مارچ ۲۰۰۹

فہرست مضامین

’وار آن ٹیرر‘ کی دہشت گردی

پروفیسر خورشید احمد | مارچ ۲۰۰۹ | شذرات

Responsive image Responsive image

دہشت گردی کسی نہ کسی شکل میں انسانی تاریخ کے ہر دور میں موجود رہی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں نے اسے ہمیشہ ہی ایک جرم تصور کیا ہے۔ دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے اس کا جواز ظلم اور ریاستی قوت کے مجرمانہ استعمال کے مقابلے میں مزاحمت کے نام پر کرتے رہے ہیں، نیز اسے قوت کے عدم توازن کا توڑ کرنے والوں کے خلاف بجاطور پر ایک ہتھیار ایک حد تک تصور کیا جاتا رہا ہے اور بین الاقوامی قانون اور روایات میں اس کے گنجایش بھی نکالی جاتی رہی ہے، جب کہ حکومت کے اربابِ کار اسے جرم قرار دے کر اس کے مرتکبین کو قانون کے تحت سزا دینے کا راستہ اختیار کرتے رہے ہیں۔

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے نیویارک اور واشنگٹن کے واقعات کے بعد امریکا نے دہشت گردی کو ایک جرم کے بجاے جنگ کا نام دیا اور اس کے خلاف دنیا بھر میں طبلِ جنگ بجانے کے ساتھ  ملکی قانون اور بین الاقوامی قانون دونوں کو یکسر نظرانداز کرکے عملاًافغانستان اور عراق پر فوج کشی کردی۔ دہشت گردی کے خلاف قانون سازی کا ایک سلسلہ تمام ہی مغربی ممالک میں بے دردی سے شروع ہوگیا اور محض شبہے کی بنیاد پر گرفتاریاں، ملک بدری، قانون نافذ کرنے والے   اداروں کے ہاتھوں لوگوں کا بے دریغ اغوا، تفتیش میں تعذیب، قانونی دفاع کے حق سے محرومی اور بین الاقوامی قانون کو یکسرنظرانداز کرتے ہوئے دوسرے ممالک کی حاکمیت اور آزادی کی پامالی، ’قومی مفادات کے تحفظ‘ کے نام پر فوج کشی، بم باری اور سرحدات کی بے دریغ خلاف ورزی کا راستہ اختیار کیا گیا۔

ہم نے اس ریاستی دہشت گردی پر پہلے دن ہی سے گرفت کی اور اس کے جواز میں دیے جانے والے دلائل کا توڑ کیا۔ مسلم ممالک کے اہلِ علم کی ایک نمایاں تعداد نے اس ریاستی دہشت گردی پر مضبوط دلائل کی بنیاد پر تنقید کی، لیکن امریکا اور یورپ کے انسانی حقوق کے علَم برداروں کی بڑی تعداد نے اس ظلم اور زیادتی پر خاموشی اختیار کی۔ البتہ امریکا کی نام نہاد جنگ جیسے جیسے   طویل ہوئی، اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں اور اسی ہفتے جنیوا میں’قانون دانوں کے عالمی کمیشن‘ کے آٹھ رکنی پینل نے ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ Assessing Damage Urging Action شائع کر دی ہے۔ اس پینل کی سربراہی آئرلینڈ کی سابق صدر اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی ہائی کمشنر میری رابن سن (Marry Robinson) تھیں اور اس کے دوسرے شرکا میں دنیا کے کئی ماہرینِقانون اور سابق جج تھے۔ اس رپورٹ میں ان قوانین پر بھرپور گرفت کی گئی ہے جو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں اور جن کی زد قانون اور بین الاقوامی قانون کے مسلّمہ اصولوں پر پڑ رہی ہے۔ رپورٹ میں دہشت گردی کو جنگ نہیں ایک جرم اور انسانیت کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ دہشت گردی پر گرفت کے نام پر قانون اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے مسلّمہ اصولوں سے انحراف کا کوئی جواز نہیں۔ اس سلسلے میں جوقانون سازی اور عملی اقدامات امریکا اور دوسرے ممالک نے کیے ہیں وہ قانون کے مسلّمہ اصولوں سے متصادم ہیں جن کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔ اس رپورٹ کے چند اہم اقتباسات اس لائق ہیں کہ ان کا دقتِ نظر سے مطالعہ کیا جائے اور دہشت گردی کے مقابلے کے نام پر قانون اور انصاف کے پورے نظام کو جس طرح تہہ و بالا کیا گیا ہے اس کی اصلاح کی جائے ورنہ انسانیت کے لیے یہ سودا بہت خسارے کا سودا ہوگا:

’دہشت گردی‘ ایک حقیقت ہے اور اس سے جو خطرات درپیش ہیں، ان کو خفیف سمجھنا ایک غلطی ہوگا۔ ان خطرات کا مقابلہ ریاستوں کا فرض ہے مگر دہشت گردی کی مخالفت کے نام پر کیے جانے والے موجودہ متعدد اقدامات نہ صرف غیرقانونی ہیں بلکہ ان کے  منفی نتائج رونما ہو رہے ہیں۔ پینل اس نتیجے تک پہنچا ہے کہ ان کے نتیجے میں انسانی حقوق کے قوانین کی بنیادوں کو جو نقصان پہنچا ہے وہ اندازے سے بہت زیادہ ہے۔

دہشت گردی مخالف قوانین، پالیسیوں اور طریقوں کا جائزہ لینے کی، اور جو نقصان ہوا اس کاتدارک کرنے کے لیے عالمی، علاقائی اور قومی سطحوں پر اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔

پینل نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ:

نائن الیون سے پہلے جو قانونی فریم ورک موجود تھا وہ انتہائی مضبوط اور مؤثر ہے اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر اعتبار سے کافی ہے۔

پینل نے دوٹوک انداز میں امریکا اور دوسرے جمہوری ممالک پر سخت گرفت کی ہے کہ وہ قانون کے بنیادی اصولوں کو پامال کر کے ایک سنگین انسانی جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں:

  •   بہت سی ریاستیں خود اپنے معاہداتی اور روایتی قانون کے تقاضوں سے منحرف ہو رہی ہیں۔ اس طرح ایک خطرناک صورت پیدا ہوگئی ہے جس میں دہشت گردی اور دہشت گردی کے خوف نے عالمی حقوقِ انسانی کے بنیادی قانون (بشمول پہلے سے طے شدہ اصول جیساکہ ٹارچر، ظالمانہ اور غیرانسانی توہین آمیز سلوک، افراد کا اغوا اور غیرمنصفانہ مقدمات کی ممانعت) کو پامال کر دیا ہے۔
  •   لبرل جمہوری ریاستیں ماضی میں انسانی حقوق کے اصولوں کا دفاع کرتی رہی ہیں،  مگر اب وہ ان اصولوں کی خلاف ورزی کرکے عالمی قانون کو رفتہ رفتہ کمزور کر رہی ہیں۔ یہ حکومتیں دوسری حکومتوں کی ان کارروائیوں میں جوحقوق کی پامالی کا موجب ہیں یا شریک ہیں یا کم از کم خاموش رہ کر ان کی ساجھی بن رہی ہیں۔
  •   دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے فوج داری قانون ہی مقابلے کا اولین ذریعہ (primary vehicle) ہونا چاہیے۔ پینل کی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاستوں نے دہشت گردی کی دھمکیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مروجہ قوانین و ضوابط اور آزمودہ طریقوں سے احتراز کیا ہے، تاہم اگر ریاستوں کو عوام کو زندگی اور سلامتی کے تحفظ کی ذمہ داری ادا کرنا ہے، تو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے مروجہ فوج داری عدالتی نظام ہی اولین فریم ورک ہونا چاہیے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ:

  •   نائن الیون کے بعد کے بہت سے قوانین اور پالیسیوں کو، مثلاً غیر معینہ مدت کے لیے بلامقدمہ حراست اور فوجی عدالتوں وغیرہ کو بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے حالانکہ ان کو ماضی میں بھی آزمایا گیا ہے اور یہ اکثر و بیش تر ناکام رہے ہیں۔ ’غیرمعمولی خطرے‘ کی وجہ سے ریاستوں کو تاریخی مثالوں سے سبق سیکھنے کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کرلینا چاہیے۔ مثال کے طور پر یہ نہایت ضروری ہے کہ ایک آزاد سویلین عدلیہ برقرار رکھی جائے جو دہشت گردی کے خلاف اقدامات پر جواب دہی کو یقینی بنائے۔ جن اقدامات کو عارضی کہا جاتا ہے وہ بالآخر مستقل ہوجاتے ہیں اور دہشت گردی کے وسیع تر تصورات کا ان کے بیان کردہ مقاصد سے بہت آگے بڑھ کر اطلاق کیا جاتا ہے۔
  •   ریاستوں نے احتیاطی تدابیر، مثلاً ملک بدری، پابندیوں کے احکامات، دہشت گرد افراد اور تنظیموں کی فہرست پر اپنا انحصار بڑھا دیا ہے۔ پینل کو تشویش ہے کہ غیرمصدقہ شواہد اور ناقص خفیہ معلومات کو افراد اور تنظیموں کے خلاف اقدام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے جس کے بڑے تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ نیز پینل کو اس نوعیت کے اقدامات کے خلاف مؤثر اپیل کا مناسب طریقہ فراہم نہ ہونے پر بھی تشویش ہے۔
  •   پوری دنیا میں خفیہ ایجنسیوں نے نئے اختیارات اور وسائل حاصل کرلیے ہیں لیکن اس کے ساتھ قانونی اور سیاسی جواب دہی کا جو اہتمام ضروری ہے وہ مفقود ہے۔ پینل اس نتیجے تک پہنچا ہے کہ قابلِ اعتماد خفیہ معلومات ضروری ہیں لیکن جواب دہی بھی ضروری ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ عالمی خفیہ اداروں کے باہمی تعاون کے لیے واضح پالیسیاں اور طریق کار طے کیے جائیں۔
  •   بہت سی ریاستوں میں مشتبہ دہشت گردوں کی حراست اور تفتیش پر رازداری کا پردہ پڑا ہوا ہے جس سے ٹارچر ، ظالمانہ ،غیر انسانی اور توہین آمیز طریقوں کو راستہ ملتا ہے، جب کہ ایسی خلاف ورزیوں پر سزا کا خوف بھی نہ ہو۔ عدالتوںاور وکلا تک تیزرفتار اور مؤثر رسائی ممکن بنائی جانی چاہیے تاکہ اس قسم کی قانونی خلاف ورزیوں سے نجات مل سکے۔

رپورٹ کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں امریکا پر بھرپور گرفت کی گئی ہے اور  دہشت گردی کے لیے جنگ (war) کے مثالیے کے استعمال کو مؤثر الفاظ میں رد کیا گیا ہے۔

  •   امریکا کی قیادت میں وار آن ٹیرر نے عالمی انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کو اور انسان دوست قانون (Humanitarian Law) کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ امریکا کو استحصال پر مبنی قوانین، پالیسیوں اور طریقوں کو جو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے وابستہ ہیں، واضح طور پر مسترد کرنا چاہیے۔ ماضی کی خلاف ورزیوں پر ایک شفاف اور جامع تحقیقات کروانا چاہیے اور متاثرہ افراد کو مناسب تلافی دینا چاہیے۔ دیگر ریاستوں کو بھی، خاص طور پر ان کو جو اِن خلاف ورزیوں میں مجرمانہ طور پر شریک ہیں، جنگ کے اس طرح کے تصور کو مسترد کرنا چاہیے۔

جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ اس رپورٹ میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پول پوری طرح کھول دیا گیا ہے اور دنیا کی تمام جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کی پاس داری کرنے والی حکومتوں اور افراد کے لیے اس کا پیغام یہ ہے کہ دنیا کو ریاستی دہشت گردی کی اس جنگ سے نجات دلانے کے لیے مؤثر جدوجہد کریں اور ان انسانی اقدار کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں، تاکہ انسانیت نے جو کچھ صدیوں کی جدوجہد کے بعد حاصل کیا ہے وہ امریکا کی اس سامراجی جنگ کے نتیجے میں پامال نہ ہو جائے۔

اس رپورٹ کی روشنی میں پاکستان کو امریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے بارے میں اپنی پالیسی پر فوری طور پر نظرثانی کرنا چاہیے۔ پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد میں بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی جو آمریت کے دور میں راہِ اعتدال اور حق و انصاف کے اصولوں سے دُور ہٹ گئی تھی، اس کی تبدیلی وقت کی اولین ضرورت ہے۔

اس رپورٹ سے پارلیمنٹ کے اس موقف کو مزید تقویت ملی ہے اور اس امر کی ضرورت ہے کہ خارجہ پالیسی کو امریکا کی غلامی سے آزاد کیا جائے اور پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں  حق و انصاف پر مبنی ہوں اور ان کا ہدف پاکستان کے مفاد کا تحفظ ہو، امریکا کی کاسہ لیسی نہیں۔