دسمبر ۲۰۱۱

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | دسمبر ۲۰۱۱ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص لَا اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ کہتا ہے اس کارب اس کی تصدیق کرتے ہوئے فرماتا ہے: میں اکیلا معبود ہوں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور میں سب سے بڑا ہوں۔ اور جب کہتا ہے: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں تنہا معبود ہوں، میرے علاوہ کوئی معبود نہیں، میرا کوئی شریک نہیں۔ اور جب کہتا ہے: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: نہیں کوئی معبود مگر میں، میرے لیے ہے بادشاہت اور میرے لیے ہے حمد۔ اور جب کہتا ہے:لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃُ اِلاَّ بِاللّٰہِ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ کسی کے پاس کوئی قوت نہیں اور کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا، مگر میری توفیق کے ساتھ۔ اور آپؐ فرماتے تھے: جو آدمی اپنی بیماری میں یہ ذکر کرے پھر فوت ہوجائے تو آگ اسے نہیں کھائے گی (یعنی وہ دوزخ میں نہیں جائے گا)۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

اس ذکر کی مسلسل عبارت یوں ہے: لَا اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ، نہیں کوئی معبود مگر اللہ اور اللہ سب سے بڑا ہے، نہیں کوئی معبود مگر اللہ تنہا اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ نہیں کوئی معبود مگر اللہ، اسی کے لیے ہے بادشاہت، اوراسی کے لیے ہے حمد۔ نہیں کوئی معبود مگر اللہ اور نہیں کوئی قوت اور نہیں کوئی تدبیر مگر اس کی توفیق اور مدد سے۔

اللہ تعالیٰ کی جو صفات اور شانیں قرآن و حدیث میں آئی ہیں ان پر مشتمل ذکر ایمان وعمل میں قوت کا ذریعہ ہے۔ اس لیے ایسے ذکر کو معمول بنانا چاہیے۔ سب سے بڑی صفت اور شان لا الٰہ الا اللہ ہے اور یہ افضل الذکر ہے۔ پھر یہ احساس کتنا لطف انگیز اور ایمان افروز ہے کہ ادھر ہم ذکر کرتے ہیں، اور ادھر اللہ تعالیٰ اسے دُہراتا ہے۔ پھر موت کے لیے بیماری کی شرط نہیں ہے، اس لیے اس ذکر کے ساتھ جو بشارت ہے اس کی خاطر، اسے معمول بنا لینا چاہیے۔


حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آدمی جس کا نام زاہر بن حرام تھا دیہات سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدیہ لایا کرتا تھا، اور جب وہ واپس جانا چاہتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے کچھ سامان بطور ہدیہ دیا کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زاہر ہمارادیہات ہے اور ہم اس کا شہر ہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت رکھتے تھے۔ وہ خوش شکل نہ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن اس کے پاس آئے تو وہ سامان فروخت کر رہاتھا۔ آپؐ نے پیچھے سے اسے بغل میں لے لیا۔ وہ آپؐ کو دیکھ نہیں رہا تھا، اس نے کہا: کون ہے یہ؟ مجھے چھوڑ دے، پھر اس نے مڑ کر دیکھا تو اس نے پہچان لیا کہ یہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، تب وہ اپنی پیٹھ کو پورے زور سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سینۂ مبارک کے ساتھ ملانے لگا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: کون ہے جو مجھ سے اس غلام کو خریدے؟ وہ کہنے لگا: یارسولؐ اللہ! تب آپؐ اسے کھوٹا پائیں گے (یعنی کم قیمت)، تو آپؐ نے فرمایا: لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے ہاں کھوٹے نہیں ہیں۔ (شرح السنۃ، مشکوٰۃ، باب المزاح)

صحابہ کرامؓ، شہری ہوں یا دیہاتی، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیے پیش کیاکرتے تھے اور آپؐ بھی انھیں بدلے میں ہدیہ پیش کیا کرتے تھے۔ زاہر دیہاتی صحابی تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے تھے۔ شہر میں سودافروخت کرنے کے لیے لے کر آتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دیہات سے پیدا ہونے والی چیزیں پیش کرتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہری چیزیں انھیں ہدیہ کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زاہر سے محبت رکھتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا منظر حضرت انسؓ نے یہاں بیان کیا___ ذرا آنکھیں بند کر کے یہ منظر سامنے لایئے۔ کسی معاشرت میں قائدین کا بلکہ سب سے بڑے قائد کا اپنے عام رفقا کے ساتھ یہ برادرانہ سلوک، یہ بے تکلفی (کہ آکے پیچھے سے سر پکڑ لیا!)۔ جب نیلام کے لیے آپؐ نے پیش کیا تو زاہر نے اپنے خوش شکل نہ ہونے کی وجہ سے اچھی قیمت نہ ملنے کا کہاتو آپؐ نے کیا اچھی بات کہی کہ اصل قدروقیمت تو اللہ کے ہاں کی ہے جہاں تم کھوٹے نہ ہوں گے، بلکہ تم جیسوں کا ہی سکّہ چلے گا۔ دل چاہتاہے کہ ہمارے آس پاس بھی یہی خوش گوار ماحول ہو اور قدر ظاہری حُسن کی نہ ہو، بلکہ اللہ کے ہاں مقام کی ہو۔


حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دیکھتاہوں کہ میں جنت میں داخل ہوا ہوں (خواب کی حالت میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب بھی وحی ہوتا ہے)، تو میں نے ایک آدمی کو قرأت کرتے ہوئے سنا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: نیکی ایسی ہی ہونی چاہیے، نیکی ایسی ہی ہونی چاہیے۔ دو مرتبہ فرمایا اور ساتھ ہی فرمایا کہ وہ اپنی ماں کا سب سے بڑھ کر فرماں بردار اور اطاعت گزار تھا۔ (شرح السنۃ، بیہقی فی الایمان، مشکٰوۃ، باب البر والصّلۃ)

حضرت حارثہ بن نعمانؓ جلیل القدر صحابی ہیں۔ غزوئہ بدر، اُحد اور تمام غزوات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے، لیکن اس کے ساتھ اپنی ماں کے بھی فرماں بردار اور اطاعت شعار تھے۔ ماں کی خدمت اور فرماں برداری کے نتیجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جنت میں قرآن پاک پڑھتے ہوئے سنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو ان کی نیکی کی طرف بڑے جذبے سے متوجہ فرمایا کہ نیکی ہو تو ایسی جیسے حارثہ بن نعمانؓ کی نیکی تھی کہ جہاد میں بھی آگے آگے اور ماں کی خدمت میں بھی    پیش پیش۔ بڑا خوش قسمت ہے وہ جسے یہ دونوں نعمتیں نصیب ہوں۔ زندگی میں یہ اعتدال مطلوب ہے۔ فرائض بھی ادا کیے جائیں اور حقوق بھی!


حضرت ابی بکرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی گناہ ایسا نہیں کہ اس پر دنیا میں بھی سزا ملے اور آخرت میں سزا کے لیے بھی وہ گناہ باقی رہے، سواے ظلم اور قطع رحمی کے۔ (ترمذی، ابوداؤد، مشکوٰۃ، باب البر والصّلۃ)

صلۂ رحمی کی بڑی تاکید آئی ہے اور اس کے بڑے اجراور برکت بتائی گئی ہے۔ قطع رحمی، یعنی عزیز واقارب کے حقوق ادا نہ کرنا، عام سا گناہ نہیں، دنیا میں بھی سزا ملتی ہے اور آخرت میں بھی۔ ظلم سے مراد حقوق کا ادا نہ کرنا ہے۔ عزیز واقارب کے بھی، دوسرے احباب اور معاشرے کے بھی۔


حضرت ابوسعید خدریؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جنتیوں کو آواز دینے والا آواز دے گا: اے جنت والو! اب تم ہمیشہ صحت مند رہو گے، کبھی تم پر بیماری نہیں آئے گی۔ اب تمھارے لیے ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے، تم پر کبھی موت نہیں آئے گی۔ اب تم ہمیشہ جوان رہو گے، کبھی تم پر بڑھاپا نہیں آئے گا۔ اب تم ہمیشہ عیش و عشرت میں رہو گے، کبھی فقروفاقہ نہیں آئے گا۔ (مسلم، مشکوٰۃ)

جنت کی زندگی اصل زندگی ہے۔ اس کی قیمت اللہ تعالیٰ کی بندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی ایسی دائمی زندگی کے لیے سب سے اُونچا سودا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ جو اللہ کی بندگی کے ذریعے جنت کی   بے نظیر اور بے مثال نعمتوں سے سرفراز ہوں۔ جنت کا یہ تصور اور اس کی وہ نعمتیں جن کے ذکر سے قرآن بھرا ہوا ہے، ہمہ وقت آنکھوں کے سامنے رہیں، تو آدمی دنیا کی عارضی لذتوں کی خاطر جنت کی زندگی کا موقع ضائع ہرگز نہ کرے گا۔


حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ o(’’اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اس کے تقویٰ کا حق ہے اور تمھیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘۔ اٰلِ عمرٰن ۳:۱۰۲) تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا: اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا میں گر پڑے تو زمین والوں کی زندگی تباہ ہوجائے، ان کا تمام سامانِ عیش خراب ہوجائے، تب ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کا کھانا زقوم  ہوگا۔ (ترمذی ، مشکوٰۃ)

آیت کی تلاوت کرنے کے بعد، دوزخ کی سزا کے بیان کے ذریعے بتایاگیا کہ تقویٰ کی روش اور وہ بھی تاحیات اختیار نہ کرنے والے آخرت میں کس انجام سے دوچار ہوں گے، یعنی زقوم کا کھانا ہوگا۔ آج وہ لوگ جو اسلام کے خلاف صف آرا ہیں، اس دنیا میں کتنی ہی عیش وعشرت کرلیں، ان کے  سب مزوں کی سزا دوزخ کی آگ اور زقوم کا کھانا ہوگا جو سب مزوں کو بھلا دے گا۔ آج وقت ہے کہ وہ کفر سے باز آجائیں، اور دنیاوی مزوں اور بڑائیوں کی خاطر اسلام اور ملت اسلامیہ پر حملہ آور ہونے سے باز آجائیں ورنہ کل قیامت کے روز افسوس کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو سب کچھ بیان کرکے اتمامِ حجت فرمادیا ہے۔ راہِ راست واضح ہے جو آنا چاہے، اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ اسلام کی دعوت پر مشتمل آیت کے بعد جہنم اور اس کے عذاب کی ہولناکی کا بیان اسی غرض کے لیے ہے کہ اسلام اس عذاب سے بچائو کا سامان ہے، اسے غنیمت جانو۔