استاذ محترم پروفیسر آسی ضیائی مرحوم (۱۹۲۰ء-۲۰۰۹ء) جن کا اصل نام امان اللہ خان تھا، سے پہلی ملاقات ۱۹۵۱ء میں مرے کالج سیالکوٹ کی لائبریری اور ہوسٹل کے درمیان واقع ایک چھوٹی سی مسجد میں ہوئی (اس کالج کے شعبہ اُردو سے وہ یکم اکتوبر ۱۹۴۸ء کو بطور لیکچرار اُردو وابستہ ہوئے تھے)۔ روشن چہرہ، کشادہ پیشانی اور رعنائی شباب کی کشش لیے ہوئے اس شخصیت سے اولین ملاقات کا ایک خوش گوار تاثر ہمیشہ ذہن میں محفوظ رہا۔ یہ خوش گواری محض ایک خوب صورت اور محترم شخصیت کی ملاقات کا تاثر تھا یا اس کا کوئی سبب اور بھی تھا؟ ماضی کے اوراق کی خاصی اُلٹ پلٹ کے بعد یہ عُقدہ کھلا کہ اُن سے یہ ملاقات کسی اجنبی سے ملاقات نہ تھی بلکہ ایک غائبانہ شناسا شخصیت سے بالمشافہہ ملاقات تھی۔ ایک ادبی اور علمی شخصیت کی حیثیت سے ان کی تحریروں کے حوالے سے شناسائی پہلے سے موجود تھی۔ میں نے ۱۹۵۱ء میں مرے کالج میں سالِ اول میں داخلہ لیا تو اُس زمانے تک چراغِ راہ کے وسیلے سے ان کے نام سے واقف ہوچکا تھا۔
استاذِ محترم سے ملاقاتوں کا سلسلہ پھر یوں مستقل ہوگیا کہ جماعت اسلامی شہرسیالکوٹ کے ہفتہ وار اجتماعات میںباقاعدگی سے شرکت ہوتی تھی، جہاںآسی صاحب کے ذمے بھی کوئی تقریر یا گفتگو پروگرام میں شامل ہوتی تھی۔
جہاں تک یاد پڑتا ہے ان کی پہلی ادبی تحریر جو مجھے پڑھنے کا موقع ملا، وہ ان کا وہ مفصل محاکمہ تھا جو انھوں نے محترم نعیم صدیقی کے مرتب کردہ چراغِ راہ کے ضخیم ’شعرنمبر‘ پر لکھا تھا۔ یہ خاص نمبر ۱۹۵۱ء میں شائع ہوا اور یہ حلقۂ ادب اسلامی پاکستان کے ادبی محاذ کی سرگرمیوں کا ایک بھرپور تعارف پیش کرتا تھا۔ جنوری ۱۹۵۳ء میں شائع ہونے والے چراغِ راہ ہی کے ضخیم ’خاص نمبر‘ میں جناب آسی کی شخصیت کا تعارف نعیم صدیقی صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں لکھا (یاد رہے کہ اس زمانے میں آسی صاحب اپنا نام عاصی ضیائی رام پوری لکھتے تھے)۔ نعیم صاحب لکھتے ہیں:
عاصی ضیائی ہے تو رام پوری، مگر رام پور کی مخملی ٹوپی سے بالکل مختلف! اُجلا اور چوڑا چہرہ، شخصیت کا ترجمان!___ ہاتھ میں ہمیشہ چرمی کاغذات دان، اور اس کاغذات دان میں اُردو بحیثیت گھر کی زبان محفوظ۔ کسی خانے میں روزمرہ، کسی میں محاورہ، کسی میں گُل بکاولی اور چہار درویش کی زبان، کسی میں اخلاقِ جلالی کی، کسی میں بائبل کے ترجمے کی!
زبان جس شخص کے گھر کی ہو، اُسے قدرت چاہے پروفیسر ہی بنائے رکھنے پر کیوں نہ بضد ہو، وہ ادیب بنے بغیر رہ ہی نہیں سکتا___ یسُوف کے وعظ کا مصنف! ہمارا واحد تمثیل نگار! خاکہ اُڑانے کا ماہر، تنقیدی انفرادیت کا حامل!
