مارچ ۲۰۰۹

فہرست مضامین

چین میں سات دن

عبد الغفار عزیز | مارچ ۲۰۰۹ | احوالِ عالم

Responsive image Responsive image

۹۶ لاکھ مربع کلومیٹر مساحت اور ایک ارب ۴۰ کروڑ کی آبادی پر مشتمل چین، تیز تر تبدیلی کے مراحل طے کر رہا ہے۔ مجموعی طور پر یہ تبدیلی مثبت ہے، اسی لیے ایک دنیا آنے والے دور میں چین کے نمایاں اقتصادی اور سیاسی کردار کا اعتراف کر رہی ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ جب یہ نعرہ چینی عوام کے لیے ضابطۂ حیات بنایا گیا: جو بھی فیصلہ چیئرمین مائوزے تُنگ کرے اسے تسلیم کرو، اور جو بھی ہدایات چیئرمین مائوزے تُنگ دے اس کی پیروی کرو۔ ۱۹۷۶ء میں مائوزے تُنگ کا انتقال ہوگیا۔ ان کے جانشین ڈِنگ ژیاؤپنگ نے مئی ۱۹۷۷ء میں اعتراف کیا کہ اس ’نظریۂ جو بھی‘ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خامیوں کا مداوا ضروری ہے۔ مئی ۱۹۷۸ء میں پارٹی کی طرف سے ایک نیا اصول متعارف کروایا گیا:’’تجربہ اور عمل (practice) ہی سچائی جاننے کا واحد پیمانہ (sole criterion) ہے‘‘۔

دھیرے دھیرے تبدیلی کا عمل شروع ہوگیا۔ چین ایک محدود اور قومیائے ہوئے اقتصادی نظام سے کھلی منڈی کے نظام میں ڈھلتا چلا گیا۔ ۱۹۸۵ء میں چین نے ہتھیاروں میں نمایاں کمی کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کردیا کہ وہ کسی صورت ایٹمی اسلحے کے استعمال میں پہل نہیں کرے گا اور نہ کبھی اپنی یہ صلاحیت ہی کسی غیر ایٹمی ملک کے خلاف استعمال کرے گا۔ یہ بات چین کی آیندہ پالیسی کی ایک واضح علامت تھی۔ یہ ایک اعلان تھا کہ اصل توجہ اختلافات اور لڑائیوں پر نہیں اقتصادی ترقی پر دینا ہے۔ سرکاری الفاظ میں اسے چینی طرز کا کمیونزم کہا گیا، یہ چینی نظام، سرمایہ دارانہ طرزِحیات اور مارکیٹ اکانومی کی راہ میں رکاوٹ نہیں، معاون تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ۲۰۰۱ء میں چین کو ۵سال کے عبوری عرصے کے لیے عالمی تنظیم تجارت WTO کا رکن بن لیا گیا اور یہ عرصہ مکمل ہونے پر ۲۰۰۷ء میں باقاعدہ اور حتمی رکنیت دے دی گئی۔ ۲۰۰۷ء ہی میں چینی دستور میں باقاعدہ ترمیم کرتے ہوئے انفرادی ملکیت کا قانون بنا دیا گیا۔ ہوجِن تائو پارٹی کے سربراہ اور پھر ملک کے صدر منتخب ہوئے تو تبدیلیوں کا سفر تیز تر ہوگیا۔

چینی حکمران پارٹی ’کمیونسٹ پارٹی آف چائنا‘ (CPC) کی دعوت پر امیرجماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی سربراہی میں جماعت کا ۸ رکنی وفد چین کے ایک ہفتے کے دورے پر گیا تو ہمارے میزبان سیکرٹری خارجہ لیوھونگ شائی (Lu Hongcai)نے شاید انھی دوررس تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’گذشتہ ۱۵ برسوں میں ہمارے دونوں ملکوں میں بڑی اہم تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں لیکن ایک چیز ناقابلِ تبدیل ہے اور وہ ہے پاک چین دوستی۔ دونوں ملکوں کے لیے یہ دوستی ناگزیر اور ابدی ہے‘‘۔ اس سے قبل محترم قاضی صاحب بھی کہہ چکے تھے کہ ہم دوپڑوسی، دو بھائی اور دو دوست ہیں۔ ہمارا یہ مضبوط رشتہ ہمارے تمام تر اندرونی اختلافات سے بالاتر ہے۔ چین سے مضبوط دوستی ہمارے لیے ایک قومی موقف کی صورت اختیار کرچکی ہے۔

