انسان کے جتنے کام بھی ہوتے ہیں وہ دیکھنے میں اگرچہ اعضا و جوارح سے سرزد ہوتے ہیں لیکن ان کا حقیقی منبع اور اصلی مرکز ذہن ہی ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ذہنوں کی کیفیتیں بھی الگ الگ ہوتی ہیں۔ بعض ذہن تو ایسے ہوتے ہیں جن میں کوئی خاص قسم کے افکار نہیں ہوتے بلکہ پراگندہ اور منتشر خیالات جم جاتے ہیں، پھر ان سے ظاہر ہونے والے تمام خارجی افعال میں بے ربطی، پراگندگی اور انتشار عیاں ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف دوسری قسم کے ذہن وہ ہوتے ہیں جن میں کوئی عمدہ اور مضبوط عملی فکر موجود ہوتا ہے، جس کا رسوخ و ثبات پوری طرح چھایا رہتا ہے، اور اس کے نتیجے کے طور پر جو امور، خارجی مظاہر میں نمودار ہوتے رہتے ہیں وہ اتنے ہی راسخ اور ثابت ہوتے ہیں جس قدر ان کا ذہنی پہلو مضبوط ہوتا ہے۔ بہرحال انسانی سیرت کی تشکیل کرنے والی اصل قوت اس کی باطنی کیفیت ہی ہے اور اس کیفیت ہی سے انسانوں کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو ظاہری تکمیل کا سروسامان کار مہیا ہوتا ہے۔ انسان کے ظاہر میں جو اقوال و افعال، حرکات و سکنات، ظاہر ہوتے رہتے ہیں وہ اصل میں اس کی معنوی استعداد کے نہایت سچے اور حقیقی ترجمان ہوتے ہیں۔ یہی باعث ہے کہ دنیاے انسانی میں اجتماع و تنظیم، اتحاد و اتفاق، ترتیب و ہم آہنگی کے لیے کسی نہ کسی نہایت مضبوط ذہنی بنیاد کی ضرورت پیش آتی ہے، جو ایک طرف انفرادی طور پر ہرفرد میں موجود ہو اور دوسری طرف مجموعی اعتبار سے اجتماعی طور پر پوری جماعتی زندگی میں موجود رہے، ورنہ کسی متحد نظامِ فکر کا وجود میں آنا ممکن ہی نہیں ہوسکتا۔ ’ایمان‘ اصل میں اسی انقلاب انگیز کیفیت کو کہتے ہیں جو انسان کے اندر صحیح علم و معرفت، فہم وفراست، حکمت و یقین اور فکرونظر کے خالص طریقۂ استعمال سے پیدا ہوجاتی ہے، پھر اس سے انسان کے ذہن و دماغ میں ایک خاص قسم کا سلجھائو پیدا ہوتا ہے، اور اس کے بعد انسانی فطرت کے اصلی خدوخال نمایاں ہوتے ہیں۔ اس کے متعلقہ اغراض و مقاصد پورے ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ انسان اپنے منشاے تخلیق کو اپنے خالق و مالک کی مرضی کے ٹھیک ٹھیک مطابق ادا کرنے لگ جاتا ہے اور اس کا وجود نہ صرف خود اس کے لیے بلکہ پوری نوع انسانی کے لیے اور کُل کائنات کے لیے مفید ترین بن جاتا ہے۔ (’مقتضیات ایمان‘، سید صبغۃ اللہ بختیاری، ترجمان القرآن، جلد۲۸، عدد۱، محرم ۱۳۶۵ھ، دسمبر ۱۹۴۵ء، ص ۲۶-۲۷)