پروفیسر امیرالدین مہر | مارچ ۲۰۰۹ | تزکیہ و تربیت
اِبتلا و آزمایش میں ثابت قدم رہنے اور اس سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کے متعدد طریقے اور راستے ہیں۔ مومن کی حیثیت سے ان کو سامنے رکھنا اور ان میں سے اپنی حالت کے مطابق کسی ایک دو یا زیادہ کو اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقے واضح طور پر بیان کیے ہیں۔ ان میں سے بعض کا تذکرہ کیاجاتا ہے۔
اِبتلا و آزمایش میں سے کامیابی سے گزرنے کے لیے بنیادی بات عقیدۂ توحید پر پختہ ایمان ہے۔ جتنا یہ عقیدہ مضبوط ہوگا، اتنا ہی آسانی سے مومن اِبتلا و آزمایش سے گزر جائے گا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں بڑی بڑی آزمایشیں آئیں لیکن عقیدے کی پختگی کی وجہ سے ذرہ برابر قدم ڈگمگانے اور پسپائی اختیار کرنے کی حالت و کیفیت ان کے نزدیک نہیں آئی۔ حضرت بلالؓ پر کفارِ مکہ نے کتنی سختیاں کیں لیکن احد، احد ہی پکارتے رہے اور اِبتلا و آزمایش سے نکل آئے۔ ایسے سیکڑوں صحابہ کرام و تابعین تھے جنھوں نے اس طرح کا مظاہرہ کیا۔ اِبتلا وآزمایش کے بعد کے ادوار میں ایسے بہت سے مومن نظر آتے ہیں جو توحید کے عقیدے پر مضبوط ایمان کی وجہ سے کامیاب ہوکر نکلتے دکھائی دیتے ہیں۔
موجودہ دور کی گوناگوں آزمایشیں جیسے مصر میں اخوان المسلمین، اور وسطی ایشیا کے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ فلسطین و عراق کے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، افغانستان میں بارود اور لوہے کی آگ برسائی گئی اور خون کے دریا بہائے گئے۔ پل چرخی اور گوانتانامو کی بدنامِ زمانہ جیلوں میں اللہ کے نام لیوائوں کو روح کو لرزہ دینے والی اذیتیں دی گئیں لیکن اللہ کے بندے عقیدۂ توحید پر پختہ یقین اور تعلق باللہ کی وجہ سے ذرا برابر نہیں ڈگمگائے اور ایک دفعہ پھر سنت ِابراہیمی ؑ کو دنیا کے سامنے زندہ کردیا۔
ابتلا و آزمایش کی دو صورتیں ہیں: ایک طرف ظلم وستم خوداپنی ذات پر اور بعض اوقات بیوی، بچوں اور خاندان والوں پر۔ اگر یہ کارگر نہ ہو تو پھر دولت اور جاہ و جلال کی طمع اور خوف۔ امام احمد بن حنبلؒ پر جب تک کوڑے برستے رہے بڑی ہمت و جرأت سے برداشت کرتے رہے لیکن جب دولت پیش کی گئی تو گھبرا گئے اور رونے لگے۔
اسلام میں آخرت کا عقیدہ اساسی و بنیادی ہے۔ مکی دور میں قرآن مجید نے اسے مختلف طریقوں سے بیان کر کے اپنے پیروکاروں کو ذہن نشین کرایا ہے۔ قرآن مجید کی ۱۱۴ میں سے ۱۰۰سورتوں میں آخرت کا تذکرہ موجود ہے۔ پھر جتنی تفصیل آخرت کے بارے میں ہے اور جنتیوں اور دوزخیوں کے باہمی مکالمے، گفتگوئیں اور ان کی خواہشات بیان ہوئی ہیں، توحید و رسالت کے بعد شاید ہی کسی اور عقیدے کی اتنی تفصیل بیان ہوئی ہو۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آخرت کے پختہ عقیدے کا انسانی زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے اور انسان کی سیرت و کردار کی تعمیر اور نشوونما میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔
اِبتلا سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کا توحید کے بعد سب سے مضبوط اور یقینی طریقہ اللہ کے ساتھ تعلق جوڑنا اور اسے پختہ کرنا ہے۔ اِبتلا کے جتنے واقعات قرآن مجید میں اور احادیث ِ مبارکہ میں بیان ہوئے ہیں ان کے اختتام پر تعلق باللہ کو مختلف پیرایوں سے بیان کیا گیا ہے، جیسے سورۂ ملک (۶۷:۳-۴)، سورۂ قلم (۶۸:۲۸-۲۹)، سورۂ یونس (۱۰:۳۰)۔
