مارچ ۲۰۰۹

فہرست مضامین

اسلامی فکروثقافت کی قرآنی بنیادیں: مقاصد ِشریعت و انسانیت

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | مارچ ۲۰۰۹ | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

اسلامی فکروثقافت کو اُس شعوری طرزِعمل اور رویّے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جو توحید کے نتیجے میں وحدتِ انسانیت، وحدتِ کائنات اور کائنات پر اللہ رب العزت کی مکمل حاکمیت وربوبیت کے اقرار کے ساتھ فرد اور معاشرے کے درمیان تعلق کی اصل بنیاد بِّر، تقویٰ، امربالمعروف اور  نہی عن المنکر کو قرار دیتا ہو۔ اس شعوری طرزِعمل کا اظہار، اس پر یقین رکھنے والے کی فکری تخلیق، ادب، شعر، فلسفہ اور اس کے ہنرمندی کے ہر عمل میں ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ سمرقند کا ماہر معمار ہو یا  ٹھٹھہ میں کاشی کار ٹائل اور ہندسی نقوش بنانے والا یا ریگستانِ تھر یا چولستان کا اُونٹ کی کھال سے لیمپ بنانے والا دست کار ہو، ان میں سے ہر ہرفرد کی مصنوعات میں اسلامی فکروثقافت کی روح کسی نہ کسی شکل میں جلوہ گر ہوتی ہے۔

اسلامی فکروثقافت جس روایت ِذکر، تفقہ، شعور و فکر اور الہامی ہدایت کی نمایندہ ہے اگر   بہ نظرِعمیق دیکھا جائے تو اس کی ہرسرگرمی مقاصد ِشریعت کی تکمیل کے پیشِ نظر سرانجام پاتی ہے۔   یہ مقاصد کیا ہیں اور کس طرح اسلامی فکروثقافت ان کے حصول میں مددگار ہوتی ہے، یہی اس مختصر تحریر کا موضوع ہے۔

فلسفۂ شریعت میں مقاصد ایک اہم اور مرکزی مضمون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ امام غزالیؒ (۱۰۵۹ء-۱۱۱۱ء ) ہوں یا امام شاطبی (۷۹۰ھ/۱۲۸۸ء) یا محمد الطاہر ابن عاشور (۱۸۷۹ء-۱۹۷۳ء)، مقاصدالشریعہ کی اہمیت کے پیش نظر ان میں سے ہر فقیہہ نے اس موضوع کا حق ادا کیا ہے۔

حقیقت ِ واقعہ یہ ہے کہ مقاصد ِ شریعت کا تعلق نہ صرف فلسفۂ شریعت ِاسلامی بلکہ ہرہرعلمی کاوش کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ چونکہ روایتی طور پر جن دینی درس گاہوں اور جامعات میں اسلامیات کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں اس علم پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے، اس لیے وہ حضرات بھی جو فقہ کا مطالعہ کرتے ہیں، ان مقاصد سے سرسری طور پر گزر جاتے ہیں۔ معروف یہ ہے کہ یہ مقاصد پانچ ہیں لیکن ہم اس تحریر میں ان مقاصد پر غور کا آغاز اُس بنیاد سے کرنا چاہتے ہیں جو ہرانسانی فکر وعمل کے لیے اساس فراہم کرتی ہے، یعنی توحید۔