اس زمانے میں تحریکِ ادبِ اسلامی نے چند برسوں میں ثقہ اہلِ قلم کی روشن کہکشاں آراستہ کر لی تھی، جس کی وسعت اور تابندگی میں ۱۹۵۸ء تک بہت قیمتی اضافہ ہوچکا تھا، لیکن ۱۹۵۸ء کے مارشل لا نے اس تحریک کو ایسا نقصان پہنچایا کہ اس پر صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ بعد میں یہ محفل پھر کبھی اس شان کے ساتھ آراستہ نہ ہوسکی۔ بقول شاعر ؎
چھٹے اَسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا
نہ بہار تھی، نہ چمن تھا، نہ آشیانہ تھا
استاذ محترم کی پوری زندگی درس و تدریس اور شعروادب کے میدان میں مختلف النوع انداز کی تصنیف و تالیف میںگزری۔ طبیعت میں ایک عجیب طرح کی بے نیازی اور ایک حد تک اِنفعالی روش کے اثرات رہے۔ وہ کسی زوردار تحریک کے بغیر نہیں لکھتے تھے، خواہ وہ تحریک داخلی ہو یا خارجی۔ ان سے ادب کے میدان میں بہت کام لیا جاسکتا تھا لیکن اگر ایک طرف وہ بے نیاز اور گوشہ گیر رہنا پسند کرتے تھے، تو دوسری طرف کوئی ایسا فعال ادبی حلقہ یا ادارہ بھی موجود نہ تھا جو اُن سے ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق کام لیتا۔ تاہم اس کے باوجود وہ مختلف اصنافِ ادب میں اتنا قیمتی سرمایہ چھوڑ گئے ہیں جو اپنی جگہ بے حد وقیع ہے اور پوری طرح ادبِ صالح اور ادبِ نافع کی تعریف میں آتا ہے۔ اگر اُن کے چھوڑے ہوئے سرمایۂ ادب کے بھرپور تحقیقی مطالعے کی کوئی سبیل نکلے تو اندازہ ہوگا کہ وہ کیا گوہرِ گراں مایہ تھا جس کی اب تک پوری طرح پہچان نہ ہوسکی۔ ان کے مقام و مرتبے کی حقیقی قدرشناسی (evaluation) کے ساتھ اُردو ادب کا تعمیری رُجحان رکھنے والی ایک قدآور ادبی شخصیت کا بھرپور تذکرہ ایک منارئہ نور کی صورت میں آنے والوں کے لیے محفوظ ہوسکتا ہے۔
آسی ضیائی کی تصنیفات و تالیفات کا سرسری تعارف کرانے کے لیے بھی کئی صفحات درکار ہیں جس کی یہاںگنجایش نہیں۔ صرف چند کتابوں کے نام ملاحظہ فرمایئے:
آسی صاحب کے بے شمار مقالات مختلف رسائل میں بکھرے پڑے ہیں جن کو جمع کرکے کتابی صورت میں یک جا شائع کرنے کی ضرورت ہے۔
موصوف کے ذاتی کوائف میں چند چیزیں خاص طور پر لائقِ تذکرہ ہیں لیکن یہاں ان کے بھی صرف عنوان ہی لکھے جاسکتے ہیں۔ایک، ان کے استاذ اور اُردو ادب کی ایک قدآور شخصیت پروفیسر رشیداحمد صدیقی صاحب کے بارے میں اُن کے تاثرات۔ دوسرے، سید مودودیؒ کی طرزِنگارش اور فکری وعلمی انداز استدلال کے بارے میں ان کا دل چسپ اور فکرافروز مطالعہ و تبصرہ۔ تیسرے، اپنے استاذ محترم رشیداحمد صدیقی کے اسلوبِ گفتار کی پیروی میں ان کے بعض دل چسپ اقوال، مثلاً: محکمۂ تعلیم میں بالعموم وہ لوگ آتے ہیں، جو کر تو بہت کچھ سکتے ہیں، لیکن اپنی علم دوستی یا عمل دشمنی کی وجہ سے کرتے کچھ نہیں۔ چوتھے، ان کا غیرمعمولی حافظہ کہ بعض اوقات برسوں پہلے کی سنی ہوئی بعض نظمیں بے تکلف سنا دیتے۔ کبھی گفتگو میںاچانک کہتے کہ ۲۵، ۳۰ سال پہلے (مثال کے طور پر) چند اشعار ہوئے تھے جوتحریری طور پر محفوظ نہیں ہیں لیکن ایک شعر کچھ اس طرح تھا۔ پھر اس کے بعد دوسرا، پھر تیسرا شعر چلا آتا اور اس طرح مدتوں پہلے کی کہی ہوئی پوری نظم سنا دیتے!
ان کی شخصیت کا ایک منفرد پہلو ان کا وہ پُرتپاک اندازِ ملاقات تھا جب وہ ہر آنے والے سے خلوص و محبت، گرم جوشی، خندہ پیشانی اور مسکراتے چہرے سے ملتے تھے۔ دورانِ گفتگو حسب ِ موقع پرانی یادوں اور کسی اہم بات کا تذکرہ، نیز اپنے مخصوص انداز میں اشعار سنانا ہمیشہ یاد رہے گا ؎
وَے صورتیں الٰہی، کس دیس بستیاں ہیں
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں
یکم اگست ۱۹۲۰ء کو رام پور میں جنم لینے والی یہ یگانۂ روزگار شخصیت مختصر سی علالت کے بعد ۱۴ جنوری ۲۰۰۹ء کی دوپہر کو اپنے خالقِ حقیقی سے جاملی۔ اس شام جنازے کے وقت ان کے چہرے پر وہی تابانی تھی جو ۵۸ سال پہلے میں نے ان کے چہرے پر دیکھی تھی۔ نمازِ جنازہ محترم قاضی حسین احمد نے پڑھائی اور مرحوم کی شخصیت کا تذکرہ بڑی خوب صورتی اور محبت کے ساتھ فرمایا۔ بالآخر اقبال ٹائون کے اس قبرستان میں آسودئہ خاک ہوگئے جہاں ہمارے بہت سے تحریکی بزرگ پہلے سے جنت کے باغوں میں محوِ استراحت ہیں___ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ!