جنوری۲۰۰۷

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| جنوری۲۰۰۷ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

محمد اسلم سلیمی‘لاہور

ترجمان القرآن کے اشارات بہت تحقیقی اور حالاتِ حاضرہ کے صحیح اور بے لاگ تجزیے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے دل سوزی کے ساتھ حکومت کے اقدامات پر تعمیری تنقید کی جاتی ہے اور قارئین کو رہنمائی کا مفید مواد مل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزاے خیر عطا فرمائے اور زورِ قلم میں اضافہ فرمائے!آمین۔

’حدود اللہ کے خلاف اعلانِ جنگ‘ (دسمبر ۲۰۰۶ء) بہت خوب ہے۔ اس میں جنرل پرویز مشرف کے سیکولر ایجنڈے اور امریکی صدربش کے نام نہاد اصلاحِ اسلام کے کروسیڈ میں آلۂ کار بننے سے لے کر حدود قوانین کے نفاذ کی تاریخ‘ ان پر اعتراضات کی حقیقت‘ خواتین پر مظالم کے جھوٹے پروپیگنڈے کی حقیقت‘ بھارت اور پاکستان میں زنا کے اعدادوشمار‘ برطانیہ میں جرائم کے سروے کے اعدادوشمار‘ پروفیسر چارلس کینیڈی کی تحقیق پر مشتمل ان کی کتاب کے حوالہ جات اور نسواں بل میں حال ہی میں کی گئی قرآن و سنت کے صریحاً خلاف ترمیمات کا    بے لاگ جائزہ چشم کشا ہے‘ اور اس شرم ناک قانون کی منظوری کے خلاف احتجاج اور اس اقدام کو روکنے کے لیے مؤثر جدوجہد کرنے کے سلسلے میں مفید رہنمائی ملتی ہے۔

۷۹-۱۹۷۸ء کی نظریاتی کونسل کے اراکین کے ناموں میں قمرالدین سیالوی‘ فخرالدین شائع ہوگیا ہے‘ تصحیح کرلیں۔

اے ڈی جمیل‘ جھنگ

’جب مہلت ختم ہوجاتی ہے!‘ (دسمبر ۲۰۰۶ء) جہاں جابروں اور سرکشوں کے لیے تنبیہہ ہے کہ خدا کو غافل نہ سمجھو‘ بس ظالم اپنا پیمانہ خوب بھرلیں‘ وہاں ان بزدلوں کے لیے بھی کسی تازیانے سے کم نہیں جو ظلم و تعدّی کے خلاف اقدام سے گریز کرتے ہیں۔ درحقیقت ظلم کے خلاف خاموشی ظالم کی مدد کے مترادف ہے۔ اسلوبِ تحریر بھی بہت مؤثر ہے۔

محمد طاہر سلیم‘ اسلام آباد

’مساجد میں خواتین کی شرکت‘ (دسمبر ۲۰۰۶ء) پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ مساجد میں خواتین کی شرکت اس لیے بھی مفید ہے کہ دین کے مسائل سیکھنے کا ذریعہ مساجد ہی ہیں اور اگر ہم خواتین کو مساجد سے دُور رکھیں گے تو وہ دینی مسائل سے بے بہرہ رہیں گی اور اولاد کی صحیح تربیت بھی نہ کرسکیں گی۔ رہا فتنے کا مسئلہ‘ تو دورحاضر میں تقریباً سب ہی عورتیں اپنے گھریلو ضروریات کے لیے بازاروں میں جاتی ہیں۔ اگر وہاں وہ فتنے سے بچ سکتی ہیں تو مساجد میں کیوں نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علماے کرام کو اجتہادی صلاحیتیں عطا فرمائے۔ آمین!

