جنوری۲۰۰۷

فہرست مضامین

جموں و کشمیر سے دست برداری تحریک پاکستان اور روح قائد سے غداری

پروفیسر خورشید احمد | جنوری۲۰۰۷ | اشارات

Responsive image Responsive image

پاکستان اور اس کے اسٹرے ٹیجک اثاثوں پر جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں  روشن خیالی‘ لبرلزم‘ لچک‘ ضرورت حتیٰ کہ ’جرأت‘ کے نام پر بجلیاں گر رہی ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا قیمتی اثاثہ‘ مفاد اور اصول اس فائرنگ کی زد (’in the line of fire‘) میں آکر مجروح ہو رہا ہے  یا جان ہی سے ہاتھ دھو رہا ہے۔ لیکن اب جیسے جیسے ۲۰۰۷ء کا انتخابی معرکہ قریب آرہا ہے اور   ملک ایک فیصلہ کن لمحے کی طرف بڑھ رہا ہے‘ جنرل صاحب کی جراحت کاریاں بھی تیز تر ہوتی جارہی ہیں۔ گذشتہ چند ہفتوں میں تین اہم ترین محاذوں پر انھوں نے جو حملے کیے ہیں‘ ان سے سیاسی نقشۂ جنگ بالکل کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اب قوم اس تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے جہاں پاکستان کے نظریاتی‘ سیاسی اور جغرافیائی وجود کے تحفظ اور اصل منزل کی طرف پیش رفت یا خدانخواستہ تحریکِ پاکستان اور اس کے ذریعے حاصل کردہ سرمایۂ حیات سے محرومی اور محکومی کے نئے دور کے آغاز میں سے ایک ہمارا مقدر ہوگا:

                ۱-  نظریاتی اعتبار سے دو قومی نظریہ‘ پاکستان کی اسلامی شناخت‘ شریعت کی بالادستی اور حدود اللہ کی پاس داری‘ اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت و فروغ اور تعلیم میں اسلامی اقدار اور اہداف کا واضح کردار سب سے اہم اور مرکزی ایشو بن گیا ہے۔ ان پر روشن خیالی اور لبرلزم کے نام پر کھل کر حملہ کیا جا رہا ہے۔

                ۲-  اب جملہ داخلی و خارجی امور کا فیصلہ دستورکے تحت ادارے اور عوام کے منتخب نمایندے نہیں کر رہے‘ بلکہ یونٹی آف کمانڈ کے نام پر ایک فردِواحد تمام اصولی‘ تاریخی اور قومی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اورجواب دہی سے بالا ہوکر اپنے ذوق‘ خواہشات اور مخصوص مفادات کی روشنی میں کر رہا ہے اور کرنے کے استحقاق کا دعویٰ بھی کر رہا ہے۔ یہ پورے سیاسی نظام اور ملت اسلامیہ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر خط تنسیخ پھیرنے کے مترادف اور قوم کی آزادی اور عزت دونوں پر شدید ترین حملہ ہے۔

                ۳-  نظریاتی اور سیاسی انقلابِ معکوس (counter-revolution) کے ساتھ تیسرا خطرہ اب پاکستان کے جغرافیائی وجود کو لاحق ہے۔ اس کے بڑے بڑے مظاہر یہ ہیں: (۱)مرکز اور صوبوں میں بُعد‘ جو اب تصادم کی حدوں کو چھو رہا ہے (۲) بلوچستان میں  فوج کشی (۳)سندھ میں ایک لسانی مافیا کی سرپرستی (اسے کھلی چھوٹ جو لاقانونیت اور   بھتہ خوری سے بڑھ کر اب پھر مہاجر‘ پختون‘ پنجابی ٹکرائو اور خون خرابے کی طرف بڑھ   رہا ہے) (۴) شمالی اور جنوبی وزیرستان اور باجوڑ میں قوت کا بے محابا استعمال (۵) ایجنسیوں کے ذریعے ملک کے مختلف حصوں میں مذہبی‘ لسانی اور علاقائی عصبیتوں کا فروغ اور اسے تصادم اور خون ریزی تک لے جانے کی مساعی‘ اور اب (۶) ریاست جموں و کشمیر کے سلسلے میں جنرل صاحب‘ ان کے وزیرخارجہ اور وزارتِ خارجہ کی سرکاری ترجمانی کے ذریعے دست برداری کے اعلان کی شکل میں وہ ضرب کاری جس کے نتیجے میں خدانخواستہ برعظیم کا نقشہ ہی بدل سکتا ہے۔

بھارتی ٹی وی نیٹ ورک کو جنرل صاحب کا ۵ دسمبر۲۰۰۶ء کا انٹرویو دراصل اس پورے عمل کا ایک اہم حصہ ہے۔ اگر قوم اب بھی اس خطرناک اور تباہ کن کھیل کا راستہ نہیں روکتی تو ہمیں خطرہ ہے کہ معاملات اس کے ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔

اس انٹرویو میں بہت کچھ کہا گیا ہے مگر دو چیزیں زیادہ اہم ہیں:

اوّل: جنرل صاحب کے سارے کھیل کا انحصار ’یونٹی آف کمانڈ‘ پر ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی خاطر وہ فوج کی سربراہی چھوڑنے کو تیار نہیں۔ انھوں نے صاف کہا ہے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں اس کے لیے تین قوتوں کی تائید حاصل ہے اور اس لیے حاصل ہے کہ وہ خود ان کی سربراہی کررہے ہیں‘ یعنی فوج‘ اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی۔

بات بہت صاف ہے۔ عوام‘ عوامی نمایندوں اور منتخب اداروں‘ پارلیمنٹ حتیٰ کہ کابینہ تک کا اس میں کوئی ذکر نہیں اور ذکر کی ضرورت بھی نہیں کہ وہ کسی شمار قطار میں نہیں۔ یہ سیدھے سیدھے قوت کا کھیل ہے اور اس طرح ایک نوعیت کا نوآبادیاتی (colonial) نظام ہے اور اس کی بقا اور استحکام جنرل صاحب کا مقصد اور ہدف ہے۔

دوم: کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے اصولی‘ تاریخی اور خود پاکستان کی بقا و ترقی کے لیے ناگزیر موقف سے مکمل طور پر انحراف‘ جسے یو ٹرن اور سمت کی تبدیلی (paradigm shift) کے علاوہ کسی دوسرے لفظ سے تعبیر نہیں کیاجاسکتا۔ یہ بھارت کے موقف کو کھل کر قبول کرنے کے مترادف ہے۔ اب صاف لفظوں میں یہ تک کہہ دیا گیا ہے کہ بھارت سے کشمیر کی آزادی ہمارا مقصد نہیں۔ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ اصل ایشو نہیں۔ کشمیر بنے گا پاکستان‘ کشمیریوں کا نعرہ تھا‘ پاکستان کا ہدف نہیں۔ جموں وکشمیر پر پاکستان کا کوئی حق نہیں۔ گویا ۵۹سال تک جو کچھ پاکستان کرتا رہا وہ جھک مارنے سے زیادہ نہیں تھا۔ جو قربانیاں جموں و کشمیر اورپاکستان کے مسلمانوں نے آج تک دیں اور جن میں ۶لاکھ افراد کی شہادت‘ ہزاروں خواتین کی عصمت دری‘ اربوں کی املاک کا اتلاف‘ ہزاروں نوجوانوں کی گرفتاریاں‘ تعذیب اور مستقل معذوری‘ اور بھارت سے پاکستان کی چار جنگیں اور اس پس منظر میں فوج پر کھربوں روپے کا صرف___ سب ایک ڈھونگ‘ ایک سیاسی کھیل‘ ایک خسارے کا سودا تھا۔

اب فردِواحد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے قبضے کو سندِجواز عطا کردے‘ استصوابِ راے اور حقِخود ارادیت سے دست بردار ہوجائے‘اقوام متحدہ کی قراردادوں کو دفن کردے اور وہاں سے مسئلے کو واپس لینے تک کا اعلان کردے‘ آزادی اور تحریکِ آزادی سے برأت کا اظہار کر دے اور جو نظام جواہرلعل نہرو نے ۱۹۵۱ء میں دے کر ۱۹۵۳ء میں درہم برہم کردیا تھا اور جس خودمختاری کی خیرات دینے کا اعلان نرسمہارائو نے ۱۹۹۵ء اور ۱۹۹۶ء میں بار بار کیا تھا‘ اس سے بھی کم پر کشمیریوں کا سودا کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا جائے۔   اس سے بھی بڑھ کر خود آزاد کشمیر پر بھی مشترک کنٹرول (joint control )اور مشترک انتظام (joint management) کی باتیں کی جائیں۔ سید علی شاہ گیلانی اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کے تمام ہی مخلص اور بھارت شناس قائدین نے اسے تحریک پاکستان‘ جموں و کشمیر کے مسلمانوں اور    پاکستانی قوم سے غداری قرار دیا ہے‘ اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بھارت کی قیادت اور     جنرل پرویز مشرف کے اس کھیل کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

