جنوری۲۰۰۷

فہرست مضامین

انتہا پسندی ‘ بنیاد پرستی اور دہشت گردی اسلام اور اسلامی تحریکات کو درپیش جدید چیلنج پر ایک نظر

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | جنوری۲۰۰۷ | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

انتہا پسندی‘ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کی اصطلاحات اتنی کثرت کے ساتھ مسلمانوں اور اسلام کے حوالے سے استعمال ہوتی رہی ہیں کہ آج مغرب ہو یا مشرق‘ ان اصطلاحات کو سننے والے کے تصور میں جو خاکہ اُبھرتا ہے وہ یا تو کسی فلسطینی جاں نثار سے ملتا ہوا ہوتا ہے یا کسی افغان مجاہد کی شکل جیسا۔ ان خاکوں میں خدوخال کے لحاظ سے بڑی مماثلت نظر آتی ہے۔ لباس‘ چہرہ‘ داڑھی‘ سر پر رومال‘ کلاشنکوف خود بخود اس خاکے کے ہمراہ چلے آتے ہیں اور سننے والے کے ذہن میں نہ کبھی آئرش ری پبلک میں ہونے والے ۳۰ سالہ مذہبی جنونی دور کی یاد آتی ہے نہ اسپین‘ نکاراگوا‘ سری لنکا وغیرہ کے فدائیان اور خودکش حملہ آوروں کا خیال آتا ہے بلکہ صرف اور صرف جو تصویر ذہن میںاُبھرتی ہے وہ کشمیر یا فلسطین یا عراق و افغانستان کے حریت پسند افراد کی ہوتی ہے۔

اگر غور کیا جائے تو اس مقام تک آنے میں‘ ہمارے ذہنی سفرکو تقریباً دو صدیاں لگی ہیں۔ اس بظاہرطویل عرصے میں اسلام اور مسلمانوں کی ثقافت و دین کو ایک جارحانہ‘ غیرامن پسند‘ non-pacifist‘ خون آشام اور شدت پسند دین کی حیثیت سے پیش کیا گیا اور مسلم دانش وروں کے ایک گروہ نے بالعموم اپنا دفاع کرتے ہوئے معذرت پسندانہ رویے کے ساتھ یہ بات باور کرانا چاہی کہ اسلام جیسا کہ اس اصطلاح کے مادے سے ظاہر ہوتا ہے‘ امن اور سلامتی کا علم بردار ’مذہب‘ ہے جو صرف اور صرف دفاعی مقاصد کے لیے ’جہاد‘ کو جائز قرار دیتا ہے۔ معذرت پسندانہ مکتب ِفکر نے مدافعانہ جہاد کو عموم کی شکل دے کر ردعمل کے طور پر جہاد کرنے کو اصل رُوحِ اسلام قرار دیا اور  یہ اصرار کیا کہ اسلام جارحیت اور جہاد میں پہل کرنے کا قائل نہیں ہے۔ ان حضرات کی نگاہ میں  یہ مدافعانہ جہاد بھی ماضی میں ایک خاص دور تک کے لیے ممکن تھا۔ آج کے پُرامن اور ترقی پسند دور میں جہاد کا اطلاق صرف قلب کی صفائی اور تزکیۂ نفس کے دائرے ہی میں ہوسکتا ہے وغیرہ۔

دوسری جانب ایک طرزِفکر یہ اُبھرا کہ اسلام اور غیراسلام کا مقابلہ اگر ہوسکتا ہے تو صرف  قوت و تلوار کی زبان کے ساتھ۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جارحانہ طرزِعمل کا مقابلہ اور رد‘ قوت کے استعمال سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ قوت کا استعمال وقت کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ہرحد کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ صرف محارب ہی نہیں‘ مخالف کیمپ کے ہر مشرک اور کافر کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے اور دلیل بھی کچھ اس طرح وضع کی گئی کہ اگر جاپانی خودکش حملہ آوروں نے دور جدید میں جنگ عظیم کے دوران جس طرح اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اپنے وطن کی عزت میں اضافہ کیا تھا تو آج اسلام کے دشمن پر ضرب لگانے کے لیے خودکش حملہ آوری کا راستہ اختیار کرنے میں کوئی تردد کیوں ہو؟