تعلق باللہ کی متعدد صورتیں ہیں۔ انھیں حسب ِ حال اختیار کرنا چاہیے۔ چند ایک کا مختصراً تذکرہ کیا جاتا ہے۔
اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ (الجمعۃ ۶۲:۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔
سلف صالحین اور شہدا و دعاۃ کی زندگیوں میں دیکھتے ہیں کہ جب وہ آزمایش میں مبتلا ہوئے تو نماز کی طرف سبقت کی۔ قرآن مجید نے فرمایا: وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرۃ ۲:۴۵ و۱۵۳) ’’صبر اور نماز سے مدد لو اور تقویت حاصل کرو‘‘۔
نماز کے کئی اہم پہلو ہیں جیسے دلی اطمینان حاصل ہونا، اجروثواب کا ملنا، برائیوں سے بچنا، شیطان اور شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہنا، دنیا اور آخرت کے خسارے سے بچنا اور اِبتلا سے بخیروخوبی گزر جانا، نیز نماز باجماعت اور نظامِ صلوٰۃ کی اپنی اہمیت ہے۔
بندہ جب نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو اس کا براہِ راست اللہ سے تعلق جڑ جاتا ہے اور درمیان سے سب واسطے ہٹ جاتے ہیں۔ اسی لیے نماز کو مومن کی معراج کہا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بندہ جب سجدے میں ہوتا ہے تو اللہ سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
تلاوت کا لطف اور مزہ اس وقت حاصل ہوگا جب خوش الحانی، یک سوئی اور تفکر وتدبر کے ساتھ تلاوت کی جائے۔ اس قسم کی تلاوت سے وقتی طور پر دکھ درد دُور ہوجاتے ہیں اور آدمی اپنے آپ کو راحت میں محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا صبح و شام اور سفروحضر میں تلاوت کا اہتمام ہونا چاہیے۔
مکہ مکرمہ کے ابتدائی دور میں اور مشکل اوقات میں صحابہ کرامؓ تلاوت کرتے تھے اور کتاب اللہ کی تلاوت سے قوت اور سہارا لیتے تھے۔ حضرت جعفرؓ سے جب شاہِ حبشہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے قرآن مجید کی سورئہ تحریم کی تلاوت کی۔ اس سے ایک طرف ان کو اطمینان ہوا تو دوسری طرف یہ تلاوت ان کے لیے حق گوئی، بے باکی اور اِبتلا سے نکلنے کا ذریعہ بن گئی۔اس طرح تلاوت میں ضروری آداب کا ملحوظ رکھنا، صحیح تلفظ سے ادایگی، اس کے معنی اور مفہوم پر نظر رکھنا اور اس میں غورکرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت کی برکات اور فائدے حاصل کرنے کے لیے یہ دعا سکھائی گئی:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلِ القُراٰنَ رَبِیحَ قُلُوبِنَا وَنُورَ صُدُورِنَا وَذَھَابَ ھُمُومِنَا وَجِلَائَ اَحْزَانِنَا، یااللہ! قرآن کو ہمارے دلوں کی بہار بنا دے، ہمارے سینوں کا نور بنا دے، ہمارے خوف کے دفع کرنے اور ہمارے غم کا مداوا بنادے۔
اِبتلا میں عام طور پر سابقہ انبیا کی سیرت کا پڑھنا، اس میں غوروفکر کرنا،ان کی اِبتلا و آزمایش کا گہرا مطالعہ کرنا اور انھوںنے جس طرح ثابت قدمی دکھائی، اسے سامنے رکھنا اور ان کے اسوہ سے تقویت حاصل کرنا اور خود کو اس پر عمل کرنے کے لیے آمادہ کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ انبیاے کرام کی سیرت میں صبر وثبات اور ثابت قدمی کے بے شمار نمونے سامنے آتے ہیں۔ عقیدت اور یقین سے ان کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو انسان کو بڑی تقویت حاصل ہوتی ہے۔
