مارچ ۲۰۰۹

فہرست مضامین

صومالیہ: عبوری حکومت کو درپیش چیلنج

حافظ محمد ادریس | مارچ ۲۰۰۹ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

صومالیہ میں خد ا خدا کر کے ایک ایسی حکومت وجود میں آگئی ہے جس سے صومالی اور دیگر افریقی ممالک کے لوگوں کو امید بندھ گئی ہے کہ طویل خانہ جنگی، افراتفری اور انتشار کے بعد صومالیہ کے حالات سنبھل جائیں گے اور نفاذِ شریعت کی طرف بھی پیش رفت ہوسکے گی۔نئی حکومت کے سربراہ ۴۵ سالہ شیخ شریف احمد معتدل، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روحانی سلسلے اویسیہ کے راہ نما ہیں۔ انھوں نے اپنی پارلیمان سے مشاورت کے بعد ایک اور نوجوان عمر عبدالرشید علی شرمارکے، کو وزیراعظم نامزد کیا ہے۔ وہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ، ماہر سفارت کار، اور ملک کے پہلے صدر عبدالرشید علی شرمارکے، کے فرزند ہیں۔ صدر شرمارکے، کو فوجی انقلاب کے دوران قتل کر دیا گیا تھا۔ مرحوم کے بارے میں عام صومالی اب تک اچھی رائے رکھتے ہیں۔ نئی حکومت کے سامنے بہت بڑے چیلنج ہیں۔ موجودہ حالات میں صومالیہ پر حکومت کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ فی الحقیقت کانٹوں کا تاج ہے جو ان دونوجوانوں نے سر پر سجالیا ہے۔ اللہ ان کی مدد کرے۔

صومالیہ براعظم افریقہ کا پس ماندہ ترین ملک ہے، جس کی آبادی ۱۰۰ فی صد مسلمان ہے۔ قرنِ افریقہ میں واقع یہ ملک ۶ لاکھ ۳۷ ہزار ۶سو ۵۷ مربع کلومیٹر رقبے کو محیط ہے، جس میں سے بہت بڑا حصہ صحرائی اور بالکل بنجر ہے۔ کچھ پہاڑی علاقے بھی ہیں اور ساحلِ سمندر کے ساتھ بھی ۶ہزار ۳ سو کلومیٹر لمبی پٹی لگتی ہے، جس میں خلیج عدن، بحیرہ عرب اور بحرہند کے ساحل شامل ہیں۔ جوبا اور شبلی نامی دو دریا بھی اس ملک سے گزرتے ہیں لیکن ان سے کوئی خاطرخواہ زرعی و صنعتی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اُونٹ، بھیڑبکری اور گائے پالتو جانور ہیں۔ بیش تر لوگ چرواہے ہیں۔ یورینیم اور تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں مگر ابھی تک انھیں حاصل کرنے کا کوئی جامع منصوبہ عمل میں نہیں لایا جاسکا۔

صومالیہ کو برطانوی اور اطالوی استعمار سے ۱۹۶۰ء میں آزادی ملی۔ آزادی کے فوراً بعد صومالیہ کی اپنے ہمسایے کینیا سے سرحدی علاقوں کے تنازع پر جنگ چھڑ گئی جس میں دونوں ملکوں کا خاصا نقصان ہوا مگر صومالیہ کے متنازع علاقوں پر برطانیہ، امریکا اور عالمِ مغرب کی اشیرباد سے کینیا کا قبضہ تسلیم کرلیا گیا۔ صومالیہ کا پہلا صدر عبدالرشید علی شرمارکے، ایک صاف ستھرا سیاست دان تھا مگر طبعاً کمزور تھا۔ اس لیے ملک میں بدنظمی اور کرپشن کی وجہ سے عدمِ اطمینان پیدا ہوا۔ ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج کے سربراہ میجر جنرل محمد زیاد برّے نے ۱۵ اکتوبر ۱۹۶۹ء کو بغاوت کرکے ملک پر قبضہ کرلیا اور صدر شرمارکے، کو قتل کردیا گیا۔ یوں ملک پر فوجی آمریت مسلط ہوئی جو ۱۹۹۱ء تک قائم رہی اور جب اس کا خاتمہ ہوا تو صومالیہ بدترین خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا۔

