اپریل ۲۰۰۸

فہرست مضامین

ووٹ: چند وضاحت طلب پہلو

مولانا عبد المالک | اپریل ۲۰۰۸ | بحث و نظر

Responsive image Responsive image

ترجمان القرآن کے ایک قاری نے میری تحریر ’ووٹ کی شرعی حیثیت‘ (دسمبر ۲۰۰۷ئ) کے حوالے سے درج ذیل وضاحت طلب نکات اُٹھائے ہیں:

۱-  سقیفہ بنی ساعدہ میں کچھ اصحاب الراے نے بحث و مباحثے کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے دستِ مبارک پر بیعت کرلی اور اگلے دن مسجد نبویؐ میںمہاجرین و انصار نے متفقہ طور پر بیعت کرکے اس کی توثیق کردی۔ اس پر یہ دعویٰ کرنا کہ ’’یہ بیعت بلاشبہہ آج کی اصطلاح میں انتخابی راے اور ووٹ کی حیثیت رکھتی تھی‘‘ درست نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا باشندگانِ ملک میں ایک ایک فرد کو ووٹ دینے اور کثرتِ راے سے باصلاحیت، خداترس اور دینی فہم و بصیرت رکھنے والوں کے انتخاب کا حق حاصل ہے، اور کیا ایسا ممکن بھی ہے؟ کچھ اصحاب الراے اور اعلیٰ درجے کی صلاحیت رکھنے والوں کا حضرت ابوبکرؓ کے دستِ مبارک سے بیعت کرلینا اور مقامی انصار و مہاجرین کی طرف سے اس کی توثیق اور شے ہے اور مملکت کے تمام باشندوں کو راے دہی کا حق دے کر ان کے ذریعے معاشرے کے بہترین افراد کا انتخاب کرانا بالکل دوسری شے۔

۲- یہ کہنا کہ ’’پاکستان میں مغربی جمہوریت نہیں بلکہ اسلامی جمہوریت ہے‘‘ آئین میں جو کچھ بھی لکھا ہے وہ اپنی جگہ عملاً یحییٰ خان اور پرویز مشرف جیسے حکمران ہی مسنداقتدار پر چلے آرہے ہیں۔

۳- قراردادمقاصد [مارچ ۱۹۴۹ئ] کی منظوری یقینا ایک عظیم کارنامہ ہے لیکن یہ غیرمؤثر ہے۔

۴- اسی جمہوریت کے تحت بعض اوقات ہمیں کمیونزم اور سیکولرزم کے علَم برداروں کو  ووٹ دینے اور ان کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اس کی کیا توجیہہ کی جاسکتی ہے؟


بعض امور کا اللہ تعالیٰ نے خود فیصلہ فرما دیا ہے۔ ان میں کسی دوسری راے کا اعتبار نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ امور اجتہادی نہیں ہوتے، ان کا فیصلہ عوام و خواص نہیں کرسکتے۔ ہمارا کام اللہ کے اس فیصلے کو سمجھنا اور پھر عمل درآمد کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اگر کسی کو حق دیا ہے تو ہم اسے ساقط نہیں کرسکتے۔ میری تحریر ’ووٹ کی شرعی حیثیت‘ کو پڑھنے کے بعد بعض وضاحت طلب امور اس لیے سامنے آئے کہ دین کے بعض بنیادی امور کو پیشِنظر نہیں رکھا گیا۔

اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ نبی اور رسولؐ، اللہ کا نامزد کردہ حکمران ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِط (النسائ۴:۶۴) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اسی لیے بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔

اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی کو زندگی کے تمام شعبوں: عقائد، عبادات، معاشرت، معیشت، تمدن، سیاست میں مطاع بناکر بھیجا گیا ہے۔ قرآن وسنت میں زندگی کے تمام شعبوں کے لیے احکام دیے گئے ہیں۔ ان شعبوں میںسے کسی ایک شعبے اور حکم کا انکار کفر ہے۔ جب کسی بات کا انکار کفر ہے تو اس کا معنی اس کے سوا اور کیا ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کامل مطاع ہیں اور آپؐ کے دیے ہوئے نظام کے ہر کلیے اور ہر جزئیے کو قبول کرنا لازم ہے۔ دین کے کسی بھی  ثابت شدہ حکم کو ایمان و اطاعت سے مستثنیٰ کردیا جائے تو اس سے استثنا کرنے والا کافر ہوجاتا ہے۔ پس ہر وہ اطاعت جو آپؐ کی اطاعت سے ٹکرائے، اور ہر وہ حکم جو آپؐ  کے حکم سے ٹکرائے اسے   رد کردینا ایمان کا تقاضا ہے۔ نبی انسانوں کا انتخاب نہیں، اس کے لیے ووٹنگ نہیں ہوتی بلکہ     وہ اللہ تعالیٰ کا منتخب اور نامزد کردہ ہوتا ہے۔یہ بات دین میں قطعیت سے ثابت ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ کی طرف سے نامزد اور منتخب حکمران اُمتِ مسلمہ ہے۔ گو دنیا میں کفار و مشرکین، یہود و ہنود نے اپنی حکومتیںقائم کی ہوئی ہیں، لیکن  قرآن و سنت اور شریعت کی رو سے حکمرانی ان کا حق نہیں، بلکہ اُمت مسلمہ کا حق ہے۔ اُمت مسلمہ کی حکمرانی اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے۔ اس لیے اُمت کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے بھی مختلف قوموں اور اُمتوں سے ووٹ اور راے لینے کی ضرورت نہیں، بلکہ یہ بھی قرآن وسنت سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہے اور اس پر اُمت کا اجماع ہے۔ یہ بھی اجتہادی مسئلہ نہیں ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ اُمت مسلمہ کے اس حق حکمرانی میں، اس کے تمام افراد شامل ہیں۔ اس حق سے کسی کو محروم کرنا دراصل حق دار کو اس کے حق سے محروم کر کے اس پر ظلم و زیادتی کرنا ہے۔ نبی کریمؐ نے اس کی پیشن گوئی بھی فرمائی کہ پہلا دور نبوت کا ہے، دوسرا دور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا، تیسرا دور ملوکیت کا، پھر چیرپھاڑ کرنے والی بادشاہت کا، پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا دور ہوگا۔ خلافت اور ملوکیت میں فرق یہ ہے کہ خلافت میں انتخاب ہوتا ہے، جب کہ ملوکیت میں باپ کے بعد بیٹا حکمران ہوتا ہے۔ (دیکھیے خلافت و ملوکیت، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ۔ معارف القرآن ، مفتی محمد شفیعؒ، تفسیر آیت وامرھم شوریٰ بینھم)

اُمت مسلمہ کے گناہ گار، نیک اور نیکی میں سبقت کرنے والے تمام طبقات اور تمام افراد  حق حکمرانی رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی قرآن و سنت میں قطعیت سے ثابت ہے۔ اجتہادی مسئلہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا ج فَمِنْھُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ ج وَمِنْھُمْ مُّقْتَصِدٌ جوَ مِنْھُمْ سَابِقٌم بِالْخَیْرٰتِ بِـاِذْنِ اللّٰہِط(فاطر۳۵:۳۲) پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنایا اپنے ان بندوں کو جن کو ہم نے چن لیا۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جو اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں، یعنی گناہ گار ہیں (اس کتاب اور دین کے منکر نہیں لیکن اس پر پوری طرح عمل نہ کر کے اپنے اُوپر ظلم کرتے ہیں)، دوسرے  وہ ہیں جو اس پر عمل کرنے میں میانہ رو ہیں، تیسرے وہ ہیں جو اس کتاب پر عمل کرنے میں اللہ کے اذن سے آگے آگے ہیں۔

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُـؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط(اٰل عمرٰن۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