توحید وہ پہلا اصول، اساس اور مقصد ِشریعت ہے جو انسانی زندگی کے لیے ایک واضح   لائحہ عمل اور انسانی کاوش و عمل کے لیے ہدف اور منزل کا تعین کرتا ہے۔ روایتی طور پر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ توحید اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو وحدہ لاشریک ماننے کے عقیدے کا نام ہے، جب کہ وہ عقیدہ سے بہت آگے جاکر اس بات کی تصدیق کا نام ہے کہ کائنات میں اگر کوئی ابدی حقیقت ہے تو وہ صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی ذات اور اس کی حاکمیت ہے۔ اس حاکمیت کو شعوری طور پر تسلیم کرنے کے بعد ایک شاعر ہو یا ادیب، ایک صنعت کار ہو یا کاشت کار، ایک معلّم ہو یا ایک انجینیر اور طبیب، اس کی ہر ہر کاوش کا ہدف اور مقصد اس اصول کی پیروی سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ وہ بہترین شعر کہنے کے بعد بھی یہی کہتا ہے کہ یہ میرا نہیں، میرے مالک کا کمال اور کرم ہے کہ اُس نے مجھ سے یہ بات کہلوا دی، حتیٰ کہ شعر کے سامعین بھی سبحان اللہ یا ماشا اللہ کہہ کر اصولِ توحید کی پیروی کرتے ہوئے برملا یہ اعلان کرتے ہیں کہ گو شعر عمدہ ہے لیکن تعریف کے قابل شاعر نہیں بلکہ اس کا خالقِ حقیقی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہے۔ ایسے ہی ایک شخص ماہر معمار ہونے کے باوجود اپنے فنِ تعمیر میں کسی لمحے بھی توحید کے منافی کوئی پہلو نہیں آنے دیتا۔ چنانچہ مسجد کی تعمیر ہو یا کسی قلعہ، محل یا گھر کی تعمیر، جو اصول اس کی تعمیر کو دیگر عقائد کے معماروں سے ممتاز کرتا ہے وہ توحید کی تطبیق ہے۔ چنانچہ نقش و نگار اور بیل بوٹے زبانِ حال سے یہ گواہی دیتے ہیں کہ ان کی تزئین کرنے والا توحید پر یقین کے سبب نہ حیوانات کی، نہ انسانوں کی شبیہہ بناتا ہے، نہ ایسے مناظر اپنے فن میں لاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والے ہوں۔ چنانچہ اسپین میں مسلمانوں کا فنِ تعمیر ہو یا شام، عراق، ترکی، وسط ایشیا اور جنوب ایشیا کے اعلیٰ تعمیراتی فن کے مظاہر، ہر عمارت انجینیر اور معمار کے ذہن، فکر اور عقیدے کا پتا دیتی ہے۔

شریعت یا الہامی قانون کا مقصد اولاً تمام قوانین پر اللہ کی بھیجی ہوئی شریعت کو حاوی کرنے کے ساتھ ساتھ تمام انسانیت کو وحدت کے رشتے میں پرو دینا بھی ہے۔ چنانچہ جہاں ایک مسلمان کے لیے توحید کا مفہوم اللہ وحدہٗ لاشریک کی حاکمیت و ربوبیت کا اقرار اور اپنے عمل سے اس کی تصدیق ہے، اس طرح ایک مشرک اور غیرمسلم کے لیے توحید کے مفہوم کا تقاضا اور مطالبہ اپنی زندگی سے تضادات کو دُور کرکے زندگی میں وحدانیت کا پیدا کرنا ہے۔ ایک غیرمسلم کے لیے بھی توحید میں یہ پیغام ہے کہ وہ دوہرے اخلاقی معیار کی جگہ زندگی میں وحدت قائم کرتے ہوئے سچائی، عدل، وفاداری اور پاکیزگی کو اپنا شعار بنائے اور جس طرح پوری کائنات نے تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے اخلاقی اصولوں کی پیروی اختیار کرلی ہے اور ہوائیں ہوں یا تیزرفتار دریا، سمندر ہوں یا پہاڑ اور درخت یا چرندپرند سب اللہ کے بنائے ہوئے ضابطے کی پیروی کر رہے ہیں اور اس طرح تضاد اور ٹکرائو سے بچے ہوئے ہیں، بالکل اسی طرح کائنات میں وحدانیت کے پیش نظر وہ اپنی گھریلو زندگی اور سیاسی، معاشی، قانونی اور ثقافتی سرگرمیوں میں تضاد کو چھوڑ کر یک جہتی کے اصول کی پیروی اختیار کرلے۔ شریعت کی اصطلاح میں اسی کو توحید کہا جاتا ہے۔