بات بہت صاف ہے۔ جموں و کشمیر کی ریاست کی قسمت کا فیصلہ وہاں کے عوام کو تقسیم ہند کی اسکیم کے ایک عمل کے طور پر کرنا ہے۔ کشمیر کا قضیہ (dispute) زمین کی تقسیم یا سرحدات کی حدود میں تبدیلی کا مسئلہ نہیں۔ یہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حق خودارادیت کا مسئلہ ہے جس پر ماہ و سال کے گزرنے سے فرق نہیں پڑتا۔ آزادی اور حقوق کی جنگ امروز و فردا کی حدود کی پابند نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے عوام دو صدیوں سے زیادہ عرصے سے یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ برطانیہ‘ سکھ‘ ڈوگرہ‘ بھارتی حکمران‘ ان سب کے خلاف یہ جنگ لڑرہے ہیں اور ہم اس جنگ میں ان کے حلیف اور شریک ہیں۔ اس لیے کہ وہ دینی‘ تہذیبی‘ معاشی‘ سیاسی‘ جغرافیائی ہر اعتبار سے ہمارا حصہ ہیں۔ پاکستان کی جدوجہد میں جموں و کشمیر کے مسلمان برابر کے شریک تھے اور ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کے اجتماع میں انھوں نے قائم ہونے والے پاکستان کے حصے کے طور پر شرکت کی تھی‘ اور ۱۹جولائی ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے قیام سے قبل انھوں نے اور ان کے منتخب نمایندوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا تھا‘ اور اس اعلان کے تحت انھوں نے لڑکر جموں و کشمیر کا ایک حصہ عملاً آزاد کروایا جو آج آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات کی شکل میں پاکستان سے متعلق ہے جسے ہم آزاد کشمیر کی حکومت کہتے ہیں۔ یہ محض ان علاقوں کی حکومت نہیں جو بھارت کے چنگل سے ۴۹-۱۹۴۷ء میں آزاد کرا لیے گئے تھے‘ بلکہ دراصل پورے جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے جس کے تصور سے اب جنرل صاحب اور ان کے حواری توبہ کر رہے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کبھی نہیں کہا۔ یہ کہ اٹوٹ انگ ایک بھارتی واہمہ ہے اور ہم نے بھارت کے قبضے کو ہرسطح پر چیلنج کیا ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس بنیاد پر؟ کیا یہ بنیاد اس کے سوا کوئی اور تھی کہ ہندستان کی تقسیم کے فارمولے کے مطابق مسلم اکثریتی خطہ ہونے کی بنا پر جموں و کشمیر پاکستان کا حق ہے۔ پاکستان کے الفاظ تک میں ’ک‘ کا تعلق کشمیر سے ہے‘ قرارداد پاکستان میں کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ الحاق پاکستان کی قرارداد سے پاکستان اور کشمیر ایک جسم بن چکے ہیںاور قائداعظمؒ نے اسی بنیاد پر اسے پاکستان کی شہ رگ کہا۔ اسی بنیاد پر جہادِ آزادی کا آغاز ڈوگرہ راج کے خلاف ہوا جو آج تک جاری ہے۔ جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے کبھی اپنے کو پاکستان سے  جدا تصور نہیں کیا۔

ان کی گھڑیاں پاکستان کی گھڑیوں کے مطابق وقت بتاتی ہیں‘ پاکستان کی ہرخوشی پر وہ خوش‘ ہر کامیابی پر وہ نازاں اور ہرمشکل پر وہ دل گرفتہ ہیں۔ انھوں نے بھارت کے تسلط کو کبھی قبول نہیں کیا اور بڑی سے بڑی قربانی دے کر اس کے استبداد کا مقابلہ کیا۔ ۱۴ اگست کو وہ یومِ آزادی مناتے ہیں اور ۱۵ اگست کو یومِ سیاہ۔ بلاشبہہ تکمیل پاکستان کی اس جدوجہد کے لیے ہم نے بین الاقوامی قانون کی پاس داری کرتے ہوئے استصواب راے کے قانونی عمل کی بات کی‘ اور جو بھی حق پسند ہوگا وہ اس کا اعتراف کرے گا جیساکہ امریکا کی قیادت کی وقتی مفادات پر مبنی قلابازیوں کے باوجود امریکا کی سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ میڈیلین آل برائٹ نے ۱۳ دسمبر ۲۰۰۳ء کو خود دہلی کی سرزمین پر برملا کہا تھا کہ: ’’کشمیری عوام کی خواہشات معلوم کرنے کا واحد راستہ استصواب راے عامہ ہے‘‘۔

ستم یہ ہے کہ آج وہ جرنیل جن کا فرض منصبی ہی یہ ہے کہ ایک ایک انچ زمین کی حفاظت کے لیے جان دے دیں‘ جموں و کشمیر کی جنت نشان زمین ہی نہیں‘ ایک کروڑ انسانوں کی مقبوضہ ریاست کو تحفتاً بھارت کی غاصب قیادت کو پیش کرنے اور اُمت مسلمہ کے ایک حصے کا سودا کرنے کو تیار ہیں۔

بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کیوں نہ خوش ہو۔ سابق وزیراعظم گجرال کس مسرت سے کشمیر پر جنرل صاحب اور وزارتِ خارجہ کی ترجمان کے بیان کو سنگِ میل قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ: ’’کشمیر پر پاکستان کا دعویٰ ختم ہونے کے بعد مسئلے کا حل جلد نکل آئے گا‘‘۔

