دسمبر ۲۰۱۱

فہرست مضامین

بھارت ___ اور پسندیدہ ترین ملک!

پروفیسر خورشید احمد | دسمبر ۲۰۱۱ | اشارات

Responsive image Responsive image

اقبال نے سچ کہا تھا کہ   ؎

تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

غلامی صرف سیاسی ہی نہیں، ذہنی، فکری اور تہذیبی بھی ہوتی ہے، جو بسااوقات سیاسی غلامی سے بھی بدتر ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح مفادات کی اسیری بھی اسی طرح تباہ کن ہوتی ہے جس طرح سامراج کی سیاہ رات میں قومیں تباہی و بربادی سے دوچار ہوتی ہیں۔

بدقسمتی سے آج پاکستان پر ایک ایسی سیاسی قیادت مسلط ہے جو زندگی کے ہرمیدان میں ’ناخوب‘ کو ’خوب‘ بنانے کے کارِ مذموم میں سرگرم ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ۳نومبر ۲۰۱۱ء کو مرکزی کابینہ کے ایک ’اصولی فیصلے‘ کے نام پر کیا جانے والا وہ شرم ناک اعلان ہے جس کے ذریعے پاکستان کی حکومت بھارت کو ’پسندیدہ ترین ملک‘ (Most Favoured Nation) قرار دے رہی ہے۔ یہ فیصلہ اتنی عجلت میں اور اس کا اعلان اتنے اچانک انداز میں کیا گیا ہے کہ پاکستانی تو پاکستانی، خود بھارت کی قیادت اور سفارت کار بھی ایک بار تو ورطۂ حیرت میں ڈوب گئے اور پھر خوشی اور مسرت سے چلّا اُٹھے کہ انھیں کانوںپر اعتبار نہیں آرہا، بلکہ اسلام آباد میں بھارت کے ایک اعلیٰ سفارت کار نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ اعلان ایک خوش گوار دھماکے سے کم نہیں___ یہ اور بات ہے کہ بھارت کی قیادت کے لیے یہ تحفہ ایک ’نعمت ِغیر مترقبہ‘ تھا تو پاکستانی قوم کے لیے ایک دل خراش سانحہ! ان کے دل و دماغ پر یہ اعلان بجلی بن کر گرا اور پاکستان کی ۶۴سالہ قومی اتفاق پر مبنی پالیسی کو خاکستر کرگیا۔

حکومت کا یہ اعلان تحریکِ پاکستان کے مقاصد کی نفی، پاکستانی ریاست کے وجود کے لیے چیلنج، معیشت کے مستقبل کے لیے خطرہ اور قیامِ پاکستان کے لیے کی جانے والی برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی جدوجہد سے بے وفائی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسئلے کے تمام اہم پہلوئوں پر کھل کر اور دلیل سے بات کی جائے اور تمام محب وطن قوتوں کو منظم اور متحرک کیا جائے تاکہ عظیم قربانیوں کے بعد حاصل کیا جانے والا یہ ملک، جو امریکی غلامی کے جال میں تو پھنسا ہوا ہے ہی، اب کسی نئی غلامی کے جال میں نہ پھنس جائے۔

پاکستان کے قیام کا مقصد صرف برطانوی اقتدار سے آزادی ہی نہ تھا بلکہ ہندو سامراج کی گرفت سے آزادی اور اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ایک ایسی خودمختار مملکت کی تعمیر تھا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وفاداری کے ساتھ عدل و انصاف کا نمونہ، اور اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی، ہر میدان میں خیر اور صلاح کی ضامن ہو۔ تقسیم ہند کا مقصد معیشت، سیاست اور تہذیب و تمدن کے دو مختلف بلکہ متضاد نمونوں (models) کو اپنے اپنے دائرے میں نئی دنیا کو تعمیر کرنے کا موقع فراہم کرنا تھا۔ اکھنڈ بھارت کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانا تھا۔ آج کا بھارت ایک نئے روپ میں وہی کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے جو کانگریس کی قیادت میں برطانیہ کے آخری دور میں گاندھی جی، جواہرلعل نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل نے ادا کیا تھا اور جسے قائداعظم کی قیادت میں برعظیم کے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک نے ناکام بنا دیا تھا۔

علاقائی تعاون کے نام پر اصل ایجنڈاجنوبی ایشیا کے لیے ایک معاشی، تہذیبی اور بالآخر سیاسی اکھنڈ (Union) کا قیام ہے اور بھارت امریکا کی آشیرباد سے اس ایجنڈے پر عمل کے لیے سرگرم ہے۔ نیز کھلے اور درپردہ، اس منصوبے کو بروے کار لانے میں اسرائیل بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہمیں دکھ سے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ زرداری صاحب نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد بھارت سے راہ و رسم بڑھانے اور نئی equation استوار کرکے تقسیم کی لکیر کو غیرمؤثر بنانے کے اشارے دیے تھے اور ستم بالاے ستم کہ مسئلہ کشمیر جو پاکستان اور اہلِ جموں و کشمیر کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، اس کے بارے میں بھی ارشاد فرمایا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو نئی نسلوں کے لیے چھوڑنے کے خواہش مند ہیں اور یہی پیغام الطاف حسین صاحب کا بھی تھا۔ پاکستان کی معیشت کو بھارت کی مصنوعات، سرمایہ،تاجروں اور میڈیا کے لیے کھولنے کے اقدام اس منزل کی طرف مراجعت کے لیے زینے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھارتی دانش ور صحافی جناب کلدیپ نائر تجارت کے اس مجوزہ دروبست میں بھارت کے اس خواب کے نقش و نگار کی جھلک دکھاکر مستقبل کی تصویر کی یوں منظرکشی کرتے ہیں:

جنوبی ایشیا کے پورے علاقے میں آزادانہ تجارت میرا خواب ہے۔ ہم یورپ کی طرح ایک دن ایک معاشی یونین بنا لیں گے۔ یہ فی الوقت بہت دُوردراز نظرآتا ہے،تاہم اگر تقریباً ۱۶ برس کے بعد انتہائی پسندیدہ قرار دینا (ایم ایف این) ایک حقیقت بن چکا ہے تو معاشی یونین کیوں نہیں بن سکتی؟ (دی ایکسپریس ٹریبون، ۱۴نومبر ۲۰۱۱ء)

بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی کوششوں کو ان کے اصل تاریخی پس منظر اور علاقے کے لیے نئے بڑے کھیل (great game) کی روشنی میں دیکھنا اور سمجھنا ہوگا۔


بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور جغرافیائی اور سیاسی حقائق کو نظرانداز کرنا ایک حماقت ہے۔ قائداعظم نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد اعلان کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت، دونوں کو ایک دوسرے کے جداگانہ نظام ہاے زندگی کو تسلیم کر کے دوستی اور تعاون کی نئی راہیں اختیار کرنی چاہییں لیکن اگر ہماری خودمختاری اور تہذیبی شناخت کو مجروح کرنے اور پرانا کھیل جاری رکھنے کی کوشش کی گئی تو پاکستانی قوم اسے ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کرے گی۔ بدقسمتی سے بھارت نے تقسیم ملک سے آج تک پاکستان کو آزاد، خودمختار اور برابری کی سطح پر معاملات کرنے والے ملک کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا۔ کانگریس نے تقسیم ملک کے منصوبے کو جس قرارداد کے ذریعے منظور کیا تھا، اس میں دونوں ملکوں کے دوبارہ ایک ہوجانے کا شوشہ بھی چھوڑ دیا تھا۔ گویا ابتدا ہی میں بدنیتی ظاہر کر دی گئی۔ کانگریس کی قیادت کا خیال تھا کہ وہ ایسے حالات پیدا کردے گی کہ پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے اور دوبارہ اتحاد، الحاق، یا انضمام کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ فسادات اسی ’حکمت عملی‘ کا حصہ تھے۔ پاکستان کو تقسیم کے نتیجے میں ملنے والے تمام اثاثے آج تک ادا نہیں کیے گئے۔ ریڈکلف اوارڈ کے ذریعے مائونٹ بیٹن اور نہرو نے کشمیر پر قبضے کا راستہ تلاش کیا اور پاکستان کے ساتھ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز کردیا۔ جوناگڑھ اور ماناودر پر قبضہ کیا اور ریاست حیدرآباد پر فوج کشی کے ذریعے قبضہ کیا۔ ۱۹۴۹ء میں جب پاکستان نے اپنی کرنسی کی قدر گھٹانے (devalue)  سے انکار کیا تو پہلی معاشی جنگ کا آغاز ہوا۔ اس وقت پاکستان کی تجارت کا ۶۰ فی صد سے زیادہ بھارت کے ساتھ منسلک تھا، یعنی ہماری برآمدات کا ۶۵ فی صد بھارت کی منڈیوں میں جاتاتھا اور ہماری درآمدات کا ۳۵ فی صد بھارت سے آتا تھا، مگر بھارت نے تجارتی تعلقات کو فی الفور توڑ کر پاکستان کے لیے شدید بحرانی کیفیت پیدا کردی اور ہمیں احساس ہوا کہ بھارت پر انحصار کرنے کے نتائج کتنے خطرناک ہوسکتے ہیں۔

الحمدللہ! پاکستان نے ان تمام کارروائیوں کا سینہ سپر ہوکر مقابلہ کیا اور ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگوں کے باوجود ۱۹۹۰ء کے عشرے تک پاکستان کی معیشت بھارت کی معیشت کے مقابلے میں زیادہ جان دار ثابت ہوئی۔ بھارت کی ہرپابندی ہمارے لیے نئے امکانات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار کو بھار ت کے اضافے کی رفتار کے مقابلے میں مثالی قرار دیا گیا۔ اس سے انکار نہیں کہ اس دور میں بھی معاشی پالیسیوں کی ان کامیابیوں کے علی الرغم معاشی انصاف اور متوازن معیشت کے اہداف حاصل نہ ہوسکے لیکن بحیثیت مجموعی بھارت کی نئی معاشی جنگ کا پاکستان نے بھرپور جواب دیا اور اپنی آزادی اور تشخص کی حفاظت کی۔ ۱۹۹۰ء کے بعد حالات نے نئی کروٹ لی۔ بھارت کی معاشی ترقی کی رفتار تیز تر ہوتی گئی اورپاکستان اپنی ہی غلطیوں کے سبب ایک معاشی بحران کے بعد دوسرے بحران کاشکار ہوتا چلاگیا۔ آج عالم یہ ہے کہ معاشی ترقی کے ہر اشاریے (index) کی رُو سے ہماری حالت دگرگوں ہے اور اس کا فائدہ اُٹھاکر بھارت ایک نیا معاشی وار کرنے میں مصروف ہے اور امریکا اور مغربی ممالک اس کی بھرپور تائید کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے ایک لابی خود ملک میں ’امن کی آشا‘ کے نام پر علاقے میں بھارت کی بالادستی کے قیام اور پاکستانی معیشت کو بھارت کے زیراثر لانے کی مذموم کوششوں میں مددگار ہے۔

