مارچ ۲۰۰۹

فہرست مضامین

زرداری گیلانی حکومت کا ایک سال

پروفیسر خورشید احمد | مارچ ۲۰۰۹ | اشارات

Responsive image Responsive image

۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات، اپنی تمام کمزوریوں اور بے قاعدگیوں کے باوجود قوم کے اس عزمِ صمیم کے مظہر تھے کہ جنرل پرویز مشرف کا ۸ سالہ دورِ اقتدار پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین باب تھا اور عوام جنرل مشرف کے ساتھ اس کی ان پالیسیوں سے بھی مکمل نجات چاہتے ہیں جن کے نتیجے میں ملک کی آزادی اور حاکمیت پر ضربِ کاری لگی ہے۔ پاکستان کی نظریاتی شناخت بری طرح مجروح ہوئی ہے اور ملک امن و امان اور عدل و انصاف سے یکسر محروم ہوگیا ہے۔ عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے ادارے غیرمؤثر اور آمریت کے آلۂ کار بن گئے ہیں جس کے نتیجے میں دستور عملاً معطل ہوگیا ہے اور عوام اپنے حقوق سے یکسر محروم ہوگئے ہیں۔ ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ میں آلۂ کار بننے سے ملک کی فوج اپنے ہی عوام کے خلاف صف آرا ہوگئی ہے اور  فوج اور قوم کے درمیان جو اعتماد اور ہم آہنگی کا رشتہ تھا وہ ٹوٹ گیا ہے۔ فوج عوام کی بے زاری، بے اعتمادی اور نفرت کا نشانہ بنتی جارہی ہے۔ فاٹا، شمالی علاقہ جات اور بلوچستان ہی نہیں، پورا ملک امن و امان سے محروم ہوگیا ہے اوردہشت پسندی، لاقانونیت اور راے عامہ کے ذریعے تبدیلی پر عوام کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن سیاسی قیادت کا آلۂ کار بن گیا ہے اور عدالت کو انتظامیہ نے اپنا تابع مہمل بنالیا ہے۔ معاشی حالات، خوش کن وعدوں کے باوجود روز بروز خراب ہورہے ہیں۔ غربت بڑھ رہی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پیداوار میں جمود ہے، قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، قرضے بڑھ رہے ہیں، اِسی طرح بجٹ، تجارت اور بین الاقوامی ادایگیاں پاکستان کی تاریخ کے بدترین خسارے کی مظہر ہیں۔

ان حالات میں عوام نے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا اور کسی ایک جماعت کو نہیں بلکہ دونوں بڑی جماعتوں، یعنی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو یہ ذمہ داری سونپی کہ ملک کو اس دلدل سے نکالیں اور دستور، قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، پارلیمنٹ کی بالادستی، امن و امان کے قیام اور معاشی عدل اور استحکام کی طرف پیش قدمی کریں۔ نئے سفر کا آغاز پی پی پی اور نواز لیگ کے اشتراک سے ہوا اور امید بندھی کہ شاید قومی مفاہمت کے ذریعے ملک حقیقی جمہوریت کی طرف رواں دواں ہوسکے گا۔ مگر افسوس کہ سیاسی قیادت نے قوم کو بری طرح مایوس کیا اور ذاتی مفاد، جماعتی عصبیت، مفاد پرست طبقات سے گٹھ جوڑ اور امریکا کی کاسہ لیسی کی پرانی ڈگر کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس میں کچھ اور بھی اضافہ کردیا۔ عدلیہ کی بحالی اور آزادی پر ایک اور بھرپور ضرب لگائی۔ دستور کے ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کی صورت میں بحالی کے وعدے کو پامال کیا اور ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے صریح غداری (high treason) کے اقدام کو سینے سے لگاکر مشرف کے چھوڑے ہوئے جمہوریت کُش نقشے میں مزید رنگ بھرنے کا کام اپنے سر لے لیا۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے راستے الگ ہوگئے مگر درپردہ معاملہ بندی کا سلسلہ جاری رہا جس سے نہ حکومت کی اصلاح ہوسکی اور نہ حزبِ اختلاف اپنا حقیقی کردار ادا کرسکی۔ حکومت پر عوام کا اعتماد بری طرح مجروح ہوا اور آج حکومت کے بارے میں عوام کی بے زاری کا گراف اس سے بھی کچھ اُوپر جاچکا ہے جو الیکشن کے وقت مشرف حکومت کے بارے میں تھا۔ اس ایک سال کا جائزہ لیا جائے تو بڑی تکلیف دہ اور تشویش ناک صورت حال سامنے آتی ہے جس کا ادراک ضروری ہے۔

