اُمت میں اختلاف راے صحت مندی اور تندرستی کی علامت ہے نہ کہ اختلاف اور انتشار کی۔ہر شخص کی اپنی راے ہوتی ہے جس کے اظہار کی اسے آزادی حاصل ہے مگر اختلاف راے رکھنے والے اکثر لوگوں کو نہیں معلوم کہ اسلام نے اس کے لیے کچھ ضابطے مقرر کیے ہیں۔ ان ضابطوں کی پاس داری نہ کرنے کی وجہ سے بعض افراد تعصب اور منافرت میںمبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ دائرہ اس قدر پھیل گیا کہ امت کے افراد اور جماعتیں اختلاف راے کی وجہ سے گروہوں میں بٹ گئیں۔اب یہ بیماری گھن کی طرح جسدِ ملّی کو اندر سے کھوکھلا کررہی ہے۔
کائنات کی تخلیق میں اختلاف اور تنوع اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔تنوع اور اختلاف کے ساتھ کمال ضابطے کا توازن اللہ تعالیٰ کی حکمت ودانائی کی شہادت دے رہا ہے۔یہ رات اور دن کا باقاعدگی سے آنااس بات پر گواہ ہے کہ زمین کو آباد کرنے کے لیے یہ نظم کمال درجۂ دانائی کے ساتھ قائم کیا گیا ہے۔اس زمین پر وہ خطے بھی موجود ہیں جہاں ۲۴گھنٹے کے اندر دن اور رات کا الٹ پھیر ہوتا ہے اور وہ خطے بھی ہیں جہاں بہت طویل دن اور بہت طویل راتیں ہوتی ہیں ۔کائنات کی ہر چیز میں تنوع اور اختلاف ہے۔ موسموں کا تغیر و تبدل،پہاڑ، چاند، تارے اور سیارے ، اور زمین سے اُگنے والی چیزوں میں کس قدر اختلاف ہے۔اس تنوع کے بارے میں سورۂ انعام میں ارشاد ہوا’’وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان اور نخلستان پیدا کیے، کھیتیاں اُگائیں جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں، زیتون اور انار کے درخت پیدا کیے جن کے پھل صورت میں مشابہ اور مزے میں مختلف ہوتے ہیں‘‘ (الانعام ۶:۱۴۱)۔حد تو یہ ہے کہ ایک ہی زمین سے اُگنے اور ایک ہی پانی سے سیراب ہونے والے پھلوں کے مزے جدا جدا ہیں۔ارشاد ربانی ہے:’’اور دیکھو، زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں۔انگور کے باغ ہیں،کھیتیاں ہیں، کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دہرے ۔سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنادیتے ہیں اور کسی کو کم تر۔ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں‘‘(الرعد۱۳:۴)۔ ساری زمین کو اس نے یکساں بناکر نہیں رکھ دیا، بلکہ اس میں بے شمار خطے پیدا کیے جو متصل ہونے کے باوجود شکل میں ، رنگ میں ، خاصیتوں میں ، قوتوں اور صلاحیتوں میں ، پیداوار اور کیمیاوی یا معدنی خزانوں میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ان مختلف خطوں کی پیدایش اور ان کے اندر طرح طرح کے اختلافات کی موجودگی اپنے اندر حکمتیں اور مصلحتیں رکھتی ہے جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔
اس تنوع اور اختلاف پر غور کرنے والا کبھی یہ دیکھ کر پریشان نہ ہوگا کہ انسانی طبائع، میلانات اور مزاجوں میں اتنا اختلاف کیوںپایا جاتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب انسانوں کو یکساں بناسکتا تھا مگر جس حکمت پر اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے، وہ یکسانیت کی نہیں بلکہ تنوع اور رنگارنگی کی متقاضی ہے ۔سب کو یکساں بنادینے کے بعد تو یہ سارا ہنگامۂ وجود ہی بے معنی ہوکر رہ جاتا۔ کائنات کی تخلیق میں جب اختلاف اور تنوع ہے توپھر اس کائنات کی اہم ترین مخلوق کو اس اختلاف سے مبرا سمجھنا دانش مندی نہیں۔جہاں دو انسان رہتے ہیں وہاں ان کے درمیان اختلاف کا پایا جانا فطری امر ہے۔ارشاد ربانی ہے’’بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بناسکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے اور بے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے۔