حافظ محمد ادریس


تیونس سے شروع ہونے والی بہار نے کئی عرب ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مصر، لیبیا اور یمن میں بھی آمریت کا جنازہ نکل گیا۔ اب دیریا سویر شام کی باری ہے۔ اس بہارِ جاں فزا سے افریقہ کے دیگر ممالک بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ مغربی افریقہ کا ملک سینیگال اس کی بہترین مثال ہے جہاں دارالحکومت ڈاکار اور دیگر شہروں میں عوام صدر عبد اللہ واد کے خلاف سر سے کفن باندھ کر میدان میں نکل آئے ہیں۔ سینیگال مغربی افریقہ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اس کا کُل رقبہ ایک لاکھ ۹۶ہزار ۷سو۲۳ مربع کلومیٹر، یعنی پاکستان کے رقبے کا ایک چوتھائی ہے، جب کہ آبادی ایک کروڑ ۲۳ لاکھ ہے، یعنی پاکستان کی آبادی کا پندرھواں حصہ۔   ملک معاشی لحاظ سے پاکستان سے بھی غریب ہے۔ فی کس آمدنی۱۶۰۰ ڈالر فی کس سالانہ ہے، جب کہ پاکستان کی تقریباً۲۱۰۰ڈالر فی کس سالانہ ہے۔ سینیگال کی آبادی ۹۶ فی صد  مسلمان ہے البتہ قدیم مذہبی رسومات اور روایاتِ بت پرستی بیش تر آبادی میں اسی طرح پائی جاتی ہیں،     جس طرح ہمارے ہاں ہندوانہ تہذیب اور رسوم و رواج کا چلن ہے۔

سینیگال نے ہم سے ۱۳ برس بعد، یعنی ۱۹۶۰ ء میں فرانسیسی استعمار سے آزادی حاصل کی۔ پانچ مقامی قبائلی زبانوں کے علاوہ فرانسیسی یہاں کی سرکاری زبان رہی ہے۔ اب عربی کی طرف  بھی بہت زیادہ رجحان ہے۔ افریقہ کا یہ ملک اس لحاظ سے دیگر بیش تر افریقی، لاطینی امریکی اور ایشیائی و عرب ممالک سے ممتاز و ممیز ہے کہ یہاں فوجی انقلابات کی کوئی روایت نہیں ملتی۔ یہاں کی فوج ہے بھی نہایت مختصر۔ سینیگال کے بحیثیت مجموعی اپنے ہمسایوں سے تعلقات اچھے ہی رہے ہیں البتہ اپنے پڑوسی ملک مالی کے ساتھ اس وقت کچھ تلخیاں پیدا ہوئی تھیں جب دونوں ممالک نے آزادی کے بعد آپس میں ایک وفاق قائم کیا، مگر چار ہی ماہ بعد یہ وفاق بکھر گیا اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس علیحدگی میں بھی نہ کوئی گولی چلی، نہ فسادات ہوئے۔ یوں ان افریقی ممالک نے مہذب ہونے کا ثبوت دیا۔ سینیگال کے پڑوس میں سبھی ممالک چھوٹے چھوٹے ہیں۔ ان میں گامبیا، ماریتانیہ، مالی، گِنی اور گِنی بسائو شامل ہیں۔ یہاں اسلام کی روشنی تقریباً اُسی دور میں پہنچی جب مسلمان شمال مغربی افریقہ سے ہسپانیہ کی طرف منتقل ہوئے۔

 سینیگال میں صحیح اسلامی تعلیم کا فقدان رہا ہے۔ اس کے باوجود شمال مغربی افریقہ کے عرب ممالک الجزائر، لیبیا، تیونس اور مراکش کے اسلامی جہاد کی وجہ سے یہاں بھی ایک محدود طبقے میں جہادی جذبات پروان چڑھے۔ سنوسی تحریک، عبدالقادر الجزائری اور عمرمختار سے محبت کرنے والا ایک مختصر حلقہ ڈاکار اور دیگر بڑے شہروں میں موجود ہے۔ تحریک ِآزادی میں بھی یہ لوگ    پیش پیش تھے، مگر فرانسیسی استعمار نے ان کو ہمیشہ زیرعتاب رکھا۔ بدقسمتی سے عیسائی مشنری اور قادیانی بھی یہاں اپنی سرگرمیاں فرانسیسی دور ہی سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور بے پناہ وسائل رکھتے ہیں۔ تاہم، یہ بات باعث ِ اطمینان ہے کہ سینیگال کی آبادی نے عیسائیت یا قادیانیت کو قبول نہیں کیا۔

سینیگال میں اسلامی تحریک بالکل نئی اور قوت کے لحاظ سے ابھی بہت محدود ہے۔ تاہم، مصر اور سعودی عرب کی جامعات سے فارغ ہوکر آنے والے نوجوان عقائد و افکار کے لحاظ سے درست اسلامی سوچ کے حامل ہیں۔ انھوں نے اخوان المسلمون کی فکر سے متاثر ہوکر ۱۹۹۹ء میں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام ’جماعت عبادالرحمن‘ ہے۔ اس کے سربراہ ایک ذہین اور تعلیم یافتہ مسلمان استاد احمد جاں ہیں۔ وہ مولانا مودودی کے مداح ہونے کے ساتھ تحریکِ اسلامی پاکستان سے بھی متعارف ہیں۔ والی سعودی عرب نے بھی اس ملک میں کافی کام کیا ہے اور ان کے موجودہ نمایندے استاد رجب مصری ہیں۔ اسلامی تحریک کے لیے ایسے قابل نوجوانوں کا وجود بساغنیمت ہے۔ ان کا کام محدود تھا مگر گذشتہ سال کی عرب بہار نے جب اسلامی بہار کا روپ دھارا تو ان کی جماعت کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا۔ ابھی وہ انتخابی معرکے میں اُترنے کے قابل نہیں مگر ان کے منظم کام کی وجہ سے تمام اپوزیشن پارٹیاں ان کی حمایت کے لیے کوشاں ہیں۔ انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلام کی برتری اور جمہوریت کی حقیقی بحالی و تحفظ کی یقین دہانی کرانے والے صدارتی اُمیدوار کی حمایت کریں گے۔ طلبا میں ’طلبا عبادالرحمن‘ کے نام سے ان کی ملک گیر تنظیم موجود ہے جو فعال ہے اور مستقبل میں قوت میں اضافے کا باعث ہوگی۔ پاکستان سے اسلامی میڈیکل ایسوسی ایشن نے ڈاکٹر انتظاربٹ اور دیگر ماہرین امراضِ چشم اطبا کی نگرانی میں گذشتہ چند برسوں سے افریقہ کے  جن ممالک میں فری میڈیکل کیمپ لگائے ہیں ان میں سینیگال بھی قابلِ ذکر ہے۔ ان کیمپوں کی وجہ سے بھی عباد الرحمن تنظیم کو اخلاقی و عمومی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ یہاں فرانس اور بھارت نے سونے کی کانوں اور کھاد کی فیکٹریوں کے ذریعے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ پاکستان کا اس ملک کے ساتھ محض سفارت خانے کی حد تک تعلق ہے۔

سینیگال پر مختلف اوقات میں پرتگال، فرانس اور برطانیہ نے اپنے استعماری پنجے گاڑے مگر آخر میں ۱۸۴۰ء سے ۱۹۶۰ء تک یہ سرزمین فرانسیسی کالونی ہی رہی۔ یورپ اور امریکا میں افریقی آبادی کو غلام بنا کر فروخت کیا گیا تو اس کا سب سے بڑا اڈا بھی اسی ملک میں تھا۔ فرانس نے سینیگال کو آزادی دینے سے قبل اپنا ایک سدھایا ہوا شاگرد لیوپولڈ سیدار سینغور، کمال چابک دستی سے اس ملک پر مسلط کر دیا۔ موصوف خاندانی لحاظ سے مسلمان تھے مگر فرانسیسی تہذیب و ثقافت کے دل دادہ، فرنچ زبان کے شاعر اور آزاد ملک کی حکمرانی کے باوجود اس بات کے خواہش مند کہ انھیں فرانسیسی شہریت مل جائے۔ انھیں اس میں کامیابی نہ ہوسکی۔ ہاں، فرانس کی سرپرستی میں اس ملک پر ایک جماعتی نظام کے تحت اس نے ۲۰سال حکمرانی کی۔ اس عرصے میں اس نے جو قانون، جب چاہا اور جیسے چاہا بنایا اور پھر جب چاہا اسے تبدیل کر دیا۔ وہ سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ سیکولرازم اور سوشلزم کا دل دادہ صدر سینغور ہر روز معاشی پالیسیاں بدلتا تھا۔ ملک کی معیشت تباہ ہو رہی تھی۔   اس دوران میں اس نے ایک مفید اور انقلابی کام بھی کر دکھایا۔ ۱۹۷۳ء میں اس نے دیگر چھے پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر ’مغربی افریقی معاشی کمیونٹی‘ کی بنیاد رکھی جس سے ان سب کو کم و بیش تجارتی فوائد حاصل ہوئے۔ سینیگال اقوام متحدہ ،او آئی سی اور افریقن یونین کا ممبر ہے۔

سینیگالی عوام بھی اپنے صدر سے تنگ آچکے تھے۔ عوامی پریشانی نے ابھی کوئی احتجاجی رنگ یا انقلابی لہر کا روپ نہیں اختیار کیا تھا کہ اپنے خلاف عوامی نفرت کا احساس کرتے ہوئے صدر سینغور نے اقتدار سے استعفا دے دیا۔ تیسری دنیا کے ممالک اور وہ بھی پس ماندہ افریقہ میں یہ مثال یکتا ہے۔ دراصل سینغور کے اقتدار سے ہاتھ اٹھانے کی وجہ اس کی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی اقتصادی ابتری اور عوام الناس کی شدید پریشانی اور غم و غصہ تھا۔ اس نے یہ شاطرانہ چال بھی چلی کہ اپنے نائب عبدہٗ ضیوف کو اقتدار سونپ دیا۔ ضیوف نے کسی حد تک عوام کے لیے سیاسی آزادی کا راستہ ہموار کیا مگر ہنوز ملکی سیاست یک جماعتی سیاسی پارٹی کے گرد ہی گھومتی رہی۔ نئے صدر نے معاشی صورتِ حال کو سنبھالا دینے کے لیے اپنے پیش رو کی قومیائی ہوئی بیش تر کمپنیوں اور اداروں کو پرائیویٹ سیکٹر میں منتقل کر دیا۔ ملک کے اندر خام لوہا اور فاسفیٹ کی اچھی خاصی مقدار موجود ہے، اسے ترقی دینے کی کوشش بھی کی گئی۔ کچھ عرصے کے بعد ضیوف نے کثیرالجماعتی سیاست کی اجازت دی۔ حکومت کے مخالفین نے اپنی سیاسی جماعت بنالی جس کے بعد کئی نئی جماعتیں بھی وجود میں آنے لگیں۔

ضیوف کے ۲۰سالہ دورِا قتدار کے بعد مارچ ۲۰۰۰ء میں صدارتی الیکشن ہوئے تو اپوزیشن کے نمایندے عبد اللہ واد نے ۶۰ فی صد ووٹ حاصل کرکے صدارتی الیکشن جیت لیا۔ ۲۰سال صدارتی منصب پر فائز رہنے کے بعد اپنی عبرت ناک شکست کو تسلیم کرتے ہوئے ضیوف نے بڑی خوش اسلوبی سے اقتدار نو منتخب صدر کے حوالے کر دیا۔ اب ملک کے اندر سیاسی آزاد یاں بھی تھیں اور مختلف پارٹیاں اپنے اپنے پروگرام کے تحت اپنے منشور بھی پیش کر رہی تھیں۔ عبد اللہ واد اگرچہ انتخاب کے ذریعے برسر اقتدار آیا مگر وہ اپنے اقتدار کو دوام دینے کے جنون میں مبتلا ہوگیا۔ اس نے جو اصلاحات کیں، اس کے نتیجے میں ملک بھر میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ ان اصلاحات میں سے ایک یہ تھی کہ عورتوں کو ووٹ کا حق دیا گیا نیز انھیں جایداد اور وراثت کا حق بھی قانون میں دے دیا گیا۔ اس عرصے میں عبد اللہ واد نے اپوزیشن کے دبائو پر دستور میں ایک ترمیم کی، جس کے تحت کوئی بھی صدر دو میقات سے زیادہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا۔

عبد اللہ واد ۲۰۰۱ء میں منتخب ہوا تھا، پھر ۲۰۰۷ء میں، اور اب ۲۰۱۲ء کے انتخابات کے لیے دوبارہ اُمیدوار بن گیا ہے۔ اپوزیشن نے اس پر شدید احتجاج کیا ہے۔ دستور میں ترمیم کے بعد دستور کی دفعہ ۲۷ اور ۱۰۴ واضح طور پر کسی بھی منتخب صدر کے لیے دو سے زیادہ مرتبہ صدارتی انتخاب لڑنا ممنوع قرار دیتی ہیں۔ عبد اللہ واد نے یہ مکرو حیلہ اختیار کیا ہے کہ اس کا پہلا انتخاب دستوری ترمیم سے قبل ہوگیا تھا، اس لیے اسے اس مرتبہ بھی انتخاب میں حصہ لینے پر کوئی دستوری قدغن نہیں ہے۔ حزبِ مخالف کی تمام پارٹیاں صدر کے خلاف میدان میں نکل آئی ہیں۔ دارالحکومت ڈاکار اور دیگر بڑے شہروں میں بڑے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں اور کئی جگہ سرکاری عمارتوں کو توڑ پھوڑ کے ذریعے نقصان بھی پہنچایا گیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ عرب دنیا میں اٹھنے والی تحریکوں کے اثرات سینیگال میں بھی پہنچ گئے ہیں۔ حزبِ اختلاف کی ’’سوشلسٹ پارٹی آف سینیگال‘‘ کے صدارتی امیدوار عثمان تنور دیانگ نے ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عبد اللہ واد صدارت پر غاصبانہ اور غیر دستوری قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ دستور کی خلاف ورزی کرکے اس نے خود کو مجرم ثابت کر دیا ہے۔ اب عوامی غیظ و غضب سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ دستور کی پابندی کرے۔

اس دوران میں عبد اللہ واد نے دستوری مجلس کے پانچ ارکان سے تصدیق کروالی ہے کہ اس کا یہ الیکشن تیسرا نہیں، دوسرا شمار ہوگا۔ اپوزیشن صدارتی امیدوار نے کہا کہ یہ ہزاروں کا مجمع جو فیصلہ دے رہا ہے، وہ درست ہے یا پانچ افراد کا فیصلہ درست تسلیم کیا جائے۔ اس موقع پر مجمع عام میں صدر عبد اللہ واد کے خلاف زبردست نعرے بازی کی گئی۔ ایک دوسرے صدارتی امیدوار  ابراہیم فال نے کہا: ’’صدر واد کے اس خود غرضانہ موقف کے نتیجے میں پورا ملک مستقل طور پر تشدد اور بدامنی کا شکار ہوجائے گا۔ اگر صدر نے اپنی حکومتی مشینری کے ذریعے پرتشدد راستہ اختیار کیا تو عوام اس سے زیادہ قوت کے ساتھ اس کا جواب دیں گے‘‘۔ سیاسی پارٹیوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے تمام طبقے بھی صدر کی راے سے اختلاف کر رہے ہیں۔ ایک نوجوان سینیگالی آرٹسٹ یوسف اندور نے کہا کہ سینیگال کا ہر شخص آج سڑکوں پر نکل آیا ہے اور لوگوں کے چہروں سے واضح طور پر پڑھا جاسکتا ہے کہ وہ موجودہ صدر کی رخصتی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ایک معروف سیاسی تجزیہ نگار اور ماہرِ امور سینیگال مختار ولد سیداتی نے کہا: ’’سینیگال میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے وہی جذبات پروان چڑھ رہے ہیں جو عالم عرب میں دیکھے گئے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے عرب میڈیا بہت مقبول ہو رہا ہے۔ یہ بات ہر گز بعید نہیں کہ عرب دنیا میں رونما ہونے والا انقلاب ان تمام افریقی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لے جو عربی ثقافت سے متاثر ہیں اور اس لحاظ سے سینیگال بہت نمایاں ہے ‘‘۔

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ( بی این پی) کے دو لیڈر صلاح الدین قادر چودھری اور عبد العلیم، عوامی لیگی حکومت کے قائم کردہ نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ حسینہ واجد کی حکومت نے اپنی پچھلی مدتِ حکومت میں بھی جنگی جرائم کے الزامات لگا کر اپنے مخالفین کو نشانۂ انتقام بنانا چاہا تھا، مگر بوجوہ اپنے ان عزائم کو وہ عملی جامہ نہ پہناسکی۔ اس مرتبہ بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد عوامی لیگ نے اپنے ایجنڈے میں یہی ایشو سرفہرست رکھا۔ بنگلہ دیش تحریک میں مشرقی پاکستان کی بنگالی آبادی نے بھی بلاشبہہ کلیدی کردار ادا کیا تھا، مگر اس میں شک نہیں کہ اگر بھارت کی سرپرستی اور مکمل حمایت حاصل نہ ہوتی تو محض مکتی باہنی یا چھے نکاتی پروگرام کے علم بردار سیاسی کارکن یہ منزل سر نہ کرسکتے۔ خانہ جنگی کے اس عرصے میں جماعت اسلامی نے ایک محب وطن جماعت کی حیثیت سے مقدور بھر کوشش کی کہ بدامنی اور انتشار کے اس ماحول میں عوام کو تحفظ دیا جائے، تاہم ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو     یہ سانحہ رونما ہوا کہ ملک دولخت ہوگیا۔

عوامی لیگ حکومت نے اپنی پے درپے ناکامیوں کے بعد، ۴۰ برس گزرنے پر سیاسی حربے کے طور پر اپنے مدِمقابل راست فکر قیادت کو نشانہ بنانے اور راستے سے ہٹانے کے لیے جنگی جرائم کے نام سے جو ٹربیونل قائم کیا ہے، اس پر عالمی اداروں اور حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے مکمل     عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ ۲۰ نومبر ۲۰۱۱ء کو نائب امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مولانا دلاور حسین سعیدی پر باقاعدہ فردِ جرم عاید کی گئی۔ ان کے علاوہ جو لوگ سال سے زیادہ عرصہ ہوا، جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کیے گئے ہیں، ان میں جناب مطیع الرحمان نظامی امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور علی احسن محمد مجاہد قیم جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے علاوہ محمد قمر الزمان اور عبد القادر ملا شامل ہیں۔ پروفیسر نذیر احمد، حمیدالرحمان آزاد، مولانا رفیع الدین احمد، مولانا اے ٹی ایم معصوم، رفیق النبی، عبدالرحمان اور مولانا عبدالمنان کو بھی جماعت اور اسلامی چھاترو شِبر کے دیگر ۱۲ راہ نمائوں کے ساتھ گرفتار کرکے مختلف دیگر مقدمات میں ملوث کر دیا گیا ہے۔ اب تک دلاور حسین سعیدی صاحب کے بعد نظامی صاحب، مجاہد صاحب اور قمر الزمان صاحب پر بھی فردِ جرم عاید کر دی گئی ہے۔ استغاثہ نے ٹربیونل کے سامنے اظہار کیا کہ ابھی تک پوری تفتیش مکمل نہیں ہوسکی۔

اس دوران مولانا دلاور حسین سعیدی کے خلاف گواہیاں شروع ہوگئی ہیں۔ ان پر لگائے گئے الزامات میں سے ایک یہ ہے کہ انھوں نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان آرمی سے قریبی تعلق رکھا اور انھیں عوام کے خلاف کارروائیاں کرنے کی ترغیب دیتے رہے۔ ان کے خلاف ۶۸ گواہ تیار کیے گئے ہیں۔ ان گواہوں پر مولانا سعیدی کے وکلا جرح کر رہے ہیں، جس کے دوران بہت دل چسپ تضادات سامنے آرہے ہیں۔ تاہم عمومی راے یہ پائی جاتی ہے کہ اگر عرب ملکوں کی طرح کوئی عوامی ریلا سڑکوں پر نہ نکلا اور عرب عوامی لہر کی طرح بنگلہ دیش عوامی لہر کا سماں پیدا نہ ہوا تو ٹربیونل حکومتی اشارے پر فیصلے صادر کردے گا۔ ۷۱ سالہ مولانا سعیدی شوگر اور بلڈپریشر کے مریض ہیں، انھیں علاج معالجے کی سہولیات بھی حاصل نہیں۔ انھیں اپنے خرچ پر اپنے معالج سے ملاقات کا بھی کم ہی موقع دیا گیا ہے۔

روزنامہ بنگلہ دیش ٹوڈے میں ۱۲ دسمبر کو ایک رپورٹ چھپی ہے جس میں جماعت اسلامی کے وکیل بیرسٹر عبد الرزاق نے ٹریبونل کے سامنے یہ شکایت پیش کی کہ محض الزام لگنے سے کوئی شخص مجرم نہیں بن جاتا، جب کہ حکومتی ذرائع ابلاغ اور وزیر قانون بیرسٹر شفیق احمد ان لوگوں کو مجرم قرار دے رہے ہیں۔ چیئرمین ٹربیونل جسٹس نظام الحق نے ان کی شکایت کو مبنی برحق قرار دیا اور کہا کہ وہ خود بھی ذرائع ابلاغ کی اس روش کو دیکھ کر کڑھتے ہیں۔ پروفیسر غلام اعظم صاحب (عمر:۸۹ سال) کو بھی گرفتار کرنے کے لیے حکومت مسلسل دھمکیاں دے رہی ہے۔

 غیر جانب دار حلقے ان تمام الزامات کو مضحکہ خیز اور انصاف کا گلا گھونٹنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک اہم پہلو جسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا وہ بنگلہ دیش میں مقیم بہاری آبادی پر ہونے والے طویل مظالم کی داستان ہے۔ بنگلہ دیش کی تخلیق کے وقت اس آبادی کو علیحدگی پسندوں نے جس بُری طرح سے قتل و غارت گری، لوٹ مار اور عصمت دری کا نشانہ بنایا، اس کی داستانیں تو باقاعدہ ثبوتوں کے ساتھ موجود ہیں مگر ان کی کہیں کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔ بھارت کے تجزیہ نگار کلدیپ نائر نے بنگلہ دیش میں گذشتہ مہینے پانچ دن گزارے اور اس نے ان خیالات کا اظہار کیا کہ ٹربیونل قانون و انصاف کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ کلدیپ نائر کے بقول حسینہ واجد بھارت کو خوش کرنے کے لیے اپنے ہی ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ ایک انٹرویو میں اس نے یہ بھی کہا کہ حسینہ واجد حکومت نے یک طرفہ طور پر بھارت کو ٹرانزٹ کے حقوق دیے ہیں، جن کے تحت بھارت آسام میں علیحدگی پسندوں کو کچلنے کے لیے بنگلہ دیشی راہ داری استعمال کررہا ہے۔ حسینہ واجد لوگوں کی نظروں میں عزت و احترام کھو بیٹھی ہے۔ اس نے جنگی جرائم کا ٹربیونل قائم کرکے خوف و ہراس پیدا کرنے اور اگلے انتخابات سے قبل اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ خاصا خطرناک قدم ہے۔ (ہفت روزہ Blitz، ۴ دسمبر ۲۰۱۱ئ)

