جنوری۲۰۰۷

فہرست مضامین

محاسبہ اور تربیت نفس

ارشاد الرحمن | جنوری۲۰۰۷ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

امکانات سے بھری اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ انسانوں میں کوئی انسان ایسا ہو جس کے اندر کوئی عیب اور نقص نہ ہو‘ وہ کبھی غلطی اور خطا کا ارتکاب نہ کرتا ہو‘ اس سے کبھی گناہ نہ ہوتا ہو۔ خامیوں کوتاہیوں‘ غلطیوں اور خطائوں کے وقوع کو روک دینا انسان کے بس میں نہیں البتہ ان کے وقوع کے امکانات کو کم سے کم کرنا ممکن ہے۔ خطائوں اور برائیوں کے سلسلے کی تاریخ جس قدر مختصر ہوتی ہے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہوتا ہے اور یہ تاریخ جس قدر طویل ہو چھٹکارا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔

خطائوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلی چیز انسان کا احساس ہے۔ پھر اس کا ارادہ و عزم اور جوش و جذبہ اس احساس کو عملی قالب میں ڈھالتے ہیں تو انسان کی زندگی گناہوں سے دور اور نیکیوں سے قریب تر ہوتی جاتی ہے۔

احساس سے مراد انفرادی احساس ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنے آپ کو پڑھنے کی کوشش کرے‘ اپنے نفس کی خرابیوں کو پہچانے اور ان کو دور کرنے کا محکم ارادہ کرے۔ تحریک اسلامی کے ایک کارکن کے لیے اس عمل کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ وہ جب داعی الی اللہ کی حیثیت سے اصلاحِ عوام کے لیے نکلتا ہے تو اس کا اپنا دامن ان گناہوں سے پاک ہونا چاہیے جن گناہوں کی آلودگی سے وہ لوگوں کا تزکیہ کرنے کے لیے اٹھا ہے۔ اسے مضبوط عزم اور ٹھوس کردار کا مالک ہونا چاہیے۔ اسے اپنے ایمان‘ علم‘ اخلاق اور کردار کے لحاظ سے ممتاز اور منفرد ہونا چاہیے۔

اس وقت حالات کی دگرگونی کا عالم یہ ہے کہ ہر سمجھ دار اور حسّاس فرد امت اسلامیہ کی دینی و اقتصادی اور سیاسی و اجتماعی زندگی کی بدحالی کا ذکر افسوسناک انداز میں کرتا ہے۔ یقینا یہ احساس ایک اچھے مستقبل کی تمہید ہے۔ حالات کی بہتری کے لیے اسی طرح کا احساس درکار ہوتا ہے‘ لیکن مشکل یہ ہے کہ بہتری کا یہ عمل کیسے ممکن ہو۔ کوئی پر امن راستہ کون سا ہے جس پر چل کر اصلاحِ امت کی اس منزل تک پہنچا جا سکے؟ اگر صرف ایک جملے میں اس کا جواب دیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ’’فرد اپنی اصلاح کر لے تو امت کی بگڑی سنور سکتی ہے‘‘۔ مگر یہ کس طرح ہو؟

محاسبۂ نفس: ضرورت و اھمیت

اصلاحِ نفس کے انداز و طریقے اور اسباب و ذرائع بے شمار ہیں۔ ہم صرف اس ایک ذریعے کی طرف توجہ دلاتے ہیں جس کو اختیار کر لیا جائے تو انسان تزکیہ و تربیت کے دیگر بہت سے ذرائع کی کمی کو از خود پورا کر سکتا ہے۔ یہ ذریعہ’محاسبۂ نفس‘ کا عمل ہے۔

