مسعود جاوید کے مضمون ’’پہلا وہ گھر خدا کا‘‘ (جون ۲۰۱۱ء) میں خانہ کعبہ کی لمبائی ۱۸فٹ، چوڑائی ۱۴فٹ اور اُونچائی ۳۵فٹ بتائی گئی ہے (ص ۵۸) لیکن میرے خیال میں یہ صحیح نہیں۔ کعبۃ اللہ کی حاضری کا شرف حاصل کرنے والا اس کی پیمایش کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن بظاہر اللہ کے گھر کی لمبائی چوڑائی اس سے بہت زیادہ ہے۔ مکتبہ دارالسلام، ڈاکٹر شوقی ابوخلیل کی تالیف اطلس القرآن میں لکھا ہے: ’’بیت اللہ کو کعبہ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی شکل مکعب ہے۔ بظاہر اس کی لمبائی، چوڑائی اور اُونچائی برابر ہیں لیکن غور سے دیکھیں توایسا نہیں۔ بیت اللہ زمین سے ۱۵ میٹر (۴۹ فٹ ۳ انچ) بلند ہے۔ حطیم کی جانب اور اس کے مقابل کی دیواریں ۳۵،۳۵ فٹ لمبی ہیں، جب کہ دروازے والی اور اس کے مقابل کی غربی دیوار ۴۰،۴۰ فٹ کی ہیں۔ دروازہ فرش مطاف سے چھے فٹ بلند ہے۔ خود دروازے کی بلندی ساڑھے چھے فٹ ہے اور اس کے بائیں ہاتھ زمین سے تقریباً پانچ فٹ بلندی پر حجراسود ہے‘‘۔ (ص ۹۹)
’حکومت، ریاست کے لیے خطرہ‘ (اکتوبر ۲۰۱۱ء) میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے دردمندی کے ساتھ پاکستان کی موجودہ حالت اور سیاست کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ توجہ کے لائق ہے۔ بجا طور پر فرمایا ہے کہ ’’موجودہ حکمرانوں سے نجات، اسلامی فلاحی جمہوری پاکستان کی تعمیر اور ایک دیانت دار، باصلاحیت، خداترس اور خادمِ خلق قیادت کو منصب ِ اختیار کی تفویض، موجودہ مسائل کا حل ہے‘‘۔
’اسرارِحج‘ ڈاکٹر میرولی الدین کی تحریر فی الواقع مفید اور ایمان افروز ہے۔ کاش! ہر مسافرِ حرم کی نظر سے گزر جائے اور ان کا سفر باعث ِ سعادت و فلاح بن جائے۔
’اسرارِ حج‘ (اکتوبر ۲۰۱۱ء) میں عشق، عاشق، صوفی وغیرہ کی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں، بکثرت اشعار آئے ہیں اور جذباتی رنگ غالب ہے۔ یہ تصوف کی اصطلاحات ہیں۔ عشق تو حد سے گزر جانے کا نام ہے اور اس کیفیت میں حدِاعتدال سے گزرنے کا احتمال ہوتا ہے۔ شاعری کو بھی پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا۔ یہ حج کے روایتی تصور سے مختلف تحریر ہے۔
’خوشی کے آنسو‘ (نومبر ۲۰۱۱ء) بڑی حوصلہ افزا تحریر ہے۔ دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ خودساختہ نظام ملیامیٹ ہورہے ہیں، وہ تحریکات جن کو دبانے کی بھرپور سعی کی گئی تھی، اُبھر کر سامنے آگئی ہیں۔ تازہ ہوا کے یہ جھونکے پاکستان کی تحریک اسلامی کے لیے اُمید کا ایک نیا پیغام ہیں۔
’زبان کا مسئلہ اور ہمارے فیصلے کرنے والے‘ (اکتوبر۲۰۱۱ء) اہم موضوع پر ہے۔ فی الواقع اس موضوع پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کبھی کسی قوم نے اپنی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں تعلیم پاکر ترقی نہیں کی۔