اگر ایک تہذیب و ثقافت اس اصول کو مان لے تو وہ شعوری طور پر اپنے اندر کے تضادات کو دُور کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہے اور بیک وقت بہت سے خدائوں کی بندگی سے نکل کر صرف ایک اصل کو اپنی بنیاد مان لیتی ہے۔ ان بہت سے خدائوں میں عصبیت کا خدا، ذات اور برادری کا خدا، عریانیت اور تکبر کا خدا ہی نہیں بلکہ وہ سب خدا بھی شامل ہیں جنھیں ہم روزگار، اقتدار اور دیگر مفادات کے خدا کہہ سکتے ہیں۔ زندگی میں وحدانیت کے قیام سے ان سب محدود، نمایشی اور زمینی خدائوں کے بجاے ایک فرد کی معاشی، سیاسی، معاشرتی، قانونی سرگرمیوں کا مقصد صرف ایک مالک اور آقا کے دیے ہوئے احکامات و تعلیمات کو زندگی اور معاشرے میں نافذ کرنا قرار پاتا ہے۔

اگر غور کیا جائے تو جن اصولوں اور اقدار کو ہم مقصد ِ شریعت قرار دیتے ہیں وہ مقصد ِ انسانیت بھی ہیں۔ انسانیت رنگ، نسل، عمر، جغرافیائی حدود سے ماورا وہ بنیاد ہے جو تمام انسانوں کو ایک  ماں باپ کی اولاد سمجھتے ہوئے یکساں بنیادی انسانی حقوق سے نوازتی ہے۔ اسی انسانیت کو اگر جغرافیائی سرحدوں، رنگ، نسل، ذات اور زبان کی تقسیم میں بانٹ دیا جائے تو ہرلمحے تضادات، ٹکرائو اور توڑ پھوڑ کا شکار ہونا اس کی قسمت بن جاتا ہے۔ گویا پہلا اصول (توحید) نہ صرف    اہلِ ایمان بلکہ بشمول غیرمسلمین، تمام انسانوں کے لیے، وجۂ اتحاد فراہم کرتے ہوئے، وحدتِ انسانیت کے قیام کا سبب بنتا ہے اور اس طرح بیک وقت مقصد ِ شریعت، مقصد ِ انسانیت کے لیے پہلی بنیاد اور اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔

دوسرا بنیادی اصول جو شریعت کا مقصد بھی ہے اور جو انسانیت کے لیے بھی ایک رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن کریم کی وہ قدر ہے جسے ہم ’عدل‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ محدود انسانی عقل و نظر کی بنا پر ہم نے بالعموم اس سے وہ انصاف مراد لیا ہے جو عدالتوں، پنچایتوں یا جرگوں کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے جب کہ عدل ایک انتہائی وسیع، جامع اور عملی اصطلاح ہے جو معاشرتی، معاشی، سیاسی،مذہبی، اخلاقی اور ثقافتی و تہذیبی سرگرمیوں کو معنویت عطا کرتی ہے۔

اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو انفرادی سطح پر اگر ایک شخص اپنے نفس کا حق ادا نہیں کرتا، اپنی غذا، روحانی ضروریات، آرام اور کارکردگی میں عدم توازن کا شکار رہتا ہے تو اسلام اسے نفس پر ظلم قرار دیتا ہے۔ اگر وہ اپنے اہلِ خانہ کا حق ادا نہیں کرتا یا اپنے اعزہ و اقارب کو ان کا حصہ نہیں دیتا تو ان پر اور اپنے اُوپر ظلم کا مرتکب ہوتا ہے۔ ایسے ہی اگر وہ اپنے اہلِ محلہ کا حق ادا نہیں کرتا تو ان پر ظلم کا مجرم ٹھیرتا ہے۔ گویا عدل انفرادی اور معاشرتی سطح پر ایک مسلمان اور غیرمسلم دونوں کے لیے یکساں اہمیت رکھتا ہے اور صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے مذہب، نسل، لون و لسان کی قید سے ماورا ہوکر شریعت تمام انسانوں کے لیے عدل کا قیام چاہتی ہے۔ چنانچہ اگر یہ کہا جائے کہ بقیہ تمام مقاصد ِشریعت اور مقاصد ِ انسانیت ان اولین دو ناقابلِ تغیر اصولوں کی پیروی اور اتباع کرتے ہیں تو مبالغہ نہ ہوگا۔

