دسمبر ۲۰۱۱

فہرست مضامین

عالمِ عرب کا بدلتا ہوا نقشہ

حافظ محمد ادریس | دسمبر ۲۰۱۱ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

عالم اسلام میں طویل عرصے تک آمریت وملوکیت اور مارشل لاؤں کی سیاہ رات چھائی رہی ہے۔ عرب دنیا تو بالخصوص بنیادی حقوق سے مکمل طور پر محروم کردی گئی تھی۔اس سال کے آغاز سے تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی لہر نے دیکھتے ہی دیکھتے تمام عرب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔تیونس، مصر او رلیبیا سے آمریت کا خاتمہ ہوا اور شام اور یمن انقلاب کے دہانے پر کھڑے ہیں۔اب تک تیونس کا انقلاب ایک مرحلہ طے کرکے اگلے مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔

  •  تیونس: تیونس میں اسلامی تحریک نہضت کی، ابتدائی اطلاعات کے مطابق، ۵۲فی صد ووٹوں کے تناسب سے ۲۱۷ میں سے ۱۱۵ نشستوں پر کامیابی کی خبریں آرہی تھیں۔ حتمی نتائج مرتب ہوتے ہوتے نہضت کے ووٹ ۴۲ فی صد پر آگئے اور ان کی نشستیں ۹۰ رہ گئیں۔ بہرحال نتائج کو سب جماعتوں نے تسلیم کیا ہے اور انتخابی عمل کو شفاف قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی تحریک نہضت کو اکثریت حاصل نہیں مگر وہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ دیگر ۱۲۷ نشستیں تین درجن پارٹیوں اور چند آزاد ارکان کے درمیان تقسیم ہوگئی ہیں۔ دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی سیکولر ہے اور اس کی نشستوں کی تعداد ۴۰سے بھی کم ہے۔ تحریک اسلامی کے قائد راشد الغنوشی نے خود حکومت کا کوئی منصب قبول کرنے کے بجاے تحریک نہضت کے سیکرٹری جنرل حمادی جبالی کو وزیر اعظم نامزد کیا ہے۔ کئی پارٹیوں نے ان کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے لیے گفت و شنید شروع کر دی ہے۔ کئی پارٹیاں جو انتخابات سے قبل ان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کر رہی تھیں، انتخابات کے بعد انھیں بھی اپنا موقف بدلنا پڑا ہے۔ ان کے خلاف سب سے زیادہ یہ پروپیگنڈا کیا جاتا تھا کہ وہ عورتوں کے حقوق سلب کرلیں گے مگر یہ حقیقت پوری دنیا کے لیے حیران کن تھی کہ پارلیمان میں کل ۴۹ خواتین کامیاب ہوئی ہیں جن میں سے ۴۲کا تعلق تحریک اسلامی سے ہے۔ باقی سات ارکان دیگر پارٹیوں کے درمیان تقسیم ہیں۔

حکومت سازی کے لیے حالیہ گفت و شنید کے دوران البتہ نامزد وزیر اعظم جناب الجبالی کی طرف ایک تبصرہ منسوب کیا گیا ہے کہ انھوں نے اپنی پارٹی کے ایک اجلاس میں اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ ان شاء اللہ ہم چھٹی خلافت راشدہ قائم کرنے کے مرحلے میں ہیں۔ التکاتل پارٹی کے نمایندے حُمَیس کَسِیْلہ نے رائٹر کے مطابق اس بیان کو بنیاد بنا کر یہ الزام لگایا ہے کہ نہضت بنیادپرستی کی طرف گامزن ہے۔ اگرچہ ابھی تک انھوں نے باہمی مذاکرات کے بائیکاٹ کا اعلان نہیں کیا مگر یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ممکن ہے اس صورت حال میں مخلوط حکومت بنانے اور دستور سازی کے مرحلے میں اتفاق نہ ہوسکے۔ اسلامی پارٹی کے سربراہ نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ آئیڈیلز کا تذکرہ اور چیز ہے اور معروضی حالات میں سب کے جذبات کا احترام دوسری بات۔ ہم اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ سب کو ساتھ لے کر چلا جائے لہٰذا کسی کو خائف ہونے کی ضرورت نہیں۔

