اس ذکر کی مسلسل عبارت یوں ہے: لَا اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ، نہیں کوئی معبود مگر اللہ اور اللہ سب سے بڑا ہے، نہیں کوئی معبود مگر اللہ تنہا اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ نہیں کوئی معبود مگر اللہ، اسی کے لیے ہے بادشاہت، اوراسی کے لیے ہے حمد۔ نہیں کوئی معبود مگر اللہ اور نہیں کوئی قوت اور نہیں کوئی تدبیر مگر اس کی توفیق اور مدد سے۔
اللہ تعالیٰ کی جو صفات اور شانیں قرآن و حدیث میں آئی ہیں ان پر مشتمل ذکر ایمان وعمل میں قوت کا ذریعہ ہے۔ اس لیے ایسے ذکر کو معمول بنانا چاہیے۔ سب سے بڑی صفت اور شان لا الٰہ الا اللہ ہے اور یہ افضل الذکر ہے۔ پھر یہ احساس کتنا لطف انگیز اور ایمان افروز ہے کہ ادھر ہم ذکر کرتے ہیں، اور ادھر اللہ تعالیٰ اسے دُہراتا ہے۔ پھر موت کے لیے بیماری کی شرط نہیں ہے، اس لیے اس ذکر کے ساتھ جو بشارت ہے اس کی خاطر، اسے معمول بنا لینا چاہیے۔
صحابہ کرامؓ، شہری ہوں یا دیہاتی، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیے پیش کیاکرتے تھے اور آپؐ بھی انھیں بدلے میں ہدیہ پیش کیا کرتے تھے۔ زاہر دیہاتی صحابی تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے تھے۔ شہر میں سودافروخت کرنے کے لیے لے کر آتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دیہات سے پیدا ہونے والی چیزیں پیش کرتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہری چیزیں انھیں ہدیہ کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زاہر سے محبت رکھتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا منظر حضرت انسؓ نے یہاں بیان کیا___ ذرا آنکھیں بند کر کے یہ منظر سامنے لایئے۔ کسی معاشرت میں قائدین کا بلکہ سب سے بڑے قائد کا اپنے عام رفقا کے ساتھ یہ برادرانہ سلوک، یہ بے تکلفی (کہ آکے پیچھے سے سر پکڑ لیا!)۔ جب نیلام کے لیے آپؐ نے پیش کیا تو زاہر نے اپنے خوش شکل نہ ہونے کی وجہ سے اچھی قیمت نہ ملنے کا کہاتو آپؐ نے کیا اچھی بات کہی کہ اصل قدروقیمت تو اللہ کے ہاں کی ہے جہاں تم کھوٹے نہ ہوں گے، بلکہ تم جیسوں کا ہی سکّہ چلے گا۔ دل چاہتاہے کہ ہمارے آس پاس بھی یہی خوش گوار ماحول ہو اور قدر ظاہری حُسن کی نہ ہو، بلکہ اللہ کے ہاں مقام کی ہو۔
حضرت حارثہ بن نعمانؓ جلیل القدر صحابی ہیں۔ غزوئہ بدر، اُحد اور تمام غزوات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے، لیکن اس کے ساتھ اپنی ماں کے بھی فرماں بردار اور اطاعت شعار تھے۔ ماں کی خدمت اور فرماں برداری کے نتیجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جنت میں قرآن پاک پڑھتے ہوئے سنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو ان کی نیکی کی طرف بڑے جذبے سے متوجہ فرمایا کہ نیکی ہو تو ایسی جیسے حارثہ بن نعمانؓ کی نیکی تھی کہ جہاد میں بھی آگے آگے اور ماں کی خدمت میں بھی پیش پیش۔ بڑا خوش قسمت ہے وہ جسے یہ دونوں نعمتیں نصیب ہوں۔ زندگی میں یہ اعتدال مطلوب ہے۔ فرائض بھی ادا کیے جائیں اور حقوق بھی!
صلۂ رحمی کی بڑی تاکید آئی ہے اور اس کے بڑے اجراور برکت بتائی گئی ہے۔ قطع رحمی، یعنی عزیز واقارب کے حقوق ادا نہ کرنا، عام سا گناہ نہیں، دنیا میں بھی سزا ملتی ہے اور آخرت میں بھی۔ ظلم سے مراد حقوق کا ادا نہ کرنا ہے۔ عزیز واقارب کے بھی، دوسرے احباب اور معاشرے کے بھی۔
جنت کی زندگی اصل زندگی ہے۔ اس کی قیمت اللہ تعالیٰ کی بندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی ایسی دائمی زندگی کے لیے سب سے اُونچا سودا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ جو اللہ کی بندگی کے ذریعے جنت کی بے نظیر اور بے مثال نعمتوں سے سرفراز ہوں۔ جنت کا یہ تصور اور اس کی وہ نعمتیں جن کے ذکر سے قرآن بھرا ہوا ہے، ہمہ وقت آنکھوں کے سامنے رہیں، تو آدمی دنیا کی عارضی لذتوں کی خاطر جنت کی زندگی کا موقع ضائع ہرگز نہ کرے گا۔
آیت کی تلاوت کرنے کے بعد، دوزخ کی سزا کے بیان کے ذریعے بتایاگیا کہ تقویٰ کی روش اور وہ بھی تاحیات اختیار نہ کرنے والے آخرت میں کس انجام سے دوچار ہوں گے، یعنی زقوم کا کھانا ہوگا۔ آج وہ لوگ جو اسلام کے خلاف صف آرا ہیں، اس دنیا میں کتنی ہی عیش وعشرت کرلیں، ان کے سب مزوں کی سزا دوزخ کی آگ اور زقوم کا کھانا ہوگا جو سب مزوں کو بھلا دے گا۔ آج وقت ہے کہ وہ کفر سے باز آجائیں، اور دنیاوی مزوں اور بڑائیوں کی خاطر اسلام اور ملت اسلامیہ پر حملہ آور ہونے سے باز آجائیں ورنہ کل قیامت کے روز افسوس کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو سب کچھ بیان کرکے اتمامِ حجت فرمادیا ہے۔ راہِ راست واضح ہے جو آنا چاہے، اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ اسلام کی دعوت پر مشتمل آیت کے بعد جہنم اور اس کے عذاب کی ہولناکی کا بیان اسی غرض کے لیے ہے کہ اسلام اس عذاب سے بچائو کا سامان ہے، اسے غنیمت جانو۔