اسلام کا پورا نظام دراصل فرد کی اصلاح کا ضابطہ پیش کرتا ہے۔ شریعت کے احکام کے علاوہ عقل و دانش کا تقاضا بھی ہے کہ مسلمان اپنی تربیتِ نفس کی طرف خصوصی توجہ دے۔ لہٰذا فرد کو یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس نے کیا بھلائی کی اور کون سی برائی کا مرتکب ہوا ہے۔ وہ اپنے انفرادی اور اجتماعی فرائض کہاں تک ادا کر رہا ہے۔ اس جائزے کا مقصد اپنی آیندہ زندگی کو نکھارنے اور سنوارنے کی جدوجہد کو مزید تیز کرنا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے محاسبۂ نفس کا تصور یوں دیا ہے:

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ج (الحشر ۵۹:۱۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو‘ اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے   کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔

امام ابن کثیر کہتے ہیں: ’’اس کا مفہوم یہ ہے کہ اپنا محاسبہ کیے جانے سے پہلے پہلے خود ہی  اپنا محاسبہ کر لو اور دیکھو کہ تم نے قیامت کے روز اپنے رب کے سامنے پیش کرنے کے لیے      کیا اعمالِ صالحہ جمع کیے ہیں‘ اور یہ بھی جان لو کہ اللہ تمھارے تمام احوال و اعمال کو خوب جانتا ہے۔ اس سے تمھاری کوئی شے مخفی نہیں‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر‘ج۴‘ص ۳۶۵)

حدیث رسولؐ سے بھی اس ضمن میں رہنمائی ملتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اَلْقَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَ عَمِلَ لِمَا بَعْدَ المَوْتِ‘ وَالعَاجِزُ مَنْ أَتْبَع نَفْسَہُ ھَوَاھَا وَ تَمَنّٰی عَلَی اللّٰہِ الأَمَانِیَّ (ترمذی:۶۴۵۹) سمجھ دار وہ ہے جس نے اپنے نفس کو مطیع کر لیا اور بعد الموت کے لیے عمل کیا۔ اور بے بس وہ ہے جس نے اپنے نفس کو اس کی خواہشات کے پیچھے لگا دیا اور اللہ سے آرزوئیں کرتا رہا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کامشہور قول ہے:’’اپنا محاسبہ کیے جانے سے پہلے خود اپنا محاسبہ کر لو‘ اور اپنا وزن کیے جانے سے قبل خود اپنا وزن کر لو۔ یہ تمھارے لیے آسان ہے کہ کل کے حساب سے پہلے آج اپنا محاسبہ کر لو۔ اور بہت بڑی پیشی کے لیے تیار ہو جائو‘ جس روز تم کو پیش کیا جائے گا تو تمھاری کوئی چیز مخفی نہیں ہو گی‘‘۔ (امام احمد‘ کتاب الزھد‘ ص ۱۷۷)

حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں:’’آدمی اس وقت تک بھلائی پر رہتا ہے جب تک اس کو وعظ و نصیحت کرنے والا اس کا اپنا نفس ہوتا ہے اور محاسبۂ نفس اس کی ترجیحات میں شمار ہوتا ہو‘‘۔

امام ابن قیم لکھتے ہیں: ’’غفلت‘ محاسبہ نہ کرنا‘ اصلاح کے کام کو مؤخر کرتے رہنا‘ اور معاملات کو معمولی خیال کرنا‘ یہ سب رویے تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور یہ دھوکے میں   مبتلا لوگوں کی حالت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ نتائج و عواقب سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور پیش نظر  صورت حال ہی کو دیکھتے اور معافی کے تصور پر انحصار کیے رہتے ہیں۔ وہ محاسبۂ نفس اور انجام پر  نظر رکھنے کو اہمیت نہیں دیتے۔ جب انسان ایسی روش اختیار کرنے لگے تو اس کے لیے ارتکابِ گناہ کے مواقع آسان ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ گناہوں سے اس کو پیار ہونے لگتا ہے اور ان سے کنارہ کش ہونا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے‘‘۔ (اغاثۃ اللھفان‘ ج ۱‘ ص ۷۷‘۱۳۲)