  •  مصر: مصر اور لیبیا میں فراعنہ وقت کا تختہ الٹ دیا گیا ہے۔ مصری ۲۸ نومبر ۲۰۱۱ء کو انتخابات کے میدان میں اتریں گے۔ امیدِ واثق ہے کہ اگر انتخابات آزادانہ ہوئے تو یہاں بھی اخوان المسلمون کی سیاسی جماعت حزب الحریۃ والعدالۃ سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کے طور پر اُبھرے گی۔ مصر میں حسنی مبارک اور اس کے خاندان کے مقدمات عدالتوں کے سامنے آچکے ہیں۔ اس کی حکمران پارٹی پر پابندی لگ گئی تھی مگر مصر کی ایک عدالت نے حالیہ فیصلے میں اس کے امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی ہے۔ سیاسی میدان میں مختلف پارٹیاں آپس میں اتحاد کر رہی ہیں۔ اخوان نے تحریک آزادی کے ہیرو سعد غلول پاشا کی قدیم پارٹی  حزب الوفد کے ساتھ مل کر ایک فرنٹ بنایا ہے۔ بعض دیگر اسلامی گروپ بالخصوص سلفی حضرات نے جمال عبدالناصر کے حامیوں اور بعض دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ابتدائی مرحلے میں اتحاد کیا مگر بہت جلد سلفی لیڈر انجینیر عاصم عبدالماجد نے اس اتحاد سے نکلنے کا اعلان کردیا۔ انھوں نے کہا کہ پہلی ملاقات میں ہمیں ۱۵۰ سے ۲۰۰ تک نشستوں پر امیدوار نامزد کرنے کی پیش کش کی گئی تھی، بعدمیں ہمیں بتایا گیا کہ صرف ۸۰ نشستوں پر ہمارے نمایندے ہوں گے اور آخری پیغام یہ ملا کہ ہمارے امیدوار ۲۰ سے زیادہ نہیں ہوسکتے۔

اخوان کی قائم کردہ پارٹی حزب الحریۃ والعدالۃ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سعد الکتاتنی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سابق صدر کی کالعدم نیشنل پارٹی کو عبوری عسکری کونسل کی تائید حاصل ہے، جس سے حکومت کی غیر جانب داری مشکوک ہوجاتی ہے۔ اس دوران مصر میں ۱۹سال کے بعد میڈیکل ایسوسی ایشن کے قومی اور علاقائی انتخابات منعقد ہوئے ہیں، جس میں پہلی مرتبہ حکومت کی مداخلت کے بغیر ڈاکٹروں نے اپنی راے کا اظہار کیا ہے۔ اس میں اخوان کے امیدوار ڈاکٹر محمدخیری عبدالدائم مرکزی صدر منتخب ہوئے ہیں، جب کہ مجلس عاملہ کی بیش تر نشستیں بھی اخوان ہی کو ملی ہیں۔ ۲۷ صوبائی دارالحکومتوں میں سے ۱۵ میں اخوان کے ارکان صدر، سیکرٹری اور مجلس عاملہ کی اکثریتی نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں۔ ان انتخابات کے بعد ہی حسنی مبارک کی کالعدم پارٹی کو بحال کرنے اور ان کے نمایندوں کو انتخاب میں جانے کی عدالتی کارروائی سامنے آئی ہے۔ المجتمع نے قاہرہ سے محمد جمال عرفہ کا ایک تجزیہ اور اپنے نمایندے کی ایک رپورٹ شمارے ۱۹۷۴ء، ۲۲-۲۸ اکتوبر‘ میں شائع کی ہے جس میں بہت سی تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ مصر میں آزادانہ انتخابات کی صورت میں اخوان ان شاء اللہ بڑی قوت بن کر ابھریں گے۔

  •  لیـبیا: جہاں تک لیبیا کا تعلق ہے، قذافی اور اس کے دو بیٹے تو انقلابی قوتوں نے موت کے گھاٹ اتار دیے تھے، جب کہ اس کی دونوں بیویاں اور کئی ایک بچے مختلف ممالک میں   پناہ گزین ہیں۔ اس کا بیٹا سیف الاسلام قذافی عبوری کو نسل کی تحویل میں ہے اور اس کے خلاف کرپشن، قتل عام اور جنگی جرائم کے تحت مقدمے کی تیاری ہورہی ہے۔ لیبیا میں جب تحریک اٹھی تو قذافی نے آہنی ہاتھ سے اسے کچلنا چاہا۔ آغاز میں تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ فوجی اسلحے اور بکتر بند دستوں کے سامنے عوام بے بس ہوجائیں گے مگر آہستہ آہستہ اپوزیشن کے ساتھ قذافی کے کئی قریبی ساتھی اور بعض فوجی یونٹ ملتے چلے گئے اور عوامی تحریک نے زور پکڑلیا۔ عوامی تحریک کو کامیاب ہوتا دیکھ کر ناٹو افواج نے بھی مداخلت کردی۔ ابتدا میں اس مداخلت کے خلاف آواز اُٹھی لیکن انقلابی قیادت کا رویہ بتدریج ناٹو کے بارے میں نرمی کی طرف مائل ہوتا چلا گیا۔ بالآخر قذافی کی موت سے عوامی تحریک کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔ گذشتہ دنوں جب عبوری کونسل کے سربراہ مصطفی عبدالجلیل نے اعلان کیا کہ لیبیا کا نیا آئین اسلامی ہوگا اور غیر شرعی قوانین کالعدم قرار پائیں گے، تو اس سے امریکا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ تاہم آیندہ کی صورتِ حال پوری طرح واضح نہیں۔

لیبیا کے عوام طویل آمریت کے مظالم برداشت کرنے کے باوجود اسلام پر کاربند رہے ہیں اور تاریخی لحاظ سے سنوسی دور سے لے کر اب تک لیبیا میں گھر کا ماحول اسلامی اقدار کا محافظ رہا ہے۔ اب یہاں اگلے مراحل میں قوم کا کڑا امتحان ہوگا۔ ایک جانب قذافی کی باقیات بھی ابھی تک بعض علاقوں میں موجود ہیں۔ مغربی سوچ رکھنے والے عناصر بھی میدان سیاست میں منظم ہورہے ہیں اور قبائلی سردار بھی نئے سیاسی سیٹ اپ میں اپنا حصہ طلب کر رہے ہیں۔ ان سب کے درمیان اسلامی سوچ رکھنے والے لوگ اگرچہ تعداد میں زیادہ ہیں مگر ابھی تک ان کی کوئی منظم تحریک سامنے نہیں آسکی۔ اگرچہ الاخوان المسلمون لیبیا کے نام سے تحریک نہ صرف موجود ہے بلکہ عبوری کونسل میں بھی شامل ہے لیکن ان کی پالیسی یہی ہے کہ اپنی شرکت کو زیادہ نمایاں نہ کیا جائے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ لیبیا میں اخوان کے اثرات پائے جاتے ہیں اور تیونس و مصر کی تبدیلیاں لیبیا کے عوام کو بھی متاثر کریں گی۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو مگر یہ ایک لحاظ سے اسلام دشمن مقامی و عالمی قوتوں کو خبردار کرنے کی بھی سازش ہوسکتی ہے۔ المجتمع کے تجزیہ نگار عبدالباقی خلیفہ نے لیبیا کے انقلاب کے بعد کی صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قذافی نے ۲ سو ارب ڈالر ملک سے باہر مختلف ممالک میں منتقل کیے تھے۔ اب مغرب کی نظریں  لیبیا کے قدرتی وسائل کے علاوہ ان رقوم پر ہیں جو سابق حکمران اور اس کے خاندان نے مختلف اکائونٹس میں جمع کرا رکھی ہیں۔ تجزیہ نگار کے بقول لیبیا کے عوام اسلام سے بہت قریب ہیں مگر ابھی تک صورتِ حال واضح نہیں۔ مغربی قوتیں لیبیا کو تقسیم کرنے کی سازشیں بھی کر رہی ہیں اور لیبیا  میں کئی ایک متحارب قوتیں موجود ہیں، جو مسلح بھی ہیں۔ خدا نہ کرے کہ ان کے درمیان پھر کوئی  خون ریزی شروع ہو جائے اور آمریت کے بعد کا سہانا خواب بدقسمتی سے چکنا چور ہو جائے۔ (المجتمع، شمارہ ۱۹۷۵، ۱۹؍اکتوبر تا۴ ؍نومبر۲۰۱۱ء)

