ملایشیا میں آزادی کے بعد انتخابات کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری و ساری ہے۔ بارھویں قومی انتخابات کا انعقاد ۸مارچ ۲۰۰۸ء کو مکمل ہوا۔ اِن انتخابات کے حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کی تین جماعتوں کے اتحاد نے وفاقی ایوان کی ۲۲۲ میں سے ۸۱ نشستیں حاصل کرلی ہیں، جب کہ ۱۹۵۷ء سے برسرِاقتدار ’متحدہ مَلے قومی محاذ‘ ’امنو‘ (UMNO) دو تہائی نشستیں حاصل نہ کرسکا۔ گذشتہ ۵۰ برسوں میں اسے ’قومی محاذ‘ کے لیے بدترین نتائج تصور کیا جا رہا ہے۔ موجودہ وزیراعظم عبداللہ بداوی نے تسلیم کیا ہے کہ سرکاری اہل کاروں کی بدعنوانی، نسلی اقلیتوں کے عدمِ اطمینا ن اور کئی اہم معاملات پر غیرواضح موقف کی وجہ سے برسرِاقتدار جماعت کو دو ٹوک اکثریت حاصل نہ ہوسکی۔ ان کی نشستوں کی تعداد ۱۳۷ ہے۔
ملایشیا کثیرنسلی معاشرہ ہے۔ یہاں مَلے نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی تعداد ۶۰ فی صد، چینی النسل باشندوں کی تعداد ۲۵ فی صد اور ہندی النسل شہریوں کی تعداد ۱۰ فی صد ہے، جب کہ بقیہ تعداد دیگر قوموں سے تعلق رکھتی ہے۔ ملایشیا میں جس قسم کی قومی یگانگت، معاشی استحکام اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے اِس کی مثال کسی اور ملک میں ملنا مشکل ہے۔
’امنو‘ کے اقتدار کو دھچکا تین جماعتی اتحاد نے لگایا۔ ’پاس‘ (PAS) ملایشیا کی معروف اسلامی تحریک ہے۔ یہ ۱۹۵۶ء میں وجود میں آئی۔ اس کے سربراہ عبدالہادی آوانگ ہیں، جو سابقہ پارلیمان میں منتخب رُکن رہے۔ ’پاس‘ صوبہ کلنتان میں پانچویں بار حکومت بنائے گی، اس کے سربراہ عالم دین نِک عبدالعزیز ہیں۔ ’پاس‘ جمہوری عمل پارٹی اور عوامی انصاف پارٹی نے مل کر اتحاد قائم کیا۔ ملایشیا کی ۱۳ ریاستوں میں سے پانچ ریاستوں میں اب حزبِ اختلاف کی حکومت قائم ہوگی۔ اسلامی پارٹی کی ۲۰۰۴ء کے انتخابات میں سات سیٹیں تھیں، اب یہ ۲۴ ہوچکی ہیں۔ عوامی انصاف پارٹی کی گذشتہ انتخابات میں صرف ایک سیٹ تھی، اب ۳۱ ہوچکی ہیں، جب کہ جمہوری عمل پارٹی نے اس بار ۲۶ نشستیں حاصل کی ہیں۔ اِن تینوں جماعتوں کو اکٹھا کرنے اور اکٹھا رکھنے میں ڈاکٹر انور ابراہیم کا اہم کردار ہے جو ملایشیا کے وزیراعظم مہاتیرمحمد اور بعدازاں عبداللہ بداوی کے جبروناانصافی کا شکار رہے اور طویل عرصہ جیل میں گزار چکے ہیں۔
اسلامی پارٹی ملایشیا ’پاس‘ کے امیدواروں نے انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم عبداللہ بداوی کے اُن وعدوں کا بار بار تذکرہ کیا جو ۲۰۰۴ء کے انتخابات میں غیرمعمولی کامیابی کے بعد اُنھوں نے قوم سے کیے تھے۔ ان کا وعدہ تھا کہ قانون ساز ادارے اور سرکاری اداروں میں اہم تبدیلیاں لائی جائیں گی، تمام نسلی گروہوں سے انصاف کیا جائے گا، نجی شعبے کو آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جائے گا، عرصۂ دراز سے مالی بدعنوانی کے جو مقدمات تاحال فیصلہ طلب ہیں، اُن کا فیصلہ کیا جائے گا، اقتدار اور حکومت کا ناجائز استعمال نہ ہوگا، سرکاری معاملات اور تجارتی امور شفاف ہوں گے اور احتساب کیا جائے گا۔ بداوی کے اعلانات، اعلانات ہی رہے اور بدعنوانی کا گراف بڑھتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وزیراعظم کے اپنے قریبی عزیزوں اور وزرا کے بدعنوانی کے اسیکنڈل زبان زدعام ہوئے، مہنگائی سابقہ ریکارڈ توڑ گئی اور غیرملکی کمپنیوں نے سرمایہ نکالنا شروع کردیا لیکن کسی کو قرارواقعی سزا نہیں ملی۔
