سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ سدابہار پاکیزہ اور محبوب موضوع ہے جس پر حضرت حسانؓ بن ثابت سے لے کر پوری اسلامی تاریخ میں آپؐ کی سیرتِ طیبہ، صورتِ مبارکہ، آپؐ کے پاکیزہ و تاباں اخلاق، اعمال و افعال اور زندگی کے تمام گوشوں پر مسلسل کہا، لکھا اور نشر کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ ذخیرہ اتنا وسیع، عمیق اور زیادہ ہے کہ مزید اس پر لکھنے اور پڑھنے کا تقاضا موجود ہے۔
سیرتِ طیبہؐ کو حیطۂ تحریر میں لانے کی ایک کوشش مولانا امیرالدین مہر نے بھی کی ہے۔ انھوں نے آپؐ کی سیرت کا رفاہی، اصلاحی، فلاحی اور خدمت ِ خلق کا پہلو بیان کیا ہے۔ اس کتاب کے دو بڑے حصے ہیں۔ ایک حصے میں آپؐ کے وہ کارنامے، اعمال و اقدام بیان کیے گئے ہیں جو آپؐ نے بنفسِ نفیس سرانجام دیے، اور دوسرے حصے میں آپؐ کی وہ احادیث، ارشادات و فرمودات ہیں جن سے خدمت ِ خلق اور رفاہی کاموں کی ضرورت، اہمیت اور اس کے دنیوی و اخروی اثرات و ثمرات اور اجروثواب کا تذکرہ ہے، جیسے آپؐ کا حلف الفضول میں شرکت، حجراسود کا نصب کرنا، مظلوم و یتیم کا حق دلانا اور میثاقِ مدینہ کا معاہدہ ۔ اس طرح آپؐ نے مدینہ منورہ اور گردونواح کے باشندوں میں امن قائم کردیا۔ اسی طرح مواخات، اصحابِ صفہ کی خدمت، مسجدقبا اور مسجدنبویؐ کی تعمیر وغیرہ ہے۔ اس سے ایک طرف سیکڑوں مہاجرین کی آمد کا مسئلہ حل ہوا تو دوسری طرف تعلیم و تربیت کا بندوبست بھی ہوگیا ہو اور اسلامی ریاست مستحکم ہوئی۔
اپنے موضوع پر یہ منفرد کتاب ہے اس لیے کہ اُردو زبان میں پہلی مرتبہ سیرت کے اس پہلو کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یوں اہل علم و فضل کی توجہ اس طرف منعطف کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ سیرت کے اس پہلو کو نمایاں کر کے پیش کریں، اور اسلام اور حاملینِ اسلام کے بارے میں اس تاثر کو دُور کیا جاسکے کہ مسلمانوں میں رفاہی کام کی وہ اہمیت نہیں ہے جو دوسرے مذاہب اور آزاد خیال لوگوں میں ہے۔ سیرت کے اس پہلو پر ایسی تحریر آنے سے یہ تاثر دُور ہوگا اور رفاہی کام کرنے والے حق الیقین سے کام کریں گے۔
مولانا امیرالدین مہر دعوتی و تبلیغی حلقوں میں جانی پہچانی علمی شخصیت ہیں۔ انھوں نے اُردو اور سندھی میں ۴۰ کے قریب کتابیں اور کتابچے مرتب کیے اورترجمے کیے ہیں۔ ان کے منجملہ تالیفات و تصنیفات میں قرآن مجید کا سندھی ترجمہ، تفہیم القرآن اور تلخیص تفہیم القرآن کا سندھی ترجمہ نمایاں ہیں۔ (شہزاد چنا)
ایک مسلمان کے لیے حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ایک جذبے، روح اور خوشبو کی مانند ہے، جسے قانون اور علمِ سماجیات کے پیمانوں پر تولا اور پرکھا نہیں جاسکتا۔ اس جذبے کی لذت و حلاوت کا ذائقہ وہی وجود چکھ سکتا ہے، جس کا نام خود خالقِ کائنات سے مسلم رکھا ہے۔