  •  دستورکُش اور ملک دشمن اقدامات: فروری ۲۰۰۷ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلیمنٹ اور حکومت کی پہلی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے دستورکُش اور ملک دشمن اقدام کو صاف الفاظ میں خلافِ دستور قرار دے کر کالعدم کرتی تاکہ اس کے نتیجے میں عدلیہ کی جو تباہی ہوئی ہے اس کی اصلاح و درستی ہوپاتی۔ تعجب ہے کہ آج تک نہ پارلیمنٹ نے اس اقدام کو کالعدم قرار دیا ہے اور نہ اسے ضروری ترامیم کے ساتھ جائز (validate) قرار دیا ہے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ آج تک ملک ایک خلافِ دستور اور ملک دشمن اقدام کے تاریک سایے تلے زندگی گزار رہا ہے اور قیادت اور پارلیمنٹ کو کوئی احساس تک نہیں کہ وہ قانون کی پامالی اور انصاف کی درماندگی پر اقتدار کا تخت سجائے بیٹھی ہے۔ قوم چیخ رہی ہے، اپوزیشن جماعتیں احتجاج کر رہی ہیں، وکلا ملک کے کونے کونے سے اس صورت حال کے خلاف بھرپور تحریک چلا رہے ہیں مگر حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
  •  مشرف دور کی پالیسی پر عمل پیرا:پیپلزپارٹی کا کردار اس پورے معاملے میں بہت ہی مایوس کن ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ زرداری صاحب اور ان کے معاونین کا ٹولا، جو امریکا اور برطانیہ کے تعاون سے، مشرف سے قومی مفاہمت آرڈی ننس (NRO) کے نام پر ایک سودے بازی (ڈیل) کے نتیجے میں برسرِاقتدار آیا، وہ دستور اور میثاقِ جمہوریت، ان کے اپنے مسلم لیگ (ن) سے معاہدات اور عوام کے مینڈیٹ سب کو نظرانداز کرکے محض ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کررہا ہے اور پوری ڈھٹائی سے مشرف دور ہی کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ زرداری صاحب نے تمام اہم عہدوں پر ان لوگوں کو مسلط کیا ہے جن سے ان کے مفادات وابستہ رہے ہیں اور جن کا سیاسی جدوجہد میں کوئی کردار نہیں تھا۔ صدارت پر منتخب ہونے کے لیے ہرطرح کے جوڑ توڑ سے کام لیا اور صدر کے لیے جو دستوری تقاضے ہیں کہ وہ غیر جانب دار ہو اور وفاق کی علامت ہو، اس کو  پسِ پشت ڈال کر پارٹی کی سربراہی بھی اپنے پاس ہی رکھی اور اس کے ساتھ اپنے ہاتھوں میں وہ سارے اختیارات مرتکز کرلیے جو جنرل مشرف نے دستور کو مسخ کر کے اپنی گرفت میں لے لیے تھے۔ قوم کے مطالبے کے باوجود، اپنے اثاثوں کا اعلان نہیں کیا اور ہیراپھیری کا وہ کردار جاری رکھا جس کی بنا پر وہ ملک ہی نہیں، پوری دنیا میں بدنام تھے۔ عملاً صدر چیف ایگزیکٹو کا کردار ادا کر رہا ہے اور سارے فیصلے پارلیمنٹ تو کجا کابینہ میں بھی نہیں، ایوانِ صدر میں ہورہے ہیں، نیز صوبوں کے گورنروں کو اپنے آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ زرداری صاحب کے اس طرزِ حکمرانی نے سیاسی نظام کی چولیں ہلا دی ہیں اور تقسیمِ اختیارات اور توازنِ قوت کا پورا نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے۔
  • امریکی تابع داری میں دو ھاتھ آگے: امریکی ایجنڈے پر عمل درآمد کے حوالے سے، زرداری حکومت مشرف سے بھی دوہاتھ آگے ہے۔ خود امریکا میں جو تبدیلی اوباما کے صدر منتخب ہونے سے آئی تھی اور جس کی بنیاد پر امریکا سے تعلقات کی نئی نقشہ بندی کے امکانات پیدا ہوگئے تھے، اسے ضائع کردیا گیاہے اور امریکا کی گرفت ہمارے قومی معاملات پر کچھ اور بھی سوا ہوگئی ہے۔ ڈرون حملوں میں اس ایک سال میں معتدبہ اضافہ ہوا ہے اور اب تویہ بھی حقیقت سامنے آرہی ہے کہ ڈرون حملے نہ صرف ملی بھگت سے ہورہے ہیں بلکہ اس کے لیے پاکستان ہی کی سرزمین کو استعمال کیا جا رہا ہے جس کا اعتراف امریکا کی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی سربراہ نے صاف لفظوں میں کیا ہے اور گوگل (google) کے نقشہ جات کا دقتِ نظر سے مطالعہ کرنے والوں نے نشان دہی بھی کردی ہے کہ بلوچستان اور سندھ کی سرحد پر خاران تحصیل کے علاقے ودھ میں امریکی فوجی اڈا ہے جس میں ڈرون رکھے گئے ہیں۔ ان کا کنٹرول امریکا میں سنٹرل کمانڈ کے پاس ہے اور وہ پاکستان ہی کی سرزمین کو پاکستانیوں کے قتلِ عام کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور صرف شمالی اور جنوبی وزیرستان اور باجوڑ کو ہی نہیں بلکہ کرم ایجنسی تک کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ زرداری حکومت اس مجرمانہ اور خونی کھیل میں برابر کی شریک ہے اور زبانی احتجاج فقط ایک نمایشی عمل ہے جس سے اس گھنائونے جرم میں شرکت پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔

امریکا ’اور مارو اور مارو‘ (do more)  کے مطالبات کر رہا ہے۔ امریکی نمایندے ہالبروک نے نہ صرف امریکی دبائو کو بڑھایا ہے بلکہ اس کی موجودگی میں دو مرتبہ ڈرون حملے ہوئے۔ ممبئی کے واقعے کے بارے میں بھی زرداری کے دست ِ راست مشیر داخلہ نے پریس کانفرنس کرکے جس جوش و خروش سے بھارت کے الزامات کو اپنے سر لیا ہے، اس نے امریکا اور بھارت کے اس خطرناک کھیل کو اور بھی گمبھیر کردیا ہے۔ آج پاکستان اس قیادت سے محروم ہے جو پاکستان کے مفاد کے لیے سر اُٹھاکر اور خم ٹھونک کر کھڑی ہوسکے اور امریکا کے ایجنڈے سے براء.ت کا اعلان کرسکے۔ امریکی تحقیقی ادارے اعتراف کر رہے ہیں کہ افغانستان میں ۷۲ فی صد علاقے پر طالبان کا قبضہ ہے اور ۲۰۰۸ء کا سال افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کے لیے اور خود وہاں کے عوام کے لیے  سخت ترین رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے نمایندے نے سرکاری طور پر اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں غیرحربی (non-combatant) سویلین شہریوں کی ہلاکت میں ۴۰ فی صد اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں ۲۰۰۸ء میں ۲۱۱۸ معصوم شہری لقمۂ اجل بنے ہیں اور ان میں سے ۵۵۲ افراد ہوائی حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے شہریوں کی تحفظ کی سالانہ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ: ’’امریکا، ناٹو اور افغان افواج نے اقوام متحدہ کے مطابق ۲۰۰۷ء میں ان فورسز نے ۶۲۹ سویلین ہلاک کیے۔ ۲۰۰۸ء میں پچھلے برس کے مقابلے میں ۳۱ فی صد زیادہ سویلین ہلاک کیے‘‘۔

یہی صورت حال فاٹا اور سوات کی ہے جہاں پاکستانی افواج کے اقدام کے نتیجے میں صرف گذشتہ ۱۷ ماہ میں ۵ ہزار معصوم انسان شہید ہوچکے ہیں اور باجوڑ سے ۴ لاکھ اور سوات سے ۶لاکھ لوگ بے گھر ہوکر اپنے ہی ملک میں مہاجر بن گئے ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان کے لیے ۲۰۰۸ء کا سال دہشت گردی کے حوالے سے بدترین سال رہا ہے۔ پاک ادارہ براے مطالعات امن (Pak Institute for Peace Studies) کی تازہ رپورٹ (بی بی سی، ۱۹ جنوری ۲۰۰۹ء) کی رُو سے ایک سال میں جس میں اقتدار پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں بشمول اے این پی، ایم کیو ایم اور جمعیت علماے اسلام (ف) کے پاس تھا، ملک میں دہشت گردی (بشمول حکومتی دہشت گردی) کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۸ہزار تک پہنچ گئی ہے اور زخمیوں کی تعداد ۹۵۰۰ سے زائد ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ: ’’دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں ۷۰۰ فی صد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے‘‘۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات سب سے زیادہ صوبہ سرحد میں ہوئے ہیں جن کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد بلوچستان کا نمبر ہے جہاں گذشتہ سال ۶۴۲، قبائلی علاقے میں ۳۸۵، پنجاب میں ۳۵، سند ھ میں ۲۵، اسلام آباد میں ۷، آزاد کشمیر میں ۴ اور شمالی علاقہ جات میں ایک واقعہ ہوا ہے۔