اسی (آزادیِ انتخاب واختیار اور امتحان) کے لیے ہی تو اس نے انھیں پیدا کیا تھا‘‘(ھود ۱۱:۱۱۸)۔ معلوم ہوا کہ آزادیِ انتخاب اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور ہر آدمی کو مختلف راے رکھنے کا حق ہے مگر یہ اختلاف اگر ضابطوں سے عاری ہوجائے تو اس سے تلخیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اختلاف کی مذمت بھی کی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ابتداء ً سارے انسان ایک ہی امت تھے،بعد میں انھوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنالیے اور اگر تیرے رب کی طرف سے پہلے ہی ایک بات طے نہ کرلی گئی ہوتی تو جس چیز میں وہ باہم اختلاف کر رہے ہیں اس کا فیصلہ کردیا جاتا‘‘(یونس۱۰:۱۹)۔ ایک اور جگہ پر اختلاف کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا گیا:’’اور ان کے ساتھ کتاب برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے تھے، ان کا فیصلہ کرے___(اور ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدامیں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا،نہیں)اختلاف ان لوگوں نے کیا، جنھیں حق کا علم دیا چکا تھا۔انھوں نے روشن ہدایات پالینے کے بعد محض اس لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے‘‘(البقرہ۲:۲۱۳)۔ یہاں اختلاف کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی کرنا چاہتے تھے جو کہ مذموم فعل ہے۔ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کی وجہ سے اختلاف کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ عذاب عظیم سے خبردار کرتا ہے:’’کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلاہوئے۔ جنھوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزاپائیں گے، جب کہ کچھ لوگ سرخ رُو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہوگا۔ جن کا منہ کالا ہوگا (ان سے کہا جائے گا کہ) نعمتِایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ رویہ اختیار کیا؟‘‘(اٰل عمرٰن۳:۱۰۵-۱۰۶)۔ ان آیات پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس اختلاف کی مذمت کی ہے جو حق کو باطل کا لبادہ پہنائے یا آدمی پر حق واضح ہوجائے پھر بھی وہ باطل ہی پر اڑا رہے۔
اختلاف راے رکھنے کی تربیت خود رسول اکرمؐ نے صحابہ کرام ؓ کو دی تھی۔اگرچہ آپؐ کا ہرعمل اللہ تعالیٰ کی براہ راست رہنمائی میں ہوتا تھا مگر اس کے باوجود رسول اکرمؐ صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کرتے تھے۔کئی معاملات میں اپنی راے کو چھوڑ کو صحابہ کرام ؓ کی راے پر عمل فرمایا۔صحابہؓ کی تربیت اس نہج پر ہوئی تھی کہ ان میں سے ہر ایک اپنے انداز سے چیزوں کو دیکھے اور نتائج اخذ کرے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور تفرقے میں نہ پڑیں۔ارشاد ربانی ہے: ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دل جوڑدیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۱۰۳)۔ اختلاف راے رکھنا فطری اور طبعی امر ہے مگر اختلاف راے رکھنے کی وجہ سے تفرقے میں پڑنا مذموم قرار دیا گیا ہے۔آیت مبارکہ میں اسی طرف نشان دہی کی گئی ہے۔ اختلاف راے رکھنا اور تفرقے میں پڑجانا، دو الگ چیزیں ہیں۔