اس سے پہلے مارچ ۲۰۰۰ء میں ہماری طرف سے پیش رفت کے نتیجے میں محترم قاضی صاحب تین روز کے لیے چین آچکے تھے۔ مجھے یاد آیا کہ تب ایک چینی ذمہ دار نے کہا تھا کہ اب یہ جملہ روایتی لگتا ہے کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے زیادہ بلند، دیوارِ چین سے زیادہ مضبوط اور سمندر سے زیادہ گہری ہے، بلکہ اب ہماری دوستی ہر مادی تمثیل سے بالاتر ہے۔گذشتہ دورے میں ہم صرف دارالحکومت بیجنگ گئے تھے، اس بار تین اہم شہروں کا دورہ رکھا گیا۔ ہمارے میزبان کہہ رہے تھے کہ اگر چین کی ۲ہزار سالہ تاریخ کا مطالعہ کرنا ہو تو بیجنگ، ۵ہزار سالہ تاریخ کے جائزے کے لیے شیان (صوبہ شانسی) اور گذشتہ ۱۰۰ سالہ تجارتی واقتصادی ترقی کا جائزہ لینا ہو تو شنگھائی کا دورہ مفید ہوتا ہے۔ ہم نے اسی لیے آپ کے لیے ان تینوں شہروں کا انتخاب کیا ہے۔

ہزاروں سال پر مشتمل چین کی تاریخ انتہائی دل چسپ حقائق لیے ہوئے ہے۔ اس دورے میں بھی اس کے کئی اہم پہلو سامنے آئے، آیئے ان میں سے ایک منظر دیکھتے ہیں۔ یہ ۲ہزار سال پہلے کا منظر ہے۔ تب چینیوں کی اکثریت زندگی بعد موت پر ایمان رکھتی تھی لیکن آخرت کا تصور خرافات میں کھو چکا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ دوسری زندگی میں بھی وہ پہلے جیسی زندگی ہی گزاریں گے جس میں اسی طرح پورے اسبابِ زندگی کی ضرورت ہوگی جیسے اَب ہے۔ تب ان کے شہنشاہ نے ابدی زندگی اور دوامِ اقتدار کو یقینی بنانے کے لیے اپنی افواج کو اپنے مجسمے تراشنے کا حکم دیا۔ ۷ہزار مجسمے یوں تراشے گئے کہ نہ صرف اصل سے مشابہت رکھتے ہوں بلکہ ساتھ ہی ان کے عسکری مناصب کا بھی اہتمام کیا گیا ہو اور ان کے لباس کا بھی۔ سپاہیوں کے علاوہ ان کے گھوڑوں کے مجسمے بھی اسی کاریگری سے تراشے گئے اور سب کو لمبی لمبی سرنگیں اور مورچے کھود کر قطار اندر قطار ایستادہ کردیا گیا۔ ۱۱ لمبی کھائیوں میں صف در صف کھڑے مجسموں کی یہ فوج اپنا اسلحہ بھی ساتھ لیے کھڑی تھی۔ سب کا رخ اسی ایک جانب کیا گیا جدھر سے دشمن افواج آنے کا خدشہ ہوسکتا تھا۔ ’ٹیراکوٹا جنگ جوؤں‘ (Tera Cotta warriors) کا یہ عجائب گھر شیان کے مضافات میں واقع ہے۔ ایک بوڑھے دہقان کی نشان دہی پر کہ جس نے اپنے بچپن میں اس کا ذکر اپنے آبا و اجداد سے سنا تھا، یہ اہم دریافت ۱۹۷۴ء میں سامنے آئی۔ ۱۹۷۵ء میں اس پر عجائب گھر تعمیر ہونا شروع ہوا اور ۱۹۷۹ء میں عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا۔ مزید تلاش اور مزید تعمیرات کا کام اب بھی جاری ہے اور اس محیرالعقول دریافت کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جا رہا ہے۔ مصر کے اہرامات بھی اسی ذہنیت و اعتقاد کا کرشمہ تھے کہ ابدی زندگی کا حصول اور حیاتِ نو میں بھی سلطانی کا تاج سر پہ سجا ہو۔ یہ خواب ایک عجوبے میں بدل کر رہ گیا، اور دوسروں کے لیے عبرت کا سامان بن گیا۔ مٹی یا سونے سے اپنے مجسمے بنانے والے خاک ہوگئے اور رہتی دنیا تک زندگی کی بے ثباتی کا اعلان کرگئے۔