ابن قیمؒ محاسبۂ نفس کے طریقوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ مفید طریقہ یہ ہے کہ آدمی سونے سے پہلے کچھ دیر کے لیے بیٹھ جائے اور اپنا محاسبہ کرے کہ آج  اس کو کیا خسارہ ہوا اور کیا منافع؟ پھر از سر نو اللہ کے سامنے خالص توبہ کرے اور اس عزم کے  ساتھ سوجائے کہ اب وہ بیدار ہو کر گناہ نہیں کرے گا۔ یہ عمل وہ روزانہ رات کو سوتے وقت انجام دے۔ اگر وہ ایسے عمل پر کسی روز فوت ہو گیا تو وہ توبہ پر فوت ہو گا‘ اور اگر بیدار ہو گا تو عملِ صالح کی طرف متوجہ ہوتا ہوا بیدار ہو گا۔(کتاب الروح‘ ص ۷۹)

عقیدے کی درستی

انسان کو اپنے جن اعمال و افکار کا جائزہ لینا چاہیے اور محاسبہ کرنا چاہیے ان میں سرفہرست عقیدہ ہے۔ عقیدے کی درستی‘ توحید اور شرک خفی و شرکِ اصغر سے دُوری… عموماً ایسا مسئلہ ہے جس کی جانب لوگ توجہ نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ ہی دیگر ایسے اعتقادات اور اعمال بھی ہیں جو توحید کے منافی ہوتے ہیں یا عقیدۂ توحید کو کمزور کرتے ہیں۔ دراصل توحید کا عقیدہ و تصور ہی انسان کو فرائض کی ادایگی پر آمادہ کرتا ہے‘ مثلاً پانچ وقت کی نماز با جماعت کا اہتمام‘ والدین کے ساتھ اچھا برتائو‘ رشتہ داری کو قائم رکھنا‘ فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ادایگی‘ پھر تمام چھوٹے بڑے محرمات و منکرات سے دور رہنا اور سنت و نفل اعمال و افعال کو انجام دینا۔ ان تمام صالح امور کی انجام دہی اور ممنوع امور سے اجتناب کے اہتمام پر یقینا انسان کے عقیدے کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ عقیدہ جس قدر قوی و مستحکم ہو گا اعمال کی ادایگی اسی قدر اہتمام سے ہو گی اور عقیدے میں کمزوری ہو گی تو اعمال کی ترتیب‘ ترجیح اور اہمیت بھی متاثر ہو گی۔

وقت کی صحیح قدر

دوسری اہم چیز جس پر ایک فرد کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ ’وقت‘ ہے۔ فرد کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ ’وقت‘ سے کیسے اور کس قدر استفادہ کر رہا ہے۔ دراصل وقت ہی اس کی عمر اور اصل مال ہے اور یہ ضائع ہو گیا تو انسان کے پاس کچھ باقی نہیں بچے گا۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس اصل سرمایے کو خیر کے کاموں میں صرف کیا ہے یا برائی کے کاموں میں برباد کیا ہے۔ وقت کا استعمال برائی اور بھلائی کے علاوہ بھی ہوتا ہے اور وہ وقت کو بے مقصد اور فضول کاموں میں ضائع کرنا ہے۔ وقت کو اگر برے کام میں ضائع نہیں کیا اور اچھے کام میں بھی استعمال نہیں کیا گیا تو یہ بھی وقت کا ضیاع ہی ہے۔ وقت‘ یعنی انسان کی عمر سے متعلق رسول اکرمؐ نے فرمایا:’’قیامت کے روز جب تک چارچیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے گا انسان اپنے قدم ہلا نہیں سکے گا۔ ان چار چیزوں میں سے ایک چیز ’وقت‘ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’عمر کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اسے کہاں ختم کیا اور جوانی کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اسے کن کاموں میں کھپایا‘‘۔