اگر غور کیا جائے تو تیسرا اہم مقصد ِشریعت جو مقصد ِ انسانیت بھی ہے یعنی انسانی جان کا تحفظ و بقا، دونوں اوّلین اصولوں سے وابستہ ہے اور اسلامی ثقافت و فکر میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن کریم نے مختلف مقامات پر اس اصول کو واضح الفاظ میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے: ’’قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۳)۔مزید ’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اوروجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی‘‘۔ (المائدہ ۵:۳۲)

گویا قتلِ ناحق اولین تینوں مقاصد سے متصادم عمل ہے۔ یہ ایک جانب اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حرام کی ہوئی جان کا ضائع کرنا اور اس کی صریح حکم عدولی کی بنا پر توحید کی نفی کرتا ہے۔ دوسری جانب حق کے منافی ہونے کی بناپر عدل کے اصول سے ٹکراتا ہے۔ تیسری جانب انسانیت کی بقا وتحفظ کی جگہ انسانیت کی تباہی و بربادی کا باعث بنتا ہے۔ نتیجتاً جو تہذیب و ثقافت توحید، عدل اور حرمت ِ نفس کے مثبت اصولوں پر قائم ہوگی اس میں نہ صرف حاکمیت الٰہی اور ربوبیت ِ خداوندی کی بنا پر انسانوں کے طرزِعمل میں بغاوت و تکبر کی جگہ اطاعت و بندگیِ رب ہوگی بلکہ انسان اپنے ساتھ، اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ، اپنے اہلِ وطن کے ساتھ، اپنے سیاسی، معاشی اور ثقافتی معاملات میں عدل سے کام لیں گے اور انسانی جان کی حرمت کے سبب زمین میں فساد، دہشت گردی اور  بے گناہوں کا خون بہانے سے احتراز کریں گے۔ ایسی تہذیب و ثقافت میں تشدد، درندگی، حقوق کی پامالی اور ناانصافی کے بجاے امن، سکون، تحفظ اور انسانیت پائی جائے گی۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ دوسرے بنیادی اصول یامقصد (عدل) کے وسیع تر مفہوم پر غور کیا جائے تو سیاسی میدان میں افراد کا حق خود ارادیت، حقِ اجتماع، اظہار راے کی آزادی، تمام مناصب تک یکساں پہنچ، ملکی معاملات میں مشاورت میں شمولیت، سیاسی مسائل میں حق تنقید اور سیاسی رہنمائوں کا احتساب وہ بنیادی پہلو ہیں جن کے بغیر سیاسی عدل کا قیام نہیں ہوسکتا۔ ایسے ہی معاشی معاملات میں ایک فرد کا دولت پیدا کرنے کا حق، وراثت اور ہبہ کے ذریعے حصولِ مال، بازار میں مال کی افادیت کے پیش نظر معاشی دوڑ میں حصے کا حق، محنت کا جائز معاوضہ، ذخیرہ اندوزی کی ممانعت، دولت کی مصنفانہ تقسیم وہ بنیادی پہلو ہیں جو معاشی عدل کے قیام کے لیے شرط کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی قانونی نقطۂ نظر سے ایک شہری کا دوسرے کے مقابلے میں بغیر تفریق مذہب و ملّت انصاف کا حصول، قوانین کا شفاف ہونا، نفاذ قانون میں اصول پرستی، حکام اور قاضیوں کا اہل، غیر جانب دار اور عدلیہ کا مکمل طور پر آزاد ہونا عدل کے قیام کے لیے ضروری ہیں۔ عدل کے ثقافتی پہلو بھی کچھ کم اہم نہیں۔ اگر کسی قوم پر بیرونی ثقافت مسلط کردی جائے، اس پر غیرملکی زبان، روایات، رہن سہن لباس، حتیٰ کہ شعروادب بلکہ لطائف بھی کسی دوسری ثقافت و تہذیب سے مستعار لے کر ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس کے دل و دماغ میں اُتارنے کی کوشش کی جائے تو یہ عدل کے منافی ہے۔ اس وسیع تر تناظر میں توحید اور عدل دو ایسی بنیادیں اور اصول معلوم ہوتے ہیں جو بقیہ مقاصد کے ساتھ جوہری تعلق اور وابستگی رکھتے ہیں۔