اِبتلا وآزمایش میں گرفتار شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، سنت اور احادیث کا مطالعہ کرے تو قدم قدم پر آپؐ کی اِبتلاوآزمایش کے نمونے سامنے آئیں گے۔ دورِ طفولیت سے لے کر اس دنیا سے آپؐ کے تشریف لے جانے تک قدم قدم پر آپؐ کو مختلف آزمایشوں سے واسطہ پیش آیا ہے۔ ذہنی، جسمانی، مالی و معاشرتی اور تمدنی معاملات میں آپؐ کو تکالیف پہنچائی گئیں۔ آپؐ کے پیارے ساتھیوں کو بے حد ستایا گیا۔ لہٰذا آپؐ کے امتیوں اور پیروکاروں کو آپؐ کے اسوئہ حسنہ سے تقویت و اہمیت حاصل کرنی چاہیے۔ آپؐ کے ان فرمودات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے جن میں ایک طرف سابقہ اُمم کے واقعات بتاکر ان کی ثابت قدمی اور صبر کی کیفیت بیان کر کے مثالیں دی گئی ہیں اور ساتھ ہی اِبتلا میں ثابت قدم رہنے کا اجروثواب بیان اور آخرت کی کامیابی کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ یہ بھی تقویت کا ذریعہ ہیں۔
اسلام کا مجموعی مزاج اور نظام اجتماعی ہے۔ اس میں انفرادیت اور انفرادی زندگی کا بہت کم حصہ ہے۔ لہٰذا مومن کو عام حالات میں بھی تنہائی سے بچنا چاہیے بلکہ اجتماعیت اختیار کرلینی چاہیے۔ ارشاد باری ہے: ’’تم میںایک اُمت ایسی ہونی چاہیے جو نیکی کی طرف بلائے جو معروف (بھلائی) کا حکم دے اور برائی سے روکے اور وہی لوگ کامیاب ہیں‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۱۱۴)۔ مزید فرمایا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو‘‘۔ (التوبۃ ۹:۱۱۹)
اجتماعیت سے جڑنے سے، اور اجتماعیت بھی ایسی جو پورے دین پر عمل کرنے اور اسے نافذ کرنے کا کام کرتی ہو، آدمی سنبھل جاتا ہے، اسے سہارا ملتا ہے، تقویت پہنچتی ہے اور یہ ہمت افزائی کا سبب بن جاتی ہے اور اسے اِبتلا سے نکال لیتی ہے۔
اِبتلا کے دنوں میں صالحین سے تعلق مضبوط کرنا، اجتماعیت کے ذمہ داروں سے مزید قریب ہونا، ان سے اپنے حالات بیان کرنا، اپنی مشکلات اور مصائب کا اظہار کرنا، اپنے نفس کی حالت بتانا، ان سے رہنمائی اور مشورہ لینا چاہیے،اور وقتاً فوقتاً ان سے ملنا چاہیے۔ اگرنفس میں غرور و تکبر ہے یا غلط اوہام ہیں یا قوتِ فیصلہ کام نہیں کر رہی توان کا علاج معلوم کرنا چاہیے۔
ایک روایت ہے کہ آدم علیہ السلام نے کہا کہ اگر میں فرشتوں سے مشورہ کرتا تو نقصان نہ اٹھاتا‘‘۔ (شرح اربعین نووی ابن رجب حنبلی)۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo (النحل ۱۶:۴۳، الانبیا ۲۱:۷) ’’اہلِ علم سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے‘‘۔ لہٰذا اہلِ علم و دانش اور اس راہ کے راہی، داعیوں اور مبلّغوں سے مشاورت کرنا فائدہ مند ہے۔ مشورہ اور خیر میںکئی پہلو ہیں، اس لیے مومن کو چاہیے کہ اچھے، نیک، باکردار لوگوں سے ہراہم معاملے میں مشورہ لیتا رہے اور اسے اپنا طریقہ و وتیرہ بنا لے۔ عام طور پر اِبتلا میں لوگ اس کے مختلف پہلوؤں اور گوشوں میں کھو جاتے ہیں اور اس سے نکل نہیں پاتے بلکہ نااہل اور نابلد لوگوں سے مشورہ کرنے کی وجہ سے مزید اُلجھ جاتے ہیں اور الجھے رہتے ہیں۔
اِبتلا وآزمایش میں مومن کو چاہیے کہ دعوتی تحریکوں اور تنظیموں سے مل کر دعوتی اور اصلاحی کام کرے۔ خاص طور پر جماعت اسلامی سے مضبوطی و دل جمعی سے وابستہ ہوکر اعلاے کلمۃ اللہ اور اقامت ِدین کی کوشش کرے۔ اسی طرح دوسری دعوتی تنظیموں سے بھی حسب حال جڑا جاسکتاہے۔
جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کے پاس زمانۂ حال میں رہنمائی کرنے والا وسیع لٹریچر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جزاے خیر دے کہ انھوں نے اسلام کے تمام انفرادی اور اجتماعی کاموں پر روشنی ڈالی ہے اور ہر زاویے سے اسلام کی نمایندگی اور وضاحت کی ہے۔ جماعت اسلامی کے شائع کردہ لٹریچر میں مولانا مودودیؒ کا وسیع لٹریچر اتنا جامع، مکمل اور دین کا احاطہ کیے ہوئے ہے کہ اگر درسِ نظامی کا ایک فارغ التحصیل عالم مطالعہ کرے تو وہ جدید علوم سے روشناس ہوجاتا ہے اور موجودہ دور کے تقاضوں کو سمجھ کر دین کے کام کا واضح لائحہ عمل پاتا ہے، جب کہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو دین کا فہم نصیب ہوتا ہے اور عمل کی ترغیب ملتی ہے۔
دعوتی کام کرنے سے دینی احکام کی عملی تعلیم حاصل ہوتی ہے اور انسان عملی طور پر دینی احکام کا عادی بن جاتا ہے۔ اسی لیے طبیعت میں دین رچ بس جاتا ہے۔ دعوتی کام میں کسی جماعت کے ساتھ ہونے سے ہم خیال اور ایک راہ کے راہی لوگوں سے جڑ جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کا سہارا بن جاتے ہیں۔ اگر ایک گر رہا ہے تو دوسرے اسے سنبھالنے کے لیے آگے آتے ہیں۔ پھر معاشرتی، معاشی، اخلاقی لحاظ سے ایک دوسرے کے لیے معاون بن جاتے ہیں اور تنگی ترشی میں ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں۔ اس طرح ایک کفالتی (مالی تعاون کا) نظام بن جاتا ہے۔ دنیا میں بہت ساری مثالیں ہیں۔ تازہ دور کی ایک مثال فلسطین کی سب سے بڑی جماعت حماس ہے جس نے لاکھوں مصیبت زدہ اور جنگ کے مارے ہوئے، لٹے پٹے خاندانوں کی ایک عرصے تک کفالت کرکے مدینہ کی مواخات کا سبق عملاً دہرایا۔
صبر اِبتلا میں سے نکلنے کے لیے ایک اہم عنصر ہے۔ کتاب اللہ میں اِبتلا کا واقعہ بیان کرنے کے بعد عام طور پر صبر کا تذکرہ ہے۔ سورئہ بقرہ کی آیت ۱۵۷ میں ہے: وبشرالصابرین اور صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیجیے۔ (مزید دیکھیے: سورہ محمد ۴۷:۳۱، البقرہ ۲: ۱۷۲-۲۴۹،اٰل عمرٰن ۳:۱۶-۱۷، ھود۱۱:۴۹، الصافات ۳۷:۱۰۳۔ الاحقاف ۴۶:۳۵، الفرقان ۲۵:۴۲، الانعام ۶:۳۴، الکھف ۱۸:۲۸)
صبر کرنے سے بے قراری ختم ہوجاتی ہے۔ مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں اور برداشت کی قوت پیدا ہوجاتی ہے اور ضبطِ نفس کی صفت سے بندہ متصف ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں صبر کا کلمہ ۹۲ مرتبہ آیا ہے اور ان میں سے اکثر اِبتلا میں صبر کرنے کے لیے ہے۔
اِبتلا و آزمایش سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کا ایک بڑا وسیلہ دعا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعا مومن کا ہتھیار، دین کا ستون اور زمین و آسمان کا نور ہے‘‘(مشکوٰۃ)۔ دعا تعلق باللہ کا بڑا ذریعہ، دلی تسلی کا مضبوط وسیلہ، اجروثواب کا باعث، شیطان کے وسوسوںسے بچنے کا بہترین عمل اور دنیا وآخرت کے خسارے سے محفوظ رکھنے کا سبب ہے، لہٰذا مومن کو اِبتلا میں خاص طورپر اورعام حالات میں بھی دعا کی کثرت رکھنی چاہیے کیونکہ مومن کی دعا کبھی بے کار نہیں جاتی بلکہ اپنے اثرات دکھاتی ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو بندہ بروقت، ہر جگہ اور ہر حالت میں کرسکتا ہے۔
علما، شہدا، صالحین کی سیرت کو نمونہ بنانا چاہیے۔ اِبتلا میں گھرے ہوئے مومن کو چاہیے کہ سلف صالحین کی سیرت کا مطالعہ جاری رکھے اور ان سے تقویت حاصل کرے۔ ان کی سیرتوں میں سیکڑوں ہزاروں ایسے نمونے موجود ہیں جس سے اِبتلا میں رہنمائی ملتی ہے۔ ان نمونوں میں ان لوگوں کا اِبتلا میں صبروثبات، حق گوئی، تعلق باللہ نمایاں ہے۔ اس لیے اِبتلا میں گھرے ہوئے شخص کو ان کی سوانح حیات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