محاسبۂ نفس اور توبہ

محاسبۂ نفس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان ان تمام رویوں‘ روشوں‘ اعمال و افعال اور   افکار و خیالات سے دامن کش ہو جائے‘ جن کا خلافِ شریعت اور منافی ِاخلاق ہونا ثابت ہو۔ کوتاہی اور گناہ کے چھوٹے ہونے کو معمولی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے غلطی اور گناہ سمجھتے ہوئے اس کو اپنے  عمل کے دائرے سے خارج کر ڈالنے کے لیے کمر ہمت باندھنی چاہیے۔ یہ کام توبہ سے ہوتا ہے۔ غلط اعمال و افکار کا تعلق اگر براہِ راست شریعت سے ہو تو بھی توبہ ہی ان کی تطہیر کرتی ہے اور اگر انسانی رویوں سے ہو تب بھی توبہ ہی ان سے خلاصی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

امام ابن قیمؒ لکھتے ہیں: ’’گناہوں سے توبہ فوراً ضروری ہے۔ اس کو مؤخر کرنا جائز نہیں۔ اگر گناہ گار عملِ توبہ کو مؤخر کرے گا تو اپنی اس تاخیر میں اللہ کی نافرمانی کرے گا۔ اگر وہ توبہ تاخیر سے کرے گا تو گناہ سے اس کی توبہ کا فرض تو پورا ہو جائے گا مگر تاخیر کی غلطی کی توبہ اس کے ذمے باقی رہے گی۔ چونکہ یہ کوتاہی گناہگاروں کی عمومی روش ہوتی ہے‘ اس لیے اس سے نجات کا طریقہ یہ ہے کہ معلوم اور نامعلوم تمام گناہوں سے توبہ کی جائے‘‘۔ (مدارج السالکین ج۱‘ص ۲۷۲-۲۷۳)

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس طرح گناہگاروں کو اللہ کی طرف رجوع کرنے اور گناہوں سے تائب ہونے کی ضرورت ہے‘ اس طرح مطیع اور فرماںبردار لوگوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ اس نے کوئی ایسا گناہ نہیں کیا جس پر توبہ کرنا فرض ہے یا وہ یہ سمجھے کہ اسے توبہ کی ضرورت نہیں‘ وہ شخص دراصل غلط فہمی کا شکار ہے۔ وہ اپنے نفس کے دھوکے میں آجاتا ہے۔ وہ اپنے ذاتی کمال کے بھرے میں آ کر اپنے آپ کو بے گناہ سمجھ لیتا ہے۔ ایسا خیال جب تک انسان کے دماغ میں رہے‘ اس کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ شیطان نے اس کو اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے۔ اسی بنا پر بعض انسان اپنی غلطیوں کوتاہیوں اور گناہوں پر اصرار کرتے ہیں۔

امام ابن تیمیہؒ اس سلسلے میں کہتے ہیں:’’انسان ہمیشہ اللہ کی طرف سے ملنے والی نعمت پر اس کا شکر کرنے اور گناہ پر معافی مانگنے کی دو حالتوں کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ دونوں امور     ہمیشہ انسان کے ساتھ لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اللہ کی نعمتوں میں زندہ رہتا ہے اور    ہمیشہ اسے توبہ و استغفار کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اولادِ آدم کے سردار اور متقیوں کے امام جناب محمد رسولؐ اللہ ہر حالت میں اللہ سے استغفار کرتے رہتے تھے‘‘۔(فتاویٰ ابن تیمیہ‘ ج ۱۰‘ ص ۸۸)

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو عمومی انداز میں مخاطب کرتے ہوئے انھیں خالص توبہ کا حکم دیا ہے۔ فرمایا:یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا (التحریم ۶۶:۸)’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے توبہ کرو‘ خالص توبہ‘‘۔ دوسری جگہ فرمایا: قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (الزمر ۳۹:۵۳) ’’(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو‘ جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو‘ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے‘ وہ تو غفور رحیم ہے‘‘۔

گناہ کے بعد توبہ مومن کی صفت خاص ہے‘ اس کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر ذکر فرمایا ہے۔ اپنے بندوں کی قابل تعریف صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْص وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ ص وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَھُمْ یَعْلَمُوْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۵) (ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں) اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سر زد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اُوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً ً اللہ انھیں یاد آجاتا ہے‘ اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو۔ اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔

انسان سے غلطی اور خطا کا صدور ہر وقت ممکن ہوتا ہے اس سے کوئی انسان مبرا نہیں‘ رسولؐ اللہ نے فرمایا: کُلُّکُمْ خَطَّائٌ وَ خَیْرُ الخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُون ’’تم میں سے ہر کوئی خطا کرسکتا ہے اور اپنی خطائوں پر توبہ کر لینے والے بہترین خطا کار ہیں‘‘۔

رسولؐ اللہ نے فرمایا: یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا‘ حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرِ‘ یَقُولُ: مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبُ لَہُ‘ مَنْ یَسْأُلُنِی فَأُعْطِیْہِ‘ مَنْ یَسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرُ لَہُ (صحیح بخاری) ’’جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کو آسمانِ دنیا پر نزول فرما ہوتا ہے اور اعلان کرتا ہے: کوئی ہے جو مجھے پکارے میں اس کی پکار کا جواب دوں‘ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے میں اس کو عطا کروں‘ کوئی ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے میں اس کو معاف کر دوں‘‘۔

ایک دوسرے موقع پر آپؐ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ تَعالٰی یَبْسُطُ یَدَہُ بِاللَّیْلِ لِیَتُوبَ مُسِیئُ النَّھَارِ وَیَبْسُطُ یَدَہُ بِالنَّھَارِ لِیَتُوبَ مُسِیئُ اللَّیْلِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا (بخاری) ’’اللہ تعالیٰ رات کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کو گناہ کرنے والے پر مہربانی فرمائے۔ اور دن کوہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ را ت کو گناہ کرنے والے پر مہربانی فرمائے یہاں تک کہ سورج اپنے غروب ہونے کی جگہ سے طلوع ہونا شروع ہو جائے‘‘۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے درِ توبہ قربِ قیامت تک کھلا ہے‘ جو بھی اس کی طرف بڑھے‘ لپکے یا دوڑے اس کو یہ دروازہ   بند نہیں ملے گا۔ وہ رات کو جائے یا دن کی روشنی میں اسے ہر وقت اللہ تعالیٰ اپنے دامنِ عفو میں چھپالینے کے لیے تیار ہے۔

گناہ کے عام مفہوم کے متعلق یہ غلط فہمی دور کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ گناہ صرف چوری‘ زنا اور غیبت جیسے برے کام ہی نہیں ہوتے بلکہ شریعت کے فرائض کو ادا نہ کرنا‘ یا ان کی ادایگی میں کمی یا کوتاہی کرنا بھی گناہ ہے‘ مثلاً نماز ادا نہ کرنا‘ یا مکمل طور پر ادا نہ کرنا‘ اس کے اوقات میں ادا کرنے سے سستی کرنا‘ جماعت کے ساتھ ادا نہ کرنا‘ خشوع و خضوع سے ادا نہ کرنا۔ اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض ادا نہ کرنا‘ یا اللہ کی طرف دعوت دینے میں غفلت کرنا‘ یا مسلمانوں کے مسائل و معاملات سے سروکار نہ رکھنا‘ یا ایسے دیگر فرائض جن کو عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

گہرا ایمان اور اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ خوف رکھنے والے مسلمان کے نزدیک گناہ چھوٹے بڑے نہیں ہوتے۔ اس کے نزدیک تو تمام گناہوں پر توبہ فرض ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک تمام خطائیں اللہ کے حق میں گناہ ہوتی ہیں۔ کسی بزرگ نے کہا ہے: گناہ کے چھوٹا ہونے کو نہ دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ گناہ کر کے نافرمانی کس کی کر رہے ہو۔

