دسمبر ۲۰۱۱

فہرست مضامین

قربانی مسلمان کو مسلمان بناتی ہے

خرم مراد | دسمبر ۲۰۱۱ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

قربانی اور اندرونی صلاحیتیں

قربانیاںہماری جدوجہد کی کامیابی میں دو طریقوں سے اپناکردار ادا کرتی ہیں۔ایک یہ کہ ہماری اندرونی روحانی اور اخلاقی طاقتوں کو مضبوط کردیتی ہیں اور ہمارے کردار کی اُن صفات کو پروان چڑھاتی ہیں جو ہماری جدوجہدکے ہر مرحلے پر کامیابی کے لیے لازمی ہیں۔ دوسرایہ کہ اجتماعیت میں نظم وہم آہنگی کو فروغ دیتی ہیں اور انھیں تقویت پہنچاتی ہیں، اور وسیع تر معاشرتی سطح پر جہاد برپا کرنے کی صلاحیتیوں اور قوتوں سے بہرہ مندکرتی ہیں۔

قربانی کا ہر عمل آپ کے ایمان میں اضافہ کرتاہے اور اس کو نشوونما دیتاہے۔یہ عمل آپ کے زبانی اعلان اور ذہنی ایقان کو ایک زندہ حقیقت میں بدل دیتا ہے۔اﷲ سے آپ کی محبت کی توثیق کرتاہے اور اس میں اضافہ کا موجب بنتاہے ،کیوں کہ ہرقدم پرجب آپ اﷲ کی محبت میں کوئی شے قربان کرتے ہیں، تو اﷲ سے آپ کا اخلاص اور اُس پر آپ کا ایمان مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے، دیگر تمام وفاداریاں ثانوی حیثیت اختیارکرلیتی ہیں، کیوں کہ اُنھیں آپ صرف اﷲ سے وفاداری کی خاطر قربان کردیتے ہیں۔ مختصر الفاظ میں قربانیاں آپ کو اﷲ سے قریب تر کر دیتی ہیں۔ دونوں باتیں ایک دوسرے پر اثراندازہوتی ہیں۔عقیدہ جتنا مضبوط ہوگا قربانی دینے کی صلاحیت اورعزم اتنا ہی زیادہ ہوگا، اور جتنی بڑی قربانی دی جائے گی، عقیدہ اُتنی ہی گہری جڑ پکڑتا جائے گا۔

تمام اخلاقی اوصاف کی افزایش کے لیے قربانیاں جزوِ لازم ہیں، بالخصوص قوتِ برداشت، استقامت، استقلال ، تحمل وبردباری، عزمِ صمیم اور اولوالعزمی کی صفات میں اضافے کے لیے۔  ان تمام صفات کا خلاصہ ایک لفظ میں کیا جاسکتاہے اوروہ ہے:’صبر‘۔ ہرقربانی صبر کی صلاحیت کو تقویت پہنچاتی ہے، اس کے درجے میں اضافہ اور مضبوطی پیداکرتی ہے۔اس کے عوض صبر قربانی کی صلاحیت میں اضافہ اوراستقرار پیدا کرتا ہے۔ یہ بھی دوطرفہ عمل ہے۔ اﷲ کی طرف سے مددونصرت کے تمام وعدے، اِس دُنیا میں فوزوکامرانی کی تمام یقین دہانیاں اورآخرت کے تمام انعامات و اکرامات، سب ایمان اور صبر کے اکتساب سے مشروط ہیں۔ (آل عمران ۳:۱۲۵، ۱۳۹، الانفال ۸:۴۶، الاعراف ۷:۱۳۷، الزمر ۳۹:۱۰)