تاریخ قدیم کے آثار میں شیان کی ساڑھے بارہ سو برس قدیم جامع مسجد بھی انتہائی پُرشکوہ ہے۔ اگرچہ مزید دیکھ بھال کی متقاضی ہے لیکن اہلِ ایمان کے سجدوں سے منور ہے۔ اپنی مسجد کی طرح اس میں سربسجود انسان بھی مزید دیکھ بھال کے محتاج ہیں۔ قرآن کریم کی تلاوت انتہائی مشکل و مشقت سے کرتے ہیں، گاہے قرآن کے الفاظ تک سمجھنا دشوار ہوجاتا ہے۔ بعض عجیب رسوم و رواج میں بھی بندھے ہیں، لیکن اپنے رب اور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار ہیں۔ امام مسجد نے خطبۂ جمعہ سے قبل پورے وفد کا فرداً فرداً تعارف کروایا۔ پھر قاضی صاحب کو خطاب کی دعوت دی جو کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ… کے عنوان سے تھی۔ نماز سے قبل اپنے دفتر میں سادہ مگر محبت کی شیرینی سے معمور تواضع کی۔ مسجد کے دروازے سے نکل رہے تھے تو اُوپر لکھا ہوا تھا: المَساجِدُ أَسْوَاقُ الآخِرَۃ، ’’مساجد آخرت کے بازار ہیں‘‘۔

بعد از نماز قریبی آبادی میں ایک مسلم گھرانے سے ملاقات کے لیے گئے تو ضعیف العمر لیکن چاق و چوبند سربراہ خاندان جناب خالد نے چینی زبان میں خوب صورت انداز سے خود لکھا ہوا طغریٰ پیش کیا۔ شعر مکمل دعوت تھا:

قرآن چاند ہے جومجھے ہی نہیں سب کو منور کرتا ہے۔ اسلام روشن شاہ راہ ہے جو مجھے ہی نہیں سب کو منزل تک پہنچاتی ہے۔

ہزاروں اور سیکڑوں برس پرانے اور پھر موجودہ چین کے محیرالعقول مناظر دیکھتے ہوئے اگر موجودہ چین کے نظریے، فلسفے اور دورِ جدید کا حال دو لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو وہ ہیں: اقتصادی ترقی اور محکم نظام۔ خود حکمران پارٹی کے دستور میں اس کا ذکر یوں کیا گیا ہے: ’’تعمیرچین تاکہ وہ عصرِحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ، ایک اشتراکی، خوش حال، جمہوری، جدید اور مربوط ریاست بن سکے‘‘۔ ریاست اور حکمران پارٹی اصل میں دونوں ایک ہوچکے ہیں۔ پارٹی کا سربراہ ہی ریاست اور مسلح افواج کا سربراہ بھی ہے۔ ریاستی امور ریاستی ادارے ہی چلاتے ہیں، لیکن ان کی تمام تر پالیسی سی پی سی کی سنٹرل کمیٹی اور پارلیمنٹ کی مختلف کمیٹیاں ہی طے کرتی ہیں۔ ریاست کے دیگر نمایندے اس پالیسی پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ اس محکم نظام کی تمام تر توجہ اقتصادی ترقی پر ہے۔ جن کتب کے حوالے سے آغاز میں مائوزے تُنگ اور ڈِنگ ژیائوپنگ کے خیالات کا ذکر کیا ان کے مطابق چین اپنی سالانہ قومی پیداوار کے لحاظ سے ۲۰۰۷ء میں چھٹے سے چوتھے اور اب تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں چین کی کُل قومی پیداوار ۲۴کھرب ۹۵۳ ارب یوآن تھی۔ روپوں میں جاننے کے لیے اس رقم کو ۱۱ سے ضرب دے لیجیے۔