  •  شام: ۲ کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل ملکِ شام تاریخ میں بڑا مقام رکھتا ہے۔ یہاں کا ایک اقلیتی فرقہ نُصیری فوجی انقلاب کے ذریعے حافظ الاسد کی صورت میں ۱۹۶۹ء میں حکومت پر قابض ہوا۔ حافظ الاسد کے آمرانہ دور میں نصیری حکومت نے مظالم کی سیاہ ترین تاریخ رقم کی اور باپ کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا بشار الاسد ۲۰۰۰ء سے اب تک اپنے باپ کے مظالم کی تاریخ دہراتا چلا آرہا ہے۔ کئی مرتبہ مختلف شہروں بالخصوص حماۃ، حلب اور حمص میں شامی عوام ظالم حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر نکلے مگر ہر مرتبہ فوج نے انھیں بری طرح سے کچلا۔ موجودہ تحریک تیونس اور مصر کے ساتھ ہی شروع ہوئی۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق ۳ہزار سے زائد مظاہرین اور دیگر شہری موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں، جب کہ شامی حکومت نے اپنے ایک بیان میں یہ کہا ہے کہ ان کے ۱۱۰۰ فوجی اور پولیس اہلکار بھی انقلابیوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔

عرب لیگ نے یکے بعد دیگرے اپنے تین اجلاسوں میں شامی حکومت کوفی الفور تشدد بند اور اپوزیشن سے مذاکرات کرنے کی قرار دادیں منظور کی ہیں۔ ان قرار دادوں پر ماسواے شام، لبنان اور یمن کے تمام عرب ممالک متفق تھے۔ رباط میں ہونے والے لیگ کے آخری اجلاس مورخہ ۱۶ نومبر ۲۰۱۱ء میں عرب لیگ نے پھر شام کے خلاف قرارداد منظور کی ہے اور اس کے معاشی بائیکاٹ کی بھی حمایت کی ہے۔ اس اجلاس میں شام شریک نہیں ہوا تھا۔ ترکی کے وزیر خارجہ احمددائود اوغلو خصوصی دعوت پر اجلاس میں شریک تھے۔ انھوں نے بھی وہاں اعلان کیا کہ ترکی نے شام کو اسلحے کی سپلائی پر پہلے ہی پابندی لگا دی ہے اور اب شام کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کرنے اور اس کو بجلی کی ترسیل بھی بند کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ دمشق میں بشارالاسد کے نصیری حامیوں اور حکومتی کارندوں نے فرانس، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی کے سفارت خانوں پر حملے کیے اور ان ممالک کے پرچم جلائے۔ اس پر ترک صدر، وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے سخت ترین الفاظ میں احتجاج کیا اور شام کو نتائج و عواقب کی وارننگ دی۔ ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ شامی حکومت فی الفور اس جرم پر معذرت کرے۔ چنانچہ شام کے وزیر داخلہ نے اس پر معذرت کی ہے۔ فرانس اور دیگر ممالک نے بھی احتجاج کیا ہے اور اپنے سفیروں کو واپس بلالیا ہے۔(روزنامہ ڈان، ۱۶ نومبر ۲۰۱۱ء)