بنگلہ دیش کے معروف صحافی انوار حسین مانجو (جو مجلس قانون ساز کے ممبر اور وزیر بھی رہے ہیں اور بنگلہ دیش کے لیجنڈ صحافی تفضل حسین عرف مانک میاں کے فرزند ہیں) نے کہا ہے کہ ملک کے اندر حسینہ واجد حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ایک بغاوت کی کیفیت عوام میں پیدا ہوگئی ہے۔ عوام الناس آج ہر مجلس میں یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں سیاست نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی، محض لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ بنگلہ دیش کی عدالتوں کے بارے میں آج وکلا اور ماہرینِ قانون یہ کہہ رہے ہیں یہ عدالتیں انصاف کرنے کے بجاے حکومتی تیور دیکھ کر فیصلے صادر کررہی ہیں۔ (ایضاً)

عالمی ذرائع ابلاغ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ ٹربیونل انصاف کے لیے قائم نہیں کیا گیا بلکہ حکمران اپنے راستے سے مخالفین کو ہٹانا چاہتے ہیں۔ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے اشرف الزمان خان، جو ان دنوں امریکا میں مقیم اور گرین کارڈ ہولڈر ہیں، ان پر بھی فردِ جرم عاید کرنے کے لیے استغاثہ نے کیس ٹربیونل میں پیش کر دیا ہے۔ ایک دوسری معروف شخصیت معین الدین چودھری جو برطانوی شہری ہیں، انھیں بھی البدر کا کمانڈر ہونے کے الزام کے تحت اسی فردِ جرم کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ نیویارک ٹائمز (۳۰ نومبر ۲۰۱۱ ئ) میں ٹام فیلکس جے نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان لوگوں کو  ان کی غیر حاضری میں سزا سنادی جائے گی۔ مضمون نگار نے تفصیلاً لکھا ہے کہ بہاری آبادی پر ڈھائے جانے والے مظالم کا تو کوئی تذکرہ نہیں، البتہ بنگالی آبادی کے قتل عام کا بہت غلغلہ ہے۔ مضمون نگار کے بقول: انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے تو ان پر یہ الزام ثابت کرنا خاصا مشکل ہے۔ مضمون نگار نے لکھا ہے کہ ۱۷۷۵ ایسے افراد کی فہرست غیر جانب دار لوگوں نے تیار  کی ہے جن میں عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی مجرم قرار دیے گئے ہیں۔ مضمون نگار نے  ایم اے حسن نامی ایک سماجی کارکن کا حوالہ دیا ہے جس نے جنگی جرائم کے حقائق جمع کیے ہیں،   اس کے مطابق اگر جرم کا ارتکاب ہوا ہے تو مجرم دونوں جانب ہیں مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ قانونی کارروائی (انتقامی) یک طرفہ ہورہی ہے۔

ڈیلی سٹار ڈھاکہ (۱۲ دسمبر ۲۰۱۱ئ) کے مطابق مولانا دلاور حسین سعیدی کے خلاف حوالدار محبوب العالم کی گواہی پر مولانا کے وکیلِ دفاع بیرسٹر میزان الاسلام نے ایک دستاویز عدالت میں پیش کی، جس کے مطابق حوالدار نے وزیراعظم کی خدمت میں پیروج پور کے ڈپٹی کمشنر کی وساطت سے ایک درخواست پیش کی کہ اسے مکان تعمیر کرنے کے لیے سرکاری خزانے سے امداد دی جائے۔ جب حوالدار پر جرح کی گئی تو استغاثہ کے وکلا نے شور مچایا کہ یہ دستاویز جعلی ہے اور ٹربیونل کے چیئرمین جسٹس نظام الحق نے سماعت اگلے دن تک ملتوی کردی۔ یہ ٹربیونل کا جو ڈھونگ رچایا گیا ہے، کچھ معلوم نہیں کہ اس سے کیا برآمد ہوگا؟ نیوز ویک نے ۲۳دسمبر کے شمارے میں   بنگلہ دیش پر خصوصی نمبر شائع کیا ہے۔ بحیثیت مجموعی تمام مضامین بنگلہ دیش کی تخلیق ہی کے حوالے سے لکھے گئے ہیں، مگر بین السطور جگہ جگہ ٹربیونل اور اس کی انتقامی کارروائیوں کا حوالہ بھی ملتا ہے۔

بنگلہ دیش کے حالات سے باخبر اہلِ دانش کی راے ہے کہ عالمِ عرب میں طویل خاموشی اور مردنی کے بعد جو بیداری کی لہر اُٹھی ہے، اس نے ساری مسلم دنیا پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ بنگلہ دیش کے عوام سیاسی لحاظ سے بہت پختہ اور کئی تجربات کے حامل ہیں۔ موجودہ گھٹن کے نتیجے میں یہاں بھی بنگالی بہار کا سماں پیدا ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بعض اوقات تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو مگر اس میں تمھارے لیے بھلائی (پنہاں) ہوتی ہے‘‘۔

عالم اسلام میں طویل عرصے تک آمریت وملوکیت اور مارشل لاؤں کی سیاہ رات چھائی رہی ہے۔ عرب دنیا تو بالخصوص بنیادی حقوق سے مکمل طور پر محروم کردی گئی تھی۔اس سال کے آغاز سے تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی لہر نے دیکھتے ہی دیکھتے تمام عرب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔تیونس، مصر او رلیبیا سے آمریت کا خاتمہ ہوا اور شام اور یمن انقلاب کے دہانے پر کھڑے ہیں۔اب تک تیونس کا انقلاب ایک مرحلہ طے کرکے اگلے مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔

  •  تیونس: تیونس میں اسلامی تحریک نہضت کی، ابتدائی اطلاعات کے مطابق، ۵۲فی صد ووٹوں کے تناسب سے ۲۱۷ میں سے ۱۱۵ نشستوں پر کامیابی کی خبریں آرہی تھیں۔ حتمی نتائج مرتب ہوتے ہوتے نہضت کے ووٹ ۴۲ فی صد پر آگئے اور ان کی نشستیں ۹۰ رہ گئیں۔ بہرحال نتائج کو سب جماعتوں نے تسلیم کیا ہے اور انتخابی عمل کو شفاف قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی تحریک نہضت کو اکثریت حاصل نہیں مگر وہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ دیگر ۱۲۷ نشستیں تین درجن پارٹیوں اور چند آزاد ارکان کے درمیان تقسیم ہوگئی ہیں۔ دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی سیکولر ہے اور اس کی نشستوں کی تعداد ۴۰سے بھی کم ہے۔ تحریک اسلامی کے قائد راشد الغنوشی نے خود حکومت کا کوئی منصب قبول کرنے کے بجاے تحریک نہضت کے سیکرٹری جنرل حمادی جبالی کو وزیر اعظم نامزد کیا ہے۔ کئی پارٹیوں نے ان کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے لیے گفت و شنید شروع کر دی ہے۔ کئی پارٹیاں جو انتخابات سے قبل ان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کر رہی تھیں، انتخابات کے بعد انھیں بھی اپنا موقف بدلنا پڑا ہے۔ ان کے خلاف سب سے زیادہ یہ پروپیگنڈا کیا جاتا تھا کہ وہ عورتوں کے حقوق سلب کرلیں گے مگر یہ حقیقت پوری دنیا کے لیے حیران کن تھی کہ پارلیمان میں کل ۴۹ خواتین کامیاب ہوئی ہیں جن میں سے ۴۲کا تعلق تحریک اسلامی سے ہے۔ باقی سات ارکان دیگر پارٹیوں کے درمیان تقسیم ہیں۔

حکومت سازی کے لیے حالیہ گفت و شنید کے دوران البتہ نامزد وزیر اعظم جناب الجبالی کی طرف ایک تبصرہ منسوب کیا گیا ہے کہ انھوں نے اپنی پارٹی کے ایک اجلاس میں اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ ان شاء اللہ ہم چھٹی خلافت راشدہ قائم کرنے کے مرحلے میں ہیں۔ التکاتل پارٹی کے نمایندے حُمَیس کَسِیْلہ نے رائٹر کے مطابق اس بیان کو بنیاد بنا کر یہ الزام لگایا ہے کہ نہضت بنیادپرستی کی طرف گامزن ہے۔ اگرچہ ابھی تک انھوں نے باہمی مذاکرات کے بائیکاٹ کا اعلان نہیں کیا مگر یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ممکن ہے اس صورت حال میں مخلوط حکومت بنانے اور دستور سازی کے مرحلے میں اتفاق نہ ہوسکے۔ اسلامی پارٹی کے سربراہ نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ آئیڈیلز کا تذکرہ اور چیز ہے اور معروضی حالات میں سب کے جذبات کا احترام دوسری بات۔ ہم اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ سب کو ساتھ لے کر چلا جائے لہٰذا کسی کو خائف ہونے کی ضرورت نہیں۔

  •  مصر: مصر اور لیبیا میں فراعنہ وقت کا تختہ الٹ دیا گیا ہے۔ مصری ۲۸ نومبر ۲۰۱۱ء کو انتخابات کے میدان میں اتریں گے۔ امیدِ واثق ہے کہ اگر انتخابات آزادانہ ہوئے تو یہاں بھی اخوان المسلمون کی سیاسی جماعت حزب الحریۃ والعدالۃ سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کے طور پر اُبھرے گی۔ مصر میں حسنی مبارک اور اس کے خاندان کے مقدمات عدالتوں کے سامنے آچکے ہیں۔ اس کی حکمران پارٹی پر پابندی لگ گئی تھی مگر مصر کی ایک عدالت نے حالیہ فیصلے میں اس کے امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی ہے۔ سیاسی میدان میں مختلف پارٹیاں آپس میں اتحاد کر رہی ہیں۔ اخوان نے تحریک آزادی کے ہیرو سعد غلول پاشا کی قدیم پارٹی  حزب الوفد کے ساتھ مل کر ایک فرنٹ بنایا ہے۔ بعض دیگر اسلامی گروپ بالخصوص سلفی حضرات نے جمال عبدالناصر کے حامیوں اور بعض دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ابتدائی مرحلے میں اتحاد کیا مگر بہت جلد سلفی لیڈر انجینیر عاصم عبدالماجد نے اس اتحاد سے نکلنے کا اعلان کردیا۔ انھوں نے کہا کہ پہلی ملاقات میں ہمیں ۱۵۰ سے ۲۰۰ تک نشستوں پر امیدوار نامزد کرنے کی پیش کش کی گئی تھی، بعدمیں ہمیں بتایا گیا کہ صرف ۸۰ نشستوں پر ہمارے نمایندے ہوں گے اور آخری پیغام یہ ملا کہ ہمارے امیدوار ۲۰ سے زیادہ نہیں ہوسکتے۔

اخوان کی قائم کردہ پارٹی حزب الحریۃ والعدالۃ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سعد الکتاتنی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سابق صدر کی کالعدم نیشنل پارٹی کو عبوری عسکری کونسل کی تائید حاصل ہے، جس سے حکومت کی غیر جانب داری مشکوک ہوجاتی ہے۔ اس دوران مصر میں ۱۹سال کے بعد میڈیکل ایسوسی ایشن کے قومی اور علاقائی انتخابات منعقد ہوئے ہیں، جس میں پہلی مرتبہ حکومت کی مداخلت کے بغیر ڈاکٹروں نے اپنی راے کا اظہار کیا ہے۔ اس میں اخوان کے امیدوار ڈاکٹر محمدخیری عبدالدائم مرکزی صدر منتخب ہوئے ہیں، جب کہ مجلس عاملہ کی بیش تر نشستیں بھی اخوان ہی کو ملی ہیں۔ ۲۷ صوبائی دارالحکومتوں میں سے ۱۵ میں اخوان کے ارکان صدر، سیکرٹری اور مجلس عاملہ کی اکثریتی نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں۔ ان انتخابات کے بعد ہی حسنی مبارک کی کالعدم پارٹی کو بحال کرنے اور ان کے نمایندوں کو انتخاب میں جانے کی عدالتی کارروائی سامنے آئی ہے۔ المجتمع نے قاہرہ سے محمد جمال عرفہ کا ایک تجزیہ اور اپنے نمایندے کی ایک رپورٹ شمارے ۱۹۷۴ء، ۲۲-۲۸ اکتوبر‘ میں شائع کی ہے جس میں بہت سی تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ مصر میں آزادانہ انتخابات کی صورت میں اخوان ان شاء اللہ بڑی قوت بن کر ابھریں گے۔

  •  لیـبیا: جہاں تک لیبیا کا تعلق ہے، قذافی اور اس کے دو بیٹے تو انقلابی قوتوں نے موت کے گھاٹ اتار دیے تھے، جب کہ اس کی دونوں بیویاں اور کئی ایک بچے مختلف ممالک میں   پناہ گزین ہیں۔ اس کا بیٹا سیف الاسلام قذافی عبوری کو نسل کی تحویل میں ہے اور اس کے خلاف کرپشن، قتل عام اور جنگی جرائم کے تحت مقدمے کی تیاری ہورہی ہے۔ لیبیا میں جب تحریک اٹھی تو قذافی نے آہنی ہاتھ سے اسے کچلنا چاہا۔ آغاز میں تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ فوجی اسلحے اور بکتر بند دستوں کے سامنے عوام بے بس ہوجائیں گے مگر آہستہ آہستہ اپوزیشن کے ساتھ قذافی کے کئی قریبی ساتھی اور بعض فوجی یونٹ ملتے چلے گئے اور عوامی تحریک نے زور پکڑلیا۔ عوامی تحریک کو کامیاب ہوتا دیکھ کر ناٹو افواج نے بھی مداخلت کردی۔ ابتدا میں اس مداخلت کے خلاف آواز اُٹھی لیکن انقلابی قیادت کا رویہ بتدریج ناٹو کے بارے میں نرمی کی طرف مائل ہوتا چلا گیا۔ بالآخر قذافی کی موت سے عوامی تحریک کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔ گذشتہ دنوں جب عبوری کونسل کے سربراہ مصطفی عبدالجلیل نے اعلان کیا کہ لیبیا کا نیا آئین اسلامی ہوگا اور غیر شرعی قوانین کالعدم قرار پائیں گے، تو اس سے امریکا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ تاہم آیندہ کی صورتِ حال پوری طرح واضح نہیں۔

لیبیا کے عوام طویل آمریت کے مظالم برداشت کرنے کے باوجود اسلام پر کاربند رہے ہیں اور تاریخی لحاظ سے سنوسی دور سے لے کر اب تک لیبیا میں گھر کا ماحول اسلامی اقدار کا محافظ رہا ہے۔ اب یہاں اگلے مراحل میں قوم کا کڑا امتحان ہوگا۔ ایک جانب قذافی کی باقیات بھی ابھی تک بعض علاقوں میں موجود ہیں۔ مغربی سوچ رکھنے والے عناصر بھی میدان سیاست میں منظم ہورہے ہیں اور قبائلی سردار بھی نئے سیاسی سیٹ اپ میں اپنا حصہ طلب کر رہے ہیں۔ ان سب کے درمیان اسلامی سوچ رکھنے والے لوگ اگرچہ تعداد میں زیادہ ہیں مگر ابھی تک ان کی کوئی منظم تحریک سامنے نہیں آسکی۔ اگرچہ الاخوان المسلمون لیبیا کے نام سے تحریک نہ صرف موجود ہے بلکہ عبوری کونسل میں بھی شامل ہے لیکن ان کی پالیسی یہی ہے کہ اپنی شرکت کو زیادہ نمایاں نہ کیا جائے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ لیبیا میں اخوان کے اثرات پائے جاتے ہیں اور تیونس و مصر کی تبدیلیاں لیبیا کے عوام کو بھی متاثر کریں گی۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو مگر یہ ایک لحاظ سے اسلام دشمن مقامی و عالمی قوتوں کو خبردار کرنے کی بھی سازش ہوسکتی ہے۔ المجتمع کے تجزیہ نگار عبدالباقی خلیفہ نے لیبیا کے انقلاب کے بعد کی صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قذافی نے ۲ سو ارب ڈالر ملک سے باہر مختلف ممالک میں منتقل کیے تھے۔ اب مغرب کی نظریں  لیبیا کے قدرتی وسائل کے علاوہ ان رقوم پر ہیں جو سابق حکمران اور اس کے خاندان نے مختلف اکائونٹس میں جمع کرا رکھی ہیں۔ تجزیہ نگار کے بقول لیبیا کے عوام اسلام سے بہت قریب ہیں مگر ابھی تک صورتِ حال واضح نہیں۔ مغربی قوتیں لیبیا کو تقسیم کرنے کی سازشیں بھی کر رہی ہیں اور لیبیا  میں کئی ایک متحارب قوتیں موجود ہیں، جو مسلح بھی ہیں۔ خدا نہ کرے کہ ان کے درمیان پھر کوئی  خون ریزی شروع ہو جائے اور آمریت کے بعد کا سہانا خواب بدقسمتی سے چکنا چور ہو جائے۔ (المجتمع، شمارہ ۱۹۷۵، ۱۹؍اکتوبر تا۴ ؍نومبر۲۰۱۱ء)

  •  شام: ۲ کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل ملکِ شام تاریخ میں بڑا مقام رکھتا ہے۔ یہاں کا ایک اقلیتی فرقہ نُصیری فوجی انقلاب کے ذریعے حافظ الاسد کی صورت میں ۱۹۶۹ء میں حکومت پر قابض ہوا۔ حافظ الاسد کے آمرانہ دور میں نصیری حکومت نے مظالم کی سیاہ ترین تاریخ رقم کی اور باپ کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا بشار الاسد ۲۰۰۰ء سے اب تک اپنے باپ کے مظالم کی تاریخ دہراتا چلا آرہا ہے۔ کئی مرتبہ مختلف شہروں بالخصوص حماۃ، حلب اور حمص میں شامی عوام ظالم حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر نکلے مگر ہر مرتبہ فوج نے انھیں بری طرح سے کچلا۔ موجودہ تحریک تیونس اور مصر کے ساتھ ہی شروع ہوئی۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق ۳ہزار سے زائد مظاہرین اور دیگر شہری موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں، جب کہ شامی حکومت نے اپنے ایک بیان میں یہ کہا ہے کہ ان کے ۱۱۰۰ فوجی اور پولیس اہلکار بھی انقلابیوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔

عرب لیگ نے یکے بعد دیگرے اپنے تین اجلاسوں میں شامی حکومت کوفی الفور تشدد بند اور اپوزیشن سے مذاکرات کرنے کی قرار دادیں منظور کی ہیں۔ ان قرار دادوں پر ماسواے شام، لبنان اور یمن کے تمام عرب ممالک متفق تھے۔ رباط میں ہونے والے لیگ کے آخری اجلاس مورخہ ۱۶ نومبر ۲۰۱۱ء میں عرب لیگ نے پھر شام کے خلاف قرارداد منظور کی ہے اور اس کے معاشی بائیکاٹ کی بھی حمایت کی ہے۔ اس اجلاس میں شام شریک نہیں ہوا تھا۔ ترکی کے وزیر خارجہ احمددائود اوغلو خصوصی دعوت پر اجلاس میں شریک تھے۔ انھوں نے بھی وہاں اعلان کیا کہ ترکی نے شام کو اسلحے کی سپلائی پر پہلے ہی پابندی لگا دی ہے اور اب شام کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کرنے اور اس کو بجلی کی ترسیل بھی بند کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ دمشق میں بشارالاسد کے نصیری حامیوں اور حکومتی کارندوں نے فرانس، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی کے سفارت خانوں پر حملے کیے اور ان ممالک کے پرچم جلائے۔ اس پر ترک صدر، وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے سخت ترین الفاظ میں احتجاج کیا اور شام کو نتائج و عواقب کی وارننگ دی۔ ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ شامی حکومت فی الفور اس جرم پر معذرت کرے۔ چنانچہ شام کے وزیر داخلہ نے اس پر معذرت کی ہے۔ فرانس اور دیگر ممالک نے بھی احتجاج کیا ہے اور اپنے سفیروں کو واپس بلالیا ہے۔(روزنامہ ڈان، ۱۶ نومبر ۲۰۱۱ء)

او آئی سی کے اجلاس میں بھاری اکثریت سے مسلمان ممالک نے یہ قرار داد منظور کی کہ بشار الاسد ہوش کے ناخن لیں اور خود کو کرنل قذافی جیسے انجام سے بچا لیں۔اجلاس کے بعد او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اکمل الدین احسان اوغلونے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ شامی صدر کی ہٹ دھرمی ان کے لیے ہی نہیں پورے ملک اور خطے کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ اسرائیل سے متصل یہ مسلمان ملک ایک حساس مقام کا حامل ہے اور بحالات موجودہ عالمی جنگ کا اکھاڑا بھی بن سکتا ہے۔ بشار الاسد کی آہنی گرفت کے باوجود تجزیہ نگار رابرٹ فسک کو دمشق ٹی وی نے ایک تجزیاتی پروگرام میں مدعوکیا تو اس نے شامی صدر کو بے لاگ انداز میں اپنے غلط موقف کو بدلنے کی تلقین کی۔ اس نے بتایا کہ بشار الاسد کے بعض فوجی، مظاہرین کے ساتھ مل گئے ہیں۔ انھوں نے آزاد شامی فوج کے نام سے ایک حکومت مخالف محاذ بھی قائم کر لیا ہے مگر کلاشنکوف اور رائفلوں سے بکتر بند گاڑیوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ بکتر بند دستے جب بغاوت کریں گے تو دھڑن تختہ ہوجائے گا۔(ڈان، بحوالہ انڈی پنڈنٹ، ۱۶؍نومبر ۲۰۱۱ء)

حکومت مخالف جماعتوں نے شامی قومی کونسل بھی تشکیل دی ہے۔ اس کے ۷۱؍ارکان میں سے ۳۴؍ اخوانی ہیں۔ گویا اخوان المسلمون کے اثرات نمایاں ہیں لیکن سیکولر عناصر سخت قوانین  کے نفاذ کے خلاف ہیں۔ تاہم اس اختلاف کے باوجود عوامی مزاحمت آگے بڑھ رہی ہے۔    یورپی یونین، ناٹو ممالک اور او آئی سی سبھی نے بشار الاسد کے مظالم کی مذمت کی ہے۔ شام کی حمایت کرنے والے ممالک میں ایران، لبنان، روس اور چین شامل ہیں۔ المجتمع کی تجزیہ نگار سیدہ فادی شامیہ نے بیروت سے لکھا ہے کہ لبنان حکومت حزب اللہ کے زیر اثر شام کی نصیری حکومت کا ساتھ دے رہی ہے، مگر لبنانی عوام منقسم ہیں۔ کچھ اپنی حکومت کے ساتھ ہیں اور نصف سے زائد شامی عوام کے حامی ہیں۔ اگر شامی حکومت گرے گی تو لبنان کی موجودہ حکومت بھی برسراقتدار نہیں رہ سکے گی۔ (المجتمع، کویت، شمارہ ۱۹۷۴، ۲۲-۲۸؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء)