یہ تمام آیات اُمت مسلمہ کے حق حکمرانی کو ثابت کررہی ہیں۔ جب اُمت مسلمہ اور اس کے ہر فرد کے لیے حق حکمرانی ثابت ہے تو اس سے خود بخود یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اُمت پر فرض ہے کہ اپنی حکومت تشکیل دے۔ ہمارے فقہا نے قرآن و سنت سے یہی سمجھا ہے درمختار میں ہے: ونصبہ من اھم الواجبات ولذ اقدم علی دفن صاحب المعجزات ’’اُمت کی طرف سے خلیفہ اور امام کا تقرر اہم فریضوں میں سے ایک اہم فرض ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین پر اسے مقدم رکھا گیا‘‘۔

اُمت مسلمہ اپنی حکومت کی تشکیل کے لیے کیا طریقۂ کار اختیار کرے گی؟ اس کا عقل اور شریعت دونوں یہ جواب دیتے ہیں کہ اس کے تمام افراد باہمی مشورے سے اپنی حکومت تشکیل دیں گے۔ ہر فرد اپنا حقِحکمرانی شریعت کی رو سے حکمرانی کی اہلیت رکھنے والے شخص کو سپرد کرے گا۔   یہ طریقۂ کار ووٹ کہلاتا ہے۔ ووٹ کی ایک حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹر جسے ووٹ دیتا ہے اسے اپنا وکیل اور نمایندہ بناتا ہے۔ ووٹ کی ایک حیثیت شہادت کی ہے۔ ووٹر گواہی دیتا ہے کہ جس کو میں نے ووٹ دیا ہے، وہ شرعاً نمایندگی اور حکمرانی کا حق رکھتا ہے، اور ووٹ کی تیسری حیثیت سفارش کی ہے کہ جسے ووٹ دیا جائے اسے حکمران بنایا جائے۔ مفتی محمد شفیعؒ نے فرمایا ہے کہ   ’’نبیؐ کے بعد خلیفہ کا تقرر انتخاب ملت سے ہوگا‘‘ اور ووٹ کی مذکورہ تین حیثیتوں پر انھوں نے فتویٰ دیا۔ (معارف القرآن، آیت خلافت ، البقرہ ۲:۳۰)

اسی اصول کو پیش نظر رکھ کر نمایندوں کی تعداد مقرر کر دی جاتی ہے اور عوام سے کہا جاتا ہے کہ اتنے نمایندے منتخب کردیں۔ (یہ امر اجتہادی ہے اسی میں کمی بیشی ہوسکتی ہے) پھر نمایندے میدان میں آجاتے ہیں۔ ان میں سے مطلوبہ تعداد کو عوام منتخب کرتے ہیں۔ اسمبلیاں وجود میں آجاتی ہیں، اسمبلیاں وفاقی اور صوبائی اور ضلعی حکومتیں منتخب کرتی ہیں۔ عقل بھی اسی طریقۂ کار کا تقاضا کرتی ہے اور شریعت کا بھی یہی حکم ہے۔ سورۂ شوریٰ میں ہے: وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ (الشوریٰ ۴۲:۳۸)، اور ان کی حکومت ان کے باہمی مشورے سے بنتی ہے۔ اس دور میں باہمی مشورے کی ایک شکل ووٹ ہے۔ خلافت راشدہ کے دور میں مہاجرین و انصار کی قیادت مسلمہ قیادت تھی۔ عوام ان کے فیصلے کو قبول کرتے تھے، اس پر راضی ہوتے تھے اور ان فیصلوں کی توثیق کرتے تھے۔ بیعت عامہ کے ذریعے اعتماد کا ووٹ دیتے تھے لیکن اب عوام براہِ راست ووٹ کے حق کے بغیر راضی نہیں ہوتے۔ آپ کے نزدیک اگر یہ طریق کار صحیح نہیں ہے تو یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہماری بیان کردہ تین مسلّمہ باتوں میں سے کسی ایک مسلّمہ بات سے انکار کردیں، لیکن یہ تینوں باتیں قرآن و سنت اور اجماع اُمت سے ثابت ہیں۔ ان کا آپ انکار نہیں کرسکتے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُمت مسلمہ کے تمام افراد کے بجاے کسی طبقے کو حکومت کی تشکیل کے لیے نامزد کردیا گیا تھاتو اس کی نشان دہی کی جائے کہ وہ کون سا ہے؟

