سوال: اسلامی نقطۂ نظر اور پاکستان کے معاشرتی ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عورت یا لڑکی بطور تفریح کیا کچھ کرسکتی ہے، اس ضمن میں چند سوالات پیش ہیں:
آیا یونی ورسٹی کی طرف سے ’ایک روزہ تفریحی دورے‘ (ٹرپ) میں شرکت کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اسی طرح کیا یونی ورسٹی میں ہونے والی مختلف تقریبات میں بھی شرکت کی جاسکتی ہے؟
کیا ڈرامے وغیرہ خواہ وہ کسی ٹی وی چینل سے آرہے ہوں بطور تفریح دیکھے جاسکتے ہیں، جب کہ اس کا اتنا جنون نہ ہو کہ ڈرامے کے لیے باقی تمام مصروفیات ترک کردی جائیں؟
لڑکیوں کا گھر سے باہر یا پارک وغیرہ میں تفریح کے لیے جانا کیسا ہے، جب کہ اجازت اس وقت تک نہیں ملتی جب تک کہ مرد ساتھ نہ ہوں۔ اس بات کو عموماً ہمارے معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
جہاں تک اچھی کتابیں پڑھنے کا شوق ہے، اول تو شہروں میں کتب خانے ہی نہیں ہوتے اور اگر ہوں بھی تو گھروالے عموماً جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کتابیں پڑھ کر کیا کرنا ہے۔ اگر اتنی ہی فارغ ہو تو گھر کے فلاں فلاں کام کردو۔ دوسرے یہ کہ کتابیں بہت مہنگی ہوتی ہیں۔ میری مراد ایسی تحریروں یا کتابوں سے ہے جو ہلکی پھلکی ہوں، مثلاً ناول، افسانے یا جاسوسی کہانیاں وغیرہ۔
بعض لڑکیاں گھریلو کاموں میں دل چسپی رکھتی ہیں، جیسے سلائی کڑھائی، کھانا پکانا یا گھر کی آرایش وغیرہ۔ بعض لڑکیاں بوریت سے اُکتا کر تفریح کے طور پر غلط راہوں پر چل نکلتی ہیں، جیسے انٹرنیٹ پر فضول چیٹنگ یا رانگ نمبرز وغیرہ میں وقت گزارنا۔ اگر انھیں توجہ دلائی جائے تو کہتی ہیں کہ ہم ایسا تفریحاً کرتی ہیں۔ کیا یہ مناسب ہے؟
ان نکات کی روشنی میں خواتین کے لیے تفریح کا مقصد واضح فرما دیں۔
جواب: آپ نے تفریح کے مقصد اور ذرائع کے حوالے سے بہت اہم سوال اٹھایا ہے بالخصوص ایسی فضا میں جب برقی ذرائع ابلاغ نے ایک عام ناظر کو یہ بات باور کرا دی ہے کہ تفریح صرف ٹی وی پر درآمد کردہ مغربی یا ہندستانی ناچ گانوں، ٹاک شوز اور اخلاق برباد کرنے والے ڈراموں ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ابلاغ عامہ نے یہ بات بھی ذہنوں میں بٹھا دی ہے کہ اسلامی چینل کا مطلب کسی صاحب ِ علم کی تقریر یا کسی عامل کا فون پر لوگوں کی قسمت بتانے اور زرق برق لباس میں نعت سنانے یا فال نکالنے یا قوالی پیش کرنے کا نام ہے۔ گویا ایک تفریح وہ ہے جو ۷۰ سے اُوپر چینل ہندو اور مغربی ثقافت کے ذریعے پیش کر رہے ہیںاور دوسری تفریح وہ ہے جو ’اسلامی‘ ہے۔ عوام الناس اس میں جس کو چاہیں انتخاب کر کے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
میری نگاہ میں یہ تصورات تفریح کے اسلامی تصور کی نمایندگی نہیں کرتے۔ ایک مسلمان لڑکی یا خاتون اور ایسے ہی ایک مسلمان طالب علم یا نوجوان کس طرح تفریح کرے، اس سوال کا جواب قرآن وسنت ہی میں تلاش کرنا ہوگا۔
قرآن کریم سے یہ بات تو ثابت ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ چاہتے ہیں کہ ان کا بندہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور احسانات اور اس کی آیات کو سمجھنے کے لیے سیر اور گشت کے ذریعے تفریح حاصل کرے چنانچہ فجر کے بعد طلوعِ شمس کا منظر، پرندوں کی چہک، بادِنسیم کے جھونکے، یہ فطری ذرائع انسان کو تفریح اور تازگی بخشنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ایسے ہی قرآنِ کریم کی تلاوت انسان کے جسم اور دل و دماغ کے لیے سامانِ تسکین فراہم کرتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا صرف تلاوتِ قرآن کی سماعت اور مناظر فطرت کو دیکھنا ہی تفریح فراہم کرتا ہے یا ایک مسلمان لڑکی یا خاتون تفریح کے مزید ذرائع سے بھی استفادہ کرسکتی ہے؟ اس میں اصول یہ ہے کہ ہر وہ شے جس کی ممانعت نہ کی گئی ہو، اصلاً مباح ہے۔ لہٰذا تاریخی مقامات کی سیر، کسی عجائب گھر یا لائبریری میں جاکر معلومات میں اضافہ کرنا، یونی ورسٹی کی طالبات کے ساتھ کسی ایسے تعلیمی و تفریحی مقام پر جانا جو محفوظ ہو اور جہاں اختلاط کا امکان نہ ہو، یا کسی ایسی تقریب میں شرکت کرنا جہاں صحت مند شاعری یا ادبی نگارشات پیش کی جا رہی ہوں___ ایسی تفریحات ہیں جن کی شریعت میں بظاہر ممانعت نہیں کی گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت حسان بن ثابتؓ سے اشعار سنے ہیں، اور جسمانی کرتب دکھانے والے افراد کے کرتب اُم المومنین سیدہ عائشہؓ کو دیکھنے کی اجازت دی ہے۔