ان دونوں نقطہ ہاے نظر سے ہٹ کر ایک تیسری فکر بھی میدان میں اُبھری جس نے قرآن و سنت سے رشتہ جوڑتے ہوئے‘ بغیر کسی معذرت یا جارحیت کے یہ چاہا کہ براہِ راست اسلامی مصادر کی روشنی میں دین کے خدوخال کو واضح کیا جائے اور خصوصاً اسلام کے اصلاحی کردار اور اس کی جامعیت اور جدیدیت کو قرآن وسنت کے تناظر میں پیش کیا جائے۔ یہ تیسرا نقطۂ نظر ان   تحریکاتِ اصلاح کا ہے جو دور جدید میں اسلام کے معاشی‘سیاسی‘ معاشرتی اور ثقافتی کردار کو اُجاگر کرتے ہوئے تبدیلیِ نظام اور قیامِ عدل کے لیے اسلامی اصولوں پر مبنی ریاست اور معاشرے کی تعمیر کی علم بردار ہیں۔

مغرب نے پہلے نقطۂ نظر کو moderateیا متوازن قرار دیا لیکن بقیہ دونوں طرزِعمل اس کی تنقید کا ہدف بنے۔ اصلاحی تحریکات کو ان کی نمایاں دستوری اور پُرامن تحریک ہونے کے باوجود اکثر بنیاد پرست (fundamentalist) تحریکات قرار دے دیا گیا۔ اگر معروضی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اصلاحی تحریکات اپنے مقاصد‘ طریق کار اور تصور انقلاب کے لحاظ سے نہ قدامت پرست کہی جاسکتی ہیں اور نہ بنیاد پرست۔پھر مغرب نے ایسا کیوں کیا اور آج دنیا کے کسی بھی گوشے میں اگر اسلامی معیشت‘ اسلامی ثقافت‘ اسلامی ریاست‘ اسلامی ابلاغ عامہ‘ اسلامی معاشرت اور اسلامی قانون کی بات کی جاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ مغربی دانش ور‘ صحافی اور کہربائی ابلاغ عامہ کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور بلا کسی تردد کے ایسی تمام تحریکات اور ان کے قائدین کو بنیادپرست قرار دے دیا جاتا ہے۔ ان تحریکات کو انتہاپسند بلکہ شدت پسند کہنے میں بھی تکلف نہیں کیا جاتا۔ اس اہم اور بنیادی سوال پر غور کرنے سے پہلے ہمیں اِس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ جس طرح مغرب نے گذشتہ ڈھائی سو سال میں استشراق (Orientalism) کے زیرعنوان مشرق اور بالخصوص مسلم معاشروں اور مسلمانوں کے ذہن کو سمجھنے کے لیے ان کی تاریخ‘ ثقافت‘ زبانوں‘ ادب اور فنون کا مطالعہ کیا ہے۔ ہم نے اتنی ہی سنجیدگی‘ لگن اور تحقیق کے ساتھ مغرب کے ذہن کو سمجھنے کی کوشش ابھی تک نہیں کی۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے کہ تحریکاتِ اصلاح کو بنیاد پرست اور انتہاپسند کیوں کہا جاتا ہے‘ پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ خود مغرب کے ذہن میں ان اصطلاحات کا مفہوم و پس منظر کیا ہے۔

اصطلاحات کا مفھوم

بنیاد پرستی یا اساسیت کی اصطلاحات تاریخی اور فکری طور پر عیسائی فرقوں میں پائے جانے والے عقائد و رجحانات کے حوالے سے وجود میں آئیں۔ چنانچہ برطانیہ میں ۱۸۲۸ء میں ہزاروی  Millenariam تحریک چرچ آف انگلینڈ میں پھیلی اور بعض فرقوں( Evangelicals اور  Catholic Brethren) میں اس کا نفوذ و فروغ ہوا۔ ۱۸۷۰ء میں اس کے اثرات امریکا میں ظاہر ہوئے اور Pentacostalist ‘Presbyterian اور Baptistچرچ کے پیروکار معقول تعداد میں اس تحریک میں شامل ہونے شروع ہوئے۱؎ اور جلد ایسے ادارے وجود میں آئے جن کا مقصد Millenariamکے عقائد کا فروغ تھا۔ یہ حضرت عیسٰی ؑکے دوبارہ ظہورکے منتظر تھے۔ ان کا خیال تھا کہ Church age کاآغاز ہوچکا ہے جس میں حضرت عیسٰی ؑکو دوبارہ دنیا میں آنا ہے۔ بعض بنیادپرستوں نے ان کی آمد کی تاریخ بھی اندازاً مشہور کردی لیکن ان کی آمد سے قبل   حضرت سلیمان ؑ کے ہیکل کو دوبارہ تعمیرکرنا ہوگا جس کے لیے اسرائیل کی ریاست کا وجود میں آنا ضروری ہے گویا یہ بنیاد پرست عیسائی فرقے اسرائیلی ریاست کے قیام کے حامی اور علم بردار بن گئے۔ اس کا ایک اور بنیادی عقیدہ جس کی بناپر یہ بنیادپرست کہلائے‘ یہ تھا کہ ’’حق بجاے خود الفاظ میں محفوظ ہوتا ہے۔ چنانچہ الفاظ کے معنی کبھی تبدیل نہیں ہوسکتے اور الفاظ زندگی میں انقلاب برپا کرسکتے ہیں‘‘۔۲؎ اس تصور کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ بائبل کو لفظاً لفظاً (literally) اللہ کا کلام مان کر ان حضرات نے یہ راے قائم کرلی کہ بائبل کے الفاظ کی کوئی عقلی تعبیر و توضیح نہیں کی جاسکتی بلکہ الفاظ کو جیسے کہ وہ ہیں‘ ویسا ہی مانا اور پڑھا جائے۔۳؎