۲۰ویں صدی کے پہلے چار عشرے جہاں سیاسی و سماجی ہنگامہ خیزی کے لیے برعظیم کی تاریخ کا ایک اہم دور تصور کیے جاتے ہیں، وہیں ناموسِ رسالتؐ کے باب میںیہ زمانہ روشنی کا ایک مینار بن کر سامنے آتا ہے۔ ہندو آریہ سماجیوں نے جب بھی رسولِؐ خدا کی شانِ اقدس میں پے درپے گستاخانہ جسارتیں کیں، مسلمان نوجوانوں نے پروانہ وار آگے بڑھ بڑھ کر اپنے ایمان اور جان کی گواہی پیش کی۔ یہ کتاب انھی جان نثاروں کے احوال پر مشتمل ہے۔ مثال کے طور پر عبدالرشید شہید [۱۴ نومبر ۱۹۲۷ء]، علم دین شہید [۳۱ اکتوبر ۱۹۲۹ء]، عبدالقیوم شہید [۱۹ مارچ ۱۹۳۵ء]،محمد صدیق شہید [۹ مارچ ۱۹۳۵ء]، مرید حسین شہید [۲۴ستمبر ۱۹۳۷ء]، میاں محمد شہید [۱۲اپریل ۱۹۳۸ء]۔ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ان کے احوال و واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو شہادت کی یہ زندہ علامتیں، روشنیاں بکھیرتے ہوئے ایمان کی دنیا سیراب کرتی ہیں۔
مصنف نے محنت، محبت، سلجھائو اور متوازن اسلوب کے ساتھ ملّی تاریخ کے ان روشن نقوش کو یک جا پیش کیا ہے، جن کی روشنی میں دو قومی نظریہ پوری آب و تاب کے ساتھ نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ ہمارے سیکولر دانش وروں کی کج فہمی اور متحدہ قومیت کے طرف داروں کی کور فہمی کی دُھند، مطالعہ کرتے ہوئے بتدریج صاف ہوجاتی ہے۔ یہ حقیقت بھی اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ اگرچہ ہندودانش، مسلمانوں کے دینی جذبات پر پے درپے حملہ آور رہی، تاہم یہ ممکن نہ ہوا کہ ایمانی وابستگی کے ساتھ مسلمان، ہندو اکثریت کی غلامی قبول کرلیتے۔ گویا کہ تخلیقِ پاکستان میں حب ِ رسولؐ کے ان درخشاں حوالوں اور گستاخیِ رسولؐ کے اذیت ناک واقعات نے ایک طاقت ور عنصر کی حیثیت سے ایک نمایاں کردار ادا کیا ۔ (سلیم منصور خالد)
لندن سے شائع ہونے والے شہرئہ آفاق انگریزی مجلے امپیکٹ نے ایک نسل کی رہنمائی کی ہے۔ اس مؤقر جریدے میں اوّلین کالم First Things First کے عنوان سے شائع ہوتا رہا۔ اس کالم کے اثرات ابھی تک امپیکٹ کے قارئین کے دلوں پر نقش ہیں۔ ان مضامین کو مفید ومؤثر پاکر کتابی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔
زیرنظر کتاب ایک ایسے درد دل رکھنے والے صاحب ِ دل کے تاثرات ہیں جو مغرب کے تہذیبی رویوںاور طرزِعمل سے بخوبی آگاہ ہے اور انسانیت کو درپیش مسائل کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ خوب صورتی سے ان کا اسلامی حل پیش کرنے کی کوشش کرتاہے، اُس کا انداز دوست کا بھی ہے، عالم دین کا بھی، اور معاملات کو اُن کی تہہ تک سمجھنے والے دانش ور کا بھی۔
خالد بیگ نے انسان کو مخاطب کیا ہے۔ دو دوتین تین صفحات کی مختصر دل نشین تحریروں میں وہ کوئی انتہائی بنیادی سوال اٹھاتے ہیں اور پھر قاری کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے دل ودماغ کے دریچے وَا کرے اور سوچے کہ مادہ پرست تہذیب، خصوصاً سائنس و ٹکنالوجی کو خدا سمجھنے والے انسان، انسانیت کے آنسو پونچھنے میں ناکام کیوں رہے ہیںاور آج، دنیا کو جنگ و جدل، غربت، بیماری، عدمِ انصاف اور عدم رواداری جیسے مصائب کا کیوں سامنا ہے؟