قربانی اوراجتماعی نظم وضبط

صبر بہت جامع وصف ہے۔اس کے متعدد پہلوؤں میں سے ایک پہلو نظم وضبط ہے۔  نظم وضبط کا قربانی سے قریبی تعلق ہے۔ اصل میں دونوںکا ایک دوسرے پر انحصارہے۔ نظم وضبط اپنے مکمل مفہوم میں، بشمول ذاتی نظم وضبط، روحانی واخلاقی نظم وضبط ، جماعتی نظم وضبط اور سماجی  نظم وضبط، اُس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک آپ اپنی محبوب چیزوں کی قربانی دینے کے لیے تیار نہ ہوں۔ آپ اُس وقت تک اُن چیزوں کی قربانی بھی نہیں دے سکتے ، جن کی آپ کے نزدیک کوئی قدروقیمت ہے جب تک آپ اپنے اندر نظم وضبط نہ پیدا کرلیں ___ اندرونی نظم وضبط۔ اگرچہ منظم اجتماعی زندگی بھی فردکے اندر قربانی کی روح پھونکنے میں کم اہم کردار ادا نہیں کرتی۔ قربانی بھی اس طرح کی منظم اجتماعی زندگی کو تشکیل دینے اور اسے قائم رکھنے کے لیے اُتنی ہی ضروری ہے۔آئیے ہم ایک مختصر جائزہ لیں کہ کیوں ضروری ہے؟

واضح بات ہے کہ جب اﷲ کی راہ پر آپ اکیلے چل رہے ہوں تو اُس کی رضا و خوشنودی کے حصول میں کامیاب ہونے کے لیے آپ کوعظیم سے عظیم تر قربانیاں دینے اور زیادہ سے زیادہ ضبطِ نفس اختیار کرنے کی ضرورت پڑے گی۔مگر جوں ہی آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ دوسروں کے ساتھ مل کر دُنیا کو اُس کے خالق کی اطاعت وفرماں برداری کے تحت لانے کی اجتماعی جدوجہد کریں گے تو آپ کواور زیادہ قربانیاں دینے کی ضرورت پڑے گی۔اس کے بغیر آپ کی منظم اجتماعی جدوجہد ہی کوئی پایدار صورت اختیار کر سکتی ہے نہ آپ کے اندر اپنے مشن میں کامیابی کے لیے کوئی اُمنگ پیدا ہوسکتی ہے۔قرآن کہتاہے:اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌo (الصف ۶۱: ۴)’’اﷲ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میںاِس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیںگویاکہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ کتنی حسین اور معنی خیز تمثیل ہے۔ مضبوط اور ٹھوس،مربوط اور پیوست، ناقابلِ تسخیر اور ہرطرح کے شگاف اور دراڑ سے مبرا، یہ ہے وہ انداز جس سے مسلم اُمہ مل جل کر اور باہم مربوط ہوکر اﷲ کی راہ میں جدوجہد کرتی ہے۔

اب دیکھیے دیوار کس طرح تعمیر کی جاتی ہے؟ بہت سی اینٹیں جوڑی جاتی ہیں تو دیوار بنتی ہے۔ ہر اینٹ اپنی منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ یہ اینٹیں ایک ٹھوس، مضبوط اور ناقابلِ تسخیر دیوار بننے کے لیے ’صف بندی‘ کیسے کرتی ہیں؟ایک اینٹ دوسری اینٹ کے ساتھ کھڑی کر کے اور ایک اینٹ دوسری اینٹ کے اوپر نصب کرکے آپ سمینٹ سے جوڑ دیتے ہیں اور دیوار اونچی کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہر ہر مرحلے پر دیوار کی مضبوطی اور اونچائی میں اضافہ ہوتاچلا جاتاہے۔ ہر اینٹ دوسری اینٹ سے اُسی طرح مشابہت رکھتی ہے جس طرح کی مشابہت ایک انسان  دوسرے انسان سے رکھتا ہے، باوجودے کہ ہر ایک کی اپنی اندرونی انفرادیت بھی ہوتی ہے۔ کسی اینٹ کو اپنی یہ انفرادیت قربان کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مضبوطی اور شان داری کی یہ خوبیاںیقینا بہت سی انفرادیتوں کے اکٹھا ہوجانے سے حاصل ہوتی ہیں۔