عالمی اقتصادی بحران کا منفی اثر چین پر بھی پڑ رہا ہے، لیکن ان کے بقول یہ نہ صرف   قابلِ برداشت ہے بلکہ وہ اس کے سدباب کے لیے اقدامات بھی کررہے ہیں۔ دنیابھر بالخصوص ترقی پذیر دنیا سے دوستی کے نئے رشتے استوار کیے جارہے ہیں۔ عین ان دنوں میں کہ جب ہم چین میں تھے، صدر ہوجن تائو چار افریقی ممالک سینیگال، تنزانیہ، مالی اور ماریشس کے علاوہ سعودی عرب کے دورے پر تھے۔ ہر جگہ اقتصادی تعاون کے نئے معاہدے ہوئے۔ سعودی عرب میں عرفات، مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان ریل چلانے کے منصوبے پر دستخط ہوئے۔ ۶۵ء۶ ارب سعودی ریال کی لاگت سے بننے والا یہ منصوبہ ۲ سال کے اندر مکمل ہوجائے گا۔ China Dailyکے مطابق مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل کے منصوبے پر بھی پیش رفت ہوئی ہے جس کے بعد یہ مسافت صرف ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوجایا کرے گی۔ ماریشس میں ۲۷۰ ملین، تنزانیہ میں ۱۱۴ ملین اور سینیگال میں ۹۰ملین ڈالر کے منصوبوں کے علاوہ ۱۰ ہزار ٹن خوردنی تیل کے معاہدے پر بھی دستخط ہوئے۔ اسی دوران چین نے روس کی دو بڑی کمپنیوں کو ۲۵ ارب ڈالر کا قرض دیتے ہوئے ان سے بھی معاہدے کیے ہیں۔ عرب چین بزنس فورم وجود میں آیا اور اس کی دوسری کانفرنس منعقد ہوچکی ہے۔ سوڈان چین مضبوط تعلقات کا حال تو بین الاقوامی تعلقات کا ہر طالب علم جانتا ہے۔

ان تمام اقتصادی معاہدوں اور تجارت کے فروغ کے علاوہ ایک اور بات جس پر چین توجہ دے رہا ہے وہ کفایت شعاری ہے۔ ہم ۹ فروری کو علی الصبح بیجنگ پہنچے تو پورا بیجنگ شہر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ صرف اہم شاہ راہوں پر سٹریٹ لائٹ جل رہی تھیں۔ لیاقت بلوچ صاحب نے جہاز کے عملے سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ رات کے پچھلے پہر لوڈشیڈنگ کر کے توانائی کی بچت کی جاتی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں اولمپکس کے شان دار انتظامات نے دنیابھر کو ششدر کردیا تھا۔ اس کی تیاریوں کے ضمن میں تیراکی کے لیے ایک انوکھا تالاب بنایا گیا۔ اگرچہ ہم یہ تالاب دیکھنے نہیں گئے لیکن ہمیں بتایا گیا کہ پوری وسیع و عریض عمارت کی دیواریں پانی کے شفاف بلبلوں کی صورت میں بنائی گئی ہیں۔ ہر ایک بلبلے کا حجم اتنا ہے کہ اس کی صفائی کے لیے آدمی اس کے اندر بآسانی کھڑا ہوسکتا ہے۔ اس بلبلے کا ایک فائدہ یہ بھی بتایا گیا کہ دن کے وقت سورج کی روشنی ہی کافی رہتی ہے، بجلی کی بچت ہوگی۔ ان دنوں چین کے بعض صوبوں میںگذشتہ ۳۰ سال کے دوران بدترین قحط کی اطلاعات ہیں۔ تشویش ہرکسی کو ہے لیکن حکومت مطمئن ہے کہ غذائی ضروریات کا انتظام کیا جاچکا ہے۔ قحط کی پیش بندی کے لیے پانی کے استعمال میں بچت کی خصوصی منصوبہ بندی کی گئی ہے اور ہدف یہ رکھا گیا ہے کہ ۲۰۲۰ء میں پانی کی کھپت میں ۶۰ فی صد تک کمی لے آئی جائے گی صرف پانی کو ضیاع سے بچانا ہوگا۔ ان تمام تدابیر کے باوجود عالمی اقتصادی بحران نقصانات کا سبب بن رہا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ ۳ماہ میں چین کی برآمدات میں ۵ء۱۷ فی صد کمی آئی ہے۔