  •  یمن: جہاں تک یمن کا تعلق ہے تو یہاں صدر علی عبداللہ صالح۱۹۶۲ء سے شمالی یمن اور متحدہ یمن کا سربراہ ہے۔ اس کے خلاف یمن میں تحریک بہت مضبوط بنیادوں پر اٹھی ہے۔    علی عبداللہ صالح ایک بم دھماکے میں شدید زخمی بھی ہوا اور سعودی عرب میں زیر علاج رہا۔ اس تحریک کے دوران لاکھوں لوگ کئی ماہ سے سڑکوں پر ہیں اور ان کا عزم ہے کہ آمریت سے نجات تک وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ خلیجی ممالک کی مجلس نے تین مرتبہ علی عبداللہ صالح کو اپنی قراردادوں کے ذریعے مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق حکومت چھوڑ دے اور عبوری نظام کے ذریعے ملک میں تبدیلی لانے کا راستہ ہموار کرے۔ اسی طرح سے اقوام متحدہ نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ یمنی صدر اپنی ضد چھوڑ کر اپنے وعدوں کے مطابق ایوانِ اقتدار سے رخصت ہو مگر وہ ہر دفعہ اپنے وعدوں سے منحرف ہو جاتا ہے۔ صدر علی عبداللہ صالح نے پہلے تو یہ کہا تھا کہ وہ اقتدار نائب صدر کو منتقل کر دے گا مگر بعد میں اس سے منحرف ہوگیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر میں نے اقتدار چھوڑ دیا تو یہاں اخوان المسلمون اور القاعدہ برسراقتدار آجائیںگے۔ اس دوران صنعا میں برطانیہ کے سفیر نے کہا ہے کہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عوام کی راے سے کون برسراقتدار آتا ہے۔ اگر بنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت کی ضمانت مل جائے تو ہمیں اخوان کی حکومت سے بھی نہ کوئی خطرہ ہے نہ پرخاش۔

یمن میں اسلامی تحریک حزب الاصلاح الاسلامی کے راہ نما شیخ صادق الاحمر نے کہا ہے کہ صدر صالح حواس کھو بیٹھے ہیں۔ ان کی زبان سے جھوٹ کے سوا کچھ برآمد نہیں ہو رہا اور ملک پر عملاً ان کی حکومت ختم ہوچکی ہے۔ ان کا وجود محض سرکاری ٹیلی ویژن، ریڈیو اور صدارتی محل تک محدود ہوگیا ہے۔ اقوام متحدہ کے نمایندے جمال بن عمر جو دو ہفتے صنعا میں صدر صالح کو اپنے وعدوں کا پاس کرنے کی تلقین کرتے رہے، بالآخر ناکام واپس چلے گئے ہیں۔ صنعا سے المجتمع کے نمایندے عادل امین نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ صدر صالح پر اب کوئی آدمی اعتماد نہیں کرتا۔ انھوں نے سیاسی راہ نما محمد قحطان کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس شخص کا جھوٹ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ تین مرتبہ اس نے اعلان کیا کہ وہ خلیجی کونسل کے فیصلے پر دستخط کر دے گا مگر ہر دفعہ وہ   اس سے مکر جاتا رہا۔ تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ صدر کا انجام وہی ہوگا جو لیبیا کے معمر قذافی کا ہوا ہے۔ اگر حکومت کے گرنے کے بعد یہاں آزادانہ انتخابات ہوتے ہیں تو یمن کی اسلامی تحریک   التجمع الیمنی للاصلاح کے سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کے طور پر کامیاب ہونے کے امکانات تمام مغربی اور عربی تجزیہ نگاروں کے رشحاتِ قلم میں پڑھے جاسکتے ہیں۔

یمن کی حریت پسند خاتون توکل کِرمان کو امن کا نوبل پرائز ملا ہے۔ یہ الاصلاح کی رکن شوریٰ اور تحریک حریت میں اگلی صفوں میں کام کرنے والی خاتون ہیں۔ ان کے انعام کی خبریں مغربی اور عربی ذرائع ابلاغ میں بہت نمایاں طور پر عوام تک پہنچتی رہی ہیں۔ سڑکوں پر نکلنے والے عوام اور نوجوان زیادہ تر اسلامی تحریک کے ارکان اور مؤیدین ہوتے ہیں۔ المجتمع کے شمارہ ۱۹۷۳ اور ۱۹۷۴میں صنعا سے عادل امین نے بہت تفصیلی رپورٹس بھیجی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ   اب جلد ہی یمن میں آمریت کا باب ختم ہونے والا ہے۔ امید ہے تیونس کی طرح یمن سے بھی   ان شاء اللہ اہل ایمان کو خوش خبریاں ملیں گی، وباللّٰہ التوفیق۔

عالمِ عرب میں برپا ہونے والے انقلاب کے بارے میں مغرب اور سیکولر عناصر کا یہ دعویٰ تھا کہ یہ ظلم و ناانصافی، آزادیِ اظہار پر پابندی اور معاشی استحصال کے خلاف ردعمل ہے، اس کا اسلام یا اسلام پسندوں سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسری طرف یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ اسلام پسند آگئے تو سخت قوانین نافذ کریں گے، پابندیاں عائد کریں گے بالخصوص خواتین کے حقوق پر زد پڑے گی۔ لیکن تیونس کے انتخابات نے یہ بات واضح کردی کہ ’عرب بہار‘ دراصل اسلامی انقلاب کی طرف پیش رفت ہے۔ عوام نے اسلام پسندوں کے حق میں ووٹ ڈالا ہے اور تیونس میں النہضت کے کامیاب ارکان میں نمایاں تعداد خواتین ارکان کی ہے۔ اسلامی تحریکیں جبر کے بجاے سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہیں اور اعتدال پسندی، رواداری اور انصاف جیسی اسلامی روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے معاشرے میں بتدریج تبدیلی لانا چاہتی ہیں۔ اسلامی تحریکوں کی اس حکمت عملی اور اعتدال پسندی کی روش کی بناپر مغربی اسکالر بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اب اسلامی تحریکوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

 

روس یورپ کا سب سے بڑ ا ملک ہے۔ اسے کمیونزم کی پہلی سرکاری تجربہ گاہ ہونے کا ’شرف ‘ بھی حاصل ہے ۔ ۱۹۹۱ء سے قبل یہ سوویت یونین (USSR) کہلاتا تھا۔ گرم پانیوں تک پہنچنے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جب اس نے افغانستان کا رخ کیاتو عملًا اس کی منزل بحرِ ہند اور بحیرہ عرب پر واقع پاکستان اور دیگر ہمسایہ مسلم ممالک کے ساحل تھے۔ افغانستان کی طویل تاریخ نے ہردور میں اور ہر مرتبہ جارح قوتوں کے بارے میں جوفیصلہ کیاتھا دورِجدید کی تاریخ نے ایک بار پھر اس کا منظر دیکھ لیا۔ سوویت یونین اپنی ساری اندھی طاقت کے باوجود افغان مجاہدین کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوا۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ شکست محض افغانستان کی سرزمین تک ہی محدود نہ رہی ، دریاے آموکے اس پار بھی تمام مقبوضہ ریاستیں افغان مجاہدین کی ضرب کاری کے نتیجے میں روس کے چنگل سے نکل کر آزادی سے ہم کنار ہوگئیں ۔ پھر ساری دنیا نے بچشمِ حیرت دیکھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے وسط ایشیا ہی نہیں پورا مشرقی یورپ جو روس کے پنجۂ استبداد میں جکڑا ہوا تھا ، بھی انگڑائی لینے لگا۔ اس جبریت کی مالا یوں ٹوٹی کہ سارے دانے بکھرگئے ۔ ظلم و بربریت کے بہت سے مظاہر شکست و ریخت سے دوچار ہوئے ۔ جرمنی کی دیوار برلن بھی ٹوٹ گئی ۔ سابق سوویت یونین/ روس کی آبادی ۲۵،۲۶ کروڑ سے گھٹ کر ۱۳ کروڑ پرآگئی اور اس کا جغرافیہ بھی آدھے سے کچھ کم ہو کر اس کے فولادی ہاتھوں سے نکل گیا ۔

کمیونزم کے پون صدی پر محیط استبدادی دور (۱۹۱۷ء تا ۱۹۹۱ئ) کے دوران اس کی سرحدوں کے اندر اسلام کا نام لینا ممنوع تھا ، مسجدیں مقفل تھیں اور وسط ایشیائی ریاستوں کی مسلمان آبادیاں آزادی سے نئی نسلوں تک کلمہ توحید پہنچانے کے قابل نہیں رہی تھیں ۔ والدین راتوں کو چھپ چھپاکر اپنے گھروں کے بند کمروں میں سرگوشی کے اندازمیں اپنے چھوٹے بچوں کو کلمہ او رنماز پڑھاتے تھے ، مگریہ تھے ہی کتنے ؟ یوں سمجھیں آٹے میں نمک کے برابر۔ لینن ، سٹالن اور ان کے جانشینوں نے یکے بعد دیگرے ، بظاہر سوویت یونین سے مذہب، بالخصوص اسلام کو دیس نکالا دے دیا تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام مرجھاجانے والا پودانہیں بلکہ انتہائی سخت جان اور اپنی بقا کے لیے ہمہ تن فکر مند، مضبوط ترین جڑوں پر کھڑا وہ تنا ور درخت ہے کہ جس کی کوئی شاخ سوکھ بھی جائے تو اس کے تنے سے نئی شاخیں او رشگوفے پھوٹنے لگتے ہیں ۔سٹالن نے بڑے طمطراق سے کہا تھا کہ ہم نے ’روایتی خدا‘ کو روس کی سرحدوں اور فضاؤں سے نکال باہر کیا ہے۔ خروشیف نے اپنے دور میں بڑہانکتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہوا بازوں نے آسمان کی بلندیوں اور فضاکی پہنائیوں میں جاکر مشاہدہ کیا ہے کہ مذہبیت کے علَم برداروں کا خد ا کہیں موجود نہیں ۔ یہ اور ایسے سب کفریہ کلمات خالق کائنات اپنے بڑے ظرف کی وجہ سے برداشت کرتا ہے ،مگر اس کی پکڑ آنے کے بعد یہ   کفر بکنے والے پانی کے ایک بلبلے سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ ہرزہ سرائی کرنے والے مغرور شیطان ہر دور میں فنا کے گھاٹ اُتر جاتے ہیں اور حقیقت و صداقت اپنی جگہ موجود رہتی ہے اور مشکل ترین حالات میں بھی اپنا وجود برقرار رکھتی ہے ۔

جہاد ِافغانستان کے دور میں اسلامی لٹریچر آہنی دیواروں کو توڑ کر روسی سرزمین میںداخل ہوگیا تھا ۔ اس زمانے میں جب یہ رپورٹس نظر سے گزرتی تھیں تو بہت سے لوگ انھیں غیر مستند اور اکثر اسے مبالغہ آرائی سمجھتے تھے ۔آج کے روس میں تازہ ترین اعدادو شمار اور عالمی میڈیا پر آنے والے حقائق چشم کشا بھی ہیں اور ربع صدی پرانی ان رپورٹوں کی تصدیق بھی کرتے ہیں۔ آج روس کے دارالحکومت ماسکو کا ایک منظر مقامی مسلمانوں کی مشکلات اور مسائل کے باوجود بہت ہمت افزا اور حوصلہ بخش ہے ۔ اس ضمن میں حال ہی میں ماسکو سے ایک تجزیہ نگار ماریہ پانینا (Maria Panina) کا تجزیہ سامنے آیا ہے۔ وہ لکھتی ہے کہ ماسکو شہر جس کی کل آبادی ایک کروڑ ۵لاکھ ہے، میں مسلمانوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۲ لاکھ ہے ۔ تاہم ان سرکاری اعداد وشمار کو مسلمانوں کی مؤثر قومی تنظیم کونسل آف مفتیان (Council of Muftian )نے مسترد کیا ہے اور انھوں نے مسلمانوں کی تعداد ۲۰ لاکھ قرار دی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہو ا کہ روسی دارالحکومت ماسکو میں مسلمان کم وبیش ۱۸، ۱۹ فی صد ہیں ۔ یہ یورپ کی تمام آبادیوں میں مسلمانوں کا سب سے بڑا تناسب ہے ۔ اسلام کو ختم کردینے کا اعلان کرنے والے کس قدر جھوٹے اور لغو دعوے کرتے رہے تھے۔ یہ سرکاری اعداد و شمار بھی خود اس پر تبصرہ کرنے کے لیے کافی و شافی ہیں۔ ان کے مطابق بھی مسلمان ماسکو کی آبادی کا ۱۲ بارہ فی صد تو ہیں!

ماسکو کے مسلمانوں کااس وقت ایک بہت بڑ ا مسئلہ یہ ہے کہ انھیں مساجد بنانے کی  آزادی حاصل نہیں ہے ۔ ماسکو جیسے اتنے بڑے شہر اور اتنی بڑی مسلم آبادی کے لیے صرف چار مساجد ہیں۔ ان کے علاوہ مسلمان کئی چھوٹی موٹی جگہوں پر کسی نہ کسی طرح نماز کا اہتمام کرتے ہیں مگر چار جامع مساجد کے سوا کہیں نماز جمعہ ادا نہیں کرسکتے ۔ ماسکو کی سب سے بڑی مسجد سوبرنایا (Sobernaya) میں جمعہ کے روز ہزاروں کی تعداد میں نمازی آتے ہیں مگر مسجد اپنی وسعت کے باوجود تنگ پڑ جاتی ہے ۔ مسجد میں نماز یوں کو جگہ نہیں ملتی تو وہ مسجد سے ملحق گیلریوں ، دفاتر اور راہداریوں کو بھر لیتے ہیں۔ اس کے بعد باقی ماندہ لوگ مسجد سے ملحق سٹرکوں اور پارک میں صفیں بنانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ جامع مسجد کے نمازیوں میں ہر عمر کے لوگ شامل ہوتے ہیں ۔ایک نمازی عبداللہ ہاشم ابراہیم ( ابراہیموف) کی عمر ۳۰ سال ہے ، اس نے اس مسئلے پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میںباقاعدہ اس مسجد میں جمعہ پڑھنے کے لیے آتا ہوں ۔اگر میں ذرا سا بھی لیٹ ہوجاؤں اور اذان کے قریب پہنچوں تو مجھے نماز پڑھنے کے لیے کہیں جگہ نہیں ملتی ۔ میںمایوس ہوکر مسجد کے باہر کوئی جگہ تلاش کرتا ہوں ۔ ہم نے مسجد کی توسیع کے لیے باقاعدہ درخواست بھی دے رکھی ہے ، مگر اس میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔

ماریہ پانینا کے بقول: ایک نمازی عاشور اشرف (عشورؤف ) کی عمر ۶۰ سال سے زائد ہے ، اس نے اپنے سرکے سفید نقرئی بالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کس قدر زیادتی کی بات ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے ہمیں عبادت کی جگہ دینے میں بھی لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے۔ نمازِ جمعہ ہمارے دین میں بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ مسلمان اس فرض کی ادایگی کے لیے جوق در جوق مساجد کا رخ کرتے ہیں مگر یہاں پہنچ کر بہت سے نمازیوں کو مایوسی ہوتی ہے کہ مسجد میں جگہ ہی نہیں رہی۔ برف باری ہورہی ہو یا شدید طوفانی بارش ہم پورے شوق کے ساتھ اللہ کے گھر کی طرف آتے ہیں۔ مسجد کی توسیع کا مطالبہ کرکے ہم بھیک نہیں مانگتے، یہ ہمارا بنیادی شہری حق ہے ۔ انتظامیہ کو ہمارے اس مسئلے کو سرخ فیتے کے ذریعے روکنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔

اس جامع مسجد کے امام اور خطیب روس کے بڑے معروف عالم دین ہیں۔ ان کا نام حضرت مولانا علاؤ الدین (علاؤ دینوف) ہے ۔ انھوں نے اس مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اس مسجد کی توسیع کے لیے باقاعدہ رسمی کارروائی مکمل کی گئی ہے ۔ اس میں کسی قسم کا کوئی قانونی سقم نہیں ، لیکن چونکہ روس میں ہر جائز مطالبہ بھی رشوت کی آلودگی کا شکار ہو جاتا ہے ، اس لیے ساری کاروائی مکمل ہوجانے کے باوجود محض ایک بیوروکریٹ فائل پر سانپ بنا بیٹھا ہے ۔ اسے رشوت چاہیے، بھلا مسجد کی تعمیر وتوسیع میں ہم رشوت دیں؟‘‘

روس میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جہاں مسلمانوں کو پھلنے پھولنے کے مواقع حاصل ہوئے وہیں قوم پرست عناصر نے بھی خوب پر پرزے نکالے ۔ وہ قوم پرستی کی عصبیت کو اتنا بھڑکاتے ہیں کہ یہ کئی مقامات پر نسلی فسادات کا سبب بن جاتی ہے ۔ امام علاؤ الدین نے اپنے ایک بیان میںکہا کہ ہماری بڑی مساجد کو توسیع کی حقیقی ضرورت ہے ، مگر ہم محض اس پر اکتفا نہیں کریں گے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہر کاؤنٹی اور مسلمان آبادی کے ہریونٹ میں لازماً ایک مسجد ہونی چاہیے ۔ سوبرنایا جامع مسجد کے ارد گرد بسنے والی آبادی کو بھی نسل پرستوں نے خوب بھڑکایا ہو اہے ۔ ان انتہا پسندوں کے ایک لیڈر میخائل بطریموف نے مسجد کی توسیع کی شدت سے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس وقت تو ہم مسجد کے گرد و نواح میں اپنے پالتو کتے، بلیاں لے کر خوب سیر سپاٹا کرلیتے ہیں ۔مسجد کے سامنے کھلی جگہ پر ہم باربی کیو، روسٹ اور کباب پارٹیاں بھی کرلیتے ہیں ۔ مسجد کی مزید توسیع ہوگئی تو ہم اس آزادی سے محروم ہوجائیں گے ۔کسی دن خطیب صاحب یہ بھی کہیںگے کہ یہاں تم گوشت روسٹ نہ کیا کرو کیونکہ ہمارے گوشت میں سب سے بڑا جز خنزیرہے اور ان اماموں کو پتا نہیں خنزیر سے کیوں شدید نفرت ہے‘‘۔ علامہ اقبال نے تقریباً ایک صدی قبل ابلیس کی زبانی یہ اعتراف کر ایا تھا کہ اسے مستقبل میں کسی اور سے کوئی خطرہ نہیں، صرف اسلام سے ہے۔ اسلام دراصل عمل کا نام ہے اور مسلمان جب عمل کی طرف مائل ہوتا ہے تو پھر وہ ناقابلِ شکست ہوجاتا ہے۔ اسی لیے ابلیس نے کہا تھا:

کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد

یہ پریشاں روزگار ، آشفتہ مغز ، آشفتہ مُو

جانتا ہے، جس پہ روشن باطنِ ایّام ہے

مزدکیّت فتنۂ فردا نہیں، اسلام ہے

قوم پرستوں کی حامی ایک این جی او جس کا مرکز ماسکو میں ہے ، سووا (SOVA )کے نام سے رجسٹرڈ ہے ۔ یہ خود کو تھنک ٹینک کے نام سے پیش کرتی ہے اور اپنے سروے اور تجزیے اسلام مخالف لوازمے کے ساتھ پبلک میں عام کرتی رہتی ہے ۔اس گروہ نے مسجد کے علاقے میں اپنا انتخابی امیدوار بھی میخائل بطریموف کو بنا رکھا ہے ۔ وہ اس علاقے ہی میں نہیںہر اس علاقے میں جہاں مسلمانوں کی آبادی ہے، انتخابات میں کاغذات ِنامزدگی داخل کروا دیتا ہے۔ اس کے پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان یا ان کا کوئی غیر مسلم ہمدرد کامیاب نہ ہوجائے ۔ ماسکو میں ایک جانب مقامی مسلمان ہیں اور دوسری جانب وسط ایشیائی ریاستوں میں سے بھی ہر ریاست کی نمایندگی کرنے والی آبادی یہاں مقیم ہے ۔ مسلمان اور قومیت پرست ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔

کمیونسٹ خاصے منتشر اور ایک لحاظ سے غیرفعال ہوگئے تھے۔ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے بعد سے اب تک حکومتی سطح پر بھی اور کمیونسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے بھی اشتراکی ریاست کے بانی ولاڈی میرلینن کی سالگرہ اور برسی، نیز بالشویک انقلاب کا تاریخی دن منانے کی رسم تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ ۲۰ برس کے وقفے سے اس سال پہلی مرتبہ سات نومبر کو لینن کی کامیابی کی ۹۳ویں سالگرہ منائی گئی ہے۔لینن نے ۲۵؍اکتوبر۱۹۱۷ء کو زارِ روس کے محل ونٹرپیلس سینٹ پیٹرزبرگ میں داخل ہوکر بالشویک انقلاب کا اعلان کیا تھا۔ بعد میں روس کا کیلنڈر بدلا گیا تو اس انقلاب کی تاریخ ۷ نومبر قرار پائی۔ اس سال پھر کمیونسٹوں نے ماسکو میں ایک ریلی نکالی اور ۷نومبر کو اپنے فعال ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ (روزنامہ نیوز، لاہور، بحوالہ اے ایف پی، ۸نومبر۲۰۱۰ئ)

ماسکو کے اس معاشرتی و مذہبی تناظر میں مسلم کمیونٹی، قومیت پرست روسی اور کمیونسٹ بلاک سبھی اس وقت ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اس ماحول میں بعض غیر مسلم این جی او ز بھی سرگرم عمل ہیں جو غیر جانب داری سے اپنا نقطۂ نظر پیش کردیتی ہیں ۔ ایسی ہی ایک این جی او جو عالمی سطح پر معروف ہے ، ماسکو کارنیگی سینٹر کے نام سے رجسٹرڈ ہے ۔ اس کے ایک تھنک ٹینک الیکسی مالا شنکوف نے ایک تازہ رپورٹ میں اپنا تجزیہ پیش کیا تواس میں کہا کہ ماسکو کی مقامی آبادی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ماسکوعام قسم کی کوئی چھوٹی موٹی بلدیہ نہیں بلکہ کاسموپولیٹن شہر ہے جہاں کم و بیش دنیا کی ہر نسل اور تمام مذاہب کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ تشدد اور عدم برداشت کا رویہ کسی صورت بھی پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ تمام نظریات کی حامل آبادیاں اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرسکتی ہیں ۔ اس کی مخالفت تنگ نظری اور تعصب کے سوا کچھ نہیں کہلاسکتی ۔ ایک غیرمسلم اور غیر جانب دار این جی او کا یہ نقطۂ نظر ہماری راے میں یقینا خوش آیند ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ اگر ماسکو کے مسلمان خود بیدار اور منظم نہ ہو چکے ہوتے تو کوئی این جی او اور تھینک ٹھینک ان خیالات کا اظہار نہ کرتا۔

پوری دنیا میں بے شمار تھنک ٹینکس اور این جی اوز سرگرم عمل ہیں مگر ان میں غیر جانبدار اور غیر متعصب بہت کم ہیں۔ غیر مسلم دنیا میں ایسے بیش تر ادارے مسلسل یہ منفی واویلا کررہے ہیں کہ اسلام جیسا خطر ناک مذہب دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ اس میںشک نہیں کہ قبولیت ِاسلام اور مسلم آبادیوں کی افزایش روز افزوں ہے ، مگر غیر مسلم اور متعصب حلقوں کو جو چیز قدرے سکون فراہم کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان کہیں بھی حتی کہ آزاد مسلمان ملکوں میں بھی آزادانہ فیصلے نہیں کرسکتے ۔وہ غیروں کے محتاج اور دست نگر ہیں ۔ ان اسلام دشمن عناصر کو یہ بھی معلوم ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بلا شبہہ بڑھ رہی ہے مگر اسلام کے حقیقی ، انقلابی پیغام کو اپنا دستور حیات بنانے والے تعداد میں نسبتاً بہت کم ہیں ۔ اس سارے کچھ کے باوجود علامہ اقبالؒ کے بقول کسی وقت بھی یہ شیر پھر ہوشیار ہوگا اور کفر کی بالادستی کو تہہ و بالا کردے گا، جس طرح ماضی میںاس نے دنیا کی نام نہاد سوپر پاور روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا۔ آج اگرچہ بظاہر گھٹاٹوپ اندھیرے ہیں مگر روشنی اور اُمید کی کرنیں بھی پھوٹ رہی ہیں اور کہیں سے یہ صدا ضرور سنائی دے رہی ہے    ؎

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا

سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

عالمِ اسلام کی معروف تحریک الاخوان المسلمون پر ایک جامع اور تفصیلی مضمون برطانوی جریدے دی اکانومسٹ (۱۰؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)نے شائع کیا ہے۔ مضمون نگار نے اپنے تجزیے میں مختلف عرب ممالک میں سرگرمِ عمل اخوان تحریک کی حقیقی مشکلات و مسائل اور درپیش چیلنجوں کا احاطہ کرنے کی بھی کوشش کی ہے اور بین السطور اپنے دل میں چھپی مخصوص تمنائوں اور آرزوئوں کا اظہار بھی کیا ہے۔ بلاشبہہ آج پورا عالمِ اسلام کفر کی یلغار اور نرغے میں ہے۔ اسلام دشمن قوتوں کا اصل ہدف اسلامی نظریۂ حیات اور قرآن و سنت کی تعلیمات پر مشتمل وہ حقیقی تصورِ دین ہے جس سے بحیثیتِ مجموعی امتِ مسلمہ کے انحراف اورحکمران ومترفین طبقات کے فکری اور عملی لحاظ سے غیرمسلم نظریات کے سانچے میں ڈھل چکنے کے باوجود دشمنانِ اسلام خوف زدہ ہیں۔

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ امتِ مسلمہ کے درمیان احیاے دین اور نشاتِ ثانیہ کی تحریکیں مسلمان ممالک ہی میں نہیں، غیر مسلم ممالک میں بھی کسی نہ کسی انداز میں موجود ہیں۔ چومکھی لڑائی کا محاورہ پوری آب و تاب کے ساتھ آج اسلامی تحریکوں کی جدو جہدپر منطبق ہوتا نظر آتا ہے۔ آج امتِ مسلمہ کو درپیش خطرات بیرونی بھی ہیں اور اندرونی بھی۔ اندرونی خطرات سیکولر اور مغرب نواز حکمرانوں کے بھی پیدا کردہ ہیں اور نام نہاد سیکولر اہلِ دانش (intelligentsia) بھی اسلامی اقدار کے خلاف پورے لا ؤ لشکر کے ساتھ محاذ پر موجود ہیں۔ یہاں تک تو بات قابلِ فہم ہے لیکن اس سے اگلا مرحلہ یہ ہے کہ خود اسلام کا نام لینے والوں کے درمیان کئی مختلف اللّون لہریں اُٹھا دی گئی ہیں، جن کا آپس میں کوئی تال میل نہیں بلکہ بعض اوقات تو وہ ایک دوسرے سے متحارب نظر آتی ہیں۔

انٹرنیشنل اور عالم عرب کے ممالک کی سطح پراخوان المسلمون فکری، اعتقادی اور عملی لحاظ سے بہت مضبوط بنیادوں پر قائم اسلامی تحریک ہے مگر عالمی اور مقامی میدانوں میں معروضی حالات نے اسے کئی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ اکانومسٹ کا تجزیہ نگار مختلف ملکوں میں اخوان کے بڑھتے ہوئے قدم رک جانے کا تذکرہ مزے لے لے کر کرتا ہے۔ دنیا بھر میں جن ممالک کے اندر کسی بھی انداز میں انتخابات ہوتے ہیں وہاں آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کی تمام کھلاڑیوں کے لیے کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کبھی نشستیں کم ہوتی ہیں تو اگلے مرحلے میں زیادہ بھی ہو سکتی ہیں لیکن اکانومسٹ کے نمایندے نے اس تناظر میں بجا طور پر مختلف حکومتوں کی طرف سے اخوان کا ناطقہ بند کرنے کی مذموم کاوشوں کا بھی ذکرکیا ہے۔ ان ممالک میں سے اکثر میں انتخابات محض ایک ڈھونگ اور ڈراما ہوتے ہیں۔ مغرب نواز حکمران اپنی من مانی سے مخالفین کو کامیابی سے محروم کرنے کے لیے جو چاہیں کریں، مغربی دنیا خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ اسی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ جمہوریت کے یہ عاشقان اپنے دعووں میں کس قدر سچے ہیں۔

اخوان المسلمون کی بنیاد مصر میں ۱۹۲۸ء میں پڑی تھی، پھر وہاں سے یہ تحریک دوسرے ملکوں میں پھیلی۔ مصر کے بعد سب سے پہلے جس ملک میں یہ تنظیم قائم ہوئی وہ شام ہے۔ حالیہ برسوں میں سیاسی لحاظ سے جہاں اخوان کے متاثرین کو سب سے بڑی کامیابی حاصل ہوئی، وہ غزہ اور فلسطین ہیں۔ شامی حکومت اور غزہ و فلسطین کی تحریکِ آزادی حماس کے تعلقات آپس میں بہت قریبی اور دوستانہ ہیں۔ اس کی حقیقی وجہ شامی حکومت کی حماس سے محبت نہیں بلکہ علاقے کی معروضی صورتِ حال ہے۔ دوسری جانب حماس کو بھی اگرچہ شامی حکومت اور اس کی مجموعی سوچ کے علاوہ مقامی اخوان کے ساتھ اس کے رویے پر خاصے تحفظات ہیں مگر ان کی مجبوری اور مصلحت کا تقاضا ہے کہ وہ شام کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہ کریں۔ کسی عرب ملک نے انھیں اپنے ہاں وہ سہولیات فراہم نہیں کیں جو انھیں شام میں حاصل ہیں۔

شام کے جو علاقے جولان کی پہاڑیوں سمیت اسرائیل نے ۱۹۶۷ء کی جنگ میں قبضے میں لے لیے تھے اور جنھیں پوری ڈھٹائی کے ساتھ بعد میں اسرائیل کا حصہ بنادیاگیا، اس پر شامی حکومت اور عوام کو شدید قلق اور صدمہ ہے۔ اس لیے مصر اور اُردن کے برعکس شام کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات خاصے کشیدہ ہیں۔ حماس غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی ناجائز ریاست اور اس کے ظالمانہ حملوں کا جس جرأت ودلیری کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے، اس کی بدولت اُمتِ مسلمہ کے بیدار مغز مسلمانوں کے نزدیک اسے ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ اندریں حالات شام کے اخوانی، شامی حکومت کے بے پناہ مظالم کی وجہ سے جس ابتلا و آزمایش سے گزر رہے ہیں، اس کی بنا پر انھیں جہاں شام کی نصیری حکومت سے شدید نفرت ہے، وہیں حماس اور شام کے باہمی تعلقات پر بھی وہ کبیدہ خاطر ہوتے ہیں۔ شام میں اخوان کی بنیاد ۱۹۴۵ء میں پڑی تھی۔ اس کے پہلے سربراہ عالمی شہرت کے حامل عالمِ دین اور دانش ور الشیخ ڈاکٹر مصطفی السباعی تھے۔ شام میں اخوانی سربراہ کو مراقبِ عام کہا جاتا ہے۔ جب اخوان نے اپنا عالمی تنظیمی ڈھانچا ترتیب دیا تو اس میں مصری تنظیم کے سربراہ (مرشدِعام)کو تنظیم کا عالمی قائد تسلیم کیا گیا، جب کہ شام اور دیگر علاقوں کے سربراہانِ اخوان بالعموم نائب صدر مقرر کیے جاتے ہیں۔ چونکہ عالمی تنظیم ایک ڈھیلے ڈھالے ڈھانچے پر مشتمل ہے، اس لیے شام کے مخصوص حالات کے بارے میں اس فورم پر بھی کبھی کبھار بحث و تکرار کی نوبت آجاتی ہے۔

شام میں اخوان نے اپنے قیام کے بعد جمہوری دور میں انتخابی عمل میں شرکت اور جمہوری اداروں کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ شامی اخوان عملاً منتخب اداروں میں نمایندگی کرتے رہے، حتیٰ کہ بعض اوقات انھیں مخلوط حکومتوں میں وزارتی ذمہ داریاں ادا کرنے کا موقع بھی ملا۔ ان کا یہ سلسلہ کامیابی سے آگے بڑھ رہا تھا کہ بدقسمتی سے ملک فوجی آمریت اور اس کے نتیجے میں یک جماعتی سیاست کی نذر ہو گیا۔ ۱۹۴۷ء، ۱۹۵۰ء، ۱۹۵۴ء اور ۱۹۶۲ء کے انتخابا ت میں شامی اخوان نے حصہ لیا اور دستور سازی کے عمل میں بھی ایوان کے اندر اور باہر فعال کردار ادا کیا۔ ۱۹۴۸ء میں مراقبِ عام الشیخ مصطفی ا لسباعی پارلیمنٹ کے رکن تھے، جنھیں ۱۹۴۹ء میں پارلیمان میں ڈپٹی سپیکر بھی منتخب کیا گیا۔ ۱۹۶۲ء کے انتخابات میں اخوان کے ۱۳ چیدہ چیدہ راہ نما پارلیمان میں منتخب ہو گئے۔ ان میں جناب عصام العطار، عمر الخطیب، زھیر الشاویش، محمد سعید العباد، طیب خواجہ، محمد علی مشعل، شیخ عبدالفتاح (ابوغدہ)اورڈاکٹر نبیل صبحی کے اسماے گرامی قابلِ ذکر ہیں جنھیں عا لمِ عرب کے تمام پڑھے لکھے لوگ جانتے ہیں۔ اخوان کے پارلیمانی گروپ کی کارکردگی اور اہلیت کی بنا پر کچھ دیگر آزاد ارکان بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے، یہاں تک کہ ان کی تعداد ۲۰ ہو گئی۔

مختلف حکومتوں میں جو شامی اخوان وزارتی ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں ان میں خالدالعظم کی وزارتِ عظمیٰ میں جناب عمر الخطیب، ڈاکٹر نبیل اور احمد مظہر العظمہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ جب جمہوریت پر شب خون مارا گیا اور بعث پارٹی فوجی انقلاب کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آئی تو شامی اخوان پر سرزمینِ شام تنگ کر دی گئی۔ نصیری انقلاب سے قبل بھی لادین قوتیں جن میں شامی عیسائی بہت پیش پیش تھے اسلامی شعائر کے خلاف کھل کر میدان میں آچکی تھیں۔ ان کی جسارت کا حال اس سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کھلے عام اپنے منشور میں بعث پارٹی نے اپنا عقیدہ یوں بیان کیا    ؎

اٰمنت بالبعثِ رباً لا شریک لہ
و بالعروبۃ دیناً مالہ ثانی

(میں نے بعث پارٹی کو اپنا رب تسلیم کر لیا ہے اور اس میں کسی دوسرے کو شریک نہیں سمجھتا۔ عرب قومیت میرا دین ہے اور اس کا کوئی بدل نہیں)۔

یہ در اصل اس اسلامی شعر کا جواب ہے جس میں کہا گیا تھا    ؎

اٰمنت باللہ رباً لا شریک لہ
و بالاسلام دیناً مالہ ثانی

اسلامی شعائر کے خلاف بغاوت دن بدن بڑھتی چلی گئی۔ بعث پارٹی کے دورِ حکومت میں بے شمار جرائم کا ارتکاب ہوا۔ شناختی کارڈ سے مذہب اور مسلم کا خانہ خارج کر دیا گیا۔ اوقاف کی تمام املاک کو اونے پونے داموں اپنے منظورِ نظر لوگوں کے ہاتھ بیچ دیا گیا۔ حافظ الاسد کے بھائی رفعت الاسدنے قتل و غارت گری کے ذریعے پورے ملک میں خوف وہراس کا ماحول پیدا کر دیا (بعد میں حافظ الاسد نے اپنے بھائی کو اپنے اور اپنی اولاد کے لیے خطرہ سمجھا تو اسے بھی راستے سے ہٹادیا گیا)۔تعلیمی نصاب سے اسلامی مضامین خارج کر دیے گئے۔ اسلامی شعائر کا مذاق سرکاری سرپرستی میں چلنے والے رسائل و اخبارات میں روزمرہ کا معمول بن گیا۔ مجلہ الفجر نے گدھے کا کارٹون بنا کر اس کے سر پر عمامہ پہنایا۔ مجلہ الشعیب میں لکھا گیا کہ (نعوذ باللہ)اللہ اور تصورِادیان کو میوزیم میں رکھوا دینا چاہیے۔ حلب، حمص اور دمشق میں تمام اخوانی رہنمائوںاور اہلِ علم کو جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ ڈاکٹر حسن ہویدی، عبدالفتاح ابو غدہ، شیخ سعیدحوّٰی اور امین شاکر جیسی بلند پایہ شخصیات سال ہا سال جیلوں میں بند رہیں۔

اس دور سے شا می مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا ہونا شروع ہوئیں۔ ۸مارچ ۱۹۶۳ء ہی کو فوجی انقلاب کے ساتھ سیاسی پارٹیوں بالخصوص اخوان پر پابندی لگا دی گئی۔ تما م اسلامی رسائل وجرائد بند کر دیے گئے، منبر و محراب کی آزادی چھین لی گئی اور سیاسی آزادیوں کا باب مکمل  طور پر بند کر دیا گیا۔ اس عرصے میں عیسائی اور اشتراکی عناصر نے قومیت پرستوں کے ساتھ مل کر خود کو منظم کیا، فوج سے اسلامی ذہن رکھنے والے افسران کو چن چن کر نکالا گیا اورایک نصیری (علوی) جرنیل صلاح جدید کو ۲۳ فروری ۱۹۶۶ء کو فوج کے سربراہ کا منصب سونپ دیا گیا اور جرنیلوں کو وزارتوں کے قلم دان سونپ دیے گئے۔ اسی سال ایئر فورس سے تعلق رکھنے والے فوجی افسر حافظ الاسد کو وزیر ِ دفاع بنایا گیا۔ فوجی کونسل میں جو ملک کے سیاہ و سفید کی مالک قرار پائی، ۱۵ارکان تھے۔ ان میں پانچ نصیری، دو دروز، دو اسماعیلی اور چھے سنی ارکان تھے۔ بعد میں تین نصیری مزید شامل کیے گئے اور ان کے شامل ہوتے ہی ۱۹۷۰ء کا انقلاب برپا ہوا جس کے نتیجے میں حافظ الاسد (موجودہ صدر بشار الاسد کا والد) بلاشرکتِ غیرے ملک کا حکمران بن گیا۔ اس نے ۲۰۰۰ء تک بد ترین آمریت کے تحت حکومت کی اور اپنی موت سے پہلے اپنے بیٹے بشارالاسد کو تخت و تاج کا مالک قرار دے دیا۔

حافظ الاسد کے دور میں شام کے اندر اخوان پر بے پناہ مظالم ڈھائے گئے۔ جہاں کہیں اخوان نے احتجاج کیا، انھیں مسلح ایکشن کے ذریعے انتہائی سنگ دلی سے کچل دیا گیا۔ ہزاروں اخوان مردوخواتین جیل میں بند کردیے گئے۔ حلب کے شہر کو ۲۰ستمبر ۱۹۷۹ء میں شامی فوجوں نے یوں گھیرے میں لے لیا جیسے کوئی دشمن ملک اپنے مخالف پر چڑھ دوڑتا ہے اور اخوان کی بہت بڑی تعداد قتل کر دی گئی۔ دوسرے بڑے شہر حماۃ میں بھی ۱۹۸۲ء میں ایسے ہی ایک آپریشن کے ذریعے ہزاروں بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ آج تک اخوان کی ایک بڑی تعداد جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ جو لوگ ملک کے اندر موجود ہیں وہ یا تو جیلوں میں بند ہیں یا ان کے کاروبار بند کرنے اور انھیں ملازمتوں کے لیے نااہل قرار دینے کے بعد ان کا معاشی قتلِ عام کیا گیا ہے۔ داخلی طور پر یہ صورتِ حال بہت درد ناک ہے لیکن حماس کے قائد خالد المشعل اور ان کے قریبی ساتھی دمشق میں امن سے زندگی گزار رہے ہیں۔ انھیں یہ پناہ کسی دوسرے ملک میں نہیں  مل سکتی۔ کوئی شک نہیں کہ شام کے سارے شر میںسے حماس کی حمایت کا یہ پہلو ہی خیر کا ایک مظہر ہے لیکن شامی اخوان شاکی ہیں کہ عالمِ اسلام اور ان کے اپنے بھائی بند انھیں فراموش کر بیٹھے ہیں۔ مغربی ذرائع بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حماۃ شہر میں ۱۰ ہزار شہری موت کے گھاٹ اتار دیے گئے تھے۔ اکانومسٹ کے تجزیہ نگار نے اپنے مضمون میں بیان کیا ہے کہ اس سال اپریل میں اخوان نے شام کی اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی ہے، اور یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ شامی اخوان حکمران بعث پارٹی سے سودا بازی کے لیے پر تول رہے ہیں۔ شام میں چونکہ عوام کو جمہوری آزادیاں حاصل نہیں، اس لیے اخوان کی نمایندگی کہیں موجود نہیں۔ اگر عرب ملکوں میں حقیقی معنوں میں عوام الناس کو آزادانہ ماحول میسر آجائے تو مصر و شام دو ایسے ممالک ہیں، جہاں اخوان کو سیاسی میدان میں کوئی شکست نہیں دے سکتا مگر یہ مواقع کب میسر آئیں گے، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ سرِدست تو مصر میں بھی اخوان پر مزید پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں اور ان کے سیکڑوں مؤثر لوگ جیل میں بند ہیں۔

اکانومسٹ کا نمایندہ بظاہر غیر جانب دارانہ تجزیہ پیش کرتا ہے مگر یہ بیان کرتے ہوئے اس کی خوشی ڈھکی چھپی نہیں رہتی کہ سابقہ انتخاب میں مصر میں ۸۵نشستیں حاصل کرنے والے اخوان کے ارکان جو آزاد نمایندگان کے طور پر جیتے تھے، آیندہ شاید پارلیمنٹ کا منہ نہ دیکھ سکیں۔ اس نے خود ہی یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ مصر میں اخوان کے مرشدِ عام محمد مہدی عاکف (عمر ۸۱سال) حالات سے دل برداشتہ ہو گئے ہیں اور انھوںنے آیندہ سال جنوری میں قیادت سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے، جب کہ اس سے قبل تمام مرشد انِ عام تا دمِ آخر قیادت کرتے رہے ہیں۔ اس کے نزدیک اس روایت کو توڑنے کی وجہ بد دلی اور مایوسی ہے۔ یہ عجیب مغربی منطق ہے جس کی توجیہ سمجھ میں نہیں آتی۔ تاعمر قیادت اخوان کی ایک روایت ہے، یہ نہ ان کے دستور کی کوئی دفعہ ہے نہ یہ قرآن و سنت کا منصوص حکم۔ اخوان مشکلات کا شکار ضرور ہیں مگر ان کی صفوں میں کہیں کوئی مایوسی نظر نہیں آتی۔ مشکل ترین حالات میں بھی یہ لوگ پر عزم اور مستقل مزاج رہے ہیں۔

مذکورہ تجزیے میں بعض باتیں حقائق کے برعکس ہیں۔ کویت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پچھلی اسمبلی میں حامیانِ اخوان کے چھے نمایندے تھے۔ اب انھیں صرف ایک سیٹ ملی ہے۔ مراکش میں اخوان کی فکر سے متاثر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی مسلسل آگے بڑھ رہی تھی لیکن موجودہ بلدیاتی انتخابات میں چھے فی صد سے بھی کم کامیابی حاصل کرپائی ہے۔ سوڈان میں ڈاکٹر حسن ترابی کو حکومت نے اقتدار سے بہت دُور کر دیا ہے، جب کہ تجزیہ نگار کے مطابق اردن اور غزہ میں بھی اخوان کے سیاسی مستقبل کا ستارہ گردش میں نظر آتاہے۔ غزہ کی سابقہ ۲۲روزہ جنگ سے تجزیہ نگار کے بقول عام فلسطینی سخت نالاں ہیں کہ حماس نے بلاوجہ اسرائیل سے چھیڑخانی کرکے اپنے اور عوام کے لیے تباہی کا سامان فراہم کیا۔ یہ تجزیہ حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ بہرکیف جہاں ایسے تجزیے مغرب کی مخصوص فکر کی عکاسی کرتے ہیں، وہیں یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مسلمان معاشروں میں اسلامی سوچ کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے یا کم از کم اتنا محدود کر دینے کا منصوبہ کہ وہ بے اثر ہو کر رہ جائے مغربی تھنک ٹینکس نے گذشتہ صدی ہی میں بنا لیا تھا۔ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے مسلمان حکمرانوں کو خدمات سونپ دی گئی ہیں۔ ان حالات میں اسلامی تحریکوں کی ذمہ داریاں کئی گنابڑھ جاتی ہیں۔ اپنی صفوں میں اتحادبرقرار رکھنا اور اپنے کارکنان کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ بندی وقت کا تقاضا ہے۔ اسلامی تحریکوں کی قیادت یقینا ان تمام حالات سے باخبر بھی ہے اور چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ مغربی تجزیہ نگاروں کے تجزیے سے باخبر رہنے کے ساتھ ان سے فائدہ اٹھانے کی بھی ضرورت ہے۔

