ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلرَّحْمٰنُ o عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ (الرحمٰن ۵۵:۱-۲) نہایت مہربان (خدا) نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے جب اپنے تعارف کی تجدید چاہی تو بجاے اپنی کسی اور صفت ِ حسنہ کے صفت ِ رحمت کو تعارف کا حوالہ بنایا۔ میں نے تجدید ان معنوں میں کہا کہ پہلا تعارف تو عالمِ اَرواح میں اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ط (الاعراف ۷:۱۷۲) کہہ کر کرایا تھا جس کا جواب انسانوں نے بَلٰی کہہ کر دیا تھا کہ ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں۔ پھر سیدنا حضرت آدم ؑ سے لے کر سیدنا حضرت عیسٰی ؑتک جتنے انبیا و رسل آئے سب نے اُس کا تعارف خالق و مالک اور دیگر صفات کے حوالے سے کرایا لیکن انبیا و رسل کے دنیا سے جانے کے بعد شیطان نے دیگر عقائد کی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بارے میں بھی بگاڑ پیدا کردیا۔ بطورِ خاص یہودیوں نے باری تعالیٰ کو صرف جبار، قہار، منتقم اور حد یہ ہے کہ حاسد ہستی کے طور پر متعارف کرایا کہ اس نے بنی اسرائیل کی عظیم الشان ریاستوں کو بربناے حسد صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔ درآں حالے کہ اُن ظالمانہ ریاستوں کو مٹاکر اپنے بندوں کو ان کے ظلم و جور سے نجات دلانا عنوانِ رحمت ہی تھا۔
اب ذرا اس پر غور فرمایئے کہ باری تعالیٰ نے اپنا تعارف قرآنِ کریم کی ابتدا ہی میں رحمن اور رحیم کے الفاظ سے کرایا تو اس کی حکمت کیا تھی؟
حکمت یہ تھی کہ ایک طرف تو یہودیوں کے اس تصور کی نفی کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ظالم ہے۔ دوسرے یہ کہ بندوں کو اپنی بے پناہ محبت کا شعور و ادراک عطا کیا جائے۔ رحمن و رحیم کی اصل دیکھیے تو دونوں الفاظ ’رحم‘ سے بنے ہیں جس کے معنی خواتین کے جسم کا وہ حصہ ہے جسے بطن کہا جاتا ہے اور جہاں بچے کا وجود تشکیل پاتا ہے ۔ اس حوالے سے رحمت کے معنی اس محبت کے ہوتے ہیں جو ایک ماں کو اپنے پیٹ کی اولاد سے ہوتی ہے جسے مامتا کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ انسان کے علم اور تجربے میں ماں کے جذبۂ محبت سے بڑھ کر کسی اور محبت کا جذبہ نہیں تھا، اس لیے اللہ تبارک تعالیٰ نے اسی جذبے کو اپنی محبت کا حوالہ بنایا۔
رحمن و رحیم کے الفاظ کے معنی.ٰ کی تفصیل میں جایئے تو معلوم ہوگا کہ دونوں الفاظ تفضیلِ کُل (superlative) سے بھی آگے کے صیغے، یعنی مبالغے کے صیغے میں ہیں۔ اس صیغے کے الفاظ کسی شے کی ناقابلِ تصور بہتات کے معنی دیتے ہیں جیسے اُردو میں استعمال ہونے والے الفاظ طوفان اور ہیجان ہیں۔ گویا ان الفاظ کے معنی.ٰ ہوئے ہزاروں مائوں کی محبت سے بڑھ کر محبت کرنے والی ذات۔
