اپریل ۲۰۰۸

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | اپریل ۲۰۰۸ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت علی بن ربیعۃ سے روایت ہے، فرماتے ہیں میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس موجود تھا، وہ اپنی سواری پر سوار ہونے کے لیے تشریف لائے، جب رکاب میں پائوں رکھا تو   بسم اللہ پڑھی، جب پشت پر بیٹھ گئے تو الحمدللہ کہا، پھر یہ دعا پڑھی: سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ o وَاِِنَّـآ اِِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنo (الزخرف۴۳: ۱۳-۱۴) پھر تین مرتبہ الحمدللہ کہا، پھر تین مرتبہ اللہ اکبر کہا، پھر یہ دعا پڑھی: سبحانک اللھم، انی ظلمت نفسی فاغفرلی فانہ لا یغفر الذنوب الا انت،’’اے اللہ! تو تمام عیبوں سے پاک ہے، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، پس میری مغفرت فرما دے، گناہوں کو تیرے سوا کوئی بھی معاف نہیں کرسکتا‘‘۔ پھر حضرت علیؓہنس پڑے۔عرض کیا گیا: امیرالمومنین، آپ کس چیز پر ہنس پڑے؟ انھوں نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا جس طرح میں نے کیا۔ پھر آپؐ ہنس پڑے تھے، تو میں نے عرض کیا تھا: یارسولؐ اللہ! آپ کس چیز پر ہنس پڑے تو آپؐ نے فرمایا: آپ کے  رب اپنے بندے پر تعجب فرماتے ہیں جب وہ کہتا ہے ’’میرے گناہوں کو بخش دیجیے‘‘۔ بندہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے سوا کوئی نہیں بخشتا۔(بندے کی توبہ اور اللہ تعالیٰ کی بخشش پر خوش ہوکر میں ہنسا)۔ (ابوداؤد، ترمذی)

تعجب معمولی چیز پر نہیں بلکہ بہت بڑی اور عجیب وغریب چیز پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کسی چیز پر تعجب کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ چیز بڑی عظمت رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو بہت پیاری ہے۔    اللہ تعالیٰ اس پر بہت راضی اور خوش ہیں۔ بندے کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے، وہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی اطاعت فرض ہے،اس کی خلاف ورزی گناہ ہے، اس پر وہ سزا کا مستحق ہے، اسے اپنے گناہوں کا احساس ہو اور وہ اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگے، اس عقیدے کے ساتھ کہ وہی گناہوں کو بخش سکتا ہے کوئی دوسرا نہیں اس لیے کہ گناہ کرنا اس کی حق تلفی ہے اور اپنی حق تلفی کو وہی معاف کرسکتا ہے۔ یہ سوچ اور یہ نظریہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑی قدرومنزلت رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ ایسے بندے سے راضی ہوتے ہیں اور گناہوں کو معاف کردیتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ آپ کی امت اور اس کے افراد اپنے رب کی معرفت رکھتے ہیں، اس سے دعائیں کرتے ہیں، آپ خوش ہوئے کہ آپ اپنی اُمت کے ہر ہر فرد کے لیے رحیم و شفیق ہیں اور آپ کے لیے خوشی کی بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر استغفار اور توبہ کرنے والے کے گناہ کو معاف کردیتے اور اس کی توبہ قبول کرلیتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت پر کس قدر مہربان ہیں، آپ اپنی اُمت سے کیا چاہتے ہیں؟ یہی کہ اُمت اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کرے، اس کے حکموں کو بجا لائے اور کوئی گناہ ہوجائے تو اس کا ازالہ گناہ پر ندامت، گناہ سے استغفار اور آیندہ گناہ سے باز آجانے کا عزم کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی اسی میں ہے۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص جو جنگل و بیابان میںایک درخت کے نیچے تھوڑی دیر کے لیے سو گیا، اُٹھا تو دیکھا کہ اُونٹنی سازوسامان کے ساتھ غائب ہے، دُور دُور تک اس کا نام و نشان نہیں، مایوس ہوکر لیٹ جاتا ہے اور موت کے لیے تیار ہوجاتا ہے، دوبارہ اٹھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اُونٹنی سازوسامان کے ساتھ موجود ہے، یہ شخص اس قدر خوش ہے کہ خوشی میں اللہ کو پکارتا ہے لیکن الفاظ جو منہ سے نکلتے ہیں، ان میں بہک جاتا ہے، اس آدمی کو جس قدر خوشی ہے اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔

آج ہماری آزادی اور خودمختاری ختم ہوگئی، جسمانی اور روحانی طور پر ہمیں قتل کیا جا رہا ہے۔ معیشت تنگ ہوگئی ہے، لوگ بھوک و افلاس سے تنگ آکر بے چینی اور پریشانی کی انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور اسلامی اقدار و شعائر کی تحقیر کی جارہی ہے۔ یہ سب ہماری سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ آج اللہ تعالی کی رضا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی اسی بات میں ہے کہ ہم اپنی ان پالیسیوں پر نادم ہوجائیں، ان پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں اور آیندہ کے لیے انھیں ترک کر دینے کا مستقل طور پر عزم کریں۔ ہے کوئی جو آج اللہ تعالیٰ کو راضی اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کردے، توبہ کرے اور حکمرانوں کو توبہ پر متوجہ اور مجبور کردے۔ یہی وہ راستہ ہے جس میں ہمارے تمام مصائب و مشکلات کا حل ہے۔

۲- صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا کی پوری طرح اور ہوبہو نقل کرتے تھے، آپؐ کی عبادات، معاشرت، معیشت، سیاسیت، حکومت، عدالت اور ہر نشست و برخاست اور ہر ادا کو یاد کرتے اور   اسی طرح سے اسے اپنانے کی کوشش کرتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پاک کا عملی نمونہ تھے اور صحابہ کرامؓ اور آپ کی سیرت و اسوۂ حسنہ کا عکس تھے، آج نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دعواے محبت تو ہے لیکن زندگی کے اجتماعی اور انفرادی معاملات میں آپؐ کی اتباع نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے کو دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاشرہ یاد نہیں آتا، اس کے بجاے ہم مغرب کی نقالی کر رہے ہیں جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: تم اپنے سے پہلوں کے طریقوں پر اس طرح برابر ہوکر چلو گے جس طرح ایک جونہ دوسرے جونے کے ساتھ برابر ہوتا، یہاں تک کہ اگر ان میں سے ایک گوہ کے سوراخ میں داخل ہوا تو تم بھی اس میں داخل ہوگے۔ آپؐ سے پوچھا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: وہ یہود و نصاری کے سوا اور کون ہوسکتا ہے؟ آج ہماری پارٹیاں، ہماری اسمبلیاں اور ہمارے گھر اور شہر سب مغربی زندگی کا عکس بن چکے ہیں۔ کاش ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دور کو اپنے لیے ماڈل اور آئیڈیل بنا لیں۔ صحابہ کرامؓ حضرت علی ؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ادائوں کو اپنی ادائیں بنا لیں۔

o

حضرت کعب بن عجرہؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک آدمی کا گزر ہوا۔ صحابہؓ رسولؐ نے اس کی ڈیل ڈول، قوت اور چستی اور مستعدی کو دیکھ کر کہا: یارسولؐ اللہ! کاش یہ جہاد فی سبیل اللہ میں استعمال ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی پرورش کے لیے نکلے تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہے۔ اگر اپنے بوڑھے، ماں باپ کی خدمت کے لیے دوڑ دھوپ کرے تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہے، اگر اپنے نفس کی خاطر دوڑدھوپ کرے کہ اسے سوال اور گناہ سے بچائے تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہے اور اگر دکھاوے اور دوسروں پر بڑائی جتانے کے لیے جہاد میں نکلا تو یہ شیطان کی راہ میں نکلنا ہے۔ (طبرانی)

انسان دنیا میں ایک مقررہ وقت کے لیے آیا ہے۔ اس نے دنیا میں رہنا ہے اور زندگی گزارنا ہے،   اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنا ہے اور اس کے دین کی سربلندی لیے جہاد بھی کرنا ہے۔ رزق حلال کے لیے دوڑدھوپ کرنا، اپنی ضروریات،اپنے اہل و عیال، والدین اور قرابت داروں کے نان و نفقہ اور رہایش اور بنیادی ضروریات کے لیے شرعی حدود، حلال و حرام، جائز و ناجائز کا خیال رکھتے ہوئے جدوجہد کرنا اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ ہے جس طرح دین کی سربلندی اور ادیانِ باطلہ کو مغلوب کرنے کے لیے دعوت و تبلیغ، تعلیم و تربیت،قلم و قرطاس اور تیروتلوار سے کام لینا جہاد فی سبیل اللہ ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر اور فرض ہے جس طرح جہاد فی سبیل اللہ فرض ہے، اور فرض کو    ادا کرنا جہاد ہے۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ ہی عبادت اور جہاد نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں    ذمہ داریاں ادا کرنا عبادت اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ جب آدمی کھیت، دکان اور کرسیِ صدارت، وزارت، عدالت پر بیٹھ کر اس تصور سے کام کرے گا کہ میں عبادت کر رہا ہوں تو وہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا، کسی کا حق نہیں مارے گا، کسی کے حق کی ادایگی میں سُستی نہیں کرے گا، رشوت نہیں لے گا، غبن اور خیانت نہیں کرے گا۔ اللہ کے احکام اور قوانین کو مدنظر رکھے گا، پارلیمنٹ کا ممبر قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کی جسارت نہیں کرے گا۔ قرآن و سنت کو سپریم لا جانے گا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معاشرہ قائم فرمایا، خلافت راشدہ میں جو معاشرہ ہمیں نظر آتا ہے وہ اسی تصور اور نظریے کا نتیجہ ہے۔ ایثار کا معاشرہ، خود بھوکا رہ جانا مہمان بھوکا نہ رہے، خود پیاسا رہ جانا لیکن ساتھی اور پڑوسی پیاسا نہ رہے ایسے معاشرے میں لوٹ کھسوٹ نہیں ہوتی۔ ایسا بھی نہیں ہوتا کہ قصرِصدارت اور قصرِوزارت اور وزرا اور افسران کروڑوں اور لاکھوں میں کھیلیں، اسراف و تبذیر کا نمونہ ہوں اور دوسری طرف لوگ بھوکے اور ننگے فقروفاقہ اور بھوک اور ننگ کی زندگی بسر کریں۔ کاش عبادت کا یہ تصور ہماری زندگی کی گاڑی کا انجن ہوجائے۔ اسی کے نتیجے میں برائیاں مٹیں گی اور بھلائیاں فروغ پائیں گی۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ایک آدمی کا گزر درخت کی ایک شاخ کے پاس سے ہوا جو راستے کے بیچ میں پہنچی ہوئی تھی، اس نے دل میں کہا: میں اس شاخ کو مسلمانوں کے راستے سے دُور کروں گا تاکہ انھیں تکلیف نہ دے، اس کے عوض اسے جنت میںداخل دے دیا گیا۔ (مسلم، کتاب البروالصلۃ)