جہاں تک شامی اخوان کا معاملہ ہے، عالمِ اسلام کی جملہ اسلامی تحریکوں کو ان کے مسئلے کو زندہ کرنے کے لیے فکر بھی کرنی چاہیے اور ان کے حق میں آواز بھی اٹھانی چاہیے۔ حماس تو بے شک مجبور ہے کہ اسے بوجوہ کسی عرب ملک میں وہ سہولتیں حاصل نہیں جو شام میں حاصل ہیں۔ ان کی ضرورت ہے کہ انھیں فلسطین سے ملحق ممالک میں جاے پناہ مل جائے۔ چار ممالک ہی ایسے ہیں جو یہ جغرافیائی پوزیشن رکھتے ہیں۔ ان میں سے مصر اوراُردن تو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سے اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں اور فلسطین کی جدو جہدِ آزادی کے عملاً مخالف ہیں۔ لبنان کے اپنے مخصوص حالات اور مسائل ہیں۔ یہاں حزب اللہ اسرائیل دشمن ہے مگر اپنی مصلحتوں کے تحت   اسے شام سے بھی بنا کر رکھنا پڑتی ہے۔ اس ملک میں حزب اللہ کی عسکری و سیاسی قوت ایک حد تک  قابلِ ذکر ضرور ہے مگر وہ اقلیتی گروہ ہے۔ شام ہی ایک ایسا ملک رہ جاتا ہے جس نے حماس کو  اپنے ہاں مہمان بنایا ہوا ہے اور بیرونی دبائو کے باوجود اس پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ حماس کی حمایت ضرور ی اور فرض ہے مگر شامی اخوان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک معتدل اور متوازن پالیسی کے ذریعے حالات کا مقابلہ ممکن ہے اور یہی وقت کا تقاضا بھی ہے۔

 

وطنِ عزیزاسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین پاکستان کے تمام شہریوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ یہاں بسنے والی اقلیتیں اکثریتی آبادی کے ساتھ نہ صرف ہم آہنگ ہیں بلکہ جہاں تک سب سے بڑی اقلیت مسیحی برادری کا تعلق ہے، وہ معاشرتی اور اقتصادی لحاظ سے اکثریت کے ساتھ مشترکہ مفادات کی حامل ہے۔ دونوں آبادیوں کے درمیان فرقہ وارانہ منافرت  کی فضا، اللہ کے فضل سے، کہیں نہیں پائی جاتی۔ بعض اوقات کچھ واقعات ایسے رونما ہوجاتے ہیں کہ جس کا بروقت سدّباب اور تدارک نہ کیا جائے تو وہ شعلۂ جوالہ بن جاتے ہیں۔ یہ واقعات اتفاقی بھی ہو سکتے ہیں اور ان کے اندر کسی سوچی سمجھی سازش کے امکانات بھی ہوتے ہیں۔

۳۰ جولائی ۲۰۰۹ء کو گوجرہ، ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک ناخوش گوار واقعہ رونما ہوا،جو مسیحیوں کے خلاف مسلمانوں کے جذبات بھڑکانے کا سبب بنا۔ پھر اسی ہفتے میں ۴؍ اگست کو مریدکے ضلع شیخوپورہ میں ایک اوردرد ناک سانحہ رونما ہوا، جس میں ہنگامہ کرنے والے بھی مسلمان تھے اور اس  ہنگامے کی نذر ہونے والے بھی مسلمان۔ دونوں واقعات کی نوعیت الگ الگ بھی ہے اور ایک لحاظ سے یکساں بھی۔ گوجرہ کے واقعے میں، روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق، چک نمبر ۹۵جے بی میں عیسائیوں کی بستی میں شادی کی کسی تقریب میں طالب مسیح کے بیٹے عدنان مسیح نے کرنسی نوٹوں کے ساتھ قرآنی آیات پر مشتمل اوراق مقدسہ کو بھی ہوا میں اُچھالا۔ یہ مبینہ واقعہ کتابِ مقدس کی بے حرمتی کے مترادف تھا۔ جوں ہی بے حرمتی کی یہ خبر بستی اور اس کے گردونواح کے دیہاتوں میں پہنچی تو لوگ مشتعل ہوگئے۔ اس دوران میں عیسائی آبادی سے لوگ گھر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مشتعل ہجوم نے کچھ خالی گھروں کو آگ لگائی مگر کوئی جانی نقصان اس میں نہیں ہوا۔ اس موقع پربڑے بزرگوںاور اصحاب الراے کا ایک جرگہ فوراً میدان میں آیا اور انھوں نے بڑی حکمت و دانش سے ایک جانب احتجاجی ہجوم کو کنٹرول کیا اور دوسری جانب متعلقہ عیسائی افرادسے مطالبہ کیا کہ وہ اس واقعے پر مسلمانوں سے معذرت بھی کریں اور آیندہ ایسا جرم نہ کرنے کی یقین دہانی کرائیں، مگر مذکورہ افراد طالب مسیح اور اس کے دیگر ساتھیوں مختار مسیح اور عمران مسیح نے اس واقعے کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے معذرت کرنے سے صاف انکار کردیا۔ اس پر اشتعال اور پھیل گیا مگر ڈان ہی کی رپورٹ کے مطابق ڈی پی او انکسار خان، مقامی ایم پی اے بلال اصغر وڑائچ اور ایک مقامی عالمِ دین  مولانا نور احمد نے مشتعل ہجوم سے درخواست کی کہ وہ منتشر ہوجائیں۔ لوگوں نے اس موقع پر کہا کہ: ’’اگر ملزمان گرفتار کر لیے جائیں تو وہ منتشر ہوجائیں گے‘‘۔ ان ذمہ داران نے اس کا وعدہ کیا۔

لوگ تو منتشر ہوگئے مگر تعجب ہے کہ حکومت اور انتظامیہ نے اس معاملے میں نااہلی کا ثبوت دیا اور کوئی گرفتاری عمل میں نہ لائی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے روز جمعہ کی نماز کے بعد مختلف مساجد سے احتجاجی مظاہروں کے شرکا مین روڈ پر آئے، انھوں نے روڈ بلاک کی اور جب عیسائیوں کی بستی کی طرف بڑھنے لگے تو وہاں سے فائرنگ کی گئی۔ فائر کرنے والے کون تھے، یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا۔ عینی شاہدین اور علاقے کے سنجیدہ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سات آٹھ نقاب پوش تھے، جن کے پاس کوئی ایسا آتش گیر مادہ تھا کہ وہ پہلے یہ مواد پھینکتے، پھر آگ لگاتے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ آگ گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔ مقامی لوگوں کے مطابق جس طرح بے نظیربھٹو کے قتل پر جگہ جگہ خاص ٹیکنیک سے فوری آگ لگائی گئی تھی اور پھر جس طرح گذشتہ سال کراچی میں وکلا کو ان کے چیمبر میں جلایا گیا تھا، بالکل ایسا ہی انداز اس واردات میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ پڑوسی ملک کے بارے میں ہمارے حکمران بار بار یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس کے ایجنٹ ہمارے ملک میں دخل اندازی کررہے ہیں۔ ممکن ہے یہ انھی کا کارنامہ ہو۔ عیسائی آبادی کے اکثر و بیش تر گھر تو خالی تھے لیکن جن گھروں میں لوگ موجود تھے وہ نکلنے میں کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ آتش گیر مادہ ایسا سریع شعلہ انگیز تھا کہ اس نے فوراً ہی ہر چیز کو بھسم کر کے رکھ دیا۔

اس دوران میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی وزرا دوست محمد کھوسہ،    خلیل طاہر سندھو، کامران مائیکل، شہباز بھٹی اور این جی اوز کے کئی نمایندگان یہاں کے چکر لگاتے رہے مگر جرگے کے فیصلے کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کی طرف کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ اگر ان لوگوں کو حراست میں لے لیا جاتا تو ایک جانب بہت سی قیمتی جانیں بچ جاتیں اور دوسری جانب مشتعل لوگوں کے جذبات بھی ٹھنڈے ہوجاتے اور قانونی و عدالتی کارروائی سے سب کا اطمینان ہوجاتا۔ عجیب بات یہ ہے کہ مرکزی وزیر اور عیسائیوں کے نمایندے شہباز بھٹی صاحب نے این جی اوز کی معیت میں اس واقعے کو بنیاد بنا کر تحفظ ناموس رسالت ایکٹ (۲۹۵سی) کے خلاف فضا پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور شہباز بھٹی نے اپنے اخباری بیانات میں کہا کہ قرآن پاک کی تو سرے سے کوئی توہین ہی نہیں ہوئی۔ ان غیر ذمہ دارانہ بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بھی بعد از خرابیِ بسیار یہاں آئے۔ ان پر عالمی عیسائی تنظیموں اور این جی اوز نے بے انتہا دبائو ڈالا۔ یہاں آکراصحابِ اقتدار نے متاثرین کے لیے معاوضہ جات کا اعلان کیا مگر یہ مسائل کا حل، نہ کل تھا نہ آج ہے۔ اصل میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عمل داری ہی سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

جہاں تک دفعہ ۲۹۵سی ، کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ توہینِ رسالتؐ کا یہ ایکٹ جہاں ایک جانب مقدس ہستیوں اور الہامی کتب و مقدسات کے تقدس کے لیے ضروری ہے، وہیں اس کے نتیجے میں لوگوں کی جان و مال کو بھی تحفظ ملتا ہے۔ اسی تناظر میں ایک مرکزی وزیر (براے حقوق انسانی) میاں ممتاز عالم گیلانی نے کہا ہے کہ حکومت توہینؐ رسالت قانون میں ترمیم کرنا چاہتی ہے۔      یہ بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز ہے۔ وزیر موصوف کا مبلغ علم یہ ہے کہ انھوں نے  پانچ الہامی کتابوں پر ایمان لانے کا فتویٰ صادر کیا۔ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے مذہبی ہم آہنگی کے نام پر دفعہ ۲۹۵ سی کو تبدیل کرنے کا اعلان ہے۔ واضح رہے کہ یہ دفعہ تمام انبیاے کرام اور جملہ الہامی کتابوں کو تقدس فراہم کرتی ہے اور ہرگز مذہبی ہم آہنگی میں کسی قسم کی رکاوٹ اور رخنے کا باعث نہیں ہے۔

گوجرہ کا یہ سانحہ تو دو مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان تھا، جس پر این جی اوز اور   سیکولر حلقے اپنی پرانی رٹ لگا رہے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے لیکن مرید کے کا واقعہ تو اکثریت و اقلیت اور مسلم مسیحی آبادی کا معاملہ نہیں۔ لا قانونیت کے اس واقعے میں تو ایک نیک اور پرہیز گار مسلمان شیخ نجیب ظفر اور اس کی فیکٹری میں کام کرنے والا ایک غریب مسلمان مزدور مزمل شاہ بے ہنگم ہجوم کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے۔ اس واقعے کے پیچھے چند شر پسند عناصر کا ہاتھ ہے۔ شیخ نجیب ظفر مریدکے، کے قریب کٹھیالہ ورکاں میں ایسٹ لیدر فیکٹری کے نام سے چمڑے کا کارخانہ چلا رہے تھے، اپنے کاروباری حریفوں، فیکٹری کے ایک شرپسند ملازم کی شرارت اور بعض مذہبی جہلا کی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں اس حادثے کا شکار ہوئے۔ تفصیلات کے مطابق قاسم مغل نامی ملازم ورکرز یونین کا نمایندہ بن کر ملازمین کے معاوضوں میں اضافے اور خود اپنے مفادات کے لیے مہمات چلاتا رہتا تھا۔ اسے کارخانے کے مالک سے پرانی عداوت بھی تھی۔ اسی نے شیخ نجیب ظفر سے ملاقات کی اور وہاں سے باہر نکلتے ہی شور مچا دیا کہ کارخانہ دار شیخ نجیب ظفر نے کیلنڈر پر لکھی ہوئی آیاتِ قرآنی کی بے حرمتی کی ہے۔ موبائل فون کے علاوہ بستی کی مساجد میں جاکر بھی یہ اعلان کر وایا گیا اور غیر ذمہ دار مؤذنین اور آئمۂ مساجد نے بلاتحقیق یہ اعلانات کر دیے۔ شیخ نجیب ظفر کے جاننے والے تمام لوگ گواہی دیتے ہیں کہ وہ   انتہائی نیک، مخیر اور متقی انسان تھا۔ اس کے خلاف شرپسندوں نے بے ہنگم ہجوم اکٹھا کیا اور فیکٹری پر    ہلہ بول دیا۔ سیکورٹی گارڈ نے جب انھیں روکنا چاہا تو ہجوم نے فائرنگ شروع کردی۔ ایک  سکیورٹی گارڈ مزمل شاہ اور فیکٹری کا مالک نجیب ظفر فائرنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہوگئے۔   پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق نجیب ظفر کے جسم میں دو گولیاں پیوست ہوئی تھیں۔

پاکستان میں اس طرح کے دل دوز واقعات کئی بار وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ ۲۱؍ اپریل ۱۹۹۴ء کو گوجرانوالہ میں جماعت اسلامی کے بزرگ رکن     مستری حبیب اللہ مرحوم کے ۳۶ سالہ حافظ قرآن بیٹے سجاد فاروق کو کھیالی میں شرپسندوں نے ایک ہجوم کی صورت میں حملہ کرکے شہید کر دیا تھا۔ وہ حافظِ قرآن بھی تھے اور جامعہ عربیہ گوجرانوالہ سے  فارغ التحصیل ہونے کے علاوہ ہومیو پیتھک ڈاکٹر بھی تھے۔ نہایت نیک طینت اور ہمدرد، ہر وقت باوضو، پانچ وقت کے نمازی ،فارغ اوقات میں تلاوت قرآن میں ہمہ تن مصروف، کلینک پر آنے والے غربا کو مفت دوا دینا اور اپنے محلے میں غلط کاروں پر نظر رکھنا، ان کی صفات تھیں۔ علاقے کے کچھ شرپسند لوگوں نے ان پر الزام لگایاکہ انھوں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے۔ اس    صالح نوجوان کی خوبیوں کا تفصیلی تذکرہ اس کی شہادت پر کئی کالم نگاروں نے کیا۔ ہفت روزہ زندگی لاہور کی اشاعت ۳۰؍اپریل ۱۹۹۴ء میں ابو شیراز نے خود گوجرانوالہ میں اہلِ محلہ کی   کثیر تعداد سے انٹرویو کرنے کے بعد جو مضمون لکھا، اس میں مرحوم کی زندگی ایک مثالی مسلمان اور سچے عاشقِ رسولؐ کی خوب صورت تصویر پیش کرتی ہے۔ فسادیوں کے حملے کے وقت حافظ سجاد  سورۃ یٰسٓ کی تلاوت کر رہا تھا۔ ان واقعات کو بنیاد بنا کر دفعہ ۲۹۵ سی کے خلاف فضا بنانا شرپسندی اور اسلام دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے پرانے سانحات ہوں یا گوجرہ اور مریدکے میں ہونے والے تازہ واقعات، سبھی لا قانونیت کی بد ترین مثالیں ہیں۔ قانون ہاتھ میں لے کر اور عوامی ہجوم کے بل پر انصاف(Mob Justice) کا کوئی تصور اسلام میں ہے، نہ پاکستان کی دستوری و قانونی دستاویزات کے اندر اس کی کوئی گنجایش ہے۔ مریدکے میں تو شر انگیزوں کے ہاتھوں سب کچھ بلااشتعال ہوا ہے، جب کہ گوجرہ میں آتش زنی اور قتلِ انسانی کا بہت بڑا اور قابلِ مذمت جرم ہونے کے باوجود اس میں اشتعال کا ایک سبب موجود تھا، جس سے نکلنے کا راستہ جرگے نے متعین کیا تھا مگر حکومت اور انتظامیہ اپنے فرائض ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔

بعد از خرابیِ بسیار حکومت پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ سے عدالتی تحقیقات کی درخواست کی تو ہائیکورٹ نے سیشن جج مقبول احمد باجوہ کو سانحۂ گوجرہ کی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی۔ گوجرہ کے واقعے کی پوری اور تفصیلی تحقیق ہونی چاہیے۔ جن لوگوں کا جو جو جرم ہے، اس کا تعین اور اس جرم کے مطابق ملزموں کو عدالتی سزا ملنی چاہیے۔ جہاں تک مریدکے، کے سانحے کا تعلق ہے، اس میں ملزمان کی کافی حد تک نشان دہی ہوچکی ہے۔ شیخوپورہ کے ڈی پی او، رائے طاہر حسین نے وقوعہ کے روز ہی اخباری نمایندوں کو بتایا کہ ۲۴افراد موقع پر گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ پولیس کے مطابق اصل سرغنہ قاسم مغل کے علاوہ گائوں کی مسجد کا امام مولوی شبیر بھی اشتعال انگیزی کا سبب بنا۔ اسی طرح روزنامہ ڈان نے ۵؍ اگست کی اشاعت میں یہ رپورٹ بھی شائع کی ہے کہ وقوعہ سے دو ہفتے قبل  شیخ نجیب ظفر کے کچھ شراکت کاروں کا بھی اس سے ایک کاروباری تنازعہ ہوا تھا۔ واقعے میں ان کے ملوث ہونے کا شبہہ بھی کیا جارہا ہے۔ عدالتی ذرائع سے اس کی تحقیق بھی ہونی چاہیے اور جو لوگ موقع سے پکڑے گئے ہیں، ان کو بھی مکمل تفتیش کے بعد دہرے قتل کے اس جرم میں قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔

اس طرح کے واقعات ملک کی سا لمیت اور عوام کی جان و مال کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔ ان کا سدِباب بہت ضروری ہے۔ اس ضمن میں چند اقدامات ناگزیر ہیں: (۱)مقدس شخصیات اور مذہبی مقدسات کے خلاف ہرقسم کی توہین آمیز حرکات کو قانون کے مطابق کچلنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی غیر ملکی ایجنٹوں کا قلع قمع اور اسلام دشمن این جی اوز کو بھی ان کی حدود میں پابند کرنا ضروری ہے۔ (۲) اشتعال انگیزی اور لاقانونیت کا پرچار اور جرم کا اقدام کرنے والے عناصر سے بھی سختی سے نمٹنا اور قانون کے مطابق ان کو سزائیں دینا، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔ (۳) سب سے اہم بات یہ ہے کہ انتظامیہ اپنی فرض شناسی کا اہتمام کرے اور اداے فرض میں سستی اور کوتاہی کرنے والے افسران کو ہر گز معاف نہ کیا جائے۔(۴) قانون  نافذ کرنے والے ادارے اور امن و امان کی ذمہ دار پولیس فورس کو محض حکمرانوں کی خدمت اور  ان کے مخالفین کی تادیب کے بجاے اپنے فرائض ادا کرنے کا پابند بنایا جائے۔ (۵) وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزیر کے اُس بیان کی سرکاری سطح پر تردید کی جائے جس میں ۲۹۵ سی کو تبدیل کرنے کی بات کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ قانون جہاں توہینِ رسالتؐ جیسے سنگین اقدامات کی روک تھام کا ذریعہ ہے، وہاں مقدس ہستیوں کے تقدس اور احترام کو ممکن بناتا ہے،   نیز لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کا بھی ذریعہ ہے۔ مسئلے کی حساسیت اور نزاکت کے پیش نظر اسے مؤثر بنانے کی ضرورت ہے نہ کہ مغربی دبائو کے تحت اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔

 

صومالیہ میں خد ا خدا کر کے ایک ایسی حکومت وجود میں آگئی ہے جس سے صومالی اور دیگر افریقی ممالک کے لوگوں کو امید بندھ گئی ہے کہ طویل خانہ جنگی، افراتفری اور انتشار کے بعد صومالیہ کے حالات سنبھل جائیں گے اور نفاذِ شریعت کی طرف بھی پیش رفت ہوسکے گی۔نئی حکومت کے سربراہ ۴۵ سالہ شیخ شریف احمد معتدل، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روحانی سلسلے اویسیہ کے راہ نما ہیں۔ انھوں نے اپنی پارلیمان سے مشاورت کے بعد ایک اور نوجوان عمر عبدالرشید علی شرمارکے، کو وزیراعظم نامزد کیا ہے۔ وہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ، ماہر سفارت کار، اور ملک کے پہلے صدر عبدالرشید علی شرمارکے، کے فرزند ہیں۔ صدر شرمارکے، کو فوجی انقلاب کے دوران قتل کر دیا گیا تھا۔ مرحوم کے بارے میں عام صومالی اب تک اچھی رائے رکھتے ہیں۔ نئی حکومت کے سامنے بہت بڑے چیلنج ہیں۔ موجودہ حالات میں صومالیہ پر حکومت کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ فی الحقیقت کانٹوں کا تاج ہے جو ان دونوجوانوں نے سر پر سجالیا ہے۔ اللہ ان کی مدد کرے۔

صومالیہ براعظم افریقہ کا پس ماندہ ترین ملک ہے، جس کی آبادی ۱۰۰ فی صد مسلمان ہے۔ قرنِ افریقہ میں واقع یہ ملک ۶ لاکھ ۳۷ ہزار ۶سو ۵۷ مربع کلومیٹر رقبے کو محیط ہے، جس میں سے بہت بڑا حصہ صحرائی اور بالکل بنجر ہے۔ کچھ پہاڑی علاقے بھی ہیں اور ساحلِ سمندر کے ساتھ بھی ۶ہزار ۳ سو کلومیٹر لمبی پٹی لگتی ہے، جس میں خلیج عدن، بحیرہ عرب اور بحرہند کے ساحل شامل ہیں۔ جوبا اور شبلی نامی دو دریا بھی اس ملک سے گزرتے ہیں لیکن ان سے کوئی خاطرخواہ زرعی و صنعتی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اُونٹ، بھیڑبکری اور گائے پالتو جانور ہیں۔ بیش تر لوگ چرواہے ہیں۔ یورینیم اور تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں مگر ابھی تک انھیں حاصل کرنے کا کوئی جامع منصوبہ عمل میں نہیں لایا جاسکا۔

صومالیہ کو برطانوی اور اطالوی استعمار سے ۱۹۶۰ء میں آزادی ملی۔ آزادی کے فوراً بعد صومالیہ کی اپنے ہمسایے کینیا سے سرحدی علاقوں کے تنازع پر جنگ چھڑ گئی جس میں دونوں ملکوں کا خاصا نقصان ہوا مگر صومالیہ کے متنازع علاقوں پر برطانیہ، امریکا اور عالمِ مغرب کی اشیرباد سے کینیا کا قبضہ تسلیم کرلیا گیا۔ صومالیہ کا پہلا صدر عبدالرشید علی شرمارکے، ایک صاف ستھرا سیاست دان تھا مگر طبعاً کمزور تھا۔ اس لیے ملک میں بدنظمی اور کرپشن کی وجہ سے عدمِ اطمینان پیدا ہوا۔ ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج کے سربراہ میجر جنرل محمد زیاد برّے نے ۱۵ اکتوبر ۱۹۶۹ء کو بغاوت کرکے ملک پر قبضہ کرلیا اور صدر شرمارکے، کو قتل کردیا گیا۔ یوں ملک پر فوجی آمریت مسلط ہوئی جو ۱۹۹۱ء تک قائم رہی اور جب اس کا خاتمہ ہوا تو صومالیہ بدترین خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا۔