مفسرین نے ایک ہی مادے سے بننے والے ان دو الفاظ کی ایک توجیہہ تو یہ کی ہے کہ گو دونوں صفاتی الفاظ مبالغے کے صیغے میں ہیں لیکن ان میں سے ایک، یعنی رحمن کا لفظ رحمت کی فراوانی کا ترجمان ہوتے ہوئے بھی کماحقہٗ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تصور پیش کرنے سے قاصر تھا۔ اس لیے اس تصور کو مزید واضح کرنے کے لیے اس کا مترادف لفظ رحیم لایا گیا۔ دوسری تشریح یہ ہے کہ صفت ِ رحمانی رحمت کی عمومیت اور صفت ِ رحیمی رحمت کی خصوصیت کو ظاہر کرتی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ رحمن الدنیا ہے جو اپنی مخلوق کو بلاکسی تمیز کے اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے، اور رحیم الآخرت ہے کہ اپنے ارشاد: لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراھیم ۱۴:۷) کے مطابق آخرت میں اپنے شکرگزار بندوں کو اُن نعمتوں سے نوازے گا جن کا قرآن اور حدیث کے مطابق ذہنِ انسانی تصور تک نہیں کرسکتا۔
اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمن والی نعمتوں کا شمار کرنا چاہیں تو وہ شمار میں نہ آسکیں گی:
وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا ط (ابراھیم ۱۴:۳۴) اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔
یہ سماعت، یہ بصارت، یہ ماں کی مامتا، اور باپ کی شفقت، یہ زمین پر ملنے والی لاتعداد سبزیاں اور طرح طرح کے خوش ذائقہ پھل، یہ ہوا اور پانی، یہ نعمتیں بے حساب بھی ہیں اور بے بدل بھی۔ کسی ایک نعمت کی افادیت کا شعور حاصل کرنا ہو تو اُسے روز مرہ کی زندگی سے خارج کرکے زندگی کا نقشہ بنایئے تو زندگی معدوم ہوتی نظر آئے گی۔ اب آیئے اس تناظر میں تلاوت شدہ آیت ِ مبارک، یعنی اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ کا جائزہ لیں۔
اللہ تعالیٰ بجا طور پر اپنی کسی بھی نعمت کو اپنے رحمن ہونے کی دلیل بنا سکتا تھا لیکن اُس نے نزولِ قرآن کو ان معنی.ٰ میں اپنی صفت ِ رحمانی کی دلیل بنایا ہے کہ نعمت ِ ہدایت کی یہ تکمیلی شکل وہ بنیادی نعمت ہے جو جملہ نعمتوں سے استفادے کا طریقہ سکھلاتی ہے اور جو نعمت قرآن کے بتلائے ہوئے طریقے سے ہٹ کر استعمال کی جائے، وہ نعمت، نعمت نہیں رہتی بلکہ انسان کے اپنے اور دوسروں کے لیے زحمت اور سبب ِ ہلاکت بن جاتی ہے۔ قرآنی ہدایت کے مطابق اُسے استعمال میں لایا جائے تو نہ صرف یہ کہ اُس کے فوائد حاصل ہوتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق نعمتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس میں یہ بات بھی مضمر ہے کہ ایسا کرنے والے بندے شکرگزار قرار پائیں گے اور اپنی شکرگزاری کے صلے میں اس دنیا کی نعمتوں میں اضافے کے ساتھ دوسری دنیا کی بے مثال اور لازوال نعمتوں کے بھی مستحق قرار پائیں گے۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ شکرِ نعمت کے تقاضے کیا ہیں جن کی تکمیل پر انسان ازدادِ نعمت کا سزاوار ٹھیرتا ہے۔ شکرِنعمت کے تین اہم تقاضے یہ ہیں:
اوّل یہ کہ انسان کو نعمت کی افادیت اور اہمیت کا شعور و ادراک حاصل ہو کیونکہ ادراک کے بغیر وہ نہ اس نعمت کی قدر کرے گا اور نہ اُس سے فائدہ اٹھا سکے گا۔ مثال کے طور پر ایک پاگل شخص کی جیب میں اگر آپ ہزار روپے کا نوٹ بھی ڈال دیں تو اُس کی قدر کے عدم شعور کی بنا پر وہ اس کے لیے بے کار شے ہوگا اور ممکن ہے وہ اُسے پھاڑ کر پھینک دے اور اس طرح وہ نعمت ضائع ہوجائے۔
دوم یہ کہ نعمت کے مفید ہونے کے شعور کے مطابق اس نعمت کو عملاً استعمال بھی کیا جائے ورنہ محض شعور کسی کام نہیں آئے گا، مثلاً وہ نوٹ کسی کنجوس شخص کی جیب میں بھی عدم استعمال کے نتیجے میں بے کار ہی رہے گا اور یہ بھی کفرانِ نعمت کی ایک شکل ہوگی۔
سوم یہ کہ اُس نعمت کے فوائد میں دوسرے لوگوں کو بھی شریک کرلیا جائے۔
آیئے اب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک نعمت پانی کو لیتے ہیں۔ پانی کے بے مثل نعمت ہونے کا واضح ثبوت یہ ہے کہ قرآن کے مطابق ہرشے کی تخلیق پانی ہی کی مرہونِ منت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَـآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ ط (الانبیا ۲۱:۳۰) ۔گویا جہاں پانی مفقود ہے، زندگی بھی مفقود ہے۔
اس کی افادیت کے پورے شعور کے لیے ذرا تفصیل سے غور کیجیے کہ اوّلاً تو اس مائع کی تشکیل جن دو گیسوں کے ایک خاص تناسب یعنی H2O سے ہوئی ہے، اُن میں H ہائیڈروجن یعنی جلنے والی اور O یعنی آکسیجن بھڑکانے والی گیس ہے۔ یہ قدرت خداوندی کا معجزہ نہیں تو کیا ہے کہ H2O شعلہ نہیں شبنم ہے۔ پھر اس لازمۂ حیات کی انسانوں کو فراہمی پر غور کیجیے تو اسے قدرتِ خداوندی نے اس کثیرمقدار میں مہیا کردیا ہے کہ زمین پر پانی کا رقبہ تین چوتھائی اور خشکی کا ایک چوتھائی ہے، چنانچہ کوئی سرمایہ دار اجارہ داری کے ذریعے اس سے غریبوں کو محروم نہیں کرسکتا۔ پھر سمندر کے پانی کو نمکین بنا دیا گیا کہ آبی مخلوق کے گلنے سڑنے سے پیدا ہونے والے زہریلے جراثیم اس نمک سے مرجائیں۔ پھر اس حیرت انگیز حقیقت پر بھی غور کیجیے کہ دنیا کی ہرمادی شے گرمی سے پھیلتی اور سردی سے سکڑتی ہے لیکن پانی ۴ ڈگری درجۂ حرارت پر پھیل کر اپنا حجم بڑھاتا اور رقیق حالت سے ہلکا ہوکر پانی کے ذخائر پر ڈھکنا بن کر اُنھیں جمنے سے بچاتا ہے تاکہ ایک طرف آبی مخلوق جم کر ختم ہونے سے بچ جائے اور دوسری طرف انسانوں، حیوانوں اور نباتات کو پانی ملتا رہے۔
آگے چلیے، اگر سمندر کے کھارے پانی کو میٹھا کرنے کے لیے نمک جدا کرنے کے پلانٹ لگانے پڑتے تو ساری دنیا کی دولت بھی مطلوبہ مقدار میں کھاری پانی کو میٹھا کرنے پر خرچ ہوجاتی، پھر بھی صرف دولت مند ہی پانی پی کر زندہ رہتے۔ شانِ رحمن دیکھیے کہ سورج اور زمین کا متعینہ فاصلہ رکھ کر اور زمین کو گردش میں لاکر عملِ تبخیر کے ذریعے کڑوے پانی کو میٹھا اور عملِ تقطیر کے ذریعے سمندری کثافتوں سے پاک کردیا۔ کیا یہ کام انسان کے بس کا تھا___ اور آگے چلیے اور یہ کرشمہ قدرت بھی دیکھیے کہ پانی جیسی بھاری چیز کو کہ جس کی ایک بالٹی باورچی خانے سے غسل خانے تک لے جانا دُوبھر ہوتا ہے، ہوا جیسی ہلکی چیز کے دوش پر رکھ کر پورے کرئہ ارض تک آب رسانی (water supply) کا نظام قائم کردیا۔ بصورتِ دیگر سمندر سے ہزاروں میل کے فاصلے پر پانی پہنچانا ناممکنات میں سے تھا۔ نیز اگر فراہمیٔ آب یعنی بارش کے نظام کے ساتھ سطح زمین پر مسام نہ ہوتے اور زمین کے مرکز میں کھولتے ہوئے لاوے کے اُوپر پانی کے ذخائر جیسے قدرتی زیرزمین سقاوے (underground tank) نہ بنے ہوتے تو موسلادھار بارش سیلاب بن کر بستیوں کو غرق کردیتی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے پانی بھی نپے تلے انداز میں برستا اور ذخیرہ ہوجاتا ہے، وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَـآئًم بِقَدَرٍ فَاَسْکَنّٰہُ فِی الْاَرْضِق (المؤمنون ۲۳:۱۸) (اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اُسے زمین میں ٹھیرایا)، اور بستیوں کی ہلاکت کے بجاے آبادی اور زرخیزی کا سبب بنتا ہے۔
پھر اگر پانی زراعت اور دیگر ضروریات کے لیے زیادہ مقدار میں درکار ہو تو بالاے بام ذخائر یعنی پہاڑوں کی پگھلی ہوئی برف سے جاری ہونے والے دریائوں کا پانی موجود ہے۔ وہاں اِسے رقیق رہنے کی صورت میں رُکے ہونے کی وجہ سے سڑنے اور زہریلا ہونے سے بچانے کے لیے برفانے کا انتظام کردیا گیا۔ پھر دیکھیے وہ سورج جو پانی کو بھاپ بناکر پہاڑوں پر لے جاتا ہے وہی اُسے بقاے حیات کی ضمانت بناکر واپس وادیوں اور میدانوں میں لے آتا ہے اور زائد پانی کو دوبارہ مستقل ذخیرۂ آب یعنی سمندر میں لا ڈالتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت کی تشکیل، تدوین، تقطیر، ترسیل اور حیاتِ آفرینی کا ادراک انسان کو حیرت انگیز تشکر سے آشنا کردیتا ہے لیکن اس ادراک کے نتیجے میں اگر اس کا استعمال خدا اور رسولؐ کے بتائے ہوئے عادلانہ نظام کے تحت نہ ہو تو پانی چوری کے نتیجے میں یہ حیات آفریں عنصر ہلاکت آفریں بن جاتا ہے اور دنیا کا بہترین نہری نظام ہونے کے باوجود اور پانی کی فراوانی کے باوجود ایک طرف ہم پاکستانی غذائی قلت کا شکار ہیں، دوسری طرف کثیرالمقاصد ڈیم متنازع مسئلہ بن کر رہ جاتے ہیں اور ہمیں توانائی کے بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آخر میں اِسی پانی کی نعمت کے حوالے سے ایک تاریخی واقعہ بیان کر کے اپنی گفتگو ختم کروں گا۔
ذرا چشمِ تصور وا کر کے دیکھیے کہ سرزمینِ عرب پر صحرا میں ایک چشمہ رواں ہے۔ دو مسافر تشنگی دُور کرنے اس کی جانب آرہے ہیں، ایک ذرا آگے اور دوسرا تھوڑا پیچھے۔ پہلے پہنچنے والا فرد کنارے پر بیٹھ کر پیاس بجھانا چاہتا ہے لیکن قبل اس سے کہ پانی کا چُلّو ہونٹوں تک پہنچے، عقب میں آنے والا شخص تلوار نکال کر اس کا سر قلم کردیتا ہے کہ وہ بڑے قبیلے کا فرد تھا اس سے پہلے چشمے سے کسی کا پانی پی لینا اُس کی توہین تھی، جس کی سزا موت تھی۔ پھر مقتول کے قبیلے نے قاتل کو قتل کیا اور پھر دونوں قبیلوں اور ان کے حلیفوں کی جنگ پورے ۴۰ سال جاری رہی۔ تلواروں نے سیکڑوں افراد کا خون پیا اور اس چشمے کا ایک چُلّو کسی کا حلق تر نہ کرسکا۔ وجہ تھی نعمت ِ ہدایت سے محرومی۔ اُس کے نتیجے میں منافیِ شکر رویہ، خدا سے بیگانگی، تکبر اور زعمِ خدائی___ بن گئی نا حیات آفریں نعمت ہلاکت خیز مصیبت۔