عالمی سیاست کی جو بساط بچھائی جارہی ہے اس میں امریکا، بھارت اور اسرائیل ایشیا کے مستقبل کی صورت گری کرنے کے لیے ایک مشترکہ منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ بھارت کوعلاقے کا چودھری بنانا اس کا اہم ترین حصہ ہے۔ پاکستان اور چین اس کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں اور پاکستان نشانے پر ہے۔ سیاسی، عسکری، معاشی، ہر میدان میں اس کے گرد گھیراتنگ کیا جارہا ہے۔ اندرونی عدم استحکام کے ساتھ پاکستان میں بھارت نواز قوتوں کو سہارا دینا، اور جنوب اور شمال ہردوطرف سے پاکستان پر دبائو ڈالنا اس بڑے کھیل (گریٹ گیم ) کا حصہ ہے۔ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک (MFN) قرار دینے کے اعلان کی اصل اہمیت اس پس منظر میں سمجھی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کے وزیرخارجہ ۲۴ نومبر ۲۰۱۱ء کو بھی یہی اعلان کر رہے ہیں کہ اصل مسئلہ پاکستان کے’مقبوضہ‘ کشمیر [یعنی آزاد کشمیر] کو واپس لینا ہے۔ افغانستان میں اور افغانستان سے پاکستان میں بھارت کی کارروائیاں سرکاری اعتراف کے باوجود بلاروک ٹوک جاری ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جنگ اپنے عروج پر ہے۔ ۶۰کے قریب ڈیم وہ بناچکا ہے اور ۱۵۵ منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔ کشمیر میں مظالم روزافزوں ہیں اور گمنام قبروں کے بارے میں عالمی اداروں کے انکشافات کے باوجود اس پر کسی قسم کا دبائو نہیں، اور نہ پابندیاں ہی لگانے کی کوئی بات کرتا ہے۔ بلوچستان، فاٹا اور کراچی میں بھارت کی دراندازیوں کے شواہد اور بھارت میں بے قصور پاکستانیوں کے جیلوں میں سڑنے اور بھارت کے عدم تعاون کے باوجود اس حکومت کی نگاہ میں اگر کوئی مسئلہ اہم ہے تو وہ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قراردینے کا ہے۔ ان مسائل کوحل کرنا اور اس کے لیے مناسب علاقائی اور عالمی حکمت عملی بناکر پوری قوت سے سفارت کاری کا اہتمام کرنا اس کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ حزبِ اختلاف اور حکومت کے اتحادیوں کا کردار بھی اس سلسلے میں مایوس کن ہے۔ صرف جماعت اسلامی اور دوسری دینی جماعتوں نے اس خطرناک پسپائی کے خلاف اپنی آواز اٹھائی ہے اورقوم کو اصل خطرات سے متنبہ کیا ہے ورنہ مفادات کے کھیل میں مصروف سیاسی قیادت کی ترجیحات بہت مختلف ہیں۔

اصل موضوع کے جملہ پہلوئوں پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس امر کا بھی کھل کر اظہار کردیا جائے کہ حکومت کا موجودہ فیصلہ نہایت عجلت میں کیا گیا ہے اور کُلہیا میں   گڑ پھوڑنے کے مترادف ہے۔ بھارت نے ۱۹۹۷ء میں پاکستان کو نام نہاد پسندیدہ ملک قرار دیا تھا مگر اس کو غیر مؤثر بنانے کے لیے سیاسی تعلقات میں کشیدگی، ناکام مذاکرات کے ڈھونگ رچانے اور دوستی کی خواہش کے بلندبانگ دعووں کے علی الرغم کشمیر تو کیا، دوسرے ذیلی متنازع امور،    مثلاً سیاچین اور سرکریک کے بارے میں تمام امور طے کرنے اور صرف دستخطوں کی کسر باقی رہنے والی پیش رفت کے باوجود اُلٹی زقند لگائی اور عملاً کسی ایک مسئلے کو بھی حل نہیں کیا۔ گو اس زمانے میں  ۱۰۴بار مذاکرات کی میز سجائی گئی اور اس طرح ایک طرف سے بے مقصد اور بے نتیجہ ڈھونگ رچایا گیا تو دوسری طرف عالمی محاذ پر پاکستان کو بدنام کرنے اور اس کی پالیسیوں کی کاٹ کرکے انھیں غیرمؤثر بنانے کی جنگ ’’(crusade)‘‘ جاری رکھی۔ تجارت کے میدان میں ایم ایف این کا ڈھنڈورا ضرور پیٹا لیکن ۷۶۳ اشیا پر بھارت میں درآمد پر پابندی عائد کردی اور کم ترقی یافتہ ممالک سے درآمد کے لیے جن چیزوں کو ممنوعہ فہرست (negative list) میں رکھا، ان میں وہ تمام اشیا موجود ہیں جن کو پاکستان سے بھارت کے لیے برآمد کیا جاسکتا تھا، یا جن میں پاکستان کو قیمتوں کے باب میں مقابلتاً فائدہ حاصل تھا۔ ان اشیا میں گوشت، مچھلی، شہد، آلو، ٹماٹر، لہسن، پیاز، گاجر، مختلف قسم کے پھل بشمول نارنگی، خربوزہ، ناشپاتی، سیب، آڑو، آلوچہ، دالیں، مختلف قسم کے تیل، تمباکو، مختلف نوع کی معدنیات، تعمیرات میں استعمال ہونے والی درجنوں اشیا، کپڑا اور مختلف نوعیت کی ٹیکسٹائل، دھاگا، فیبرک، سلک، بُنا ہوا کپڑا، پولسٹر، قالین، لکڑی اور زرعی آلات وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح تجارتی اشیا پر محصولات (tariff) کا ہتھیار بڑی ہوشیاری سے استعمال کیا گیا ہے اور زرعی پیداوار اور زراعت سے مختلف اشیا کی درآمد پر ۳۳ سے ۴۰ فی صد تک درآمدی ڈیوٹی ہے، اس کے علاوہ غیرمحصولاتی رکاوٹیں (non tariff barriers) ہیں جن کی تعداد ایک تحقیقی مطالعے کی رُو سے ۲۷ ہے جس نے پاکستان کی مصنوعات کے بھارت کی منڈیوں تک پہنچنے کے امکانات کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔

ایک ہاتھ سے دینے اور دوسرے سے واپس لینے کی چانکی اور مکیاولی کی تجویز کردہ حکمت عملی پر بھارت نے بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے بھرپور عمل کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو پسندیدہ ملک کی ٹوپی پہنانے کے باوجود جو بھی تجارت بھارت اور پاکستان کے درمیان گذشتہ ۲۰برسوں میں ہوئی ہے، اس میں پاکستان سے بھارت جانے والی برآمدات، بھارت سے آنے والی درآمدات کا پانچواں حصہ رہی ہیں۔ ان تمام تجربات کی روشنی میں پاکستان کی تمام حکومتوں نے بھارت سے تجارت کو معمول پر لانے (normalization of trade) اور تجارت کو آزاد بنیادوں پر استوار کرنے (trade liberalization)کو دو اہم امور سے مشروط کیا تھا___ ایک سیاسی، یعنی کشمیر، پانی کا مسئلہ، سیاچین، سرکریک اور دوسرے متنازع امور کا بین الاقوامی قانون اور معاہدوں اور انصاف کے معروف اصولوں کے مطابق حل، اور دوسرا تجارت اور سرمایہ کاری کے باب میں حقیقی برابری کا حصول جس کے لیے ضروری ہے کہ محصول کے نظام میں بھی تبدیلیاں ہوں، غیرمحصول رکاوٹوں اور دوسری انتظامی رکاوٹوں (infra-structural obstacles) کو دُور کیا جائے تاکہ حقیقی معنی میں برابری کی بنیاد پر مقابلہ (level playing)ممکن ہوسکے۔

پاکستان کی قومی پالیسی کے یہ بڑے محکم اصول تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ستمبر۲۰۱۱ء سے نومبر ۲۰۱۱ء کسی نے کہیں سے ڈوری ہلائی ہے جس کے نتیجے میں کوئی ایسا خفیہ انقلاب آیا ہے کہ  ان دونوں اصولوں کو پامال کر کے ’چٹ منگنی پٹ بیاہ‘ کی مثال قائم کرتے ہوئے، پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کو صریحاً نظرانداز کرتے ہوئے  بھارت کو ’پسندیدہ ترین ملک‘ قرار دینے کا اقدام ملک اور قوم پر مسلط کیا جارہا ہے۔ یہ بنیادی تبدیلی (جیساکہ زرداری گیلانی ’جمہوری حکومت‘ کی روایت ہے)کسی حقیقی مشاورت، پارلیمان اور ملک کی سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لیے بغیر کی جارہی ہے۔

ستمبر میں وزیرتجارت نے بھارت کا دورہ کیا، پھر وزیرخارجہ نے بھارت یاترا کی۔ اس کے بعد کابینہ نے یہ اعلان کرڈالا جس پر امریکا اور بھارت نے تعریفوں کے ڈونگرے برسانا شروع کردیے۔ دوسری طرف خود ملک میں بھی ایک خصوصی لابی کی طرف سے تمام زمینی حقائق اور بھارت کے تاریخی کردار کو نظرانداز کرکے داد اور ستایش کا ایک طوفان برپا کیا جا رہا ہے۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ہم نے سب کو اعتماد میں لیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور اس کی متعلقہ کمیٹیوں کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دی گئی۔ زراعت اور صنعت سے متعلق بیش تر ادارے برملا  کہہ رہے ہیں کہ ہم سے کوئی مشورہ نہیں ہوا۔ ٹیکسٹائل، آٹوموبائل، فارماسیوٹیکل صنعت اور چھوٹی اور درمیانی صنعت سے متعلق تمام ہی تنظیمیں اس اقدام کی سخت مخالفت کر رہی ہیں۔ دعویٰ کیا گیا کہ دفاعی اداروں (سیکورٹی اسٹیبلش منٹ) کو اعتماد میں لیا گیا ہے اور صرف ہماری وزیرخارجہ ہی نہیں، بھارت کے وزیراعظم جناب من موہن سنگھ نے بھی مالدیپ میں اعلان کیا کہ اسے فوج کی تائید حاصل ہے، جب کہ اس دعوے کے چند ہی دن کے بعد یہ خبر بھی فوجی حلقوں کی طرف سے آگئی کہ اس فیصلے میں فوج کی مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ سب سے افسوس ناک اور تکلیف دہ صورت حال پارلیمنٹ کی کمیٹی براے تجارت کے اسی ہفتے منعقد ہونے والے اجلاس میں سامنے آئی کہ ٹیکسٹائل کی وزارت کے وزیر مخدوم شہاب الدین صاحب اور سیکرٹری ٹیکسٹائل نے کمیٹی کو بتایا کہ ان کی وزارت سے مشورہ تک نہیں ہوا ہے اور وہ اس فیصلے کو پاکستان کے لیے سخت نقصان دہ سمجھتے ہیں۔