آمریت ملکوں اورقوموں کے لیے ہمیشہ زہرِقاتل ثابت ہوتی ہے۔ زیاد برّے کے ملک سے فرار ہو جانے کے بعد اب تک کوئی متحدہ حکومت صومالیہ میں قائم نہیں ہوسکی۔ وقتاًفوقتاً مختلف مسلح گروہ اور قبائلی لشکر دارالحکومت مقدیشو پر قابض ہوتے رہے مگر پورا ملک ایک حکومت کے تحت متحد ہونے کے بجاے مختلف گروپوں کے زیرتسلط رہا۔ کینیا کے ساتھ صومالیہ کے تعلقات معمول پر آئے تو بدقسمتی سے اس کے شمالی ہمسایے ایتھوپیا سے نئی جنگ چھڑ گئی۔ ادھر ایتھوپیا میں ہیلے مینگستو کا تختہ اُلٹ کر میلس زیناوی (Meles Zenawi) برسرِاقتدار آگیا، اور یہ اسی طرح امریکی مہرہ ہے جس طرح پاکستان اور افغان حکمران۔ امریکا کے اشارے پر ایتھوپیا کی فوجیں اگست ۲۰۰۱ء میں صومالیہ میں امن قائم کرنے کے بہانے داخل ہوئیں جوچند ماہ قبل تک وہاں موجود رہی ہیں اور بے پناہ قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا ارتکاب کرتی رہی ہیں۔

صومالیہ میں بہت سے جنگ جُو سردار اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیںقائم کیے بیٹھے تھے۔   فرح عدید ۱۹۹۲ء میںمقدیشو پر قابض تھا۔ اس نے امریکی فوجیوں کو پکڑ کر مقدیشو کی سڑکوں پر گھسیٹا تھا جس کے نتیجے میں امریکی تو وہاں سے دم دبا کے بھاگ گئے مگر انھوں نے ایتھوپیا کے ذریعے صومالیہ سے خوب انتقام لیا۔ افریقی اتحاد کی تنظیم (OAU) اور دوسری عالمی تنظیموں نے کوشش کی کہ صومالیہ میں اتفاق راے پیدا ہوجائے اور امن و امان کی کوئی صورت بن سکے مگر یہ تمام کوششیں صومالیہ کے اسلام پسند حلقوں کو مجوزہ سیٹ اَپ سے خارج کرنے پر مرتکز رہیں۔ صومالی اپنی طبیعت کے لحاظ سے افغانوں سے بہت مشابہت رکھتے ہیں۔ اگر ہم صومالیہ کو افریقہ کا افغانستان کہیں تو   یہ غلط نہ ہوگا۔ صومالی جفاکش اور بہادر قوم ہیں اور اسلام سے محبت ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔

اگست ۲۰۰۴ء میں عالمی اداروں کے دبائو کے تحت مختلف گروپوں کے درمیان کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ایک معاہدہ طے پایا جس میں ۲۷۵ نامزد ارکان پرمشتمل ایک پارلیمان وجود میںآئی۔ دو ماہ بعد نیروبی ہی میں صومالیہ کے نیم خودمختار صوبے ارض البنط (pant land) کے راہنما عبداللہ یوسف کو وفاقی حکومت کا عبوری صدر بنا دیا گیا جو امریکا کا منظورِنظر تھا۔ صاحب ِموصوف نے نیروبی ہی میں اپنے منصب کا حلف اٹھایا اور اسی دن افریقی یونین سے درخواست کردی کہ وہ ۲۰ہزار فوجی صومالیہ میں امن قائم کرنے کے لیے بھیجے۔ چونکہ اس نئے صدر کی ذاتی شہرت بھی اچھی نہیں تھی اور ملک میں عمومی حمایت سے بھی وہ محروم تھے، اس لیے زیادہ دیر اپنا مصنوعی اقتدار قائم نہ رکھ سکے۔ اس عرصے میں نفاذِ شریعت کے لیے ملک میں اسلامی عدالتوں کے نام سے ایک تحریک چل رہی تھی جو دن بہ دن لوگوں میں مقبول ہورہی تھی۔ اسلامی عدالت اتحاد نے صرف ۴ ماہ کی لڑائی کے بعد جون ۲۰۰۶ء میں دارالحکومت مقدیشو اور دیگر اہم مقامات پر قبضہ کرلیا۔ ان لوگوں نے تھوڑے عرصے میں امن و امان کی حالت بہت بہتر بنا دی۔

اس دور میں بھی موجودہ صدرِ مملکت، اسلامی عدالت یونین کے چیئرمین شیخ شریف احمد کو وسیع تر مشاورت میں صدرِ مملکت بنانے کا فیصلہ ہوا تھا مگر امریکی سرپرستی میں قائم عبوری پارلیمنٹ مقیم نیروبی نے اسلامی انتظامیہ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور ایتھوپیا اور امریکا کو مداخلت کی دعوت دی۔ اس کے بعد حبشہ کی فوجی پیش قدمی شروع ہوئی۔ امریکا کی مکمل سرپرستی میں دسمبر ۲۰۰۶ء میں حبشہ کے زمینی حملے کے ساتھ ہی امریکی گن شپ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے فضائی حملے شروع ہوگئے اور یوں صومالیہ کا امن پھر تباہ و برباد ہوگیا۔ اس طرح ایتھوپیا (عملاً) اور امریکا (بالواسطہ) ملک پر مسلط ہوگئے۔ اسی عرصے میں مسلم نوجوانوں کی ایک تنظیم ’الشباب‘ کے نام سے وجود میں آئی۔ امریکا نے اسے القاعدہ کی ایک شاخ قرار دیا۔ بدقسمتی سے الشباب اور اسلامی عدالت اتحاد نے اپنے اپنے راستے الگ کرلیے جس سے اسلام پسند قوتیں کمزور ہوئیں۔ صومالیہ کے حالات سے باخبرتجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ الشباب میں کچھ عناصر باہر سے داخل (induct) کیے گئے تھے جو اس اختلاف کے شعلوں پر تیل چھڑک رہے تھے۔ یوں مفاہمت کی ہر کوشش دم توڑ گئی۔

ستمبر ۲۰۰۷ء میں اریٹیریا کے دارالحکومت اسمارا میں اسلام پسندوں کا ایک نیا اتحاد وجود میں آیا، جسے انھوں نے اتحاد براے آزادیِ نو صومالیہ (Alliance for the Re-liberation of Somalia) کا نام دیا۔ امریکا کے منظورِنظر صدر عبداللہ یوسف نے نومبر ۲۰۰۷ء میں نورحسن حسین کو وزیراعظم نامزد کیا لیکن صومالیہ پر کوئی حقیقی رٹ قائم کرنے میں یہ حکومت بُری طرح ناکام رہی۔ صدر اور وزیراعظم ایک دوسرے سے برسرِپیکار ہوگئے۔ دسمبر ۲۰۰۸ء میں صدر نے وزیراعظم کو معزول کردیا اور محمود محمد گلید کو وزیراعظم نامزد کیا گیا مگر پارلیمان نے اس کے تقرر کو مسترد کردیا۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ اتحاد براے آزادیِ نو صومالیہ کی شرکت کے بغیر مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

صدر عبداللہ یوسف، ذلیل و رسوا ہوکر ۲۹دسمبر ۲۰۰۸ء کو صدارت چھوڑ کر گوشہ نشین ہوگیا۔ نئے فارمولے کے تحت ۳۱ جنوری ۲۰۰۹ء کو جبوتی میں ایک نئی عبوری پارلیمنٹ وجود میں آئی، جس میں ۲۰۰ ارکانِ اسمبلی اسلامی گروپوں سے اور ۷۵ مختلف قبائل سے نامزد کیے گئے۔ ہرقبیلے کو اس کے حجم کے مطابق نمایندگی دی گئی۔ اس اجلاس میں کثرت راے سے شیخ شریف احمد کو صومالیہ کا   نیا صدر چن لیا گیا۔ اپنے انتخاب کے بعد انھوں نے متوازن اور معتدل انداز میں ملکی بحران کو    قومی اتفاق راے سے حل کرنے کا اعلان کیا۔ ۱۹۹۱ء کے بعد سے یہ اس شورش زدہ ملک کی پندرھویں حکومت ہے۔ اس کی کامیابی و ناکامی کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ ’الشباب‘ نے اس نئے سیٹ اَپ کو قبول نہیں کیا اور بعض علاقوں میں ان کازور ہے۔ الشباب کی قیادت ایک نوجوان شیخ حسن ظاہر اویس کر رہے ہیں جو ایک بہادر اور جنگ جُو نوجوان ہیں اور امریکا نے ان کے سر کی قیمت مقرر کر کے انھیں اشتہاری ’دہشت گرد‘ قرار دیا ہوا ہے۔

۷ فروری ۲۰۰۹ء کو شیخ شریف احمد مقدیشو میں اپنی عبوری پارلیمنٹ کے ساتھ تشریف لائے تو ہزاروں لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ شیخ شریف البغال قبیلے سے ہیں جو معروف اور محترم سمجھا جاتا ہے۔ وہ جولائی ۱۹۶۴ء میں پید ا ہوئے۔ انھوں نے اپنی تعلیم لیبیا اور سوڈان میں مکمل کی۔ سوڈان میں قیام کے دوران وہ اخوان کی دعوت سے بھی متاثر ہوئے۔ وہ معتدل مزاج اور نیک نفس انسان ہیں۔ بیش تر صومالیوں کی طرح شیخ شریف بھی حافظ قرآن ہیں اور اویسی سلسلے کے روحانی پیشوا ہیں۔ انتہائی ملنسار، بُردبار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ صومالی صدر خود کو استاد (معلم) کہلانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان کا تخصص علومِ جغرافیہ میں ہے۔ شیخ شریف کے بارے میں عام تجزیہ نگار پُرامید ہیں کہ وہ مسائل کو حل کرلیں گے۔

شیخ شریف نے حلف اٹھانے کے بعد جبوتی میں ارکانِ پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا اور اتفاق راے سے ایک نوجوان عمر عبدالرشید علی شرمارکے، کو پارلیمنٹ کا وزیراعظم نامزد کیا ہے۔ موصوف ایک سابق سفارت کار ہیں جو اقوام متحدہ میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ امریکا کے تعلیم یافتہ ہیں اور صومالیہ کے ناگفتہ بہ حالات کی وجہ سے کینیڈا میں منتقل ہوگئے تھے۔ انھیں ایک ماہ کے اندر کابینہ نامزد کرنا ہوگی، جس کی منظوری پارلیمنٹ سے ضروری ہے۔ ان کا تعلق ایک بڑے قبیلے دارود سے ہے۔ وہ آزاد صومالیہ کے پہلے صدر کے بیٹے ہیں۔ صدر اور وزیراعظم کو عمومی طور پر لوگوں کی حمایت حاصل ہے مگر ’الشباب‘ تنظیم نے صدر کے بارے میں تو زیادہ سخت تبصرہ نہیں کیا تھا البتہ نامزد وزیراعظم پر شدید الفاظ میں تنقید کی ہے۔ دوسری جانب یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ امریکا نامزد وزیراعظم کوقبول کر لے گا مگر شاید نومنتخب صدر کو زیادہ عرصہ برداشت نہ کرسکے۔ شیخ شریف ایتھوپیا کو بھی سخت ناپسند ہیں۔ حبشہ کی فوجوں کی یلغار کے بعد شیخ شریف کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی تھی۔

تقریباً ۹۰ لاکھ آبادی پر مشتمل یہ وسیع و عریض خطہ بدحالی، خانہ جنگی، قحط سالی اور قتل و غارت گری کی وجہ سے بدترین بحران کا شکار ہے۔ صومالیہ کو بحری قزاقی کا بھی سامنا ہے جو تجارتی بحری جہازوں کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صومالیہ کے انتہائی دگرگوں حالات نے ہی ان لوگوں کو جرائم پر مجبور کردیا ہے۔ پوری دنیا کو صومالیہ کے مسائل پر سر جوڑ کر اس کا کوئی حل تلاش کرنا ہوگا۔ اگر یہاں امن قائم نہ ہوسکا تو بحرہند اور خلیج عدن کے تجارتی راستے مستقل خطرات کی زد میں رہیں گے۔ موجودہ حکومت سے قیامِ امن اور نفاذِ شریعت کے لیے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔

 

بنگلہ دیش ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جو ۱۶؍دسمبر۱۹۷۱ء تک پاکستان کے مشرقی بازو کے طور پر ہمارا ایک صوبہ تھا۔ اس کے بعد اس نے پاکستان سے علیحدگی اختیار کرلی اور اب ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ بنگلہ دیش کی آبادی تقریباً ۱۵کروڑ افراد پرمشتمل ہے۔ یہاں گذشتہ ۳۷ برسوں کے دوران کئی مرتبہ فوج نے براہِ راست انقلاب برپا کیا اور مارشل لا لگا کر حکومت پر قبضہ کیا۔ بعد میں فوجی جرنیلوں نے خود کو سیاسی شخصیت بنانے کے لیے  اپنی سیاسی پارٹیاں بنائیں اور ان کے ذریعے سے کئی سال حکومت کرتے رہے۔

شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد اور جنرل ضیا الرحمن کی بیوہ خالدہ ضیا بنگلہ دیش کی   عوامی لیگ اور بی این پی کی راہ نما ہیں۔ دونوں خواتین یکے بعد دیگرے وزراے اعظم رہ چکی ہیں۔ خالدہ ضیا نے یہ منصب دو مرتبہ حاصل کیا۔ ان کی حکومت کو فوج نے پُرتشدد ہنگاموں کے بعد ۲۰۰۶ء کے آخر میں برخاست کردیا تھا۔ فوج نے اس مرتبہ براہِ راست حکومت پر قبضہ کرنے کے بجاے پسِ پردہ رہ کر کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے بالواسطہ حکمرانی کا راستہ اپنایا۔ اصل اختیارات فوج ہی کے پاس ہیں۔ اس عبوری حکومت نے ملک کے بڑے بڑے تمام لیڈروں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات قائم کیے۔ خالدہ ضیا، حسینہ واجد اور بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی سب پابندِ سلاسل ہوئے۔مطیع الرحمن نظامی نے چیلنج کیا کہ عام عدالت میں ان کا مقدمہ چلایا جائے۔ عدالت سے انھیں رہائی ملی مگر ایک ماہ بعد انھیں دوبارہ جماعت کے سیکرٹری جنرل، سابق وفاقی وزیر علی حسن مجاہد کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی گرفتاری پر شدید احتجاج ہوا تو عبوری حکومت نے ایمرجنسی قوانین کے تحت جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کردی۔ ۱۶نومبر کو دونوں قائدین کی عدالت سے ضمانت ہوگئی ہے اور وہ رہا ہوچکے ہیں۔

عبوری حکومت کی کوشش تھی کہ دونوں سابق وزراے اعظم خالدہ ضیا اور حسینہ واجد کو میدانِ سیاست سے خارج کردیا جائے لیکن اس میں انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوپائی۔ اب ۲۹دسمبر۲۰۰۸ء کو عام انتخابات ہونا ہیں۔ گذشتہ پارلیمنٹ میں خالدہ ضیا کی پارٹی بی این پی کے ساتھ جماعت اسلامی اور دیگر دو پارٹیوں نے اتحاد کیا تھا، جب کہ عوامی لیگ کے ساتھ ۱۰چھوٹی پارٹیاں اتحادی تھیں۔ بنگلہ دیش پارلیمنٹ میں کُل ۳۴۵ نشستیں ہیں، جن میں سے ۳۰۰ نشستیں  براہِ راست انتخاب کے ذریعے پُر کی جاتی ہیں اور خواتین کے لیے ۴۵ مختص نشستیں منتخب ارکانِ پارلیمنٹ کے تناسب سے پارٹیوں کو ملتی ہیں۔ جنرل نشستوں پر بھی خواتین انتخاب لڑ سکتی ہیں۔ بنگلہ دیش کا     یومِ آزادی ۱۶دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان، جماعت اسلامی، البدر، الشمس اور پاک فوج کے خلاف خوب پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے عوامی لیگ اور بھارت نواز عناصر کا ہاتھ ہوتا ہے۔ میڈیا پر زہریلا پروپیگنڈا، در و دیوار پر چاکنگ، غرض ایک عجیب ماحول ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ایسی فضا میں انتخابی معرکہ عوامی لیگ ہی کے مفاد میں ہوسکتا ہے۔ جماعت اسلامی اور    بی این پی دونوں جماعتیں چند ماہ کے لیے انتخابات کے التوا کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

خالدہ ضیا اور ان کی پارٹی کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوامی لیگ کی حامی حکومت میں مشیرداخلہ (تمام وزرا مشیر ہی کہلاتے ہیں) حسین ظل الرحمن نے کافی مہارت سے عوامی لیگ کے حق میں  فضا ہموار کردی ہے۔ بی این پی کے ۱۴۰ انتخابی حلقوں کو خراب کردیا گیا ہے۔ ۱۰۰ حلقے ایسے ہیں جہاں سے بی این پی کے مضبوط امیدواروں کو مختلف الزامات کے تحت نااہل قرار دے دیا گیا ہے، جب کہ ۴۰ حلقوں کی حدبندیاں اس طرح بدلی گئی ہیں کہ عوامی لیگ کو زبردست فائدہ پہنچے۔ اس وجہ سے بی این پی کے سیکرٹری جنرل خوندکر دلاور حسین نے انتخابات کے بائیکاٹ کی بھی دھمکی دی ہے۔ اب حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ انتخابات کچھ ہفتوں کے لیے ملتوی ہوسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ۳۲ سیاسی پارٹیوں نے رجسٹریشن کرا لی ہے۔

خالدہ ضیا کی بی این پی کی اتحادی جماعتوں میں جماعت اسلامی، قومی مدارس کی تنظیم، تنظیم اتحاد الاسلامی اور جنرل ارشاد کی نیشنل پارٹی کا ایک گروپ(ناجی الرحمن) شامل تھے۔ انتخابات میں خالدہ ضیا کی پارٹی نے ۲۰۱ نشستیں جیتیں۔ جماعت اسلامی نے ۱۷ (خواتین کی نشستیں ملا کر کُل ۲۰)، اتحاد الاسلامی نے ۳ اور نیشنل پارٹی(ناجی الرحمن) نے ۴ نشستیں جیتیں۔ عوامی لیگ  کو صرف ۵۷ نشستیں ملیں۔ اس کے اتحادی صرف ۲ نشستیں حاصل کرسکے۔ باقی چند نشستیں    جنرل ارشاد کی نیشنل پارٹی اور چند ایک آزاد امیدواروں کو ملیں۔ خالدہ ضیا کے اتحاد کو پارلیمنٹ میں ۲۳۵ارکان کی حمایت حاصل تھی۔ خالدہ ضیا کی کامیابی کا دارومدار پہلے بھی جماعت اسلامی کی حمایت پر تھا اور آیندہ انتخابات میں بھی جماعت ہی کے تعاون سے وہ نشستیں جیت سکیں گی۔

ملک میں راے عامہ کے سروے یہ بتاتے ہیں کہ عوامی لیگ کی حمایت تقریباً ۳۵ فی صد ہے۔ دوسرے نمبر پر ۲۹ فی صد کے ساتھ نیشنل پارٹی ہے۔ تیسرے نمبر پر جماعت اسلامی ہے جس کے حامی ۱۷ فی صد ہیں۔ جنرل حسین محمد ارشاد کی نیشنل پارٹی چند اضلاع تک محدود ہے۔ غالباً وہ ۸سے ۱۰ نشستیں حاصل کرپائیں گے۔ باقی آبادی چھوٹی پارٹیوں اور ضلعی گروپوں کے درمیان تقسیم ہے۔ بی این پی کی دیگر دو اتحادی جماعتیں بھی مجموعی طور پر ۵سے ۶ فی صد تک حمایت رکھتی ہیں۔ عوامی لیگ کے ساتھ اتحاد میں شامل جماعتیں تعداد میں تو بہت ہیں لیکن عملاً وہ محض خانہ پُری ہے۔

عبوری حکومت کے مخصوص عزائم ہیں۔ ان کی ترجیح اول تو یہ ہے کہ اہم سیاسی شخصیات کو میدانِ سیاست سے خارج کردیا جائے اور پاکستان میں پرویز مشرف کے تجربے کے مطابق    کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے اپنی من مانی کی جائے۔ اگر یہ نہ ہوسکے تو ان کی دوسری ترجیح یہ ہے کہ بی این پی اور جماعت اسلامی کا اتحاد کسی صورت برسرِاقتدار نہ آسکے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل معین الدین احمد بھارت کا حامی ہے اور جواب میں بھارتی حکومت بھی اس کے بارے میں خاصا نرم گوشہ رکھتی ہے۔ ان جرنیل صاحب اور عوامی لیگ کے درمیان سیکولر سوچ کے علاوہ بھارت نوازی بھی ایک قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔ خالدہ ضیا اور حسینہ واجد کے درمیان گذشتہ ۱۵برس سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی بلکہ بول چال تک بند رہی ہے۔ اب دونوں راہ نمائوں کے درمیان ملاقات کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ عوامی لیگ چاہتی ہے کہ بی این پی بائیکاٹ نہ کرے کیونکہ اس صورت میں انتخابات کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا اور بی این پی کے سیکرٹری جنرل کے مطابق ایسی حکومت ایک ماہ بھی قائم نہ رہ سکے گی۔

بی این پی کوئی دینی سوچ رکھنے والی جماعت نہیں لیکن عوامی لیگ اور بی این پی کا موازنہ کیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جماعت بھارت کے مقابلے میں پاکستان سے زیادہ قریب ہے اور لادینی خیالات کی حمایت کرنے کے بجاے زبانی کلامی حد تک ہی سہی، اسلامی اقدار وشعائر کو ترجیح دیتی ہے۔ عوامی لیگ پاکستان مخالف ہے اور جماعت اسلامی کو آج تک غدارِ وطن قرار دیتی ہے۔ ان حالات میں جماعت اسلامی کی قیادت نے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سے اب تک  بڑی حکمت کے ساتھ اپنا راستہ متعین کیا ہے اور ملک کی تیسری بڑی پارٹی کا مقام حاصل کرلیا ہے۔

سابقہ کابینہ میں جماعت اسلامی کے دو وزرا تھے: امیر جماعت مطیع الرحمن نظامی اور     قیم جماعت علی حسن محمد مجاہد۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق انھی دووزرا کی وزارتوں میں قاعدے اور ضابطے کی مکمل پابندی کی گئی۔ عبوری حکومت نے بدعنوانی کے مقدمات قائم کرنے کے لیے ریکارڈ کی خوب چھان بین کی لیکن ان وزرا کے خلاف کوئی شواہد نہ تلاش کرسکی۔ ان کی وزارتوں کی کارکردگی کے اپنے اور غیر سب ہی قائل رہے۔ جماعت کی موجودہ بڑھتی ہوئی حمایت میں ان وزرا کی کارکردگی کا نمایاں حصہ ہے۔

جماعت اسلامی نے اسلامی بنک بنگلہ دیش کے ذریعے غیرسودی بنکاری کا قابلِ تحسین تجربہ کیا ہے۔ یہ بنک ملک کے تمام بنکوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب، اکاؤنٹ ہولڈرز کے نزدیک زیادہ قابل اعتماد اور مالیاتی امور اسلامی اصولوں کے مطابق انجام دینے کی وجہ سے انتہائی مقبول ہے۔ بنک نے اپنے حصہ داروں کو اچھا منافع دینے کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اس قدر رفاہی کام کیا ہے کہ تمام مخالفانہ پروپیگنڈا اس کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوا ہے۔