اس آیت کی روشنی میں اگر ہم مسلم امت کا ماضی قریب اور حال دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ امت کے افراد مختلف مکاتب فکر رکھنے کے وجہ سے تفرقے میں پڑگئے ہیں، حالانکہ مختلف مکاتب فکرکاوجود فی نفسہٖ معیوب نہیں بلکہ یہ اسلام میں تنوع ہے۔اسلام قیامت تک کے لیے باقی رہنے والا دین ہے جس میں فروعی معاملات میں اختلاف راے رکھنا معیوب نہیں، بلکہ یہ اسلام ہی کا خاصہ ہے کہ اس میں اتنی لچک ہے کہ یہ ہر زمانے اور ہر قسم کی سوچ وفکر رکھنے والے لوگوں کے لیے یکساں طور پر قابل عمل ہے۔اسلام کے مختلف مکاتب فکر اس بات کی نشانی ہیں کہ ہمارا دین لچک دار ہے کہ اس کے ماننے والے فروعی مسائل میں اختلاف راے رکھ سکتے ہیں۔حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا معروف قول ہے:’’فروعی معاملات میں اصحابِ رسولؐ کا اختلاف ہمارے لیے باعث رحمت ہے کیونکہ اگر وہ ان فروعی معاملات میں اختلاف نہ کرتے تو مسلمانوں کے لیے آسانیاں پیدا نہ ہوتیں‘‘(فیض القدیر)۔ ایک اور مقام میں ان کا یہ قول بھی معروف ہے کہ’’یہ امت کے لیے رحمت ہے کہ اصحابِ رسولؐ نے فروعی معاملات میں اختلاف کیا کیونکہ اگر وہ ان معاملات میں اختلاف نہ کرتے اور بعد میں آنے والے لوگ اختلاف کرتے تو اختلاف رکھنے والا گمراہ سمجھا جاتا۔ مگر یہ اللہ کی رحمت ہے کہ انھوں نے اختلاف راے رکھا کہ بعد میں آنے والے لوگ صحابہ کرامؓ میں کے مختلف اقوال پر عمل کرسکیں۔ اس میں ان کے لیے آسانی پیدا ہوئی‘‘۔(الاختلاف الفقہی مفخرۃ لاعیب، ڈاکٹر کمال المصری)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام تورات لینے گئے تو پیچھے بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی ۔جب وہ واپس آئے تو ہارون علیہ السلام سے پوچھا:’’تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمھارا ہاتھ پکڑا تھا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی؟‘‘ ہارون ؑ نے جواب دیا:’’اے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آکر کہے گا: تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا‘‘(طٰہٰ ۲۰:۹۲-۹۴)۔ حضرت ہارون علیہ السلام کے جواب پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے قوم کو بچھڑے کی پوجا سے منع ضرور کیا ہوگا مگر ان کی اس گمراہی پر وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے کہ کہیں قوم میں پھوٹ نہ پڑجائے۔ حضرت ہارون ؑ کے اس موقف کو حضرت موسی علیہ السلام نے بھی تسلیم کیا۔معلوم ہوا کہ مختلف مکاتب فکر کے لوگ اپنی راے پر اس قدر اصرار نہ کریں جس کے باعث قوم میں پھوٹ پڑجائے۔
اختلاف راے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امت کے علما اور صلحا خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو، ان سب کادین کے بنیادی اور اساسی امور میں اتفاق ہے ۔وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول اکرمؐ کی رسالت پر اختلاف نہیں رکھتے۔نماز ، روزہ، حج ، زکوٰۃ اور دیگر فرائض میں ان کا اختلاف نہیں۔جو چیزیں قرآن مجید اور سنت طیبہ میں حرام ہیں، جیسے سور کا گوشت، شراب ،مردار کا کھانا ودیگر منہیات، ان سب پر علماے امت کا اتفاق ہے خواہ وہ سنّی مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں یا اہل تشیع ہوں، البتہ سنی اور شیعہ، نیز سنیوں کے مختلف مکاتب فکر کا اختلاف ان امور میں ہے جو دین کی اساسی بنیادیں نہیں بلکہ فروعی معاملات ہیں۔ ان فروعی معاملات میں اختلاف کرنے کے باوجود علماے امت کا کیا رویہ تھا؟کیا وہ اپنے موقف پر اس قدر اصرار کرتے تھے کہ اُمت میں پھوٹ پڑجائے اور لوگ فرقوں میں بٹ جائیں؟ علماے امت کی روشن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اصحابِ مکاتب ِفقہ کے علاوہ علماے اُمت میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا۔ان کی وسعت ظرفی کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں :
یہ بات ہمیں معلوم ہوئی کہ اختلاف راے انسانی فطرت ہے ۔ایک ہی قالب میں تمام انسان ڈھل نہیں سکتے، البتہ وہ اختلاف جو تفرقے کا باعث بنے، وہ مذموم اور ممنوع ہے۔ اختلافات کی وجہ سے تاریخ کے صفحات میں خون آلود کہانیاں بکھری ہوئی ہیں۔یہ تاریخ اب ماضی کا حصہ بن چکی ہے ۔ ماضی میں جھانکنے کا اب کوئی فائدہ نہیں رہا۔ہمارا حال اس قدر پریشان کن ہے کہ امت کو مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے۔ان چیلنجوں سے اگر نمٹنا ہے تو ماضی کی خونیں تاریخ کو بھلاکر نیا آغاز کرنا ضروری ہے۔ماضی میں پیش آنے والے واقعات اور اسباب اب ماضی کا حصہ ہیںجسے اب یاد کر نے اوردہرانے کی ضرورت نہیں۔ان میں کون حق پر تھا کون غلط، اس کا فیصلہ ہم نے اپنے ذمے کیوں لے لیا ہے ۔ان کے حساب کتاب کے ذمہ دار ہم نہیں ۔اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں جو ہر صاحب حق کو اس کا اجر دے گا ۔وہی نیتوں کے حال سے واقف ہے۔’’وہ کچھ لوگ تھے جو گزر گئے۔جو کچھ انھوں نے کمایا، وہ ان کے لیے ہے اور جو کچھ تم کماؤ گے، وہ تمھارے لیے ہے۔تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے‘‘ (البقرہ۲: ۱۳۴)۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ سے جب قرونِ اولیٰ کے دور فتن کے بارے میں پوچھا گیاتو انھوں نے جواب دیا: ’’ان لوگوں کے خون سے ہمارے ہاتھ پاک ہیں، ہم اپنی زبان کو کیوں آلودہ کریں‘‘۔ (مبادی التقریب بین المذاہب الاربعہ، ڈاکٹر یوسف القرضاوی)
ہر شخص کو آزادی حاصل ہے کہ وہ جس مکتب فکر سے چاہے رجوع کرے،جس کی چاہے تقلید کرے مگر یہ ضروری نہیں کہ وہی حق پر ہو اور باقی سب کو گمراہ قرار دے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’پس اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو، وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے‘‘ (النجم ۵۳: ۳۲)۔ خود کو برحق اور دوسرے کو گمراہ قرار دینے والا اُمت میں تفرقہ پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔اس عمل کی مذمت کی گئی ہے۔ تفرقہ بندی اور لسانی اور گروہی تعصب جاہلیت کے نعرے ہیں۔قرآن مجید میں اس کی صریح ممانعت ہے۔
ہجرت نبویؐ سے پہلے مدینہ منورہ میں اوس اور خزرج کے درمیان طویل جنگیں ہوئی تھیں۔ اسلام کی برکت سے وہ ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے۔اخوت اور مودت کا یہ ماحول یہودیوں کو کھٹکتا رہا، لہٰذا وہ ان کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگے۔مدینہ منورہ میں انصار کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے والا پہلا شخص یہودی تھا جس کا نام شاس بن قیس تھا جسے انصار کی اخوت اور محبت کھٹکتی رہی۔ اوس کے پاس جاکر انھیں خزرج کے بارے میں اکساتا اور شعر پڑھ کر انھیں ان کی خونی تاریخ یاد دلاتا۔اسی طرح خزرج کے پاس جاکر انھیں اوس کے بارے میں اکساتا یہاں تک دونوں گروہ اس کے بہکاوے میں آگئے اور پھر وہ موقع آیا جس میں اوس اور خزرج آمنے سامنے آگئے۔اوس کے لوگوں نے نعرہ بلند کیا: ’’اوس کے لوگو! اپنے قبیلے والے کی حمایت کرو‘‘ اور خزرج نے نعرہ لگایا:’’اے خزرجیو! اپنے قبیلے کے لوگوں کی مدد کرو‘‘۔ قریب تھا کہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے ساتھ بھڑجاتے مگرعین وقت پررسول اکرمؐ تشریف لائے اور دونوں گروہوں کی سخت سرزنش کرتے ہوئے فرمایا: ’’جاہلیت کے نعرے بلند کرتے ہو حالانکہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں‘‘۔ آپؐ نے انھیں قرآن مجید کی آیات سنائیں یہاں تک دونوں گروہ روپڑے اور ایک دوسرے سے معانقہ کیا ۔اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ آل عمران کی یہ آیات نازل فرمائیں:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اگر تم نے ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی تو یہ تمھیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیرلے جائیں گے۔ تمھارے لیے کفر کی طرف جانے کا اب کیا موقع باقی ہے، جب کہ تم کو اللہ کی آیات سنائی جارہی ہیں اور تمھارے درمیان اس کا رسولؐ موجود ہے؟جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہ راست پالے گا‘‘۔ (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۰-۱۰۱)