ان تمام حقائق کی روشنی میں اس جلدبازی کا سبب تلاش کرنا مشکل نہیں۔ جس طرح افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ اسلام آباد یا کابل میں نہیں ہوا، اس کی جاے ولادت واشنگٹن ہے اور  دائی کا کردار خود امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مادام ہیلری کلنٹن نے ادا کیا ہے، اسی طرح کابینہ کا یہ فیصلہ بھی امریکا کے حکم پر، بھارت کو راضی کرنے اور ایک مخصوص لابی کے مفادات کی ترویج کی خاطر نہایت رازداری کے ساتھ اور نہایت عجلت میں کیا گیا ہے۔ گویا    ؎

بے خودی بے سبب نہیں، غالبؔ
کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے


اب ہم اس مسئلے کے سب سے اہم پہلو پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس کا سیاسی پہلو ہے۔ قوم کو یہ وعظ دیا جا رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اور دوسرے تنازعات کو تجارت اور معاشی تعلقات سے الگ کرنا ضروری ہے۔ سیاست سیاست ہے اور معیشت معیشت۔ اب تک پاکستان کی تمام حکومتیں جھک مارتی رہیں کہ بزعم خویش کشمیر کی خاطر معیشت اور تجارت کو یرغمال بنا دیا گیا اور محض اس سیاسی تنازع کی وجہ سے وہ تجارت جو ۱۰بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، صرف ۲ بلین کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔ امریکا اور بھارت دونوں یہ درس دے رہے ہیں کہ سیاست اور تجارت کو الگ الگ کرنا ہی اصل دانش مندی ہے اور اب تک پاکستان نے مسئلہ کشمیر اور دوسرے تنازعات کے منصفانہ حل کی جو شرط تجارت کو معمول پر لانے اور سرمایہ کاری کے میدان میں بھارت کے لیے دروازے کھولنے کے ساتھ لگا رکھی تھی، اس کو ختم کرنا ضروری ہے۔ معاشی ترقی اور تجارت میں غیرمعمولی متوقع اضافے کا جو سبزباغ دکھایا جارہا ہے اور خصوصیت سے انگریزی پریس اور میڈیا میں اس بات کو جس تکرار سے پیش کیا جا رہا ہے، وہ نہایت گمراہ کن ہے۔

ہم بڑے ادب سے عرض کریں گے کہ سیاست اور تجارت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہی وجہ ہے بین الاقوامی تعلقات علم و عمل دونوں میں یہ بات ایک مسلّمہ اصول کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ trade is an extension of diplomacy (تجارت، سفارت کاری کی  توسیع ہے)۔ اگر تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو ایک دوسرے کے ساتھ ایک طرح کے محصولات (reciprocal tariffs) کا تصور ہی سیاست اور معیشت کے ناقابلِ انقطاع رشتے کی پیداوار ہے۔ دورِخلافت ِ راشدہ میں حضرت عمرفاروقؓ نے عشور، یعنی import duty کے محصول کو دوسرے ممالک کی محصول کی پالیسی کے جواب میں اختیار کیا تھا۔ دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے کہ ڈپلومیسی ہی نہیں جنگیں اور بین الاقوامی جنگیں تک تجارت کے اہداف کے حصول کے لیے واقع ہوئی ہیں۔  یورپی استعمار کا تو اہم ترین ہتھیار تجارت تھی۔ ہمیں خود بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کی برعظیم میں آمد اور پھر تجارت کے ساتھ برطانوی افواج اور جھنڈے کی آمد کا تجربہ ہے۔ چین پر مشہورِ زمانہ افیم کی جنگیں تجارت ہی کے فروغ کے مقاصد کے لیے برپا کی گئی تھیں۔ امریکا اور کیوبا میں تجارتی تعلقات کا انقطاع کسی معاشی یا مالی وجہ سے نہیں، خالص سیاسی اسباب سے ہے۔ امریکا میں کیوبا کے تجارتی اموال کی درآمد کا تو سوال ہی نہیں ۔ آپ اپنی جیب میں ایک ہوانا سگار تک لے کر آزاد معیشت کے اس سرخیل ملک میں داخل نہیں ہوسکتے۔ دنیا بھر میں معاشی پابندیوں کا جو حربہ امریکا اور یورپی ممالک استعمال کر رہے ہیں، وہ سیاست اور تجارت کے ایک مسئلے کے دو رُخ ہونے کے سوا اور کیا ہے۔ خود پاکستان کو بار بار ان پابندیوں کا تجربہ ہوا ہے۔ ہمارا ہمسایہ ملک ایران اس کا برسوں سے شکار ہے۔ روس، چین اوردسیوں ممالک اس کا تجربہ کرتے رہے ہیں۔