جب سرزمینِ عرب کو نسخۂ ترکیب استعمال یعنی قرآن عظیم الشان اور بُرہانِ رحمانی میسر آیا تو چشمِ فلک نے اس کے برعکس ایک ایسا منظر دیکھا کہ حیرت سے دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ آپ بھی چشمِ تصور سے وہ ایمان افروز منظر دیکھیے کہ اُسی سرزمینِ عرب پر میدانِ جنگ میں تین زخمی مجاہد حالت ِ نزع میں ہیں۔ اس حالت میں ایک زخمی کی نحیف سی آواز اُبھرتی ہے: العطش (پانی) چچازاد بھائی دوڑ کر پانی کا برتن منہ سے لگایا چاہتا ہے کہ دوسرے مجاہد کی نحیف تر آواز پہلے کے کان میں پڑتی ہے: العطش، پہلا مجاہد منہ بند کر کے، ہاں اُس نزع کی کیفیت میں کہ شاید انسان کی سمندر پی کر بھی پیاس نہ بجھے، دوسرے مجاہد کی طرف اشارہ کردیتا ہے۔ پھر دوسرے کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آتا ہے، کہ اس کے کان میں تیسرے کی آواز آتی ہے: العطش! اُسے بھی اپنی جان سے زیادہ اپنے ساتھی مسلمان کی زندگی اور تسکین عزیز ہے۔ وہ بھی اس نعمت ِگراں مایہ کو تیسرے تک پہنچانے کا اشارہ کرتا ہے۔ پانی پلانے والا تیسرے مجاہد کی جانب تیزی سے بڑھتا ہے لیکن تیسرا اس دوران میں اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کرچکا ہوتا ہے۔ پانی والا اُلٹے قدموں دوسرے زخمی کی طرف آتا ہے تو وہ بھی شہادت کے درجے پر فائز ہوچکا ہے۔ اسی طرح وہ دیکھتا ہے کہ اس کا چچازاد بھائی بھی اپنے اس ایثار پر گویا مطمئن و سرخ رُو ہوکر اپنے رب کے حضور جاچکا ہوتا ہے۔
یہ تینوں شہید دمِ نزع زبانِ قال سے تو کچھ کہنے کی سکت کہاں رکھتے تھے لیکن زبانِ حال سے کہہ گئے کہ، اب جب کہ ہم قرآن کریم سے شکرِنعمت کا فہم و اِدراک حاصل کرچکے اور رحمت للعالمینؐ کے فیضِ تربیت سے اس رویے کو اپنا چکے ہیں تو شانِ رحمن سے میسر آنے والی اس نعمت کو حوضِ کوثر کے جام سے کیوں نہ تبدیل کرلیں کہ جس سے سیرابی کے بعد روزِ حشر سے گزر کر جنت میں داخلے تک مطلق پیاس نہ لگے اور جنت میں اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق یہ منظر ہو: یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقِ مَّخْتُوْمٍ o خِتٰمُـہٗ مِسْکٌ ط (المطففین ۸۳:۲۵-۲۶) (وہاں اہلِ ایمان کو) نفیس ترین سربند شراب پلائی جائے گی جس پر مُشک کی مُہر لگی ہوگی۔
آپ نے ایک نعمت کے حوالے سے کفرانِ نعمت اور شکرِ نعمت کے دو انسانی رویے ملاحظہ کیے۔ اب اپنے آپ سے سوال کیجیے کہ ہم قرآن جیسی نعمت کے حوالے سے شکرگزار ہیں یا ناشکرے؟ حکیم الامت نے مشیت ِ الٰہی کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
آیئے میرے ساتھ دُہرایئے:
رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (الاعراف ۷:۲۳) اے رب، ہم نے اپنے اُوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے۔
(جامع مسجد منصورہ، لاہور میں، بعد نماز فجر تذکیر، ۱۷ دسمبر ۲۰۰۸ء)