اس تحریک کا تیسرا بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ ہر جدید چیز مردود ہے اور عیسائی عقیدے کے منافی ہے۔ چنانچہ جدید سائنسی نظریات بالخصوص نظریۂ ارتقا کی مخالفت اس تحریک کی پہچان بن گئی۔ عیسائیت میں اس طرزفکر کے حوالے سے لائنل کیپلان ( Lionel Caplan) کا کہناہے کہ عیسائی بنیاد پرستی پروٹسٹنٹ فرقوں اور خصوصاً کرشماتی (Charismatic)عقیدہ رکھنے والوں میں بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔۴؎

مسلمانوں کے حوالے سے اصطلاح کا استعمال

اسلام کے حوالے سے ۱۹۵۷ء میں پہلی مرتبہ امریکی مجلے مڈل ایسٹ جرنل نے     یہ اصطلاح استعمال کی اور پھر آہستہ آہستہ ہر اُس گروہ کے لیے جو مروجہ نظام کی جگہ قرآن کی بنیاد پر معاشرتی اور سیاسی تبدیلی چاہتا ہو‘ اس اصطلاح کو استعمال کیا جانے لگا۔ چنانچہ معروف برطانوی مستشرق منٹگمری واٹ نے اسی عنوان کے تحت اپنی کتاب میں یہ بات کہی۔ وہ روایت پرستی جو ماضی کے تصورات میں کسی تبدیلی کے بغیر اور آج کے دور کے ترقی کے تصورات کو نظرانداز کرتے ہوئے جدیدیت اور تغیر کی جگہ روایت پر عمل کرنا چاہتی ہو تو اسے مسلم بنیاد پرستی کہا جائے گا۔۵؎  بعض   سادہ لوح مسلمان مفکرین اس اصطلاح کے فنی معنی تک پہنچے بغیر محض لغت میں اس کا مفہوم دیکھ کر جوش و جذبے کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ اسلام میں بعض تعلیمات بنیادی حیثیت رکھتی ہیں جنھیں بنیادی عقائد کہا جاتا ہے‘ اس لیے جو بھی ان بنیادوں کو مانتا ہے‘ اسے ببانگ دہل اپنے آپ کو بنیاد پرست کہنا چاہیے۔ عیسائی بنیاد پرستی کے حوالے سے جو کچھ اُوپر درج کیا گیا ہے اس کی بنا پر عیسائی بنیاد پرستی کی اصطلاح تو ان فرقوں پر چسپاں ہوتی ہے لیکن اسلام تو اندھے عقیدے کی جگہ شعوری اور عقلی طور پر حقائق کو جانچ پرکھ کر خالق کائنات اور اس کی بھیجی ہوئی ہدایت اور انبیا و رسل کو ماننے کی دعوت دیتا ہے اور کلامِ عزیز کے ہرہر صفحے پر تعقل‘ تدبر‘ تفکر‘ تفہیم‘ تذکرہ‘ تعلیم‘ تفقہ‘ تحلیل و تجزیہ کرنے‘ عقل کا استعمال کرنے اور سوچ سمجھ کر اللہ کی بندگی اختیار کرنے کا حکم دے رہا ہے تو اسلامی عقاید کو کس بنیاد پر اندھا عقیدہ اور عقل دشمن کہا جاسکتا ہے‘  جب کہ بنیاد پرستی کا مطلب ہی یہ ہے کہ عقلیت کو رد کر کے محض اندھی تقلید اختیار کرلی جائے۔