لیکن اگر آپ ایک دیوار بنائیں اور ہر اینٹ اپنے طریقے پر چلنے پر اَ ڑ جائے،اوراگروہ اُس بوجھ کو سہارنے کے لیے تیار نہ ہو جو اوپر والی اینٹ سے اُس کو منتقل ہوگا یا جو سہارا اُسے اپنے نیچے والی اینٹ کو دینا ہے،اور اگر وہ اینٹ جسے کونے میں نصب ہونا ہے وہ اس بات کے لیے تیار نہیں کہ اُس کی ایسی تراش خراش کی جائے جس سے وہ اپنے مقام پر درست انداز سے فٹ ہوجائے، توکوئی مضبوط دیوار کبھی بھی تعمیر نہیں کی جاسکتی۔بہت سی اینٹوں کو زمین کے اندر بنیادوں میں نصب ہونا پڑتاہے، عمارت بن جانے کے بعد وہ کسی کو دکھائی نہیں دیتیں، حالانکہ پوری عمارت کا بوجھ اُنھی پر ہوتاہے اوراُن کی اس قربانی کے بغیر عمارت زمین سے بھی اوپر نہیں اُٹھ سکتی۔   بہت سی اینٹوں کی توڑ پھوڑ کرنی پڑتی ہے تاکہ ایک ہموار دیوار بنائی جاسکے۔

ہراینٹ سے تھوڑی تھوڑی قربانی لیے بغیر ایک مضبوط دیوارکبھی وجودمیں نہیںآ سکتی۔

قربانی کیا ھے؟

اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ قربانی کیا ہے؟ہم کیا قربان کریں؟ کون سی قربانیاںدینا زیادہ دُشوار ہے؟ کن قربانیوںکو عظیم قربانی کہا جا سکتاہے؟

  •  دو اقسام: قربانی، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، سادہ الفاظ میں اُن اشیا سے دست بردار ہوجانے کا نام ہے جو ہمیں محبوب ہیں، ہماری پسندیدہ ہیں اور جن کی ہماری نظروں میں کچھ قدروقیمت ہے۔ جو فی الوقت ہماری ملکیت میں ہیں یا مستقبل میں ہم جنھیں حاصل کرلینے کی تمنا اور آرزو رکھتے ہیں۔یہ اشیا قابلِ محسوس یامادّی اشیا بھی ہوسکتی ہیں اور ناقابلِ محسوس یا مجرد اشیا بھی۔ مادّی اشیا میں سے اہم چیزیں وقت، دولت، دُنیاوی مال ومتاع ، جسمانی صلاحیتیں اورزندگی ہیں۔ مجرد اشیا میں سے اہم چیزوں میں ہمارے پیار محبت کے رشتے ناتے بالخصوص خاندانی تعلقات، ذاتی پسند وناپسند، ترجیحات و تعصبات، خیالات اور نقطۂ نظر، آرزوئیں اور تمنائیں، آرام وراحت، عہدہ ومنصب یا محض ہماری انا اور خود پسندی۔

یہاں مجھے تین بنیادی اُصول پیش کرنے کی اجازت دیجیے جو میری نظر میں قربانی کے مکمل مفہوم سے آگاہ ہونے کے لیے سمجھنا ضروری ہیں:

اوّل: کسی چیزسے دست بردار ہوجانا صرف اُسی صورت میں قربانی کہلائے گا جب وہ چیز ہمیں محبوب ہو اور ہمارے نزدیک اُس کی کوئی قدروقیمت ہو۔ اس لحاظ سے مادّی اور مجرد اشیا کے مابین کوئی خطِ امتیاز کھینچنا دُشوارہے۔حتمی تجزیہ یہ ہوگا کہ ہر قربانی ہماری محبت اور ہماری قابلِ قدر چیزوں کی قربانی ہے۔ جب ہم اپنی دولت، اپنی زندگی یا اپنے خاندانی تعلقات سے اﷲ کی خاطر دست بردار ہوتے ہیں، تو در حقیقت ہم جس چیز سے دست بردار ہورہے ہوتے ہیں، اور جوکیفیت اِسے قربانی کی شکل دیتی ہے، وہ خود مال، زندگی یا رشتوں ناتوں سے دست برداری نہیں بلکہ مال کی محبت، زندگی کی محبت یا عزیزوں اور رشتہ داروں کی محبت سے دست برداری ہے۔