خیال رہے کہ اس بنیاد پر یہ راے قائم کرلینا کہ اولمپک میں حصہ لینے والی چینی خواتین کی جسمانی ورزش کو جائز قرار دے دیا جائے، درست نہیں۔ ہاں، اگر تمام جسم ڈھکا ہو، صرف خواتین کی محفل ہو تو ایک مسلمان لڑکی جوڈوکراٹے کے ساتر لباس میں اپنی اور موجود خواتین کی تفریح کا سامان کرسکتی ہے یا دیگر کھیلوں میں حصہ لے سکتی ہے۔ لباس ایسا ہونا چاہیے جس سے جسم کے خدوخال واضح نہ ہوتے ہوں اور ناظرین میں جنسِ مخالف کے افراد نہ پائے جاتے ہوں۔ اسی طرح ایسے ڈرامے جن کے مکالمے اور مناظر بے حیائی اور فحاشی کی طرف نہ لے جاتے ہوں، دیکھے جاسکتے ہیں۔ ٹی وی پر آنے والے کرکٹ میچ اور اس قسم کی دیگر سرگرمیوں کے دیکھنے میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی سواے اس کے کہ کوئی بھی تفریح عبادات اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کردینے والی نہ ہو۔
آپ نے بالکل درست لکھا ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں کتابوں کی قیمت میں اضافہ اور پڑھنے والوں میں کمی ہوئی ہے۔ اس کا علاج صرف ایک ہے کہ کتابوں کے مطالعے کی عادت کو فروغ دیا جائے تاکہ کتابیں بڑی تعداد میں طبع ہوں اور اس بنا پر ان کی قیمتوں میں تخفیف ہوسکے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے ہرمحلے میں کم از کم ایک لائبریری ایسی قائم کی جائے جس میں ایک مقررہ ممبرشپ فیس کے عوض تعمیری اور پاک ادبی کتب فراہم کی جائیں جن میں اسلامی اور دعوتی لٹریچر بھی شامل ہو۔ یہ ایک تحریکی ضرورت ہے اور اس پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ ایسی لائبریریاں مخیر حضرات کے تعاون سے بھی قائم کی جاسکتی ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ تفریح محض ناچ گانے سے نہیں بلکہ ہر اُس کام سے حاصل کی جاسکتی ہے جسے آپ تفریح کی غرض سے کریں۔ ایک تعمیری ناول اگر آپ تفریح کے لیے پڑھیں تو اس کا نفسیاتی اثر اُس سے بہت مختلف ہوگا جو یہ ناول نصاب کے لازمی مضمون کے طور پر پڑھنے سے ہوگا۔
یہ بات درست نہیں ہے کہ لڑکیاں کوئی تفریحی مطالعہ کرنے کے بجاے صرف کھانے پکانے یا سلائی کڑھائی کے کام میں لگی رہیں۔ بلاشبہہ یہ سب کام ان کے لیے مفید ہیں لیکن والدین کو چاہیے کہ وہ لڑکیوں کو اپنی علمی اور ادبی سطح بلند کرنے کے لیے مناسب مواقع فراہم کریں۔
جہاں تک تعلق پارک میں تفریح کرنے کا ہے، اگر ایسا کرنا محفوظ ہو تو لازماً اسے کریں لیکن موجودہ لاقانونیت اور عدمِ تحفظ کی فضا میں محض اپنے ’انسانی حقوق‘ کو استعمال کرنے کے شوق میں خود کو کسی خطرے میں نہ ڈالیں۔ اگر آپ کے ہمراہ کوئی محرم مرد ہو تو خطرہ کم ہوگا۔ اسی بنا پر والدین نہیں چاہتے کہ ان کی بچیاں تنہا یا سہیلیوں کے ساتھ پارک میں تفریح کے لیے جائیں۔ اگر بعض پارک خواتین کے لیے مخصوص ہوں اور محفوظ بھی ہوں تو بغیر کسی مرد کو ہمراہ لیے وہ گروپ کی شکل میں جاسکتی ہیں۔
مسلمان لڑکیاں خود ایسے گروپ تشکیل دے سکتی ہیں جن میں چار پانچ لڑکیاں ساتھ مل کر کلامِ اقبال ترنم سے پڑھ کر لطف اندوز ہوں یا اپنے تحریر کردہ مکالمے اور ڈرامے صرف خواتین کے سامنے پیش کرکے فرحت حاصل کریں۔ اسی طرح اچھے اشعار کے مقابلے، بیت بازی، لطائف کا مقابلہ اور ایسی ہی دوسری سرگرمیاں ہیں جو relax کرنے اور تفریح کے لیے اختیار کی جاسکتی ہیں۔ ہمیں تفریح میں بھی کوشش کرنی چاہیے کہ لادینی تہذیبوں کو ماننے والے افراد سے مختلف ہوں اور ان میں تعمیری رجحان پایا جائے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)