توحید، عدل اور حرمت نفس کے اہم اور بنیادی مقاصد کے بعد اسلامی تہذیب و ثقافت کی چوتھی بنیاد اور مقصد ِ شریعت عقل و تمیز کی حریت ہے، یعنی شریعت ایسی تہذیب و ثقافت کا وجود چاہتی ہے جس میں انسان آزادیِ راے کا استعمال، دانش اور ہوش کی بنیاد پر کریں، جذبات میں اندھے ہوکر یا نشے میں مدہوش ہوکر نہ کریں۔ یہی وجہ ہے خمر (جو عقل کو ڈھانپ لے) یا سکر کو حرام قرار دیا گیا کہ شراب یا دیگر منشیات کا استعمال انسان کی عقل کو مائوف کردیتا ہے اور وہ سلامتیِ فکر اور آزادیِ راے کے ساتھ کوئی فیصلہ نہیں کرپاتا۔ ایک ایسی تہذیب و ثقافت کو جس کی بنیاد ہی شراب پر ہو اور جو شام ڈھلنے کا مقصد ہی یہ قرار دے کہ لوگ شراب خانوں، ناچ گھروں اور بُرائی کے اڈوں میں جاکر مدہوش ہوکر شام منائیں، ایک عقل دشمن اور فسق و فجور کی شائق تہذیب ہی کہا جاسکتا ہے۔

ایسی تہذیب و ثقافت عقل و دانش کے احیا و ترقی کی جگہ جذباتیت اور نفسانیت ہی کو فروغ دے سکتی ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت میں اس قسم کے طرزِعمل اور رویے کی کوئی گنجایش نہیں۔ اسلامی ثقافت و تہذیب ایک پاکیزہ، ہوش مند اور عقل ودانش پر مبنی ثقافت ہے جہاں علم، معرفت، ذکروفکر، بھلائی اور معروف کی اشاعت کی بنیاد پر اخلاقی رویوں کا تعین ہوتا ہے۔

پانچواں اہم مقصد شریعت اہلِ ایمان کے دین کا تحفظ و ترقی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم دین کی اصطلاح کو عبادات، مثلاً صلوٰۃ و زکوٰۃ، صیام اور عمرہ اور حج کے حوالے سے استعمال کرتا ہے اور ان کے متعین وقت پر توجہ اور شعور کے ساتھ ادا کرنے کو، نہ کہ میکانکی طور پر ان کی ادایگی کو، اسلامی تہذیب و ثقافت کی پہچان قرار دیتا ہے۔ قرآن کریم میں دین کی اصطلاح کو نہ صرف عبادت بلکہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورئہ نور میں فرمایا گیا کہ بداخلاقی کے مرتکب مرد اور عورت پر حد کا اجرا کیا جائے اور اس طرح دین کے قیام میں تکلف، تردّد یا معذرت نہ کی جائے۔ چنانچہ حدود کے اجرا کو دین قرار دے کر قرآن کریم نے اصطلاح کے اس پہلو کو اجاگر کردیا (النور ۲۴:۲)۔ دین کے قیام اور تحفظ کے حوالے سے یہ بات بھی قرآن کریم نے سمجھائی ہے کہ انسانوں پر انسانوں کی حاکمیت کی جگہ اللہ رب العزت کی حاکمیت کو قائم کرنا اور اس کے نام کو بلند کرتے ہوئے تمام سیاسی اختیارات میں اسے حرفِ آخر قرار دینا ہی درحقیقت دین ہے۔ چنانچہ سورئہ یوسف میں فرمایا گیا: ’’اے زنداں کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے، اس کو چھوڑ کر تم جس کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیںہیں کہ بس چند نام ہیںجو تم نے اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے اُن کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ حاکمیت و اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو، یہی صحیح اور مستحکم دین ہے‘‘۔ (یوسف ۱۲:۴۰)