آج دنیا میں اُمت مسلمہ کو طرح طرح سے ایذائیں دی جارہی ہیں۔ ان کا دین، جان و مال اور عزت و آبرو بے دریغ طور پر پامال کیے جارہے ہیں۔ ان کے ممالک پر قبضے کر کے ان کا قتلِ عام کیا جارہا ہے۔ یہ اس ایذا سے کہیں زیادہ ہے جو راستے کے بیچ میں ایک شاخ مسلمانوں کواذیت دے رہی تھی۔ جو لوگ مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے تدبیریں اور منصوبہ بندیاں کریں گے، اس کے لیے جدوجہد کریں گے،وہ اس شخص سے بدرجہا زیادہ ثواب کے مستحق ہیں جس نے راستے کے بیچ میں سے درخت کی شاخ کاٹ کر راستہ صاف کر دیا تھا۔ جس طرح ایذا سے بچانے والے جنت کے مستحق ہیں، اسی طرح ایذا دینے والے دوزخ کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُھْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًاo (احزاب۳۳:۵۸) ’’وہ لوگ جو مومن مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی جرم کے ایذا دیتے ہیں تو  انھوں نے بہتان باندھا اور ایسا گناہ کیا جو واضح ہے‘‘۔ جھوٹا الزام لگاکر ذہنی اور جسمانی ایذا دے کر  جسم کو ناکرہ بنا دینا یا قتل کر دینا یا روحانی اذیت دینا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، اسلامی اقدار و شعائر قرآن، سنت رسولؐ، مساجد، اہلِ ایمان کی توہین و تحقیر کرنا، دنیا میں وبال اور آخرت میں دوزخ کی آگ کا موجب ہیں۔

o

حضرت عائشہ سے روایت ہے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ دونوں ہاتھ اُٹھا کر یہ دعا کر رہے ہیں: ’’اے اللہ! میں ایک بشر ہوں، اس لیے مجھے کسی مومن کو تکلیف دینے یا برا بھلا کہنے کی بنا پر سزا نہ دینا۔ (الادب المفرد للبخاری)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحابیؓ کو گلہ شکوہ نہ تھا، نہ آپؐ سے تکلیف پہنچی۔ وہ تو آپؐ کے عاشق صادق تھے، آپؐ کی ہر بات اور ہرادا پر فریفتہ تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ تعالیٰ کے فرمان اور گواہی کے مطابق ’عظیم اخلاق‘ کے مالک تھے۔ آپؐ اپنے صحابہ کے لیے نرم اور رحیم و شفیق تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’(اے پیغمبرؐ!) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگرکہیں تم تُندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔ ان کے قصور معاف کردو، ان کے حق میں دعاے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ رکھو‘‘۔ (اٰل عمرٰن۳:۱۵۹)

یقینا آگیا تمھارے پاس ایک رسول تم میں سے، اس پر گراںگزرتی ہے تمھاری تکلیف، وہ تمھارے نفع کے حریص ہیں اور مومنین کے لیے شفیق اور رحیم ہیں۔ (التوبہ۹:۱۴۸)

یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے صحابہ کرامؓ سے محبت و شفقت کی نشانی ہے اور ان کے حقوق کا اتنا خیال ہے کہ معصوم ہونے کے باوجود آپؐ نے یہ دعا کی، اس میں ہمارے لیے سبق ہے کہ اہلِ ایمان کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچانے سے پوری طرح پرہیز کرو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لیے نمونہ بنائیں خصوصاً بیوی، بچوں، عزیز و اقارب اور ملے جلنے والے دوستوں کے آرام و راحت کا پوری طرح خیال رکھیں، ان کے لیے رحیم و شفیق بنیں اور کوئی کمزوری سرزد ہوجائے تو معاف کردیں اور معاف کرانے کا موقع نہ مل سکے تو ان کے لیے جن کو تکلیف دی ہو، دعائیں کریں، تاکہ دعائیں اس تکلیف کا عوض   بن جائیں۔ دنیاوی قصاص اور معانی آخرت کی سزا کے مقابلے میں آسان ہے۔

o

حضرت عصمۃؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب عمل سُبْحَۃُ الْحَدِیْثِ ہے، اور سب سے ناپسندیدہ عمل ہے ’تحریف‘۔ ہم نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! سُبْحَۃُ الْحَدِیْثِ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: لوگ باتیں کر رہے ہوں اور آدمی تسبیح کررہا ہو۔ ہم نے عرض کیا: تحریف کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: لوگ اچھی حالت میں ہوں، پھر پڑوسی اور دوست کوئی چیز مانگے تو جواب میں کہیں ہم بری حالت میں ہیں۔ (الترغیب والترھیب)

سُبْحَۃُ الْحَدِیْثِ کا معنی ہے: باتوں کے وقت تسبیح اور تحریف کا معنی ہے ’تبدیل کرنا‘۔ بازاروں اور غفلت کی جگہوں میں لوگ گپ شپ لگاتے ہیں ایسے میں ایک آدمی اللہ کو یاد رکھے، دل اور زبان سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرے تو یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے، تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے۔ جب آدمی فارغ ہو، کوئی مصروفیت نہ ہو تو زبان کو اللہ کے ذکر میں استعمال کرسکتا ہے، اُونچی آواز سے نہیں بلکہ رازداری سے ذکر کرے، لوگ آپس میں غیرضروری یا ضروری باتیں کرتے ہوں تو یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ’لو‘ لگائے، اس سے باتیں کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شان تھی کہ آپ ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے، اہلِ ایمان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرنا چاہیے، یہ تو ذکرِ قلبی اور ذکرِ لسانی ہے، لیکن یہ اس وقت معتبر ہوگا کہ انسان عملاً اللہ تعالیٰ کا مطیع فرمان ہو، نافرمانی کرتے ہوئے، ذکر کرنا تو اللہ کا ذکر نہیں بلکہ اللہ کے ساتھ ’استہزا‘ ہے۔    دکان دارسودا فروخت کرتے وقت دھوکا نہ دے، غلط بیانی سے کام لے، جج فیصلہ دیتے وقت قرآن وسنت کے خلاف فیصلہ دے، حکمران اللہ تعالیٰ کے حکموں کو پامال کرے اور ہاتھ میں تسبیح بھی رکھے اور اس پر سبحان اللہ اور الحمدللہ کا ورد کردے تو یہ ورد اس کے منہ پر دے مارا جائے گا۔ آج کل اس طرح کا ذکر عام ہے۔ لوگوں نے اسے ایک مشغلہ تو بنایا ہے لیکن اس کے تقاضوں کو نظرانداز کیے ہوتے ہیں۔ یہ صورت غفلت سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کون سا شخص آپؐ کی شفاعت کی زیادہ سعادت حاصل کرے گا؟ آپؐ نے فرمایا: ابوہریرہ! میرا گمان تھا کہ یہ بات مجھ سے کوئی آدمی تجھ سے پہلے نہیں پوچھے گا، اس لیے کہ مجھے پتا ہے کہ تجھے میری احادیث کو حاصل کرنے کا حرص ہے، تمام لوگوں سے زیادہ سعادت مند میری شفاعت کا وہ شص ہے جس نے دل کے اخلاص سے لا الٰہ الا اللہ کہا ہو۔ طبرانی میں زید بن اسلح سے مرفوع روایت ہے کہ آپؐ سے پوچھا کیا: لا الٰہ الا اللہ اخلاص سے کہنے کا کیا معنی ہے تو آپؐ نے فرمایا: لا الٰہ الا اللہ اسے حرام کاموں سے روک دے۔ (الترغیب والترہیب)

مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ دکھاوے کے اس ذکر کے بارے میں فرماتے ہیں:

برزنا تسبیح و در دل گاؤ و خر

ایں حیئیس تسبیح کے دار و اثر

زبان پر تسبیح اور دل میں گائے اور گدھے کی فکر ہو، اس طرح کی تسبیح کب اثر رکھتی ہے۔