جماعت اسلامی نے عوامی سطح تک کسانوں اور مزدوروں کے اندر اپنی تنظیم کو منظم کیا ہے اور ملک کا کوئی حصہ ایسانہیں، جہاں انھیں مؤثر قابلِ لحاظ حمایت حاصل نہ ہو۔ جماعت اسلامی نے اپنی تنظیم میں خواتین کو بھی بڑی تعداد میں شامل کیا ہے۔ بنگلہ دیش بننے کے وقت جماعت اسلامی پاکستان کے ارکان تقریباً ۲۵۰ تھے۔ ان میں سے کئی شہید ہوگئے، جب کہ بہت سے جلاوطن بھی ہوئے۔   اس وقت مرد ارکان کی تعداد ۱۷ ہزار ۷ سو ۱۳ ہے، جب کہ خواتین ارکان کی تعداد ۶ہزار ۲سو ۱۱ ہے۔ یوں کُل تعداد ۳۰ہزار ۹ سو ۲۴ ہے۔

جماعت اسلامی نے تنظیمی اور مالیاتی شعبے کے علاوہ شعبہ ابلاغ عامہ میں بھی کامیاب  پیش رفت کی ہے۔ ملک میں موجود سرکاری اور غیرسرکاری تمام ٹی وی چینل لادین اور ہندونواز عناصر کی آماجگاہ ہیں۔ ان سب میں قدرِ مشترک اسلام، پاکستان اور جماعت اسلامی کی مخالفت ہے۔ جماعت نے کچھ عرصہ قبل اپنا چینل شروع کیا ہے جو دیگانتو(آفاق) کے نام سے پروگرام پیش کررہا ہے اور روز بروز مقبول ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہ چینل اپنا ایک روزنامہ بھی اسی نام سے شائع کررہا ہے، جس کی اشاعت اس وقت ایک لاکھ ۵۰ ہزار ہے۔

اگر مجوزہ انتخابات میں عبوری حکومت اور فوج زیادہ مداخلت نہیں کرتی تو بی این پی، جماعت اسلامی اتحاد واضح اکثریت حاصل کرسکتا ہے۔ پچھلے انتخابات میں جماعت اسلامی کو اتحاد کی طرف سے ۳۰نشستیں دی گئی تھیں جس میں سے جماعت نے ۱۷ جیتیں۔ اس مرتبہ جماعت کا مطالبہ ہے کہ اسے کم از کم ۵۰ نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے کی اجازت دی جائے۔ دیکھیے اگلے انتخابات میں برادر مسلم ملک بنگلہ دیش کی تقدیر کا کیا فیصلہ ہوتا ہے۔

اسکارف کے مسئلے کے بعد، اب ترکی سے خبر یہ ہے کہ ۱۴مارچ کو ترکی کے چیف پراسیکیوٹر نے ۱۶۲ صفحات پر مشتمل ایک فائل دستوری عدالت میں پیش کی اور پُرزور الفاظ میں عدالت سے درخواست کی کہ حکمران عدالت پارٹی سیکولر دشمنی میں تمام حدوں کو پھلانگ گئی ہے، اس پر پابندی لگائی جائے۔ یہ ۱۱ رکنی دستوری عدالت وہ حتمی ادارہ ہے جس کے فیصلوں پر نظرثانی نہیں ہوسکتی۔ اسی عدالت نے ۱۹۹۸ء میں نجم الدین اربکان اور ان کی رفاہ پارٹی کے خلاف فیصلہ دیا تھا جس میں ۹ ججوں نے فیصلے کے حق میں اور ۲ نے فیصلے کے خلاف راے دی تھی۔ کوئی بھی فیصلہ نافذ ہونے کے لیے ۶ ججوں کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ آج یہی نام نہاد عدالت اس نئے مقدمے کی سماعت کر رہی ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ نہ صرف پارٹی پر پابندی لگائی جائے بلکہ وزیراعظم اور صدر سمیت عدالت پارٹی کے ۷۱ نمایاں سیاسی رہنمائوں پر سیاست میں حصہ لینا ممنوع قرار دے دیا جائے۔
ادھر عدالت میں مقدمہ زیرسماعت ہے اور ادھر فوج اس میں کھلم کھلا مداخلت کر رہی ہے۔ چیف آف اسٹاف جنرل یاسر بوکانت نے پریس میں ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: ’’ترکی کی سیکولر حیثیت مسلمہ ہے۔ برائی کے مراکز ترک دستور کے تقدس کو پامال کرنے میں مصروف ہیں‘‘۔ عمومی خیال یہ ہے کہ دستوری عدالت منتخب حکومت کے خلاف فیصلہ صادر کردے گی لیکن اب حالات نصف صدی قبل سے کافی مختلف ہیں۔ ترک پارلیمان کے اسپیکر کوکسال توپتان نے انقرہ میں ۵جون کو ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دستوری عدالت کے لامحدود اختیارات محدود کردیے جائیں۔ ہمیں یک ایوانی پارلیمان کی جگہ دو ایوانی مقننہ کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے اور غیرمنتخب اداروں کو ایوان کے تابع رکھنا چاہیے۔
اسپیکر کی اس بات کی حمایت میں بہت سے غیر جانب دار ماہرینِدستور اور دانش ور بھی منظرعام پر آگئے۔ ڈاکٹر مصطفی سنتوب ترکی کے دستوری ماہر ہیں۔ انھوں نے کہا: ’’یہ اعلیٰ عدالت ملک و قوم کے لیے ایک مسئلہ بن گئی ہے۔ قانون ساز ادارے کے بارے میں عدالت کا فیصلہ بالکل بے وقعت ہے۔ دستوری ترامیم جب قواعد و ضوابط کے مطابق پارلیمنٹ میں منظور ہوجائیں تو ان کے اجرا کو کوئی نہیں روک سکتا‘‘۔ واضح رہے کہ ترکی کے دستور کی دفعہ ۱۴۸ کے مطابق: ’’ریاست کا کوئی ادارہ پارلیمنٹ سے برتر نہیں ہوسکتا‘‘۔
اسکارف پر پابندی ہٹانے کے خلاف سیکولر عناصر نے عدالت سے رجوع کیا تو عدالت نے اس پارلیمانی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے یونی ورسٹی کے قانون کے پروفیسر سیراب یزیجی نے کہا:’’یہ فیصلہ قانونی کم اور سیاسی زیادہ ہے۔ عدالت نے اسکارف پر پابندی لگا کر پارلیمنٹ بلکہ خود دستور پر بھی اجارہ داری حاصل کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔
یہ بحث جاری ہی تھی کہ نئے واقعات رونما ہونے شروع ہوگئے۔ یکم جولائی کو دارالحکومت انقرہ میں پولیس نے چھاپے مار کر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ۲۱ شدت پسند قوم پرست گرفتار کرلیے۔ ان میں دو معروف ریٹائرڈ جرنیل بھی شامل ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ خفیہ طریقے سے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش کر رہے تھے۔ وزیراعظم طیب اردوگان نے ان لوگوں کو   ارجن کون (Ergene Kon) سے متعلق قرار دیا۔ یہ تنظیم ترکی میں کافی بدنام ہے۔ اس سے پہلے بھی اس کے ارکان بم حملوں اور بڑی شخصیات کو قتل کر کے انقلاب برپا کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار ہوتے رہے ہیں۔ ۱۶ جولائی کو ترکی ذرئع ابلاغ کے مطابق اس تنظیم کے مزید افراد گرفتار ہوئے جس سے گرفتار شدگان کی تعداد ۵۸ تک پہنچ گئی ہے۔ عدالتوں نے ان میں سے بعض کو جن میں ایک ریٹائرڈ میجر جنرل بھی شامل ہے، ضمانت پر رہا کردیا ہے۔ اس انتہاپسند تنظیم کی حمایت انجمن افکار اتاترک (Ataturk Thought Association) بھی کر رہی ہے جس کا صدر ایک ریٹائرڈ جنرل ایروگر (Eroger) ہے۔ وہ بھی گرفتار ہے اور ہنوز زیرحراست ہے۔
ان سطور کے شائع ہونے تک ممکن ہے کہ عدالت کا فیصلہ بھی منظرعام پر آجائے۔ عدالت کو فیصلہ کرنے میں جلدی بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ کے ججوں کا تقرر صدر کے اختیار میں ہوتا ہے۔ دستوری عدالت کے تمام جج سابق صدر احمدنجدت سیزر کے دورِ صدارت میں مقرر کیے گئے تھے۔ ان میں سے بعض کو اگلے سالوں میں ریٹائر ہونا تھا اور عمومی خیال یہ تھا کہ ان کی جگہ عبداللہ گل ایسے ججوں کو مقرر کریں گے جو کم از کم شدت پسند سیکولر نہ ہوں۔
بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اردوگان حکومت نے اسکارف کا مسئلہ عجلت میں اور قبل از وقت چھیڑ کر اپنے لیے مشکلات پیدا کرلی ہیں۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن ترکی کی جدید تاریخ بتاتی ہے کہ مخالفین کے شر سے بالواسطہ ہمیشہ خیر برآمد ہوا ہے۔ اب بھی اگر عدالت اور ارتقا پارٹی پر پابندی لگتی ہے تو نیوزویک کے مطابق اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوجائے گا اور اگر عدالت پابندی نہیں لگاتی تو اس سے بھی عملاً حکومت کی جیت ہوگی اور اسے بالادستی مل جائے گی۔ اس ضمن میں ڈان ۵جولائی کا ادارتی شذرہ اور ۷جولائی کو اسی اخبار میں: ’ترکی میں جمہوریت کا معلق مستقبل‘ جوکہ گارجین لندن کے مضمون نگار مائورین فریلے (Maureen Freely) کا مضمون ہے، قابلِ ملاحظہ ہیں۔
نیوزویک کے تازہ شمارے (۲۱ جولائی) میں ترکش ڈیلی نیوز کے ڈپٹی ایڈیٹر اور مشہور تجزیہ نگار مصطفی اکیول نے ’ترکی کے خلاف سازش‘ کے عنوان سے جو تجزیہ کیا ہے اس میں لادین عناصر کی شدید مذمت کے ساتھ یہ راے ظاہر کی ہے کہ حکمران پارٹی اور اس کی قیادت پر پابندی کی صورت میں وقتی طور پر اگلی پارلیمان پھر معلق ہوگی اور نئی حکومتوں کو جرنیل اپنے اشاروں پر نچائیں گے، تاہم طویل المیعاد تناظر میں اردوگان کی پارٹی مزید مضبوط ہوگی۔
ہماری راے میں حکمران پارٹی پر پابندی لگنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اعلیٰ قیادت کو سیاست سے خارج بلکہ پابندِسلاسل بھی کیا جاسکتا ہے۔ ترکی میں اب تک ۲۵ پارٹیوں پر پابندی لگ چکی ہے۔ ان میں زیادہ تر کرد یا کمیونسٹ تھیں۔ اس سے پہلے اسلامی پارٹی پر پانچ مرتبہ پابندیاں لگیں۔ اسلامی پارٹی واحد پارٹی ہے جس پر پابندیوں سے ہمیشہ عوامی تائید میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر پابندی لگتی ہے تو یہ فیصلہ اور اس کے بعد کا منظر سیکولر طبقات کے لیے کچھ زیادہ خوش آیند نہیں ہوگا۔ ہم ترکی کے اسلام دوست حلقوں کو یہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ صبرواستقامت اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں  ع ’’شرِّ برانگیزد عدو کہ خیر ما در آں باشد‘‘۔

مصر عالمِ عرب کا بہت اہم ملک ہے۔ عالمِ اسلام کی مضبوط تحریک اسلامی، اخوان المسلمون اس ملک میں ۱۹۲۸ء میں وجود پذیر ہوئی۔ اپنے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد اس تحریک کو گوناگوں مشکلات اور مصری حکومت کے تشدد کے علاوہ عالمی قوتوں کی چیرہ دستیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ تحریک کی بنیادیں قرآن وسنت کے مضبوط اور محکم اصولوں پر اٹھائی گئی تھیں، اس لیے تحریک کی قیادت اور کارکنان نے وقت کے طوفانوں کا ایسی پامردی سے مقابلہ کیا کہ دوست اس پر جھوم  اٹھتے ہیں تو دشمن بھی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ حسن البنا شہید ہوں یا ان کے   قافلے کے دیگر شہدا، عبدالقادر عودہؒ، محمد فرغلی ؒاور سید قطبؒ سبھی آج دنیا میں روشن ستاروں کی مانند جگمگا رہے ہیں۔ تحریک کی قیادت میں حسن الہضیبیؒ سے لے کر عمرتلمسانی.ؒ تک اور مصطفی مشہورؒ سے  لے کر محمدمہدی عاکف حفظہ اللہ تک سبھی صاحبِ عزیمت تھے۔ قیدوبند کی صعوبتیں اور ظلم وستم کے کوڑے ان کے پاے استقامت میں تزلزل پیدا نہ کرسکے۔

اخوان قانون اور دستور کے مطابق تبدیلی کے علَم بردار اور خفیہ سرگرمیوں کے مخالف ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ عدالتوں میں اپنے کیس لڑے مگر بدقسمتی سے مصری حکمرانوں نے کبھی عدالتوں کو آزادانہ فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دی۔ جب جرأت مند قاضیوں نے جان جوکھوں میں ڈال کر انصاف پر مبنی فیصلے صادر کیے تو پاکستانی حکمران جنرل پرویز مشرف کی طرح مصری حکمرانوں کا کوڑا عدلیہ پر بھی برستا رہا۔ عدالتوں کے ججوں کا ضمیر اس کے باوجود زندہ ہے، اسی وجہ سے بیش تر مقدمات عسکری عدالتوں ہی میں چلائے جاتے ہیں۔ اخوان اپنے آغاز ہی سے سیاسی اور جمہوری دھارے میں شامل رہے ہیں لیکن مصری نظام نے انھیں کبھی قبول نہیں کیا۔ مصر کے گذشتہ عام انتخابات منعقدہ ۲۰۰۵ء میں اخوان سے متعلق امیدواروں نے اپنی آزادانہ حیثیت میں ساری دھاندلیوں کے باوجود ۸۸ نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے پوری دنیا کو  ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ ملک کے عام انتخابات کے بعد شیڈول کے مطابق بلدیاتی انتخابات کاانعقاد اپریل ۲۰۰۶ء میں ہونا تھا مگر مصری حکومت نے مختلف حیلوں بہانوں سے وہ انتخابات دو سال کے لیے ملتوی کردیے۔ اس التوا پر ملک بھر میں شدید احتجاج ہوا، اور مصر کی سول سوسائٹی نے کئی دنوں تک اس مسئلے کو حکومت کی بوکھلاہٹ اور بزدلی قرار دے کر بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کی تحریک جاری رکھی۔

اس موقع پر تمام تجزیہ نگار کہہ رہے تھے کہ مصری حکومت اخوان کی مقبولیت سے خوف زدہ ہوکر بلدیاتی انتخابات سے راہِ فرار اختیار کرگئی ہے۔ اس دوران حسنی مبارک نے دستور میں کئی ترمیمات کیں، جنھیں حکمران پارٹی کے انگوٹھا چھاپ قانون سازوں نے منظور کرلیا مگر سول سوسائٹی نے ان پر ہمیشہ تحفظات کا اظہار بلکہ شدید مخالفت اور احتجاج کیا۔ ان دو سالوں میں مصر میں پھر سے پکڑدھکڑ کا ایسا سلسلہ شروع ہوا، جس نے جمال عبدالناصر کے فرعونی دور کی یادیں تازہ کردیں۔ ہزاروں کی تعداد میں اخوان جیلوں میں ڈالے گئے، حتیٰ کہ ان کے ارکان پارلیمنٹ کو بھی نہ بخشا گیا۔ ظلم کی حد یہ ہے کہ اگر اخوانی اسیروں کے اہلِ خانہ کی دیکھ بھال اور معاشی مدد کے لیے کوئی صاحبِ خیر خدمت سرانجام دیتا تو اس جرم کی پاداش میں اسے بھی جیل میں ڈال دیا جاتا۔ایسے تمام کیس خصوصی ملٹری عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں۔ اخوان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمود عزت کے بقول: ایک ایسے مخیر مصری کو جس نے اسیروں کے بال بچوں سے تعاون کیا، ۵۵ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ (بحوالہ رسالہ الاخوان، شمارہ ۵۴۷، ۲۸ مارچ ۲۰۰۸ئ)

۲۰۰۸ء کے آغاز میں انھی پُرآشوب حالات میں حسنی مبارک حکومت نے ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان کردیا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ان انتخابات سے قبل اخوان کے اہم رہنمائوں کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا اور انتخابات کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر سے اخوان کے متوقع بلدیاتی امیدواروں کی پکڑ دھکڑ بھی شروع ہوگئی۔ ۸ اپریل انتخابات کی تاریخ تھی، جب کہ اس سے قبل اخوان کے ڈیڑھ سے دو ہزار کے درمیان مقامی رہنما ملک بھر کی جیلوں میں محبوس کر دیے گئے۔ تجزیہ نگاروں کے بقول حال ہی میں کی جانے والی دستوری ترمیم جس کے مطابق صدارتی امیدوار کے لیے ۹۰ ارکانِ پارلیمان اور ۱۴۰ بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کی تائید ضروری ہے، اس پکڑدھکڑ کی اصل محرک ہے۔ حسنی مبارک خوف زدہ ہے کہ کہیں اپوزیشن کا کوئی نمایاں لیڈر آیندہ انتخابات میں صدارتی امیدوار کے لیے اہلیت حاصل نہ کرلے۔

اخوان نے ان انتخابات کے لیے ۵ ہزار ۷ سو ۵۴ امیدواروں کا انتخاب کیا تھا، مگر پکڑدھکڑ اور  خوف و ہراس کی وجہ سے صرف ۴۹۸ امیدوار کاغذات جمع کرا سکے۔ آپ یہ سن کر حیران  ہوں گے کہ مصری تجزیہ نگار نبیل شرف الدین کے بقول: ان ۴۹۸ میں سے صرف ۲۰ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوسکے، باقی سب کے کاغذات ہی مسترد کردیے گئے۔ اخوان کے  نائب مرشدعام ڈاکٹر محمد حبیب نے اعدادوشمار کی روشنی میں اس صورت حال پر پریس کوبریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اب ایسے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے علاوہ ہمارے پاس اور کیا چارۂ کار ہے۔ اخوان کے علاوہ ایک اور تنظیم تحریکِ مصر براے تبدیلی (کفایۃ) نے بھی ان فراڈ انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ ان دونوں تنظیموں نے تمام سیاسی گروپوں اور آزاد امیدواران سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کردیں۔ اسی طرح ٹریڈ یونینز نے بھی ان انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔تجزیہ نگاروں کے بقول عملاً پولنگ اسٹیشنوں پر اُلّو بول رہے تھے اور حکومتی کارندے آزادانہ ٹھپے لگا رہے تھے۔

حقوقِ انسانی کی تنظیم براے عرب دنیا نے ۱۸ اپریل کو اس تشویش ناک صورت حال پر اپنے ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصر میں بدترین قسم کا سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے۔ تمام بنیادی حقوق معطل ہیں، حتیٰ کہ عسکری عدالتوں کا جو ڈھونگ رچایا گیا ہے، اس میں ملزمان کے  رشتے داروں اور وکلا تک کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ کسی فوٹوگرافر اور صحافی کو بھی ان کے قریب پھٹکنے نہیں دیا گیا۔ اگر کوئی صحافی اور کیمرہ مین وہاں پہنچ بھی پایا، تو اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ٹیپ ریکارڈر اور کیمرے تک چھین لیے گئے۔ انسانی حقوق کی اس تنظیم نے کہا ہے کہ انصاف کے عالمی ضوابط و قوانین کے علاوہ مصری دستور کی دفعہ ۱۶۹ کے تحت یہ ظلم کسی صورت گوارا نہیں کیا جاسکتا۔

ان حالات میں بظاہر حسنی مبارک نے بلدیات سے حزبِ اختلاف کا نام و نشان مٹا دیا ہے مگر مصر اور پوری دنیا کے مہذب شہری اس انتخاب کو ایک ڈرامے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دیتے۔ اخوان کے نائب مرشدعام ڈاکٹر محمد حبیب نے اخباری نمایندوں سے بات چیت کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ ہتھکنڈے نہ تو مصری حکومت کو استحکام دے سکتے ہیں، نہ      اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے حریت پسندوں کو سرنگوں کرسکتے ہیں۔ عالمی جریدے الشرق الاوسط کے تجزیہ نگاروں کے مطابق حسنی مبارک اپنے بیٹے جمال کو اپنی جانشینی کے لیے تیار کرچکا ہے۔ لیکن ان اوچھے حربوں سے حکومت اور ایوانِ صدارت کی ساکھ بُری طرح سے متاثر ہوچکی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب حسنی مبارک دور کا خاتمہ قریب ہے کیونکہ مصر میں جس قدر نفرت موجودہ حکومت سے پائی جاتی ہے، اس کی کوئی مثال ماضی میں دیکھنے میں نہیں آئی۔

بلدیاتی انتخابات کے بعد مصر میں وسیع پیمانے پر احتجاج ہو رہا ہے۔ حسنی مبارک نے    اس صورت حال کو آہنی ہاتھ سے قابو کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ملک بھر میں ۲۸ گورنروں    (ڈی سی) کا نئے سرے سے تقرر عمل میں لایا گیا ہے۔ ان میں سے ۱۲ نئے چہرے سامنے آئے ہیں، جب کہ تین کے اضلاع تبدیل کیے گئے اور ۱۳ سابقہ اضلاع ہی میں بحال رکھے گئے ہیں۔ ان سے حسنی مبارک نے گذشتہ ہفتے حلف لیا ہے اور انھیں تلقین کی گئی ہے کہ امنِ عامہ میں    گڑبڑ کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے۔ ان گورنروں نے حلف کے بعد اعلان کیا کہ ان کی ترجیحات میں ان عناصر کی بیخ کنی سرفہرست ہے جو امن و امان کا مسئلہ پیدا کریں، نیز وہ صدر کے سیاسی پروگرام کے محافظ بن کر کام کریں گے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومتی عزائم کیا ہیں۔

دنیاے علم و ادب کا درخشندہ ستارہ،تاریخ اسلام کا امین،سیرت رسولؐ اور سیرت صحابہؓ پر گراں قدر کتابوں کا مصنف ،درویش صفت اور انکسار کا پیکر ،فرزند اسلام طالب الہاشمی (۱۹۲۳ئ-۲۰۰۸ئ) ۱۶ فروری۲۰۰۸ ء کو ہم سے رخصت ہوگیا! انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔ منصورہ مسجد میں نماز فجر کے بعد اس عظیم شخصیت کی وفات کا اعلان ہوا تو تمام نمازیوں کی زبان پر  انا للہ کے الفاظ آگئے۔بیش تر لوگ مرحوم سے بالمشافہہ نہ بھی ملے ہوں تو ایک بڑی تعداد ان کے نام سے آشنا اور ان کے علمی کارناموں سے واقف تھی۔