آیئے، ذرا کیری لوگر بل کے قانون پر بھی نظر ڈالتے ہیں جس کے تحت ملنے والی یا نہ ملنے والی امداد کا شور ہے۔ اس قانون پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کا تین چوتھائی حصہ سیاسی شرطوں، مطالبات اور پابندیوں پر مشتمل ہے۔ امریکا اور تمام ہی یورپی ممالک ہمیں آزاد تجارت کا درس دیتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ان کے اپنے محصولات اور سبسی ڈیز دونوں کے نظام پر نگاہ ڈالتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ معیشت اور تجارت سیاست کے ماتحت ہیں۔ ورلڈبنک، آئی ایم ایف اور مغربی معاشی پالیسی ساز ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ زراعت یا قومی اہمیت کے دوسرے معاشی شعبوں کو حکومتی امداد (سبسڈی) سے پاک کریں اور باہم مقابلوں (competetion) کی نعمتوں سے مالا مال ہوں، مگر ان تمام ممالک میں زراعت اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے دوسرے معاشی دائرے   حکومتی امداد اور محصولات دونوں کے حصار میں ہیں۔ امریکا اور یورپ صرف حکومتی امداد کی مَد میں ۳۶۰؍ارب ڈالر سالانہ فراہم کرتے ہیں اور ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم زراعت میں یہ امداد    ختم کریں۔ یہ تضاد اور دوغلاپن عالمی سیاست کا حصہ ہے لیکن ہماری اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کی قیادتیں صرف بیرونی دبائو میں وہ پالیسیاں اختیار کرتی ہیں جو ان کے اپنے نہیں، دوسروں کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔ ہمیں عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے قواعد و ضوابط (protocols) دن رات یاد دلائے جاتے ہیں لیکن امریکا، یورپ اور خود بھارت میں جو محصولات، غیرمحصولاتی پابندیاں، اور حکومتی امداد پالیسی کا حصہ ہیں اور ان کی آنکھ کے شہتیر ہیں، وہ کسی کو نظر نہیں آتے۔  عالمی تجارتی تنظیم ہی کے طے کردہ Doha Round کے معاہدے کو ۱۰ برس ہوگئے ہیں لیکن آج تک مغربی ممالک نے اس کی توثیق نہیں کی ہے۔ آزاد تجارت کا سارا وعظ صرف پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے ہی ہے۔

اس اصولی تاریخی بحث کے بعد ہم اس امر کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ بھارت سے تجارت اور سرمایہ کاری کو معمول پر لانے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ یہ کہ پہلے کشمیر اور پانی کے مسائل طے ہوں، اور پھر دوسرے متنازع امور کو طے کیا جائے اور جب تک یہ نہ ہو، تجارت اور خود سیاسی تعلقات نارمل نہیں ہوسکتے۔ بھارت اور امریکا کے آگے سپر ڈالنے اور ان کے ایجنڈے کے مطابق عمل کرنے سے معاشی فوائد تو حاصل ہونے کی کوئی توقع نہیں لیکن ان سے جو سیاسی نقصانات ہیں وہ ہمالہ سے بھی بڑے ہیں اور یہ قوم کسی قیمت پر ان کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دینی اور چند سیاسی جماعتوں نے مؤثرانداز میں اس پہلو کو اُٹھایا ہے، مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی قیادت نے بھی اس سلسلے میں آواز بلند کی ہے اور سب سے مؤثر آواز علی گیلانی کی ہے۔ شروع میں آزادکشمیر کی حکومت خاموش تھی لیکن اب وہ بھی مجبور ہوئی ہے کہ کشمیر کی تمام سیاسی اور جہادی قوتوں کی آواز میں آواز ملائے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ بڑا ہی نازک مرحلہ ہے۔ بھارت ۶۴برس تک فوجی قوت اور تمام آمرانہ اور ظالمانہ ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے باوجود جموں و کشمیر کی تحریکِ آزادی کو کچل نہیں سکا ہے اور اب خود بھارت ہی سے بڑی جان دار آوازیں اُٹھنے لگی ہیں کہ کشمیر پر قبضہ جاری رکھنا ممکن نہیں اور اس کی قیمت ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہے۔ یورپین پارلیمنٹ اور برطانوی پارلیمنٹ میں اس سال بھی کھل کر کشمیر کے مسئلے پر بحث ہوئی ہے اور اس کے حل کی ضرورت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ بھارتی دانش ور ارون دتی راے نے تو بہت ہی واشگاف طریقے سے اعلان کیا ہے کہ کشمیر میں بھارت کی حیثیت قبضے (occupation)کی ہے اور قبضہ ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

ان حالات میں کشمیر اور پانی کے مسئلے کو نظرانداز کرکے یا  پسِ پشت ڈال کر تجارت اور معاشی تعلقات کی بحالی ایک سراسر خسارے کا سودا اور کشمیری عوام کی قربانیوں اور تاریخی جدوجہد سے غداری ہے۔ پاکستان کی حاکمیت اور آزادی اور کشمیر کے مسلمانوں کی جدوجہد کی معاونت کو جس کا دل چاہے ’غیرت بریگیڈ‘ کے القابات سے نوازے لیکن پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت اور کشمیر کے بھائیوں کے ساتھ ان کی جدوجہد آزادی میں بھرپور معاونت کو اپنے دین و ایمان اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات میں مرکزی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔ ہرسروے میں بھارت اور امریکا کو عوام نے دوست نہیں دشمن ملک قرار دیا ہے اور یہ اس لیے کہا ہے کہ ان کی پالیسیاں ہماری آزادی، سلامتی، عزت اور مفادات سے متصادم ہیں۔ اگر حکومت عوام کے دل کی اس آواز کو نظرانداز کرکے امریکی دبائو اور بھارتی قیادت کی عیارانہ سفارت کاری کے تحت کوئی پالیسی بناتی ہے تو وہ اسے کسی قیمت پر بھی قبول نہیں کریں گے اور    ان شاء اللہ اسے ناکام بناکر دم لیں گے۔


ہماری نگاہ میں مسئلے کا سیاسی، نظریاتی اور اخلاقی پہلو سب سے اہم ہے لیکن خود معاشی اعتبار سے بھی یہ سودا سراسر خسارے کا سودا ہے اور زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے ایک نہایت تباہ کن پالیسی ملک پر مسلط کی جارہی ہے۔ اس کے بڑے بڑے وجوہ درج ذیل ہیں:

معاشی تجزیے کے نقطۂ نظر سے تجارت کے فروغ کے لیے دو ملکوں کی معیشت کا ایک دوسرے سے تعلق باعث ِ افادیت (complimentary) ہونا چاہیے تاکہ ایک ملک دوسرے کو  وہ چیز فراہم کرسکے جس میں اسے مقابلتاً فائدہ حاصل ہے۔ اس کے برعکس جن ملکوں کی معیشت مسابقانہ (competetive) ہے ان میں تجارت ہمیشہ محدود رہے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کی معیشت مسابقانہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں کی مصنوعات ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں اور تجارت میں غیرمعمولی ترقی کے امکانات محدود ہیں۔ اس سے بھی اہم یہ ہے کہ بھارت کی معیشت مضبوط ہے اور پاکستان کی اس وقت کمزور اور غیرمستحکم ہے، اور اس مقابلے میں بھارت کو بالادستی حاصل ہے۔ دونوں کے لیے مساوی مواقع موجود نہیں۔ چونکہ بھارت کی معیشت زیادہ ترقی یافتہ اور زیادہ متنوع ہے، اس لیے بھارت کی پاکستان کے لیے برآمدات، پاکستان کی بھارت کے لیے برآمدات سے کہیں زیادہ ہیں۔ اگر گذشتہ ۲۵برس کے تجارتی حقائق کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بالکل ثابت ہوتی ہے۔ ہماری منڈیوں میں بھارتی مصنوعات کے در آنے کے مواقع ان مواقع سے چار اور پانچ گنا زیادہ ہیں جو پاکستانی مصنوعات کو بھارت کی منڈیوں میں رسائی کے لیے حاصل ہیں۔ یہ سال دو سال کا معاملہ نہیں، ۲۵برس کا رجحان یہی ہے۔ خود پاکستان اکانومک سروے میں اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے اور اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اعداد و شمار سے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ صرف چند برسوں کے اعداد و شمار دیکھیے:

     سال     بھارت سے پاکستانی درآمدات                بھارت کو پاکستانی برآمدات

۹۵-۱۹۹۴ء            ۱۷۲,۳   ملین          ۳۷۹,۱   ملین

۹۷-۱۹۹۶ء            ۹۸۰,۷   "              ۴۱۲,۱    "

۲۰۰۱-۲۰۰۰ء       ۹۲۸,۱۳                 "              ۲۴۶,۳   "

۰۴-۲۰۰۳ء            ۰۰۴,۲۲ "              ۳۹۸,۵    "

۰۷-۲۰۰۶ء            ۹۳۸,۷۴ "              ۸۰۳,۲۰ "

۰۸-۲۰۰۷ء            ۸۷۲,۱۰۶               "              ۹۰۵,۱۹                 "

۰۹-۲۰۰۸ء            ۹۰۲,۹۲ "              ۴۶۳,۲۶ "

یہی رجحان ابھی تک جاری ہے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ یکم جولائی ۲۰۱۰ء سے ۲۰ جون ۲۰۱۱ء تک صرف واہگہ بارڈر کے راستے بھارت سے ۳۱ہزار ۸سو۹۷ ٹرک آئے جن میں ۲۰؍ارب ۹۹کروڑ ۴۵ لاکھ روپے کا سامان آیا، جب کہ پاکستان نے صرف ۴ہزار ۶سو۶۴ ٹرک بھیجے جن کے ذریعے برآمد ہونے والے مال کی قیمت ایک ارب ۳۳کروڑ ۶لاکھ روپے تھی (کہاں تقریباً سو ارب اور کہاں تقریباً ۲۱ ارب___ گویا تقریباً ایک اور بیس کی نسبت)۔ رواں سال (جولائی ۲۰۱۱ء تا اکتوبر ۲۰۱۱ء) کے چار مہینے میں بھارت سے واہگہ کے راستے ۵؍ارب ۲۷کروڑ ۳۱لاکھ کا سامان پاکستان میں آیا، جب کہ اس عرصے میں پاکستان سے بھارت کے لیے برآمدات صرف ۷۷کروڑ۳۵لاکھ روپے کی تھیں۔

ان حقائق کی روشنی میں اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ بھارت کی ایک ارب ۳۰کروڑ کی آبادی کی وسیع و عریض منڈی کے جو سبز باغ دکھائے جارہے ہیں، ان کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ ہماری تجارت بھارت سے گذشتہ ۲۵برس میں، جن میں ۱۹۹۶ء کے پاکستان کو نام نہاد پسندیدہ ملک قرار دینے کے ۱۶سال بھی شامل ہیں، ہرسال پاکستان بھارت کی تجارت، پاکستان کے لیے خسارے میں ہی رہی ہے اور اوسطاً ہماری برآمدات کے مقابلے میں بھارت سے درآمدات ۴سے۵ گنا زیادہ رہی ہیں۔اور من جملہ دوسری وجوہ کے اس میں بھارت کی معاشی پالیسی، محصولات اور غیرمحصولاتی رکاوٹوں کا نظام ہے جسے بھارت ذرا بھی بدلنے کو تیار نہیں۔ تاریخی طور پر پاکستان کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے اور یہی صحیح موقف ہے کہ کشمیر اور دوسرے تنازعات کا حل اور معاشی میدان میں بھارت کے محصول اور غیرمحصول رکاوٹوں کے نظام میں بنیادی تبدیلی کے بغیر دونوں ملکوں میں تجارت اور معاشی رابطے نارمل نہیں ہوسکتے___ تاکہ معاشی تعلقات اس نہج پر استوار ہوسکیں، جو محض ایک ملک کے فائدے میں نہ ہوں بلکہ دونوں جن سے برابر کا فائدہ اُٹھا سکیں۔ یہی مسئلے کی اصل حقیقت ہے جسے یکسرنظرانداز کرنے اور ان دونوں کے تعلق (linkage) کو توڑ کر موجودہ حکومت امریکا اور بھارت کے دبائو میں وہ پالیسی ملک پر مسلط کرنا چاہ رہی ہے جو پاکستان کے مفادات کی ضد ہے۔