او آئی سی کے اجلاس میں بھاری اکثریت سے مسلمان ممالک نے یہ قرار داد منظور کی کہ بشار الاسد ہوش کے ناخن لیں اور خود کو کرنل قذافی جیسے انجام سے بچا لیں۔اجلاس کے بعد او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اکمل الدین احسان اوغلونے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ شامی صدر کی ہٹ دھرمی ان کے لیے ہی نہیں پورے ملک اور خطے کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ اسرائیل سے متصل یہ مسلمان ملک ایک حساس مقام کا حامل ہے اور بحالات موجودہ عالمی جنگ کا اکھاڑا بھی بن سکتا ہے۔ بشار الاسد کی آہنی گرفت کے باوجود تجزیہ نگار رابرٹ فسک کو دمشق ٹی وی نے ایک تجزیاتی پروگرام میں مدعوکیا تو اس نے شامی صدر کو بے لاگ انداز میں اپنے غلط موقف کو بدلنے کی تلقین کی۔ اس نے بتایا کہ بشار الاسد کے بعض فوجی، مظاہرین کے ساتھ مل گئے ہیں۔ انھوں نے آزاد شامی فوج کے نام سے ایک حکومت مخالف محاذ بھی قائم کر لیا ہے مگر کلاشنکوف اور رائفلوں سے بکتر بند گاڑیوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ بکتر بند دستے جب بغاوت کریں گے تو دھڑن تختہ ہوجائے گا۔(ڈان، بحوالہ انڈی پنڈنٹ، ۱۶؍نومبر ۲۰۱۱ء)

حکومت مخالف جماعتوں نے شامی قومی کونسل بھی تشکیل دی ہے۔ اس کے ۷۱؍ارکان میں سے ۳۴؍ اخوانی ہیں۔ گویا اخوان المسلمون کے اثرات نمایاں ہیں لیکن سیکولر عناصر سخت قوانین  کے نفاذ کے خلاف ہیں۔ تاہم اس اختلاف کے باوجود عوامی مزاحمت آگے بڑھ رہی ہے۔    یورپی یونین، ناٹو ممالک اور او آئی سی سبھی نے بشار الاسد کے مظالم کی مذمت کی ہے۔ شام کی حمایت کرنے والے ممالک میں ایران، لبنان، روس اور چین شامل ہیں۔ المجتمع کی تجزیہ نگار سیدہ فادی شامیہ نے بیروت سے لکھا ہے کہ لبنان حکومت حزب اللہ کے زیر اثر شام کی نصیری حکومت کا ساتھ دے رہی ہے، مگر لبنانی عوام منقسم ہیں۔ کچھ اپنی حکومت کے ساتھ ہیں اور نصف سے زائد شامی عوام کے حامی ہیں۔ اگر شامی حکومت گرے گی تو لبنان کی موجودہ حکومت بھی برسراقتدار نہیں رہ سکے گی۔ (المجتمع، کویت، شمارہ ۱۹۷۴، ۲۲-۲۸؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء)

  •  یمن: جہاں تک یمن کا تعلق ہے تو یہاں صدر علی عبداللہ صالح۱۹۶۲ء سے شمالی یمن اور متحدہ یمن کا سربراہ ہے۔ اس کے خلاف یمن میں تحریک بہت مضبوط بنیادوں پر اٹھی ہے۔    علی عبداللہ صالح ایک بم دھماکے میں شدید زخمی بھی ہوا اور سعودی عرب میں زیر علاج رہا۔ اس تحریک کے دوران لاکھوں لوگ کئی ماہ سے سڑکوں پر ہیں اور ان کا عزم ہے کہ آمریت سے نجات تک وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ خلیجی ممالک کی مجلس نے تین مرتبہ علی عبداللہ صالح کو اپنی قراردادوں کے ذریعے مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق حکومت چھوڑ دے اور عبوری نظام کے ذریعے ملک میں تبدیلی لانے کا راستہ ہموار کرے۔ اسی طرح سے اقوام متحدہ نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ یمنی صدر اپنی ضد چھوڑ کر اپنے وعدوں کے مطابق ایوانِ اقتدار سے رخصت ہو مگر وہ ہر دفعہ اپنے وعدوں سے منحرف ہو جاتا ہے۔ صدر علی عبداللہ صالح نے پہلے تو یہ کہا تھا کہ وہ اقتدار نائب صدر کو منتقل کر دے گا مگر بعد میں اس سے منحرف ہوگیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر میں نے اقتدار چھوڑ دیا تو یہاں اخوان المسلمون اور القاعدہ برسراقتدار آجائیںگے۔ اس دوران صنعا میں برطانیہ کے سفیر نے کہا ہے کہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عوام کی راے سے کون برسراقتدار آتا ہے۔ اگر بنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت کی ضمانت مل جائے تو ہمیں اخوان کی حکومت سے بھی نہ کوئی خطرہ ہے نہ پرخاش۔