غور کیا جائے تو شاس بن قیس کسی نہ کسی صورت میں آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے جو امت کے افراد کے درمیان تفرقہ ڈالنے پر تلا ہوا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ امت تفرقہ میں پڑجائے تاکہ اندر سے کھوکھلی ہو اور اس پر حملہ کرنا آسان ہو، جب کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ ’’اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑونہیں، ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑجائے گی‘‘(الانفال۸:۴۶)۔ اسی طرح کی ہدایت رسول اکرمؐ سے ملتی ہے: آپس میں اختلاف نہ کرو کیونکہ تم سے پہلے امتوں کے اختلاف ہی نے انھیں ہلاک کیا (بخاری)۔ شاس بن قیس جیسے لوگ امت کو گروہوں میں بانٹنے پر تلے ہوئے ہیں۔کبھی ان کا نعرہ سنی شیعہ کا ہوتا ہے تو کبھی حنفی، مالکی کہتے ہیں۔کبھی مقلد اور غیر مقلد کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو کبھی دیوبندی اور بریلوی کی صدا لگاتے ہیں۔امت کے تمام مکاتب فکر کو چاہیے کہ وہ اس طرح کی گروہی عصبیتوں کو فروغ دینے والوں سے ہوشیار رہیں۔خاص طور پر موجودہ دور میں جس میں امت کے خلاف تمام دشمن طاقتیں متحد اور یکجا نظر آتی ہیں۔
یورپی ممالک ہمارے لیے مثال ہیں۔ آج یورپی ممالک آپس میں متحد ہیں، جب کہ ان کی خونی تاریخ کا فی طویل ہے۔یورپی ممالک نے ماضی کو بھلاکر متحد ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔کیا ایک امت سے تعلق رکھنے والے لوگ یکجا نہیں ہوسکتے۔ ایک ایسی امت جس کا رب ایک، رسول ایک، قرآن ایک اورکعبہ ایک ہے۔یہ امت کیوں ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی ہے۔یورپی ممالک میں کوئی قدر مشترک نہیں اس کے باوجود وہ متحد ہیں، جب کہ اُمت مسلمہ خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو، وہ کیوں متحد نہیں ہوسکتے حالانکہ ان کے درمیان کئی مشترکہ اقدارہیں۔یہ وہ وقت ہے جس میں امت کے افراد جو لاالہ الا اللہ کا اقرار کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اختلافات کے باوجود متحد ہوں کیونکہ وہ تاک میں بیٹھے دشمن سے علیحدہ علیحدہ مقابلہ نہیں کرسکتے۔
امت کے افراد کلمہ طیبہ کی بنیاد پر جمع ہوں ۔آج اُمت میں ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی جو روش چل پڑی ہے، وہ اتنہائی خطرناک ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جس نے کسی شخص کو کافر کہا تو کفر ان میں سے کسی ایک شخص کو لاحق ہوگا‘‘ (متفق علیہ)۔ گویا اگر کسی نے کسی کو کافر کہا اور وہ کافر نہ ہو تو کفر اسی کو لاحق ہوگا جس نے یہ کلمہ دوسرے کے لیے استعمال کیا ہو۔امام ابن تیمیہؒ کا ایک زریں قول ملاحظہ کریں:’’مسلمانوں کا ایک بات پر اتفاق ہے کہ وہ ایک دوسرے کی امامت میں نماز پڑھیں گے جس طرح صحابہ کرامؓ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے اور ان کے بعد اَئمہ اربعہ کا بھی اسی پر اتفاق رہا۔جو شخص اس اجماع امت کا انکار کرے تو وہ مبتدع، گمراہ اور کتاب وسنت کے علاوہ اجماع المسلمین کا مخالف ہے‘‘۔(الاختلاف بالتی ھی احسن، رجب ابوملیح)
حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سے ابن ماجہ میں منقول ہے۔آپ نے صلہ بن زفر سے کہا: ’’اسلام کی تعلیم عام ہوتی رہے گی یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جس میں لوگوں کو معلوم نہیں ہوگا کہ نماز، روزہ، صدقہ اور دیگر عبادات کیا ہیں،حتیٰ کہ قرآن مجید کی آیات تک لوگوں کو یاد نہیں رہیں گی۔پھر جو بچے ، بوڑھے اور خواتین ہوں گی، وہ کہیں گے: ہمارے باپ دادا’لاالہ الا اللہ‘ کہا کرتے تھے، لہٰذا ہم بھی اسی کلمے کا اقرار کرتے ہیں‘‘۔ اس پر صلہ بن زفر نے کہا: ’’محض لا الٰہ الااللہ کہنا ان کے کس کام کا، جب کہ انھیں نماز روزہ اور دیگر عبادات کا علم ہی نہیں‘‘یہ سن کر حضرت حذیفہ ؓنے ان سے منہ پھیر لیا۔بار بار دہرانے کے بعد حضرت حذیفہ ؓ نے جواب دیا’’یہ کلمہ انھیں آگ سے بچانے کے لیے کافی ہوگا‘‘(حاکم)۔ گویا اس کلمے کا اقرار انھیں جہنم کی آگ سے بچاسکتا ہے۔ اس سے ملتی جلتی صورت حال کا مشاہدہ سقوطِ اندلس کے بعد اور سوویت یونین کے دور میں دیکھا جاچکا ہے جب حکومت نے اسلام اور اس کے تمام شعائر پر پابندی لگادی تھی۔ وہاں کے لوگوں کو اتنا علم تھا کہ ہم مسلمان ہیں اور لاالہ الااللہ کا اقرار کرتے ہیں۔محض اس کلمے کی وجہ سے ان شاء اللہ وہ جہنم سے بچا لیے جائیں گے۔
ان باتوںسے معلو م ہوا کہ اسلام ایک وسیع الظرف دین ہے اور یہ وسعت ظرفی ہمیں اپنے اندر بھی پیدا کرنی چاہیے۔ اختلافات رکھنے کے باوجود ہمارے اندر بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو ہمیں متحد کرسکتی ہیں۔اس اتحاد کے بغیر ہم اپنے دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
علماے امت نے اختلاف رکھنے کے باوجود تعاون کرنے کا ایک زریں اصول وضع کیا جس کے الفاظ ہیں:’’اتفاق راے پر ایک دوسرے سے تعاون کریں اور اختلاف راے پر ایک دوسرے کی راے کا جواز تسلیم کریں‘‘۔ اس قاعدے و کلیے کو یوں بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے کہ ’’متفقہ مسائل میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور مختلف فیہ مسائل میں ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ کریں‘‘۔ ان قواعد کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے سے پہلے یہ معلوم کیا جائے کہ اختلاف آخر کیوں پیدا ہوتا ہے۔
اختلاف راے کی وجوھات
اختلاف راے کی کئی وجوہ ہیں۔
امام ابن تیمیہ ؒ کا کہنا ہے’’کوئی بھی امام اجتہادی مسائل میںرسول اکرمؐ کی کسی صریح حدیث سے عمداً اختلاف نہیںکرتا۔اختلاف میں وہ معذور ہوتا ہے جس کے بنیادی طور پر تین اسباب ہیں: ایک یہ کہ اس کا گمان ہوتا ہے کہ یہ حدیث رسول اکرمؐ نے نہیں فرمائی۔ دوم یہ کہ اس حدیث کا اس معاملے پر انطباق نہیں ہوتا، اور سوم یہ کہ اس کا خیال ہوتا ہے کہ حدیث میں بیان کیا جانے والا حکم منسوخ ہے‘‘(فتاویٰ ابن تیمیہ، ج ۲۰، ص ۲۳۲)۔ امام ابن تیمیہ ؒ کا ایک اور جگہ پر یہ قول بھی منقول ہے: ’’اسلام کا کوئی بھی مسئلہ جس میں علما کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا ہو مگر اس اختلاف کی وجہ سے تفرقہ،دشمنی اور منافرت پیدا نہ ہوئی ہو تو یہ مسئلہ اسلام کے عین مصلحت کے مطابق ہے، جب کہ جس مختلف فیہ مسئلے میں تفرقہ پیدا ہو،لوگوں کے درمیان دشمنی اور عداوت پیدا ہونے لگے تو جان لو کہ اس مختلف فیہ مسئلے کا دین سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ (الاختلاف بالتی ھی احسن، رجب ابوملیح)