آمریت ملکوں اورقوموں کے لیے ہمیشہ زہرِقاتل ثابت ہوتی ہے۔ زیاد برّے کے ملک سے فرار ہو جانے کے بعد اب تک کوئی متحدہ حکومت صومالیہ میں قائم نہیں ہوسکی۔ وقتاًفوقتاً مختلف مسلح گروہ اور قبائلی لشکر دارالحکومت مقدیشو پر قابض ہوتے رہے مگر پورا ملک ایک حکومت کے تحت متحد ہونے کے بجاے مختلف گروپوں کے زیرتسلط رہا۔ کینیا کے ساتھ صومالیہ کے تعلقات معمول پر آئے تو بدقسمتی سے اس کے شمالی ہمسایے ایتھوپیا سے نئی جنگ چھڑ گئی۔ ادھر ایتھوپیا میں ہیلے مینگستو کا تختہ اُلٹ کر میلس زیناوی (Meles Zenawi) برسرِاقتدار آگیا، اور یہ اسی طرح امریکی مہرہ ہے جس طرح پاکستان اور افغان حکمران۔ امریکا کے اشارے پر ایتھوپیا کی فوجیں اگست ۲۰۰۱ء میں صومالیہ میں امن قائم کرنے کے بہانے داخل ہوئیں جوچند ماہ قبل تک وہاں موجود رہی ہیں اور بے پناہ قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا ارتکاب کرتی رہی ہیں۔

صومالیہ میں بہت سے جنگ جُو سردار اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیںقائم کیے بیٹھے تھے۔   فرح عدید ۱۹۹۲ء میںمقدیشو پر قابض تھا۔ اس نے امریکی فوجیوں کو پکڑ کر مقدیشو کی سڑکوں پر گھسیٹا تھا جس کے نتیجے میں امریکی تو وہاں سے دم دبا کے بھاگ گئے مگر انھوں نے ایتھوپیا کے ذریعے صومالیہ سے خوب انتقام لیا۔ افریقی اتحاد کی تنظیم (OAU) اور دوسری عالمی تنظیموں نے کوشش کی کہ صومالیہ میں اتفاق راے پیدا ہوجائے اور امن و امان کی کوئی صورت بن سکے مگر یہ تمام کوششیں صومالیہ کے اسلام پسند حلقوں کو مجوزہ سیٹ اَپ سے خارج کرنے پر مرتکز رہیں۔ صومالی اپنی طبیعت کے لحاظ سے افغانوں سے بہت مشابہت رکھتے ہیں۔ اگر ہم صومالیہ کو افریقہ کا افغانستان کہیں تو   یہ غلط نہ ہوگا۔ صومالی جفاکش اور بہادر قوم ہیں اور اسلام سے محبت ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔

اگست ۲۰۰۴ء میں عالمی اداروں کے دبائو کے تحت مختلف گروپوں کے درمیان کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ایک معاہدہ طے پایا جس میں ۲۷۵ نامزد ارکان پرمشتمل ایک پارلیمان وجود میںآئی۔ دو ماہ بعد نیروبی ہی میں صومالیہ کے نیم خودمختار صوبے ارض البنط (pant land) کے راہنما عبداللہ یوسف کو وفاقی حکومت کا عبوری صدر بنا دیا گیا جو امریکا کا منظورِنظر تھا۔ صاحب ِموصوف نے نیروبی ہی میں اپنے منصب کا حلف اٹھایا اور اسی دن افریقی یونین سے درخواست کردی کہ وہ ۲۰ہزار فوجی صومالیہ میں امن قائم کرنے کے لیے بھیجے۔ چونکہ اس نئے صدر کی ذاتی شہرت بھی اچھی نہیں تھی اور ملک میں عمومی حمایت سے بھی وہ محروم تھے، اس لیے زیادہ دیر اپنا مصنوعی اقتدار قائم نہ رکھ سکے۔ اس عرصے میں نفاذِ شریعت کے لیے ملک میں اسلامی عدالتوں کے نام سے ایک تحریک چل رہی تھی جو دن بہ دن لوگوں میں مقبول ہورہی تھی۔ اسلامی عدالت اتحاد نے صرف ۴ ماہ کی لڑائی کے بعد جون ۲۰۰۶ء میں دارالحکومت مقدیشو اور دیگر اہم مقامات پر قبضہ کرلیا۔ ان لوگوں نے تھوڑے عرصے میں امن و امان کی حالت بہت بہتر بنا دی۔