ابتدائی چار ابواب میں کلامِ پاک، سنت ِ رسولؐ ، بنیادی عقائد، عبادات کو موجودہ پس منظر میں زیربحث لایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اصلاحِ ذات، خواتین، تعلیم، تاریخ، سیکولرزم، مسلم اتحاد کے موضوعات پر بھی قلم اٹھایاگیا ہے۔
اکثر مضامین کا آغازکسی نہ کسی تازہ ترین واقعے سے ہوتا ہے جو مغربی دنیا میں وقوع پذیر ہوا ہو، پھر وہ انسانی ذہن کو جھنجھوڑتے ہیں۔ اُمت مسلمہ کے تابناک ماضی کے ساتھ صحابہ کرامؓ کا ایمان افروزتذکرہ بھی ملتا ہے۔ اسی اثنا میں ہمیں حیران کن معلومات بھی مل جاتی ہیں، مثلاً یہ کہ دنیا میں چوتھائی ٹریلین ڈالر کی رقم شراب نوشی میں صرف کردی جاتی ہے یا یہ کہ ترقی یافتہ مغرب میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک ’توہم پرست‘ اور ’وہمی‘ موجود ہے یا یہ کہ مالتھس کے آبادی اور خاندان کے بارے میں نظریات زمین بوس ہوچکے ہیں۔ یہ مضامین حرکت و عمل پر اُبھارتے ہیں۔ اندازِ بیان سادہ اور پُرلطف ہے۔ اس کے کئی زبان میں تراجم بھی شائع ہوچکے ہیں۔ (محمد ایوب منیر)
فلسطین کی سرزمین، انبیا اور قبلہ اول کی سرزمین کہلاتی ہے۔ نبیؐ مہربان کے سفرمعراج نے بھی اس کے تقدس و احترام میں اضافہ کیا۔ فلسطین اس وقت سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔ یہودی تسلط، عالمی قوتوں بالخصوص امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ کے تعاون سے جاری ہے اور فلسطینیوں کو سرزمینِ فلسطین سے بے دخل کرنے کا کھیل گذشتہ نصف صدی سے جاری ہے۔ ہمارے بے حس مسلم حکمرانوں کا کردار کچھ کم نہیں ہے۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد برطانوی استعمار نے ۱۹۴۸ء میں صہیونی ریاست کا بیج بویا جو آج ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اہلِ فلسطین اپنی آزادی اور حقوق کے لیے حالت ِ جنگ میں ہیں۔ ہر طرح کا ظلم اُن پر آزمایا گیا، لالچ دیے گئے مگر وہ آزادی سے کم کسی پر راضی نہیں۔
تاریخ فلسطین، ڈاکٹر محمد صالح کی انگریزی کتاب History of Palestine کا رواں، شُستہ اور خوب صورت اُردو ترجمہ ہے۔کتاب فلسطین کی تاریخ کا ہرہر پہلو سے جامع احاطہ پیش کرتی ہے۔ فلسطین، فلسطینی عوام، مقاماتِ مقدسہ، یہودیت، صہیونیت اس کے ظہور، صہیونیت بارے اسلامی موقف، اسرائیل، عرب اسرائیل جنگیں، آزادیِ فلسطین کی تحریکیں، امن منصوبے، اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کا کردار جیسے موضوعات اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔
ڈاکٹر محسن محمد صالح خود فلسطینی ہیں اور فلسطین کے بارے میں حقائق، ان کے مشاہدے اور تحقیق پر مبنی ہیں۔ یہ کتاب دانش وروں، طلبہ، صحافیوں اور اہلِ علم کے لیے نادر تحفہ ہے۔ فلسطین کے بارے میں اتنا یک جا مواد کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ (عمران ظہور غازی)