ڈاکٹر یوسف القرضاوی اختلاف کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ممکن ہے کہ کسی مسئلے پر آپ کے پاس صریح حدیث موجود ہو مگر وہ حدیث میرے پاس نہ ہو۔ممکن ہے یہ حدیث آپ کے نزدیک صحیح ہو مگر میں اسے ضعیف سمجھتا ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ہی حدیث دونوں کے پاس ہو اور دونوں اس کی صحت پر متفق ہوں مگر اس حدیث کو آپ اپنے طور پر سمجھ رہے ہیں اور میں اپنے طور پر۔اس مسئلے میں اختلاف نصِ حدیث سے نہیں، بلکہ آپ کی راے سے ہوگا‘‘(مبادی التقریب بین المذاہب الاربعہ، ڈاکٹر یوسف القرضاوی)۔ اَئمہ کے درمیان اختلاف فطری اور طبعی ہے۔تمام لوگوں کو ایک قالب میں ڈھالنا ممکن نہیں۔امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد کہا کرتے تھے:’’علما کے درمیان آرا میں اختلاف وقت اور مصلحت کے مطابق ہے۔ان کا اختلاف دلیل اور برہان پر نہیں‘‘۔ اجتہادی مسائل میں اختلاف تفرقے کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔
اختلاف راے کے دیگر اسباب میں ایک سبب عامۃ الناس میں پایا جاتا ہے جس سے علماے حق مبرا ہیں، اور وہ یہ ہے کہ لوگ اپنے امام کی راے کو بالا اور دوسرے کو نیچا دکھانے پر تل جاتے ہیں۔اپنی راے کو حق ماننے پر عناد اور اصرارکرنے لگ جاتے ہیں۔ان کا مقصد حق کو ظاہر کرنا اور اس کی اتباع کرنا نہیں بلکہ اپنی راے کو دوسرے پر مسلط کرنا ہوتا ہے۔طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اختلافی مسائل کو علماے حق کی کتابوں سے تلاش کرکے اس کے جواز اور عدم جواز پر فیصلہ کرے ۔ایسا نہ ہو کہ عوام الناس کی راے سن کر وہ اپنافیصلہ قائم کرے۔
جس قاعدے و کلیے کا ذکر اوپر ہوچکا ہے کہ’’اتفاق راے پر ایک دوسرے سے تعاون کریں اور اختلاف راے پر ایک دوسرے کی راے کا جواز تسلیم کریں‘‘یا پھر ’’متفقہ مسائل میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور مختلف فیہ مسائل میں ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ کریں‘‘، اس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ امت کے مختلف مکاتب فکر کے درمیان بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن میں علما کے درمیان اتفاق ہے اور جن میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں۔
تمام مکاتب فکر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ وحدہٗ لاشریک ہے ۔اس کے اسماے حسنیٰ اور صفات علیا کو سب مانتے ہیں۔رسول اکرمؐ کی نبوت کا اقرار کرتے ہیں۔سب کا ایمان ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو کسی بھی تحریف اور تبدیلی سے پاک ہے۔تمام ارکان اسلام: نماز ،روزہ، حج اور زکوٰۃ پر سب کا اتفاق ہے خواہ وہ سنی مکاتب فکر ہوں یا شیعہ۔اس بات پر بھی امت کا اتفاق ہے کہ کتاب وسنت شریعت کا اصل الاصول ہے۔اسی سے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں۔کوئی بھی عالم اجتہاد کرسکتا ہے۔ اس میں اس سے غلطی بھی ہوسکتی ہے۔تمام امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس کی یکجہتی میں اس کی قوت اور تفرقے میں اس کی کمزور ی ہے۔اگر یہ بات ہے تو پھر جن باتوں میں اختلاف ہے ان پر مکالمہ کیا جاسکتا ہے اور جس بات میں اختلاف ختم نہ ہوسکے اس میں ایک دوسرے کی راے کے جواز کو تسلیم کریں۔ہم اختلاف راے کی وجہ سے ایک دوسرے پر الزام تراشی نہ کریں، ایک دوسرے کو گمراہ قرار نہ دیں،ایک دوسرے کو فاسق نہ کہیں۔ایک دوسرے کی راے کا احترام کریں اور متنازع مسائل کو نہ چھیڑیں۔ایک دوسرے کواس کا اپنا مسلک اختیار کرنے کی آزادی دیں۔ ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن رکھیں اور سوئِ ظن کی بنیاد پر پہلے ہی سے کسی کے بارے میں فیصلہ نہ کریں۔ اخوت اسلامی کے اسباب کو پروان چڑھائیں اور وسعت ظرفی کا مظاہرہ کریں۔ باہم تحمل اور برداشت کو فروغ دیں اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر جمع ہوں۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم باہم متحد ہو کر اپنے دشمن کا مقابلہ کریں ۔اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو سر پر منڈلا نے والا دشمن کسی بھی وقت ہم پر حملہ آور ہوکر ہماری ہوا اُکھاڑ سکتا ہے۔