جماعت کے وفدکا دورۂ چین اندرون و بیرون ملک یکساں توجہ کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ کہیں تعریف و ستایش میں مبالغہ ہے اور کہیں تنقید و تنقیص میں۔ درحقیقت یہ دورہ جماعتی پالیسی کا تسلسل، ایک اہم قومی ضرورت، عالمِ اسلام کے لیے دُوررس خدمت اور دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان دوستی کے مزید مضبوط اور گہرے تعلقات قائم کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ اس دوستی کے لیے سی پی سی کے چار رہنما اصول: برابری، باہم احترام، آزادی اور ایک دوسرے کے اندرونی مسائل میں عدمِ مداخلت بہت جامع اور مطلوب اصول ہیں۔ امریکا اپنے عالمی تعلقات میں سب سے پہلے انھی چار اصولوں کی دھجیاں اڑاتا ہے۔ اس لیے ناکامی در ناکامی کا سامنا کر رہا ہے۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان مفاہمت کی جس دستاویز پر سیدمنور حسن صاحب اور نائب وزیرخارجہ نے دستخط کیے ہیں اس میں مسئلۂ کشمیر کا واضح اور اصولی ذکر اہم ترین پیش رفت ہے۔ اس وقت چین اور بھارت کے درمیان تقریباً ۵۰ ارب ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے، اس سب کچھ کے باوجود اس واضح اور دوٹوک موقف کے اعادے کے لیے ہماری درخواست مان لینا یقینا ایک قابلِ اعتماد دوست کے لیے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ ہم نے بھی تائی وان، تبت اور سنکیانگ سمیت چین کے کسی علاقے میں علیحدگی کی تحریک کی حمایت نہ کرنے کے قومی موقف کا اعادہ کیا ہے۔ علیحدگی پسندی کی بات، خود سنکیانگ کے اکثر مسلمانوں کے لیے اجنبی ہے لیکن بعض طاقتیں اسے بڑھانا اور پھیلانا چاہتی ہیں۔ اس سے واضح براء ت یقینا چینی مسلمانوں کے لیے بھی راحت کا ذریعہ بنے گی۔ شیان کی ساڑھے بارہ سو برس قدیم مسجد کے علاوہ بیجنگ میں ایک ہزار سال پرانی مسجد ہے۔ چین کے کئی علاقوں میں مسلمانوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ چین کے جس شہر میں چلے جائیں تلاش کیے بغیر بڑی تعداد میں حلال کھانوں کے ریسٹورنٹ مل جاتے ہیں۔ ایک اہم سفارت کار بتارہے تھے کہ ایک قبر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی قبر ہے، اوروہ خود اس کی زیارت کرچکے ہیں۔ چینی مسلمانوں کی یہ قدیم اور مضبوط بنیادیں وہاں ان کے ابدی اثرات اور روشن مستقبل کا اعلان ہیں، علیحدگی پسندی کی تحریک نہیں۔