حضرت سہل بن سعد روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اِیَّاکُمْ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ، فَاِنَّمَا مَثَلُ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ کَمَثَلِ قَومٍ نَزَلُوا بَطْنَ وَادٍ‘ فَجَائَ ذَابِعُودٍ‘ وَجَائَ ذَابِعُودٍ، حَتّٰی حَمِلُوا مَا أَنْضَجُوا بِہٖ خُبْزَھُمْ ، وَاِنَّ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ مَتٰی یُؤْخَذُ بِھَا صَاحِبُھَا تَھْلْکُہُ (روایت‘ امام احمد بن حنبل ۵/۳۳۱) ’’گناہوں کو معمولی نہ سمجھو‘ گناہوں کو معمولی سمجھنا ایسا ہے جیسے کوئی قوم کسی جگہ پر (دوران سفر) ٹھہری اور کوئی اِدھر سے ایک لکڑی اٹھا لایا اور کوئی اُدھرسے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے اس قدر لکڑیاں اکٹھی کر لیں جس سے ان کی روٹیاں پک سکیں۔ اور گناہوں کو معمولی سمجھنے کی بنا پر جب کسی انسان کو پکڑا جائے گا تو یہ روش اس کو ہلاک کر ڈالے گی‘‘۔

محاسبۂ نفس اور دعا

جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتا ہے اور آیندہ کے لیے اپنی دامن بچانے کا عہد کرتا ہے تو اس کے ذمے ایک فرض عائد ہو جاتا ہے۔ انسان جس قدر کوشش کرتا ہے اس کو اسی قدر اس کا صلہ ملتا ہے۔ لیکن ایک مؤمن کا معاملہ محض کوشش ہی پر منحصر نہیں ہے بلکہ وہ اس کوشش کو اللہ کی توفیق سے وابستہ کرتا ہے۔ وہ نیکی کرتا ہے تو اللہ کی حمد بیان کرتا ہے کہ اس نے اسے نیکی کرنے کی توفیق بخشی‘ گناہ سے بچتا ہے تو بھی اللہ کا شکر کرتا ہے کہ اللہ نے اسے گناہ سے بچا لیا۔

اس تناظر میں دیکھیں تو نیکی کرنے اور گناہ سے بچنے کے لیے توفیق ایزدی کا ہونا ہمارے ایمان کا جزو قرار پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس توفیق ایزدی کے حصول کے لیے مومن کو دعا کا طریقہ بتایا گیا ہے۔

مسلمان معاشروں کے انفرادی و اجتماعی تمام دائروں میں دعا کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ فرد کی ذاتی اصلاح اور محاسبۂ نفس میں اس کی ضرورت و اہمیت سے وہی شخص حقیقتاً آگاہ ہو سکتا ہے جو اس تجربے سے گزرا ہو۔ دعا دراصل انسان کا اللہ کے سامنے بے بسی‘ عاجزی اور فقیری کا اظہار اور اللہ تعالیٰ کی قوت و قدرت اور سطوت و جبروت کا اعتراف ہوتا ہے۔ دعا کی ترغیب خود  اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دی ہے:

وقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِیْٓ أَسْتَجِبْ لَکُمْ ط (المومن ۴۰:۶۰) تمھارا رب کہتا ہے: مجھے پکارو‘ میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔

دوسری جگہ فرمایا:

اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرہ ۲:۱۸۶) پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے‘ میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔

رسولؐ اللہ نے فرمایا: مَا عَلَی الأَرْضِ مُسْلِمٌ یَدْعُو اللّٰہَ بِدَعْوَۃٍ اِلَّا آتَاہُ اللّٰہُ اِیَّاھَا‘ أَوْصَرَفَ عَنْہُ مِنَ السُّوْئِ مِثْلَھَا‘ مَا لَمْ یَدَعْ بِـاِثْمٍ أَوْقَطِیْعَۃِ رَحِمٍ(ترمذی) ’’روے زمین پر جو بھی مسلمان اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اللہ تعالیٰ اس کی دعا پوری کر دیتا ہے‘ یا مطلوبہ چیز کے مثل کوئی شر دفع کر دیتا ہے۔ (قبولیت کا یہ حق اسے اس وقت تک حاصل رہتا ہے) جب تک وہ کسی گناہ کے لیے یا رشتے داری توڑنے کے لیے دعا نہ کرے‘‘۔