دوم:مادّی چیزوں کے بجاے مجرد اشیا کی قربانی دینا زیادہ دُشوار اور زیادہ ضروری ہے۔

سوم:ہم اپنی محبوب اور قابلِ قدر اشیا سے صرف اُنھی چیزوں کے لیے دست بردار ہوسکتے ہیںجوہمیں اِن سے زیادہ محبوب ہوں اور جن کی ہماری نظر میں اِن سے زیادہ قدروقیمت ہو۔

مادّی قربانیاں

یہاںہمیں مادّی اشیا کی قربانی پر زیادہ وقت صرف کرنے کی ضرورت نہیں۔ہم ایسی قربانیوں سے خوب واقف ہیں،ان کا اچھی طرح سے ادراک رکھتے ہیں اور ان کی ضرورت اوراہمیت کو تسلیم بھی کرتے ہیں، اُس صورت میں بھی کہ جب کئی مواقع پر ہم خود اس قسم کی قربانیاں دینے کے قابل نہ ہوں یا اس قسم کی قربانیاں دینے میں دُشواری محسوس کررہے ہوں۔ لیکن اگر ہم نے اپنے آپ کو کسی نصب العین کے حصول کے لیے وقف کردیا تو وقت یا موقع آنے پرہمیںان میں سے ہر شے کی قربانی دینی ہوگی۔لہٰذاہم یہاں رُک کر اُن کی کچھ اہم خصوصیات ملاحظہ کرتے ہیں۔

وقت

وقت ہماری سب سے قیمتی متاع ہے۔ہماری زندگی کی کوئی ضرورت اورکوئی خواہش اُس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہم اُس کے حصول کے لیے وقت نہ نکالیں اور باقاعدہ وقت نہ دیں۔ہم اپنا وقت مسرت کی تلاش میں صرف کر سکتے ہیں،دُنیاوی مال و متاع اور دولت کمانے میں صرف کر سکتے ہیں، کام میں صرف کر سکتے ہیں،لطف اندوزی میں صرف کر سکتے ہیں یا محض وقت گزاری میں بھی___ کچھ نہ کرتے ہوئے۔

وقت وہ اوّلین شے ہے جو اﷲ ہم سے طلب کرتاہے۔اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔نماز اداکرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔دعوت کاکام کرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔ قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے میں وقت صرف ہوتاہے، اور بیمار کی عیادت کرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔ اﷲ سے اپنا عہد پورا کرنے کے لیے ہمیں ہر لمحہ اُس کی رضا کے حصول میں صرف کرنا ہوگا۔لیکن اگر آپ مزید گہرائی میں جاکر غور کریں تو آپ تسلیم کریں گے کہ جوچیز آپ فی الواقع قربان کررہے ہیں وہ وقت نہیں ہے۔ وہ اشیا ہیں جن کی جستجو میں آپ کاوقت صرف ہوتاہے، ایسی اشیاجو آپ کی زندگی کے نصب العین سے متصادم ہوسکتی ہیں، بے معنی، غیر اہم، یااﷲ کے کام کے مقابلے میں کم اہم۔ لہٰذا اسلام کے لیے وقت نکالنے سے قبل، کوئی اور کام کرنے سے پہلے، آپ کو بہت سی ایسی چیزوں کی قربانی دینی ہوگی جو آپ کا وقت لے لیتی ہیں۔

آپ اپنے آپ کو ان چیزوں کی قربانی دینے، اور اپنا وقت اﷲ کے لیے مخصوص کردینے پر کس طرح آمادہ کرسکتے ہیں؟

یاد رکھیے کہ وقت ایسی چیز ہے جسے آپ ایک لمحے کے لیے بھی تھام کر نہیں رکھ سکتے۔یہ مسلسل آپ کے ہاتھ سے نکلتااورپھسلتا ہی رہے گا،خواہ آپ اسے کسی کام میں بھی صرف کرناچاہیں۔ وقت سے ملنے والا فائدہ بس وہی کچھ ہے جو آپ اُس وقت میں حاصل کرلیتے ہیں۔ ورنہ وقت توبرف کی طرح پگھل کر ختم ہوجائے گا، البتہ جوچیزآپ حاصل کریں گے وہ رہ جائے گی۔

ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیے کہ وقت کاہر لمحہ یاتو ابدی سکون و راحت میں بدل سکتاہے یا کبھی نہ ختم ہونے والے عذاب میں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ وقت کوکیسے صرف کرتے ہیں۔ اِس بات کو ذہن نشین رکھنے کے نتیجے میں آپ زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ وقت کی قربانی دے سکیں گے۔ وہ لمحے جنھیں آج آپ اپنی گرفت میں نہیں رکھ سکتے، کل آپ کے لیے نفع بخش ثابت ہوںگے، وہ کبھی ضائع نہیں جائیں گے۔ آخر آپ اُن چیزوں کے حصول کی قربانی کیوں نہ دیں جو کل آپ کو کبھی نہ ختم ہونے والی پریشانی یا پچھتاوے کی صورت میں واپس ملیں گی؟

پس جب وقت گزرہی رہاہے تو ذرا گہرے غور وخوض سے حساب لگائیے کہ آپ کیا حاصل کررہے ہیں؟ کوئی ناپایدار شے یا کوئی ابدی چیز؟ آگے چل کریہ کوئی پچھتاوا بنے گا یا خوشی؟ آپ کے وقت میںسے اسلام کو کون سی ترجیح ملی ہوئی ہے؟اپنے وقت کا کتنا حصہ آپ نے اﷲ کے لیے مخصوص کیا ہے؟ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍط (الحشر ۵۹:۱۸)’’ہرشخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیاہے؟‘‘

اﷲ کے لیے اپنے وقت کی قربانی دینا اسلام کی روح ہے۔جب بھی پکارا جائے آپ کو لازماً لبیک کہناہے۔یوں اﷲ کی راہ میں اپنے وقت کی قربانی دے کر آپ اپنے آپ کو ہر چیز کی قربانی دینے کے لیے تیار کرلیں گے۔دن میں پانچ مرتبہ آپ کے اندر یہ صفت راسخ کی جاتی ہے۔ جمعہ کے دن کے لیے آپ کو ہدایت ہے کہ: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوْا الْبَیْعَط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الجمعہ ۶۲:۹)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن، تواﷲ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔

دولت اورمتاعِ دُنیوی

آپ کا زیادہ وقت دولت کمانے یا دولت کے ذریعے سے متاعِ دُنیوی حاصل کرنے میں گزرتا ہے۔ اُن کی طلب اور اُن کی محبت ہماری فطرت میں رچی بسی ہوئی ہے۔ زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِط (اٰل عمران ۳:۱۴) ’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس: عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے،مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آیند بنادی گئی ہیں‘‘۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ متاعِ دُنیا سے رغبت و محبت کوئی مذموم بات ہے، نہ غلط بات ہے، نہ بدی۔یہ دُنیا برائیوں کی پوٹ نہیں‘ اس طرح کی باتیں قرآن کی تعلیمات میں نہیں ملتیں۔ قرآن میںمال ودولت کو گھٹیا اور حقیر چیز نہیں قرار دیا گیا ہے ’خیر‘ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ اور یہ بالکل معقول بات ہے،کیوں کہ اﷲ کی راہ اور اُخروی نعمتوں کا راستہ اسی دُنیا سے گزرتاہے۔ اگر ہم اس دُنیا کو اپنے اوپر حرام کر لیں تو کوئی چیز ایسی نہیں بچتی جس کی مدد سے ہم آخرت کے انمول خزانے حاصل کرسکیں۔چناں چہ یقینی طورپر یہی دُنیا وہ واحد وسیلہ ہے جس کی بنا پر ہم اﷲ کی رضا اور اگلی دُنیا کی مسرتیں حاصل کرسکتے ہیں۔