جب یہ تمام اصول قرآن و سنت سے ثابت ہیں، فقہاے اسلام نے ان پر فتویٰ دے دیاہے تو آپ کا یہ سوال خود بخود ختم ہوجاتا ہے کہ کیا باشندگانِ ملک میں ایک ایک فرد کو ووٹ دینے اور کثرت راے سے باصلاحیت، خداترس اور دینی فہم و بصیرت رکھنے والوں کو منتخب کرنے کا حق حاصل ہے اور کیا ایسا ممکن بھی ہے؟ جہاں تک سقیفہ بنی ساعدہ کی اس بیعت کا تعلق ہے جس میں مقامی انصار و مہاجرین نے توثیق کر دی اور ملک بھر کے اہلِ ایمان اس پر راضی ہوگئے تو یہ ایک طرح سے ووٹ ہی ہے کیونکہ ووٹ کا معنی اپنی رضامندی دینا ہے۔ اس فیصلے کی توثیق کر کے تمام مہاجرین اور انصار نے اپنی رضامندی دے دی تو یہ اس وقت ووٹنگ کی ایک شکل تھی۔ اس لیے قریب اور دُور دراز سے آنے والوں نے بیعت کر کے اپنی رضامندی ظاہر کردی۔ حضرت علی ؓ نے جب تک بیعت نہ کی اور اپنی رضامندی ظاہر نہ کی تو اس وقت تک یہی سمجھا گیا کہ وہ راضی نہیں، لیکن حضرت علیؓ نے ناراضی کی وجہ یہ بیان کی کہ انھیں شوریٰ میں شریکِ نہیں کیا گیا تو انھیں یہ کہہ کر مطمئن کیا گیا کہ ہنگامی حالت کی وجہ سے انھیں شریک مشورہ نہیں کیا جاسکا۔ جب وہ مطمئن ہوگئے تو انھوں نے بھی بیعت کرلی۔ اس بیعت کو تمام مسلمانوں کی طرف سے رضامندی ملنا، تاریخی حقیقت ہے اور نبی کریمؐ کی پیشن گوئی بھی ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں چاہت کے باوجود حضرت ابوبکرؓ کو اس لیے نامزد نہیں کرتا کہ اللہ کی تقدیر بھی ابوبکرؓ کے حق میں ہے اور اہلِ ایمان بھی ابوبکرؓ ہی کو منتخب کریں گے۔ یَابَی اللّٰہُ وَالْمُؤْمِنُوْن اِلَّا اَبَابَکْرٍ ’’اللہ اور ایمان والے ابوبکر کے سوا کسی کی خلافت کا انکار کردیں گے‘‘۔ یہاں والمؤمنون کی صراحت ہے جس کا مصداق جملہ اہلِ ایمان تھے۔ آپ کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ انتخاب کی کوئی مخصوص شکل مطلوب نہیں۔ اصل مطلوب اہلِ ایمان کا مشورہ اور تمام اہلِ ایمان کی رضامندی ہے اور وہ کسی بھی طریقے سے حاصل ہوسکتی ہو، اور حاصل کی جانی چاہیے۔

خلافت راشدہ میں اہلِ ایمان کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے مختلف شکلیںاختیار کی گئیں۔ اُس وقت جو طریقۂ کار اختیار کیاگیا ہے اسے اس وقت اُمت نے قبول کرلیا تھا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ مہاجرین و انصار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلامی حکومت قائم کرنے اور چلانے میں تابع کی حیثیت سے شریک تھے۔ نبی کریمؐ اور قرآن نے یہ قیادت تیار کی تھی۔ یہ قیادت جو فیصلہ کرتی تھی اسے مسلمان اپنا مینڈیٹ دے دیتے تھے۔ آج جو ووٹ کی شکل رائج ہے اس کا بھی گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو وہ بھی سقیفہ بنی ساعدہ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ سقیفہ بنی ساعدہ نے حضرت ابوبکرؓ کو منتخب کیا تھا، پھر مسلمانوں نے بیعت کر کے اس کی توثیق کردی۔ آج کل پارٹیاں کسی کو نامزد کرتی ہیں تو عوام پارٹی کے نمایندے کو ووٹ دے کر اس پارٹی کے فیصلے کی توثیق کرتے ہیں۔ یورپ میں تو ملوکیت تھی، ان میں جمہوریت کا تصور اسلام سے آیا۔ ووٹ کا طریقہ یورپ نے ملوکیت کو ختم کر کے شروع کیا۔