یہ خونچکاں داستان صرف اس دہشت گردی کی ہے، جسے قوت کے ذریعے ختم کرنے کے دعوے سے کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ قتل، چوری، ڈاکے، عصمت دری، خودکشی اور دوسرے جرائم اس کے سوا ہیں۔ انسانی حقوق کے کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جو اوسطاً ہر ماہ ایک سو سے متجاوز ہیں۔

یہ ہے ملک میں امن و امان کی اصل صورت حال اور زرداری گیلانی حکومت اس ناکام پالیسی پر اور بھی مستعدی کے ساتھ کاربند ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار پیس کی متذکرہ بالا رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۳ء سے (جب حکومت نے اس پالیسی کا آغاز کیا۔) ۲۰۰۸ء تک مجموعی طور پر ۱۳ ہزار افراد جانیں کھوچکے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ دل خراش دعویٰ بھی کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان عراق اور افغانستان میں دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتوں میں دونوں سے آگے ہے‘‘___ اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔

عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ۱۳ فروری ۲۰۰۹ء کی رپورٹ میں کہا ہے کہ صرف سوات میں ۱۲۰۰ افراد ہلاک اور ۵ لاکھ بے گھر ہوچکے ہیں۔ اس رپورٹ کے یہ الفاظ کس قدر   شرم ناک ہیں:

طالبان نے لوگوں کی جان اور حقوق کی توہین کی ہے، جب کہ دوسری طرف پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے ان بنیادی حقوق کو پامال کیا ہے جن کی وہ بظاہر حفاظت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ (بی بی سی، ۱۳ فروری ۲۰۰۹ء)

ان حالات میں جب بھی حکومت نے اپنے عوام سے مذاکرات کرنے اور امن بحال کرنے کے لیے کسی معاہدے کی کوشش کی ہے تو اس پر امریکا برافروختہ ہوا ہے اور اس نے  براہِ راست ڈرون حملوں میں اضافہ کر کے ان معاہدات کو سبوتاژ کرنے کی ’خدمت‘ انجام دی ہے۔ یہ ہے دہشت گردی کے خلاف اس کے ’تعاون‘ کی ایک شکل___

اس وقت بھی (وسط ِ فروری میں) جو معاہدہ سوات میں شرعی قوانین کے نفاذ اور امن کی بحالی کے لیے ہوا ہے اس پر امریکا، ناٹو، بھارت تینوں نے مخالف ردعمل کا اظہار کیا ہے اور زرداری صاحب دستخط کرنے میں لیت و لعل کر رہے ہیں۔ نیز ان کے ترجمان مسئلے کو اُلجھانے میں لگے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ خود اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی تک بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ شریعت کے نفاذ کا کوئی مسئلہ نہیں، یہ تو صرف ۱۹۹۹ء کے ایک قانون میں کچھ ترمیم کی گئی ہے۔ حالانکہ اے این پی کی باقی قیادت خصوصیت سے اس کے سیکرٹری جنرل زاہد خان بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم نے شریعت کے نفاذ کا معاہدہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت پر عوام کا اعتماد ختم ہوچکا ہے اور وعدوں اور معاہدات کی تقدیس باقی نہیں رہی ہے۔ اس کی بدترین مثال عدلیہ بشمول چیف جسٹس کی بحالی کے سلسلے میں ایک نہیں، دو دو معاہدوں کا زرداری صاحب کا توڑنا ہے۔ اس کے بعد حکومت کے کسی قول و قرار کا اعتبار باقی نہیں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے شریعت کے نفاذ کے اصولی مسئلے کی بھرپور تائید کے باوجود، اس کھیل کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے جو ایک ناقابلِ اعتبار حکومت سرحد میں کھیل کر رہی ہے۔ دراصل یہ کھیل پرویز مشرف کے سابقہ دور سے زرداری گیلانی دور تک اُسی یکساں انداز میں کھیلا جارہا ہے۔

