دنیاے علم و ادب کا درخشندہ ستارہ،تاریخ اسلام کا امین،سیرت رسولؐ اور سیرت صحابہؓ پر گراں قدر کتابوں کا مصنف ،درویش صفت اور انکسار کا پیکر ،فرزند اسلام طالب الہاشمی (۱۹۲۳ئ-۲۰۰۸ئ) ۱۶ فروری۲۰۰۸ ء کو ہم سے رخصت ہوگیا! انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔ منصورہ مسجد میں نماز فجر کے بعد اس عظیم شخصیت کی وفات کا اعلان ہوا تو تمام نمازیوں کی زبان پر انا للہ کے الفاظ آگئے۔بیش تر لوگ مرحوم سے بالمشافہہ نہ بھی ملے ہوں تو ایک بڑی تعداد ان کے نام سے آشنا اور ان کے علمی کارناموں سے واقف تھی۔
جناب طالب الہاشمی جن کا اصلی نام بہت کم لوگوں کومعلوم ہے، ۱۲ جون۱۹۲۳ء کو ضلع سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گائوں دھیدووالی نزد ڈسکہ میں پیدا ہوئے۔ان کے دادا مرحوم اس دور میں علاقے کے پڑھے لکھے اور معزز فرد تھے،جو مولوی نظام دین کے نام سے معروف تھے۔ مولوی صاحب کے بیٹے محمد حسین قریشی تھے جن کے ہاں اس ہونہار سپوت نے جنم لیا۔ انھوں نے اپنے نومولود کا نام محمد یونس قریشی رکھا۔
یونس صاحب کے والد چونکہ ڈاک خانے میں ملازم تھے،اس لیے ان کی ترغیب پر میٹرک کا نتیجہ آنے کے بعد ۱۹۴۳ء میں ڈاک خانے میں ملازم ہو گئے اور لاہور میں پوسٹ ماسٹر جنرل کے دفتر میں تعیناتی عمل میں آئی۔ میٹرک کے امتحان کے بعد انھوں نے فارسی اور عربی کے امتحانات: منشی فاضل اور ادیب فاضل بھی جامعۂ پنجاب سے بطور پرائیویٹ طالب علم پاس کیے۔ ان کا عربی اور فارسی کا ذوق بہت اچھا تھا۔ اپنی ملازمت کے دوران وہ معمول کے مطابق ترقی حاصل کرتے رہے اور ۴۰سال ملازمت مکمل کرنے کے بعد ۱۹۸۳ء میں ریٹائر ہوئے۔
جناب ہاشمی ،محمد یونس قریشی سے اس علمی و قلمی نام تک کیسے پہنچے،یہ بھی ایک دل چسپ کہانی ہے۔وہ کہا کرتے تھے کہ میں طالب ہاشمی نہیں،طالب الہاشمی ہوں۔میرا یہ نام محض عرف و پہچان نہیں بلکہ یہ با معنی انتخاب ہے۔ان کے نزدیک ان کا یہ نام مرکب توصیفی نہیں، مرکب اضافی ہے۔الہاشمی سے مراد النبی الہاشمی ہے اور طالب اپنے لفظی و لغوی معنیٰ کے مطابق طلب کرنے والے،ڈھونڈنے والے اور تلاش کرنے والے کا مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے۔اگر ان کی تحریروں کو دیکھیں تو ایک ایک لفظ نہ صرف نبی محترمؐ کی عقیدت و محبت کا ترجمان ہے بلکہ آنحضوؐر کے جاں نثاروں کی عقیدت و محبت بھی مرحوم کے قلم معجز بیان سے یکساں ہویدا ہے۔
طالب الہاشمی صاحب سے پہلی ملاقات تقریباً ۳۰ سال پہلے اردوبازار میں البدر پبلی کیشنز کے مالک عبدالحفیظ صاحب کی وساطت سے ہوئی۔اس وقت تک ہاشمی صاحب کی چند کتابیں اور ایک آدھ مضمون نظر سے گزرا تھا۔ سیرت صحابہ پر ان کا قلم رواں دواں تھا۔ان کا نام پڑھ کر جو خاکہ تصور میں آیاتھا ،وہ اس سے خاصے مختلف نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ موصوف اتنے بڑے ادیب اور قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ خاصے صحت مند انسان بھی ہیں۔ اس کے بعد ان سے وقتاًفوقتاً ملاقاتیں ہوتی رہیں۔جب میں ۱۹۸۵ء میں مستقل طور پر لاہور آگیا تو ہاشمی صاحب سے کبھی اردو بازار اور زیادہ تر منصورہ میں ملاقات کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ جب بھی ملاقات ہوتی خندہ پیشانی، خلوص و محبت اور اپنائیت سے پیش آتے، اور مہمان نوازی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ وہ بہت ملنسار اور مہمان نواز تھے۔
راقم نے اپنی استطاعت کے مطابق مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے اسماے عَلَم کو کسی حد تک ٹھیک تلفظ کے ساتھ پڑھنے کی تربیت پائی ہے۔اس کے باوجود اپنی کم علمی کی وجہ سے کبھی کبھارکسی اسم عَلَم کا غلط تلفظ زبان پر آجایا کرتا تھا۔ ایک روز محترم طالب الہاشمی میرے پاس تشریف لائے اور بڑی محبت سے فرمایا: ’’میں سوچ رہا تھا کہ آپ کو فون کر دوں مگر پھر خیال آیا کہ فون کیا کرنا، خود چلتا ہوں تاکہ ملاقات ادھوری نہیں پوری ہو جائے‘‘۔پھر آواز قدرے دھیمی ہوگئی۔ بولے:’’میں نے منصورہ مسجد میں آپ کی گفتگو سنی تھی،تاریخی واقعات کا بہت اچھا استحضار ہے لیکن ایک معمولی سی غلطی کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔آپ نے اپنی گفتگو میں ہِشام بن عمرو کو ہَشام کہا تھا،اس کی تصحیح ضروری ہے۔‘‘اگرچہ یہ معمولی سی بات ہے مگر اس سے ان کی شفقت اور اپنے سے کم تر لوگوں کی تربیت کا پہلو نکلتا ہے۔
سیرت پر طالب الہاشمی صاحب کی کتابیں پڑھنے سے قبل میں نے ۱۹۷۱ء میں سیرت صحابہؓ پر کچھ مضامین لکھے تھے اور میرا ارادہ اپنے ذوق کے مطابق اس میدان میں مزید کچھ لکھنے کا بھی تھا لیکن سچی بات یہ ہے کہ جب ہاشمی صاحب کی اسی موضوع پر کتابیں نظر سے گزریں تو میںنے سوچا کہ انھوں نے اردو زبان میں اس موضوع کا حق ادا کر دیا ہے۔ان کی عظمت دیکھیے کہ جب انھیں معلوم ہوا تو بار ہا فرمایا کہ ہر شخص کا اپنا انداز اور ذوق ہوتا ہے۔ایک ہی موضوع پر مختلف لوگوں کی تحریریں تکرار نہیں،تنوع کہلاتی ہیں۔آپ کو قلم نہیں روکنا چاہیے۔
سیرت نگاری کا محرک بھی ایک خاص واقعہ ہے۔ ہاشمی صاحب کے بقول: ایک بار وہ مطالعہ کرتے کرتے سو گئے۔ خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ جب بیدار ہوئے تو پسینے سے شرابور تھے اور شبلی نعمانی کی سیرت النبیؐ ان کے سینے پر تھی۔ اس واقعے کے بعد انھوں نے سیرت نگاری کو باقاعدہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔
ان کے کام کی وسعت، تحقیق کے اعلیٰ معیار کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ فردِواحد نے بغیر کسی اضافی سہولتوں کے تن تنہا اداروں سے بڑھ کر کام کیا۔ ان کا اسلوبِ بیان نہایت شُستہ، رواں اور مؤثر تھا۔ قاری ان کی تحریر پڑھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور حبِ رسولؐ کی کیفیت سے سرشار ہوجاتا ہے اور عمل کے لیے تحریک پاتا ہے۔ ان کے اٹھ جانے سے یقینا سیرت نگاری اور تاریخ نویسی کے میدان میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ ان کا کام خود اپنی جگہ تحقیق کے لیے ایک موضوع ہے۔
ہاشمی صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کے باوجود مطالعے اور محنت کی اپنی عادت کو بڑی جز رسی سے برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔انھوں نے تاریخ کے کم و بیش ہر پہلو پر قابل قدر کتابیں لکھیں لیکن ان کا اصل موضوع سیرت رسولؐ اور سیرت صحابہؓ ہے۔ تصانیف کی تعداد ۱۰۰ سے زائد ہے۔آنحضوؐر کی سیرت پر ان کی ایمان افروز تحریریں اب بھی منظر عام پر آرہی تھیں۔آخری کتاب،جس کی طباعت سے پہلے وہ خالق حقیقی سے جا ملے،آنحضوؐر کے خادمان خاص کے موضوع پر ہے۔آپ کی کتابوں پر آپ کو صدارتی اور ادبی ایوارڈ بھی ملے لیکن مرحوم نے ان کو کبھی اپنی پہچان یا افتخار کا ذریعہ نہ بنایا۔
مرحوم کا علمی و ادبی مقام ان اعزازوں کے بغیر ہی بہت بلند تھا۔ ان کی کتابیں مختلف اداروں نے چھاپی ہیں۔اہم کتابوں میںسے چند ایک کے نام یہ ہیں: lرحمت دارینؐ، آنحضوؐر کی سیرت پر اہم کتاب ہے lیہ تیرے پراسرار بندے، جس میں آنحضوؐر کے ۸۱ صحابہ اور ۴۰ مشاہیر ِامت کا تذکرہ ہے lرحمت دارینؐ کے سو شیدائی ،آنحضوؐر کے ۱۰۰ صحابہؓ کے حالات پر مشتمل ہے lتذکار صحابیات میں صحابیات کے ایمان افروز حالات ہیں lحبیب کبریا کے تین سو اصحاب کے نام سے ایک قیمتی دستاویز ہے lفوزوسعادت کے ایک سو پچاس چراغ بھی صحابہ کرام کے حالات بیان کرتی ہے۔
ان کے علاوہ اولیاء اللہ کے تذکرے ،مشہور تاریخی شخصیات کے واقعات ،بچوں کی کتابیں اور ادبی کتب بھی ہاشمی صاحب کے رشحاتِ قلم کی امین ہیں۔۴۰ جاں نثار،۵۰ صحابہ، ۷۰ستارے اور کئی دیگر کتب مرحوم کا صدقۂ جاریہ ہیں۔ برعظیم کے بزرگانِ دین بابا فریدالدین ،خواجہ نظام الدین اجمیری اور دیگر بزرگوں پر بھی قلم اٹھایا۔ ان کی کتابوں کی طویل فہرست ہے،جو ان کی بیش تر کتابوں کے آخر میں دیکھی جا سکتی ہے۔
عموماً جس کاغذ کو ردی سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے، اسے بھی وہ اپنی تحریروں کے لیے استعمال کر لیا کرتے تھے۔ یہ کفایت شعاری اور اشیاکا درست استعمال سنت رسول اور سنت خلفاے راشدین ہے۔وہ حساب کتاب کے بڑے جز رس تھے۔ہر چیز نوٹ بک میں درج کرتے۔بچوں کو کوئی پیسہ دیتے تو ان سے بھی یہی مطالبہ کرتے کہ وہ پورا حساب دیں۔ اپنے ناشرین کے ساتھ بھی ہرلین دین تحریراً کرتے اور باقاعدہ ریکارڈ رکھتے۔پرانے بزرگوں کی طرح انھوں نے کبھی کسی پر بوجھ بننا گوارا نہ کیا۔ اسلاف کی روایات کے مطابق اپنے کفن دفن کا خرچ بھی الگ لفافوں میں چٹیں لکھ کر محفوظ کر رکھا تھا۔ہاشمی صاحب نے بھرپور زندگی گزاری اور چلتے پھرتے، ہنستے مسکراتے بالآخر اپنی منزل سے ہم کنار ہو گئے!