یہ مسئلے کا حل نہیں‘ یہ پاکستان کی شہ رگ کو ہمیشہ کے لیے دشمنوں کے پنجے میں دینے اور ایک کروڑ انسانوں کو غلامی کی جہنم میں دھکیل دینے کی جسارت ہے۔ یہ آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات کو بھارت کی افواج اور سیاسی دراندازیوں کے لیے کھولنے کی غداری ہے۔ یہ پاکستان کے تصور‘ اور قائداعظم اور تحریکِ پاکستان کے نقشۂ پاکستان کو درہم برہم کرنے کی سازش ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ کامیاب ہوتی ہے تو ہمیں ڈر ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کا نظریاتی ہی نہیں‘ جغرافیائی وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔

یہ خطرات اب صرف نظری امکان کی حد سے بڑھ کر حقیقی تبدیلی کے دروازے تک پہنچ چکے ہیں اور جس طرح برعظیم کے مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت میں وقت کے حقیقی خطرات کا صحیح ادراک کرکے ۱۹۴۰ء میں برطانیہ اور کانگرس کے گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرنے کے لیے قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا آغاز کیا اسی طرح آج امریکا اور بھارت کے عزائم اور ان کا آلہ کار بننے والے طبقات اور قیادتوں کے مقابلے کا عزم اور پروگرام وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

آج ملت پاکستان کی جدوجہد کا ہدف تحفظِ پاکستان اور تحفظِ کشمیر ہے۔ کشمیر اور پاکستان کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ جن کی نظر تاریخ کے حقائق پر ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ کشمیر سے پسپائی دراصل پاکستان کے انتشار اور بربادی کا راستہ اور برعظیم کے نقشے کوایک بار پھر تبدیل کرنے اور اکھنڈ بھارت کے خواب میں رنگ بھرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ ملتِ اسلامیۂ پاکستان نے پہلے بھی اپنے نظریاتی‘ تہذیبی اور جغرافیائی تحفظ کی جنگ ساری بے سروسامانی کے باوجود لڑی ہے اور    ان شاء اللہ اب بھی لڑے گی۔ وسائل کے اعتبار سے آج ہم ۱۹۴۰ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ ضرورت بیرونی سہاروں پر بھروسا کرنے کے بجاے اللہ کے بھروسے پر حق و انصاف کے موقف پر ڈٹ جانے اور ہر قربانی کے لیے آمادہ ہونے کی ہے۔

وہ قیادت جو قومی مقاصد کو ترک کرچکی ہے‘ اب قوم پر ایک بوجھ (liability) ہے اور  اس سے بھی بڑھ کر ملک کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ (security risk)۔ ایسی قیادت سے نجات اور ایک ایسی متبادل قیادت کو زمامِ کار سونپنا وقت کی اہم ضرورت ہے جو ذاتی‘ گروہی اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی اسیر نہ ہو‘ بلکہ ان پر ضرب لگانے کا داعیہ اور صلاحیت رکھتی ہو‘ جس سے دین اور قوم کے مفاد پر کسی سمجھوتے اور پسپائی کا خطرہ نہ ہو‘ جو خدا کی رضا اور ملتِ اسلامیۂ پاکستان کے حقوق اور مفادات کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کا عزم رکھتی ہو‘ جو اپنی تاریخ اور  دنیا کی سامراجی قوتوں‘ خصوصیت سے امریکا٭ اور بھارت کے عزائم کاشعور رکھتی ہو اور جو قوم کو قربانیوں اور جدوجہد کے راستے پر متحرک کرنے اور اس راہ میں اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھ کر ان کی قیادت کرنے کی مثال قائم کرسکتی ہو۔

آج پاکستانی قوم کے سامنے اصل سوال صرف ایک ہے___ کیا اب یہ قوم بیرونی ایجنڈے اور مفاد کی خاطر اصولوں کی قربانی دینے والی قیادت سے نجات کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کے لیے تیار ہے؟ اگر ہمیں اپنا دین‘ اپنی آزادی‘ ملتِ اسلامیۂ پاکستان کی قربانیاں‘ اور پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ عزیز ہے تو جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی سازش کا بھرپور مقابلہ کریں۔ پاکستان اور نظریۂ پاکستان کی جنگ آج کشمیر کے   محاذ پر لڑی جارہی ہے اور وہاں پسپائی کے معنی دراصل مظفرآباد‘ اسلام آباد‘ پشاور‘ کوئٹہ اور کراچی کو نشانے پر (’in the line of fire‘) لانے کے سواکچھ نہیں   ع

تیرے نشتر کی زد شریانِ قیسِ ناتواں تک ہے