اس دور میں بھی موجودہ صدرِ مملکت، اسلامی عدالت یونین کے چیئرمین شیخ شریف احمد کو وسیع تر مشاورت میں صدرِ مملکت بنانے کا فیصلہ ہوا تھا مگر امریکی سرپرستی میں قائم عبوری پارلیمنٹ مقیم نیروبی نے اسلامی انتظامیہ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور ایتھوپیا اور امریکا کو مداخلت کی دعوت دی۔ اس کے بعد حبشہ کی فوجی پیش قدمی شروع ہوئی۔ امریکا کی مکمل سرپرستی میں دسمبر ۲۰۰۶ء میں حبشہ کے زمینی حملے کے ساتھ ہی امریکی گن شپ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے فضائی حملے شروع ہوگئے اور یوں صومالیہ کا امن پھر تباہ و برباد ہوگیا۔ اس طرح ایتھوپیا (عملاً) اور امریکا (بالواسطہ) ملک پر مسلط ہوگئے۔ اسی عرصے میں مسلم نوجوانوں کی ایک تنظیم ’الشباب‘ کے نام سے وجود میں آئی۔ امریکا نے اسے القاعدہ کی ایک شاخ قرار دیا۔ بدقسمتی سے الشباب اور اسلامی عدالت اتحاد نے اپنے اپنے راستے الگ کرلیے جس سے اسلام پسند قوتیں کمزور ہوئیں۔ صومالیہ کے حالات سے باخبرتجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ الشباب میں کچھ عناصر باہر سے داخل (induct) کیے گئے تھے جو اس اختلاف کے شعلوں پر تیل چھڑک رہے تھے۔ یوں مفاہمت کی ہر کوشش دم توڑ گئی۔

ستمبر ۲۰۰۷ء میں اریٹیریا کے دارالحکومت اسمارا میں اسلام پسندوں کا ایک نیا اتحاد وجود میں آیا، جسے انھوں نے اتحاد براے آزادیِ نو صومالیہ (Alliance for the Re-liberation of Somalia) کا نام دیا۔ امریکا کے منظورِنظر صدر عبداللہ یوسف نے نومبر ۲۰۰۷ء میں نورحسن حسین کو وزیراعظم نامزد کیا لیکن صومالیہ پر کوئی حقیقی رٹ قائم کرنے میں یہ حکومت بُری طرح ناکام رہی۔ صدر اور وزیراعظم ایک دوسرے سے برسرِپیکار ہوگئے۔ دسمبر ۲۰۰۸ء میں صدر نے وزیراعظم کو معزول کردیا اور محمود محمد گلید کو وزیراعظم نامزد کیا گیا مگر پارلیمان نے اس کے تقرر کو مسترد کردیا۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ اتحاد براے آزادیِ نو صومالیہ کی شرکت کے بغیر مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

صدر عبداللہ یوسف، ذلیل و رسوا ہوکر ۲۹دسمبر ۲۰۰۸ء کو صدارت چھوڑ کر گوشہ نشین ہوگیا۔ نئے فارمولے کے تحت ۳۱ جنوری ۲۰۰۹ء کو جبوتی میں ایک نئی عبوری پارلیمنٹ وجود میں آئی، جس میں ۲۰۰ ارکانِ اسمبلی اسلامی گروپوں سے اور ۷۵ مختلف قبائل سے نامزد کیے گئے۔ ہرقبیلے کو اس کے حجم کے مطابق نمایندگی دی گئی۔ اس اجلاس میں کثرت راے سے شیخ شریف احمد کو صومالیہ کا   نیا صدر چن لیا گیا۔ اپنے انتخاب کے بعد انھوں نے متوازن اور معتدل انداز میں ملکی بحران کو    قومی اتفاق راے سے حل کرنے کا اعلان کیا۔ ۱۹۹۱ء کے بعد سے یہ اس شورش زدہ ملک کی پندرھویں حکومت ہے۔ اس کی کامیابی و ناکامی کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ ’الشباب‘ نے اس نئے سیٹ اَپ کو قبول نہیں کیا اور بعض علاقوں میں ان کازور ہے۔ الشباب کی قیادت ایک نوجوان شیخ حسن ظاہر اویس کر رہے ہیں جو ایک بہادر اور جنگ جُو نوجوان ہیں اور امریکا نے ان کے سر کی قیمت مقرر کر کے انھیں اشتہاری ’دہشت گرد‘ قرار دیا ہوا ہے۔

۷ فروری ۲۰۰۹ء کو شیخ شریف احمد مقدیشو میں اپنی عبوری پارلیمنٹ کے ساتھ تشریف لائے تو ہزاروں لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ شیخ شریف البغال قبیلے سے ہیں جو معروف اور محترم سمجھا جاتا ہے۔ وہ جولائی ۱۹۶۴ء میں پید ا ہوئے۔ انھوں نے اپنی تعلیم لیبیا اور سوڈان میں مکمل کی۔ سوڈان میں قیام کے دوران وہ اخوان کی دعوت سے بھی متاثر ہوئے۔ وہ معتدل مزاج اور نیک نفس انسان ہیں۔ بیش تر صومالیوں کی طرح شیخ شریف بھی حافظ قرآن ہیں اور اویسی سلسلے کے روحانی پیشوا ہیں۔ انتہائی ملنسار، بُردبار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ صومالی صدر خود کو استاد (معلم) کہلانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان کا تخصص علومِ جغرافیہ میں ہے۔ شیخ شریف کے بارے میں عام تجزیہ نگار پُرامید ہیں کہ وہ مسائل کو حل کرلیں گے۔

شیخ شریف نے حلف اٹھانے کے بعد جبوتی میں ارکانِ پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا اور اتفاق راے سے ایک نوجوان عمر عبدالرشید علی شرمارکے، کو پارلیمنٹ کا وزیراعظم نامزد کیا ہے۔ موصوف ایک سابق سفارت کار ہیں جو اقوام متحدہ میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ امریکا کے تعلیم یافتہ ہیں اور صومالیہ کے ناگفتہ بہ حالات کی وجہ سے کینیڈا میں منتقل ہوگئے تھے۔ انھیں ایک ماہ کے اندر کابینہ نامزد کرنا ہوگی، جس کی منظوری پارلیمنٹ سے ضروری ہے۔ ان کا تعلق ایک بڑے قبیلے دارود سے ہے۔ وہ آزاد صومالیہ کے پہلے صدر کے بیٹے ہیں۔ صدر اور وزیراعظم کو عمومی طور پر لوگوں کی حمایت حاصل ہے مگر ’الشباب‘ تنظیم نے صدر کے بارے میں تو زیادہ سخت تبصرہ نہیں کیا تھا البتہ نامزد وزیراعظم پر شدید الفاظ میں تنقید کی ہے۔ دوسری جانب یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ امریکا نامزد وزیراعظم کوقبول کر لے گا مگر شاید نومنتخب صدر کو زیادہ عرصہ برداشت نہ کرسکے۔ شیخ شریف ایتھوپیا کو بھی سخت ناپسند ہیں۔ حبشہ کی فوجوں کی یلغار کے بعد شیخ شریف کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی تھی۔

تقریباً ۹۰ لاکھ آبادی پر مشتمل یہ وسیع و عریض خطہ بدحالی، خانہ جنگی، قحط سالی اور قتل و غارت گری کی وجہ سے بدترین بحران کا شکار ہے۔ صومالیہ کو بحری قزاقی کا بھی سامنا ہے جو تجارتی بحری جہازوں کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صومالیہ کے انتہائی دگرگوں حالات نے ہی ان لوگوں کو جرائم پر مجبور کردیا ہے۔ پوری دنیا کو صومالیہ کے مسائل پر سر جوڑ کر اس کا کوئی حل تلاش کرنا ہوگا۔ اگر یہاں امن قائم نہ ہوسکا تو بحرہند اور خلیج عدن کے تجارتی راستے مستقل خطرات کی زد میں رہیں گے۔ موجودہ حکومت سے قیامِ امن اور نفاذِ شریعت کے لیے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