گویا دین سیاسی اقتدار کو اللہ کی مرضی کے تابع کرنے کا نام ہے جو شریعت کا ایک بنیادی مقصد ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جہاں دین کا تحفظ و بقا دین اسلام کی برتری اور الحق ہونے سے تعبیر ہے وہیں اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو ان کے مراسمِ عبودیت کی مکمل آزادی اور تحفظ حاصل ہو۔ چنانچہ ان کے عبادت خانوں کا تحفظ اور ان کی مذہبی آزادی کا حق بھی شریعت کے مقاصد میں شامل ہے۔ یہ بات محتاجِ دلیل نہیں کہ غیرمسلم شہریوں کے حقوق بطور ایک شہری کے وہی ہیں جو مسلمانوں کے ہیں۔

کسی بھی مسلم ریاست کے غیرمسلم شہری ان تمام ریاستی حقوق کے مستحق ہیں جو عام حالات میں مسلمانوں کو ملتے ہیں۔ قرآن کریم یہ وضاحت کرنے کے بعد کہ دین، اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے، اہلِ کتاب حتیٰ کہ مشرکوں کو بھی اسلامی ریاست میں ان کے مراسمِ عبودیت سے محروم نہیں کرتا اور انھیں مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس حیثیت سے اسلام وہ واحد دین ہے جو اپنی حقانیت، کاملیت اور جامعیت کے باوجود دیگر مذاہب کے ساتھ ایک مسلسل مکالمے کی شکل اختیار کرتا ہے اور ان پر اسلام کو زبردستی نافذ نہیں کرنا چاہتا۔ صحیح معنوں میں اس طرزِعمل کو مذہبی کثرتیت (religious pluralism) بھی کہا جاسکتا ہے اور یہ پہلو بھی اسلامی تہذیب و ثقافت کی ایک  منفرد مثبت خصوصیت یعنی رواداری کی نشان دہی کرتا ہے۔

چھٹا مقصد شریعت انسانی نسل کی بقا اور انسانی عزت و وقار کا تحفظ ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسانی برادری میں تعلقات کی بنیاد اخلاقی اور قانونی رشتوں پر استوار ہو۔ چنانچہ شریعت کا ایک مقصد ان رشتوں کے احترام یا حُرمت کو برقرار رکھنا ہے۔ اس غرض کے لیے نکاح کا ادارہ قائم کرنا اور زنا کو حرام قرار دیا جانا آنے والی نسلوں کے تشخص و انفرادیت کو تحفظ دیتا ہے اور خاندان کے ادارے کو تہذیب و ثقافت کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ اگر انسانی جین (Gene) کا احترام نہ کیا جائے اور آزاد جنسی تعلقات کو ’انسانی حق‘ تسلیم کرلیا جائے تو معاشرے میں ایسے افراد کی کثرت ہوسکتی ہے جو بظاہر تو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہوں لیکن خود اپنے نقطۂ آغاز اور اپنی آفرینش کے مقصد تک سے واقف نہ ہوں اور نتیجتاً معاشرتی اور خاندانی رشتوں کے قائم نہ ہونے کے نتیجے میں معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی خاندان کا وجود معدوم ہوجائے اور بنیاد کے تباہ ہونے کے سبب خود تہذیب و ثقافت فطری موت سے ہمکنار ہوجائے۔ تہذیب و ثقافت معاشرے کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اور اگر انسانی معاشرہ ہی باقی نہ رہے تو ثقافت بھی برقرار نہیں رہ سکتی۔