عیسائی بنیاد پرستی کا دعویٰ ہے کہ بائبل کے الفاظ٭ جیسے ہیں انھیں ویسا ہی مانا جائے گا‘ ان کی کوئی تعبیر نہیں کی جائے گی۔ مسلم مفسرین نے قرآن کریم کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے مختلف زاویوں سے قرآن کریم کی آیات پر تفکر اور تدبر کے نتیجے میں اپنی تعبیر اور تاویل کو تفاسیر کی شکل میں قلم بند کیا۔ کسی نے ادبی پہلو کو‘ کسی نے بلاغت وفصاحت کو‘ کسی نے فقہی اور قانونی زاویے کو‘ کسی نے عقیدے اور کلام کے نقطۂ نظر سے اور کسی نے دعوت وہدایت کے نقطۂ نظر سے قرآن کریم کی تفسیر لکھی۔ ابن کثیر‘ طبری‘ بیضاوی‘ قرطبی‘ زمخشری‘ رازی‘ طنطاوی‘ طباطبائی‘ مودودی‘ قطب کے نام سے تفسیر کا ہرطالب علم اسی لیے آگاہ ہے کہ ہرایک کا زاویہ دوسرے سے مختلف ہے۔ اگرچہ ہر مفسر کا نقطۂ آغاز مختلف تھا لیکن ان سب تفاسیر میں عقلی تفہیم‘ توجیہہ اور تشریح قدرمشترک نظر آتی ہے۔ سیکڑوں تفاسیر کا ۱۵ سو سال میںوجود میں آنا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کے الفاظ کی تفہیم‘ تعبیر‘ تجزیہ اور تحلیل کرنے والے اس معنی میں بنیاد پرست نہیں ہوسکتے‘ جو یورپ کے محققین نے وضع کیا ہے اسی طرح روایت اور جدیدیت میں تضاد اور تناقص ہماری تاریخ کا خاصہ ہے جس کے بغیر یورپ کی تاریخ کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

پھر مسلمانوں کو بنیاد پرست قراردینے کا مطلب کیا ہے؟ دراصل مغربی مفکرین اور ان کے زیرسایہ تربیت پانے والے مسلم دانش وروں نے جن مفروضوں پر یہ راے قائم کی‘ وہ بنیادی  طور پر چار ہیں: پہلا مفروضہ یہ ہے کہ اسلام دیگر مذاہب کی طرح عبادات‘ رسومات اور تہواروں کا ایک مذہب ہے۔ مادہ پرست تہذیب میں وہ تمام شعبے جو کبھی مذہب سے وابستہ تھے‘ آج نام نہاد سول سوسائٹی ان تمام کاموں کو انجام دے رہی ہے اِس بنا پر مادہ پرست تہذیب میں مذہب کا وجود بے معنی سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی روحانیت زدہ شخص مذہب کی ضرورت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ ذاتی حیثیت میں جو چاہے کرے لیکن اسے مذہب کو معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی‘ قانونی اور ثقافتی معاملات میں داخل کرنے کا کوئی حق نہیں۔

دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ قرآن کریم بھی بائبل کی طرح ایک ’مذہبی کتاب‘ ہے اور جس طرح بنیاد پرست عیسائیت میں بائبل کی طرف رجوع کرنے کا مطلب اس کی لفظی پیروی لیا جاتا ہے اسی طرح جو تحریکات قرآن کی طرف آنے کی دعوت دیتی ہیں‘ ان کو بھی قیاساً بنیاد پرست تحریکات سمجھ لیاگیا۔ اس مفروضے کے حوالے سے نہ صرف غیرمسلم مستشرق ایک بڑے مغالطے کا شکار ہیں بلکہ جدیدیت زدہ مسلمان بھی اُس غلط فہمی کو پھیلانے میں ان کے شریک ہیں۔ حقیقت ِواقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم اور بائبل کا مقابلہ اور موازنہ کسی پہلو سے بھی درست نہیں‘ اس لیے کہ قرآن کریم    اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ جب کہ عیسائی عقیدے کے مطابق حضرت عیسٰی ؑبذاتِ خود اللہ کا کلام اور پرتو ہیں۔ قرآن کریم کا مصنف اللہ تعالیٰ خود ہے جب کہ بائبل کو مختلف ادوار کے انسانی مصنفین نے تحریر کیا ہے۔ چنانچہ اس کی ۲۷کتب مختلف محرروں کے ناموں سے منسوب ہیں‘ جب کہ قرآن اوّل تا آخر کلامِ الٰہی ہے اور اس میں نہ ایک حرف کا اضافہ ہوا ہے اور نہ کمی۔ یہ براہِ راست اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا کلام ہے جسے حفظ اور تحریر کی شکل میں محفوظ کرلیا گیا۔ ثانیاً قرآن کی طرف آنے کی دعوت ایک دعوتِ فکر‘ دعوتِ تجزیہ اور دعوتِ تعقل ہے اوریہ قرآن کی لفظی پیروی کی جگہ قرآن کریم کے احکامات و اصول کو سمجھنے اور ہردور میں ان کی تطبیق کے راستے نکالنے کی دعوت ہے۔