جناب طالب الہاشمی جن کا اصلی نام بہت کم لوگوں کومعلوم ہے، ۱۲ جون۱۹۲۳ء کو     ضلع سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گائوں دھیدووالی نزد ڈسکہ میں پیدا ہوئے۔ان کے دادا مرحوم اس دور میں علاقے کے پڑھے لکھے اور معزز فرد تھے،جو مولوی نظام دین کے نام سے معروف تھے۔ مولوی صاحب کے بیٹے محمد حسین قریشی تھے جن کے ہاں اس ہونہار سپوت نے جنم لیا۔ انھوں نے اپنے نومولود کا نام محمد یونس قریشی رکھا۔

یونس صاحب کے والد چونکہ ڈاک خانے میں ملازم تھے،اس لیے ان کی ترغیب پر میٹرک کا نتیجہ آنے کے بعد ۱۹۴۳ء میں ڈاک خانے میں ملازم ہو گئے اور لاہور میں پوسٹ ماسٹر جنرل کے دفتر میں تعیناتی عمل میں آئی۔ میٹرک کے امتحان کے بعد انھوں نے فارسی اور عربی کے امتحانات: منشی فاضل اور ادیب فاضل بھی جامعۂ پنجاب سے بطور پرائیویٹ طالب علم پاس کیے۔  ان کا عربی اور فارسی کا ذوق بہت اچھا تھا۔ اپنی ملازمت کے دوران وہ معمول کے مطابق ترقی حاصل کرتے رہے اور ۴۰سال ملازمت مکمل کرنے کے بعد ۱۹۸۳ء میں ریٹائر ہوئے۔

جناب ہاشمی ،محمد یونس قریشی سے اس علمی و قلمی نام تک کیسے پہنچے،یہ بھی ایک دل چسپ کہانی ہے۔وہ کہا کرتے تھے کہ میں طالب ہاشمی نہیں،طالب الہاشمی ہوں۔میرا یہ نام محض    عرف و پہچان نہیں بلکہ یہ با معنی انتخاب ہے۔ان کے نزدیک ان کا یہ نام مرکب توصیفی نہیں، مرکب اضافی ہے۔الہاشمی سے مراد النبی الہاشمی ہے اور طالب اپنے لفظی و لغوی معنیٰ کے مطابق طلب کرنے والے،ڈھونڈنے والے اور تلاش کرنے والے کا مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے۔اگر ان کی تحریروں کو دیکھیں تو ایک ایک لفظ نہ صرف نبی محترمؐ کی عقیدت و محبت کا ترجمان ہے بلکہ آنحضوؐر کے جاں نثاروں کی عقیدت و محبت بھی مرحوم کے قلم معجز بیان سے یکساں ہویدا ہے۔

طالب الہاشمی صاحب سے پہلی ملاقات تقریباً ۳۰ سال پہلے اردوبازار میں البدر پبلی کیشنز کے مالک عبدالحفیظ صاحب کی وساطت سے ہوئی۔اس وقت تک ہاشمی صاحب کی چند کتابیں اور ایک آدھ مضمون نظر سے گزرا تھا۔ سیرت صحابہ پر ان کا قلم رواں دواں تھا۔ان کا نام پڑھ کر جو خاکہ تصور میں آیاتھا ،وہ اس سے خاصے مختلف نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ موصوف اتنے بڑے ادیب اور  قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ خاصے صحت مند انسان بھی ہیں۔ اس کے بعد ان سے وقتاًفوقتاً ملاقاتیں ہوتی رہیں۔جب میں ۱۹۸۵ء میں مستقل طور پر لاہور آگیا تو ہاشمی صاحب سے کبھی اردو بازار اور زیادہ تر منصورہ میں ملاقات کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ جب بھی ملاقات ہوتی خندہ پیشانی، خلوص و محبت اور اپنائیت سے پیش آتے، اور مہمان نوازی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ وہ بہت ملنسار اور مہمان نواز تھے۔

راقم نے اپنی استطاعت کے مطابق مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے اسماے عَلَم کو کسی حد تک ٹھیک تلفظ کے ساتھ پڑھنے کی تربیت پائی ہے۔اس کے باوجود اپنی کم علمی کی وجہ سے کبھی کبھارکسی اسم عَلَم کا غلط تلفظ زبان پر آجایا کرتا تھا۔ ایک روز محترم طالب الہاشمی میرے پاس تشریف لائے اور بڑی محبت سے فرمایا: ’’میں سوچ رہا تھا کہ آپ کو فون کر دوں مگر پھر خیال آیا کہ فون کیا کرنا، خود چلتا ہوں تاکہ ملاقات ادھوری نہیں پوری ہو جائے‘‘۔پھر آواز قدرے دھیمی ہوگئی۔ بولے:’’میں نے منصورہ مسجد میں آپ کی گفتگو سنی تھی،تاریخی واقعات کا بہت اچھا استحضار ہے لیکن ایک معمولی سی غلطی کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔آپ نے اپنی گفتگو میں ہِشام بن عمرو کو ہَشام کہا تھا،اس کی تصحیح ضروری ہے۔‘‘اگرچہ یہ معمولی سی بات ہے مگر اس سے ان کی شفقت اور اپنے سے  کم تر لوگوں کی تربیت کا پہلو نکلتا ہے۔

سیرت پر طالب الہاشمی صاحب کی کتابیں پڑھنے سے قبل میں نے ۱۹۷۱ء میں سیرت صحابہؓ پر کچھ مضامین لکھے تھے اور میرا ارادہ اپنے ذوق کے مطابق اس میدان میں مزید کچھ لکھنے کا بھی تھا لیکن سچی بات یہ ہے کہ جب ہاشمی صاحب کی اسی موضوع پر کتابیں نظر سے گزریں تو میںنے سوچا کہ انھوں نے اردو زبان میں اس موضوع کا حق ادا کر دیا ہے۔ان کی عظمت دیکھیے کہ جب انھیں معلوم ہوا تو بار ہا فرمایا کہ ہر شخص کا اپنا انداز اور ذوق ہوتا ہے۔ایک ہی موضوع پر مختلف لوگوں کی تحریریں تکرار نہیں،تنوع کہلاتی ہیں۔آپ کو قلم نہیں روکنا چاہیے۔

سیرت نگاری کا محرک بھی ایک خاص واقعہ ہے۔ ہاشمی صاحب کے بقول: ایک بار وہ مطالعہ کرتے کرتے سو گئے۔ خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ جب بیدار ہوئے تو پسینے سے شرابور تھے اور شبلی نعمانی کی سیرت النبیؐ ان کے سینے پر تھی۔ اس واقعے کے بعد انھوں نے سیرت نگاری کو باقاعدہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔

ان کے کام کی وسعت، تحقیق کے اعلیٰ معیار کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ فردِواحد نے بغیر کسی اضافی سہولتوں کے تن تنہا اداروں سے بڑھ کر کام کیا۔ ان کا اسلوبِ بیان نہایت شُستہ، رواں اور مؤثر تھا۔ قاری ان کی تحریر پڑھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور حبِ رسولؐ کی کیفیت سے سرشار ہوجاتا ہے اور عمل کے لیے تحریک پاتا ہے۔ ان کے اٹھ جانے سے یقینا سیرت نگاری اور تاریخ نویسی کے میدان میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ ان کا کام خود اپنی جگہ تحقیق کے لیے ایک موضوع ہے۔

ہاشمی صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کے باوجود مطالعے اور محنت کی اپنی عادت کو بڑی جز رسی سے برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔انھوں نے تاریخ کے   کم و بیش ہر پہلو پر قابل قدر کتابیں لکھیں لیکن ان کا اصل موضوع سیرت رسولؐ اور سیرت صحابہؓ ہے۔ تصانیف کی تعداد ۱۰۰ سے زائد ہے۔آنحضوؐر کی سیرت پر ان کی ایمان افروز تحریریں اب بھی منظر عام پر آرہی تھیں۔آخری کتاب،جس کی طباعت سے پہلے وہ خالق حقیقی سے جا ملے،آنحضوؐر کے خادمان خاص کے موضوع پر ہے۔آپ کی کتابوں پر آپ کو صدارتی اور ادبی ایوارڈ بھی ملے لیکن مرحوم نے ان کو کبھی اپنی پہچان یا افتخار کا ذریعہ نہ بنایا۔

مرحوم کا علمی و ادبی مقام ان اعزازوں کے بغیر ہی بہت بلند تھا۔ ان کی کتابیں مختلف اداروں نے چھاپی ہیں۔اہم کتابوں میںسے چند ایک کے نام یہ ہیں: lرحمت دارینؐ، آنحضوؐر کی سیرت پر اہم کتاب ہے lیہ تیرے پراسرار بندے، جس میں آنحضوؐر کے ۸۱ صحابہ اور ۴۰ مشاہیر ِامت کا تذکرہ ہے lرحمت دارینؐ کے سو شیدائی ،آنحضوؐر کے ۱۰۰ صحابہؓ کے حالات پر مشتمل ہے lتذکار صحابیات میں صحابیات کے ایمان افروز حالات ہیں lحبیب کبریا کے تین سو اصحاب کے نام سے ایک قیمتی دستاویز ہے lفوزوسعادت کے ایک سو پچاس چراغ بھی صحابہ کرام کے حالات بیان کرتی ہے۔

ان کے علاوہ اولیاء اللہ کے تذکرے ،مشہور تاریخی شخصیات کے واقعات ،بچوں کی کتابیں اور ادبی کتب بھی ہاشمی صاحب کے رشحاتِ قلم کی امین ہیں۔۴۰ جاں نثار،۵۰ صحابہ، ۷۰ستارے اور کئی دیگر کتب مرحوم کا صدقۂ جاریہ ہیں۔ برعظیم کے بزرگانِ دین بابا فریدالدین ،خواجہ نظام الدین اجمیری اور دیگر بزرگوں پر بھی قلم اٹھایا۔ ان کی کتابوں کی طویل فہرست ہے،جو ان کی بیش تر کتابوں کے آخر میں دیکھی جا سکتی ہے۔

عموماً جس کاغذ کو ردی سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے، اسے بھی وہ اپنی تحریروں کے لیے استعمال کر لیا کرتے تھے۔ یہ کفایت شعاری اور اشیاکا درست استعمال سنت رسول اور سنت خلفاے راشدین ہے۔وہ حساب کتاب کے بڑے جز رس تھے۔ہر چیز نوٹ بک میں درج کرتے۔بچوں کو کوئی   پیسہ دیتے تو ان سے بھی یہی مطالبہ کرتے کہ وہ پورا حساب دیں۔ اپنے ناشرین کے ساتھ بھی ہرلین دین تحریراً کرتے اور باقاعدہ ریکارڈ رکھتے۔پرانے بزرگوں کی طرح انھوں نے کبھی کسی پر بوجھ بننا گوارا نہ کیا۔ اسلاف کی روایات کے مطابق اپنے کفن دفن کا خرچ بھی الگ لفافوں میں چٹیں لکھ کر محفوظ کر رکھا تھا۔ہاشمی صاحب نے بھرپور زندگی گزاری اور چلتے پھرتے، ہنستے مسکراتے بالآخر اپنی منزل سے ہم کنار ہو گئے!

جمہوریہ چاڈ اقوام متحدہ، افریقی اتحاد کی تنظیم (OAU) اور اسلامی کانفرنس کا رکن ہے۔ یہاں مسلمان اکثریت (۵۷ فی صد) میں ہیں۔ چاڈ میں اس وقت خانہ جنگی جاری ہے۔ دنیابھر میں اس کی خبریں منظرعام پر آرہی ہیں۔ چاڈ ایک تو افریقی ملک ہے، دوسرے فرانسیسی استعمار کے زیرتسلط رہنے کی وجہ  سے انگریزی بولنے والے ممالک کے برعکس فرینکوفون (فرانسیسی زبان) برادری کا رکن ہے۔ اسی وجہ  سے انگریزی استعمار میں رہنے والے علاقوں کے برعکس فرانسیسی نوآبادیات والے علاقوں میں زیادہ متعارف ہے۔ یہ علاقہ بنیادی طور پر مسلمانوں کا ملک تھا۔ فرانسیسی استعمار نے ۱۹۰۰ء میں یہاںقبضہ کیا اور مسلمان حکمران ربیح الزبیر کو حکومت سے بے دخل کردیا۔ الزبیر کا اپنا تعلق بھی چاڈ سے نہیں تھا۔ وہ سوڈان کا حکمران تھا جس نے ۱۸۸۳ء کو اس علاقے کی تین مقامی بادشاہتوں کو یکے بعد دیگرے فتح کیا۔ فرانسیسی استعمار کے خلاف اس وقت سے ہی مقامی آبادی نے جدوجہد شروع کر دی تھی لیکن انھیں عملاً آزادی ۱۹۶۰ء میں حاصل ہوئی۔ یہ آزادی بھی فی الحقیقت براے نام ہی تھی کیونکہ فرانس نے اپنی فوجیں اور دیگر ادارے یہاں آزادی کے بعد بھی مسلط رکھے، جو اب تک پوری طرح معاملات میں دخیل ہیں۔

بدیشی آقائوں نے جاتے ہوئے مسلمان اکثریت کے اس ملک کا پہلامقامی حکمران جنوب کے ایک عیسائی فرنکوئیس ٹومبل بائی کو بنایا۔چاڈ خشکی میں گھرا ہوا ملک ہے، جس کا رقبہ پاکستان سے تقریباً ڈیڑھ گنا ہے (چاڈ ۱۲لاکھ ۸۴ہزار مربع میل، پاکستان ۸ لاکھ ۹سو ۴۰ مربع میل) اور آبادی صرف ایک کروڑ ۱۰ لاکھ ہے۔ چاڈ کی سرحدیں جن ملکوں سے ملتی ہیں، ان میں نائیجیریا، لیبیا،سوڈان، سنٹرل افریقن ری پبلک، کیمرون اور نائیجر، چھے ممالک شامل ہیں۔ اس کے دوہمسایے نائیجیریا اور سوڈان براعظم افریقہ میں آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بالترتیب سب سے بڑے ملک ہیں۔ چاڈ میں آزادی کے بعد مسلسل افراتفری اور جنگ و جدال رہا ہے۔ شمال میں بسنے والے مسلمان، جو ملکی آبادی کا ۶۰ فی صد ہیں، اقلیت کی حکومت میں خود کو مطمئن نہیں پاسکتے تھے۔ وہ شروع سے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ جب کوئی شنوائی نہ ہوئی تو وہ بغاوت پر مجبور ہوگئے۔ وقتاً فوقتاً باہر کے ممالک بھی اس خانہ جنگی میں شریک ہوتے رہے۔

ملک کا پہلا صدر فرنکوئیس ۱۹۷۵ء میں ایک بغاوت کے دوران قتل کردیا گیا۔ اس کامیاب بغاوت کے بعد جنرل فیلکس مالوم ملک پر قابض ہوگیا، یہ بھی ایک عیسائی تھا۔ ۱۹۷۹ء میں ایک باغی لیڈر گوکونی عیدی جو مسلمان تھا، برسراقتدار آگیا۔ بدقسمتی سے چاڈ میں اس کے بعد بھی حالات معمول پر نہ آئے۔ چاڈ میں فوجی بغاوت، عوامی خانہ جنگی اور افراتفری مسلسل جاری رہی۔اس عرصے میں ایک اور مسلمان حسین ہبرے جو پہلے وزیردفاع تھا، بھی کچھ عرصے کے لیے برسرِاقتدار رہا۔ اسے لیبیا کی حمایت حاصل تھی۔ موجودہ حکمران ادریس ڈیبی ۱۹۹۰ء میں برسرِاقتدار آیا۔ وہ بھی ایک زمانے میں کمانڈر اِن چیف اور وزیردفاع رہ چکا تھا جو حکومت سے الگ ہوکر خانہ جنگی اور فرانس و لیبیا کی حمایت کے نتیجے میں برسرِاقتدار آیا۔ وہ فرانس کا تربیت یافتہ ہے۔ چاڈ معدنی دولت سے مالامال ہے، یہاں پٹرولیم، یورینیم اور سونے کے بڑے ذخائر موجود ہیں لیکن ابھی تک پوری طرح سے انھیں استعمال میں نہیں لایا گیا۔ مغربی ممالک پٹرول اور دوسری قیمتی معدنی دولت یورینیم پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں۔ ایک معاہدے کے تحت چین بھی تیل کی تلاش اور انتفاع کے لیے صحرائی علاقے میں کھدائی کر رہا ہے۔

موجودہ حکومت کے خلاف بغاوت اچانک نمودار نہیں ہوئی، یہاں کئی سالوں سے مسلح مزاحمت کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ اس سال کے آغاز میں باغی دستوں نے بڑی قوت کے ساتھ ملک کے دارالحکومت انجمینا پر اچانک حملہ کیا اور پورے دارالحکومت پر ان کا قبضہ ہوگیا۔ محض صدارتی محل اور اس کے آس پاس کے کچھ محدود علاقے ان کی دست رس سے باہر رہ گئے۔ صدر کی حفاظت کے لیے فرانس کے کئی ہزار فوجی دستے دارالحکومت میں پہلے سے موجود ہیں۔ میراج طیاروں کی مدد اور فضائی کور سے ان فرانسیسیوں نے باغی جنگجوئوں کو صدارتی محل سے دُور دھکیلنے میں وقتی کامیابی تو حاصل کرلی لیکن ابھی تک حالات کسی کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ موجودہ صدر ادریس دیبی اب تک برسرِاقتدار آنے والے تمام حکمرانوں سے زیادہ عرصہ یعنی تقریباً اٹھارہ سال سے حکمران اور سیاہ وسفید کا مالک ہے۔ وہ اپنے مغربی آقائوں کی طرف سے پیش کردہ ہر معاہدے پر دستخط کرتا چلا آرہا ہے، جس کی وجہ  سے اس کی ذاتی دولت میں توبے پناہ اضافہ ہوا لیکن عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملا۔ پٹرول، سونے اور یورینیم جیسی قیمتی معدنی دولت کے باوجود چاڈ بھوک و افلاس اور قحط و بربادی کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ یو این او کے تیار کردہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کے مطابق اس کا شمار دنیا کے ۱۸۰ ممالک میں سے پانچ غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔

چاڈ کا ایک دوسرا بڑا مسئلہ سوڈان کے جنوبی علاقے دارفور میں جاری لڑائی کی وجہ سے مہاجرین کی آمد رہا ہے۔ اس وقت دارفور سے آئے ہوئے دو لاکھ سے زیادہ مہاجرین یہاں مقیم ہیں۔ سوڈانی حکومت کے خلاف دارفور میں گذشتہ کئی برسوں سے جو شورش برپا ہے اس کے پیچھے مغربی منصوبہ سازوں کی سازشیں شامل ہیںاور سوڈانیوں کے خیال میں چاڈ سے حملہ آور اس   خانہ جنگی میں حکومت کے خلاف باغیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ دوسری طرف چاڈ حکومت اپنے ملک میں پھیلی ہوئی بغاوت کو سوڈان کے کھاتے میں ڈالتی ہے اور اس کے اس دعوے کو مغربی دنیا بھی درست تسلیم کرتی ہے۔چاڈ کے مسلمان موجودہ حکمران کو جو ان کا ہم مذہب ہونے کے باوجود مکمل طور پر فرانس کا ہم نوا اور اس کی تہذیب کا دل دادہ ہے، شدید نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کا تعلق بھی ایک چھوٹے سے قبیلے زگاوہ (Zagawa) سے ہے جو ملک کی آبادی کا صرف ڈیڑھ فی صد بنتا ہے۔

موجودہ بغاوت اگرچہ ان دنوں زیادہ منظرعام پر آگئی ہے مگر اس کی جڑیں ماضی میں دُور تک جاتی ہیں۔ ۱۹۹۸ء میں موجودہ صدر کے سابق وزیردفاع یوسف توجومی (Togoimi) نے مسلح بغاوت کی تھی جو دو تین سال مسلسل جاری رہی۔ اس دوران ملک کے بیش تر حصوں پرباغیوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ ۲۰۰۲ء میں لیبیا کے صدر معمر قذافی نے مصالحت کی کوشش کی، مگر وہ کسی نتیجے پر  نہ پہنچ سکی، تاہم وقتی طور پر باغی تحریک پس منظر میں چلی گئی۔ قذافی صاحب نے چاڈ کے ساتھ  الحاق کرنے کی بھی کوشش کی تھی اور ۱۹۸۱ء میں لیبیا کے فوجی دستے چاڈ بھیجے گئے تھے۔ ملک کی  عام آبادی نے قذافی صاحب کی اس کاوش کو شک اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ یوں الحاق کا      یہ منصوبہ دم توڑگیا اور لیبی فوجوں کو ۱۹۸۳ء میں ملک سے نکل جانے کا حکم ملا مگر وہ خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ۱۹۸۷ء تک چاڈ کے شمالی علاقوں میں براجمان رہے۔ معمرقذافی پر چاڈ کی آبادی کم ہی اعتماد کرتی ہے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اگر فرانس اور دیگر مغربی قوتوں کی سرپرستی حاصل نہ ہو تو موجودہ حکومت ایک دن میں ختم ہوجائے۔ حالات کا اُونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ عالمی ادارے اور مغربی حکومتیں چاڈ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں۔ وہ اپنی مرضی ہی کے حکمرانوں کو یہاں مسلط رکھیں گی خواہ موجودہ صدر کی صورت میں یا اس کے متبادل کے طور پر۔ آپ حیران ہوں گے کہ چاڈ سے جو پٹرول نکلتاہے، وہ عالمی بنک کے قرضوں کی سرمایہ کاری سے کیمرون کی بندرگاہ کریبی (Karibi) تک ۷۰۰ میل لمبی پائپ لائن کے ذریعے پہنچا دیا جاتا ہے۔ وہاں سے عالمی بنک مختلف ممالک کو عالمی منڈی کے بھائو پر فروخت کردیتا ہے۔ اس سے چاڈ کو محض ساڑھے ۱۲ فی صد رائلٹی ملتی ہے جو صریح ظلم ہے۔ اس میں سے بھی جنوری ۲۰۰۶ء میں   عالمی بنک نے ۱۲۵ ملین ڈالر کی رائلٹی کئی عذر ہاے لنگ کو جواز بناکر منجمد کردی۔ اس کے علاوہ  ایک سابقہ معاہدے کے مطابق فراہم کی جانے والی ۱۲۴ ملین ڈالر کی امداد بھی روک لی گئی۔ یوں ملک کی اس دولت پر بھی مقامی آبادی کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔ یہ ظلم جب تک دنیا میں جاری رہے گا، انسانیت آزادی اور چین کا سانس کیسے لے سکے گی؟ تیسری دنیا میں نہ معاشی آزادی ہے، نہ سیاسی حریت۔ دنیا ایک حقیقی انقلاب کی پیاسی ہے۔ سرمایہ پرستی کا سفینہ ڈوبے بغیر انقلاب نہیں آسکتا۔