ساتواں مقصد شریعت احترامِ مال ہے یعنی شریعت یہ چاہتی ہے کہ انسانی معاشرے میں معاشی عدل ہو، معاشی اخلاقیات پر عمل کے نتیجے میں ہر فرد کی ملکیت ظلم و استحصال سے محفوظ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ منصفانہ تقسیم دولت، وسائلِ فطرت سے استفادے کی آزادی اور معاشی لوٹ کھسوٹ سے تحفظ کا نظام پایا جائے۔ اس سے یہ مراد نہیں لی جاسکتی کہ اسلام اگر انفرادی حق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے تو شریعت کا جھکائو سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کی طرف ہے۔ اسلام جہاں انفرادی ملکیت کے حق کو بعض شرائط کے ساتھ تسلیم کرتا ہے وہاں ہر صاحب ِحیثیت فرد پر معاشرتی ذمہ داریاں  بھی عائد کرتا ہے تاکہ دولت کی گردش، تقسیمِ دولت اور ضرورت مندوں کی ضروریات کی تسکین میں کوئی فرق نہ آنے پائے۔

ان سات مقاصد کے علاوہ بھی دیگر مقاصد پر علماے فقہ نے بحث کی ہے اور تفصیلات سے آگاہ کیا ہے لیکن ہم یہاں صرف ان معروف مقاصد کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ مقاصد نہ صرف شریعت کے مقاصد ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں دین اسلام جیسی نعمت سے نوازا اور ہم سے قبل بنی اسرائیل کو ان ہی مقاصد کے حصول کے لیے تورات کی شکل میں شریعت دی، بلکہ اگر دیکھا جائے تو یہی مقاصد، مقاصدِ انسانیت بھی ہیں یعنی انسانیت کے اہداف اور اس کی منزلِ مقصود اور اس کے مطلوبہ انسان، معاشرہ، سیاسی نظام، معاشی نظام اور قانونی نظام کی بنیاد ہیں۔ یہی وہ اصول اور اہداف ہیں جن کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو اسلامی تہذیب و ثقافت وجود میں آتی ہے اور اس کی فکری، عملی سرگرمیاں ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنی تمام قوتوں کے ساتھ سرگرمِ عمل رہتی ہیں۔ جہاں یہ مقاصد اہلِ ایمان کو ایمان کے تقاضوں سے آگاہ کرتے ہیں وہیں یہی مقاصد غیرمسلموں کو انسانیت کے مقصد کے حوالے سے زندگی گزارنے کے لیے ایک عالم گیر اخلاقی ضابطے سے روشناس کراتے ہیں تاکہ غیرمسلم رہتے ہوئے بھی وہ اپنی زندگی میں وحدانیت پیدا کرسکیں۔ جادئہ عدل سے نہ ہٹیں اور اپنے معاملات میں انسانی زندگی بلکہ حیوانی اور ماحولیاتی زندگی کا بھی احترام کرنا سیکھیں۔

یہ مقاصد ِ شریعت ایک مسلمان کی زندگی کی تمام سرگرمیوں کے مقصد و منزل کا تعین کرتے ہیں۔ اپنی عالم گیریت اور مقاصد ِ انسانیت ہونے کے سبب یہ مقاصد غیرمسلموں کو بھی زندگی کے اہم معاملات میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے جو تہذیب جہاں کہیں بھی قائم ہوگی وہ اسلامی تہذیب و ثقافت کہلائے گی اور اس کے پھل نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ غیرمسلموں کے لیے بھی مفید ثابت ہوں گے۔

مقاصد کی اس مختصر گفتگو سے یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ اسلامی فکروثقافت دراصل الہامی ہدایت، شریعت اور اس کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ہی وجود میں آتی ہے۔ دین کی سرفرازی ہی ایک مومن کا مقصد ِ حیات ہے اور شریعت کا جامع اور مکمل طور پر نفاذ انسانیت کی فلاح اور ترقی کے لیے ایک لازمے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جبر اور زبردستی کے ساتھ محض چند سزائوں کے نفاذ سے نفاذِ شریعت کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ عمل ایک ثمربار تہذیب و ثقافت کی بنیاد اور نشوو ارتقا کے لیے قوتِ محرکہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب!


(ڈاکٹر انیس احمد کے سلسلہ وار مقالے ’اسلامی فکروثقافت کی قرآنی بنیادیں‘ کی یہ چھٹی اور آخری قسط ہے۔)