یہ بات سن کر ایک شخص بولا تب تو ہم بہت زیادہ دعا کیا کریں گے۔ اس پر رسولؐ اللہ نے فرمایا: اللہ اس سے بھی بہت زیادہ دے سکتا ہے۔

ایک حدیث میں اس شخص کو بے بس کہا گیا ہے جو دعا کرنے سے عاجز ہو۔ فرمایا: أَعْجَزُ النَّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الدُّعَائِ (جامع ترمذی) ’’لوگوں میں سب سے زیادہ بے بس وہ شخص ہے جو دعا نہ کر سکتا ہو‘‘۔

رسول اکرمؐ نے تزکیہ نفس اور دعا کے باہمی تعلق کو صراحت سے بیان فرمایا ہے کہ یہ تزکیہ کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے فرمایا: اِنَّ الاِیْمَانَ لَیَخْلُقُ فِیْ جَوْفِ أَحَدِکُمْ کَمَا یَخْلُقُ الثَّوْبُ‘ فَسَلُوا اللّٰہَ تَعَالٰی أَنْ یُجَدِّدَ الاِیْمَانَ فِی قُلُوبِکُمْ(طبرانی‘ حدیث حسن) ’’جس طرح کپڑا پرانا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تم میں سے کسی کے پیٹ (مراد دل) میں موجود ایمان بھی پرانا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اللہ سے دعا کرتے رہو کہ وہ تمھارے دلوں میں موجود ایمان کی تجدید کرتا رہے‘‘۔

جو شخص دعا کو اپنا شیوہ بنا لیتا ہے‘ گویا اس کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اسے خیر کی توفیق اور  راہ راست کی طرف ہدایت کے لیے اللہ کی نصرت کی خصوصی ضرورت ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر یہ توفیقِ الٰہی مجھے میسر نہ رہی تو میں دنیا و آخرت میں سراسر خسارے میں رہوں گا۔ اس احساس کو جس قدر مضبوط کیا جائے اس کے فوائد اسی قدر بڑھتے جائیں گے۔ مسلمان کی زندگی میں اسے عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہر لمحے بڑھتے رہنا ضروری ہے۔ جب اسے احساس کی یہ توفیق میسر ہو گی   تو وہ ہر لمحے اپنی دعا کی قبولیت کے لیے اللہ سے پُرامید رہے گا۔ وہ زیادہ سے زیادہ الحاح اور    آہ و زاری کے ساتھ اللہ سے اپنی حاجت طلب کرے گا۔ وہ ہمیشہ اپنے ایمان کی صلاح و سلامتی کے لیے دعا گو رہے گا۔ ہمیشہ اللہ کی عبادت اور ذکر و شکر کی توفیق مانگتا رہے گا۔

یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ رات کی آخری تہائی‘ اذان اور اقامت کا درمیانی وقت اور حالت سجدہ قبولیت ِدعا کے بہترین اوقات ہیں۔

محاسبۂ نفس کے یہ تمام ذرائع دراصل انسان کی تربیتِ نفس کے ذرائع ہیں‘ اور شریعت کا مقصود نفس کی تربیت ہی ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو الٰہ بنا کر زندگی بھر ان کی پیروی نہ کرے بلکہ نفس کو ایک ضابطے اور قاعدے کا پابند بنا کر محفوظ اور پُرامن راستے پر چلائے‘ جو اس کو کامیابی و کامرانی کی منزل پر پہنچا دے۔ قرآن مجید نے اس تزکیے کو کامیابی کا ذریعہ بتایا ہے‘ فرمایا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی o (الاعلٰی ۸۷:۱۴-۱۵) فلاح پاگیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی۔

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمّس ۹۱:۹‘۱۰) یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔

اس سفر تربیت کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے: محاسبہ نفس‘ تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے اور تزکیہ نفس کامرانیِ نفس کا باعث ہے۔ اس کامیابی کا دوسرا نام خوشنودیِ رب ہے جسے حاصل کرنا مومن کی زندگی کا مقصود و مطلوب ہے۔