جوچیز اس دُنیا کوبرائی اور شر بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس بات کو فراموش کردیں کہ یہ سب کچھ ہماری صوابدیدپر صرف اسی دُنیا کی زندگی کے لیے دیا گیا ہے۔ یہ اُس حقیقی اور ابدی نصب العین کے حصول کا ایک وسیلہ ہے،جو اِس دُنیا و مافیہا سے بہتر چیز ہے۔جب ذریعہ منزل بن جائے تو وہ ہمیں حقیقی قدروقیمت والی چیز سے بھٹکا کرمصائب وآلام میں مبتلا کردیتاہے۔ اوپر جس قرآنی آیت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ آگے چل کر کہتی ہے:

ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِo قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ ط لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ وَّ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِط (اٰل عمرٰن ۳:۱۴-۱۵)، یہ سب دُنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اﷲ کے پاس ہے۔کہو: میں تمھیں بتاؤں کہ ان سے اچھی کیا چیز ہے؟ جولوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں اُن کے لیے اُن کے رب کے پاس باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں انھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہوگی،پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اوراﷲ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے۔

دُنیاوی مال ومتاع کو اﷲ کی راہ میں قربان کردینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔جب حقیقی فیصلے کا وقت آتاہے تو اچھے اچھے ڈانوا ڈول اور ناکام ہوجاتے ہیں۔ چند چیزیں یاد رکھنے کی ہیں جو یہ دشوار قربانیاں دینے میں آپ کی مدد کریں گی:

اوّل: کوئی چیز آپ کی اپنی ملکیت نہیں، ہرچیز کا مالک اﷲ ہے۔جب آپ اﷲ کی راہ میں کوئی چیز قربان کرتے ہیںتو آپ وہ چیز اُس کے اصل مالک کو محض لوٹارہے ہوتے ہیں۔

دوم:آپ کے دُنیاوی مال ومتاع کی خواہ کتنی ہی قدر وقیمت کیوں نہ ہو، آپ کے آخری سانس کے ساتھ ہی آپ کے لیے اُس کی قیمت صفر ہو جائے گی:

مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍ ط (النحل ۱۶:۹۶)، جوکچھ تمھارے پاس ہے وہ خرچ ہوجانے والا ہے اور جوکچھ اﷲ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔

وَاضْرِبْ لَھُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآئٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآئِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ھَشِیْمًا تَذْرُوْہُ الرِّیٰحُ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ مُّقْتَدِرًا o اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج (الکھف ۱۸:۴۵-۴۶)، اور اے نبیؐ، انھیں حیاتِ دُنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پود خوب گھنی ہوگئی، اور کل وہی نباتات بھس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اُڑائے لیے پھرتی ہیں۔اﷲ ہر چیز پر قدرت رکھتاہے۔ یہ مال اور یہ اولاد محض دُنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش ہے۔

سوم: صرف اﷲ کی راہ میں خرچ کرکے ہی آپ اس کا کئی گُنا زیادہ واپس حاصل کرسکتے ہیں:

وَاَقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ط وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ھُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًا ط (المزمل ۷۳:۲۰)، اﷲ کو اچھا قرض دیتے رہو۔ جوکچھ بھلائی تُم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اﷲ کے ہاں موجود پاؤگے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑاہے۔

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ط  وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشآئُ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo (البقرہ ۲:۲۶۱)، جولوگ اپنے مال اﷲ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اُس سے سات بالیں نکلیں اورہر بال میں سَو دانے ہوں، اسی طرح اﷲ جس کے عمل کو چاہتاہے، افزونی عطا فرماتاہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔

ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیے: اسلام سے آپ کی وابستگی کے دعوے کی کیا حیثیت رہ جائے گی اگر آپ اپنے نصب العین کے بجاے فضول قسم کی لطف اندوزی ، مثلاً تمباکو نوشی اور چٹورپن پر زیادہ رقم خرچ کریں۔اﷲ کے وعدے پر آپ کے ایمان کی کیا حیثیت ہو گی اگر اس دُنیا میں حصولِ منفعت کی ہلکی سی اُمید پر بھی آپ اپنی ساری بچت کی سرمایہ کاری کرگزریں، مگر ،کم ازکم سات سَوگُنا نفع کا وعدہ، جو کبھی واپس نہیں لیا جائے گا، آپ کو اپنے بٹوے کا مُنھ کھولنے پر مجبور نہ کرے۔آپ حساب لگاسکتے ہیں کہ اپنی دولت کا جتنا حصہ آپ اﷲ کی راہ میں صرف کرتے ہیں اُس کی روشنی میں اسلام کو آپ کی زندگی میںکیا مقام حاصل ہے۔