ایک اور بے حد نازک پہلو بھی توجہ طلب ہے۔ بھارت کی دل چسپی محض تجارت تک ہی محدود نہیں، وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرکے ہماری صنعت پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کا یہ مکالمہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ بھارت نے پاکستانی اسٹیل مل خریدنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ بھارت ہماری معیشت کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے تجارت کے ساتھ سرمایہ کاری کے ذریعے صنعت اور اسٹرے ٹیجک اداروں پر بھی قبضہ چاہتا ہے، اور اس کے لیے بلاواسطہ سرمایہ کاری کے علاوہ بالواسطہ سرمایہ کاری کے ذرائع بھی استعمال کر رہا ہے جس کا راستہ روکا جانا ضروری ہے۔ حالیہ سارک کانفرنس (مالدیپ) میں بھی یہ مسئلہ آیا اور بھارت نے کھل کر یہ سوال اُٹھایا ہے کہ تجارت کی آزادی کے ساتھ سرمایے کی آزادکاری یا مشترک سرمایہ کاری کو بھی اس کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس سے بھارت کے اصل عزائم کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔

ہم ایک اور پہلو کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتے ہیں اور اس کا تعلق ہماری معیشت کے بھارت پر انحصار (dependence) سے ہے۔ ہم دو بار تجربہ کرچکے ہیں کہ ۱۹۴۹ء اور ۱۹۶۵ء میں بھارت نے تجارتی تعلقات کو یک قلم منقطع کرکے پاکستان کو شدید معاشی بحران میں دھکیلنے کی کوشش کی۔ ہم نے بڑی مشکل اور مسلسل محنت سے بھارت پر انحصار کو کم کیا ہے۔ نئی پالیسی کے تحت یہ انحصار بڑھے گا اور اگر تجارت کے ساتھ سرمایہ کاری کے اثرات کو بھی شامل کرلیا جائے تو معاشی تعلقات کی یہ نوعیت ایک نئی سامراجی کیفیت کو جنم دے سکتی ہے۔ پاکستان کی معیشت پر بھارت اور بھارتی سرمایہ کاروں اور تاجروں کی گرفت بڑھتی جائے گی۔ یہاں کی صنعت خصوصیت سے  درمیانی اور چھوٹی صنعت بُری طرح متاثر ہوگی، اور بے روزگاری بڑھے گی۔ بھارت کے لیے معاشی حربوں کے ذریعے صرف پاکستان کی معیشت ہی کو اپنی گرفت میں لانے کا موقع نہیں ملے گا بلکہ اس کی وجہ سے اندرونِ ملک اس کو ایسے فیصلہ ساز (leverage) کی حیثیت حاصل ہوتی چلی جائے گی جو ہماری خودمختاری، نظریاتی شناخت، سیاسی آزادی اور تہذیبی اور ثقافتی وجود کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ ان پہلوئوں کو نظرانداز کرنے کے بڑے خطرناک اثرات اور نتائج ہوسکتے ہیں جن کا اِدراک اِس وقت ضروری ہے۔ اچھے سیاسی اور معاشی روابط اور تعلقات کے ہم بھی قائل ہیں لیکن یہ اسی وقت ممکن ہیں کہ مسئلے کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر اور سیاسی اور معاشی ہردوپہلوئوں کے ربط و تعلق کی روشنی میں حقیقت پسندانہ پالیسیاں تشکیل دی جائیں جو پاکستان کی آزادی، سلامتی، معاشی استحکام اور نظریاتی اور تہذیبی شناخت کی ضامن ہوں۔ اس سے ہٹ کر جو راستہ بھی اختیار کیا جائے گا،  اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ  ع

ہے ایسی تجارت میں مسلمان کا خسار۱

ہم پاکستان کی تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ قوموں کے فیصلے پورے سوچ بچار اور باہمی مشاورت کے ساتھ، عوام کے جذبات اور اُمنگوں کے مطابق اور ملک و قوم کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہونے چاہییں۔ وقتی مفادات، ذاتی ترجیحات اور بیرونی دبائو کے تحت جو فیصلے اور اقدام بھی ہوں گے، وہ تباہی کا ذریعہ بنیں گے۔ ترقی، عزت اور خوش حالی ان کا حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہم موجودہ حالات میں بھارت کو ’پسندیدہ ترین ملک‘ قرار دینے کو پاکستان کے مفادات پر ایک کاری ضرب اور معاشی خودکشی کی طرف ایک قدم سمجھتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس پر فوری نظرثانی کرے اور ملک کو اس تباہی سے بچالے جو خدانخواستہ اس کے لازمی نتیجے کے طور پر سامنے آئے گی۔    ہم پاکستان کی پارلیمنٹ، تمام سیاسی اور دینی جماعتوں اور سب سے بڑھ کر پاکستانی عوام اور ملک کے نوجوان طبقے سے اپیل کرتے ہیں کہ اس اقدام کے خطرناک ہونے کا احساس کریں اور مؤثر احتجاج کے ذریعے، حکومت کو معاشی تباہی کے اس راستے پر ایک قدم بھی آگے بڑھانے سے روک دیں۔ وما علینا الا البلاغ۔