  •  پارلیمنٹ کی بالادستی کے دعوے کی حقیقت: دستور کی بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کے سلسلے میں بھی پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کا کردار بڑا مایوس کن ہے۔ اس حکومت کے وزیرقانون دستوری ترامیم کا جو پیکج لائے تھے اس پر ہم بھرپور محاکمہ کرچکے ہیں۔ یہ ترامیم دستور کا حلیہ مزید بگاڑنے کا نسخہ تو ہیں، دستور کی ۱۹۹۹ء کی پوزیشن پر بحالی کا نہیں۔ اس بارے میں حکومت کی مجرمانہ غفلت اس کے اصل عزائم کی آئینہ دار ہے۔ اور ایک نئی عوامی جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے جس کا نقطۂ آغاز ۱۲مارچ کا وکلا کا لانگ مارچ اور ۱۶ مارچ کا اسلام آباد کا دھرنا ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وکلا تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے اداروں کو ساتھ لے کر چلیں۔ پھر یہ کہ صرف ایک احتجاج پر سارا انحصار نہیں کرنا چاہیے، اس کے لیے بڑی دقتِ نظر، مکمل ہم آہنگی اور تعاون سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور اس کے حواری اس تحریک کو سبوتاژ کرنے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں اور ان کی ان حرکتوں سے ان کی جمہوریت پسندی کا پول کھل چکا ہے۔ البتہ اس امر کا پورا پورا اہتمام ہونا چاہیے کہ جمہوریت کی بحالی اور عدلیہ کی عصمت کی حفاظت کی یہ تحریک کسی طالع آزما کے لیے کوئی موقع نہ فراہم کرے۔
  •  ناقص طرزِ حکمرانی: حکومت کا امور مملکت کی مناسب انجام دہی (governance) کا ریکارڈ سخت مایوس کن ہے۔ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ بنانے کا شرف زرداری گیلانی حکومت کو حاصل ہوا ہے۔ ایک ایک وزیر پر محتاط اندازے کے مطابق سالانہ اخراجات ۴کروڑ روپے کے قریب ہیں۔ اس غریب ملک میں ۶۲وزرا پر مشتمل مرکزی کابینہ بنائی گئی ہے،   ۱۵ مزید افراد کو وزیر کا درجہ اور مراعات دی گئی ہیں۔ پارلیمانی سیکرٹریوں اور مشیروں کی فوج ظفرموج ان کے علاوہ ہے۔ اور ’حکمرانی‘ کا یہ حال ہے کہ اس کا کوئی وجود ہی نظر نہیں آرہا۔ ہر وزیر اپنا اپنا سُر الاپ رہا ہے اور حکومت کی پالیسیوں میں کوئی ہم آہنگی اور تال میل دُور دُور تک نظر نہیں آتا۔ وزیرخارجہ ایک بات کہتے ہیں، جب کہ وزیردفاع دوسری۔ داخلہ کے مشیر اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں اور وزیراطلاعات صاحبہ چرب زبانی کے ساتھ کذب بیانی کا ریکارڈ قائم کر رہی ہیں۔ رشوت اور کمیشنوں کا بازار پھر گرم ہے اور عالمی ادارے (Transparency International) نے سالِ گذشتہ کو ماقبل کے سالوں سے خراب تر قرار دیا ہے۔ اس خرابی سے، ہر اس شخص اور ادارے کو سابقہ پیش آتا ہے جو موجودہ حکومت کے کارپردازوں کو کوئی بھی کام یا منصوبہ پیش کرتا ہے۔