دولت کی قربانی دینا کبھی بھی آسان کام نہیں رہا۔ مگر ہمارا زمانہ وہ زمانہ ہے کہ جس میں بہتر معیارِ زندگی،عیش وعشرت پسندی، اسراف، اور مادّیت پرستی زندگی کا واحد مقصد بن کر رہ گئے ہیں۔ لہٰذا آپ کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں اس معاملے میں آپ کو ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

زندگی

ایک وقت ایسا آئے گا جب اﷲ کی راہ میں آپ کو اپنی جان قربان کردینے کی ضرورت بھی پیش آئے گی۔اپنی جان کی قربانی پیش کر دیناشہادت دینے کا بلند ترین عمل ہے،ایسی صورت میں آپ شہید کہے جانے کے حق دارقرارپاتے ہیں۔ زندگی آپ کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ اس کی قربانی دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے وہ سب چیزیں قربان کردیں جو زندگی آپ کو عطا کرتی ہے یاعطاکرسکتی ہے،وہ تمام مادّی اور غیرمادّی چیزیں جن کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔

جوںہی آپ کو اس حقیقت کا احساس ہوگا کہ اپنی زندگی کے مالک آپ نہیں ہیں بلکہ اﷲ ہے توآپ یقینا اُس کی راہ میں اپنی زندگی نثار کردینے پر آمادہ وتیار ہوجائیں گے۔آپ اُس کی امانت اُس کے حضور پیش کردیں گے۔یہ بات بھی آپ کے ذہن نشین رہنی چاہیے کہ موت سے آپ کو مفر نہیںہے، وہ اپنے مقررہ وقت پر، مقررہ جگہ پر اور مقررہ طریقے سے آکر رہے گی۔      (اٰل عمران ۳:۱۸۵، ۱۴۴-۱۴۵، ۱۵۴-۱۵۶، النّساء ۴:۷۸) ۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جو لوگ اﷲ کی راہ میں جان دیتے ہیں وہ اپنے لیے ، اپنی قوم کے لیے اور اپنے نصب العین کے لیے حیاتِ ابدی حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ عمل اُن کی موت کو افضل و اشرف موت بنادیتاہے۔ وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۴)’’اور جولوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں، اُنھیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیںہوتا‘‘۔

حُبِّ دُنیا نہ ہو، خوفِ مرگ نہ ہو، تب ہی آپ کو وہ استقامت حاصل ہوگی جو زندگی قربان کرنے کے لیے ضروری ہے۔مخالف قوتوںپر آپ صرف اُسی صورت میں غلبہ حاصل کرسکتے ہیں جب جان دینے پر آمادہ ہوں۔کامیابی کا دروازہ بس اسی طرح کھلے گا۔ مرکر آپ زندگی پالیتے ہیں، اپنے لیے بھی اور اپنی قوم کے لیے بھی۔ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔ جب تک آپ جان دینے کے لیے تیار نہ ہوں تب تک آپ زندہ رہنے کے حق سے محروم رہیں گے، بالخصوص بحیثیت ِ قوم۔ایسا نہیں ہے کہ ہم میں سے ہر فرد کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے پکارا جائے گا، مگر آرزوے شہادت کی آگ ہر دِل میں بھڑکنی چاہیے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو اﷲ کی راہ میں جہاد نہ کرے یا اس کی آرزو بھی نہ رکھے وہ منافق کی موت مرے گا‘‘ (مسلم)۔ آپؐنے یہ بھی فرمایا کہ: ’’اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے یہ محبوب ہے کہ میں اﷲ کی راہ میںماراجاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، اورپھر زندہ کیا جاؤں، اورپھراﷲ کی راہ میں مارا جاؤں‘‘ (بخاری، مسلم)۔ (جاری)