’پاس‘ نے یہ واضح کیا کہ لاتعداد ملیشیائی باشندے خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، جب کہ اشیاے صرف کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور اس کے ساتھ ساتھ جرائم کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بداوی کی حکومت نے ایک ملیشیائی خلاباز کو روسی اسپیس کرافٹ میں کروڑوں ڈالر کے خرچ پر بطور سیاح بھیجا اور اس کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ ایک ایسا ریکارڈ توڑ دیا جائے جوکہ پہلے ہی ملیشیا کے پاس تھا۔ اس کے مقابلے میں کلنتان اور ترنگانو کی غریب ریاستوں کو بہت سے وسائل اور حکومتی گرانٹ صرف اس لیے نہیں دی گئی کہ ان صوبوں کے عوام اسلامی پارٹی ملایشیا کے امیدواروں کو کامیاب کراتے ہیں (کلنتان میں حالیہ انتخابات میں ریاست کی ۵۷ میں سے ۴۰ نشستیں ’پاس‘ نے حاصل کیں)۔ بداوی بھی ’روشن خیال اسلام‘ کے علَم بردار ہیں۔
پاس نے راے دہندگان پر واضح کردیا کہ بداوی کی حکومت اہم ثقافتی، سیاسی، اداراتی اور ساختیاتی (structural) مسائل حل کرنے میں ناکام رہی۔ چند مندروں کو مسمار کرنے، گرجاگھروں کی تعمیر کی اجازت نہ دینے اور کئی مقامات سے ’انجیل‘ اٹھائے جانے سے اُن شہریوں کے حقوق مجروح ہوئے ہیں جو اسی سرزمین کے بیٹے ہیں اور اُن کا جینا مرنا اِسی سرزمین سے وابستہ ہے۔ کئی ایسے افسوس ناک واقعات ہوئے کہ جہاں وزیراعظم بداوی اور اُن کی کابینہ کے لوگوں کو آگے بڑھ کر غلط اقدام کی مذمت کرنا چاہیے تھی مگر اُنھوں نے خاموشی اختیار کیے رکھی، اور وزیراعظم یہ سمجھتے رہے کہ ’’میں تمام ملیشیائی باشندوں کا وزیراعظم ہوں‘‘ کا اعلان کافی ہوگا۔ حالیہ انتخابات میں اُنھوں نے مَلے راے دہندگان پر مکمل توجہ دی لیکن نتائج حسب توقع برآمد نہ ہوئے۔
متحدہ حزبِ اختلاف نے وزیراعظم بداوی کی اُس تصویر کو انتخابی مہم میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا، جو ’امنو‘ کے اجلاس سے لی گئی تھی جس میں وزیراعظم گہری نیند سو رہے تھے، اور تصویر دیکھنے والے کو یہ احساس ہوتا کہ جیسے وزیراعظم خراٹے لے رہے ہوں۔ سہ جماعتی اتحاد نے اس بات کو اُجاگر کیا کہ نہ صرف ملک کا وزیراعظم سو رہا ہے، بلکہ ساری انتظامیہ کی یہی صورت حال ہے اور اگر ملک کی کشتی کو سوئے ہوئے ڈرائیور سے بچانا ہے تو اس کے لیے متبادل قیادت کو موقع فراہم کرنا ہوگا۔ اِس کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوئے۔