تیسرا مفروضہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکات کی نظامِ اسلامی کے قیام کی دعوت یا اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ دراصل تھیاکریسی کے قیام کا مطالبہ ہے جس نے یورپ کو ایک عرصے تک دہشت زدہ رکھا۔ چنانچہ دورِ جدید میں ایسی تھیاکریسی کے قیام سے امنِ عالم کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے وہ تمام تحریکات جو اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد میں مصروف ہیں‘ ان کے نقطۂ نظر سے بنیادپرستی اور انتہا پسندی کی تحریکات ہیں۔

چوتھا مفروضہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکات روایت پرستی کی علم بردار اور جدیدیت کی دشمن ہیں اس کے برخلاف مغرب کے مفکرین جدیدیت (modernism) سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر مابعد الجدیدیت (post - modernism)کی بات کرتے رہے ہیں ‘ جب کہ مسلم نشاتِ ثانیہ کے علم بردار ہمیشہ خلافتِ راشدہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بات کرتے ہیں جو مغرب کی نگاہ میں قدامت پرستی ہے۔ لیکن ایک مشترکہ عقیدے کی حیثیت سے یورپی فکر اپنے معاشی‘ معاشرتی‘ سیاسی اور ثقافتی نظام ہی کو جدیدیت کا حقیقی مظہر سمجھتی ہے اور اس بنا پر جب تک دیگر اقوام جدیدیت یا مغربیت کو اختیار نہ کرلیں انھیں اجنبی (allien) اور تہذیبی لحاظ سے اپنے سے کم تر سمجھتی ہیں اس بات کو کسی لاگ لپیٹ کے بغیر ہن ٹنگٹن نے یوں بیان کیا ہے:

Only when Muslims explicitly accept the western model will they be in a position to technicalize and then to develop. ۶؎

گویا جب تک مغربی تہذیب کی بنیادوں کو اختیار نہیں کیا جائے گا‘ اس وقت تک مسلم دنیا میں سائنسی اور معاشی ترقی کا کوئی امکان نہیں ہوسکتا‘ اور وہ ترقی کی دوڑ میں مغرب سے پیچھے رہے گی۔

معاشی استدلال ہی کو آگے بڑھاتے ہوئے مغربی مفکرین یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ معاشی زبوں حالی اور مذہبی جنونیت کا قریبی تعلق ہے اور مسلمانوں کا معاشی احساس محرومی ہی انھیں مذہبی شدت پسندی کے ذریعے مغرب کے خلاف اپنے غصے کو نکالنے پر اُبھارتا ہے۔ سرمایہ داری نظام کے علم برداروں کے یہ تصورات کارل مارکس کے نظریہ ٹکرائو کا پرتو معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اس کی فکر کی اساس بھی اس تصور پر تھی کہ مزدور کا یہی احساس محرومی اور مذہب کا بطور ایک حربے کے مزدور کے خلاف استعمال کیا جانا معاشرتی تنائو اور ٹکراؤ کو پیدا کرتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کو کچھ اور آگے بڑھاتے ہوئے ہن ٹنگٹن نے نہ صرف اس احساسِ محرومی کے نتیجے میں پیداہونے والی شدت اور بنیاد پرستی کو بلکہ خود دین اسلام کی تعلیمات کو اس اختلاف‘ ٹکرائو اور نفرت کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے:

The underlying  problem for the west is not islamic fundamentalism. It is Islam, a different civilization whose people are convinced of the superiority of their culture and obsessed with the inferiority of their power. ۷؎

شدت پسندی اور بنیاد پرستی کا اصل سبب

مسلم دنیا ہی میں نہیں بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی انتہاپسند یا شدت پسند تحریک ردعمل کے طور پر اُبھری ہے‘ اس کے پیچھے بڑے واضح‘ تاریخی اسباب نظر آتے ہیں۔ ان میں درج ذیل سات اسباب زیادہ اہم کہے جاسکتے ہیں:

۱- سیاسی غلبہ و استبداد اور آزادی کے حق کی پامالی: مغربی لادینی سامراجی نظام ہو یا مسلم ملوکیت اور آمریت‘ جب بھی انسان کے بنیادی حقوق: جان‘ عقل‘ دین‘ نسل اورمال کو نشانہ بنایا جائے گا اور افراد کو ان حقوق سے محروم کیا جائے گا‘ فطری طور پر شدت پسندی ردعمل کی شکل میں اُبھرے گی۔ فلسطین میں امریکا اور برطانیہ کی پشت پناہی میں اسرائیل جارحیت و بربریت ہو یا کشمیر میں ہندستانی سیکورٹی فورس کی درندگی‘ جب بھی اور جہاں بھی انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جائے گا ان کی جان‘ گھربار‘ عزیز واقربا‘ معیشت و معاشرت اور ثقافت کو تباہ و برباد کیا جائے گا‘ انتہاپسندی اور شدت پسندی کا ظہور ہوگا۔ ظلم کے ردعمل میں ظاہر ہونے والی شدت پسندی کا توڑ قوت کے اندھے استعمال سے نہ تاریخ انسانی میں ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ یہ تو ممکن ہے کہ وقتی طور پر مظلوم انسانوں کو مستضعفین فی الارض بنا دیا جائے لیکن دہشت گردی کے ذریعے انھیں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی صرف دہشت گردی ہی کو جنم دے سکتی ہے‘ امن و سکون کو پیدا نہیں کرسکتی۔

۲-  غربت و افلاس اور عدل سے محرومی: انسانی تاریخ میں ایسے معاشرے تو مل جاتے ہیں جہاں فاقہ کشی ہو‘ غربت ہو لیکن معاشرے میں عدل ہو۔ ایسے معاشرے نہیں مل سکے جہاں عدل نہ ہو اور اس کے باوجود امن‘ سکون‘ برکت اور تحفظ پایا جائے۔ جب بھی کسی قوم کو عدل سے محروم کیا جائے گا اس میں شدت پسندی‘ انتہا پسندی فطری عمل کے طور پر پیدا ہوگی۔

۳- سیاسی استحصال: انتہا پسندی کے پیدا ہونے کا ایک بڑاسبب صحت مند سیاسی ماحول اور فضا کا موجود نہ ہونا ہے۔ سیاسی آزادیوں کا پامال کیا جانا‘ متاثرہ افراد کو غیرسیاسی‘ عسکری شدت پسند ذرائع کے استعمال کرنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ جابرانہ سیاسی تسلط کو ختم کرنے کے لیے انتہاپسند ذرائع کا استعمال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اکثر فوجی انقلاب اور عوامی انقلاب سیاسی استحصال کے جواب ہی میں وجود میں آتے ہیں۔

۴- معاشرتی اور معاشی غلامی: معاشرتی اور معاشی غلامی اور ناانصافی متاثرہ افراد کو قوت کے ذریعے اپنے حقوق کے حصول پر اُبھارتی ہے اور معاشرے کے مختلف طبقات میں انتہاپسند ذرائع کا استعمال عام ہوجاتا ہے۔ اس کا حل قوت کے ذریعے ان تحریکات کو روکنے سے نہیں ہوسکتا۔ جب تک ان اسباب کو دُور نہ کیا جائے۔ اندھی قوت ان مسائل کا حل نہیں کرسکتی۔

۵- ثقافتی یلغار و تھذیبی محکومیت: ہر قوم کی ایک ثقافت و تہذیب ہوتی ہے جو اس کی اقدار حیات کی امین ہوتی ہے۔ جب کسی قوم کو اس کی ثقافت و تہذیب اور اخلاقی اقدار سے محروم کرنے کے لیے اس پر بیرونی استعماری تہذیب و ثقافت مسلط کی جاتی ہے تو ردعمل کے طور پر انتہاپسندی کا ظہور ہوتا ہے۔ الجزائر میں فرانسیسی سامراجیت نے ڈیڑھ سو سال تک مقامی تہذیب و ثقافت کی جگہ اپنی اقدارِ حیات کو ان پر مسلط کیا۔ آخرکار الجزائر کی تحریک حریت نے قوت کے استعمال کے ذریعے غلامی کے قلاوے کو گردن سے اُتار پھینکا اور فرانسیسی قوت کا استعمال اس عمل کو نہ روک سکا۔ گویا ثقافتی یلغار جب بھی اور جہاں بھی ہوگی اس کا ردعمل ظاہر ہونا بالکل فطری ہے۔

۶- حریت پسند مزاحمتی تحریکات: انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی طویل عرصہ تک حریت پسند مزاحمتی تحریکات کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے‘ مزاحمت کے طول پکڑنے کے ساتھ ہی شدت پسندی اور انتہاپسندی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ فلسطین‘ کشمیر‘ افغانستان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ طویل عرصے کی جدوجہد کے باوجود جب مطلوبہ نتائج سامنے نہ آرہے ہوں تو تحریکاتِ آزادی‘ شدت پسندی کے استعمال کی طرف راغب ہوجاتی ہیں۔

۷- کچھ نہ کہونے کا احساس: بیرونی سامراجی مداخلت اور بعض اوقات خود کسی ملک میں برسرِاقتدار ٹولہ جب ظلم و بربریت کی حدیں پھلانگ جاتا ہے اور ایک خاندان کا چشم و چراغ یہ دیکھتا ہے کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے والدین کو بھائیوں اور بہنوں کو شہید کردیا گیا ہے‘ اس کا مکان نذرِ آتش کردیا گیا ہے‘ اس کے کھیت ویران کردیے گئے ہیں حتیٰ کہ اس کے مویشی بھی ہلاک کردیے گئے ہیں تو پھر اسے مزید کچھ نہ کھونے کا احساس اس بات پر مجبور کردیتا ہے کہ اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے ظالم اور سفاک ٹولے کو‘ اس کی فوج کو‘ اس کے اداروں کو تباہ کرکے اپنے سینے میں سلگتی ہوئی آگ کی تپش میں کچھ کمی کرلے۔ یہ واقعہ الجزائر میں ہو‘ عراق میں ہو‘ فلسطین میں ہو‘ سری لنکا میں ہو‘ کشمیر میں ہو یا باجوڑ میں‘ اس کی اصل ذمہ داری اُس ظلم اور سفاکی پر عائد ہوتی ہے جس نے ایک فرد کو گویا دیوار سے لگا کر کھڑا کردیا اور اس کے پاس اس آخری حربے کے سوا کوئی اور ذریعہ ٔ  انتقام باقی نہ رہا۔

یہاں یہ بات بھی وضاحت طلب ہے کہ وہ شدت پسندی جو محض توڑ پھوڑ اور لاقانونیت کے لیے ہو اور وہ قوت کا استعمال جو حقوق انسانی کے تحفظ اور اعلیٰ جمہوری اقدار کو زندہ رکھنے    کے لیے کیا جائے‘ دو مختلف النوع چیزیں ہیں۔ اس کا اعتراف اقوام متحدہ تک نے کیا ہے۔ چنانچہ ۱۹۸۷ء میں اس کی مقرر کردہ ایک کمیٹی نے اپنی سفارشات میں یہ بات درج کی کہ دہشت گردی اور حقِخود ارادیت کے لیے جدوجہد جو عموماً بیرونی سامراج یا نسل پرست حکومتوں کے خلاف کی جاتی ہے‘ دو الگ الگ چیزیں ہیں اور انھیں خلط ملط نہیں کیا جاسکتا۔ (یو این رپورٹ‘ اے/۴۲/ ۸۳۲‘  اے/۹۰۲۸/۱۹۷۳)

یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ ظلم‘ حقوق کی پامالی‘ استحصال‘ جبروبربریت کا علاج اُس سے زیادہ قوت والی بربریت سے نہیں کیا جاسکتا۔ اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ صدام حسین نے امریکا کے تعاون سے کُردوں کے خلاف زہریلی گیس کا استعمال کیا اور امریکی امداد و تعاون سے اپنے ملک کے عوام پر ظلم کا بازار گرم کیا۔ کیا اس جبر کو دُور کرنے کے لیے اس سے سو گنا زیادہ بربریت اوردہشت گردی کرنا جس کا ارتکاب جارج ڈبلیو بش نے عراق کے نہتے عوام پر جارحانہ حملے اور ناجائز قبضے کی شکل میں کیا اور جس میں ۶ لاکھ سے زیادہ نہتے عوام بچے بوڑھے اور خواتین حتیٰ کہ ہسپتالوں میں پڑے ہوئے مریض‘ یتیم خانوں میں مقیم یتیم بچے اور تعلیم گاہوں میں زیرتعلیم طلبہ کا سفاکانہ خون عراق میں امن‘ عدمِ تشدد اور رواداری پیدا کرسکتا ہے؟ تشدد اور انتہاپسندی کا علاج اندھی قوت سے نہیں‘ مسائل و معاملات کے حل‘ حقوق کی بحالی اور ناجائز قبضے کے خاتمے کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔

حقوق کی پامالی بیرونی قوت کرے یا اپنے ہی ملک کی فوج اور زرخرید سیاست ‘ جب تک عوام کو ظلم سے نجات نہیں ملے گی‘ اُن کے حقوق بحال نہیں ہوسکتے اور جب تک حقوق بحال نہ  ہوں گے انتہاپسندی اور شدت پسندی میں کمی نہیں آسکتی۔ دنیا میں ایسے بے عقل لوگ کہیں نہیں پائے جاتے کہ ان کو تمام انسانی سہولیات حاصل ہوں‘ سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی اور ثقافتی حقوق پر کوئی قدغن نہ ہو‘ ان کے کھیت ہرے بھرے ہوں‘ ان کے گھروں میں تعلیم کی روشنی ہو اور پھر بھی وہ سینے پر بم باندھ کر کسی بازار میں جاکر یا کسی فوجی تربیت گاہ میں گھس کر اپنے آپ کو ہلاک کرڈالیں۔