سید مصلح الدین احمد‘ کراچی

اخبارات کے مطابق پاکستان میں روزانہ کم از کم پانچ زنا بالجبر (rape) کے واقعات ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض توبین الاقوامی شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ ان میں کمسن لڑکیاں بھی شامل ہیں لیکن کسی کو سزا نہیں دی جاتی۔ کوڑے لگانا‘ حد جاری کرنا تو دُور کی بات ہے۔ اب تحفظ حقوق نسواں بل کے ذریعے اسے مزید مشکل بنا دیا گیا ہے۔ اس پس منظر میں ممبئی ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ چشم کشا اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔

ایک برہمن نوجوان بیوہ کو ایک جنکشن پر دوسری ٹرین کے انتظار میں پلیٹ فارم پر رات کے چند گھنٹے گزارنے تھے۔ ڈیوٹی پر موجود کانسٹیبل اس کو ورغلا کر اپنے کوارٹر میں لے گیا‘ اور وہاں چار آدمیوں :کانسٹیبل‘ پوائنٹس مین‘ اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر اور ٹکٹ کلکٹر نے رات بھر اپنا منہ کالا کیا۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس مقدمہ دائر کروایا گیا۔ مجسٹریٹ صاحب نے بہ لحاظ روداد مقدمہ ‘اس کانسٹیبل کو حبس بے جا کی علت میں چھے ماہ کی قید کی سزا سنائی اور باقی تین کو بری کردیا۔ گورنمنٹ نے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جس پر ممبئی ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے فیصلہ سنایا: ’’روداد مقدمہ ظاہر کرتی ہے کہ ان چاروں نے جن کا فرض تھا کہ بیوہ کو ظلم سے بچاتے‘ اس پردرندگی اور ظلم ڈھایا۔ لہٰذا ہر ایک کو نو‘ نو سال قیدبامشقت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر ایک کو احاطۂ عدالت میں ۲۰‘ ۲۰ کوڑے مارے جائیں‘‘۔ ججوں نے فیصلے میں یہ ریمارکس بھی دیے: ’’قانون میں نہایت زبردست لزوم صواب دید اور ضمیر کا ہوتا ہے نہ کہ قانون کی پرستش کا‘‘۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب کی تنزلی کرکے ان کو عدالتی کام سے فارغ کردیا گیا۔ (ہفت روزہ صدق جدید‘ ۸ جنوری ۱۹۶۰ء)

دانش یار ‘ لاہور

گذشتہ دنوں برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی پاکستان آمد کے موقع پر فیصل مسجد میں ملکی تاریخ میں   پہلی بار ایسا ہوا کہ اسپیکر پر اذان ہی نہ دی گئی۔ روشن خیالی کے اس دور میں ہمیں یہ بھی دیکھنا تھا۔

دوسری طرف تاریخ کا ایک حوالہ یہ بھی ہے اورغوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ ملکہ الزبتھ دوم ۱۹۶۱ء میں پاکستان کے دورے میں متحدہ پاکستان ڈھاکہ بھی گئیں۔ رمنا میدان میں بلدیہ کے استقبالیے سے ان کے  خطاب کا جب حتمی پروگرام طے پایا تو اس میں نماز مغرب کا وقفہ نہ رکھا جاسکا۔ لیکن کمشنر ڈھاکہ نے رمنا میدان میں وضو اور نماز کا انتظام کیا اور جب خواجہ خیرالدین نائب صدر بلدیہ ڈھاکہ کی تقریر کا بنگالی سے انگریزی میں ترجمہ ہو رہا تھا اور مغرب کا وقت آگیا‘ توملکہ کے ملٹری سیکرٹری کو نماز کا بتاکر کہا کہ ۱۵منٹ کے وقفے کے بعد   ملکہ جوابی تقریر فرمائیں۔ چنانچہ ملکہ نماز کے دوران اسٹیج پر خاموشی سے بیٹھی رہیں اور سب حاضرین نماز کے لیے چلے گئے۔ (نقوشِ حیات‘ منصورکاظم‘ سابق چیف سیکرٹری آزادکشمیر)