ترجمان القرآن کا نیا سرورق بامقصد اور دیدہ زیب ہونے کے اعتبار سے پسند آیا۔ سرورق پر درج آیت ترجمان جس فکر کا علَم بردار ہے، اس کی صحیح ترجمانی ہے۔
’اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنج اور ہماری ذمہ داری‘ (فروری ۲۰۰۹ء) میں ڈاکٹر انیس احمد نے SWOT کی اصطلاح سے اُمت مسلمہ کی قوتوں، کمزوریوں، مواقع اور خطرات کا جامع تجزیہ کیا ہے۔ یہ چشم کشا اور بصیرت افروز اداریہ تحریک کے منصوبۂ عمل، تقریر و گفتگو اور اہلِ دانش کے غوروفکر کے لیے اہم نکات پر مبنی ہے۔
ڈاکٹر انیس احمد نے ’اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنج اور ہماری ذمہ داریوں‘ کے موضوع پر عرق ریزی سے نظر ڈالی ہے۔ بلاشبہہ اُمت مسلمہ بہت سی کمزوریوں کے باوجود روشن مستقبل کی حامل ہے۔ اب اس کا کیا کیاجائے کہ ڈاکٹر کی صحیح تشخص کے باوجود مریض دوا ہی نہ پینا چاہے! ایسے میں مریض اچھا نہیں ہوسکتا۔ عصاے موسوی ہاتھ میں ہونے کے باوجود اس کو جب تک پھینکا نہ جائے وہ سحر سے پیدا شدہ سانپوں کو کھا نہیں سکتا۔ اسلامی تحریکات بھی اب ایسا لگتا ہے کہ تھک گئی ہیں۔ کسی نئے مودودی یا حسن البنا کی ضرورت ہے یہی مشکل اور فی الحال لاینحل سوال ہے۔ ہم سب لوگوں کو اس پر سوچنا ہوگا۔ اللہ اپنے دین کی حفاظت تو خود کرتا ہے۔
ڈاکٹر انیس کا ’اسلامی فکروثقافت کی قرآنی بنیادیں‘ کے تحت سلسلۂ مضامین فکرانگیز اور بے حد مفید ہے لیکن اسے عام فہم بنانے کی ضرورت ہے۔ ’علم و تفقہ‘ (جنوری ۲۰۰۹ء) میں قرآن کی ۱۰ آیات بلکہ ایک آیت جیسی آیت بنا لانے پر قریش کو دعوتِ مبارزت دینے کا ذکر ہے(ص ۵۴)۔ اس میں یقینا ان سے سہو ہوا ہے۔ قرآن نے جو چیلنج پیش کیا تھا وہ یا تو پورے قرآن کا یا ۱۰ سورتوں یا صرف ایک سورت کا تھا نہ کہ آیات کا۔ پورے قرآن کا ذکر سورئہ بنی اسرائیل (۱۷:۸۸) میں، سورتوں کا ذکر سورئہ ہود (۱۱:۱۳) میں، جب کہ ایک سورت کا ذکر سورئہ بقرہ (۲:۲۳) اور سورئہ یونس (۱۰:۳۸) میں ہے۔ اس کی تصحیح فرما لیں۔
’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کی ناکامی‘ (فروری ۲۰۰۹ء) کے تحت جو کچھ تحریر کیا گیا حقیقت ہے۔ بش جائے یا اوباما آئے، عالمِ کفر کی ذہنیت ایک ہی ہے۔ جب تک عالمِ اسلام کو حقیقی قیادت میسر نہیں آتی، ہماری حالت نہیں بدلے گی۔ ’توحید اور اس کے عملی تقاضے‘ اور ’اِبتلا وآزمایش‘ قابلِ تعریف ہیں۔ فی الواقع عقیدۂ توحید ورسالت میں پختگی کے بعد عملی زندگی میں نکھار آتا ہے۔
نئے سال کا پہلا شمارہ عمدہ مضامین سے آراستہ تھا۔ پروفیسر عبدالغفور احمد کا ’کراچی کا مسئلہ‘ (جنوری ۲۰۰۹ء) دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کے مترادف ہے۔ کراچی کا پس منظر جان کر لگا کہ یہ واقعی پاکستان کے لیے انگوٹھی کا نگینہ اور اقتصادی شہ رگ ہے۔ خدا کرے کراچی ایک بار پھر ماضی کی طرح امن کا گہوارہ بن جائے۔
مولانا مودودیؒ کی تحریر ’محض تبلیغ نہیں، اقامت دین‘ نے تو دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بالخصوص یہ جملے تو تصورِ دین کو نکھار کر رکھ دیتے ہیں: قرآن نافذ ہونے کے لیے آیا ہے، صرف تلاوت کے لیے نہیں۔ تعزیراتِ پاکستان پڑھنے کے لیے نہیں چلن کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ نفاذِ شریعت کے لیے طریق کار، اخلاقی اوصاف، حکمت، اقامت دین کے انفرادی و اجتماعی تقاضے، تنظیم و تربیت جیسے اہم نکات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے جو اسلامی تحریک کی اصل خصوصیات ہیں جن سے ہماری توجہ ہٹتی جارہی ہے۔
’قرآن اور یہ کائنات‘ (دسمبر ۲۰۰۸ء) اے رشید کی قابلِ قدر کاوش ہے اور جدید ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا بخوبی جواب دیا گیا ہے۔ مضمون نگار کو مزید سائنسی موضوعات پر قرآن کی روشنی میں قلم اٹھانا چاہیے۔
جناب عبدالغفار عزیز کی تحریر ’ہرکارخیر میں پیش پیش، الشیخ عبداللہ المطوعؒ، (دسمبر ۲۰۰۸ء) پڑھ کر احساس ہوا کہ اصل تجارت کیا ہے اور کیسے کی جاتی ہے، اور دامنِ اسلام آج بھی کیسے کیسے لعلوں سے بھرا ہوا ہے! ابوبدر جیسے کردار ہی پوری انسانیت کی آبرو ہوا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
حج پر مختلف مسلمان ملکوں کے حاجیوں کو آپس میں ملنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک دوسرے کی زبان نہیں آتی لیکن دین کا رشتہ اجنبیت کی دیوار ہٹا دیتا ہے۔ اس مرتبہ حج کے موقع پر ایک ایرانی خاتون سے بات چیت کی کوشش کی تو فارسی نہ جاننے کی وجہ سے بات تو نہ ہوئی لیکن اُس نے انگلیوں سے V بناکر کہا: احمدی نژاد، میں خوش بخت۔ یہ سن کر میری نظریں زمین پر گڑگئیں: ’مشرف، زرداری‘ مَیں بدبخت۔