[قرآن مجید نے ان موانع رکاوٹوں کا تذکرہ کیا ہے جن کی وجہ سے لوگ ایمان قبول نہیں کرتے‘ یا اگر مسلمان ہوں تو پوری طرح ایمان کی راہ پر چل نہیں پاتے۔ ان کا مطالعہ کئی حوالوں سے مفید ہے۔]
وَمِنْھُمْ مَّنْ یُّؤْمِنُ بِہٖ وَمِنْھُمْ مَّنْ لاَّ یُؤْمِنُ بِہٖ ط وَرَبُّکَ اَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِیْنَo (یونس ۱۰:۴۰) ان میں سے کچھ لوگ ایمان لائیں گے اور کچھ نہیں لائیں گے اور تیرا رب اُن مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔
ایمان نہ لانے والوں کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ ’’خدا ان مفسدوں کو خوب جانتا ہے‘‘، یعنی وہ دُنیا کا منہ تو یہ باتیں بنا کر بند کر سکتے ہیں کہ صاحب ہماری سمجھ میں بات نہیں آتی اس لیے نیک نیتی کے ساتھ ہم اسے نہیں مانتے‘ لیکن خدا جو قلب و ضمیر کے چھپے ہوئے رازوں سے واقف ہے وہ ان میں سے ایک ایک شخض کے متعلق جانتا ہے کہ کس کس طرح اس نے اپنے دل و دماغ پر قفل چڑھائے‘ اپنے آپ کو غفلتوں میں گم کیا‘ اپنے ضمیر کی آواز کو دبایا‘ اپنے قلب میں حق کی شہادت کو اُبھرنے سے روکا‘ اپنے ذہن سے قبولِ حق کی صلاحیت کو مٹایا‘ سن کر نہ سنا‘ سمجھتے ہوئے نہ سمجھنے کی کوشش کی اور حق کے مقابلے میں اپنے تعصّبات کو ‘ اپنے دنیوی مقاصد کو‘ اپنی باطل سے اُلجھی ہوئی اغراض کو اور اپنے نفس کی خواہشوں اور رغبتوں کو ترجیح دی۔ اسی بنا پر وہ ’معصوم گمراہ‘ نہیں ہیں بلکہ درحقیقت مفسد ہیں۔(تفھیم القرآن‘ ج ۲‘ سورئہ یونس‘ ص ۲۸۷)
وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُوْنَ اِلَیْکَ ط اَفَانْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ کَانُوْا لَا یَعْقِلُوْنَo وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْظُرُ اِلَیْکَط اَفَانْتَ تَھْدِی الْعُمْیَ وَلَوْ کَانُوْا لَا یُبْصِرُوْنَ o (یونس ۱۰:۴۲-۴۳) ان میں بہت سے لوگ ہیں جو تیری باتیں سنتے ہیں‘ مگر کیا تو بہروں کو سنائے گا خواہ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں؟ اِن میں بہت سے لوگ ہیں جو تجھے دیکھتے ہیں‘ مگر کیا تو اندھوں کو راہ بتائے گا خواہ انھیں کچھ نہ سوجھتا ہو؟
ایک سننا تو اس طرح کا ہوتا ہے جیسے جانور بھی آواز سن لیتے ہیں۔ دوسرا سننا وہ ہوتا ہے جس میںمعنی کی طرف توجہ ہواو ر یہ آمادگی پائی جاتی ہو کہ بات اگر معقول ہو گی تو اسے مان لیا جائے گا۔ جو لوگ کسی تعصب میں مبتلا ہوں اور جنھوں نے پہلے سے فیصلہ کر لیا ہو کہ اپنے موروثی عقیدوں اور طریقوں کے خلاف اور اپنے نفس کی رغبتوں اور دل چسپیوں کے خلاف کوئی بات‘ خواہ وہ کیسی ہی معقول ہو‘ مان کر نہ دیں گے‘ وہ سب کچھ سن کر بھی کچھ نہیں سنتے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی کچھ سن کر نہیں دیتے جو دُنیا میں جانوروں کی طرح غفلت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور چرنے چگنے کے سوا کسی چیز سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتے‘ یا نفس کی لذتوں اور خواہشوں کے پیچھے ایسے مست ہوتے ہیں کہ انھیں اس بات کی کوئی فکر ہی نہیں ہوتی کہ ہم یہ جو کچھ کر رہے ہیں یہ صحیح بھی ہے یا نہیں۔ ایسے سب لوگ کانوں کے تو بہرے نہیں ہوتے مگر دل کے بہرے ہوتے ہیں۔
یہاں بھی وہی بات فرمائی گئی ہے جو اُوپر کے فقرے میں ہے۔ سر کی آنکھیں کھلی ہونے سے کچھ فائدہ نہیں‘ ان سے تو جانور بھی آخر دیکھتا ہی ہے۔ اصل چیزوں کی آنکھوں کا کھلا ہونا ہے۔ یہ چیز اگر کسی شخص کو حاصل نہ ہو تو وہ سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھتا۔
ان دونوں آیتوں میں خطاب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلّم سے ہے مگر ملامت ان لوگوں کو کی جارہی ہے جن کی اصلاح کے آپ درپے تھے۔ او ر اس ملامت کی غرض بھی محض ملامت کرنا نہیں ہے بلکہ طنز کا تیرونشتر اس لیے چبھویا جا رہا ہے کہ ان کی سوئی ہوئی انسانیت اس کی چبھن سے کچھ بیدار ہو اور ان کی چشم و گوش سے ان کے دل تک جانے والا راستہ کھلے ‘ تاکہ معقول بات اور دردمندانہ نصیحت وہاں تک پہنچ سکے۔ یہ انداز بیان کچھ اس طرح کا ہے جیسے کوئی نیک آدمی بگڑے ہوئے لوگوں کے درمیان بلند ترین اخلاقی سیرت کے ساتھ رہتا ہو اور نہایت اخلاص و دردمندی کے ساتھ اُن کو اُس گری ہوئی حالت کا احساس دلا رہا ہو جس میں وہ پڑے ہوئے ہیں اور بڑی معقولیت و سنجیدگی کے ساتھ انھیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہو کہ ان کے طریق زندگی میں کیا خرابی ہے اور صحیح طریق زندگی کیا ہے۔ مگر کوئی نہ تو اس کی پاکیزہ زندگی سے سبق لیتا ہو نہ اس کی اِن خیرخواہا نہ نصیحتوں کی طرف توجہ کرتا ہو۔ اس حالت میں عین اُس وقت جب کہ وہ ان لوگوں کو سمجھانے میں مشغول ہو اور وہ اس کی باتوں کو سنی اَن سنی کیے جا رہے ہوں‘ اس کا کوئی دوست آکر اس سے کہے کہ میاں یہ تم کن بہروں کو سنا رہے ہو اور کن اندھوں کو راستہ دکھانا چاہتے ہو‘ ان کے تو دل کے کان بند ہیں اور ان کی ہِیّے [دل] کی آنکھیں پھوٹی ہوئی ہیں۔ یہ بات کہنے سے اُس دوست کا منشا یہ نہیں ہوگا کہ وہ مرد صالح اپنی سعی اصلاح سے باز آجائے۔ بلکہ دراصل اس کی غرض یہ ہوگی کہ شاید اس طنز اور ملامت ہی سے ان نیند کے ماتوں کو کچھ ہوش آجائے۔(ایضاًص ۲۸۷-۲۸۸)
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِہٖ رُسُلًا اِلٰی قَوْمِھِمْ فَجَآئُ وْھُمْ بِالْبَـیِّنٰتِ فَمَا کَانُوْا لِیُوْمِنُوْا بِمَا کَذَّبُوْا بِہٖ مِنْ قَبْلُ ط کَذٰلِکَ نَطْبَعُ عَلٰی قُلُوْبِ الْمُعْتَدِیْنَ o (یونس ۱۰:۷۴) پھر نوحؑ کے بعد ہم نے مختلف پیغمبروں کو اُن کی قوموں کی طرف بھیجا اور وہ اُن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے‘ مگر جس چیز کو انھوں نے پہلے جھٹلا دیا تھا اسے پھر مان کر نہ دیا۔ اس طرح ہم حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیتے ہیں۔
حد سے گزر جانے والے لوگ وہ ہیں جو ایک مرتبہ غلطی کر جانے کے بعد پھراپنی بات کی پچ اور ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی اُسی غلطی پر اڑے رہتے ہیں۔ اور جس بات کو ماننے سے ایک دفعہ انکار کر چکے ہیںاسے پھر کسی فہمایش‘ کسی تلقین اور کسی معقول سے معقول دلیل سے بھی مان کر نہیں دیتے۔ ایسے لوگوں پر آخرکار خدا کی ایسی پھٹکار پڑتی ہے کہ انھیں پھر کبھی راہِ راست پر آنے کی توفیق نہیں ملتی۔ (ایضاً‘ ص ۳۰۱)
فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّـآ اَنْزَلْنَــآ اِلَیْکَ فَسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَئُ وْنَ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکَ ج لَقَدْ جَآئَ کَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ o وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَتَکُوْنَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o (یونس ۱۰:۹۴-۹۵) اب اگر تجھے اُس ہدایت کی طرف سے کچھ بھی شک ہو جو ہم نے تجھ پر نازل کی ہے تو اُن لوگوں سے پوچھ لے جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں۔ فی الواقع یہ تیرے پاس حق ہی آیا ہے تیرے رب کی طرف سے‘ لہٰذا توشک کرنے والوں میں سے نہ ہو اور ان لوگوں میں نہ شامل ہو جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا ہے‘ ورنہ تو نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
یہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلّم سے ہے مگر دراصل بات اُن لوگوں کو سنانی مقصود ہے جو آپ کی دعوت میں شک کر رہے تھے۔ اور اہل کتاب کا حوالہ اس لیے دیا گیا ہے کہ عرب کے عوام تو آسمانی کتابوں کے علم سے بے بہرہ تھے‘ ان کے لیے یہ آواز ایک نئی آواز تھی‘ مگر اہلِ کتاب کے علما میں سے جو لوگ متدین اور منصف مزاج تھے وہ اس امر کی تصدیق کر سکتے تھے کہ جس چیز کی دعوت قرآن دے رہا ہے یہ وہی چیز ہے جس کی دعوت تمام پچھلے انبیا دیتے رہے ہیں۔ (ایضاً‘ ص۳۱۱)
اَنْ تُؤْمِنَ اِلاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَo (یونس ۱۰:۱۰۰) اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لاسکتا‘ اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے۔
یعنی جس طرح تمام نعمتیں اللہ کے اختیار میں ہیں اور کوئی شخص کسی نعمت کو بھی اللہ کے اذن کے بغیر نہ خود حاصل کر سکتا ہے نہ کسی دوسرے شخص کو بخش سکتا ہے‘ اسی طرح یہ نعمت بھی کہ کوئی شخص صاحبِ ایمان ہو اور راہِ راست کی طرف ہدایت پائے اللہ کے اذن پر منحصر ہے۔ کوئی شخص یہ اس نعمت کو اذن الٰہی کے بغیر خود پا سکتا ہے ‘ اور نہ کسی انسان کے اختیار میں یہ ہے کہ جس کو چاہے یہ نعمت عطا کر دے۔ پس نبی اگر سچّے دل سے یہ چاہے بھی کہ لوگوں کو مومن بنا دے تو نہیں بناسکتا۔ اس کے لیے اللہ کا اذن اور اس کی توفیق درکار ہے۔
یہاں صاف بتا دیا گیا کہ اللہ کا اذن اور اس کی توفیق کوئی اندھی بانٹ نہیں ہے کہ بغیر کسی حکمت اور بغیرکسی معقول ضابطے کے یوں ہی جس کو چاہا نعمت ایمان پانے کا موقع دیا اور جسے چاہا اس موقع سے محروم کر دیا۔ بلکہ اس کا ایک نہایت حکیمانہ ضابطہ ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ جو شخص حقیقت کی تلاش میں بے لاگ طریقے سے اپنی عقل کو ٹھیک ٹھیک استعمال کرتا ہے اس کے لیے تو اللہ کی طرف سے حقیقت رسی کے اسباب و ذرائع اس کی سعی و طلب کے تناسب سے مہیا کر دیے جاتے ہیں‘ اور اسی کو صحیح علم پانے اور ایمان لانے کی توفیق بخشی جاتی ہے۔ رہے وہ لوگ جو طالب حق ہی نہیں ہیں اور جو اپنی عقل کو تعصبات کے پھندوں میں پھانسے رکھتے ہیں‘ یا سرے سے تلاش حقیقت میں اُسے استعمال ہی نہیں کرتے‘ تواُن کے لیے اللہ کے خزانۂ قسمت میں جہالت اور گمراہی اور غلط بینی و غلط کاری کی نجاستوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کو انھی نجاستوں کا اہل بناتے ہیںاور یہی ان کے نصیب میں لکھی جاتی ہیں۔ (ایضاً‘ ص ۳۱۴-۳۱۵)
مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا نُوَفِّ اِلَیْھِمْ اَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَھُمْ فِیْھَا لَا یُبْخَسُوْنَ o اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلاَّ النَّارُ ز وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْھَا وَبٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o (ھود۱۱:۱۵-۱۶) جو لوگ بس اِسی دُنیا کی زندگی اور اس کی خوش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (وہاں معلوم ہوجائے گا کہ) جو کچھ انھوں نے دُنیا میں بنایا وہ سب ملیامیٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔
اس سلسلۂ کلام میں یہ بات اس مناسبت سے فرمائی گئی ہے کہ قرآن کی دعوت کو جس قسم کے لوگ اُس زمانے میں ردکر رہے تھے اور آج بھی رد کر رہے ہیں وہ زیادہ تر وہی تھے اور ہیں جن کے دل و دماغ پر دُنیا پرستی چھائی ہوئی ہے۔ خدا کے پیغام کو رد کرنے کے لیے جو دلیل بازیاں وہ کرتے ہیں وہ سب تو بعد کی چیزیں ہیں۔ پہلی چیز جو اس افکار کا اصل سبب ہے وہ ان کے نفس کا یہ فیصلہ ہے کہ دُنیا اور اس کے مادّی فائدوں سے بالاترکوئی شے قابل قدر نہیں ہے‘ اور یہ کہ ان فائدوں سے متمع ہونے کے لیے ان کو پوری آزادی حاصل رہنی چاہیے۔
یعنی جس کے پیش نظر محض دُنیا اور اس کا فائدہ ہو‘ وہ اپنی دُنیا بنانے کی جیسی کوشش یہاں کرے گا ویسا ہی اس کا پھل اسے یہاں مل جائے گا۔ لیکن جب کہ آخرت اس کے پیش نظر نہیں ہے اور اس کے لیے اس نے کوئی کوشش بھی نہیں کی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی دُنیا طلب مساعی کی بارآوری کا سلسلہ آخرت تک دراز ہو۔ وہاں پھل پانے کا امکان تو صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ دُنیا میں آدمی کی سعی اُن کاموں کے لیے ہو جو آخرت میں بھی نافع ہوں۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص چاہتا ہے کہ ایک شان دار مکان اسے رہنے کے لیے ملے اور وہ اس کے لیے اُن تدابیر کو عمل میں لاتا ہے جن سے یہاں مکان بناکرتے ہیں تو ضرور ایک عالی شان محل بن کر تیار ہو جائے گا اور اس کی کوئی اینٹ بھی محض اس بنا پر جمنے سے اِنکار نہ کرے گی کہ ایک کافر اسے جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس شخص کو اپنا یہ محل اور اس کا سارا سروسامان موت کی آخری ہچکی کے ساتھ ہی اِس دُنیا میں چھوڑدینا پڑے گا۔ (ایضاً‘ ص ۳۲۹)
وَ اِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُھُمْ ئَ اِذَا کُنَّا تُرٰبًا ئَ اِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ ج وَ اُولٰٓئِکَ الْاَغْلٰلُ فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ ج وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (الرعد۱۳:۵) اب اگر تمھیں تعجب کرنا ہے تو تعجب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ ’’جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے توکیا ہم نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں۔ یہ جہنمی ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیںگے۔
یعنی ان کا آخرت سے انکار دراصل خدا سے اور اس کی قدرت اور حکمت سے انکار ہے۔ یہ صرف اتنا ہی نہیں کہتے کہ ہمارا مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ پیدا ہونا غیرممکن ہے‘ بلکہ ان کے اسی قول میں یہ خیال بھی پوشیدہ ہے کہ معاذ اللہ وہ خدا عاجز درماندہ اور نادان و بے خرد ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے۔
گردن میں طوق پڑا ہونا قیدی ہونے کی علامت ہے۔ ان لوگوں کی گردنوں میں طوق پڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت کے‘ اپنی ہٹ دھرمی کے‘ اپنی خواہشاتِ نفس کے‘ اور اپنے آباواجداد کی اندھی تقلید کے اسیربنے ہوئے ہیں۔ یہ آزادانہ غوروفکر نہیں کرسکتے۔ اِنھیں اِن کے تعصبات نے ایسا جکڑ رکھا ہے کہ یہ آخرت کو نہیں مان سکتے اگرچہ اس کا ماننا سراسر معقول ہے‘ اور انکارِ آخرت پر جمے ہوئے ہیں اگرچہ وہ سراسر نامعقول ہے۔(ایضاً‘ ص ۴۴۶)
(انتخاب و ترتیب: امجد عباسی)