دعوت دین میں مصروف و مشغول لوگوں کو ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کی غائبانہ دعائیں پہنچتی رہتی ہیں، نیز ان ساتھیوں کی طرف سے دعائیں ہوتی ہیں۔ ایک حدیث شریف میں ہے کہ ان کی دعائیں ان کو گھیر لیتی ہیں۔ بہرحال اِبتلا وآزمایش کے وقت انسان بہت ساری برائیوں سے بچ جاتا ہے اور شیطان کے وسوسوں اور شرارتوں سے محفوظ رہتا ہے۔
اس دور میں مسلم اُمہ پر اجتماعی طور پر اور دعوت کا کام کرنے والوں پر خاص طور پر بڑی اِبتلائیں اور آزمایشیں آئی ہیں۔ اس طرح انفرادی طور پر بھی کافی لوگ اس سے گزرے ہیں۔ ان میں مصر کے علما و دعاۃ اور صلحا گرفتار ہوئے، نیز شام، ترکی، سوڈان اور دیگر ممالک سے وابستہ افراد کی طویل فہرست ہے۔ ان کے ہراول دستے میں محمد بن عبدالوہاب، سید محمد احمد مصری سوڈانی، سیدجمال الدین افغانی، امام محمد عبدہٗ، رشید رضا مصری، امام حسن البنا شہید، سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا محمودحسن، مولانا محمدقاسم نانوتوی، فقیرایپی، مُلّا شوربازار، مولانا تاج محمودامروٹی، سیدقطب شہید، عبدالقادر عودہ شہید شامل ہیں، جنھوں نے تمام تر خطرات و مشکلات کو انگیز کر کے اُمت کو روشن شاہراہ دی اور بہت بڑا علمی ذخیرہ چھوڑا۔ کچھ لوگ گھر سے بے گھر، وطن سے بے وطن اور بے بسی کی حالت میں ہجرت کر کے نکلے لیکن دین کے کام میں آخر دم تک مصروف رہے۔ ان کی فہرست تو بہت طویل ہے البتہ کچھ کا تذکرہ کیا جاتا ہے جیسے محمد غزالی، زینب الغزالی، عبدالبدیع صقر، محمد علی صابونی، ڈاکٹر یوسف قرضاوی، استاد عبداللہ العلوان، سعید رمضان، ڈاکٹر مصطفی السباعی، عبدالرحمن عزام، حسن الہضیبی، السید سابق، فواد سرگیں، عبدالوہاب خلاف، ڈاکٹر نبیل الطویل اور ڈاکٹر عبداللہ عزام شہید وغیرہ۔ یہ چند نام تو ان حضرات کے ہیں جنھوں نے زبان و قلم، علم وعمل سے جہاد کیا لیکن جنھوں نے اپنے مال ودولت اور جسم و جان سے اس راہ میں قربانیاں دیں وہ تو اَن گنت ہیں، ایک طویل فہرست ہے۔ اس دور میں عزیمت اور ثابت قدمی کی مثالیں افغانستان میں بگرام اور قندھار کی جیلیں، عراق کی ابوغریب اور گوانتاناموبے کے قیدیوں اور بہن عافیہ صدیقی کی ہے۔ یہ وہ شخصیات ہیں جو نشانِ راہ اور روشنی کے مینار ہیں۔
ایسے ہی لوگ اس آیت کے مصداق بنتے ہیں اور اس زمرے میں شامل ہوتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo (الاحزاب ۳۳:۲۳) ’مومنوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اپنے دل و جان سے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے اصلاحِ حال کے لیے مصروف ہیں۔ فرمایا: وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت ۲۹:۶۹) ’’جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں ان کو ہم اپنی راہوں کی ضرور ہدایت دیتے ہیں‘‘۔
الغرض اِبتلا و آزمایش مومن کے لیے ایک لازمی منزل ہے، لہٰذا اسے پہچاننا، اس کا احساس و شعور رکھنا، اس میں ثابت قدم رہنا، اس سے صحیح طور پر نکلنے کے لیے جدوجہد کرنا اور روحانی و مادی وسائل ڈھونڈنا مومن کا وتیرہ ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی سے سرفراز فرمائیں۔ آمین!