  •  مربوط معاشی پالیسی کا فقدان: معیشت کی حالت کو دیکھا جائے تو وہ اوربھی زبوں حال ہے۔ ایک سال میں تین وزراے خزانہ کا تحفہ ملک کو دیا گیا اور چار بار خزانہ کے سیکرٹریوں کا تبادلہ کیا گیا ہے۔ معاشی میدان میں کوئی ایک بھی قابلِ ذکر اقدام نظر نہیں آتا۔ البتہ آئی ایم ایف کے جال میں ایک بار پھر ملک کو پھنسا دیا گیا ہے اور اس کی ساری شرائط کو قبول کر کے پیداواری عمل کو بری طرح متاثر کیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بنک کا ڈسکائونٹ ریٹ ۱۵ فی صد ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاری ٹھپ ہے۔ ۲۰ سے۲۴ فی صد پر قرض لے کر کون نفع آور کاروبار کرسکتا ہے۔ تیل کی قیمتیں عالمی منڈیوں میں ۱۴۸ ڈالر سے کم ہوکر ۳۶ اور ۴۰ ڈالر پر آگئی ہیں مگر حکومت نے تیل کی قیمتوں میں متناسب کمی کا راستہ اختیار نہیں کیا اور ایک اندازے کے مطابق صرف اس مد میں عوام سے ۸۰ ارب روپے سے زیادہ وصول کیا جا رہا ہے۔ بجلی، گیس، پانی تینوں کی حالت دگرگوں ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے زندگی عذاب بنا دی ہے۔ زراعت بری طرح متاثر ہورہی ہے اور صنعتی پیداوار میں ۶ فی صد سے زیادہ منفی رجحان ہے۔ کپڑے کی صنعت جو کُل ملکی صنعت کا ۶۰ فی صد ہے، شدید بحران کا شکار ہے اور ایک جائزے کے مطابق ۳۰ سے ۴۰ فی صد فیکٹریاں بند ہوگئی ہیں یا صلاحیت سے بے حد کم پیداوار دے رہی ہیں۔ درآمدات اسی طرح جاری ہیں اور برآمدات میں اضافے کے بجاے کمی ہے۔ بیرونی قرض کا بار ۳۶ ارب ڈالر سے بڑھ کر اب ۵۰ ارب ڈالر تک  پہنچ گیا ہے۔ آئی ایم ایف سے پہلے ۶ء۷ ارب ڈالر کی بات کی تھی جس کا نصف مل چکا ہے اور اب مزید ۴ ارب حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے صرف آئی ایم ایف کے قرضوں میں ۱۰ سے ۱۱ ارب ڈالر کا بوجھ ملک پر پڑے گا۔ ادھر ملک سے سرمایہ برابر باہر جا رہا ہے۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور تازہ ترین اندازوں کے مطابق اب آبادی کا ۴۰ سے ۴۵ فی صد، یعنی ۶سے ۷ کروڑ انسان غربت کی سطح سے کم پر زندگی گزار رہے ہیں اور مستحقین کو مالی مدد پہنچانے کی جو اسکیم شروع کی گئی ہے وہ متاثرین کے آٹھویں حصے کو بھی کوئی مؤثر ریلیف نہیں دے سکے گی۔ نیز اس نظام میں سیاسی دخل اندازی اور کرپشن کی تباہ کاریاں اس کے سوا ہیں۔

