مارچ ۲۰۰۹

فہرست مضامین

سیرت پاکؐ کی جھلکیاں تفہیم القرآن کی روشنی میں

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | مارچ ۲۰۰۹ | حکمت مودودی

Responsive image Responsive image

اے لوگو! جن کو محمدؐ رسول اللہ کی بدولت راہِ راست نصیب ہوئی ہے، تم ان کی قدر پہچانو اور ان کے احسانِ عظیم کا حق ادا کرو۔ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے، اس شخص نے تمھیں علم کی روشنی دی۔ تم اخلاق کی پستیوں میں گرے ہوئے تھے، اس شخص نے تمھیں اٹھایا اور اس قابل بنایا کہ آج محسود خلائق بنے ہوئے ہو۔ تم وحشت اور حیوانیت میں مبتلا تھے، اس شخص نے تم کو بہترین انسانی تہذیب سے آراستہ کیا۔ کفر کی دنیا اسی لیے اس شخص پر خار کھا رہی ہے کہ اس نے یہ احسانات تم پرکیے، ورنہ اس نے کسی کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی برائی نہ کی تھی۔ اس لیے اب تمھاری احسان شناسی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جتنا بُغض وہ اس خیرمجسم کے خلاف رکھتے ہیں اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ محبت تم اس سے رکھو، جتنی وہ اس سے نفرت کرتے ہیں، اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے گرویدہ ہوجائو، جتنی وہ اس کی مذمت کرتے ہیں، اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ  تم اس کی تعریف کرو، جتنے وہ اس کے بدخواہ ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے خیرخواہ بنو اور اس کے حق میں وہی دعا کرو جو اللہ کے فرشتے شب و روز اس کے لیے کر رہے ہیں کہ اے  ربِّ دوجہاں! جس طرح تیرے نبیؐ نے ہم پر بے پایاں احسانات فرمائے ہیں، تو بھی ان پر   بے حدوبے حساب رحمت فرما، ان کا مرتبہ دنیا میں بھی سب سے بلند کر اور آخرت میں بھی انھیں تمام مقربین سے بڑھ کر تقرب عطا فرما۔(جلد ۴، حاشیہ ۱۰۷، صفحہ ۱۲۴)


اِس جامع فقرے [مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں] کے کئی مطلب ہیں:

ایک مطلب یہ ہے کہ میں ان ساری گروہ بندیوں سے الگ رہ کر بے لاگ انصاف پسندی اختیار کرنے پر مامور ہوں۔ میرا کام یہ نہیں ہے کہ کسی گروہ کے حق میں اور کسی کے خلاف تعصب برتوں، میرا سب انسانوں سے یکساں تعلق ہے، اوروہ ہے سراسر عدل وانصاف کا تعلق۔ جس کی جو بات حق ہے، میں اس کا ساتھی ہوں، خواہ وہ غیروں کا غیر ہی کیوں نہ ہو۔ اور جس کی جو بات حق کے خلاف ہے میں اس کا مخالف ہوں، خواہ وہ میرا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ میں جس حق کو تمھارے سامنے پیش کرنے پر مامور ہوں اس میں کسی کے لیے بھی کوئی امتیاز نہیں ہے، بلکہ وہ سب کے لیے یکساں ہے۔ اس میں اپنے اور غیر، بڑے اور چھوٹے، غریب اور امیر، شریف اورکمین کے لیے الگ الگ حقوق نہیں ہیں، بلکہ جو کچھ ہے وہ سب کے لیے حق ہے، جو گناہ ہے وہ سب کے لیے گناہ ہے، جو حرام ہے وہ سب کے لیے حرام ہے اور جو جرم ہے، وہ سب کے لیے جرم ہے، اِس بے لاگ ضابطے میں میری اپنی دانست کے لیے بھی کوئی استثنا نہیں۔

تیسرا مطلب یہ ہے کہ میں دنیا میں عدل قائم کرنے پر مجبور ہوں۔ میرے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے درمیان انصاف کروں، اور اُن بے اعتدالیوں اور بے انصافیوں کا خاتمہ کروں جوتمھاری زندگیوں میں اور تمھارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔

ان تین مطالب کے علاوہ اس فقرے کا ایک چوتھا مطلب بھی ہے جو مکہ معظمہ میں نہ کھلا تھا مگر ہجرت کے بعد کھل گیا اور وہ یہ ہے کہ میں خدا کا مقرر کیا ہوا قاضی اور جج ہوں، تمھارے درمیان انصاف کرنا میری ذمہ داری ہے۔(ج ۴، ح ۲۸، ص ۴۹۵-۴۹۶)