ان حالات میں تحریکات اسلامی کا کردار غیرمعمولی اہمیت اختیار کرجاتا ہے اور ملک و ملّت میں اتحاد‘ حقوق کی بحالی‘ سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی اور ثقافتی اقدار کے تحفظ اور ملت کے وسیع تر مفاد کے لیے عوامی شعور کی بیداری‘ مسلسل تعلیمی و تربیتی نظام کے ذریعے ایسے افراد کی تیاری جو نفس کی غلامی سے نکل کر اپنے مفادات کو صرف اور صرف اللہ کی رضا سے وابستہ کردیں جو نتائج سے بے پروا ہوکر اصولی موقف اور عظیم تر اُخروی فلاح کے لیے فوری مفادات کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک منظم اور بامقصد جدوجہد کا حصہ بن جائیں جن کی فکروعمل میں کوئی تضاد نہ ہو‘ جن کی سیرت و کردار شفاف اور اللہ کی بندگی کا مظہر ہو۔ یہ مثبت تعمیری اور اصلاحی عمل صبر‘ حکمت‘ اعتماد اور منزل کے واضح نشان کے ساتھ ہی ہوسکتا ہے۔

یہ جہادِ مسلسل قرآن و اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرسایہ ہی ہوسکتا ہے۔ اس سفر میں درپیش ہر رکاوٹ اور راہ کا ہر کانٹا مسافرانِ حق کے شوقِ آبلہ پائی میں اضافے ہی کا باعث بنتا ہے اور ظلم و جبر کی تاریک گھٹائیں کسی لمحے اس قافلے کی بصیرت و بصارت اور قلب و نگاہ کے نور کو مدھم نہیں کرتیں بلکہ تاریکی میں اضافہ اس شعلۂ اندرون کی لو میں کبھی ۱۰ گنا اور کبھی ۱۰۰ گنا اضافہ کردیتا ہے۔ قرآن نے سچ ہی تو کہا تھا کہ اگر وہ ۲۰ صابرون ہوں تو ۲۰۰ پر غالب آئیں گے۔ یہ جہاد زندگی کے ہر شعبے میں طاغوت کو للکارنے اور اچھائی کے ذریعے برائی کے خاتمے ہی سے ہوسکتا ہے۔ ہدایت بھیجنے والے کا وعدہ اور سنت ہے کہ حسنات ہی سیئات کو دُور کرتی ہیں۔

تحریکاتِ اسلامی کا ہدف کسی فوری کامیابی تک محدود نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ تحریکات    حیاتِ انسانی میں دیرپا اور مکمل تبدیلی کے لیے برپا ہوتی ہیں۔ یہ توازن و اعتدال کے ساتھ دین کے معاملے میں نہ مداہنت سے کام لیتی ہیں اور نہ قریب المیعاد نتائج کے لیے وسیع تر مقصد کو قربان کرتی ہیں۔ مسئلہ تشدد کا ہو یا بنیاد پرستی کا‘ ان کا موقف روایت پرستی کی جگہ قرآن و سنت سے براہ راست استفادہ کرتے ہوئے اس کے اصولوں کی روشنی میں ایک اجتہادی راستہ اختیار کرنے ہی کا ہوتا ہے۔ جو تحریکات اس اجتہادی عمل کو جاری رکھتی ہیں‘ ان کے لیے صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اگر ان کا اجتہاد آخرکار درست ہو تو دو اجر اور اگر کسی انسانی خامی کی بنا پر اس میں کوئی غلطی ہوگئی ہو‘ جب بھی ایک اجر ہاتھ سے نہیں جاسکتا۔


حواشی

1.  Ernest R. Sandeen, Fundamentalist Evangelical Churches, in Encyclopedia Britannica, Chicago, Chicago University Press, 1974, Macropaedia, Vol 7, p 777.

2.  Martin E. Martz & R. Scott Applelag, Fundamentalism Observed, Chicago, Chicago University Press, 1991, p 15.

3.   ibid, p 18.

4.  Lionil Caplan, Studies in Religious Fundamentalism, London, The Macmillan Press, 1987, p 1.

5.  Montgomery Watt, Islamic Fundamentalism & Modernity, London, Routledge, 1988, p 2-3.

6.  Samuel P. Huntington, The Clash of Civilizations, Penguin Books, 1997, p 74.

7.  Ibid, p 217.