یمن میں اسلامی تحریک حزب الاصلاح الاسلامی کے راہ نما شیخ صادق الاحمر نے کہا ہے کہ صدر صالح حواس کھو بیٹھے ہیں۔ ان کی زبان سے جھوٹ کے سوا کچھ برآمد نہیں ہو رہا اور ملک پر عملاً ان کی حکومت ختم ہوچکی ہے۔ ان کا وجود محض سرکاری ٹیلی ویژن، ریڈیو اور صدارتی محل تک محدود ہوگیا ہے۔ اقوام متحدہ کے نمایندے جمال بن عمر جو دو ہفتے صنعا میں صدر صالح کو اپنے وعدوں کا پاس کرنے کی تلقین کرتے رہے، بالآخر ناکام واپس چلے گئے ہیں۔ صنعا سے المجتمع کے نمایندے عادل امین نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ صدر صالح پر اب کوئی آدمی اعتماد نہیں کرتا۔ انھوں نے سیاسی راہ نما محمد قحطان کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس شخص کا جھوٹ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ تین مرتبہ اس نے اعلان کیا کہ وہ خلیجی کونسل کے فیصلے پر دستخط کر دے گا مگر ہر دفعہ وہ   اس سے مکر جاتا رہا۔ تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ صدر کا انجام وہی ہوگا جو لیبیا کے معمر قذافی کا ہوا ہے۔ اگر حکومت کے گرنے کے بعد یہاں آزادانہ انتخابات ہوتے ہیں تو یمن کی اسلامی تحریک   التجمع الیمنی للاصلاح کے سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کے طور پر کامیاب ہونے کے امکانات تمام مغربی اور عربی تجزیہ نگاروں کے رشحاتِ قلم میں پڑھے جاسکتے ہیں۔

یمن کی حریت پسند خاتون توکل کِرمان کو امن کا نوبل پرائز ملا ہے۔ یہ الاصلاح کی رکن شوریٰ اور تحریک حریت میں اگلی صفوں میں کام کرنے والی خاتون ہیں۔ ان کے انعام کی خبریں مغربی اور عربی ذرائع ابلاغ میں بہت نمایاں طور پر عوام تک پہنچتی رہی ہیں۔ سڑکوں پر نکلنے والے عوام اور نوجوان زیادہ تر اسلامی تحریک کے ارکان اور مؤیدین ہوتے ہیں۔ المجتمع کے شمارہ ۱۹۷۳ اور ۱۹۷۴میں صنعا سے عادل امین نے بہت تفصیلی رپورٹس بھیجی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ   اب جلد ہی یمن میں آمریت کا باب ختم ہونے والا ہے۔ امید ہے تیونس کی طرح یمن سے بھی   ان شاء اللہ اہل ایمان کو خوش خبریاں ملیں گی، وباللّٰہ التوفیق۔

عالمِ عرب میں برپا ہونے والے انقلاب کے بارے میں مغرب اور سیکولر عناصر کا یہ دعویٰ تھا کہ یہ ظلم و ناانصافی، آزادیِ اظہار پر پابندی اور معاشی استحصال کے خلاف ردعمل ہے، اس کا اسلام یا اسلام پسندوں سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسری طرف یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ اسلام پسند آگئے تو سخت قوانین نافذ کریں گے، پابندیاں عائد کریں گے بالخصوص خواتین کے حقوق پر زد پڑے گی۔ لیکن تیونس کے انتخابات نے یہ بات واضح کردی کہ ’عرب بہار‘ دراصل اسلامی انقلاب کی طرف پیش رفت ہے۔ عوام نے اسلام پسندوں کے حق میں ووٹ ڈالا ہے اور تیونس میں النہضت کے کامیاب ارکان میں نمایاں تعداد خواتین ارکان کی ہے۔ اسلامی تحریکیں جبر کے بجاے سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہیں اور اعتدال پسندی، رواداری اور انصاف جیسی اسلامی روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے معاشرے میں بتدریج تبدیلی لانا چاہتی ہیں۔ اسلامی تحریکوں کی اس حکمت عملی اور اعتدال پسندی کی روش کی بناپر مغربی اسکالر بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اب اسلامی تحریکوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