رہی یہ بات کہ آج تک ایک فرد اور ایک ووٹ کے ذریعے ایسے لوگ آگے نہیں آئے جو اسلامی حکومت چلانے کے اہل ہوں، قرارداد مقاصد اور آئین پاکستان کی رو سے نیک اور صالح لوگوں کو منتخب کرنے کا جو راستہ دکھلایا گیا، اسے عملی جامہ نہیں پہنایا گیا تو اس میں راستے کا قصور نہیں بلکہ عوام کی تربیت کرنے، عوام کو دعوت دینے اور انھیں برے بھلے کی تمیز سکھانے والوں کا ہے۔ اس کا علاج یہ نہیں کہ اس راستے کے خلاف، جو ایک محفوظ اور درست راستہ ہے، شور مچایا جائے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو وسیع پیمانے پر تعلیم دی جائے اور باشعور بنایا جائے۔ عوام کا باشعور ہونا کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیادی ضرورت اور ناگزیر تقاضا ہے۔ نظامِ تعلیم، ذرائع ابلاغ، غرض راے عامہ کی ہمواری کے جتنے بھی ممکنہ ذرائع ہوں ، ان کو اس کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ یقینا باشعور عوام ہی ایک بہتر فیصلہ کرپائیں گے۔ عوام کو ان کا فرض بھی یاد دلایا جائے، اور  ان کو بتایا جائے کہ اپنا فرض صحیح طریقے سے ادا کرو گے تو دنیا میں اس کا پھل اسلامی حکومت کی شکل میں اور آخرت میں جنت کی شکل میں ملے گا۔ اگر صحیح لوگوں کو منتخب نہ کرو گے تو دنیا اور آخرت دونوں میںرسوائی ہوگی۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان کے طور پر لوگوں کو آزادی اور اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اسلامی حکومت قائم کریں۔ اللہ تعالیٰ خود بخود اسلامی حکومت اس لیے قائم نہیں کرتے کہ لوگوں کو اجروثواب اور جزا و سزا ملے۔ اگر لوگ اسلامی حکومت نہیں چاہتے اور قائم نہیں کرتے تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماریں، یا مسلح جہاد کے ذریعے تبدیلی لائیں، یا کسی فوجی جرنیل کے ہاتھ پر بیعت کریں، یا جبراًشریعت کا نفاذ کریں۔ یہ اسلام کی منشا کے خلاف ہے۔

شریعت کو نظرانداز کرکے جن لوگوں نے ووٹ دیا، انھوں نے صحیح فیصلہ نہیں کیا۔ ان کا فیصلہ معتبر ہے یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ شریعت کو نظرانداز کر کے ووٹ دیں گے،    وہ گناہ گار ہوں گے، ان کا فیصلہ شریعت کی رو سے معتبر نہیں ہے۔ قرارداد مقاصد نے ان کو ووٹ کا غیرمشروط حق نہیں دیا، بلکہ اسے قرآن و سنت کی حدود کا پابند بنایا ہے۔ ہم پبلک کے فیصلے کو عملاً ردکرنے کی طاقت نہیں رکھتے، اس لیے ہم حکومت تو تسلیم کرتے ہیں لیکن اسے اسلامی، شرعی اور جائز حکومت تسلیم نہیں کرتے۔ وہ اس طرح کی حکومت ہے جس طرح دنیا میں دوسری حکومتیںقائم ہیں، جو ایک زمینی حقیقت کی حیثیت سے مسلّم ہیں لیکن وہ شریعت کی رو سے ناجائز ہیں۔

ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ پاکستان میں برسرِاقتدار رہنے والی حکومتیں شرعاً معیاری حکومتیں تھیں۔ اگر آئین پاکستان کی دفعات ۶۲/۶۳ پر عمل کیا جائے تو موجودہ پارٹیاں اور ان کے سربراہ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود منتخب نہ ہوسکیں گے ،اور ان کا انتخاب کالعدم قرار پائے گا۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جمہوریت کی وجہ سے بسااوقات ہمیں اسلام مخالف نظریات کی حامل جماعتوں کا ساتھ بھی دینا پڑتا ہے تو یہ ایک عملی مسئلہ ہے اور ترجیحات کی بنیاد پر اس کا تعین کیا جاتا ہے۔ اسلام میں بھی حالات کے پیش نظر بڑی برائی کے مقابلے میں کم تر برائی کو ترجیح دینے کی ہدایت دی گئی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس بات کو ایک مثال سے یوں سمجھایا تھا کہ اگر کسی چوراہے میں بڑا سا پتھر آجائے اور رکاوٹ پیدا ہوجائے تو پہلی ضرورت اس رکاوٹ کو   دُور کرنا ہے۔ اس کے بعد ہی ٹریفک چل سکتی ہے۔ اگر آمریت کے خاتمے کے لیے جمہوری قوتوں کا ساتھ دینا پڑے تو یہ ایسی ہی مجبوری ہے۔ آزادیِ اظہار ہوگی تو دعوت عام ہوسکے گی اور عوام میں حقیقی شعور بیدار کیا جاسکے گا۔ لہٰذا اس قسم کا اشتراک مشروط ہوتا ہے اور یہ بہ امر مجبوری ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ اصولی ہدف حاصل کرنے کے لیے یہ ایک عملی پہلو ہے۔ اس حوالے سے نبی کریمؐ کے اسوہ میں بھی ہمارے لیے عملی نمونہ موجود ہے۔

خیال رہے کہ جو لوگ انتخاب کے قائل نہیں، انتخاب کے مقابلے میں نظامِ خلافت کی بات کرتے ہیں، وہ یہ نہیں بتلا سکتے کہ نظامِ خلافت کیسے قائم ہوگا، اور اسے کون قائم کرے گا؟    نظامِ خلافت قائم کرنا مسلمانوں کے کسی خاص گروہ پر فرض ہے توو ہ کون سا ہے، اور اگر سب مسلمانوں پر فرض ہے تو وہ اپنے فرض کو کیسے ادا کریں گے؟

اس بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کا سیاسی نظام شورائی نوعیت کا ہے۔ حکومت سازی عوام کی راے اور تائید سے ہوگی۔ جبر یا آمریت کی اسلام میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ البتہ اسلام نے حکومت سازی کی کسی مخصوص شکل پر اصرار نہیں کیا۔ ماضی میں اگر خلافت کا نظام رائج تھا تو آج انسانی دانش نے بہت سے تجربات سے گزرنے کے بعد عوامی تائید کے ساتھ حکومت سازی کے لیے جمہوریت کا نظام اخذ کیا ہے جو اسلام کی روح کے قریب ہے۔ جمہوریت کو قرآن وسنت کے تابع قرار دینے سے اس کی لادینیت کا سدباب بھی کردیا گیا ہے۔ تبدیلیِ حکومت کے لیے یہ ایک عملی راستہ ہے۔ اگر عوام میں حقیقی معنوں میں شعور بیدار کردیا جائے جوخود اسلام کا تقاضا بھی ہے تو جمہوری نظام کے ذریعے ایک اسلامی اور فلاحی حکومت کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

ایک بات جس کا خاص طور پر خیال رکھا جانا چاہیے، وہ یہ ہے کہ جس مسئلے پر علما اور اہلِ علم کی طرف سے قرآن و سنت کی روشنی میں واضح موقف سامنے آجائے تو اس کو شرح صدر سے قبول کرلینا چاہیے ، اور اگر کسی مسئلے میں ایک سے زیادہ آرا پائی جاتی ہوں اور واضح طور پر حرام بھی نہ ہو تو ایک راے پر اصرار کرنا اور دوسری راے کو قطعی غلط قرار دینا شرعاً جائز نہیں۔ اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ ہی صائب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں انتہاپسندی سے محفوظ رکھے۔ آمین!