اس وقت سب سے بڑا مسئلہ حالات کے صحیح ادراک کا فقدان اور کسی ہمہ جہت اور مربوط معاشی پالیسی کا عدم وجود ہے۔ نج کاری، بدعنوانی اور قومی اثاثہ جات کو کوڑیوں کے مول غیرملکیوں کی طرف منتقل کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے مگر اس پر دوبارہ عمل شروع ہوگیا ہے جس کے معیشت پر دُوررس منفی اثرات پڑیں گے۔ اس عرصے میں روپے کی بین الاقوامی قیمت میں ۲۵ فی صد کمی واقع ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں بیرونی قرضوں کا بار ۷۰۰ ارب روپے بڑھ گیا ہے۔ درآمدات مہنگی ہوگئی ہیں اور برآمدات میں طلب پوری کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی اضافہ نہیں ہو پا رہا۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی گرفت معیشت پر موجود ہی نہیں ہے۔ خارجہ سیاست ہو یا داخلی معاملات ہوں، کیفیت یہ ہے کہ  ع

تن ہمہ داغ داغ شد ، پنبہ کجا کجا نہم

(سارا بدن زخموں سے داغ داغ ہوگیا ، پھایا کہاں کہاں رکھوں؟)

  •  ملک دشمن قوتوں کا ھدف : ان حالات میں عوام میں نہ صرف حکومتی کارکردگی پر عدمِ اطمینان بلکہ خود جمہوری عمل سے مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ لوگ مایوس ہوکر تشدد اور خونی انقلاب کا راستہ اختیار کر رہے ہیں تو کچھ مایوس ہوکر ہاتھ پر ہاتھ دھرے کر بیٹھ گئے ہیں، حالانکہ یہ وقت قومی احتساب، نئی سوچ بچار، خطرات کے صحیح ادراک، اصلاح کی مثبت حکمت عملی کی تیاری اور اس پر قوم کو منظم اور متحرک کرنے کا ہے۔ یہ ملک اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے اور قوم کے ہاتھوں میں ایک عظیم امانت ہے۔ امریکا اور یورپ کے اداروں کی سوچ کا اگر احاطہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ اس وقت ان کا اصل ہدف پاکستان بن گیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ پاکستان کا اسلامی تشخص اور اس کی نیوکلیئر صلاحیت ہے۔ امریکا اس علاقے کے سیاسی نقشے کو تبدیل کرنے کے مذموم منصوبے پر عمل کر رہا ہے اور بھارت اور اسرائیل اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ کبھی ۲۰۱۵ء کی بات کی جاتی ہے اور کبھی ۲۰۲۰ء اور ۲۰۲۵ء کی لیکن سب کا ہدف پاکستان کے نقشے کو تبدیل کرکے، اس کی نیوکلیئر صلاحیت پر قبضہ کرنا ہے۔ افغانستان میں امریکا، بھارت اور خود موساد، اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

ممبئی کا واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اور پاکستان پر امریکا کے مسلسل حملے حالات کو ایک ایسے رُخ پر لے جانے کے لیے ہیں کہ ایک طرف اقوامِ عالم خاکم بدہن پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دے کر یو این کے کسی پروانے کے سہارے ہمارے ایٹمی اثاثہ جات پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنائیں۔ دوسری طرف پاکستان کے تصور (image) کو میڈیا کے ذریعے اتنا خراب کردیا جائے کہ ملک تنہا ہوکر رہ جائے۔ کسی مذموم بین الاقوامی کارروائی کے لیے فضا سازگار ہوجائے۔ فوج کو ملک کے دفاع کی جگہ مغربی سرحدات پر ایک نہ جیتنے والی جنگ میں جھونک دیاگیا ہے اور اس دلدل سے فوج کے نکلنے کی ہرکوشش کو ناکام بنانے کی سعی کی جارہی ہے۔ قوم اور فوج کے درمیان اعتماد اور تعاون کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ اب اگر اسے دوبارہ بحال کرنے میں کوئی کوتاہی کی جاتی ہے تو یہ خودکشی سے کم نہیں ہوگا۔ فوج کی قیادت کو بھی آنکھیں کھولنی چاہییں۔ ایک طرف فوج کو اپنی ہی قوم کے خلاف ایک گندے کھیل  میں جھونک دیا گیا ہے تو دوسری طرف فوج اور آئی ایس آئی کو بڑے منظم طریقے سے ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔

اس سلسلے میں تازہ ترین کوشش وہ اہم کتاب ہے جو امریکا کے سی آئی اے کے سابق کارندوں کی روایات پر نیویارک ٹائمز کے ایک صحافی ڈیوڈ ای سنگر (David E. Sanger) نے The Inheritance: The World Obama Confronts کے نام سے شائع کی ہے۔ اس کا اصل ہدف پاکستانی فوج اور خصوصیت سے آئی ایس آئی ہے۔ دوسری طرف بھارت کی قیادت بھی ممبئی کے واقعے کے سلسلے میں کھل کر آئی ایس آئی کو ہدف بنائے ہوئے ہے۔

ان حالات میں پاکستانی عوام، سیاسی قیادت اور فوجی قیادت کو بڑی دانش مندی اور سمجھ داری سے معاملات کو طے کرنا ہوگا۔ اس کے بنیادی دائرے تین ہونے چاہییں:

۱- پاکستانی فوج کو دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں شرکت سے نکالنا اور اسے ان اصل اور حقیقی خطرات کے مقابلے کے لیے تیار اور مستعد رکھنا جو ملک کو درپیش ہیں۔

۲- بنگلہ دیش کے ماڈل پر فوج کے کسی ایسے کردار کے خلاف پیش بندی جس میں سیاسی حالات کے بگاڑ کا سہارا لے کر اسے دوبارہ سیاست میں ڈالنے کا کھیل کھیلا جائے۔ فوج کے سیاسی کردار نے فوج کے مزاج، تصور (image) اور کردار سب کو بُری طرح مجروح کیا ہے۔ یہ ملک اور فوج دونوں کے لیے تباہی کا راستہ ہے، اس لیے یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے۔