’پاس‘ اور سہ جماعتی اتحاد کی اس بھرپور مہم کی وجہ سے ’امنو‘ کے ۳۰ فی صد چینی النسل ووٹر، ۳۰ فی صد ملے ووٹر اور ۵ فی صد ہندو ووٹروں نے اپنی رضامندی سے حزبِ اختلاف کو ووٹ دیا۔ اُن کی راے بنی کہ ’امنو‘ آیندہ دور میں اُن کے حقوق کی کماحقہٗ پاسبانی نہیں کرسکتی۔ ۰۷-۲۰۰۶ء کے برسوں میں وکلا نے مظاہرے کیے کہ عدالتی نظام میں اصلاح کی جائے، عوام الناس نے مظاہرے کیے کہ انتخابات کو شفاف بنایا جائے، اور مذہبی اقلیتوں نے مطالبے کیے کہ اُن کے مذہبی حقوق کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔ اِن کا جواب بداوی انتظامیہ نے سول سوسائٹی کے مظاہرین پر لاٹھی چارج، عوامی سیمی ناروں کے لیے سرکاری اجازت نہ دینے، کتابوں پر پابندی عائد کرنے اور ذرائع ابلاغ کی آزادی کو محدود کرنے کی صورت میں دیا، اور انورابراہیم کے ساتھ جو سلوک روا رکھا وہ تو سب پر عیاں ہے۔
انتخابی نتائج اس قدر غیرمتوقع تھے کہ وزیراعظم عبداللہ احمد بداوی نے اگلے ہی روز دستوری شہنشاہ میزان زین العابدین اور درجنوں حکومتی عہدے داران کی موجودگی میں وزیراعظم کا حلف اُٹھا لیا، اُن کو یقین ہوگیا تھا کہ اس میں تاخیر کی گئی تو اُن کے استعفے کا مطالبہ قوت پکڑ سکتا ہے۔ موجودہ انتخابات کے نتیجے میں جمہوری عمل پارٹی، انصاف پارٹی اور پاس کلنتان، قدح، پینانگ، پراک اور سیلانگور میں حکومتیں بنائیں گی۔ حزبِ اختلاف نے ۳۷ فی صد سیٹیں اور ۴۷ فی صد عوامی ووٹ حاصل کیے ہیں۔
ان انتخابات میں ڈاکٹر انور ابراہیم کا کردار بھی اہم تھا۔ ان کی کوششوں سے چینی النسل باشندوں کی جمہوری عمل پارٹی اور اسلامی نظام کے نفاذ کی علَم بردار ’پاس‘ ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ۳۷ سال پرانی ’نئی معاشی پالیسی‘ کو ختم کیا جائے جس کے ذریعے ۶۰فی صد ملے باشندوں کو ملازمت، کاروبار، تعلیم، ٹھیکوں اور دیگر معاملات میں فوقیت دی گئی ہے۔ اس نکتے نے چینی النسل باشندوں کی اکثریت کو حزبِ اختلاف کے لیے ووٹ ڈالنے پر آمادہ کیا۔ انھوں نے عوام پر یہ بھی واضح کیا کہ جب میں وزیرخزانہ اور نائب وزیراعظم تھا تو میں نے اشیا کی قیمتیں کسی قیمت پر بڑھنے نہیں دی تھیں، جب کہ مہاتیر اور اب بداوی نے عالمی دبائوکو تسلیم کرکے عوام کے لیے بے شمار مسائل کھڑے کردیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مہاتیر نے مجھے جیل میں ڈالے رکھا لیکن میں نے اپنے وطن کے لیے کسی قسم کے دبائو کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ آج آپ لوگ مل کر نئے ملایشیا کی تعمیر کے لیے اس اتحاد کو تقویت پہنچائیں۔
اسلامی پارٹی کے سربراہ عبدالہادی آوانگ نے ملایشیا کے عوام کا شکریہ ادا کیا ہے کہ اُنھوں نے سہ جماعتی اتحاد کو کامیابی سے ہم کنار کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ہم اسلامی نظامِ قانون کی بالادستی اور عوام الناس کی خوش حالی میں یقین رکھتے ہیں، اور ہم مثالی طرزِ حکومت متعارف کرائیں گے۔ ہمارے دروازے عوام کے لیے کھلے ہیں اور ان شاء اللہ اگلے قومی انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کریں گے ___آنے والا وقت ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ سہ جماعتی اتحاد اس کامیابی کے نتیجے میں نئے ملایشیا کی تعمیر کے نعرے کو کس حد تک حقیقت کا رنگ دے پاتا ہے۔