جس سیاق و سباق میں یہ آیت (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ) ارشاد ہوئی ہے، اس کے لحاظ سے رسولِؐ پاک کے طرزِعمل کو اس جگہ نمونے کے طور پر پیش کرنے سے مقصود اُن لوگوں کو سبق دینا تھا جنھوں نے جنگ ِ احزاب کے موقع پر مفاد پرستی و عافیت کوشی سے کام لیا تھا۔ اُن سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم ایمان و اسلام اور اتباعِ رسولؐ کے مدعی تھے۔ تم کو دیکھنا چاہیے تھا کہ جس رسولؐ کے پیرووں میں تم شامل ہوئے ہو اُس کااس موقع پر کیا رویّہ تھا۔ اگر کسی گروہ کا لیڈر خود عافیت کوش ہو، خود آرام طلب ہو، خود اپنے ذاتی مفاد کی حفاظت کو مقدّم رکھتا ہو، خطرے کے وقت خود بھاگ نکلنے کی تیاریاں کر رہا ہو، پھر تو اس کے پیرووں کی طرف سے اِن کمزوریوں کااظہارمعقول ہوسکتا ہے مگر یہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ ہرمشقت جس کا آپؐ نے دوسروں سے مطالبہ کیا، اسے برداشت کرنے میں آپؐ خود سب کے ساتھ شریک تھے، بلکہ دوسروں سے بڑھ کر ہی آپؐ نے حصہ لیا۔ کوئی تکلیف ایسی نہ تھی جو دوسروں نے اٹھائی ہو اور آپؐ نے نہ اٹھائی ہو۔ خندق کھودنے والوں میں آپؐ خود شامل تھے۔ بھوک اور سردی کی تکلیفیں اٹھانے میں ایک ادنیٰ مسلمان کے ساتھ آپؐ کا حصہ بالکل برابر کا تھا۔ محاصرے کے دوران میں آپؐ ہر وقت محاذِ جنگ پر موجود رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی دشمن کے مقابلے سے نہ ہٹے۔   بنی قریظہ کی غداری کے بعد جس خطرے میں سب مسلمانوں کے بال بچے مبتلا تھے اسی میں آپؐ کے بال بچے بھی مبتلا تھے۔ آپؐ نے اپنی حفاظت اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کے لیے کوئی خاص اہتمام نہ کیا جو دوسرے مسلمانوںکے لیے نہ ہو۔ جس مقصدِعظیم کے لیے آپؐ دوسروں سے قربانیوں کا مطالبہ کررہے تھے اُس پر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر آپؐ خود اپنا سب کچھ قربان کردینے کو تیار تھے۔ اس لیے جو کوئی بھی آپؐ کے اتباع کا مدعی تھا، اسے یہ نمونہ دیکھ کر اس کی پیروی کرنی چاہیے تھی۔

یہ تو موقع و محل کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم ہے مگر اس کے الفاظ عام ہیں اور اس کے منشا کو صرف اسی معنی تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ صرف اسی لحاظ سے اُس کے رسولؐ کی زندگی مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے، بلکہ مطلقاً اسے نمونہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ہرمعاملے میں آپؐ کی زندگی کو اپنے لیے نمونے کی زندگی سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی سیرت و کردار کو ڈھالیں۔(ج ۴، ح ۳۴، ص ۸۰-۸۱)


شیطان کو سخت تشویش لاحق ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں کمینگی کا مقابلہ شرافت کے ساتھ اور بدی کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ایک ہی مرتبہ سہی، حق کے لیے لڑنے والوں، اور خصوصاً اُن کے سربرآوردہ لوگوں، اور سب سے بڑھ کر اُن کے رہنما سے کوئی ایسی غلطی کرا دے جس کی بنا پر عامۃ الناس سے یہ کہا جاسکے کہ دیکھیے صاحب، برائی یک طرفہ نہیں ہے، ایک طرف سے اگر گھٹیا حرکتیں کی جارہی ہیں تو دوسری طرف کے لوگ بھی کچھ بہت اُونچے درجے کے انسان نہیں ہیں، فلاں رکیک حرکت تو آخر انھوں نے بھی کی ہے۔ عامۃ الناس میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ٹھیک انصاف کے ساتھ ایک طرف کی زیادتیوں اور دوسری طرف کی جوابی کارروائی کے درمیان موازنہ کرسکیں۔ وہ جب تک یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ مخالفین ہرطرح کی ذلیل حرکتیں کر رہے ہیں، مگر یہ لوگ شائستگی و شرافت اور نیکی و راست بازی کے راستے سے ذرا نہیں ہٹتے، اُس وقت تک وہ ان کا گہرا اثر قبول کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر کہیں ان کی طرف سے کوئی بے جا حرکت، یا ان کے مرتبے سے گری ہوئی حرکت سرزد ہوجائے، خواہ وہ کسی بڑی زیادتی کے جواب ہی میں کیوں نہ ہو، تو ان کی نگاہ میں دونوں برابر ہوجاتے ہیں، اور مخالفین کو بھی ایک سخت بات کا جواب ہزار گالیوں سے دینے کا بہانہ مل جاتا ہے...

اس مقام کی بہترین تفسیر وہ واقعہ ہے جو امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت ابوہریرہؓ سے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بے تحاشا گالیاں دینے لگا۔ حضرت ابوبکرؓ خاموشی کے ساتھ اس کی گالیاں سنتے رہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں دیکھ کر مسکراتے رہے۔ آخرکار جناب صدیقؓ کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا اور انھوں نے بھی جواب میں اسے ایک سخت بات کہہ دی۔ اُن کی زبان سے وہ بات نکلتے ہی حضوؐر پر شدید انقباض طاری ہوا جو چہرئہ مبارک پر نمایاں ہونے لگا اور آپؐ فوراً اُٹھ کر تشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکرؓ بھی اُٹھ کر آپؐکے پیچھے ہولیے اور راستے میں عرض کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے، وہ مجھے گالیاں دیتا رہا اور آپؐ خاموش مسکراتے رہے، مگر جب میں نے اسے جواب دیا تو آپؐ ناراض ہوگئے؟ فرمایا: ’’جب تک تم خاموش تھے، ایک فرشتہ تمھارے ساتھ رہا اور تمھاری طرف سے اس کو جواب دیتا رہا، مگر جب تم بول پڑے تو فرشتے کی جگہ شیطان آگیا۔ میں شیطان کے ساتھ تو نہیں  بیٹھ سکتا تھا‘‘۔ (ج ۴، ح ۴۰،ص ۴۵۹)