۳- ملک کے سلامتی کے لیے مثالی نمونے (paradigm) کی ازسرنو تشکیل کی جائے جس میں فوج کو حقیقی خطرات کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لائق بنایا جائے اور اس کی تربیت اور پوری پلاننگ صرف اور صرف دفاعی ضرورتوں کے تحت ہو۔ فوج کو امریکا کی دخل اندازیوں سے بھی محفوظ کیا جائے۔ٹریننگ کے نام پر امریکا نے فوج میں اپنی لابی اور شراکت داری کا جو منصوبہ بنایا ہے، اسے بروقت روکا جائے۔

  •  قومی مفاھمت کی ضرورت: اس وقت جو نہایت مشکل اور گمبھیر حالات ملک کو درپیش ہیں، ملک کو ان سے نکالنے کے لیے صحیح راستہ تصادم کا نہیں بلکہ حقیقی قومی مفاہمت کا ہی ہوسکتا ہے۔ وہ مفاہمت نہیں جو کرپشن اور سیاسی اور معاشی جرائم سے گلوخلاصی کے لیے کی گئی ہے، بلکہ وہ مفاہمت جو اصولوں پر مبنی ہو اور جس کے ذریعے ملک کو حقیقی جمہوری راستے پر ڈالا جاسکے۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں:

ا- ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے مجرمانہ اقدام کو فی الفور کالعدم قرار دیا جائے اور عدلیہ کو اس کی ۳نومبروالی شکل میں اور اصل عدلیہ کے ۳ نومبر والے ۷ ججوں کے متفقہ فیصلے کی روشنی میں بحال کیا جائے۔

ب- جنرل پرویز مشرف کا احتساب ہو اور اسے دفاع کا پورا موقع دے کر دستور کی خلاف ورزیوں اور سیاسی جرائم کی قرار واقعی سزا دی جائے۔

ج- کُل جماعتی مشاورت کے ذریعے ایک حقیقی قومی مفاہمت کی فضا پیدا کی جائے اور تمام قومی عناصر کو ۱۹۷۳ء کے اصل دستور کی بنیاد پر ایک نئے قومی عمرانی معاہدے پر متفق کیا جائے جس میں دستور کی بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی اور اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر اتفاق راے پیدا کیا جائے۔

د- امریکا کی ’دہشت گردی کی جنگ‘ سے اپنے کو الگ کیا جائے اور ملک کے لیے صحیح خطوط پر سلامتی کے مثالی نمونے کی تشکیل نو ہو۔

ر- ایک متعین مدت کے لیے قومی سطح پر عبوری انتظام ہو تاکہ اصل دستور اور اس قومی میثاق کی روشنی میں نئے انتخاب کے ذریعے عوام کو اپنی قیادت منتخب کرنے کا موقع دیا جائے۔

ھ- ملک کی معیشت کو خودانحصاری کی بنیاد پر ایک ہمہ جہت، حقیقت پسند اور مربوط معاشی پالیسی کے ذریعے مرتب اور منظم کرنے کا منصوبہ بنایا جائے۔ ملک کے اہل ترین ماہرینِ معاشیات کے مشوروں سے ایک ایسا معاشی پروگرام بنایا جائے جو قومی وسائل کو قومی مقاصد اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بروے کار لاسکے۔

و- تمام سیاسی مسائل کو افہام و تفہیم، مذاکرات اور سیاسی طریق کار کے اصول کے مطابق سلجھانے کی کوشش کی جائے۔

ز- میڈیا کی آزادی کے ساتھ عوام کے حقوق کی پاس داری کو ریاستی پالیسی کا مرکزو محور بنایا جائے۔ عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور مکمل شفافیت کے ساتھ ان کو پاکستان کے دفاع، تحفظ اور نظریاتی تشخص کی حفاظت کے لیے منظم کیا جائے۔

ک- ۱۲ اور ۱۶ مارچ کے پروگرام کو  پُرامن جمہوری انقلاب کا نقطۂ آغاز بنایا جائے تاکہ پاکستان کی سیاست کو صحیح رُخ پر ڈالا جاسکے اور ملک و قوم اس وقت جس بحران میں مبتلا ہیں، اس سے نجات حاصل کی جاسکے۔

یہ وقت قیادت ہی نہیں پوری قوم کے لیے امتحان کا وقت ہے۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ بحیثیت قوم اس چیلنج سے نبردآزما ہونے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