائدہ اٹھاتے ہیں جس کے لیے ان کی قوت تقاضا کرتی ہے…

مسلمان اگر دنیا میں ایک قوم کی حیثیت سے جینا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر وہ قومی کردار پیدا کریں جو کسی قوم کی قومی ہستی کا اصلی محافظ ہوتا ہے‘ اور اگر ایک جہانی طاقت بن کر رہنا چاہتے ہیں تو اس نظامِ زندگی کو اختیار کرنے کی ہمت کریں جو اللہ و رسولؐ کا بتایا ہوا ہے۔ ان دونوں چیزوں کے بغیر نہ وہ بحیثیت ایک قوم کے زندہ رہ سکتے نہ بحیثیت ملت کے برپا ہوسکتے۔ اس کے بغیر نہ کوئی زمین ان کو پناہ دے گی‘ نہ کوئی آسمان ان کو اپنے سایے کے نیچے لے گا۔… (’رسائل و مسائل‘، مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن‘ جلد ۳۰‘ عدد ۲‘ صفر۱۳۶۶ھ‘ جنوری ۱۹۴۷ء‘ ص ۶۶-۶۹)